29/10/20

روزنامہ ’رہبردکن‘ سے ’رہنمائے دکن‘ کا 100 سالہ صحافتی سفر- مضمون نگار: شیخ عمران

 



آزاد ہندوستان میں حیدرآباد کی ایک مخصوص شناخت ہے۔ دکن کا یہ تاریخی شہر اپنی گنگا جمنی تہذیب اور اردو کے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہے۔ اس شہر کو تاریخ و تہذیب،علم و فن اور زبان و ادب کے معاملے میں ملک کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے جہاں اس شہر نے اردو کو کئی نامور شاعر، ادیب، محقق،  نقاد، مفکر دیے وہیں صحافت کے معاملے میں بھی اس شہر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ دور قدیم سے ہی صحافت کی جڑیں اس شہر سے پیوستہ رہی ہیں۔ حیدرآباد میں اردو صحافت کی تاریخ قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔حیدرآباد میں زبان و ادب کے فروغ کے لیے کہیں نہ کہیں صحافت کا بھی نمایاں کردار رہا ہے اگر ایسا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

اس شہر سے اردو کے کئی بڑے اخبارجاری ہوئے اور کچھ عرصہ بعد بند ہوگئے ان اخبارات میں آفتاب دکن، مشیردکن، دکن پنچ، سفیر دکن، نظامی، محبوب گزٹ، صحیفہ، معارف، افسر الاخبار، آصف الاخبار، ہزار داستان، آصفی، گلزار دکن وغیرہ شامل ہیںلیکن ان ہی میں ’رہبر دکن‘ ایک ایسا اخبار ہے جو آزادی ہند سے پہلے جاری ہوا اور آج بھی جاری ہے۔ جنوبی ہند کی اردو صحافت کے لیے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس اخبار نے اپنے 100 برس مکمل کرلیے ہیں۔ یہ حیدرآباد کا واحد اردو اخبار ہے جو اپنے 100 سال مکمل کرنے کے بعد بھی آج بڑی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔یہاں میں اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس روزنامہ کو دو ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور وہ ہے جب یہ روزنامہ ’رہبر دکن ‘ کے نام سے اگست 1921 میں منظر عام پرآیا اور کئی برس تک جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔ اس کا دوسرا دور ’رہنمائے دکن‘ (موجودہ نام) سے شروع ہوتا ہے جو جولائی 1949 میں جاری ہوا اور آج بھی اسی نام سے جاری ہے۔

رہنمائے دکن‘ حیدرآباد ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی اردو صحافت میں ایک بہترین اور معیار ی اخبار ثابت ہوا۔ رہنمائے دکن روایتی طرز کا اخبار ہے۔ اس اخبار کی خدمات کے پیش نظر اسے جنوبی ہندی اردو کا نمائندہ اخبار کہا جاسکتا ہے۔ادبی سرپرستی میں اس اخبار نے اپنا منفرد رول ادا کیا جو ناقابل فراموش ہے۔  بابائے دکنی محی الدین قادری زور،نصیر الدین ہاشمی، عبدالقادر سروری وغیرہ کی نایاب تحریریں اس روزنامے کا حصہ رہیں۔

 سید احمد محی الدین نے اپنی ادارت میں1 اگست 1921 میں افضل گنج حیدرآبادسے ایک روزنامہ جاری کیا جس کا نام ’رہبردکن‘ تھا۔ ’رہبر دکن‘ جن حالات میں جاری ہوا وہ حالات اردو اور صحافت دونوں کے لیے ناسازگار تھے، اخبار کا جاری ہونا بڑا مشکل کام تھا لیکن سید احمدمحی الدین نے اپنی بے باکانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اخبارکو جاری کیا جو آگے چل کر شہر حیدرآباد کا ایک عظیم اخبار ثابت ہوا۔

’’ رہبر دکن کا شمار جنوبی ہند کے اس دور کے تمام اردو روزناموں میں کثیر الاشاعت روزنامے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔اس اخبار کی اس دور میں تعداد اشاعت آٹھ دس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ’رہبر دکن ‘ کے سالنامے اور خاص نمبر عوام الناس میں اور بالخصوص ادبی حلقوں میں بہ نظر تحسین دیکھے جاتے تھے۔اس اخبار کے اداریوں نے سیاسی افراتفری کے زمانے میں عوام کی صحیح رہنمائی کی۔‘‘

 (حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات: ایک جائزہ،محمد اعجاز الدین حامد، ص  61)

رہبر دکن‘ نے حیدر آباد کی اردو صحافت کو جلا بخشی۔ سید احمد محی الدین نے مدیر کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ انھوںنے اس روزنامے میں کئی اضافے بھی کیے جو اس کی شہرت کا باعث بنے۔

1942 میں سید احمد محی الدین کا انتقال ہوگیا اور حامد محی الدین اس اخبار کے مدیر ہوئے۔صرف ایک سال تک وہ اس اخبار سے وابستہ رہے چونکہ ان کی تقرری حیدر آباد سول سروس میں ہوگئی۔ جس کی وجہ سے ان کو اخبار چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ سید محمود وحید الدین اس اخبار کے مدیر نامزد ہوئے۔

سید محمود وحید الدین نے اس اخبار کی ادارت کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔خاص بات یہ ہے کہ آزادی ہند کے وقت بھی سید محمود وحید الدین اس اخبار کے مدیر تھے۔ آزادی کے بعد جب ملک فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا تو حیدر آباد میں بھی اس کی گونج سنائی دی۔ بلکہ بڑی شدت سے سنائی دی چونکہ اس وقت تک حیدر آباد نظام شاہی کے تحت تھا۔ 1948 میںیہاں ’پولس ایکشن‘ ہوا، جسے ’رہبردکن ‘کے مدیر سید محمودوحید الدین نے ’ملٹری ایکشن‘ سے تعبیر کیا۔ ’رہبر دکن‘ ستمبر 1948 میں حیدرآباد کی سیاسی تبدیلی تک زندہ رہنے کے بعد بند ہوگیا۔

 اب ایک نئے نام سے اخبار کے لیے کسی معتبر شخص کی تلاش شروع ہوئی تو رہبر دکن کے ایک سابق رکن منظور حسن پر نظر گئی جو کہ رہبر دکن کے انتظامی امور کے ذمہ دار تھے اور نئے اخبار کی ادارت کے لیے بہت موزوں بھی تھے۔ لہٰذا اب پرانے اخبار کا نیا نام ’رہنمائے دکن ‘ رکھا گیا۔ جو جولائی 1949 کومنظر عام پر آیا۔مدیر کی حیثیت سے منظور حسن کا انتخاب عمل میں آیا۔ اخبار کے تمام انتظامی امور کی ذمے داری سید محمود نے سنبھالی۔ منظور حسن کی سبکدوشی کے بعد محمود صاحب نے اس کی ادارت کی ذمے داری سید لطیف الدین قادری (وقار الدین قادری کے بڑے بھائی) کے سپرد کی جو سن 1984 تک ’رہنمائے دکن ‘ سے وابستہ رہے۔ سید لطیف الدین قادری ایک اعلٰی درجے کے صحافی تھے انھوں نے ’رہنمائے دکن‘ کو مقبولیت عطا کرنے کی غرض سے کئی اہم کام انجام دیے۔ سید لطیف الدین قادری کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے بھائی سید وقار الدین نے ’رہنمائے دکن‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی۔سید وقار الدین کی ادارت میں اس اخبار کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔

وقارا لدین صاحب کی نگرانی میں ’رہنمائے دکن‘ کو ہمہ گیر شہرت حاصل ہوئی ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وقار الدین صاحب خود ایک اعلیٰ درجے کے صحافی ہیں گزشتہ کئی برسوں سے ادب و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ آپ نے جس وقت اس اخبارکی ذمہ داری بطور مدیر اپنے کندھوں پر لی وہ وقت اور حالات کافی نازک تھے۔ اخبار نکالنا اور اسے جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھالیکن باوجود اس کے وقار الدین نے بہترین انداز میں اس اخبار کو جاری رکھا اور نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس اخبار کو ہندوستان کے دیگر اردو اخبارات کی فہرست میں صف اوّل پر پہنچا دیا۔ مئی 2015 میں سید وقارالدین کو ’ستارۂ فلسطین ‘ جیسے باوقار اعزاز سے نوازا گیا۔ آج ’رہنمائے دکن‘ شہر حیدرآباد سے نکلنے والے بڑے اخبارات میں شامل ہے۔ اداریوں کی حق گوئی و بے باکی،مدیر کا نڈر و بے خوف ہونا یہ ابتدا ہی سے رہنمائے دکن کا شیوہ رہا ہے۔بقول سید وقار الدین (مدیر روزنامہ رہنمائے دکن):

’’ ہم حق بات لکھنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور صحیح معنوں میں اردو صحافت اگر دکن میں نام کمائی ہے تو روزنامہ ’رہبر دکن‘ کی وجہ سے جو آزادی سے قبل بارہ تا چودہ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا اور ہمارے نامہ نگار لندن، واشنگٹن،قاہرہ اور دلّی میں ہوتے تھے۔‘‘

(حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات: سید ممتاز مہدی، ص 390)

غالباً یہ اردو کا پہلا اخبار ہے جس کے نامہ نگار ملک کے تمام بڑے شہروں کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی موجود تھے۔ یہ اخبار اس زمانے میں بھی تمام پڑوسی ممالک کے علاوہ افغانستان، مصر،عرب ممالک اور انگلینڈ تک جاتا تھا۔

رہنمائے دکن‘ کی مقبولیت کے لیے کئی عناصر کار فرما رہے ہیں جن میں اس اخبار کے مختلف کالمس کا نمایاں رول رہا ہے جن کا مختصر تعارف درج ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

 پسند اپنی اپنی: رہنمائے دکن کا مستقل ہفتہ واری کالم تھا۔جو سن 1959 میں شروع کیا گیا۔اس کالم کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں قارئین کو ایک عنوان دیا جاتا تھا اور اس عنوان کے تحت ان سے اشعار لکھواکر اسے شائع کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کالم کو قارئین میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل اردو میں رہنمائے دکن کے متعلق ذوق پیدا ہوا۔

ہماری جامعات: ہماری جامعات رہنمائے دکن کے دیگر کالمس کی طرح ایک غیر معمولی کالم تھا۔ اس کالم میں جامعہ عثمانیہ سے وابستہ بلند پایہ شخصیات کا تعارف پیش کیا جاتا تھا،ساتھ ہی جامعہ عثمانیہ کے مختلف شعبہ جات کی سرگرمیوں کا جائزہ بھی اس کالم کے تحت لیا جاتا تھا۔یہ سلسلہ کافی برسوں تک جاری رہا۔اس کالم کو اردو داں طبقے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

گلہائے صد رنگ:  یہ روزنامہ رہنمائے دکن کا ایک مستقل کالم تھا۔جو ہر دوشنبہ کو پابندی سے شائع کیا جاتا تھا۔ ’گلہائے صدرنگ‘ کالم کے ذیل میں حید رآباد کے نو مشق شاعروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ یہ کالم سن 1961 میں شروع کیا گیااور تقربیاً دس برس جاری رہا۔ اس کالم میں شاعروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ان کے کلام پر مختصر رائے بھی پیش کی جاتی تھی۔اس کالم کی بدولت شہر حیدرآباد میں نو مشق اردو شاعروں کا اچھا خاصا گروہ تیار ہوا۔ ان شاعروں میں حمید الدین شاہد،فیض الحسن، صلاح الدین نیر (مدیر ماہنامہ خوشبو کا سفر) رئیس اختر، باقر منظور، رؤف خیر، ابوالفضل محمود، قطب سرشار، ڈاکٹر راہی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں بعد میں یہی شعرا اردو کے بلند پایہ شاعر ثابت ہوئے،اور ادب کے میدان میں اپنا نام کمایا۔

بچوں کا صفحہ: ’رہنمائے دکن‘ میں شائع ہونے والے اس صفحہ کو اہل نظر نے بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا۔ رہنمائے دکن میں یہ صفحہ بڑا مقبول رہا۔ ’بچوں کا صفحہ‘ میں ادب اطفال سے متعلق مختصر کہانیاں،نظمیں،پہیلیاں وغیرہ شائع کی جاتی تھیں۔تخلیق کار بچوں کے نام بھی اس صفحہ میں شائع ہوا کرتے تھے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔یہ اس روزنامے کی ایک نئی پہل تھی جو کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی۔اس صفحہ کے باعث بچوں کا لکھنے پڑھنے کا رجحان بڑھا۔اس صفحہ کے زریعے بچوں کو ادب سے جوڑنے میں یہ روزنامہ کامیاب رہا۔یہ اس دور کا واحد روزنامہ تھا جس میں بچوں کا صفحہ پابندی کے ساتھ شائع ہوا کرتا تھا۔

کچھ عرصہ جاری رہنے کے بعد اس صفحہ کا نام بدل کر ’طلبا اور نوجوانوں کا صفحہ‘کردیا گیا۔

طلبا اور نوجوانوں کا صفحہ:   اس صفحہ میں اردو کے اْبھرتے ہوئے نوجوان قلمکاروں کی تخلیقات کو پیش کیا جاتا تھا۔ دیگر زبانوں کے تراجم بھی اس صفحہ کا حصہ بنتے رہے۔ اس کے علاوہ اس صفحہ میں تنقید و تبصرہ پر بھی بات کی جاتی تھی جس کو بہت پسند کیا گیا۔بہر کیف رہنمائے دکن کے دیگر صفحات کی طرح اس صفحہ کو بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

رہبر و رہرو:  حیدرآباد دکن میں طنز و مزاح کی ایک بہترین روایت رہی ہے۔رہنمائے دکن نے بھی اس روایت کو جاری رکھا۔رہبر و رہرو ایک مزاحیہ کالم تھا جسے بہت شہرت ملی۔اس کالم میں سنجیدہ اور باوقار طنز کا پہلو نمایاں رہا۔ شفیع الدین ناکارہ اس کالم کو ترتیب دیا کرتے تھے۔ ان کے بعد پروفیسر سلیمان اطہر نے اس کالم کو جاری رکھنے میں اہم رول ادا کیا۔

 پروفیسر سلیمان اطہر جاویدکا نام اردو اور حیدرآباد دونوں کے لیے تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ایک اعلٰی ادیب و نقاد تسلیم کیے جاتے ہیں کئی برسوں تک  ’رہنمائے دکن‘ کے ادبی صفحہ’رفتار سیاست ‘ سے وابستہ رہے۔ جب وہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے ایک کہانی لکھ کر اشاعت کی غرض سے ’رہنمائے دکن‘ کو بھیجی جو اس اخبار میں بہت جلدی شائع ہوگئی۔ یہ اس کم سن طالب علم کی پہلی ادبی تحریر تھی جو منظر عام پر آئی۔  اس اشاعت کے بعد اردو کے اس خدمت گار کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سلیمان اطہر جاوید اردو کے بڑے ادیب بن گئے۔ کئی برسوں تک انھوںنے اس روزنامے میں ملازمت بھی کی۔ ’رفتارِ سیاست‘ رہنمائے دکن کا ایک مقبول صفحہ تھا۔ لوگ صرف’رفتار سیاست‘ کی خاطر دوشنبہ کا خاص ایڈیشن خریدا کرتے تھے۔ تروپتی یونیورسٹی میں تدریسی شعبہ سے وابستہ ہوجانے کے بعد رہنمائے دکن کی ملازمت کو انھوں نے خیر اباد کہا لیکن رہنمائے دکن کے لیے کافی عرصہ تک مضامین لکھتے رہے۔

ڈاکٹر مصطفی کمال صاحب (مدیر ماہنامہ شگوفہ )کی رہنمائے دکن سے دلی وابستگی تھی۔وہ اس کے ’شعر و ادب‘ کے صفحہ سے وابستہ رہے۔ڈاکٹر سید مصطفی کمال نے ’شعر و ادب‘ کے صفحہ کے ذریعہ بہت سے ادیبوں اور شاعروں کو ادبی دنیا سے متعارف کرایا۔  تقریباً دس برس وہ اس اخبار سے جڑے رہے۔اخبار کے انتظامی امور میں وہ ایک ذمہ دار شخص تھے۔ وقار الدین اور منظور حسن صاحب سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔وہ جتنا عرصہ اس روزنامہ کا حصہ رہے وہ دور رہنمائے دکن کی خدمات کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔ ادبی صفحہ کی ترتیب کے علاوہ ڈاکٹر مصطفی کمال نے اخبار کے لیے اداریے بھی لکھے جنھیں کافی سراہاگیا۔ دور حاضر میں حیدرآباد کے نامور ماہنامہ ’شگوفہ‘ کے مدیر کی حیثیت سے آپ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اخبار کے عمومی دور ہی سے اردو کی مختلف اصناف کا احاطہ رہنمائے دکن کے ادبی صفحہ میں کیا گیا۔افسانہ،ناول وغیرہ پر توجہ دی گئی لیکن زیادہ زور شاعری پر رہا۔ اس ضمن میں مدیر رہنمائے دکن سید وقار الدین رقمطراز ہیں:

’’ہم نے شاعری کے لیے زیادہ جگہ رکھی ہے چوں کہ اس کا Response بہت ہی اچھا ہے۔ چونکہ ہر اخبار کو اپنے قارئین کی خواہش کے مطابق ہی مواد دینا ہوتا ہے لہذا ہمارے اخبار میں جتنا مواد ادب کے بارے میں شائع ہوتا ہے اس کا بڑا حصہ شعر و شاعری کی نذر ہوتا ہے۔اس کی وجہ عوام کی پسند ہے۔‘‘

(حیدرآباد کے اردو روزناموں کی ادبی خدمات: سید ممتاز مہدی، ص391)

صفحہ’گلستان ‘: اس روزنامہ کے تمام صفحات غیر معمولی ہوتے ہیں جیسے کھیل کود کا صفحہ، فلمی صفحہ، روزگار سے متعلق صفحہ وغیرہ، لیکن جس صفحہ کے باعث اس روزنامہ کو غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی وہ ’گلستان‘ہے۔ یہ صفحہ در اصل خالص ادبی نوعیت کا حامل تھا۔اردو کے مشہور و معروف صحافی، شاعر حسن فرخ یہ صفحہ  ترتیب دیتے تھے۔ ’گلستان‘  نے حیدرآباد کے کئی اہل قلم کی ذہنی و ادبی نشوونما میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو کے کئی نئے قلمکار، ادیب اور شاعر اس صفحہ میں چھپ کر پروان چڑھے۔ اس ادبی صفحہ نے نئے لکھنے والوںکی تربیت کافریضہ انجام دیا۔

گلستان‘ ادبی صفحہ میں اردو کے جن نامور شعرا و ادبا کے نام ہمیشہ جڑے رہے ان میں پروفیسر مغنی تبسم، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید، مضطر مجاز، محمد حبیب بیدل شاذ تمکنت، احمد قاسمی، قدیرانصاری، حامداکمل، عابد صدیقی، نادراسلوبی، ڈاکٹرمجیدبیدار،بشیر احمد،نادر المسدوسی، ڈاکٹر راہی، انیس احمد انیس، حسن فرخ، کامل حیدرآبادی، حیدر حسین، اقبال شیدائی، حامد رضوی، نسیم اعجاز نسیم، طاہر حسین طاہر، روبینہ نازلی، ضامن علی حسرت، رشید رہبر، شوکت علی درد  وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔                 

ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہ صفحہ ’رہنمائے دکن‘ کی روح کہلاتا تھا۔ بروز پیر پابندی کے ساتھ یہ صفحہ شائع ہوتا تھا۔ ’گلستان‘ میں منتخب نامور شعرا کی غزلیں،نظمیں، رباعیات، حمد، نعت، منقبت، قطعات وغیرہ کو جگہ دی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ نثری و تنقیدی مضامین بھی اس ادبی صفحہ کا اہم حصہ تھے۔ہندوستان اور بیرون ملک کے مختلف حصوں سے تخلیق کار اپنی تخلیقات ارسال کرتے تھے۔ ’گلستان‘ کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اس صفحہ میں اردو زبان و ادب سے متعلق منعقد ہونے والے کانفرنس، سمیناراور ادبی مشاعروں کی روداد کو بھی بڑے مؤثر پیرائے میں پیش کیا جاتا تھا۔اس صفحہ میں نئے لکھنے والوں کو بطور خاص ترجیح دی جاتی تھی۔

روزنامہ’رہنمائے دکن‘کا دائرہ صرف ادب اور سیاست تک محدود نہیں ہے۔ اپنے اسلامی مزاج کے باعث بھی اس روزنامے کو بہت قدر و منزلت حاصل ہوئی۔ ’رہنمائے دکن‘ میں محرم اور اعراس وغیرہ کے مواقع پر خراج عقیدت والی تخلیقات کو بھی اس روزنامہ میں جگہ دی گئی۔ میلادالنبیؐ، عیدین، شب معراج، شب برات، شب قدرکے مواقع پر خصوصی اشاعتیں عمل میں لائی گئیں۔ قومی تہوار 26جنوری اور15 اگست جیسے موقعوں پر آزادی ہند سے متعلق تحریریں شائع ہوئی۔ علاوہ ازیں ’رہنمائے دکن‘ نے کئی یاد گار نمبر بھی شائع کیے ہیں جن میں ’غالب نمبر‘،  ’اقبال نمبر‘جامعہ عثمانیہ کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر ’گولڈن جوبلی نمبر‘ آصف سابع نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیںجنھیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔      

رہنمائے دکن‘نے اردو زبان کے فروغ، ترقی و ترویج کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے مفادات کی ترجمانی بڑی بے باکی کے ساتھ کی۔ قومی، بین الاقوامی، ریاستی اور مقامی خبریں معتبر ذرائع سے حاصل کر کے عوام تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی۔یہی نہیں بلکہ رہنمائے دکن، صحافت کو ادب عالیہ بنا کر پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ کئی نوجوانوں کی تربیت کر کے انھیں کامیاب صحافی بنایا۔جس کی وجہ سے آج بھی یہ روزنامہ عوام و خواص میں مقبول ہے اور حیدرآباد کی صحافت میں اس اخبار کو خاص مقام حاصل ہے۔

حوالہ جات:

.1        حیدرآباد دکن کے اردو اخبارات: ایک جائزہ،محمد اعجاز الدین حامد،ص،12,61

.2         حیدرآباد میں اردو صحافت:طیب انصاری،ص11,48

.3         حیدرآباد کے اردوروزناموں کی ادبی خدمات، سیدممتاز مہدی، ص43,390,391

.4         اردو صحافت آزادی کے بعد: ڈاکٹر افضل مصباحی،ص281

.5         اردو میڈیا:سید فاضل حسین پرویز،ص82


Dr. Shaikh Imran

Asst.Professor, Dept.of Urdu

Vasantrao Naik Govt.Inst.of Arts & Social Sciences,Nagpur 440001

Mob: 09921986904

 

 

ماہنامہ اردو دنیا۔ ستمبر 2020

 

 

 

 

 

 

 


28/10/20

اسکولی سطح پر اردو زبان کی تدریس کے مسائل - مضمون نگار: غفرانہ بیگم

 


اردو ایک اہم زبان ہے اور ہندوستان کی درج فہرست قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ عربی اور فارسی سے اردو نے بہت استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں عربی اور فارسی الفاظ کے بہت سے الفاظ ہیں۔ مگر اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہے کہ اردو زبان صرف عربی اور فارسی لفظیات تک ہی محدود ہے بلکہ یہ ایسی زبان ہے کہ جس میں دوسری زبانوں کے بہت سے الفاظ شامل ہیں۔ خاص طور پر ہندی اور سنسکرت کے بہت سے الفاظ اِس زبان میں اس طرح جذب ہوگئے ہیں کہ فرق کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

اردو کی جنم بھومی ہندوستان ہے۔ ہندی کی طرح اس کی پرورش و پرداخت بھی ہندوستان ہی میں ہوئی اور ان دونوں زبانوں کے درمیان بہت سے اشتراکات بھی ہیں۔ خاص طور پر ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی دونوں زبانوں میں بہ خوبی ہوئی ہے۔ صوتیات اور قواعد کے لحاظ سے بھی اردو اور ہندی ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ ان دونوں زبانوں کا نقطہ امتیاز صرف رسم الخط ہے۔ ہندی نے دیوناگری لپی کو اپنایا تو اردو نے فارسی رسم الخط کو۔ رسم الخط کے اختلاف کے باوجود دونوں زبانوں میں بڑی قربتیں ہیں۔ اس کے باوجود اردو اور ہندی میں غیرضروری طور پر تنازعے بھی شروع کیے گئے جس کی وجہ سے بہت سی سطحو ںپر اردو کو بہت سے مسائل کا سامنا بھی ہے۔بولنے والو ںکی تعداد سے لے کر اس کی تعلیم و تدریس کے مسائل بھی بہت اہم ہیں۔خاص طور پر اسکولی سطح پر اردو زبان کی تدریس میں بڑی دقتیں آرہی ہیں۔ میں یہاں صرف بہار کے اسکولوں کے حوالے سے بات کروں گی کہ بہار کی دوسری سرکاری زبان ہوتے ہوئے بھی وہاں بنیادی سطح پر وہ سہولیات نہیںہیں اس لیے ضرورت ہے کہ بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ ایک بات اور بھی ہے کہ آج کے طلبا اردو پڑھنا لکھنا نہیں چاہتے ۔ زیادہ تر طلبا کا ارادہ ہوتا ہے کہ دسویں کے بعد اردو سے ان کا واسطہ نہ رہے۔ اس لیے اردو پڑھنے میں ان لوگوں کا  دھیان نہیں ہوتا۔ طلبا کی اکثریت ریاضی، سائنس، انگریزی یا دیگر مضامین کو پڑھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ شاید بچو ںکے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ اردو زبان بہت محدود ہے اور اس میں روزگار کے مواقع بھی کم ہیں۔ وہ تکنیکی تعلیم حاصل کرکے روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیںیا دیگر پیشہ ورانہ کورسز میں داخلہ لیتے ہیں۔ اسی لیے اسکولوں میں  تدریسی سطح پر دشواریا ںپیش آرہی ہیں۔ خاص طو رپر بہار جو کبھی اردو کا گہوارہ کہلاتا تھا اور وہاں اس زبان کے شیدائیوں کی ایک بڑی تعداد تھی مگر موجودہ دور میں اب اردو سے تعلق رکھنے والو ںکی تعداد کم ہوتی جارہی ہے جو تشویشناک ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق بہار میں اردو بولنے والوں کی آبادی  87.7  لاکھ ہے لیکن تحقیق کے دوران جب اسکولوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو جو بات سب سے زیادہ کھٹکی وہ یہ کہ اس دور جدید میں طلبا کی اردو زبان پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ان طالب علموں میں زیادہ تر اردو زبان صرف اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ انھیں 3L فارمولے کے تحت پڑھنے کی مجبوری ہے۔ چند طلبا ہی ایسے ہیں جو اس زبان کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور زیادہ تر طلبا دیگر زبانوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیتے ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اردو ایک غیر ضروری زبان بن سکتی ہے۔

زیادہ تر اسکولوں میں اردو زبان کے ایک یا دو معلمین ہی ہیں اور کئی اسکولوں میں تو اردو زبان کا کوئی بھی معلم ملتا نہیں ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ سب سے پہلے اردو زبان کے معلموں کی کمی کو دور کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے یہ قانون بھی بنایا گیا ہے کہ تمام اسکولوں میںمعلمین تربیت یافتہ ہی ہونے چاہئیں کیونکہ ایک تربیت یافتہ معلم ہی طلبا کے سماجی، ثقافتی و نفسیاتی نشوونما میںبہترکردار ادا کرسکتا ہے مگر غور و فکر کی بات یہ ہے کہ تربیت یافتہ معلمین بھی اسکولوں میں اپنے کام کو بہتر طریقے سے انجام نہیں دے پا رہے ہیں؟

تدریس کو معقول،مؤثر اور دلچسپ بنانے کے لیے اساتذہ بہتر سے بہتر طریقۂ تدریس، تدریسی حکمت عملی اور مختلف قسم کے تدریسی اکتسابی آلات کا استعمال کرتے ہیں۔ بیشتر اسکول انتظامیہ کے پاس کسی بھی طرح کا تدریسی اکتسابی آلہ موجود ہی نہیں ہوتا۔ حکومت نے بہار کے تمام اسکولوں میں ایک ہی نصاب پر مبنی ’اسمارٹ کلاسز ‘ شروع کروائی ہیں، تا کہ طلبا بہتر انداز اور خوشگوار ماحول میں سمعی و بصری آلات کے ذریعے تعلیم حاصل کر سکیں۔ مگر بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کی تدریس کو اسمارٹ کلاسز میں شامل نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ اردو زبان کا مواد ابھی تک تیار ہی نہیں کیا گیا ہے کہ شاید انہی اسباب کی وجہ سے طلبا اپنی مادری زبان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

اردو زبان کے سامنے ایک اور مسئلہ درپیش ہے جس کو ماہرین نے جدید ٹکنالوجی سے دوری یا عدم توجہی کے طور پر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اردو زبان پر آئے دن یہ الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں کہ اس زبان نے اپنے آپ کو جدید ٹکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں کیا ہے۔جبکہ آج اردو زبان کو تکنیکی تعلیم سے جوڑنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ طلبا کا رجحان اردو زبان کی طرف  زیادہ سے زیادہ ہو سکے اور اردو زبان ہر ایک طالب علم کی ضرورت بن جائے۔

دور جدید میں طلبا کی ہمہ جہت ترقی کے لیے پراجیکٹ پر مبنی تدریس، مسئلوں کوحل کر کے سیکھنا وغیرہ جیسے طریقۂ تدریس کے ذریعے طلبا کو فن تدریس سے واقف کرایا جاتا ہے۔ لیکن بیشتر اسکولوں میں تدریس کی بنیادی سہولیات کا انتظام کیا ہی نہیں گیا ہے۔ اساتذہ اسی پرانے طریقۂ تدریس پر آج بھی قائم ہیں، جب کہ اسکولوں کے تمام معلم تربیت یافتہ ہوتے ہیں،مگر وہ دوران تدریس کسی خاص مہارت کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ایک اور خاص پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر اسکولوں میں تمام طلبا کو اردو زبان کی کتابیں صحیح وقت پر مہیا ہی نہیں ہو پاتی ہیں۔ چار،چھے مہینے بغیر کتابوں کے ہی نکل جاتے ہیں اور اس کے بعد کتابیں مل بھی جائیں تو طلبا میں وہ رجحان باقی ہی نہیں رہتا کہ بچے اپنی مادری زبان کی کتاب کو صحیح طور پر مکمل بھی کر سکیں۔ ایسے حالات میں اساتذہ کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے تدریسی عمل کو اپنائیں کہ طلبا اردو زبان کو دلچسپی سے پڑھنے لگیں۔

این۔سی۔ایف2005 کا مطالعہ کریں تو کسی بھی زبان کی تدریس کے لیے جورہنما اصول بنائے گئے ہیں، اسکولوں میں ان پر عمل ہی نہیں کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق تمام درجات کے طلبا کی مختلف قسم کے طریقۂ تدریس اور حکمت عملی کے ذریعہ نشوونما کرنی چاہیے۔ مثلاً ابتدائی درجات کے طلبا کو مختصر کہانیاں سنا کر، نظموں کو ترنم میں پڑھانا ہے تا کہ طلبا پہلے تیار ہو جائیں  توپھر وہ اپنے سبق کو دلچسپی سے پڑھیں گے۔ لیکن زیادہ تر اسکولوں میں آج بھی پرانے طریقۂ تدریس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ رہنما اصول کے مطابق طلبا کو کتابیں، گائیڈ، نوٹس وغیرہ فراہم کروانے کی بات کہی گئی ہے۔ مگر  اسکولوں میں جانے کے بعد ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔بہت سے اسکولوں کی لائبریریوں میں اردو کی کتابیں نہیں ہیں اور اگر کسی لائبریری میں کتابیں ہیں بھی تو دیگر زبان کی کتابوں کے مقابلے میں اردو کی کتابیں کم تعداد میں ہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ طلبا کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسکول میں لائبریری بھی ہے اور اس میں اردو زبان کی کتابیں بھی ہیں۔د وران تحقیق مجھے یہ جان کر بہت تعجب ہوا کہ ایسے اسکول جہا ں اردو ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے موجود ہے وہاں پر ثانوی سطح کی تعلیم حاصل کر رہے طلبا میں سے زیادہ تر صحیح اردو پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہیں۔ اسکولوں میں تو صحیح طریقے سے اردو زبان کی کلاس ہی نہیں ہوتی ہیں جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ والدین بچوں کو اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوچنگ، مدرسوں اور مکتبوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔

اردو زبان جو کہ صرف ہماری مادری زبان ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہماری تہذیب و ثقافت سے ہے، خستہ حالی سے دوچار ہے۔ ہر ایک فر د بس تکنیکی تعلیم اور انگریزی کے پیچھے بھاگا جا رہا ہے۔ کوئی بھی اردو زبان کی طرف رجوع نہیں کر رہا ہے۔ اردو زبان کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اسکولی سطح پر ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔

اردو زبان ہمارا سب سے قیمتی ورثہ ہے اور اس زبان سے ہم سبھی جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں کیوں کہ صرف اسی کے ذریعے اپنی مادری زبان کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔لیکن یہ زبان جس طرح کی تدریسی مشکلات میں گھری ہوئی ہے ان کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔تمام اقدامات اور فروغ کی ذمے داری صرف حکومت کی نہیں ہے۔ ہم سبھی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اردو زبان کے تدریسی مسائل کو دور کرنے کے لیے، تدریسی ترقی کے لیے کوشش کریں، کیونکہ اردو زبان کی نشونما اور فروغ کے لیے اب تک جوبھی اسکیمیں پیش کی گئی ہیں ان سے اردو کے حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ آج اردو زبان کو پھر اس کے گھر میں ہی آباد کرنے کی ضرورت ہے۔


Ghufrana Begum C/o Md Aariz Ehkam

(Research Scholar)

Dighalbank Police Station, Dighalbank, Kishanganj - 855101 (Bihar)

Mob.: 8051337759

E-mail.: ghufranazahoor786@gmail.com

 


ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

 

 

 

 

 

 

 


27/10/20

چار بیت میں برسات کی بہاریں- مضمون نگار: راشد میاں

 



اردو شاعری کی بیشتر اصناف میں برسات کا بیان بخوبی ملتا ہے۔ بالخصوص چار بیت گو شعرا نے تو اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ واضح ہو کہ چار بیت ٹونک، رام پور و بھوپال کی مقبول عوامی صنفِ سخن ہے۔ ان مقامات کے تقریباً ہر معروف شاعر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ملک کے دیگر خطوں میں بھی چار بیت کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے۔

ہیئت کے اعتبار سے چار بیت ایک ایسی نظم ہے جس میں سرے (مطلع) کے ساتھ چار چار مصرعوں کے چار بند اس طرح کہے جاتے ہیں کہ ہر بند کا آخری مصرعہ سرے سے ہم قافیہ و ردیف ہوتا ہے۔ اس میں بھی شعرا نے ہیئت کے متعدد تجربات کیے ہیں۔ ڈیڑھ مصرعی، دو مصرعی، ڈھائی مصرعی چار بیتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعض قدیم چار بیتوں میں سرے کا ایک مصرع بھی ہوتا تھا، مگر اب دو مصرعوں پر مشتمل مطلع ہی رائج ہے۔ چار بیت میں ہر بندکا آخری مصرع ٹیپ کا مصرع ہوتا ہے۔ چار بیت کے بند کو ’چوک‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ابتداً چار بیت الڑھ فوجی سپاہیوں اور کم خواندہ تک بندوں کا مشغلہ تھا، لیکن بعدمیں سنجیدہ پڑھے لکھے لوگوں اور شعرا نے اس صنف میں ادبی رنگ داخل کیا اور بے شمار معیاری مضامین پر مشتمل چار بیتیں لکھیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج چار بیت کی شناخت لوک صنف کے مقابلے ادبی صنفِ سخن کی حیثیت سے زیادہ ہے۔

چار بیت کا پس منظر عربی قبائل سے شروع ہوتا ہے۔ عرب میں ابتدا ہی سے دَف نوازی کے ساتھ نغمہ سرائی عام ہے۔ یہی عربی قبائل جب افغانستان میں آباد ہوئے تو وہاں بھی انھوں نے مذکورہ روایت کو قائم رکھا۔ ہندوستان میں بھی چار بیت انہی افغانی قبائل کی رہینِ منت ہے۔ اسی لیے چار بیت کو ’پٹھانی راگ‘ اور ’پٹھانوں کا لوک گیت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دَف چونکہ شرعی قوانین کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربی و اسلامی ممالک میں آج بھی دَف نوازی کے ساتھ نغمہ سرائی رائج ہے۔

ابتدائی دور میں عموماً رزمیہ چار بیتیں کہی گئی ہیں، جن میں تفاخر ذاتی اور جنگی کارناموں کا ذکر اکثر ہوتا ہے مگر جس طرح چار بیت میں ہیئت کے مختلف تجربات ہوتے ہیں اسی طرح موضوعات کے اعتبار سے بھی اس کا دامن خاصا وسیع ہے۔ اس میں مذہبی و اخلاقی، عاشقانہ، مدح، ہجو، قومی و وطنی، تاریخی، ماتمی، و اقعاتی، مختلف موسموں اور تہواروں کا بیان، محبوب کا سراپا، سہرا، برساتی، (ملہار) غرض کہ حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔

مذکورہ اقسام میں ایک قسم برساتی چار بیت کی بھی ہے، چار بیت کے تقریباً ہر معروف شاعر نے برساتی چار بیتیں کہی ہیں۔ منشی سید علی مرحوم ہر دو چار بیت کے شائع شدہ اوّلین مجموعے ’بہارِ چندن‘ (1966) کے مقدمے میں رقم طراز ہیں:

’’ہندی کی یہ برسات سو‘ چھا رہی کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے‘‘

پورے ہندوستان میں مشہور ہے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ یہ مضطر خیرآبادی کی ہندی چار بیت ہے۔(مقدمہ بہارِ چندن: چندن بھارتی، 1966، ص 11)

برساتی چار بیت میں عموماً دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ جس میں برسات (کی) آمد اور موسمِ بہار کی مختلف کیفیات کا بیان ملتا ہے۔ دوسری وہ جس میں ملہار رَس شامل ہوتا ہے، اس میں ہندی کلچرل و ہندی گیت کے اثرات نمایاں ہیں، جس میں تخاطب عورت سے مرد کی جانب ہوتا ہے۔ اس قسم کی چار بیت میں ایک عورت موسمِ برسات میں اپنے محبوب و شوہر کے ہجر میں جو کہ پردیس چلا گیا ہے، اپنے مضطرب دل کے مختلف جذبات و کیفیات کا اظہار کرتی ہے۔ فراقِ محبوب میں نہ تو اسے چولی، چندری بھاتی ہے، نہ ہی کنگھی، چوٹی اور بناؤ سنگھار اُسے اچھا لگتا ہے۔

اس فراق کی ماری کو کوئل کی کو کو اور پپیہے کی صدائیں اس کے محبوب کی یاد دلاتی ہیں۔ موسمِ برسات میں سہیلیوں کا جھولا جھولنا اور آپس میں ہنس بولنا اس کے دل پر نشتر زنی کرتے ہیں۔ ایسے عالم میں اسے پھول بھی خار نظر آتے ہیں، پھولوں کی سیج بھی کانٹوں کی طرح چبھتی ہے۔ ان تمام باتوں کا اظہار وہ پردرد اور پرکرب الفاظ میں کرتی ہے۔

وہ مختلف ذرائع سے خبر پہنچا کر اپنے محبوب سے وطن واپس لوٹنے کی التجا کرتی ہے اور اپنے خدا سے دعا کرتی ہے کہ اس کا شوہر (برساتی (ملہار) چار بیت میں محبوب کوئی غیر مرد نہیں، بلکہ خود اس عورت کا شوہر ہے۔) خیر و عافیت سے جلد گھر لوٹے، اس قسم کی چار بیت میں ہندی گیت کے زیرِ اثر ندی الفاظ کا بھرپور استعمال ہوا ہے۔ کہیں کہیں دیگر ہندوستانی زبانوں کے الفاظ بھی مستعمل ہوئے ہیں، خواتین کی زبان کا دلکش اور خوبصورت انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ الغرض نسوانی جذبات و احساسات کی جتنی معصوم، سچی اور بہترین ترجمانی برساتی چار بیت میں ہے۔ وہ اردو شاعری کی دیگر اصناف میں بہت کم نظر آتی ہے۔

برساتی چار بیت سے قبل کے زمانے میں ہندی، اردو  اور بعض علاقائی زبانوں میں بارہ ماسہ کی روایت رہی ہے جس میں شاعر بارہ مہینوں کی مختلف موسمی فضاؤں سے متعلق گیت کی شکل میں اپنے منظوم جذبات رقم کرتا ہے۔ شبیر علی خاں شکیب رامپوری نے اپنی تصنیف ’چار بیت، تعارف و انتخاب‘ میں برساتی چار بیت (ملہار) کی ایجاد کا سہرا بھی عبدالکریم خاں کے سر بتایا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’عبدالکریم خاں نے یہ سوچ کر کہ مرد تو چار بیتیں گاکر اپنا جی بہلا لیتے ہیں، خواتین کے لیے بھی کوئی ایسی چیز ہو جسے وہ بے تکلفی سے گا سکیں، ان کی نظر ہندی شاعری پرگئی جس میں بالعموم عورت کی طرف مرد کے لیے اظہارِ محبت ہوتا ہے۔ انھوں نے آسان ہندی آمیز اردو میں برساتی یا ملہار لکھی۔‘‘ (چار بیت تاعرف و انتخاب : شبیر علی شکیب 1995، ص 14)

عبدالکریم خاں کی ایک ڈیڑھ مصرعی برساتی (ملہار) چار بیت کا بند ملاحظہ ہو   ؎

پردیس پی گئے ہیں، میں ہوں زمیں پہ سوئی

                                                خالی پڑا پلنگ ہے

ان سوکنوں نے موہ لیا ہے میرے سجن کو

                                                آتا نہیں وطن کو

تم کھولوں سے بامنا مرے بھاگوں کی آج پوتھی

                                                آنے میں کیا درنگت ہے

اپنے ذکر کردہ تاثرات کے جواز میں اور قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے برساتی چار بیتوں کے چند بند یہاں پیش ہیں        ؎

اب تو خبر لے پیا، موسمِ برسات ہے

دھڑکے ہے مورا جیا، موسمِ برسات ہے

چنری اور مہندی کا رنگ

 ہے ترے چرنوں کے سنگ

من کی مری ہر امنگ

سجنا تورے سات ہے

(راج ماتا رفعت زمانی بیگم عصمت آف رام پور)

رِم جھِم، رِم جھِم مینھا برسے

پیا دیکھن کو جیارا ترسے

آ جا آجا گھر میں بیری،

راہ تکت ہوں دیر سے تیری

مقلاس کری گر کچھ بھی دیری

سر کو پھوڑوں گی میں در سے

(قیوم خاں مقلاس)

چار بیت برساتی (موسمِ بہار)      ؎

عالم کچھ اور ہی ہے گھٹا زوردار کا

کیا لطف دے رہا ہے زمانہ بہار کا

کیسا سہانا سین چمن کا یہ نوٗر ہے

رِم جھِم پھوار پڑتی ہے دل کو سرور ہے

بدمست پی کے پہلو میں اک رشکِ حور ہے

تقدیر سے ملا ہے یہ دن وصلِ یار کا

عالم میں نظر آتی ہے کیا قدرتِ باری

اللہ کی رحمت ہے یہاں ابر سے جاری

ساون کی گھٹا چاروں طرف چھائی ہوئی ہے

برسات کے موسم کی بہار آئی ہوئی ہے

اور بادِ صبا آپ ہی اترائی ہوئی ہے

اٹھکھیلیاں کرتی ہے کہیں بادِ بہاری

(شمشیر جنگ)

باقی نہ رہی دِل میں غمِ گردشِ ایام

بھر بھر کے پِلا ساقیٔ گلفام وہی جام

آیا ہے بڑی دھوم سے ساون کا مہینہ

دیکھے کوئی پانی کی روانی کا قرینہ

ہو وجد میں جیسے سرمست حسینہ

ساقی نہ لگا دیر، اٹھا جام اٹھا جام

(نواب اسمٰعیل علی خاں تاج)

جھوم کے آگئی گھنگھور گھٹا ساوَن کی

دل اڑائے لیے جاتی ہے ہوا ساون کی

اُف یہ برسات کے رنگین مناظر جوہر

کیوں نہ بے تاب کریں مجھ کو یہ آخر جوہر

کیوں نہ ہو دیکھ کے مضطر دلِ شاعر جوہر

یہ ہوائیں، یہ گھٹائیں، یہ فضا ساون کی

(جوہر ٹونکی)

رنگین بہاروں نے دیوانہ بنا ڈالا

ہر چیز کو گلشن کی پیمانہ بنا ڈالا

پرکیف ستارے کیا، رنگین فضائیں کیا

دلچسپ نظارے کیا، مستانہ گھٹائیں کیا

گلشن کی ہوائیں کیا جاں بخش بہاریں کیا

خود سے بھی محبت نے بیگانہ بنا ڈالا

(عبدالبصیر بصر)

(چار بیت برساتی ملہار)  سہ مصرعی

چھا رہی کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے

سن ریا کوئل باؤری تو پی پی کیوں چلائے ہے

چونچ سونے میں منڈھوں آرے کا گاتو اِدھر

پی کی بتیا موں سے کہہ اور پی کی تو لادے خبر

رنگت اڑتا ہے جوانی یوں ہی بیتی جائے ہے

(مضطر خیرآبادی)

اُف یہ ساون کی گھٹائیں

پی بنا جیورا، ڈرائیں

پی سے کہہ دو کوئی جاکر

تم بنا رہ رہ کے اکثر

تیر سی لگتی ہیں دل پر

یہ پپیہے کی صدائیں

(محمد صدیق خاں صائب)

میری بدریا رم جھم، رم جھم اَب تو رس برساؤری

بولے پپیہا پی ہوٗ، پی ہوٗ کوئل کوٗکے باؤری

برہا مَوہے سنائے، یاد پیا کی آئے ہے

ٹھنڈی ٹھنڈی ہلکی پَوَن بھی میرا من برمائے ہے

سب کے من میں سکھ کی آشا میرے من میں ہائے ہے

جاتے رہے پردیس میں بالم، کوئی سندیسہ لاؤری

(محمد عبدالحئی فائز)


Dr. Rashid Miyan

Sr. Asstt. Professor Urdu

Govt P.G. College

Tonk- 304001 (Raj)

Mob.: 7240302056

 

 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020