27/10/20

چار بیت میں برسات کی بہاریں- مضمون نگار: راشد میاں

 



اردو شاعری کی بیشتر اصناف میں برسات کا بیان بخوبی ملتا ہے۔ بالخصوص چار بیت گو شعرا نے تو اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ واضح ہو کہ چار بیت ٹونک، رام پور و بھوپال کی مقبول عوامی صنفِ سخن ہے۔ ان مقامات کے تقریباً ہر معروف شاعر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ملک کے دیگر خطوں میں بھی چار بیت کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے۔

ہیئت کے اعتبار سے چار بیت ایک ایسی نظم ہے جس میں سرے (مطلع) کے ساتھ چار چار مصرعوں کے چار بند اس طرح کہے جاتے ہیں کہ ہر بند کا آخری مصرعہ سرے سے ہم قافیہ و ردیف ہوتا ہے۔ اس میں بھی شعرا نے ہیئت کے متعدد تجربات کیے ہیں۔ ڈیڑھ مصرعی، دو مصرعی، ڈھائی مصرعی چار بیتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعض قدیم چار بیتوں میں سرے کا ایک مصرع بھی ہوتا تھا، مگر اب دو مصرعوں پر مشتمل مطلع ہی رائج ہے۔ چار بیت میں ہر بندکا آخری مصرع ٹیپ کا مصرع ہوتا ہے۔ چار بیت کے بند کو ’چوک‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ابتداً چار بیت الڑھ فوجی سپاہیوں اور کم خواندہ تک بندوں کا مشغلہ تھا، لیکن بعدمیں سنجیدہ پڑھے لکھے لوگوں اور شعرا نے اس صنف میں ادبی رنگ داخل کیا اور بے شمار معیاری مضامین پر مشتمل چار بیتیں لکھیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج چار بیت کی شناخت لوک صنف کے مقابلے ادبی صنفِ سخن کی حیثیت سے زیادہ ہے۔

چار بیت کا پس منظر عربی قبائل سے شروع ہوتا ہے۔ عرب میں ابتدا ہی سے دَف نوازی کے ساتھ نغمہ سرائی عام ہے۔ یہی عربی قبائل جب افغانستان میں آباد ہوئے تو وہاں بھی انھوں نے مذکورہ روایت کو قائم رکھا۔ ہندوستان میں بھی چار بیت انہی افغانی قبائل کی رہینِ منت ہے۔ اسی لیے چار بیت کو ’پٹھانی راگ‘ اور ’پٹھانوں کا لوک گیت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دَف چونکہ شرعی قوانین کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربی و اسلامی ممالک میں آج بھی دَف نوازی کے ساتھ نغمہ سرائی رائج ہے۔

ابتدائی دور میں عموماً رزمیہ چار بیتیں کہی گئی ہیں، جن میں تفاخر ذاتی اور جنگی کارناموں کا ذکر اکثر ہوتا ہے مگر جس طرح چار بیت میں ہیئت کے مختلف تجربات ہوتے ہیں اسی طرح موضوعات کے اعتبار سے بھی اس کا دامن خاصا وسیع ہے۔ اس میں مذہبی و اخلاقی، عاشقانہ، مدح، ہجو، قومی و وطنی، تاریخی، ماتمی، و اقعاتی، مختلف موسموں اور تہواروں کا بیان، محبوب کا سراپا، سہرا، برساتی، (ملہار) غرض کہ حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔

مذکورہ اقسام میں ایک قسم برساتی چار بیت کی بھی ہے، چار بیت کے تقریباً ہر معروف شاعر نے برساتی چار بیتیں کہی ہیں۔ منشی سید علی مرحوم ہر دو چار بیت کے شائع شدہ اوّلین مجموعے ’بہارِ چندن‘ (1966) کے مقدمے میں رقم طراز ہیں:

’’ہندی کی یہ برسات سو‘ چھا رہی کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے‘‘

پورے ہندوستان میں مشہور ہے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ یہ مضطر خیرآبادی کی ہندی چار بیت ہے۔(مقدمہ بہارِ چندن: چندن بھارتی، 1966، ص 11)

برساتی چار بیت میں عموماً دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ جس میں برسات (کی) آمد اور موسمِ بہار کی مختلف کیفیات کا بیان ملتا ہے۔ دوسری وہ جس میں ملہار رَس شامل ہوتا ہے، اس میں ہندی کلچرل و ہندی گیت کے اثرات نمایاں ہیں، جس میں تخاطب عورت سے مرد کی جانب ہوتا ہے۔ اس قسم کی چار بیت میں ایک عورت موسمِ برسات میں اپنے محبوب و شوہر کے ہجر میں جو کہ پردیس چلا گیا ہے، اپنے مضطرب دل کے مختلف جذبات و کیفیات کا اظہار کرتی ہے۔ فراقِ محبوب میں نہ تو اسے چولی، چندری بھاتی ہے، نہ ہی کنگھی، چوٹی اور بناؤ سنگھار اُسے اچھا لگتا ہے۔

اس فراق کی ماری کو کوئل کی کو کو اور پپیہے کی صدائیں اس کے محبوب کی یاد دلاتی ہیں۔ موسمِ برسات میں سہیلیوں کا جھولا جھولنا اور آپس میں ہنس بولنا اس کے دل پر نشتر زنی کرتے ہیں۔ ایسے عالم میں اسے پھول بھی خار نظر آتے ہیں، پھولوں کی سیج بھی کانٹوں کی طرح چبھتی ہے۔ ان تمام باتوں کا اظہار وہ پردرد اور پرکرب الفاظ میں کرتی ہے۔

وہ مختلف ذرائع سے خبر پہنچا کر اپنے محبوب سے وطن واپس لوٹنے کی التجا کرتی ہے اور اپنے خدا سے دعا کرتی ہے کہ اس کا شوہر (برساتی (ملہار) چار بیت میں محبوب کوئی غیر مرد نہیں، بلکہ خود اس عورت کا شوہر ہے۔) خیر و عافیت سے جلد گھر لوٹے، اس قسم کی چار بیت میں ہندی گیت کے زیرِ اثر ندی الفاظ کا بھرپور استعمال ہوا ہے۔ کہیں کہیں دیگر ہندوستانی زبانوں کے الفاظ بھی مستعمل ہوئے ہیں، خواتین کی زبان کا دلکش اور خوبصورت انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ الغرض نسوانی جذبات و احساسات کی جتنی معصوم، سچی اور بہترین ترجمانی برساتی چار بیت میں ہے۔ وہ اردو شاعری کی دیگر اصناف میں بہت کم نظر آتی ہے۔

برساتی چار بیت سے قبل کے زمانے میں ہندی، اردو  اور بعض علاقائی زبانوں میں بارہ ماسہ کی روایت رہی ہے جس میں شاعر بارہ مہینوں کی مختلف موسمی فضاؤں سے متعلق گیت کی شکل میں اپنے منظوم جذبات رقم کرتا ہے۔ شبیر علی خاں شکیب رامپوری نے اپنی تصنیف ’چار بیت، تعارف و انتخاب‘ میں برساتی چار بیت (ملہار) کی ایجاد کا سہرا بھی عبدالکریم خاں کے سر بتایا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’عبدالکریم خاں نے یہ سوچ کر کہ مرد تو چار بیتیں گاکر اپنا جی بہلا لیتے ہیں، خواتین کے لیے بھی کوئی ایسی چیز ہو جسے وہ بے تکلفی سے گا سکیں، ان کی نظر ہندی شاعری پرگئی جس میں بالعموم عورت کی طرف مرد کے لیے اظہارِ محبت ہوتا ہے۔ انھوں نے آسان ہندی آمیز اردو میں برساتی یا ملہار لکھی۔‘‘ (چار بیت تاعرف و انتخاب : شبیر علی شکیب 1995، ص 14)

عبدالکریم خاں کی ایک ڈیڑھ مصرعی برساتی (ملہار) چار بیت کا بند ملاحظہ ہو   ؎

پردیس پی گئے ہیں، میں ہوں زمیں پہ سوئی

                                                خالی پڑا پلنگ ہے

ان سوکنوں نے موہ لیا ہے میرے سجن کو

                                                آتا نہیں وطن کو

تم کھولوں سے بامنا مرے بھاگوں کی آج پوتھی

                                                آنے میں کیا درنگت ہے

اپنے ذکر کردہ تاثرات کے جواز میں اور قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے برساتی چار بیتوں کے چند بند یہاں پیش ہیں        ؎

اب تو خبر لے پیا، موسمِ برسات ہے

دھڑکے ہے مورا جیا، موسمِ برسات ہے

چنری اور مہندی کا رنگ

 ہے ترے چرنوں کے سنگ

من کی مری ہر امنگ

سجنا تورے سات ہے

(راج ماتا رفعت زمانی بیگم عصمت آف رام پور)

رِم جھِم، رِم جھِم مینھا برسے

پیا دیکھن کو جیارا ترسے

آ جا آجا گھر میں بیری،

راہ تکت ہوں دیر سے تیری

مقلاس کری گر کچھ بھی دیری

سر کو پھوڑوں گی میں در سے

(قیوم خاں مقلاس)

چار بیت برساتی (موسمِ بہار)      ؎

عالم کچھ اور ہی ہے گھٹا زوردار کا

کیا لطف دے رہا ہے زمانہ بہار کا

کیسا سہانا سین چمن کا یہ نوٗر ہے

رِم جھِم پھوار پڑتی ہے دل کو سرور ہے

بدمست پی کے پہلو میں اک رشکِ حور ہے

تقدیر سے ملا ہے یہ دن وصلِ یار کا

عالم میں نظر آتی ہے کیا قدرتِ باری

اللہ کی رحمت ہے یہاں ابر سے جاری

ساون کی گھٹا چاروں طرف چھائی ہوئی ہے

برسات کے موسم کی بہار آئی ہوئی ہے

اور بادِ صبا آپ ہی اترائی ہوئی ہے

اٹھکھیلیاں کرتی ہے کہیں بادِ بہاری

(شمشیر جنگ)

باقی نہ رہی دِل میں غمِ گردشِ ایام

بھر بھر کے پِلا ساقیٔ گلفام وہی جام

آیا ہے بڑی دھوم سے ساون کا مہینہ

دیکھے کوئی پانی کی روانی کا قرینہ

ہو وجد میں جیسے سرمست حسینہ

ساقی نہ لگا دیر، اٹھا جام اٹھا جام

(نواب اسمٰعیل علی خاں تاج)

جھوم کے آگئی گھنگھور گھٹا ساوَن کی

دل اڑائے لیے جاتی ہے ہوا ساون کی

اُف یہ برسات کے رنگین مناظر جوہر

کیوں نہ بے تاب کریں مجھ کو یہ آخر جوہر

کیوں نہ ہو دیکھ کے مضطر دلِ شاعر جوہر

یہ ہوائیں، یہ گھٹائیں، یہ فضا ساون کی

(جوہر ٹونکی)

رنگین بہاروں نے دیوانہ بنا ڈالا

ہر چیز کو گلشن کی پیمانہ بنا ڈالا

پرکیف ستارے کیا، رنگین فضائیں کیا

دلچسپ نظارے کیا، مستانہ گھٹائیں کیا

گلشن کی ہوائیں کیا جاں بخش بہاریں کیا

خود سے بھی محبت نے بیگانہ بنا ڈالا

(عبدالبصیر بصر)

(چار بیت برساتی ملہار)  سہ مصرعی

چھا رہی کالی گھٹا جیا مورا لہرائے ہے

سن ریا کوئل باؤری تو پی پی کیوں چلائے ہے

چونچ سونے میں منڈھوں آرے کا گاتو اِدھر

پی کی بتیا موں سے کہہ اور پی کی تو لادے خبر

رنگت اڑتا ہے جوانی یوں ہی بیتی جائے ہے

(مضطر خیرآبادی)

اُف یہ ساون کی گھٹائیں

پی بنا جیورا، ڈرائیں

پی سے کہہ دو کوئی جاکر

تم بنا رہ رہ کے اکثر

تیر سی لگتی ہیں دل پر

یہ پپیہے کی صدائیں

(محمد صدیق خاں صائب)

میری بدریا رم جھم، رم جھم اَب تو رس برساؤری

بولے پپیہا پی ہوٗ، پی ہوٗ کوئل کوٗکے باؤری

برہا مَوہے سنائے، یاد پیا کی آئے ہے

ٹھنڈی ٹھنڈی ہلکی پَوَن بھی میرا من برمائے ہے

سب کے من میں سکھ کی آشا میرے من میں ہائے ہے

جاتے رہے پردیس میں بالم، کوئی سندیسہ لاؤری

(محمد عبدالحئی فائز)


Dr. Rashid Miyan

Sr. Asstt. Professor Urdu

Govt P.G. College

Tonk- 304001 (Raj)

Mob.: 7240302056

 

 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں