27/10/20

سراج کی شاعری میں اسلامی تلمیحات - مضمون نگار: صدیقی صائم الدین

 


 

  سید شاہ سراج حسینی اورنگ آبادی کی تاریخ پیدائش 11مارچ 1712( 13 صفر 1124ھ) ہے۔بعض کے نزدیک ان کا سنہ پیدائش 1715بھی ہے۔ ان کی شاعری کا کل زمانہ بے حد مختصر ہے۔ 1734تا 1740کے عرصے کے درمیان ہی ان کی شاعری کا کچھ موجود ہے۔ سراج کی عمرابھی محض 12 برس کی تھی کہ آپ پر جذب کی کیفیت طاری ہونے لگی۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ آپ پرپاگل پن کا دورہ پڑا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ جذب و سرور کی ایسی کیفیت ہوتی جس میں آپ کاہوش جاتا رہتا۔  آپ لباس و جسم کی قید کو محسوس کرنے سے عاجز ہو کر صحرا نوردی کیا کرتے۔ اسی کیفیت میںآپ کو اکثر شعر کہتے سنا گیاافسوس کہ ایک مجذوب نوجوان کی باتوں کو کون سنتا۔ یہی وجہ رہی کہ آپ کے اس دور کے اکثر اشعار ضائع ہوگئے ہیں بالخصوص فارسی کلام۔ آپ اکثر کسی بزرگ کے مزار پر ملتے۔ خاص کرشاہ برہان الدین غریب نواز( خلد آباد) کے مزار پر اسی جذب و سرور کی کیفیت میں بیٹھے دکھائی دیتے۔

آپ سن بلوغت کو پہنچتے پہنچتے جذب کا شکار ہو گئے لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ آپ اس کیفیت میں بھی اشعار کہا کرتے تھے اور وہ مکمل اور سرشاری سے مزین کلام ہوتا تھا۔کچھ عرصہ بعد آپ کی طبیعت واپس لوٹی تو آپ کے خمیر نے آپ کو بے چین کرنا شروع کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے الفاظ اب شعور کی سطح کو چھوتے ہوئے ایک خاص شکل میں لبوں کی تراوٹ سے گزرنے لگے جس کے نتیجے میں وہ اشعار طشت ازبام ہوئے جنھوں نے شاہ سراج کو ایک نام اور اردو کو ایک ایسا شاعر دیا جو ادب کو پروان چڑھانے میں اس کا رہبر ثابت ہوا۔ 

سراج کی فطرت نے انھیں شاعری اور سپہ گری کی جانب متوجہ کیا حالانکہ دونوں باتیں متضاد کیفیات پیدا کرتی ہیں لیکن سراج کے اندر دونوں بدرجۂ اتم رہیں۔ چنانچہ آپ نے قلب و ذہن کی تسکین کی خاطر ان دونوں ہی کی جانب توجہ مبذول کی۔ آپ پیشے سے سپاہی تھے،چنانچہ  1746کو آصف جاہ کی سر پرستی میں بالکنڈہ کی جنگ میں شامل ہوئے اور ایک فاتح کی حیثیت سے اورنگ آباد لوٹے۔ یہی وہ جنگ ہے جس کا ذکر سراج نے مثنوی ’ بوستان خیال ‘ میں کیا ہے۔ 

سراج کو ہم جمالیات کا شاعر کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ کی جمالیات اردو شعرا میں بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا معشوق  چاہے وہ پیکر رکھتا ہو یا کہ مرکبات سے پاک ہو دونوں ہی ایک مسلم حقیقت ہیں۔ 

سراج کی شاعری میں جا بجا ایسے اشارے بکھرے پڑے ہیں جن کا مطالعہ ہمیں ان کے مذہبی افکار کی جانب کھینچتا ہے۔ وہ ایک صوفی شاعر کی حیثیت سے سارے عالم میں مشہور ہیں لیکن ان کے کلام کا مطالعہ اس بات کا متقاضی ہے کہ کیا صرف سراج اسی فکر کے شاعر تھے؟

سراج کے زمانے میں مذہب کی بنیادیں بے حد مضبوط تھیں۔سراج خود بھی صوفیوںاور بزرگوں کی صحبت سے فیضان حاصل کرتے رہے۔اس صوفی منش شاعر کابیشتر وقت اللہ والوں کے مزاروں یا زندہ صوفیوں کی خانقاہوں کی نذر ہوتا۔ آپ کو حضرت شاہ عبدالرحمن چشتی سے بے انتہا محبت تھی۔ ان کی خدمت میں ہمیشہ حاضر رہتے اور انتہائی عجز و نیاز سے آپ کی خدمت کیا کرتے۔ یہ وہی صوفی بزرگ ہیں جن کے کہنے پر سراج نے شاعری ترک کر دی تھی۔

سراج کی شاعری کی بنیاد دو چیزوں پر قائم ہے پہلا حسن دوسراعشق۔شاعر کی فکر انھیں دو افکار کے زیر سایہ خیالات کی رَو کا استعمال کرکے ذہن کو بالیدہ کرتی ہے۔ سراج عشق مجازی کی پیکرتراشی کرتے ہوئے اس کے سانچے میں اپنی یادوں، اپنے تجربات، اپنی جدوجہد اور اس کے حاصل کو رقم کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔صاف الفاظ میں کہا جائے تو ان کے عشق کو عقل کے بجائے قلب کی نظر سے تولنا مناسب ہے۔ 

عشق حقیقی کے حوالے سے سراج نے مختلف قسم کی تلمیحات کو اپنے کلام میں جگہ دی۔ان کے کلام میں جس قسم کے واقعات کی سمائی ہے ان میں خدا،نبیؐ، قرآن، حدیث، ابراہیمؑ، موسیٰؑ،یوسفؑ، خضرؑ، علیؓ،کربلا، منصور جیسی تلمیحات مختلف مقامامت پر بیان ہوتی ہیں۔ ان تلمیحات کا خصوصی پہلو یہ ہے کہ یہ تمام کی تمام اپنے پس منظر کے حوالے سے مختلف واقعات کی نشاندہی کرتی ہوئی شعر میں کیفیت عظمیٰ کو مائل کرتی ہیں۔ ان کی قرآنی تلمیحات میں اکثر ایک سے زائد واقعات کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔ عموماً شعرا کسی واقعہ کو بیان کرنے کی خاطر کسی نبی یا واقعے کا ایک خاص لفظ تراش کر اسے بیان کرد یتے ہیں جبکہ سراج کے پاس ایسا بہت کم ہوا ہے۔ وہ تلمیح کو اشارے و کنایے کے درجے میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں، دور حاضر میں اسے الگ سے اشارہ یا کنایہ کی طرز پر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ تلمیحات ہی ہیں جنھیں برتنے والا شاعر اس طرز کا ماہر تھا۔ 

سراج نے جن تلمیحات کا استعمال کیا ہے ان میں سے چند یہاں پیش ہیں۔ ان تلمیحات میں قرآنی آیات اور حدیث نبوی سے لے کر واقعات وروایات تک کو بیان کیا گیا ہے۔

خدا تعالی سے متعلق تلمیحات:

بارگاہِ ایزدی میں جب اپنی بات رکھنی ہو تو سراج کا معاملہ بڑا مختلف ہے۔ وہ ذہن یا عقل کی بات سننے سے انکار کرتے ہیں۔ انھیں عقل و فہم کی حدود پر قانع ہونے کے بجائے قلب کی اس نظر پر اعتبار ہے جسے خدا نے اپنے نیک بندوں کے لیے مخصوص کیا ہے۔  سراج اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے ربّ ِ عظیم کی ایک صفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں 

الٰہی کر لبالب جام خالی

دکھا مجھ کوں جمال لایزالی

(کلیات سراج، ص254)

عشق حقیقی کے معنی یہی ہیں کہ جس سے وہ کیا جا رہا ہووہ ہر نقائص و عیوب سے پاک ہو، اس میں سوائے صفات کے کچھ اور نہ ہو۔ جو لم یزل ولا یزال( ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہو)کی خوبی سے آراستہ ہو۔ ایسی صرف ایک ذات ہے اور اسی ذات سے عشق کرنا جائز و لازم بھی ہے۔ سراج کے پاس اس عشق کی اپنی روش ہے۔ ان کے عشق میں تجاوز زیادہ اور عقلی سودے بازی کم ہے۔

ابدی حسن کی مثال خدا کے علاوہ اور کون ممکن ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اسے دیکھنا کسی چشم بینا کے بس کی بات نہیں لیکن  سراج کے پاس اسی جمال کو دیکھنے کا اشتیاق ایسا گھر کر گیا ہے کہ وہ حسن کے اس نور کو مثل شراب پینا چاہتے ہیں۔ اِسے اپنے اندر جذب کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ذات جو ازل سے قائم، ابد تک موجود،اس سے قبل کچھ نہیں اس کے بعد کچھ باقی نہیں رہنا ہے اور جس کے حسن کی تعریف نبی آخر الزؐمان کر چکے اس کے جمال کے دیکھنے کے لیے کوئی شخص جنون میں آجائے تو کیا عجب ہے۔

 ایک اور جگہ کہتے ہیں      ؎

اَپس کی صفت آپ وہ بے نظر

کیا ہے علی کلی شئیئٍ قدیر 

(ایضاً،ص 271)

انسان بینائی کی خاطر دیدوں کا محتاج ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا رب ان خالی کٹوروں کو روشنی عطا کر ے تاکہ وہ دنیا و مافیہا کو دیکھنے کے لائق بن سکے۔ سراج جذب شوق میں اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرارب صفات سے آراستہ نہیں بلکہ خود صفات ہی صفات ہے اور عالم استعجاب میں کہتے ہیں کہ وہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے تبھی تو وہ بینائی کی خاطر نظر کا محتاج نہیں وہ بے نظر ہے لیکن باجود اس کے وہ ہر شئے کو دیکھتا ہے، ہر شے کو جانتا ہے اور ایسا جانتا ہے جیسا کہ کوئی نہیں جانتا۔

تصوف کا ایک ضابطہ ہے کہ ہمیشہ دو اشیا جو ایک دوسرے سے تضاد رکھتی ہوں وہ ایک ہی ہیں۔ یعنی تضاد ہی تکمیل ہے۔لیکن یہ جان لینا لازمی ہے کہ یہ سب کچھ کس کے لیے ہے۔ اس کا دائرہ صرف اور صرف مخلوق ہے۔یہاں حق کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس ضابطے کے مطابق زندگی اور موت ایک ہے، پستی و بلندی ایک ہے، صحیح اورغلط ایک ہے۔حق اور باطل ایک ہے۔ اس کی تفصیل کو سمجھنے کی خاطر یوں کہہ سکتے ہیں کہ فرد کے ساتھ زندگی اور موت جڑی ہے، اسی کے ساتھ پستی اور بلندی کا عمل بھی ہے، پھر اس کے صحیح ہونے یا غلط ہونے کا اشکال بھی اور اُسی کے اعمال کے تحت اس کے حق اور باطل ہونے کی نشاندہی بھی۔یوں گویا ابتدا ہو کہ انتہا اور اچھا ہو کہ برا ہو، سب کچھ ایک ہی ہے۔ 

آں حضرت ؐ سے متعلق تلمیحات:

سراج نے نبیؐعلیہ السلام سے متعلق بھی تلمیحات پیش کی ہیں۔ شاعر کی محمد عربی ؐسے محبت مسلمان کی فطرت کے خاصہ کو بیان کرتی ہے۔ آپؐ کے معاملے میں لب کشائی کوئی سہل عمل نہیں۔ اکثر شعرا اپنے جوہرِ شعوری کو بروئے کار لاکر بڑی جدوجہد سے آں حضرتؐ سے متعلق کلام کرتے ہیں۔ سراج کے پاس اس روش میں جولانی کا احساس شامل ہے۔ وہ واقعات کے حوالے سے جب کسی تلمیح کو شامل کرتے ہیں تو نبی علیہ السلام کی عظمت کو ملحوظ خاطر رکھ کر آپ کے شایان د شان کلام کرتے ہیں۔ وہ ان واقعات کے ذریعے آپؐ کو دیگر انبیا علیہم السلام سے جدا اور تمام کا سردارو اولی بنا کر پیش کرتے ہیں۔مثلاً    ؎

کہ احمد حقیقت کے میدان میں

کہا ’ما عرفناک‘ اس شان میں 

(کلیات سراج،ص 273)

یہ شعر انسان کی حدود کا عکاس ہے۔ انسان اپنے اعمال و افعال کی بنیاد پر خدا عز و جل کو جان پاتا ہے۔ قلب کی تڑپ فرد کو خدا کے قریب کرتی چلی جاتی ہے۔ اس قربت کو معرفت سے مُشَتق کیا جاتا ہے۔ لغت میں معرفت کے ایک معنی ’’ قانون قدرت یا فطری اشیاء کی واقفیت ‘‘ کے ہیں۔ لیکن اس شعر میں جہاں نبی علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ شاعر نے یہاںلفظ عرفناک سے خدا کی شکل و صورت کو اخذ کیا ہے۔یہ شعر کئی واقعات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔خاص کر معراج کے واقعے کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے۔ شاعر کا پہلا مصرع تین اہم لفظوں سے تیار ہوا ہے۔ پہلا’احمد‘ دوسرا ’حقیقت‘ تیسرا لفظ ’ میدان‘ یہاں غور وخوض نشاندہی کرتا ہے کہ نبی ؐ جس قدر خدا کی ذات سے متعارف تھے کوئی دوسرا اس میدان میں آپ کے مد مقابل آ نہیں سکتا۔ انبیاء کرام لاکھ مختلف معجزات اور اختیارات والے گزرے ہیں لیکن خدا کی ذات کو دیکھنے اور آپ سے باہم کلام ہونے کایہ موقع آدم ؑسے لے کر آخری انسان تک کسی کو حاصل نہیں ہونے والا ہے۔

قیامت میں مالک قہار سے بچانے والی ذات نبی محمدؐ ہی کی ہے۔ آپ ہی کی ذات ہے جو بروز قیامت خدا کے غصے کو فَرو کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ آپ کو امام الانبیا یوں ہی تو نہیں بنایا گیا۔شاعر کہتا ہے      ؎

عجب روز محشر کا سردار ہے

صف انبیا میں وہ سالار ہے

(ایضاً، ص 275 )

معراج کے وقت نبیؐ کی عظمت اور ان کی بڑائی کودکھلانے کی خاطر خدا تعالی نے انھیں بیت المقدس میں تمام انبیا کے روبرو کیا آپ نے وہاں امامت فرما کر اپنی سرداری اور اولیت کو ثابت کیا۔ یہی وہ عظمت ہے جسے شاعر اپنے لیے باعث تفاخر جانتا ہے۔شاعر کہتا ہے    ؎

جگت میں اوسے سلطنت ہی مدام

جماعت میں ہے انبیا کی، امام 

(ایضاً، ص 275 )

نبی کی پیروی، خدا کی پیروی ہے۔ دین حق کی پیروی ہے شاعر کہتا ہے      ؎

تمنا میں اپنی مجھے رکھ مدام

بحق محمدؐ علیہ السلام 

(ایضاً، ص 275 )

آں حضرتؐ  کی بعثت سے قبل والد کا انتقال، بچپن میںوالدہ، پھر دادا اور چاچا کے انتقال نے آپ کو بالکل اکیلا  چھوڑدیا لیکن آپ اس آزمائش میں کھرے اترے، اس کے بعد خدا نے آپ کو حق کا ہادی بنا کر شریعت کو آپؐ پر مکمل کیا شاعر آپ کی ان تکالیف سے پُر واقعات کو یکجا کرکے آپ کو درّ یتم کے نام سے پکارتا ہے، گویا یہ آپ ہی کی صفت ہے      ؎

رہِ شرح کا ہادیِ مستقیم 

شریعت کے دریا کا درّ ِ یتیم

پروردگار نے تمام انبیاء و مخلوقات میں بہترین و افضل آں حضرت ؐکو کہا ہے۔خدا نے آپؐ کو چنا اور آپؐ کے طفیل کائنات کو وجود بخشا، شاعر آپ کی ان صفات کے سایے میں رہنے کی دعا مانگتا ہے     ؎

سدا گُم رہوں کا وہ ہی رہنما

ہے خیرالورا احمد مجتبیٰ

محشر کے میدان میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بڑے سکون میں ہوں گے اور سائے میں کھڑے ہوں گے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو عاشق رسول ہوں گے۔ شاعر یہیں سے اپنا شعر اخذ کرکے کہتا ہے     ؎

محشر میں سراج کیا مجھے خوف

ایمان مرا محمدی ہے 

(ایضاً، ص 677)

سراج کے یہاں عشق رسول کی انتہا یہ ہے کہ خود خدا ان سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ آپ کی محبت اور آپ سے ملنے کے اشتیاق میں آپ کو معراج کراتا ہے۔ وہ آپ کو اپنے سامنے بٹھاتا ہے اور اپنا دیدار کرواتا ہے۔کہتے ہیں     ؎

عشق ہے عشق کہ ہے اس کو دو عالم کا راج

عشق ہے عشق کہ ہے سر پہ اسے آہ کا تاج

عشق ہے عشق کہ پایا ہے محبت میں رواج

عشق ہے عشق کہ مشہور ہوا نام سراج

عشق ہے عشق کہ خود مظہرِ رحمان ہوا

(ایضاً، ص709)

سراج دیگر انبیاء کرام کے واقعات جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ نصیحت اور اصلاح نفس کی خاطر ان کو موقع بہ موقع استعمال کرتے رہے۔ مثلاً حضرت ابراہیم کا واقعہ جو نمرود کے ساتھ پیش آیا اور خدا نے اپنے خلیل کی خاطر جب نار کو گلزار کر دیا تو سراج کہتے ہیں       ؎

لگے ہیں ہجر کے شعلے دکھا بہارِ جمال

تو کر یہ آتش نمرود، باغ ابراہیم 

(ایضاً، ص 689)  

قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کا پورا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ سراج نے اس شعر میں اسی واقعے کے ذریعے جو بات بیان کی ہے وہ آتش نمرود کے درمیان حکم خداوندی سے تیار ہوئے باغ کا اشارہ ہے کہ جب آپؑ  کو آگ میں ڈالا گیا توخدا نے آگ کو گلزار میں تبدیل کر دیا۔آپ کے پاس فرشتہ آیا کہ جو حکم ہو کیا جائے لیکن آپ نے انھیں جواب دیا کہ میرا رب سب جانتا ہے۔ اللہ تعالی کو اپنے خلیل کی ادا اس قدر پسند آئی کہ اس نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ آگ حکم خدا وندی سے ٹھنڈی ہو گئی۔ کیا ہی محبت اور تعلق خدا ہوگا کہ خدا آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ جبکہ اس کی تاثیر ہی جلانا اور گرم ہونا ہے۔ عشق کے اس جذبے سے سراج مخلوق کی حدود اور خالق کا اختیار پیش کرتے ہیں۔

موسیٰؑ کو اللہ تعالی نے کلیم اللہ بنایا۔ اپنے معبود و محبوب سے کلام کے دوران کیا بعید کہ دل بے اختیار ہو اٹھے اور دیدار کا خواہشمند ہو جائے چنانچہ موسیٰؑ نے اختیار سے باہر کی خواہش پیش کی۔رب نے انھیں ان کی حدود کا اعادہ کروایا لیکن عشق کو کیا کیجئے۔ محبوب کے دیدار کے ایک پل کے لیے عاشق کی جان جانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔شاعر اسی ضمن میں کہتا ہے۔ 

الٰہی مجھ کوں دکھلا جلوۂ نور

مرا دل کر بہارِ شعلۂ طور

(ایضاً، ص256)

 سراج کی شاعری میں جا بجا رب کائنات کی محبت اور اس کے دیدار کا شدید اشتیاق موجود ہے    ؎

تجلیاتِ محبت کوں کیوں نہ جا دیکھے

ہوا ہے شوق میرا طورِ بے خودی پہ کلیم

(ایضاً، ص 689)

یوسف علیہ السلام کا قصہ بھی قرآن کریم میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ایک نبی جس نے بچپن سے حالات کا سامنا کیا۔ بھائیوں سے دھوکا کھایا، کنویں میں ڈالا گیا، مصرمیں بطور غلام بیچا گیا اور اس کے بعد اپنے نفس کی غلام خاتون کے حصے میں آنے کے باوجود اپنے جسم و ایمان کی حفاظت کی خاطر قید کی مشقت جھیلی اور کیسے مصر کا کل مختار بن گیا۔شاعر اس تمام واقعے کو کوزے میں بند کرتے ہوئے کہتا ہے        ؎         

الہی دل کوں میرے ہے تمنا

جمال یوسفی پر کر زلیخا

(ایضاً، ص 254)

زلیخا کا عشق یوسف ؑکے لیے مصیبت بن گیا۔ آپؑ نے اس عشق کی خاطر جو یکطرفہ تھا بہت صعوبتیں جھیلیں۔ لیکن زلیخا کا اپنا عشق بھی اس کے لیے اذیت اور مستقل تشنگی کا باعث ہوا۔ جہاں ہم اس قصے سے یوسفؑ کی پاکیزگی کو اخذ کرتے ہیں وہیں ہمیں زلیخا کی چاہت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ہاں زمانے کی جہالت اور لوگوں کے پاس دین حق کی فہمائش نہ ہونے کے باعث اس عشق میں لذت نفس بھی شامل ہو گئی جس نے اس عشق کے والہانہ پن کو بھی مجروح کیا۔ سراج اس جذبے کے ُاس پاکیزہ حصے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں محبت و عشق میں حصول لذت کی خواہش نہ ہو۔

الغرض سراج کے کلام میں جا بجا ایسے اشعار موجود ہیں جن پر تصوف کی چاشنی، قلب و روح کی غذا اور صدق گوئی کے جذبات بکھرے پڑے ہیں۔ ان کی بیشتر تلمیحات قرآنی آیات میں موجود واقعات کی جانب توجہ مبذول کرواتی ہیں۔ انھوں نے قرآنی تلمیحات کے لیے خصوصی تلمیحات گھڑنے کے بجائے تمام اسلامی واقعات کے لیے آیات کے سب سے اہم لفظ کو بطورتلمیح استعمال کیا ہے۔ ان کی اکثر تلمیحات، قاری کو استعارہ محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باطن کا مطالعہ قاری کو قرآن و حدیث کی ان روشن زمینوں کی سیر کراتا ہے جہاں پر واقعات کے ایسے سر چشمے پوشیدہ ہیں جو ہدایت و رہنمائی کا سبب ہوتے اور تمام انسانیت کو نیکی، صداقت اورراست گوئی کی تلقین کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ سراج اورنگ آبادی حسینی کے کلام کا اس پہلو سے بھی مطالعہ کیا جائے اور ان باتوں کو منظر عام پر لایا جائے۔


Dr. Siddiqui Saimuddin

House No.: 1/17/81 Near Marathwada Flour Mill

Juna Bazar, Head Post Office

Aurangabad - 431001 (MS)

ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں