26/10/20

گجرات میں اردو غزل 1950 کے بعد - مضمون نگار غلام محمد انصاری

 


جغرافیائی حالات، سماجی حالات اور سیاسی حالات میں جو تبدیلیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ ان کا سیدھا اثر ہماری زندگی پر رونما ہوتا ہے  اور اسی کے تحت ہماری زندگی میں نئی سوچ، نئی تبدیلی، نئے تغیرات اور زندگی گزارنے کے نئے پیمانے داخل ہوتے ہیں۔ جب ہماری روزمرّہ کی زندگی تجربات سے روشناس ہوتی ہے تو وہ تجربات ایک عام آدمی کے ذہن اور اس کی زبان سے لے کر ادیبوں کی تحریروں میں بھی نمایاں ہونے لگتے ہیں۔

1950 کے بعد گجرات میں مختلف ذرائع سے کیے گئے اظہار رائے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں بھی زندگی کے متاثر کن عنوانات کو مختلف پیمانے پر ادیبوں نے اپنا ذریعہ ٔ اظہار بنایا ہے اور ان ذرائع اظہار میں اگر یہ کہا جائے کہ ’غزل‘ نے سب سے زیادہ عوام کو متاثر کیا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

جہاں تک 1950 کے بعد کی اردو غزل اور گجرات کا تعلق ہے تو سب سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ معاملہ 67 سال پر محیط ہے۔ اس دوران بہت کچھ بدلا، بہت کچھ نیا محسوس ہوا۔ 1950 کے بعد کے دور کو ایک طرح سے ’آزادی یعنی 1947 کے بعد‘ ہی سے تصور کیا جائے گا۔ اس دوران آزادی کی جدّ و جہد میں شریک ہو کر ایک نسل اپنے تجربات اور اظہار کے ساتھ بوڑھی ہو چکی تھی، دوسری نسل پروان چڑھ رہی تھی، ہاں مگر دیر تک دونوں نسلوں پر ملک کی آزادی کا معاملہ اور اس سے پیدا ہونے والے خوشگوار اور نا خوشگوار حالات حاوی تھے۔ ان تجربات کو لے کر جب گجرات ذرا سا آگے بڑھا تو اس کی آزادی کامعاملہ پروان چڑھا، نتیجتاً 1مئی1960 کو گجرات نے بھارت میں ایک خودمختار صوبے کی حیثیت اختیار کی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ادیبوں کی ایک نئی کھیپ سامنے آئی۔ جس نے غزل کے علاوہ دوسرے کئی ذریعہ اظہار کو سامنے رکھا، حالانکہ ’غزل‘ تب بھی اتنی ہی مقبول تھی اور اس کے بعد بھی اور آج بھی اتنی ہی مقبولیت رکھتی ہے۔ یہاں سے اگر یہ کہا جائے کہ گجرات میں بھی جدید اردو شاعری نے اپنے قدم جمائے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ جدیدیت کے بعد مابعد جدیدیت اور اب تو غزل اس سے بہت آگے نکل گئی ہے۔

جہاں تک گجرات کی اردو غزل کی بات ہے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ صوبائی ادیبوں نے جہاں ایک طرف برسات کی رم جھم پھواروں میں ذہن کو بھگوکر اپنا کلام کہا ہے تو دوسری طرف شدید گرمیوں کی کڑی دھوپ میں بھی وہ تھکے ہارے نہیں بلکہ اپنی منزل کی سمت بڑھتے ہی رہے۔اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ گجرات کی اردو شاعری نے بھی نہ صرف ملک گیر پیمانے پر بلکہ عالمی پیمانے پر اپنا اثر دکھایا تو غلط نہ ہوگا، مزید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 1950 کے بعد گجرات کے بیشتر اردو شعرا نے اردو ادب میں باقی رہنے والی شاعری کی ہے۔

دنیا میں کسی بھی زبان میں ذریعۂ اظہار کسی مخصوص طبقے یا گروہ کا محتاج یا پابند نہیں رہا، جس نے اپنا اندازِ بیاں پیدا کیا وہ تحریر کرتا چلا گیا۔ اس لحاظ سے گجرات کو دیکھا جائے تو ہر طبقے کے لوگوں نے اردو میں شاعری کی ہے یا اردو کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ اس میں اقتصادی پیمانے پر اعلیٰ طبقے کے لوگوں کا بھی شمار ہوتا ہے اور ایک مل مزدور کا بھی جن کی مشقِ سخن بھی جاری رہی اور مل کی مزدوری ومشقت بھی۔

 احمدآباد کے علاوہ سورت، بڑودہ، بھروچ، پالن پور، جام نگر، نوساری، مہسانہ، داہود، پیٹلاد، جونا گڑھ، کھمبات، بھروچ، جمبوسر اور آمود پر مشتمل کئی اضلاع گجرات میں شعر و سخن کا مرکز رہے۔ یہاں سے  بیشتر شعرا کے قابلِ قدر مجموعے بھی شائع ہوئے جنھیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔

گجرات چونکہ ہزاروں سال سے بھارت کا ایک اہم تجارتی مرکز رہا ہے اس لیے یہاں ملک اور بیرونِ ملک کے مختلف لوگوں کا آنا جانا  رہا۔  اس لحاظ سے دیکھا جائے تو گجرات میں بھارت کے مختلف صوبوں کے لوگوں نے آکر یہاں نہ صرف قیام کیا بلکہ گجرات ہی کو اپنا گھر بنا لیا، اس میں اترپردیش، بہار،مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں کے لوگوں نے بھی آکر یہاں قیام کیا اور اپنی روزی روٹی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا شعری سفر بھی شروع کیا۔حالانکہ کہ یہ آمد1950 سے پہلے بھی رہی اور اس کے بعد بھی نیز اب بھی جاری ہے۔

1950 کے بعد گجرات سے جو شاعری اور شعر فہمی چھن کر آتی ہے وہ بڑی خوبصورت اور پر کشش ہے۔ اُس نے زندگی کو ایک الگ انداز سے دیکھا ہے، پرکھا ہے اور اُس سے جو نچوڑ سامنے آیا ہے وہ ملک کے کسی بھی شاعر کے شعر کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے خلش بڑودوی کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے جس میں زندگی کے سرد و گرم تجربات کو نہایت قریب سے محسوس کیا جا سکتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ 1950 کے بعد جس پل صراط سے گجرات میں اردو غزل گزری ہے یہ شعر اس کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے        ؎

دل لگانا بُرا نہیں لیکن

لوگ ملتے نہیں طبیعت کے

کیا یہ شعر کبھی مر سکتا ہے؟  اس قدر آسان اور سلیس زبان و انداز سے کہا گیا شعر اردو غزل میں اپنے آپ اپنا مقام بنا لیتا ہے۔ اور اُس خیالِ خام کو رد کرتا ہے کہ گجراتیوں کی اردو اچھّی نہیں ہوتی۔ اردو شاعری میں ایک بڑی تعداد میں اشعار زندہ رہے اور ضرب لامثال بنے۔ خلش بڑودوی کا یہ شعر بھی ایسا ہی ہے جو ذہن میں کسی پلاننگ، سابقہ منصوبہ بندی اور دانستہ کوشش کے بغیریاد رہ جاتا ہے۔ بڑی، سخت اور مشکل بحروں کے علاوہ آسان اور چھوٹی بحروں میں بھی گجرات میں عمدہ شاعری ہوئی ہے۔  میں اس خیال اور منصوبہ بند طریقے سے پھیلائی گئی غلط فہمی کو بھی رد کرتا ہوں کہ 1950 کے بعد سے شاعری اور غزل کے نام پر گجرات سے صرف ایک یا دو یا چند نام ہی لیے جا سکتے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ اردو غزل کو لے کر ایک بڑی تعداد اچھّے شعرا کی دکھائی دیتی ہے جو اپنے آپ میں ایک اپیل رکھتی ہے اور اس بات کی منتظر رہی کہ کبھی اُن پر صرفِ قلم کیا جائے۔ مگر انھیں دانستہ طور پر پروجیکٹ نہیں کیا گیا۔لیکن وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، ان شعرا کا کہا گیا کلام اپنی ایک دنیا رکھتا ہے اور اس بات کا پورا یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن اپنی بھر پور طاقت کے ساتھ سامنے آئے گا۔

1950 سے 1980کے دوران گجرات کے جو شعرا اپنی جانب متاثر کرتے ہیں اُن میں فخرِ گجرات جنابِ فخر احمدآبادی، کلیم احمدآبادی، راز صدیقی شاہجہانپوری، حکیم بشیر احمد خاں زخمی احمدآبادی، خلیل احمدآبادی، حزیں ؔقریشی، محمد نظیر نصیری فیض آبادی، کامل چشتی احمدآبادی، وحید بنارسی، عیسیٰ خاں نشتر، عاشق جونپوری، خدا داد خاں وحشی، عادل  دہلوی، ضیا ناگوری، مرزا کوثر بیگ، منشی نسیم احمد صدیقی کامل امروہوی، زوّار حسین احمر، قمر احمدآبادی، خیال قریشی، بیکل جونپوری، تاج ٹونکی، کامل جونپوری، شاطر اصلاحی، محمود مائل، شور الہ آبادی، نادم اندوری،شمس ؔقریشی اور رحمت امروہوی، اثر احمدآبادی،  سرشار بلند شہری، فنا پرتاپ گڑھی نیز نفیس دھامپوری کا شمار ہوتا ہے۔اس دوران اور بھی قابلِ قدر شعراہیں جن کے نام اور کلام تک تادمِ تحریر رسائی نہ ہو سکی۔

1950 کے بعد گجرات کی شاعری اعتماد سے بھر پور ہے اور اپنے اندر ایک وسیع اور سوچنے پر مجبور کر دینے والا تجربہ رکھتی ہے۔غزل میں متعدد شعرا نے نہایت صاف گوئی سے کام لیا ہے۔انہی استاد شعرا  میں ایک معتبر نام خدا داد خاں وحشیؔ کا آتا ہے۔ ان کا شعر دیکھیے اور سوچیے کہ زندگی کی کڑوی سچّائی کو کس سلیقے سے اور کس ہنرمندی پر مشتمل دعوے کے ساتھ انھوں نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ شعر دیکھیں          ؎

یا تو دیوانہ ہنسے یا وہ جسے توفیق دے

ورنہ اس دنیا میں رہ کر مسکرا سکتا ہے کون

کچھ اشعار تو ایسے نکل کر سامنے آتے ہیں جو پرزور طریقے سے غزل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اشعار کو اردو ادب میں کہیں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں استاد شاعر شور الہ آبادی کا شعر دیکھیں اور محسوس کریں کہ کسی چیز کی تعمیر کتنی مشکل سے ہوتی ہے      ؎

خوں کتنی بہاروں کا پیا نوکِ قلم نے

تب جاکے کہیں آپ کی تصویر بنی ہے

1950 کے بعد گجرات کی بہترین اردو شاعری میں اس شعر کا شمار کیا جا سکتا ہے۔

شیشے اور پتّھر کے استعارے اردو شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں۔ شمس احمدآبادی کے یہاں بھی ان کا برمحل استعمال ہوا ہے۔ اس شعر میں انھوں نے اپنی ایک پوزیشن اور اپنے ساتھ ہوئے کھلواڑ کو جہاں پیش کیا ہے وہیں اپنے خدشات کا اظہار بھی نہایت سلیقے سے کیا ہے۔ شعر دیکھیں         ؎

اب مجھے نیند میں پہنا دیا شیشے کا لباس

کوئی مارے نہ صداؤں کے نُکیلے پتّھر

اسی سلسلے کی ایک اور کڑی، استاد شاعر محمد نظیر نصیری فیض آبادی کی ایک غزل کے تین اشعار میں پیش کرنا چاہوں گا، مجھے پوری امید ہے کہ یہ اشعار آپ کو بور نہیں کریں گے بلکہ غزل کیا ہوتی ہے اور غزل کس سلیقے سے کہی جاتی ہے اُس کیفیت سے آپ آشنا ہوں گے۔ اردو غزل میں لمبے عرصے تک جو روایت بر قرار رہی، جو کہنے کا انداز رہا اور جو اُس کی فریم رہی اُس فریم میں رہ کر پورے اعتماد کے ساتھ غزل کہی گئی ہے۔ غالب کی غزل پر غزل کہنا اور وہ بھی کامیابی کے ساتھ یہ بھی ایک بڑی بات ہے        ؎

خوں رگوں میں ہے ابھی جتنا بھی چاہے لے لے

پاؤں ہو جائیں گے محتاجِ حنا میرے بعد

بجلیوں کی ہے اُچھل کود میرے پینے تک

پھوٹ کے روئے گی ساون کی گھٹا میرے بعد

کسی کے شعر پر شعر کہنا ایک بات ہے اور غالب کے شعر پر شعر کہنا دوسری بات ہے۔ یہاں نصیری فیض آبادی نے پورے احتجاج کے ساتھ نہ صرف شعر کہا ہے بلکہ مقطع کا شعر کہتے ہوئے غالب کو ایک طرف سوالات کے گھیرے میں کھڑا کر دیا ہے تو دوسری طرف اس قربانی کے لیے انھوں نے اپنے آپ کو بلا شرط پیش بھی کر دیا ہے۔ اس طرح گجرات سے اردو شاعری کو اپنا ایک یادگار اور باقی رہنے والا مقطع بھی دیا ہے۔ شعر دیکھیں        ؎

ہے نصیری کا مکاں کیسے کہا غالب نے

کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد

بارہا ایک سے ہونے والے تجربات آدمی کو تھکا دیتے ہیں اور کبھی کبھی وہ ایک ایسے تجربے سے ہمکنار ہوتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہو پاتا۔ لہٰذا نادم اندوری کی طرح ایک عام آدمی کے پاس یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ      ؎

جانور کے کاٹ لینے کا تدارُک ہے مگر

آدمی کو آدمی کھائے تو اس کا کیا علاج

ہر شاعر نے ہمیشہ چوٹ کھائی ہے اور چوٹ کھانے کے بعد ہی اس کی شعری دنیا میں نُدرت پیدا ہوئی ہے۔ لیکن چوٹ کھانے کا تجربہ کیا ہوتا ہے اگر اس کی تحقیق کی جائے تو نفیس دھام پوری کا یہ شعر ہماری تلاش کا جواب بن سکتا ہے۔ ایک سچّی بات کتنی خاموشی کے ساتھ انھوں نے کہی ہے۔ شعر دیکھیں            ؎

یہ بتا سکتے ہیں محسوس ہی کرنے والے

چوٹ لگتی ہے کہاں درد کہاں ہوتا ہے

1950 کے بعد گجرات میں اردو شاعری اپنے عروج پر رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس میں ایک نیا چیپٹر داخل ہوا۔ کچھ نئے تجربات کے ساتھ ایک ایسا خمیر تیار ہوا جس نے جدید شاعری کو جنم دیا۔ ملک اور بیرونِ ملک میں جاری اس تحریک کا گجرات پر بھی معقول اثر ہوا اور یہاں بھی دیگر زبانوں،بالخصوص گجراتی شاعری کے ساتھ ساتھ اردو شاعری میں بھی جدید شاعری نے آنکھیں کھولیں۔ حالانکہ اردو شاعری میں بہت پہلے سے اس کی جھلک دکھائی دے رہی تھی مگر پوری طرح سے کھل کر اور غزل کی حد بندیوں نیز اُس کے مرتب لوازمات اور فریم سے سیاسی اور سماجی حالات نے باہر نکلنا ناگزیر کر دیا لہٰذا جدید شاعری کا انداز سامنے آیا۔

روایتی لب و لہجہ اور اندازِ فکر سے ہٹ کر جب گجرات میں اردو شاعری ہونے لگی تو اُس میں سب سے بڑا نام محمد علوی کا سامنے آیا۔ محمد علوی کے ساتھ ساتھ کچھ اور شعرا نے جدید شاعری کا دامن سنبھالا اور اردو شاعری کو نئے تصورات سے روشناس کرایا۔ اس قبیل سے گجرات سے جو نام اُبھر کر سامنے آئے اُن میں محمد علوی اور عادل منصوری کے ساتھ ساتھ رشید افروز، قیوم کنول، جینت پرمار، چینو مودی ارشاد، ریاض لطیف، تنویر صدیقی اور صادق نور کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ 

ان شعرا نے آزاد نظموں کے ساتھ ساتھ جدید اردو غزل کو بھی اپنے ہنر سے اپنے کینوس پر پھیلایا اور اسے ایک نئی امیج بخشی۔ اس ضمن میں محمد علوی ایک ایسا کامیاب  نام رہا جس پر ملک اور بیرونِ ملک کے تقریباً تمام بڑے ادیبوں نے نہ صرف اپنی توجہ دی بلکہ نہایت خلوص کے ساتھ مضامین بھی لکھے اور اردو کی جدید شاعری میں محمد علوی کا مقام قبول بھی کیا۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے علاوہ گجرات اردو ساہتیہ اکادمی نے محمد علوی کو گورو پرسکار سے بھی نوازا۔

محمد علوی نے نہایت قریب کی اور دو ٹوک انداز میں غزلیں کہیں۔ جو ہماری سماعت سے ٹکرانے کے ساتھ ہی ہمیں ایک خوشگوار تجربے کا احساس دلاتی ہیں۔ محمد علوی کی ایک غزل کے دو شعر دیکھیں       ؎

کبھی تجھ سے ایسا بھی یارانہ تھا

مصلّے سے اُٹھنا گوارا نہ تھا

بہت خوش ہوئے آئینہ دیکھ کر

یہاں کوئی ثانی ہمارا نہ تھا

 محمد علوی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا نام عادل منصوری کا بھی ُابھر کر سامنے آیا۔حالانکہ ان دونوں کی گھریلو زبان گجراتی تھی اس کے باوجود اردو میں زندہ رہنے والی شاعری کی، غزلیں کہیں۔ اور یہ ثابت کر دیا کہ اہلِ زبان ہونا ہی بڑی بات نہیں ہوتی۔

عادل منصوری جتنا بڑا نام اردو شاعری میں ہے اُتنا ہی بڑا نام گجراتی شاعری میں بھی ہے۔ اردو کے ساتھ ساتھ عادل منصوری آج بھی گجراتی نصاب میں شامل ہیں۔ گجراتیوں نے انھیں بہت پیار دیا۔ اس موقعے پر گجراتی کا ایک نہایت خوبصورت مصرع میں ضرور پیش کرنا پسند کروں گا جس نے گجراتی زبان کو ایک نئی سوچ، ایک نئی سمت اور ایک نیا احساس بخشا اور وہ مصرع یہ رہا کہ ’’ندی نی ریت ماں رمتو نگر ملے نہ ملے‘‘ حالانکہ یہاں مجھے ان کی اردو غزل پر بات کرنی ہے۔ شعر دیکھیں           ؎

جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر

وہ تصویر باتیں بنانے لگی

بسمل کی تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا

میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا

کیوں چلتے چلتے رُک گئے ویران راستو!

تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو

گھر سے میرے قدم جو گلی کی طرف بڑھے

دروازے پوچھنے لگے صاحب کدھر چلے

جدید شاعری اور غزل میں یہ بھی ہوا کہ عوام کی بات عوام کے لب و لہجہ میں کی گئی۔ بہت بھاری بھرکم الفاظ اور محاورات کا استعمال نہیں کیا گیا۔ نہایت صاف اور سلیس زبان جو بدلتے وقت کے ہمراہ اپنے انداز میں ڈھلتی چلی گئی۔ اُس نے اپنے ایک نئے مزاج کا احساس دلایا۔ حالانکہ اس نئے اندازِ فکر کے سامنے پُرکھوں کی شاعری کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ کبھی ممکن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جدید رنگ میں کہنے والوں کو طعنوں اور دل شکنی کا شکار بھی ہونا پڑا اور اُنھیں جل بھُن کر ’جدیدیے‘ بھی کہا گیا۔ مگر یہ سلسلہ رُکا نہیں اور قیوم کنول نے کچھ اس انداز میں اپنا جدید رنگ دکھایا        ؎

میرے سائے سے کترا کر گیا ہے

ترا احساس کب سے مر گیا ہے

زنجیر میرے نام کی کھینچی گئی جہاں

تعریف کی ٹرین وہیں پر ٹھہر گئی

حال اُس کا چلو پوچھیں کہ آج اُس کی طرف سے

کیوں اپنی طرف کوئی بھی پتّھر نہیں آیا

قیوم کنول نے جدید رنگ میں زیادہ تر اپنی بحریں پیدا کیں اور اُن آسان یا مشکل بحروں میں جدید شاعری کو ایک امتیاز بخشا۔ یہ اور بات ہے کہ بہت کم لوگوں نے قیوم کنول کا مطالعہ کیا ہے بلکہ دانستہ دامن بچا کر نکل گئے۔ 1950 کے بعد گجرات کی اردو غزل اور اردو شاعری نے جہاں بہت سے تجربے گئے وہیں اس کے ساتھ اس طرح کا سوتیلا پن بھی جاری رہا۔ اس کے سبب دانشوروں کے سامنے ملک گیر پیمانے پر گجرات کی اردو شاعری کی صحیح اور واضح صورت سامنے نہ آسکی۔

چینو مودی ارشاد، گجراتی کا ایک بہت معتبر نام ہے۔ انھوں نے گجراتی زبان کی تقریباً ہر صنف پر کام کیا ہے، بہت سارے ایوارڈز آپ کے حصے میں آئے اور بہت سارے ایوارڈز اب بھی آپ کے منتظر ہیں۔ ایک بڑی بات یہ ہے کہ چینو مودی کے مختلف کاموں پر کئی لوگوں نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ رہی بات اردو غزل کی، تو بچپن میں چینو مودی کو اردو اور فارسی پڑھنے کا موقع ملا، اس لیے کہیں نہ کہیں ایک شاعر ہونے اور زبان کو قریب سے جاننے کے ناطے آپ نے اردو میں بھی شاعری کی۔

چینو مودی کے تعلق سے ندا فاضلی نے لکھا کہ’’چینو مودی ارشاد کی غزل میں دونوں زبانوں کے ملاپ نے جو فضا سازی کی ہے وہ اُس اردو میں کم کم ہی نظر آتی ہے جس کی وراثت عوامی امانت سے محروم ہے۔ میں اردو دنیا میں ارشاد اور ان کی غزل کا استقبال کرتا ہوں۔‘‘ جبکہ وارث علوی نے لکھا کہ ’’ چینو مودی کا اردو شعرا کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ عادل اور علوی کے ساتھ گہری دوستی رہی ہے۔ ظفراقبال کے کئی شعر اُسے یاد ہیں۔ اردو غزل کی طرف چینو مودی کا آنا بالکل فطری بات ہے۔‘‘ چینو مودی کے چند جدید شعر دیکھیں        ؎

بے لگام گھوڑوں کی ہنہناتی آوازیں

رت جگے مسافر کی نیند کو کچلتی ہیں

آپ کو وعدہ رہا ارشاد کا

میں ملوں گا نیک دل انسان میں

کب دھڑکنا چھوڑ دے گا کیا پتہ

اب گھڑی چابی سے وابستہ نہیں

چینو مودی کے ہمراہ اردو شاعری میں ایک اور نام حنیف ساحل کا سامنے آیا۔ گجراتی زبان پر مکمل دستر س ہونے کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی کامیاب شاعری کی۔ مگرحنیف ساحل کے یہاںکلاسیکل رنگ اور اپنے اندر ایک برق رفتار اپیل رکھنے والا اندازِ بیاں ملتا ہے۔ خوبصورت بحروں میں انھوں نے نہایت خوب صورت اور دلکش غزلیں کہی ہیں۔ اردو میں غزلوں کے کئی شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ان کے شعر دیکھیں        ؎

قصّہ گو سے خوش بیانی مانگ لے

تیری اپنی ہے کہانی مانگ لے

آج وہ تجھ پر مہرباں ہے بہت

قربتوں کی جاوِدانی مانگ لے

جدید شاعری کے ساتھ ساتھ گجرات میں کلاسیکل اور روایتی رنگ میں کہنے والوں کی ایک کھیپ بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان میں کئی معتبر نام ہمارے سامنے آتے ہیں۔جن میں خلیل دھنتیجوی، جمال قریشی، خواجہ سنبھلی، مختار جونپوری، کفیل احمدآبادی، اسماعیل خالدی صاحب، ایم کے ارمان،  نظر سورتی، عمر انصاری، وسیم ملک، منظر نوساروی، ڈاکٹرسیّد علی ندیم، ڈاکٹرانجنا سندھیر، شبنم انصاری، عباس دانا، عقیل شاطر، مظہر رحمن، شکیل اعظمی، انیس منیری، وفا جونپوری کے علاوہ سامر کھتری اورہرش برہم بھٹ کا ایک بڑا نام ہمارے سامنے آتا ہے۔ واضح رہے کہ گجرات میں غزل کہنے والے شعرا کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے۔

جہاں تک رحمت امروہوی کا تعلق ہے۔ رحمت صاحب بڑی نفاست سے شعر کہتے رہے۔ زیادہ تر انھوں نے غزلیں ہی کہیں۔ پرانی وضع قطع کے مالک تھے۔ بات چیت کا لب و لہجہ بھی نرالا پایا تھا۔ ’اضافہ‘ نامی شعری مجموعہ ان کا کافی مقبول ہوا۔ اپنے تجربوں کو نہایت سلیقے سے بیان کیا ہے۔ ان کے چند اشعار دیکھیں       ؎

جدا ہوئے تو پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا

جو مل گئے تو پھر ٹوٹ کر ملے بھی بہت

تھک گیا دُعا کر کے دستِ بے دعا دیکھوں

کوئی پھل گرے شاید، شاخ کو ہلا دیکھوں

شعلوں کے درمیاں مرا گھر مدّتوں رہا

میں حادثوں سے سینہ سپر مدّتوں رہا

گجرات سے دکھائی دینے والی ایک لمبی فہرست کے درمیان ہمیں ایک چمکتا ہوا نام خلیل دھنتیجوی کا دکھائی دیتا ہے۔ خلیل دھنتیجوی پوری طرح سے غزل کے شاعر ہیں۔ تعلیم صرف چوتھی جماعت تک آپ کو حاصل ہو سکی مگر اب تک چار طلبا آپ کے گجراتی ادب پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے ان کا لوہا منوایا ہے۔ گجراتی کے علاوہ خلیل دھنتیجوی اردو  ادب میں بھی ایک معتبر نام ہے۔ نہایت مخصوص آواز اور انداز کے مالک ہیں۔ان کا ایک ہی شعر آپ کے مزاج کا رنگ بدل کر رکھ دے گا۔ شعر دیکھیں      ؎

اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں

اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں

اردو دنیا کے علاوہ فلم انڈسٹری میں بھی آپ کا یہ شعر کافی مشہور رہا ہے۔ لہٰذا1950 کے بعد ہم جس اردو غزل کی بات کر رہے ہیں، اس میں سے کیا خلیل دھنتیجوی کے اس شعر کو رد کیا جانا ممکن ہے؟ کیا ایک لمبی اور تھکا دینے والی شاعری کے بعد خلیل دھنتیجوی کا یہ شعر اردو دنیا کو ایک نیا احساس اور ایک نئے تحفے سے ہمکنار نہیں کراتا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ ماننا ہوگا کہ 1950 کے بعد گجرات میں بھی عمدہ شاعری ہوئی ہے۔

اسی سلسلے کا ایک اور یادگار نام ہے اثر احمدآبادی، پیشے سے مدرس رہے، بچّوں کے لیے اردو دنیا میں باقی رہنے والی نظمیں لکھیں۔ ’آئی سبزی والی‘ اور اثر احمدآبادی اگر یہ کہا جائے کہ ایک دوسرے کے ’پریائے ‘بن گئے تو غلط نہ ہوگا۔ اثر احمدآبادی خالص غزل کے شاعر تھے۔ آپ نے کافی تعداد میں قوّالوں کے لیے بھی غزلیں کہیں مگر قوّالوں کے لیے لکھنے سے کوئی بڑا نہیں ہو جاتا۔ اردو غزل کے نام پر اثر احمدآبادی نے جو بھی کلام کہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ نہایت سیدھا اور سدھا ہوا لہجہ اثرـ احمدآبادی کے حصّے میں آیا۔ہاں مگر اس کا افسوس رہے گا کہ اثر احمدآبادی کے ساتھ بھی نا انصافی ہوئی اور انھیں  بھی دوسروں کی طرح خاطر میں نہیں لایا گیا۔ ان کے چند اشعار دیکھیں         ؎

میری مستی پہ زمانے کے ہیں پہرے کتنے

میں ہنسوں گا تو اُتر جائیں گے چہرے کتنے

اے اثر طنز بھی تیروں کی صفت رکھتے ہیں

دل پہ لگتے ہی اُتر جاتے ہیں گہرے کتنے

قلم، کاغذ اور دوات کی دنیا ہی ایک تخلیق کار کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ اردو شاعر میں ’قلم‘ پر بے شمار خوبصورت شعر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مگر اثر احمدآبادی کا یہ شعر جو اثر دکھاتا ہے وہ بات دوسرے شعروں میں نظر نہیں آتی۔ اثر نے اپنے لیے ’قلم‘ کا نہایت ایماندارانہ تصور کیا ہے اور ایک تخلیق کار کی زندگی کی نمائندگی کی ہے۔ بڑی صاف گوئی سے وہ کہتے ہیں کہ    ؎

دارو مقتل کو سجانے کی ضرورت کیا ہے

میرے ہاتھوں سے قلم چھین لو مر جاؤں گا

 اوراس کیفیت کے بعد ایک شاعر اور کتاب سے لگاؤ کی بنا

پر وہ یوں گویا ہوتے ہیں کہ        ؎

مجھ کو دنیا سے اثر کون مٹا سکتا ہے

میں تو شاعر ہوں کتابوں میں بکھر جاؤں گا

اس سلسلے میں اگر جمال قریشی کا نام نہ لیا جائے تو مضمون ادھورا رہ جائے گا۔ غزل میں کلاسیکی لہجہ پایا تھا۔ جو کہا خوب کہا۔بھارت میں جن لوگوں نے اہلِ زبان ہونے کا واویلا مچایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے علاوہ اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اردو میں ہمّتِ سخن کر سکے، اس طرح کے لوگوں کے لیے بڑے فخر کے ساتھ جمال قریشی نے کہا کہ      ؎

ہے کام لکھنؤ سے نہ دلّی سے واسطہ

بے لاگ پڑھ رہا ہے میری شاعری کو وہ

جہاں تک گجرات کی شاعرات کی بات ہے تو اُن میں مریم غزالہ، لکشمی پٹیل شبنم اور انجنا سندھیر کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی خواتین نے شاعری کی مگر تادمِ تحریر ان کا کلام حاصل نہ ہو سکا۔ اس قبیل کی ایک بیباک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شاعرہ کا نام ہے ڈا کٹرانجنا ؔسندھیر، ڈاکٹرانجنا سندھیر کے ان اشعار کو پڑھتے ہی پروین شاکر کا لب و لہجہ یاد آ جاتا ہے۔ اشعار دیکھیں           ؎

وہ روٹھتا ہے کبھی، دل دُکھا بھی دیتا ہے

میں گِر پڑوں تو مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے

وہ میری راہ میں پتھر کی طرح رہتا ہے

وہ میری راہ سے پتھر ہٹا بھی دیتا ہے

اُسے پسند ہیں اشعار میری غزلوں کے

وہ میرے شعر مجھی کو سُنا بھی دیتا ہے

استاد شاعر فنا پرتاپ گڑھی کو کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ان کا ایک شعر ہی کافی ہے        ؎

پتنگے روشنی کو ڈھونڈ لیں گے

دیا چاہے کسی خانے میں رکھیے

اسی قبیل سے ایک اور نام عقیل شاطر کا سامنے آتا ہے۔ زیادہ تر غزلیں کہی ہیں۔ کبھی کبھی نہایت پُر سکون انداز میں کہتے کہتے اُن کا لہجہ سخت بھی ہوجاتاہے۔انھوں نے اپنے تجربوں کا کچھ یوں اظہار کیا ہے       ؎

شاعری میں کیا ملا شاطرتمھیں

بس ذرا سا نام ہوکر رہ گیا

عقیل شاطر کے ہم عصروں میں کئی نام سامنے آتے ہیں مگر مظہر رحمن ایک ایسا نام ہے جس کی شاعر نہایت قریب سے ہوکر دل کو چھو جاتی ہے۔ مظہر رحمن نے ہمیشہ زندہ شاعری کی ہے۔ غزل کو لے کر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ شعر دیکھیں        ؎

جہاں مکان ہے آنگن میں اک دوکان بھی ہے

کہ اپنے گھر میں ہی بازار کر گیا ہے وہ

قدم قدم پہ ہے اب سامنا حوادث کا

یہ خود کا کس طرح کردار کر گیا ہے وہ

مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ ایک ایسا مضمون ہے جو ایک لمبی اور تھکا دینے والی تحقیق کے باوجود بھی باقی رہ سکتا ہے۔ بہت سے ایسے نام ہیں جو ضبطِ تحریر میں نہیں آ سکے۔ اس تعلق سے ایک نام اور بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے اور وہ نام ہے ہرش برہم بھٹ کا۔ ہرش برہم بھٹ گجرات سرکار کے سیکریٹری رہ کر بھی انتہائی مصروفیات کے باجود اپنے شاعرانہ مزاج کو جلا دیتے رہے۔

گجراتی زبان میں تو ہرش برہم بھٹ ایک معتبر نام ہے ہی مگر اردو میں بھی انھوں نے قابلِ قدر اور باقی رہنے والی شاعری کی ہے۔ خاص طور سے آپ غزل کے شاعر ہیں۔ اردو میں اب تک آپ کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ اردو ساہتیہ اکادمی نے بھی آپ کو ’گورو پُرسکار‘ سے نوازا ہے۔ ماہ نامہ ’شاعر‘ اور دوسرے ماہنامے آپ کے فن پر نمبر اور گوشے شائع کر چکے ہیںاور جہاں تک گجراتی کا معاملہ ہے پوری دنیا میں گجراتی شاعری کو لے کر آپ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ تقریباً ہر دوسرے یا تیسرے مہینے ہرش برہم بھٹ کو کوئی نہ کوئی بڑا ایوارڈ ضرورملتا ہے بالفاظِ دیگر ہرش برہم بھٹ کی شاعری اور شخصیت کو نوازا جاتا ہے۔ ایک اردو دوست کی حیثیت سے بھی اور اردو نواز کی حیثیت سے بھی آپ کو جانا جاتا ہے۔ملاحظہ کیجیے ان کے چند اشعار        ؎

درد سینے میں پل رہا ہے ابھی

کارواں غم کا چل رہا ہے ابھی

ہم کو بہکی نظر سے مت دیکھو

دل ہمارا سنبھل رہا ہے ابھی

گجرا ت مزاحیہ شاعری بھی ہوئی ہے۔ کئی شعرا نے مزاحیہ کلام لکھے اور مقبول بھی ہوئے۔ یہ ایک مشکل فن ہے۔ بڑا دل گردہ چاہیے مزاحیہ شاعری کے لیے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ اپیل رکھنے والا نام کوئی ہے تو وہ ہے گرگٹ احمدآبادی کا۔ہمیشہ ٹھہراؤ کے ساتھ اردو مزاج کو سمجھتے ہوئے انھوں نے شاعری کی اور ملک اور بیرونِ ملک میں گجرات کا نام روشن کیا۔ ان کے چند اشعار دیکھیں        ؎

زمانے بھر کو سکندر دکھائی دیتا ہوں

اور اپنی بیوی کو مچھّر دکھائی دیتا ہوں

یہ جان لے کسی ہیرو سے کم نہیں میں بھی

یہ اور بات ہے جوکر دکھائی دیتا ہوں

اِدھر سے دیکھ مجھے یا اُدھر سے دیکھ مجھے

ہر اک جگہ سے برابر دکھائی دیتا ہوں

گجرات میں اردو شاعری کا بھی ایک زمانہ رہا۔ ایک بڑی تعداد شعرا کی یہاں پائی گئی۔ یہ شعر اس زمانے کی تصویر کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جب یہاں گلی گلی شاعر ہوا کرتے تھے۔  مشاعروں کا دور دورہ تھا۔شعر دیکھیے    ؎

اے مرے دل آ تجھے میں لے چلوں’رکھیال* ‘میں

ڈیڑھ سو شاعر ملیں گے تجھ کو ایک ہی چال میں

* احمدآباد میں واقع ایک علاقہ جہاں ایک زمانے میں بڑی تعداد میں اردو شعرا موجود تھے اور اکثر مشاعرہ و شعری نشستوں کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔


Ghulam Mohammed Ansari

13, Pujari's Chawl,Gomtipur Road

Ahmedabad-380021 (Guj)

E-mail : gulamansari1948@gmail.com

Cell : 9327032252

 

 ماہنامہ اردو دنیا، ستمبر 2020


1 تبصرہ:

  1. اس کا نام گجرات میں 1950 کے بعد اردو غزل نہیں بلکہ احمد آباد میں 1950 کے بعد اردو غزل ہونا چاہئے کیونکہ صرف احمد آباد کے ہی شاعروں کا ذکر ہوا ہے
    ویسے بہت زبردست مضمون لکھا ہے آپ نے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    جواب دیںحذف کریں