21/9/21

عصر جدید میں طلبا میں اضطراب: مسائل اور حل - محمد اطہر حسین

 



عصر جدید میں طلبا کے سامنے چیلنجزکی بہتات ہے۔ ہر روز ان کے سامنے  نت نئے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ تعلیمی مسائل، اکتسابی مشکلات، روزگار سے متعلق مسائل وغیرہ۔ متذکرہ بالا سارے مسائل طالب علم کو ذہنی اذیت میں مبتلاکرتے ہیں  جس کا براہ راست اثر طلبا کی تعلیمی کارکردگی پر ہوتا ہے اور ان کی اکتسابی حصولیابیوں میں کمی  آنے لگتی ہے۔ اور یہ ساری مشکلات طلبا کے اندر بے چینی اور غیر سکونی کا ماحول پیدا کرتی ہیں اور ان کے ذہنی خلفشار کو ہوا دیتی ہیں۔ طلبا کی اسی بے چینی اور بے سکونی کو اصطلاح عام میں ــــ’اضطراب ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو در حقیقت تعلیمی، سیاسی، سماجی، گھریلو ماحول سے ممتزج ہوکر طلبا کو ذہنی اذیت کا مریض بنا دیتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی بہتر ترقی اور اس کا سنہرا مستقبل طلبا کے ہاتھوں میں ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی طلبا کا ملکی جدوجہد میں بڑاحصہ ہے او ر  زریں کردار ادا کیا ہے خواہ وہ سیاسی لڑائی ہو یا سماجی جدو جہد، معاشی تنگی کا حل ہو یا تعلیمی بیداری کا مسئلہ ہو۔ اور یہ صرف ہمارے ملک کی خاصیت نہیں بلکہ عالمی سطح پر مختلف ممالک کے طلبا و طالبات نے ملکی سرگرمیوں میں حصہ لے کر اس میں اپنی ذمے داریاں نبھائی ہیں۔ انیسویں صدی میں روس، جرمنی اور فرانس کے طلبا کا وہاں کی ملکی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ  ناقابل  ِفراموش ہے۔

دور حاضر میں تعلیمی ادارے اضطرابی عوامل سے خالی نہیں ہیں۔ ان میں نظم و ضبط کی کمی ہے۔ کہیں کہیں تعلیمی سہولیات کا  بھی فقدان ہے۔ اس سے طلبا کے اندر منفی رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ توڑ پھوڑ کرنا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، بسوں کو نذر ِآتش کرنا، اساتذہ کے ساتھ بدزبانی و بد تمیزی، بات بات پر احتجاج کرنا اور بھوک ہڑتال کرناجس سے تعلیمی ادارے کی ساکھ بدنام ہو۔ امتحان کا بائیکاٹ کرنا، ناجائز حقوق کا طلبگار ہونا وغیرہ۔ کوٹھاری کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ طلبا کے ذریعے اس طرح کے پر تشدد واقعات میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ اور  ان سارے واقعات کا ظہور اعلی تعلیمی اداروں میں زیادہ ہے۔ اور ہر بیتے دن کے ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں  اور اس طرح کے کاموں کو کرنے میں طلبا کا رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

اثرات: موجودہ دور میں طلبا میں پائے جانے والے ــ’اضطراب‘ کے  اثرات کے نتائج نہایت مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ طلبا کی تعلیمی و اکتسابی کارکردگی پوری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ ان کے اندر بد نظمی،  بے صبری، بد لحاظی، بے مروتی، بد گوئی، تشدد، نفرت کا رجحان لگاتار بڑھ رہا ہے  جس سے ملک کے سنہرے مستقبل اور ایک قابل رشک معاشرے کی تشکیل کی امیدوں کو شدید  دھچکا  پہنچا ہے۔      

طلبا میں بڑھتے اضطراب نے جہاں ایک طرف سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا اور سماج  میں ایک طرح کی نا امیدی اور تعلیمی اداروں کی منفی تصویر پیش کی وہیں دوسری طرف طالب علم اور معلم کے جذباتی اور  قابل تکریم  رشتے پر بھی کاری ضرب  لگائی ہے۔ اس اضطراب نے معلم و متعلم دونوں کے میٹھے رشتے میں بھی  زہر گھول دیا۔ اس رشتے کی مٹھاس باقی نہ رہی۔ طلبا کی بے جا  بد گوئیوں نے اس میں کڑواہٹ پیدا کردی۔ اس کے علاوہ سماجی، معاشی، سیاسی ماحول میں بھی اس  اضطراب کا  اثر براہِ راست دکھائی پڑتا ہے۔ 

عوامل:   طلبا میں بڑھتے اضطرابی ماحول کے پس پردہ  بے شمار وجوہات کی شمولیت ہے۔ اس طوفان کے لگاتار اضافے میں سماجی، معاشی، سیاسی و دیگر عوامل کا بھی دخل ہے، ان  کے اسباب کا تفصیل سے جائزہ لینا ناگزیر ہے۔

سماجی عوامل:سماج کی حیثیت ہمارے درمیان اس درخت کے مثل ہے جس کے  سایہ تلے ہماری نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ اسی  ماحول سے متاثرہوکر  بچوں کی نشو ونما اور ان کی تعلیم و تربیت کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کی بہتر تربیت سازی اور ان کے سنہرے مستقبل کے لیے سماج کا بہتر، منظم، تعلیم یافتہ بغض و حسد سے پاک ہونا  بے حد ضروری ہے۔ ایک ایسا معاشرہ، جہاں مظلوموں کو  ان کا حق دیا جاتا ہو، بچوں میں انسا نی اقدار پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر خیال سازی کرتا ہے۔ اور ان کے بہتر مستقبل کا ضامن بھی ہوتا ہے۔    

لیکن عصر جدید میں آپسی رنجش، بغض و حسد، کنبہ پروری، مظلوم کشی ہمارے سماج کے وہ عناصر ہیں جس سے طلبا لگاتار متاثر ہو رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں بدزبانی و بد لحاظی عام ہے۔ اور سماج کی یہ باتیں طلبا کے خیالات کا حصہ بن کر ان کے اعمال میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اور یہ ان کے ذہنی اضطراب میں اضافے کا باعث ہے۔         

معاشی عوامل:جن عوامل نے طلبا کے اضطراب میں اپنا اہم  کردار ادا کیا ہے ان میں معاشی عوامل کا  بڑا حصہ ہے۔ روزگار کی فکر اور بے روز گاری نے جہاں طلبا کے ذہنی اضطراب میں اضافہ کیا  وہیں ان کے تعلیمی رجحان میں کمی کا باعث بھی بنا۔ گھریلو معاشی حالات کی تنگی بھی طلبا کی ذہنی  روش کو بے سمت کر نے میں اہم کردار نبھا رہی ہے۔

مشکل منتقلی:  کسی نئے ماحول میں کسی بھی طالب علم کو خود کو سیٹ کرنے اور وہاں کی فضا سے خود کو ہم آہنگ کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کیونکہ سابقہ تعلیمی نظام سے ایک دوسرے  نظام میں خود کو منتقل کرنا اور وہاں کے رنگ میں خود کو رنگنا  بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ چیزیں طلبا کو تناو ٔ  کا شکار بنا دیتی ہیں۔ وہ خود میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔ وہ نئی چیزوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی مکمل شخصیت اس تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے وہ تعلیمی کارکردگی پر توجہ نہیں دے پاتے  اور ناہی ان کی اخلاقی و تعلیمی نشو ونما  ہوپاتی ہے۔ ایسے طلبہ اکثر اساتذہ کی نظروں سے بچے رہنا چاہتے ہیں  اور یہی تعلیمی و اخلاقی بحران ان کو غلط سمت دکھانے میں معاون ہوتے ہیں۔ اور فیصلے کے طور پر وہ غلط راستوں پر گامزن ہوجاتے ہیں۔

تناؤ:طلبا جب اپنا ماضی چھوڑ کر کسی بھی نئے ماحول میں آتے ہیں تو ان کی سابقہ زندگی ان پر پوری طرح حاوی ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پرانے ڈھرے پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ وہ نئے ماحول کے چیلنجز سے ناآشنا ہوتے ہیں یا آشنا ہوکر بھی تغافل برتتے ہیں۔ایسے میں نئی جگہ کے قوانین، طور طریقے، تدریسی حکمت عملیاں اور نصاب وغیرہ کا بوجھ دن بہ دن ان کو بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ ساری چیزیں اس کے ذہنی اشتعال کو ہو ا دیتی ہیں۔ ان کا یہ اندرونی اشتعال متواتر بڑھتا رہتا ہے اور بالآخر ذہنی اضطراب کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

غیر یقینی صورت حال: غیر یقینی صورت حال کسی سمت یا تحریک کے بغیر کسی اہم چیزکا احساس خاص طور پر جب طالب علم کے تمام دوستوں کو محسوس ہو کہ جیسے انہیں اپنی ہی پڑی ہے یقینی طور پر اضطراب کا باعث ہے۔ یہ بھی بات یقینی ہے کہ پریشانی انجانے میں پروان چڑھتی ہے۔ اور جب طلبا غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوتے ہیں تو یہ ان کے سر چڑھ کے بولتا ہے۔ انھیں معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کل کو ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ انھیں ملازمت ملے گی بھی یا نہیں۔ یوں ہی اگزامز کے دنوں میں وہ اپنی تیاریوں اور نتیجے کو لے کر بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ اور یہ یقینا ان کے ذہنی اضطراب میں بڑھوتری کا  باعث ہے۔

طریقۂ زندگی میں تبدیلی: ایک انسان پیدائش کے بعد جس ماحول میں رہ کر اپنی زندگی گذارتا ہے وہ اسی کا عادی ہوتا ہے۔ اس کے طور طریقوں کو اپنا لیتا ہے۔ اس کے آداب و تہذیب کے رنگ اس میں گھل جاتے ہیں۔ اس کا کھانا پینا، اٹھنابیٹھنا، سونا جاگنا، لکھنا پڑھنا اس کے طرز معاشرت کی گواہی دیتی ہیں۔ لیکن یہی طالب علم جب اپنے سماج کو چھوڑ کر ایک نئی دنیا میں پہنچتا ہے تو وہاں کا رنگ ڈھنگ الگ ہوتا ہے۔ وہاں کے طور طریقے بالکل نئے اور نرالے ہوتے ہیں۔ با قاعدگی سے نیند کا نظام الاوقات، صحت مند خوراک اور باقاعدگی سے ورزش میں افسردگی کی علامات کو کم کیا گیا ہے۔ لیکن کالج کی زندگی میں دیر رات تک بیدار رہنا اور کیفے کے کھانے کی وجہ سے صحت میں کمی اوراضطراب میں بڑھوتری  دونوں قسم کا نقصان ہوتا ہے۔

دیگر عوامل:بیان کردہ عوامل کے علاوہ طلبا میں نظم و ضبط کی کمی، اساتذہ اور طلبا کے آپسی رشتے کی کڑواہٹ، تعلیمی اداروں کا حد سے زیادہ خرچیلہ ہونا، بڑھتی ہوئی بے مروتی و بد لحاظی بھی اضطرابی ماحول کو مسلسل سازگار کر رہے ہیں۔  

عام طور پر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبا کے ساتھ معاشی زیادتیاں بھی ہوتی ہیں۔ اسٹاف تعاون نہیں کرتا ہے،بعض مواضعات میں کمیشن خوری بھی عروج پر ہے۔ تعلیمی نظام میں طلبا کی سہولیات کی طرف دھیان نہ دینا بھی ان کے ذہنی اضطراب کو ہوا دے  رہا ہے۔

اعلی تعلیمی اداروں میں بھی طلبا کے فلاح و بہبود کے لیے بنی کمیٹیاں اوریونین بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے ذہنی اضطراب کو فروغ دے رہے ہیں۔

حل:طلبا میں بڑھتا  اضطراب ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ اس کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حالانکہ مختلف تعلیمی کمیٹیوں اور کمیشنوں نے طلبا میں ذہنی بے چینی کو کم کرنے کے لیے بہت سی مفید سفارشات پیش کی ہیں۔     

ڈاکٹر رادھا کرشنن کمیشن کے مطابق اعلی تعلیمی اداروں میں طلبا کی صحت کا ہر حال میں خیال رکھا جانا چاہیے۔ اس کے لیے انھیں صحت مند غذا دی جائے اور وقتاً  فوقتاً ان کی صحت کی جانچ ہو۔ ساتھ ہی جسمانی تعلیم بھی دی جائے  تاکہ وہ ذہنی اذیتوں سے دوچار ہونے سے بچ سکیں۔

ان کی سفارشات میں طلبا یونین کی کارگزاری کو  تیز کر نے اور یونیورسٹی افسران کی بے جا مداخلت کو روکنے کی تجویز بھی شامل ہے۔     

کوٹھاری کمیشن کی سفارشات میں تعلیمی معیار میں قابل قدر اصلاح اور طلبا کو ہوسٹل  سہولت کی فراہمی پر زور  دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے طلبا کو صحیح سمت کی جانب رہنمائی  کی سفارش بھی کی ہے۔  

ڈاکٹر تری گونا سین کمیٹی نے اپنی سفارشات میں بہت سی اہم چیزوں کو شامل کیا ہے۔ مثلاً تعلیم کو روزگار سے جوڑنا، قابل اور ہنر مند اساتذہ کی تقرری، نظم و ضبط کی پابندی،وغیرہ۔ 

اس کے علاوہ  طلبا میں ذہنی اضطراب کو کم کرنے کے لیے سماج کو پاک صاف، منظم، تعلیم یافتہ بنانا بے حد ضروری ہے۔ معاشی تنگی کو کم کرنے  اور طلبا کے سروں سے ان کے تعلیمی خرچ کا بوجھ ہٹانا اضطراب کو کم کرنے کی جانب ایک شاندار قدم ثابت ہو سکتا ہے۔   

مزید برآں تعلیمی اداروں کی بدنظمیوں پر نکیل کسنا اور طلبا کی سہولیات سے لیس کرنا بھی اضطرابی ماحول کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

آج کے زمانے میںذہنی اذیت کے فروغ میں سب سے بڑا کردارایک تعلیم یافتہ شخص کی بے روزگاری کا ہے،  جس سے معاشی تنگی پید اہوتی ہے۔ اس سمت اقدامات کیے جانے کی فوری ضرورت ہے تا کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد طلبا مختلف  میدان میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کا مظاہرہ کر سکیں۔ اور ذہنی اضطراب پرقدغن لگایا جا سکے۔        

متذکرہ بالا نکات کے علاوہ والدین، معلم، اسکول انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کا کردار بھی طلبا میں اضطرابی ماحول کے خاتمے میں نا قابل فراموش ہے۔

والدین سے بہتر شاید ہی کوئی دوسرا شخص اولاد کو جانتا ہو۔ وہ اس کی تمام خوبیوں خامیوں سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ اس کے اندرونی  و بیرونی تمام طرح کی خاصیتوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ ایسے میں والدین طلبا کے اضطراب کو کم کرنے یا اس کو مکمل ختم کرنے کے بہترین محرک بن سکتے ہیں۔ گھر کے اضافی بوجھ اور مالی مسائل کا تذکرہ بچوں کے سامنے ان کے منفی خیالات کو ہوا دیتا ہے۔ بچوں کی بہتر نشوو نما بھی  ان کے ذہن سے منفی رجحانات کو ختم کر دیتی ہے۔

طلبا کی زندگی میں معلم کی حیثیت اس سایہ دار درخت کی مانند ہے جس کے سائے میں وہ اپنی تمام تھکان اور مصیبتوں سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔ وہ اس کے زیر سایہ اپنی زندگی گذارتا ہے اوراسی کا اثر قبول کرتا ہے۔ طلبا کے اضطراب میں کمی لانے کا کردار اس سے زیادہ بہتر انداز میں کوئی نہیں ادا کر سکتا۔ طلبا کے ساتھ ہمدردی، شفقت، محبت، رہنمائی کے ذریعے ان کو بہترین مستقبل کی امید دلاکران کو سنہرے راستوں کا مسافر بنا سکتا ہے۔ اور بلا شبہ ان اقدامات سے ان کے ذہنی اضطراب کو پھلنے پھولنے کا موقع نا مل سکے گا۔

یوں ہی اعلی تعلیمی اداروں میں انتظامیہ بھی اس موذی مرض کو بڑھنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ اندرون کالج ماحول کو خوش نما بنایا جائے۔ طلبا کے لیے سازگارمواقع فراہم کیے جائیں۔ ان کی ضروریات کاخیال رکھا جائے۔ ڈر کا ماحول ختم ہو۔ غیر یقینی صورت حال بھی انجام کو پہنچے۔

عصر حاضر میں طلبا کا اضطراب یہ ذی شعور اور ذی فہم لوگوں کے لیے اب ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ لہٰذا اس کے خاتمے کے لیے ذرائع ابلاغ نے اپنی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اب اخبارات کے ذریعے تحریریں شائع کی جا رہی ہیں۔  ٹی۔وی چینلوں پر بحث و مباحثے بھی جاری ہیں۔ ماہرین کے ذریعے طلبا کو کیریئر (Career)کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں جس سے ان کا ذہنی دباؤ کم ہو اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی یہ کوششیںاب نتیجوں میں تبدیل ہونے لگی ہیں۔

 

Dr. Md Athar Hussain

Asst Prof. Dept of Education and Training

Maulana Azad National Urdu University

Gachibowli

Hyderabad- 500032 (Telangana)

Mob.: 9849253580

 

 ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں