27/10/20

جدیدیت: آغاز، عروج و زوال- مضمون نگار: محمد توقیر عالم

 



جدیدیت ادب کی ایک مسلمہ اصطلاح ہے۔ لیکن اس کے مضمرات، نقطۂ آغاز، صحیح مفہوم، سیاق و سباق اور نتائج کے متعلق اختلافات ہیں۔جدیدیت کے سلسلے میں سرسری گفتگو بھی ملتی ہے اور گہرا فلسفہ بھی۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ جدید اضافی اصطلاح ہے اور قدیم کے مقابل ہر شے جدید ہے اور ہر جدید وقت گزرنے کے ساتھ قدیم ہوجاتا ہے۔ زمانی حد بندی کے ضمن میں بھی اختلافات ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق جدید شاعری کا نقطۂ آغاز انیسویں صدی عیسوی ہے۔ اس دور میں افکار اور ہیئت دونوں کے اعتبار سے نیا موڑ آیا لیکن یہ جدتیں اس جدیدیت سے مختلف تھیں۔حالی وغیرہ کا دور اپنے دور ماسبق کے بالمقابل جدتوں کا دور تھا لیکن یہ مواد کی اہمیت کا دور تھا اور ادب میں مقصد کی بالادستی کا دور تھا۔

جدیدیت کی ابتدا کے سلسلے میں التباسات ہیں اور اس کی تردید کرنے والے زیادہ تر التباسات کے شکار ہیں۔ بعض جدیدیت کو حالی سے شروع ہونے والے جدید دور سے جوڑتے ہیں، بعض ترقی پسند تحریک کو بھی جدید کہتے ہیں۔بعض لوگوں کے نزدیک ہر نئی تخلیق نئی اور ترقی پسند دونوں تھی۔ اس دھوکے میں مبتلا وہ بھی ہوئے جو ترقی پسند تھے۔رشید احمد صدیقی نے جو ترقی پسندی پر اعتراضات کیے اور احتشام صاحب نے جو جواب دیا اس سے اس سلسلے میں پائے جانے والے التباسات کا علم ہوا اور اس وقت کے اعتبار سے جدید چیزوں میں ترقی پسند اور غیرترقی پسند کا فرق واضح ہوا۔ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ترقی پسندی کے دور میں جو غیرترقی پسندی تھی وہی جدیدیت کا سرچشمہ ہے۔ اس کے مطابق حلقۂ اربابِ ذوق جدیدیت کی وراثت ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو جدیدیت ترقی پسندی کا ردِ عمل ہے۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ جدیدیت ترقی پسندی کی توسیع ہے۔ ہر تحریک کا ردِ عمل موافقت اور مخالفت دونوں صورتوںمیںہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی طرح سرسیّد کی تحریک کے دور میں بھی ردِ عمل ہوا تھا اور سرسیّد اور حالی کے مقابلے میں قدیم اندازِ فکر اور اسلوبِ بیان کو ترجیح دی جاتی رہی۔ترقی پسندی کے مقابلے میں حلقۂ اربابِ ذوق کا وجود ہوا اور ادب برائے زندگی کے مقابلے میں ادب برائے ادب کا نعرہ لگایا گیا۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ جدیدیت ان سب سے علیحدہ ادبی میلان یا تحریک ہے۔ یہ بھی متنازعہ فیہ ہے کہ جدیدیت میلان ہے یا تحریک۔

جدیدیت صرف اردو میں نہیں بلکہ ہندوستان اور دنیا کی بیسیوں زبانوں میں پہلے یا بعد میں بحیثیت میلان سامنے آچکی ہے۔مغرب میں جدیدیت کا میلان پہلے پیدا ہوا ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب نے جدیدیت کے عوامل و محرکات پیدا کیے۔ مشرق میں صنعتی انقلاب دیر سے آیا اس لیے جدیدیت کے آثار دیر سے رونما ہوئے۔ پروفیسر آل احمد سرور یورپ میں جدیدیت کی عمر ایک جگہ چار سو سال اور ایک جگہ ساڑھے چار سو سال بتاتے ہیں اور ہندوستان میں اسے ڈیڑھ سو سال اور دوسری جگہ پونے دو سو سال کی پیداوار بتاتے ہیں۔سرور صاحب ہندوستان میں جدیدیت کو نوعمر قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیںکہ ہندوستانی ذہن ابھی پورے طور پر جدید نہیں ہوسکا۔ زمانے کے اعتبار سے سرور صاحب کا اندازہ قطعیت سے دور ہے۔ جدیدیت کی عمر نہ یورپ میں اتنی زیادہ ہے اور نہ ہندوستان میں۔

جدیدیت کا رشتہ بہت دور رونما ہونے والے صنعتی انقلا ب سے جوڑا جاسکتا ہے لیکن دراصل اس کا نقطۂ آغاز صنعتی زندگی کا وہ نقطۂ عروج ہے جب قدروں اور تہذیبوں کا زوال شروع ہوگیا۔تہذیبوں کا یہ زوال دوسری جنگِ عظیم کے بعد آیا لیکن ہندوستان میں ملک کی آزادی اور تقسیم سے شروع ہوا۔

جدیدیت کی پہچان کے لیے چند پیمانے بنائے گئے ہیں جو مختصر طور پر حسبِ ذیل ہیں:

(الف) روایتوں سے انحراف

(ب) ناوابستگی

(ج)      اقدار، مثالیت اور اصول وضوابط سے انکار۔

(د) معروضیت، راست اظہار، بیان کی وضاحت وغیرہ کو رد کرنا۔

(ہ) نظم و ضبط اور اداروں سے بے تعلقی۔

(و)       فرد کا احساس، تنہائی، حقیقت کی چٹان سے تصورات کا ٹکرانا، سماج کی چیرہ دستی اور روزِ حشر سے پہلے نفسی نفسی کے عالم کا احساس۔

(ز)       اظہار کی سطح پر ابہام۔

(ح)      اشارات کی نجی ترسیل۔

(ط) لفظوںکا تخلیقی استعمال۔

(ے) نئے الفاظ کی تراش۔

(ک) قدیم اظہارات سے گریز۔

(ل)      بندشوں، محاوروں اور مروجہ اوزان و بحور سے وحشت۔

(م)      فنکار کی انفرادیت کو ترجیح اور اجتماعیت کا مردود ہونا۔

ان تمام مذکورہ خصوصیات کے باوجود جدیدیت کو کسی ایک پہچان کی بنیاد پر اسی کی حد تک محدود کردینا ممکن نہیں۔لفظ جدیدیت کا استعمال بھی موضوعِ بحث بنا ہے۔ انگریزی اصطلاح Modernityکا ترجمہ اردو میں جدیدیت کیا گیا ہے۔ اس ترجمے کو اردو کے اہلِ قلم کی سند بھی حاصل ہے۔ مقالہ نگار کی نظر میں جدیدیت Modernism کا ترجمہ ہے اور اس کی دلیلیں ہیں۔ اس کے باوجود سرور صاحب نے بھی جو Modernityکا ترجمہ جدیدیت سمجھتے ہیں، یہ اعتراف کیا ہے کہ بعض حلقوںمیں انگریزی کے دونوں الفاظ کو مترادف سمجھا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو مقالہ نگار بھی جدیدیت کو Modernity کا مترادف تسلیم کرنے میں تامل نہیں کرتا۔

جدیدیت ایک طرزِ فکر ہے، صرف نئے زمانے میں پیدا ہونے اور لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔عہدِ حاضر کے ادیب و شاعر طرزِ فکر کے اعتبار سے جدیدیت پسند یا روایت پسند ہیں۔عصری حسیت یا معاصریت بھی جدیدیت نہیں ہے۔ ہر چیز اپنے زمانے میں جدید ہوتی ہے، یہ صحیح ہے لیکن ایسی ہر جدید چیز کو جدیدیت کا نمونہ نہیں کہہ سکتے۔ پھر بھی ن۔م۔ راشد نے بھی حالی اور آزاد کے زمانے کو اپنے دور کی جدیدیت کہہ کر وہی غلطی کی ہے جو جدیدیت کے مخالفین کرتے ہیں۔

موجودہ صورتِ حال سے بے اطمینانی، روایت کے فرسود ہ حصے سے انحراف اور افکار کی جدت ہر دور میں ممکن ہے لیکن جدیدیت خالصتاً عہدِ حاضر کی پیداوار ہے اور انسانی تاریخ کے جبر سے پیدا ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ آگے چل کر خود ایک روایت بن جائے۔عہدِ حاضر کی زندگی کے مختلف عوامل و عناصر جدیدیت کے ذمے دار ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور مشینوں کی حکومت سے انسان گھٹ گیا ہے، احساسات مردہ ہوگئے ہیں، ہر فرد اپنے کو تنہا محسوس کرتا ہے اور معاشرہ کا شیرازہ اندر سے بکھرا بکھرا ہے۔یہ صورتِ حال ساری دنیا میں بیک وقت یکساں نہیں ہے یورپ اور ہندوستان کا فرق اپنی جگہ پر ہے، شہروں اور دیہاتوں کا فرق بھی اپنی جگہ پر ہے۔ اسی طرح بڑے شہروں اور چھوٹے شہروں کا فرق ہے۔ لیکن سائنسی ترقی سے فاصلے سمٹ رہے ہیں، ایک ملک کے مسائل عالمی مسائل بنتے جارہے ہیں۔ نیوکلیائی ہتھیاروںکا خطرہ ساری دنیا کو یکساں ہے اور اس میں شہر اور دیہات میں کوئی فرق نہیں۔مواصلاتی نظام اور خبر و نشر کے وسائل ساری دنیا کو ایک دوسرے سے قریب لارہے ہیں۔ اب کوئی بھی بات ایک جگہ ہو تو وہیں تک محدود نہیں رہتی، ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔جدیدیت بھی پہلے مغربی ادبیات میں منظرِ عام پر آئی اور پھر دنیا کی ساری زبانوں میں پھیل گئی۔ اس کے رجحانات مشرق و مغر ب کی حدوں میں بند نہیں ہیں۔جدیدیت کے پس پشت دانشوروں اور فلسفیوں کے اقوال و افکار ہیں۔ دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے سے لے کر شعر و ادب کی تفہیم اور زبان و بیان کے مسائل تک فلسفیوں اور دانشوروں کی حکومت ہے۔

ان موضوعات پر جو افکار عام ہوئے، ان کا اثر شعر و ادب کے جدید رجحان پر پڑا۔اس سلسلے میں وہائٹ ہیڈ، ہیڈگر، بری کلے، برگساں اور سارترے وغیرہ کے فلسفے جدیدیت کی فلسفیانہ بنیاد بن گئے ہیں۔

اردو ادب میں جدیدیت تقسیمِ ملک کے بعد شروع ہوئی۔ اس سیاسی واقعے سے بہت سے انسانی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی مسائل پید اہوئے۔برِ صغیر میں کئی جنگیں لڑی گئیں اور ملک میں صنعتی ترقی کا جال بچھایا گیا۔ان حالات نے ملک کو ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے کی دوڑ میں شامل کردیا ہے۔

ایک ادبی یا ذہنی رویے کی حیثیت سے جدیدیت کی جانب جو لپک ابتدائی برسوں میں دکھائی دی تھی اب باقی نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ جدیدیت کا زوال ہو، پھر بھی صنعتی زندگی کی انسانیت کش صورتِ حال ہمارے ملک میں سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔مادی ترقی کی چمک دمک سے آدمی ہوس کا پتلا بن گیا ہے۔ مادی خوشحالی کے لیے جائز اورناجائز ہرممکن ذریعے کا استعمال ہوتا ہے۔

غرض یہ کہ قدروںکا فقدان اور اخلاقی دیوالیہ پن، تاجرانہ بددیانتی، چور بازاری، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی، دفتر شاہی، بدکرداری، اہلِ سیاست کی جنگ زرگری، فرقہ واریت، لسانی اور مذہبی تنگ نظری، اقتصادی نابرابری، کشت و خون، انتظامیہ کی ناانصافی اور لاقانونیت اس دور کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی خصوصیات ہیں۔ان کے علاوہ جھوٹ، ریاکاری، نمود ونمائش، ظاہر و باطن کا تضاد، نفرت و عداوت، سازشی ذہنوں کی فساد انگیزیاں، عقائد و نظریات سے محرومی، تربیت یافتہ مذہبی زندگی کا فقدان اور اعتدال و توازن میں کمی، وہ حالات ہیں جو انسانی معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔

اصلاح کی چند ناکام اور کمزور کوششوں کے باوجود ہرفرد اپنی اچھی یا بری زندگی انفرادی طور پر گزار رہا ہے۔ جدیدیت شعر و ادب کی سطح پر مختلف رنگوں اور رویوں سے عبارت ہے۔ان رنگوں اور رویوںمیں عصری اور مکانی اور ابدی و آفاقی دونوں طرح کے جوہر ہیں۔ مخصوص معاصر ذہنی اور جذباتی ماحول سے بھی جدیدیت کا تعلق ہے اور انسانی کرب اور ذات و کائنات کے مسائل سے متعلق فکر کی لہر بھی جدیدیت میں نمودار ہوتی ہے۔

انسانی کرب اور ذات و کائنات کے مسائل مختلف ادوار کی شاعری میں جلوہ گر ہوئے ہیں لیکن جدیدیت کے دور میں سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز جداگانہ ہے کیوں کہ بیسویں صدی کے مسائل جن سے بیسویں صدی کے بہت سے فلسفے وجود میں آئے اور جنھوں نے معاصر شعر و ادب کو متاثر کیا، قطعی مختلف ہیں۔

جدیدیت کوئی دستور العمل فراہم نہیںکرتی۔فکری سطح پر اس کا منظرنامہ وسیع و بسیط ہے جس میں متضاد افکار اور عقائد اور ذہنی و جذباتی رویوں کے لیے یکساں گنجائش ہے۔فنی سطح پر نئی شعری جمالیات کثیر الجہت ہے اور اظہار و بیان کی مختلف ہیئتیں بیک وقت اس سے مربوط ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور جدیدیت کو سائنسی عقلیت اور جمہوریت کے فروغ کی وجہ سے فرد کی آزادی اور فرد و سماج کے ایک واضح رشتے کے عرفان کا سلسلہ کہتے ہیں۔ڈاکٹر وحید اختر، ڈاکٹر شمیم حنفی اور پروفیسر سرور کی رایوں کے برعکس ہر عہد میں جدیدیت کے سراغ پائے جاتے ہیں۔ان کے مطابق جدیدیت ہمعصر زندگی کو سمجھنے اور برتنے کے مسلسل عمل سے عبارت ہے اور یہ ایک ایسا مستقل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے اورہر عہد میں حقیقی زندگی گزارنے والے لوگوںنے اس عمل میں حصہ لیا۔ بہرطور وحید اختر یہ نتیجہ نکالتے ہیںکہ ہر عہد کی جدیدیت کے عناصر مختلف ہوتے ہیں اور غالب کے عہد کی جدیدیت ہمارے عہد کی جدیدیت سے الگ ہے۔ جدیدیت کے زیر اثر جو ادب پیدا ہوا ہے وہ معاصر ادب ہے اور معاصر ادب کی تعیینِ قدر تحفظات اور تعصبات کی بناپر دشوار ہے۔

جدید شاعری میں کارفرما داخلیت پر ڈاکٹر وزیر آغا نے زور دیا ہے۔شاعری فنکار کی داخلی دنیا اور خارجی دنیا کے تصادم اور تعامل سے وجود میں آتی ہے۔ترقی پسندی کے بالمقابل غزل کی تہہ داری اور اشاریت نے جدیدیت کے دور میں فروغ و ارتقاء کی منزلیں کچھ زیادہ ہی طے کی ہیں۔جدیدیت کے زیر اثر اردو نظموں میں بھی اشاریت پیدا ہوگئی جس سے مفہوم کے ابلاغ میں رخنے پڑے۔

راست اظہار کا اسلوب جدید شاعری کے منافی سمجھا گیا۔جدید شاعری میں مفہوم کی جدت اور انفرادیت کے باوجود اشکال اور الجھاؤ ہے۔ نئی غزل میں بانی اور ظفر اقبال سے محمد علوی اور احمد ہمیش تک انفرادیتوں کے ہجوم میں یکسانیت دیکھی جاسکتی ہے۔ نظموںمیں ن۔م۔ راشد اور میراجی سے عمیق حنفی، بلراج کومل اور مخمور سعیدی تک اردو نظموںکا جدید تخلیقی رنگ تقریباً یکساں جھلکتا ہے۔

لیکن اس محاکمے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ سارے شعرا ایک دوسرے کا مثنّیٰ ہیں۔ان سب میں کہیں کہیں اور الگ الگ انفرادیتیں نمایاں ہوتی ہیں لیکن بہت سی باتیں سب میں مشترک ہیں۔ان مشترک باتوں کو مختصراً یوں پیش کیا جاسکتا ہے:۔

(الف) جدید تر شاعری میں معاشرہ معدوم ہے اور فرد نمایاں۔

 (ب) فنکار کا ذاتی کرب و نشاط یا محرومیاں اور الجھنیں یا مسرتیں، حسرتیں، سکھ اور دکھ، دیومالائی تناظر میں یا نئے اور نجی حوالوں کے ساتھ ملتے ہیں۔

(ج)      غزل ہو یا نظم وضاحت کی جگہ رمزیت ہے۔

(د)       غزل کی اشاریت کچھ اور بڑھ گئی ہے اور اس کا کیف و کم کلاسیکی دور سے بھی کچھ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ جدیدیت کے زیر اثر غزل نے ترقی پسندی کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ لیکن جہاں جدتوں سے تقلید پیدا ہوئی ہے اور نجی حوالوں نے فیشن کی صورت اختیار کی ہے، غزل میں بھی انحطاط پیدا ہوا ہے۔غزل کے اشعار میں بھی لاقدریت، بے کیفی یا سطحی جدت کے عناصر ملتے ہیں۔

جدید غزل میں لفظیات کا ایسا سرمایہ داخل کیا گیا ہے جو بالکل نیا ہے لیکن اس کا ایک حصہ کوئی قابلِ قدر اضافہ قرار نہیں پاتا۔جدید شاعری میں افراط و تفریط کی مثالیں پائی جاتی ہیں اور جدیدیت میں سب کچھ خوشنما نہیں ہے۔جدید شاعری نے بعض نئے مفاہیم کو اردو میں روشناس کرایا۔ اس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے فنکار کی انفرادیت کو اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔

جدید شاعری میں علامتوں نے اپنی جگہ اس طرح بنائی ہے کہ اس کے دو رُخ سامنے آتے ہیں۔

(الف) تخلیقی سطح پر پہلی بار استعمال اور

(ب) تقلید کے طور پر انھیں دہراتے رہنے کا عمل

بیشتر جدید شعرا تقلید کے شکار ہیں لیکن بعض وہ بھی ہیں جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والوں میں ہیں۔ جدید شاعری نے شعری لفظیات میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ان لفظیات میں نئے پیکر، نئے استعارے اور نئے نئے الفاظ اور ان کے تلازمے ہیں۔ان الفاظ میںیونانی اور ہندوستانی دیومالا سے استفادہ کرنے کا پہلو بھی موجود ہے۔

جدید شاعری میں لفظیات کے اعتبار سے نظم کا دائرہ وسیع تر ہے لیکن غزلوںمیں بھی وہ الفاظ داخل ہوگئے ہیں جو غزل کی روایات کی نزم و نازک اور لطیف فضا میں اجنبی محسوس ہوتے ہیں۔چند ناقابلِ قبول الفاظ اور تراکیب سے قطعِ نظر نئی شاعری کے لفظی سرمائے کو انفرادیتوں اور تخلیقی جدتوں کے باوجود غریب اور نامانوس نہیں کہا جاسکتا۔نئی شاعری کی لفظیات کی فہرست مختلف جدید شعراء کے کلام کو سامنے رکھ کر مرتب کی جاسکتی ہے۔

 خیال و احساس کی جدت سے اپنا مقام بنانے میں بعض جدید نظم نگار شعرا کامیاب ہیں۔ ان کے یہاں اسلوب و اظہار میں کلاسکیت ہے اور ہیئت میں شرر اور نظم طباطبائی کے دور تک جدتیں ملتی ہیں لیکن خیال و احساس میں یہ سب سے الگ ہیں۔فکر و احساس کی جدتوں سے ان شعرا نے لفظیات میں بھی اضافے کیے ہیں جو معقول اور متوازن ہیں۔

ایسے نظم گو جدید شعرا میں وزیر آغا، خورشید الاسلام، وحید اختر، عمیق حنفی، ندا فاضلی، شمس الرحمن فاروقی وغیرہ ہیں۔یہ مروجہ اوزان و بحور میں تبدیلی بھی فن کے اسرار و رموز کے واقف کار کی حیثیت سے کرتے ہیں۔

جدید شاعری میں نثری نظم بھی پھلی پھولی ہے لیکن یہ ترقی پسند شاعری میں بھی ملتی ہے۔نثری نظم کا مستقبل ہنوز مشکوک ہے۔ جدید نظموں میں وزن و آہنگ سے بے نیازی بڑھ چلی ہے۔ شعری آہنگ اور نثری آہنگ کا فرق جدید دور میں اور زیادہ بحث طلب ہوگیا ہے۔

جدید شاعری میں لفظوںکی تربیت کو تخلیقی برتاؤ کے نام پر اوزان و بحور سے جدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض جدید نظموںمیں مثبت تاویلوں کے ساتھ فرد کی انفرادیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ انفرادیت حساسیت اور مریضانہ داخلیت کی غماز ہے۔ نیا شاعر کبھی کبھی انفرادیت میں اس طرح ڈوب جاتا ہے کہ وجودیت کے فلسفے کی براہِ راست یا سنی سنائی معلومات کا پرتو اسے اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے اور یہ گمان ہوتا ہے کہ شاعر اپنے وجود کی تلاش میں گم ہے۔شمس الرحمن فاروقی ایسے شاعروںمیں ہیں جو وزن و آہنگ کا سلیقہ جانتے ہیں اور کلاسیکی شاعری پر نظر رکھنے کی وجہ سے اور جدتوں کے باوجود قادر الکلامی کا ثبوت دیتے ہیں۔جدید شاعری میں فرد کے وجود کا احساس طوفان کی طرح سراٹھاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ مخمور سعیدی بھی وزن و آہنگ اور قدرتِ کلام کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں۔

افسانہ:

جدیدیت میں مختصر افسانہ بھی اسی آب و تاب اور کر و فر کے ساتھ دکھائی دیتا ہے جو جدید شاعری کو میسر ہے۔جدید افسانہ اور جدید شاعری میں ایک فرق ضرور ہے کہ جدید افسانے کو اتنے ہمنوا اور حامی میسر نہیں ہوئے جو جدید شاعری کے نصیب میں لکھے ہیں۔جدید افسانے کے باب میں وہی ناقدین جو جدید شاعری کے ہم نوا رہے ہیں اختلاف کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر جدیدیت کے حامی نقاد شمس الرحمن فاروقی جدید شاعری کی وکالت اور مدافعت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے لیکن جدید افسانے کے سو فیصد حامی نہیں ہیں۔جدید افسانے کی تکنیک اور اس کے اجزائے ترکیبی پر بھی اختلافِ رائے ہے۔

افسانے میں افسانویت اس کی روح ہے یا نہیں اس پر جدید ناقدین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے کہ بیانیہ کے بغیر افسانہ لکھا ہی نہیں جاسکتا کیوں کہ افسانویت یا کہانی پن جو بیانیہ کی دین ہے، افسانے کے لیے لازمی ہیں اور بیانیہ افسانے کے ہاتھ پاؤں کا کام کرتا ہے۔جدید افسانے کی افسانویت کردار کے بغیر اور زمان و مکان کی کسی حد بندی کے بغیر بھی لکھا جاتا ہے۔جدید افسانہ اختصار سے اس قدر معمور ہوگیا ہے کہ چند سطروں میں بھی افسانے لکھے جاتے ہیں۔کبھی کبھی مشہور کہاوتیں، لطیفے اور چٹکلے بھی چند سطری تخلیق کے طور پر افسانوں کے نام سے پیش کیے جاتے ہیں۔

جدید افسانہ تکنیک کے اعتبار سے روایتی اور ترقی پسند افسانے سے قطعی مختلف ہے اور جدید افسانے میں اشاریت حد سے بڑھ چلی ہے۔جدید افسانے میں بھی استعارات بڑھتے جاتے ہیں اور تقریباً اسی طرح کے استعارات ملتے ہیں جو جدید شاعری کو عہد ماقبل کی شاعری سے الگ کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدید شاعری اور جدید افسانوں میں مشترک استعارات ہیں لیکن لفظوں کا استعاراتی اور خلاقانہ استعمال یکساں طور پر شاعری اور افسانوںمیں ہورہا ہے۔

استعاراتی استعمال کثرت کی بناپر لفظ کو علامت کا درجہ عطا کردیتا ہے اور انتظار حسین کو علامتی افسانہ نگاروں کا پیش رو قرار دیا جاتا ہے۔استعارہ کب علامت بنتا ہے اور اس بات میں ناقدین کے درمیان اختلافِ رائے ہے کہ ایک ہی فنکار کے یہاں جب وہ بہ کثرت اور متعین معنوںمیں یکساں برتا جائے تو وہ علامت کی صورت اختیار کرلیتا ہے لیکن جب اسے عمومیت کے ساتھ استعمال کیا جانے لگے تو اس کی علامتی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔

جدید افسانہ رویہ اور برتاؤ یعنی Treatment دونوں کے اعتبار سے کلاسیکی اور ترقی پسند افسانوں سے ممیز ہے۔ 1970 کے بعدکا افسانہ شاعری کے بہت قریب آگیا ہے اور اب افسانے میں بھی بات واشگاف انداز میں نہیں کی جاتی جس طرح شاعری میں غیر ضروری تفصیلات حذف کردی جاتی ہیں، اسی طرح افسانے میں بھی تراش و خراش کے بعد صرف جوہر یا عطر پیش کیا جاتا ہے۔

ناقدین اور مفکرین کے بیانات کی روشنی میں جو افسانے تقسیمِ ہندوستان کے بعد تقریباً دس پندرہ سالوں بعد وجود میں آئے ان میں تقسیمِ ہند کا المیہ جدید تر افسانوں کی پیش رو تخلیقات میں دیکھا جاسکتا ہے لیکن جدید افسانوںمیں قدروںکا فقدان اور ذہن انسانی کا کرب زیادہ نمایاں ہے۔جدید افسانے میں حالات اور محرکات سے قطعِ نظر انسان کی داخلی کیفیات اور اس پر طاری ہونے والی قنوطیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔شرافت کا استحصال اقتصادی لوٹ کھسوٹ، مختلف طبقوں اور فرقوں کی رسہ کشی اور اس طرح کے دیگر موضوعات جدید افسانوں کے مواد کے طور پر بروئے کار آئے ہیں۔

جدید افسانوں کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ نسبتاً قدیم افسانوں سے انحراف یا انہدام یا نئے موڑ کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہیں۔جدید افسانوںکی جھلکیاں ترقی پسند تحریک کے ہراول مجموعہ ’انگارے‘ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

علامت نگاری اور تجریدیت، تکنیک اور اسلوب کے اعتبار سے جدید افسانوں کے دو نہایت اہم پہلو ہیں۔ جدید افسانوںمیں اخلاق و شرافت کے معیاروں سے ناآشنائی، تہذیب اور اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت اور ان کا فقدان نمایاں موضوعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نئے افسانوں میں جنسیت کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

علامت نگاری اور تجریدیت کو مترادف سمجھنا غلط ہے کیوں کہ علامتی افسانے بھی جدید ہیں اور تجریدی افسانے بھی۔ اور ظاہر ہے کہ علامت اور تجریدیت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ جدید افسانوں میں تکنیک کے تجربے کہانی پن سے گریز کی صورت میں Anti Story یا اَکہانی بھی بن گئے ہیں۔کہانی پن سے گریز کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ افسانہ نہ تو داستان ہے اور نہ حکایت اس لیے اس میں بیانیہ انداز سے گریز چاہیے۔ جدید افسانے میں انسانی ذہن میں چلنے والی تصویری صورت کو فلم کی ریل کی طرح سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس طرح انسانی ذہن میں شعور کی رو ہمیشہ منطقی اور تجزیاتی طور پر کام نہیں کرتی ہے، اسی طرح جدید افسانے میں تجزیاتی تسلسل اور منطقیت کو دور رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ مشورہ فنکار اپنے عمل تخلیق سے دیتے ہیں۔

فاروقی کہانی پن کے باب میں جیسا پہلے بھی پیش کیا گیا ہے عام جدید ناقدین سے مختلف خیال رکھتے ہیں۔ فاروقی افسانے کے لیے اس فکرمندی کو ضروری سمجھتے ہیں جو قاری میں ہونی چاہیے۔یہ فکرمندی تجسس سے ممیز ہے۔تجسس کو افسانے کی دنیا میں پھر کیا ہوا سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن فاروقی یہ کہتے ہیں کہ اگر قاری یہ کہے کہ مجھ سے کیا مطلب کچھ بھی ہو تو، اس سے اس کی عدم دلچسپی اور بیزاری کا پتہ چلتا ہے اور یہ صورتِ حال نئے افسانوںکے لیے خطرناک ہے۔فاروقی یہ چاہتے ہیںکہ افسانہ تجسس انگیز اور دلچسپ ہو۔

جدید افسانوں میں اشاریت اور ابہام کو راہ دی گئی ہے چونکہ جدید افسانہ کہانی پن سے گریز کرتا ہے اس لیے اشاریت کے ساتھ ابہام کا ہونا بھی فطری ہے۔جدید افسانہ بعض جہتوں سے جدید شاعری کے قریب پہنچ گیا ہے اور جس طرح عہدِ حاضر میں صنفوںکا اور مختلف چیزوں کا خط امتیاز مٹ رہا ہے، اسی طرح جدید شاعری اور جدید افسانوں کے درمیان خط فاصل کا تعین کرنا مشکل ہے۔

تنقید:

ہر عہد کا ادب اپنے ساتھ تنقیدی میزان و معیار لے کر آتا ہے۔ادبی اقدار کی عہد بہ عہد تبدیلیاں فن کو پرکھنے کے نئے سانچے مہیا کرتی رہتی ہے۔اردو ادب میں جدیدیت ایک رجحان یا تحریک بن کر ابھری اور اپنے جلو میں ان تمام افکار و نظریات کو لائی جو جدیدیت کے ساتھ مختص ہے۔

جس طرح جدید تخلیقی اصناف کے آغاز کا تعین ماہ و سال کے اعتبار سے دشوار ہے، اسی طرح جدید تنقید کے آغاز کا فیصلہ بھی قطعیت کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا ہے۔جدید اردو تنقید جدیدیت کے بنیادی نظریات پر مبنی ہے اور جدیدیت کے سارے مزعومات اور مطالبات کی ترویج و توثیق کرتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر وحید اختر کی رائے ہے کہ ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق کے امتزاج کی صورت میں جدید ادب اور اس کی تنقید کا وجود ہوا۔اس طرح ان کے نزدیک جدید تنقید ترقی پسند تنقید اور مارکسی تنقید کی توسیع ہے۔ دوسری طرف جدید تنقید کو ترقی پسند تنقید کی ادعائیت کا ردِ عمل کہا گیاہے۔

جدید تنقید میں فنکار کی ذات اور اس کی داخلیت کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور فن برائے فن جو ایک زمانے میں کروچے کا نعرہ تھا ایک بار پھر جدید تنقید میں نمایاں حیثیت کرگیا ہے۔جدید تنقید میں کسی منشور کی گنجائش نہیں ہے اورجدید تنقید فنکاروں سے کسی ضابطے کی توقع نہیں کرتی۔جدید تنقید کے مطابق فن پارہ فنکار کی ناآسودگی اور بے اطمینانی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے لیکن کبھی کبھی سرخوشی اور انبساط بھی تخلیق کے تاروں کو چھیڑنے والے عناصر ہوتے ہیں۔ جدید تنقید ان تمام باتوں کا لحاظ کرتی ہے۔جدید شاعری نے جس تنہائی کو اپنا موضوع بنایا ہے، جدید تنقید بھی فرد کی اسی تنہائی کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔جدید تنقید میں فنکار کی ذات اور اس کی معرفت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔جدید تنقید میں اصنافِ ادب کی مروجہ تقسیم اور حد بندیاں ہیں اور جدید تنقید نے آزادی کو اس حد تک روا رکھاہے کہ نثری نظمیں اور آزاد غزلیں اور آزاد رباعیاں بھی وجود میں آچکی ہیں۔نئی تنقید نے بعض پرانے تنقیدی دبستانوں کو از سر نو تقویت پہنچائی ہے اور یہ اس طرح ثابت ہے کہ جدید تنقید کے اہل قلم مختلف دبستانوں سے نظریاتی اختلاف اور وابستگی رکھتے ہیں۔ جدید ناقدین نظریاتی اعتبار سے کبھی کبھی قطبین کے فاصلے پر نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے سے بہت دور دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کو جوڑے رکھنے والی جو قدریں ہیں وہ صرف یہ رسمیت، معروضیت اور روایت پرستی سے انحراف و اعراض میں سب متفق ہیں۔نئی تنقید نئے تجربوںکی اور نئی ہیئتوں کی حمایتی کرتی ہے اور نئے استعاروں اور نئی علامتوں اور اچھوتے پیکروں کی تحسین اور ابہام کی ہردل عزیزی پر زور دیتی ہے۔ نئی تنقید زبان کے تخلیقی استعمال کی قائل ہے اور لسانی اور خالص ادبی اصطلاحوں پر فکر ونظر کے وہ دروازے کھولتی ہے جو اَب تک بند تھے۔

جدید تنقید مغربی ادیبوں، فلسفیوں، ناقدوں اور دانشوروں سے استفادہ کرتی ہے۔جدید تنقید کے اہلِ قلم میں فلسفیانہ تنقید لکھنے والے بھی ہیں اور نفسیاتی تنقید لکھنے والے بھی، یہاں ہیئتی تنقید بھی مقبول ہے اور ہیئتی تنقید کی مذمت بھی۔

مجموعی طور پر جدید تنقید بہرحال ادبی پیمانوں کو اختیار کرتی ہے اور خارجی اور سماجی پیمانوںکو رد کرتی ہے۔ جدید تنقید میں جمالیاتی اور تاثراتی تنقید بھی ملتی ہے۔ جدید تنقید جن مفکروں اور دانشوروں سے استفادہ کرتی ہے ان میں بیشتر مغربی اہلِ فکر و نظر ہیں اور خاص طور پر سارترے، کافکا، رینیٹ اور رین سمر وغیرہ کو جدید تنقید نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے۔جدید تنقید کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ تخلیقی فنکار بھی ناقدین بن بیٹھے ہیں۔

جدید تنقید کے اسالیب میں بھی رنگارنگی پائی جاتی ہے۔ فلسفیانہ تنقید میں عالم خوندمیری، جیلانی کامران اور وحید اختر اردو کے جدید ناقدین ہیں۔جدید اردو تنقید کے ممتاز نمائندوں میں وحید اختر، شمس الرحمن فاروقی، وزیر آغا اور شمیم حنفی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح نفسیاتی تنقید میں وزیر آغا، محمد حسن عسکری، پروفیسر شکیل الرحمن، پروفیسر شبیہ الحسن وغیرہ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اور ڈاکٹر سلام سندیلوی نے بھی بہت سے نفسیاتی مباحث پر تنقیدی نگارشات پیش کی ہیں۔ جدید تنقید کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وہی لوگ منظرِ عام پر آئے ہیں جو تخلیقات کی دنیا میں بھی روشناسِ خلق ہیں۔

مجموعی طور پر جدید اردو تنقید نے شعر و ادب کی تفہیم کے لیے نئے زاویے فراہم کیے ہیں اور تنقید کی کہنگی پر ضرب کاری لگائی ے۔ نئی تنقید تقلید سے بظاہر بیزار ہے لیکن اس میں بھی مقلدین کی ایک جماعت نے از سر نو تقلید کی بنائے کہنہ ڈال دی ہے۔جدید تنقید کا مستقبل کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن اس میں ابھی تکمیل کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ اس کی کوتاہیاں اور نارسائیاں مسلم ہیں اور اسالیب کے تنوع کے باوجود مستقبل کا مؤرخ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ تنقید کس حد تک اپنے فرض سے عہدہ برآ ہوسکی ہے۔


Prof. Dr. Md. Tauquir Alam

Former Pro-Vice Chancellor

M. M. H. Arabic & Persian University,

34, Harding Road, Patna, 800001 (Bihar)

E-mail-proftauqiralam@gmail.com

Mobile :  9934688876



ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

2 تبصرے: