26/10/20

حبیب تنویر: لوک تھیٹر کی بازیافت- مضمون نگار: محمد شاہ نواز قمر


 


ہندستان کے تہذیبی افق پر حبیب تنویر(1 ستمبر 1923 - 8 جون 2009) ایک ایسے روشن ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی تابانی کا تمام تر دارومدار اس جدت و روایت کے حسین امتزاج میں پوشیدہ ہے جو اپنے فن کا خمیرعوامی روایت سے اٹھاتے ہیں اور اسے عصر حاضر کے مسائل و امکانات سے وابستہ کر کے ایک نئی جہت عطا کردیتے ہیں۔حبیب تنویر کی یہی وہ خصوصیت ہے جو انھیں جدید ہندستانی ڈرامے کے معماروں میں شامل کرتی ہے۔ اردو قارئین اور ڈرامے کے شائقین بالعموم حبیب تنویر کو ان کے شہرۂ آفاق ڈرامے ’آگرہ بازار‘ (1954) کے خالق کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظیر اکبرآبادی کی زندگی اور ان کی نظموں کی مدد سے تیارشدہ ’آگرہ بازار‘ میں اس عہد کی تہذیبی، سماجی اور سیاسی زندگی کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے لیکن ’آگرہ بازار‘ کی غیر معمولی کامیابی کا راز اس کی پیش کش میں پوشیدہ ہے۔ پرشکوہ اسٹیج، پیش کش کا نرالا انداز اور مختلف پس منظر رکھنے والے تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ اداکاروں کا جم غفیر اردو دنیا ہی نہیں ہندستانی تھیٹر کے شائقین کے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا جو ’آگرہ بازار‘ کو اردو ڈرامے کی روایت میں ایک امتیازی شان عطا کرتا ہے اور حبیب تنویر اردو ڈرامے کی تاریخ کا ایک اہم باب بن جاتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ حبیب تنویر کے ڈرامائی سفر میں ’آگرہ بازار‘ کی حیثیت منزل کی نہیں ابتدائے سفر کی ہے جو انھیں ’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘ کی طرف لے جاتی ہے۔

اگرچہ حبیب تنویر چھتیس گڑھ کے رائے پورضلع کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن رقص و موسیقی اور گیت و سنگیت وہاں کی تہذیبی فضا میں اس طرح گھلے ملے تھے کہ بچپن میں ہی وہ ان کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ ’’بچپن میں پہلی بار جو تھیٹر دیکھا اور نیچے سے اوپر اٹھتے ہوئے پردے کا چمتکار، تو میں مبہوت ہوگیا۔ ہیروئن کے رول میں بھائی جان اور ہیرو جانباز کے رول میں ہمارے پڑوسی لطف اللہ تھے۔ جب ہیرو زنجیروں میں بندھا جیل میں ڈال دیا گیا اور ہیروئن رو رو کر بین کرتی رہی تو دَرشکوں میں بیٹھا میں بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اور میری ہچکیاں بندھ گئیں‘‘

(حبیب تنویر، پردہ کھلتا ہے، دہلی: کتاب گھر، 2013، ص 17)

ابھی وہ دوسری جماعت کے طالب علم ہی تھے کہ انھوں نے اسٹیج کا عملی تجربہ کیااور ’گوہر افلاس، عرف پولش والا‘ میں ایک جوتے پالش کرنے والے لڑکے کا مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کے بہترین پرفارمینس کی وجہ سے انھیں ’ٹھاکر لال سنگھ سلور کپ‘ سے بھی نوازا گیا۔اسکول اور کالج کے زمانے میں ہی انھوں نے کئی ملکی اور غیر ملکی ڈراموں میں حصہ لیا اور اپنی بہترین کارکردگی اور دلکش آواز کے ذریعے ناظرین کو مبہوت کیا اور داد و تحسین وصول کی۔ اداکاری اور فلم بینی کے شوق نے ہی بالآخر انھیں رسمی تعلیم سے بھی دور کر دیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تھے جب انھوں نے مختلف پوزوں میں اپنی تصویریں کھنچوائیں اور ممبئی بھیج دیں اور پھر خود بھی ممبئی پہنچ گئے۔ فیکٹری میں کام کیا، فلموں میں اداکاری کی، ریڈیو کے لیے تبصرے لکھے،کئی ہندی انگریزی اخبارات کی ادارت سنبھالی اور ’اپٹا‘ کے قیام (1943) کے ساتھ ہی اس سے عملی طور پر وابستہ ہو گئے۔ یہیں پر انھوں نے ڈرامے کی مختلف ہیئتوں، لوک فارموں، علاقائی گیتوں سے شناسائی حاصل کی اور ادب و آرٹ کو ایک بڑے مقصد کے حصول کا ذریعہ بنایا۔عوامی فلاح و بہبود کا شدید جذبہ ان کے دل میں یہیں پر جاگزیں ہوا اور اسی کی تبلیغ و تشہیرمیں انھوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔

آزادی کے بعد جب اپٹا کا زوال ہوا، تو وہ دہلی آگئے۔ اسی دوران ’یوم نظیر‘ کے سلسلے میں اپنے دوست اطہر پرویز کی فرمائش پر انھوں نے ’آگرہ بازار‘ (1954) لکھا۔ آگرہ بازار کی غیر معمولی مقبولیت نے انھیں اردو ڈراما نگاری کی تاریخ میں امر کردیا۔ لیکن ’ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب‘ کے مصداق وہ ’دشت امکاں‘ میں سالوں سال بھٹکتے رہے۔ تھیٹر کی مزید تعلیم کے لیے لندن (1955)  گئے۔ وہاں انھوں نے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس (RADA)  میں تھیٹر کی رسمی تعلیم حاصل کی، پھر برسٹل اولڈ وِک تھیٹر اسکول کے مشہور و معروف تھیٹر پروڈیوسر ڈنکن راس  (Duncan Ross)  سے پیش کش، اسکرپٹ نگاری، پروڈکشن اور مکھوٹا سازی کا فن سیکھا۔ پورے یورپ کا دورہ کیا، مختلف علاقوں کا تھیٹر دیکھا، برتولت بریخت  (1898-1956)  سے ملنے جرمنی گئے لیکن تب تک ان کی وفات ہو چکی تھی۔ وہاں ان کے قائم کردہ تھیٹر گروپ Berliner Ensemble میں ان کے ڈراموں کو دیکھا اور ان کے فن کوباریکی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے جس فارم کی تلاش میں بھٹک رہے تھے اس کی جھلکیاں انھیں بریخت کے یہاں دکھائی دیں۔واپسی پر جب انھوں نے اپنے علاقے میں رائج چھتیس گڑھی لوک ناٹک ’ناچا‘ کا تنقیدی جائزہ لیا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔  ’ناچا‘ سیکولر ڈراما کی ایک چھتیس گڑھی شکل ہے جس میں ناچ اور گانے کی مدد سے کسی کہانی کو کھلے منچ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ناچا کلاکاروں کی حیرت انگیز اداکاری اور رقص و موسیقی کی صلاحیت و قابلیت سے وہ اتنے مبہوت ہوئے کہ انھیں اپنے ساتھ دہلی آ کر کام کرنے کی پیش کش کردی۔ مدن لال، ٹھاکر رام، بابوداس اور بلوا رام ان چھتیس گڑھی کلاکاروں میں ہیں جنھوں نے حبیب تنویرکی پیشکش پر لبیک کہتے ہوئے جدید ہندستانی تھیٹر میں ایک نئے رجحان کی بنیاد ڈال دی۔ مرکزی ہندستانی تھیٹر میں لوک اداکاروں کے ذریعے لوک فارموں کی پیشکش ایک بالکل نئی چیز تھی جس کا سہرا پوری طرح حبیب تنویر کے سر جاتا ہے۔

لیکن ان فن کاروںکو مین اسٹریم تھیٹر میں پیش کرنا حبیب کے لیے آسان نہیں تھا۔ ان کے سامنے مختلف دقتیں آئیں۔ سب سے پہلے جب انھوں نے ان کلاکاروں کو بیگم قدسیہ زیدی کے ’ہندستانی تھیٹر‘ کے منچ پر اتارا تو بیگم قدسیہ کو ان دیہاتی فن کاروں کی شکل و شباہت بالکل پسند نہیں آئی۔ ان کے مطابق تھیٹر جوان، خوبصورت اور مہذب فن کاروں کا تقاضا کرتا ہے اور چھتیس گڑھ کے یہ کلاکار ان معیارات پر پورے نہیں اترتے۔جب کہ حبیب کی رائے بیگم قدسیہ سے بالکل مختلف تھی اور نتیجتاً انھیں ’ہندستانی تھیٹر‘ کو خیرباد کہنا پڑا۔

حبیب تنویر اور مونیکا مشر (جن کے ساتھ بعد میں حبیب تنویر کی شادی ہوئی)نے مل کر ایک ناٹک منڈلی قائم کی اور اس کا نام ’نیا تھیٹر‘ (1959) رکھا۔ حبیب تنویر پر اب کوئی پابندی نہیں تھی اور اب وہ ڈرامائی پیشکش میں آزاد تھے۔ نیا تھیٹر کے بینر تلے انھوں نے شہری اور دیہی  فنکاروں کے ساتھ مل کر تجربہ کرنا شروع کیا اور مختلف ڈرامے جیسے ’سات پیسے‘، ’جالی دار پردے‘، ’شطرنج کے مہرے‘، ’مرزا شہرت بیگ‘، ’رستم و سہراب‘اسٹیج کیے لیکن انھیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔

1973 کے بعد حبیب تنویر نے رنگ منچ سے متعلق اپنی سوچ و فکر پر ازنو غور کرنا شروع کیا۔ چھتیس گڑھ کے وہ فن کار جنھیں اپنے ساتھ وہ بڑی امیدوں سے لائے تھے، ان کی امیدوں پر پورے نہیں اتر رہے تھے۔ جبکہ وہ ان کی صلاحیتوں کے معترف اور خوبیوں سے بخوبی واقف تھے۔اپنے فن میں کامل ہونے کے باوجود وہ حبیب کی ہدایتوں پر پوری طرح عمل نہیں کر پا رہے تھے۔ حبیب تنویر اس دوران مختلف ریاستوں کے لوک کلاکاروں سے مل چکے تھے، ان کے ساتھ کئی ورکشاپ بھی کرچکے تھے، مگر کوئی کمی تھی جسے وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے اور اس کا غصہ وہ اکثر اپنے آرٹسٹوں پر نکالتے۔ کئی برسوںکے تجربے اور متواتر ناکامی کے بعد بالآخر انھیں یہ بات سمجھ میں آئی کہ جن لوک کلاکاروں کے ساتھ وہ کام کر رہے ہیں انھوں نے نہ تو کبھی کوئی رسمی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی ان کی مادری زبان اردو ہے۔ اول تو یہ کہ حبیب تنویر اب تک جو ڈرامے پیش کر رہے تھے وہ اردو کے تھے اور ناچا کلاکاروں کی مادری زبان چھتیس گڑھی تھی اور وہ اردو اچھی طرح نہیں بول سکتے تھے۔ دوسری سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی بھی طرح کی بندش کے عادی نہ تھے یعنی وہ کھلے میدان میں ڈراما کرنے والے آزاد کلاکار تھے جہاں حرکت و عمل پر کوئی پابندی نہ تھی۔ حبیب تنویر ان ناخواندہ فنکاروں پر اپنی مغربی تعلیم اور اردو زبان تھوپ رہے تھے۔

مادری زبان کاا ستعمال اور حرکت و عمل کی آزادی کے ساتھ امپرووائزیشن کی تکنیک نے جیسے ان کلاکاروں کے فن میں جان ڈال دی۔ ان کی اداکاری میں وہ قوت اور لچک لوٹ آئی جس کی ان سے امید کی جاتی تھی۔ اسی دوران حبیب تنویر نے رائے پور میں ایک ناچا ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ چھتیس گڑھ کی مختلف ناچا منڈلیوں نے اس ورکشاپ میں شرکت کی۔ اس ورکشاپ کا مقصد ایک ایسا ڈراما تیار کرنا تھا جو ہیئت و موضوع دونوں اعتبار سے ’ناچا‘ سے ماخوذ ہو۔  اسی ورکشاپ کا حاصل ان کا مشہور ڈراما ’’گاؤں کا ناؤ سسرال مور ناؤ داماد‘‘ تھا، جسے تین مختلف لوک کہانیوںمیں تھوڑی بہت تبدیلی کر کے ایک کولاژ کی صورت میں انھوں نے پیش کیا تھا۔ حبیب کا یہ تجربہ کافی کامیاب رہا اور چھتیس گڑھ میں ہی نہیں دہلی کے ناظرین میں بھی اسے کافی مقبولیت ملی۔ اس کی کامیابی کے ساتھ ہی حبیب کے لیے رنگ منچ کا نیا دروازہ کھل گیا۔ ’’مجھے محسوس ہوا کہ دہلی نے مجھے قبول کر لیا تھا۔ ۔۔۔ یہ میری زندگی کا اہم موڑ اور چھتیس گڑھی زبان کو جدید ڈرامے کی زبان کی حیثیت سے متعارف کرانے کی جانب پہلی کامیابی تھی۔‘‘حبیب اب تک شہری فنکاروں کے شانہ بشانہ دیہی کلاکاروں کا استعمال کر تے رہے تھے لیکن اس ڈرامے کی غیر معمولی کامیابی کے بعد انھوں نے اپنی پوری توجہ چھتیس گڑھی کلاکاروں پر مرکوز کر دی اور اب ان کی پوری کاسٹ انھی لوک کلاکاروں پر مبنی تھی۔

رنگ منچ کی دنیا میں حبیب تنویر کا سب سے اہم کارنامہ ’چرن داس چور‘ (1974)  ہے۔یہ وہ ڈراما ہے جو نہ صرف ان کی اور ان کی ناٹک منڈلی کی عالمی شہرت کا سبب بنا بلکہ 1982 کے ’ایڈنبرا انٹرنیشنل ڈراما فیسٹیول ‘میں ’فرنج فرسٹ ایوارڈ  (Fringe Firsts Award)  کا خطاب جیت کر ہندستانی تھیٹر کو بھی عالمی سطح پر ایک اونچا مقام دلایا۔ ’چرن داس چور‘ موجودہ عہد میں لکھے گئے ڈراموں میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے اور اسے تمام ڈرامائی عناصر کا مثالی نمونہ سمجھا جاتا ہے اور یہ ڈراماحبیب تنویر کے ایک مکمل تھیٹر فارم کی سبھی بنیادی خصوصیات سے بھرپور ہے۔  (انجم کاٹیال: حبیب تنویرٹو وارڈس اَین اِنکلوزیو تھیٹر، ص 63)

 یہ ڈراما بھی ’گاؤں کا ناؤ سسرال مور ناؤ داماد‘ کی طرح ایک ورکشاپ کا ہی نتیجہ تھا۔ اس کا پلاٹ راجستھان کی مشہور فوک کہانی کار وجے دان دیتھا کی کہانی سے ماخوذ ہے۔ یہ ایک ایسے چور کی کہانی پر مبنی ہے جو بے حد بہادر، نڈر اور اپنے فن میں ماہر ہونے کے ساتھ بے حد سچا، دیانتدار اور اپنے وعدے پر جان دے کر بھی قائم رہنے والا ہے۔

حبیب تنویر نے سب سے پہلے اس کہانی کو راجستھان میں چل رہے ایک ورکشاپ میں ڈرامائی شکل دینے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ 1974 کے اواخر میں بھِلائی (چھتیس گڑھ) کے ورکشاپ کے دوران انھوں نے اس کہانی پر دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔ یہ ورکشاپ بھلائی کے کھلے میدان میں چل رہا تھا۔ یہ ستنامی تقریب کا موقع تھا اورجب انھوں نے ستنامیوں کو بار بار اسٹیج پر آتے جاتے دیکھا تو انھیں اس کہانی کو پیش کرنے کی ترغیب ملی۔انھوں نے یہ اعلان کیا کہ میرے پاس ایک نامکمل ڈراما ہے لیکن کیونکہ یہ موقع ستنامیوں کے جشن کا ہے اور ان کی زندگی کا موٹو بھی سچائی یعنی ’ستیہ ہی اِشور ہے، اِشور ستیہ‘ ہے، کیوں نہ اس ڈرامے کو یہاں پیش کیا جائے۔ اس طرح حبیب تنویر نے ’نیا تھیٹر‘ اور چھتیس گڑھ کی مختلف ناٹک منڈلیوں کے اداکاروں کے ساتھ مل کر شروع میں 40 منٹ کا ایک برجستہ  (Improvised)  ڈراما پیش کیا جسے وہاں خوب سراہا گیا۔ وہ اس پر مسلسل کام کرتے رہے اور جب دہلی کے ناظرین کے سامنے اسے پیش کیا تو ان کا رد عمل خود حبیب تنویر کی زبانی سنیے:

’’کمانی آڈیٹوریم میںجب اسے پہلی بار پیش کیا گیا تووہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔ وہ (چرن داس) مرگیا۔ مکمل خاموشی۔ عجیب خاموشی۔ ناظرین یہ سوچتے ہوئے کھڑے ہو گئے کہ اگلی لائن کب آئے گی؟ پریشان ۔۔ ۔ اور پھر باہر جانے سے پہلے وہ رکے، گھومے اور پھر کئی منٹوں کے لیے دروازے پر بے چین کھڑے رہے۔ ‘‘

(حبیب تنویر: اِٹ مسٹ فلو، ص 68)

چرن داس چور کی غیر معمولی مقبولیت کے بعد حبیب نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب انھوں نے پوری توجہ چھتیس گڑھ کی لوک کہانی، موسیقی، رقص و نغمہ اور رسم و رواج کو ڈرامائی صورت میں ڈھالنے کی طرف مبذول کر دی۔ اس کے لیے انھوں نے چھتیس گڑھی زبان کو ہی وسیلۂ اظہار بنایا۔ ’چرن داس چور‘ کے بعد انھوں نے کئی اہم ڈرامے اسٹیج کیے جیسے ’ہرما کی امر کہانی‘، ’بہادر کلارن‘، ’دیکھ رہے ہیں نین‘ اور ’کام دیو کا اپنا بسنت ریتو کا سپنا‘ وغیرہ مگر ’چرن داس چور‘ کی ہمسری کوئی نہیں کر سکا۔

1990کے اواخر میں حبیب تنویر اپنے تھیٹر گروپ کے ساتھ دہلی سے بھوپال منتقل ہوگئے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے بقیہ ایام گزارے۔ انھوں نے تھیٹر کے اپنے ساٹھ سالہ کیریئر میں تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد ڈرامے اسٹیج کیے جن میں کئی میل کے پتھر بھی ثابت ہوئے۔

Md Shahnawaz Quamar

08, Kaveri Hostel, JNU

New Delhi-110067

Mob: 9599493749

 

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں