30/12/22

ن م راشد شمیم حنفی کی نظر میں: ثاقب فریدی


دنیا کے بیش تر افسانوی ادب میںمافوق الفطرت، افسانوی اور دیو مالائی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے ایک طرف قوموں اور ملکوں کے تاریخی اور ثقافتی ارتقا کے مدارج سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، تودوسری طرف انسانی ذہن کے بدلتے رویوں کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ واضح رہے کہ افسانوی ادب سے یہاں صرف نثر مراد نہیں ہے بلکہ افسانوی ادب میں وہ نظمیں بھی شامل ہیں جن میں قصہ اور کہانی کا وافر ذخیرہ موجود ہے، مثال کے طور پرہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی ہو، شیکسپیئر کے ڈرامے ہوں یامہابھارت اور رامائن ہو۔ یہ سب افسانوی ادب نثر میں نہیں بلکہ نظم کی شکل میں وجود میں آئے ہیں۔

اساطیر دراصل عربی لفظ ہے جو اسطورہ کی جمع ہے۔ادب میں اسطور سے بالعموم ایسی کہانی مراد لی جاتی ہے جو حقیقی مفہوم میں پوری طرح صداقت پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس میں اشخاص و کردار اور اعمال طبیعی دنیا سے مختلف ہوتے ہیں۔ اساطیری اور نیم اساطیری کردار فوق الفطرت اور سماوی طاقتوں کا مرقع ہوتے ہیں۔ اردو میں اساطیر کے ساتھ ساتھ دیومالا کی اصطلاح بھی رائج ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے متھ(Myth )کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ماہرین فن نے اپنے اپنے انداز میں اساطیر کی تعریف پیش کی ہے۔بہرحال اساطیر ہو یا دیومالا اور متھ، معنی و مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی حد تک یکسانیت ہے، اور ان کاگہرا تعلق بالعموم مذہب سے ہوتا ہے۔ مذہب سے الگ رکھ کر ہم اساطیر کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے۔

اسطوری فکر نے ہر عہد میں ادب او ردیگر فنون لطیفہ کو ایک وسیع کینوس عطا کیا۔ہومر کی ایلیڈ یا اوڈیسی ہو، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی ہو یااقبال کا جاوید نامہ۔ ادب سے قطع نظرمائیکل اینجلوکے شاہکار ہوں یا اجنتا اور ایلورا کی گپھاؤں میں موجود فنی شاہکار، اپنے فن کے اظہار کے لیے مرکزی خیال سب کو اساطیر میں ہی نظر آئے۔ شعر و ادب کی دنیا پر بھی اساطیر کے نہ صرف بہت وسیع اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے بلکہ آج کی سائنسی حقیقت نگاری کے عہد میں بھی تخلیق کاروں اور فنکاروں کے لیے اساطیرو دیومالا میں تخلیقی کشش برقرار ہے۔ اساطیری فکر پر مبنی ادب میں جہاں ایک طرف معنوی ابعاد پیدا ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف تلمیحات و استعارات، علامات و تمثیلات اور دیگر فنی پیرائے کے لیے نت نئے راستے ہموار ہوتے نظر آتے ہیں۔اساطیر نے شعروادب کو کس طرح گہرائی و گیرائی سے ہمکنار کیا ہے اسے اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ غالب کا ایک شعرہے         ؎

تھیں بنات النعش گردوں دن کے پردے میں نہاں

شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں

عام طور پر غالب کے اس شعر کو محض فلکیاتی نکتے کی شاعرانہ وضاحت سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن اسے سپت رشی کے اسطوری قصے سے جوڑ دیا جائے تو شعر کی معنی آفرینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سپت رشی کا قصہ یوں ہے کہ دریا کے کنارے ایک تپسوی ریاضت میں منہمک تھا۔ اسی اثنا میں سات شہزادیاں دریا پر نہانے کے لیے پہنچیں۔ ان کے شوروغل سے رشی کی تپسیا بھنگ ہوگئی اور شہزادیوں کے برہنہ جسم پر نظر پڑنے کی وجہ سے اس کی تپسیا بھی اکارت ہوگئی جس کی وجہ سے اس نے تمام شہزادیوں کو بددعا دے دی اور وہ آسمان میں پہنچ کربنات النعش کی صورت میں چمکنے لگیں۔ اب اگر غالب کے اس شعر کو پڑھتے ہوئے سپت رشیوں کا یہ قصہ مد نظر رہے تو بنات النعش اور عریانیت دونوں کا ایک الگ ہی مفہوم نظر آتا ہے۔1

اسطوری لفظیات کے استعمال کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک تہذیب و ثقافت میں موجود اسطوری کردار کو پڑھتے ہوئے دیگر ثقافتوں میں موجود ویسے ہی کردار کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے اور ان میں مماثلت یا مطابقت کو تلاش کرتے ہوئے ایک قاری کا ذہن بیک وقت فن پارے کی قرأت اور تخلیق دونوں کی مسرت سے ہمکنار ہوتا ہے۔

بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اردو نظم کی دنیا میں دو ایسے شعرامنظر عام پر آئے جنھوں نے اردو نظم کی دنیا کو ایک بالکل ہی نئے، منفر اور انوکھے تجربے سے آشنا کیا۔جنس سے متعلق فرائڈ کے نظریات اور فرد کی سماج پر بالادستی نیز انفرادیت کو اجتماعیت پرفوقیت، یہ ایسے انقلابی تصورات تھے جنھوں نے نظریاتی سطح پر اردو ادب میں اپنی جگہ بنائی۔ نظریات کی اس تبدیلی کے باعث اظہار کے طریقوں میںبھی تبدیلی ناگزیر تھی۔ میراجی اور راشد یہ دو ایسے شعرا تھے جن کے اثرات اردو نظم کی دنیا میں بہت گہرے اور دیرپا ثابت ہوئے۔یہ وہ عہد تھا جب ایک طرف میراجی نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کے لیے ہندو دیومالا میں بے پناہ کشش محسوس کی اور دانستہ اپنی زبان کے ڈانڈے ہندی سے ملائے اور فارسی کو بتدریج کم کرنے کی طرف مائل ہوئے، وہیں راشدکا مزاج یکسر مختلف تھا۔ انھیں صحرا اور عجم کی وسعتوں میں تخلیقی کشش نظر آئی لہٰذا انھوں نے فارسی کے الفاظ و تراکیب کابیش ازبیش استعمال کیا۔

 ن  م راشد کا نام آتے ہی جو پہلی نظم ذہن کے پردے پر جھلملاتی ہے وہ ہے ’سبا ویراں۔‘ یہ راشد کی ایک ایسی نظم ہے جس کی شمولیت کے بغیر جدید نظم کا کوئی بھی انتخاب مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ راشد کی مشہور ترین نظموں میں دیگر نظمیں اسرافیل کی موت، حسن کوزہ گر اور ’اندھا کباڑیـ‘ وغیرہ ہیں۔ ’اندھا کباڑی ‘سے قطع نظر مذکورہ دو نظمیںاپنے اساطیری ماحول، اپنے معرب ومفرس لہجے کی بلندوبالا گونج اور اپنے کہانی پن کے باعث ہماری یادداشت کا ایک مستقل حصہ بن چکی ہیں۔راشد نے اپنی شاعری میں روایات، اساطیر، قصص اور تلمیحات بطور خاص عرب اور اسرائیلی اساطیرکو اپنے شعری تجربے کی ترسیل کے لیے بہت خوبی سے استعمال کیا ہے۔تبسم کاشمیری لکھتے ہیں’’راشد کی شاعری میں اساطیری شہروں کی ایک دنیا آباد ہے ‘‘2

راشد کی شعری زبان اور ان کی علامتی تہ داری ایک ایسی فضا کی حامل تھی جو اردو نظم کے لیے نامانوس تھی۔ اس لیے ان کا پہلا شعری مجموعہ ’ماورا‘ ابتدا میںایک رائیگاں عمل معلوم ہوا۔قاری کو ان نظموں کی لسانی فضا انتہائی نامانوس معلوم ہوئی۔چوں کہ ہماری قدیم حکایتیں، اکثر لوک کتھائیں اور بیش تر الف لیلوی قصے بہت ہی سیدھے سادے انداز میں شروع ہوتے تھے مثلاً ’ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ وغیرہ اور ہمارا قاری اسی انداز بیاں کا عادی تھا۔ایسا نہیں ہے کہ راشد سے قبل اردو نظم میں اسلامی اساطیر، روایات اور تہذیب و ثقافت کا استعمال نہیں ہوا تھا۔ اقبال کی مثال سامنے کی ہے بلکہ اس عہد کی فضا میں اقبال کی پرشکوہ آواز گونج رہی تھی۔ لیکن اقبال اور راشد کے پیرایہ اظہار میں ایک واضح فرق ہے۔ اقبال کے یہاں ماضی کے تعلق سے ایک تفاخر اور اپنی روایت کے تعلق سے ایک قلبی لگاؤ تھا اور بیان کی سطح پر واقعات کی ازسرنو تشکیل نہیں کی گئی تھی، جب کہ راشد کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کے یہاں عرب اور اسرائیلی اساطیر بالکل نئے اور نامانوس صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ راشد کے یہاں اساطیر سے استفادے کی نوعیت تلمیحی کے ساتھ ساتھ علامتی بھی ہے،جب کہ راشد سے قبل کی شاعری میں اس کی نوعیت صرف تلمیحی تھی،یعنی اس کردار سے وابستہ قصے سے واقفیت اس نظم یا فن پارے کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتی تھی،جب کہ راشد نے علامتی انداز میں استعمال کرتے ہوئے قصے کے صرف کرداروں کے نام لیے اور ان سے وابستہ تصورات میں یکسر تبدیلی کردی جس سے ان کی تفہیم نسبتاً مشکل ہوگئی۔ اس بات کو زیادہ بہتر طریقے سے واضح کرنے کے لیے راشد کی اسی نظم کی بات کرتے ہیں جس کا عنوان ’سبا ویراں‘ ہے۔ ’سبا ویراںـ ــ‘ میںموجود کردار اسلامی اور اسرائیلی روایات کے مطابق ایک ایسے بادشاہ کا کردار ہے جس کی حکومت بحروبر، جن و انس، چرندوپرند یہاں تک کہ ہواؤں پر بھی ہے۔’ سبا‘ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ وہاں ’بلقیس‘ رہتی ہے جواسرائیلی روایات کے مطابق اس بادشاہ کی بیوی ہے۔’سلیمان‘ کے تعلق سے یہ قصہ ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ ہے۔ اب راشد کی نظم میں بیان کردہ  ’سلیمان‘ کو ملاحظہ فرمائیے        ؎

سلیماں سر بہ زانواور سبا ویراں

 سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن

 سبا آلام کا انبار بے پایاں

گیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالی

 ہوائیں تشنۂ باراں

 طیور اس دشت کے منقار زیر پر

تو سرمہ در گلو انساں

 سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں!3

’سلیماں‘ اور ’سبا ‘دو ایسی تاریخی علامتیں ہیں جن کے ساتھ عظمت و شوکت کا تصور وابستہ ہے۔ لیکن راشد نے ان علامتوں کو زوال، بے بسی اور تباہی کا منظر نامہ بنایا ہے۔ نظم کے آغاز میں ’سلیماں‘ کی پرشکوہ ہستی سے وابستہ ہمارا تصور مجروح ہوجاتا ہے اور ہم اچانک ’سلیماں‘ کو بے بسی اور کسمپرسی کی انتہاؤں پر دیکھتے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ شان و شوکت اور سطوت کی یہ علامت اس بدترین حالت کو کیسے پہنچی۔’سبا‘ کا علاقہ جو خوشحالی اور زرخیزی کا دوسرا نام تھا وہ ویران ہی نہیں بلکہ آسیب کا مسکن بن چکا ہے۔ دنیا نباتات سے محروم ہے نہ سبزہ ہے نہ پھول اور نہ گھاس اور یہ سب کچھ ہو بھی تو کیسے کہ ہواؤں میں پانی ہی نہیں۔ گویا ایک آفاقی خشک سالی کا منظرہے۔نظم کے آخری حصے پر پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تباہی اور زوال کا سبب وہ غارت گر ہے جس کے اثرات ابھی تک اس زمین پر ہیں۔ چونکہ یہ نظم راشد کے مجموعے  ایران میں اجنبی میں شامل ہے اور اس کا پس منظر جنگ عظیم دوم کے بعد کا ایران ہے جو سیاسی و ملکی انحطاط کے سبب غیر ملکی استعماریت کا شکار ہوگیا تھا۔ لہٰذا ’غارت گر‘ یہاں نو آبادیاتی طاقت کی علامت ہے جس نے ایران کو لوٹ کر برباد کردیا تھا۔’ سبا ویراں‘ ایک ایسے انسانی منطقے کی علامت بنائی گئی ہے جو آلام و آسیب کا شکار ہے، جہاں بالیدگی اور نمو پذیری اپنی قوت کھوچکی ہے۔ انسان سے اس کی آزادی سلب کر لی گئی ہے اور پورے ماحول پر ایک غیر تخلیقی قوت غالب آگئی ہے جس کی وجہ سے عمل تخلیق معدوم ہوگیا ہے لہٰذا سب کچھ اگربنجر اور ویران ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ راشد کی اس نظم پر گفتگو کرتے ہوئے طارق ہاشمی لکھتے ہیں’’نظم کی فضا ایلیٹ کے اسلوب شعر سے بہت مماثل ہے۔ نظم پڑھ کر ان کی نظم 'Gerontion' اور 'The Waste Land' کے بعض مصرعے بھی یاد آتے ہیں۔ ‘‘4

راشد کے عہد میں بھی لوگوں نے ان کی تخلیقات میں خاصا ابہام محسوس کیا اور اب بھی جدید نظمیں مبہم اور مشکل ترین سمجھی جاتی ہیں۔ جدید نظموں کی تفہیم کے سلسلے میں درپیش مشکلات کے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ زیادہ تر علامتیں قدیم دیومالائی کہانیوں، لوک کتھاؤں یا تاریخی حوالوں سے وارد ہونے کے باوجود کچھ الگ ہیں۔نیا ادب اگرچہ پرانی علامتوں کے سہارے چل رہا ہے لیکن ایک نئے انداز میں۔ انتظار حسین کا زرد کتا ہو یا آخری آدمی، انور سجاد کا پرومیتھس، سسی فس ہو یا سنڈریلا تاریخی یا نیم تاریخی اور اساطیری حوالوں سے درآنے والے ان کرداروں کو سمجھنے میں قاری کو مشکل یوں بھی پیش آتی ہے کہ نئے ادب میں ان کا استعمال محض تلمیحی نہیں ہے۔ قاری جس ’سلیماں ‘سے روبرو ہوتا ہے وہ کروفر والا اور شان و شوکت والا بادشاہ سلیمان نہیں بلکہ راشد کا ’سلیماں‘ سر بہ زانو ہے۔ اور سبا کی ویرانی میں سلیماں کو سربہ زانو دیکھنا ایک بالکل غیر متوقع اور حیران کن تجربہ ہے۔ ادب میں اساطیر اور دیومالا کے علامتی استعمال کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل احمد خان نے ایک بہت اہم بات کہی ہے

نئے ادب میں عموماً ہو ایہ ہے کہ قدیم علامتیں الٹ گئی ہیں۔ زینہ بلندی کی طرف نہیں جاتا پل راستے میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ مذہبی اور اساطیری کردار اپنی قوت کھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سلیماں سر بہ زانو ہے اور سبا ویراں۔ انسان جانور بن جاتا ہے اور بھول بھلیاں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ سواریاں منزل تک نہیں پہنچتیں اور زندگی کا شجر ٹنڈ منڈ درخت بن گیا ہے۔۔۔انسان کو جانور نئے افسانہ نگاروں نے تو نہیں بنایاوہ قدیم کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ تو ہے بھول بھلیوں میں پھنسنا بھی خود انھیں کہانیوں ہی کا ایک مرحلہ ہے۔ پل سے لڑھک جانے کا منظر وہاں بھی ہے مگر وہاں انسان گر کر سنبھل جاتا ہے اور ان عبوری مراحل سے نکل آتا ہے نئے ادب میں عموماً یہ مرحلہ مستقل بن جاتا ہے۔5

نظم ’اسرافیل کی موت‘ میں راشد نے اسرافیل کے اساطیری کردار کو مختلف جہتوںاور تخلیقی رویوں کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ نظم گذشتہ صدی کے ساتویں عشرے میں کہی گئی تھی۔ اس وقت مغربی ادب میں بالخصوص Death of Orpheus کا بہت چرچا تھا۔ یک بیک سارے مغربی ملکوں میں اور بالخصوص ادیبوں اور دوسرے تخلیق کاروں کی دنیا میں ایک داخلی سناٹے کی کیفیت تھی۔ اس سکوت کی گونج ہمیں اس نظم میںبھی سنائی دیتی ہے۔ اسلامی اساطیر کے حوالے سے اسرافیل انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور بہ حکم خداوندی انھیں ایک حیات ابدی عطا کرے گا۔ راشد نے اس روایت کو اپنے تخلیقی رنگ میں الگ جہت دے دی ہے اور ہم ایک ایسے اسرافیل کو دیکھتے ہیں جو خود مرگ آشنا ہے۔ وہ ہستی جو نئی اور ابدی زندگی کا وسیلہ سمجھی جاتی ہے وہی موت سے دوچار ہو گئی۔ مرگ اسرافیل ایک ایسا کربناک حادثہ ہے جس کے صدمے سے نہ یہ کہ پوری کائنات کی حالت ابتر ہے بلکہ خالق کائنات کی آنکھیں بھی نم ہیں، کیوںکہ اسرافیل کی موت گویا آواز کی موت ہے۔ ترسیل اور اظہارکی موت ہے، چنانچہ زمان و مکاں جو آواز ہی کے رشتے سے باہم منسلک تھے اور انسان اور فطرت خداوندی میں آواز ہی سے ربط قائم تھالہٰذا مرگ اسرافیل کے باعث انسان اور خدا کے درمیان رابطہ بھی ختم ہوگیا

مرگ اسرافیل سے

 گوش شنوا کی، لب گویا کی موت

 چشم بینا کی، دل دانا کی موت

 تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو

 اہل دل کی اہل دل سے گفتگو

 اہل دل جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو

 اب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم

اب گلی کوچوں کی ہر آواز گم

 یہ ہمارا آخری ملجا بھی گم

 مرگ اسرافیل سے

 اس جہاں کا وقت جیسے سوگیا، پتھرا گیا

 جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا

 ایسی تنہائی کہ حسن تام یاد آتا نہیں

 ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں

 مرگ اسرافیل سے

 دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی

 زباں بندی کے خواب

 جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو

 اس خداوندی کے خواب! (اسرافیل کی موت)6

نظم کی تعبیر مختلف ناقدین نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں اس نظم میں اسرافیل انسانی ضمیر کا استعارہ ہے اور اسرافیل کی موت بنیادی طور پر انسانی ضمیر کی موت ہے۔ یہ تصور کہ قیامت آئے گی اور اس وقت اسرافیل صور پھونکیں گے تو راشد اعلان کرتے ہیںکہ اسرافیل کی تو موت واقع ہوچکی اور اس کے خوف سے جو نظام کائنات میں رنگ و آہنگ یا سوزوگداز تھا، کب کا ختم ہوچکا۔ یہ پوری نظم زبردست طنزیہ انداز رکھتی ہے۔

نظم کی ایک تعبیر یہ بھی کی گئی کہ اسرافیل انسانی تہذیب و تمدن کے تحرک اور انسانی حقوق کی حفاظت کی علامت ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی نقطہ ہے، جس کے گرد راشد نے تمام بنیادی انسانی تقاضے جمع کردیے ہیں۔ اسرافیل کی زندگی ان تقاضوں کی حفاظت ہے اور اسرافیل کی موت اس مقصد کی موت ہے۔ انسان کی فکری، تہذیبی اور سیاسی آزادی سلب ہونے سے دنیا انجماد کا شکار ہوگئی ہے۔ اس نظم کی علامتیں ان ایشیائی ممالک پر منطبق ہوتی ہیں جہاں آمرانہ نظام قائم ہے اور عوام بنیادی حقوق سے محروم کردیے گئے ہیں۔ نظم میں معانی کے اتنے امکانات اور فنی دبازت، اسطور کے کامیاب استعمال کی ہی مرہون منت ہے۔ راشد کی ایک اور نظم ہے ابو لہب کی شادی۔ نظم ’ابولہب کی شادی‘ میں ابولہب اجنبی زمینوں سے لعل و گوہر سمیٹتا، سالہا سال بعد جب اپنے گھر واپس آتا ہے تو لوگ اس کی یہ بات نہیں بھولتے کہ         ؎

ابولہب! 

تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن

  گلے میں سانپوں کے ہار لائی؟(ابولہب کی شادی)7

یہ سن کر ابولہب یہ نہیں کرتا کہ لوگوں سے معافی مانگ لے بلکہ وہ اپنے عمل پر نازاں ہوتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اجنبی کی طرح باقی زندگی گزار دے      ؎

ابولہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی مہمیز، ابولہب کی خبر نہ آئی!8

قرآن میں ابولہب اور اس کی بیوی کا ذکر دشمن اسلام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں پیغمبر اسلام کے دشمن تھے اور ہمہ وقت انھیں تکلیف پہنچانے کے درپے رہتے تھے۔ راشد نے دونوں کو ا س تاریخی مفہوم سے نکال کر نئے مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ابو لہب کے لفظ میں ’آگ اور چنگاری‘ کا لغوی مفہوم موجود ہے۔ بیوی کی صفت یہ ہے کہ اس کے سرپہ ایندھن ہے اور گلے میں سانپوں کا ہار۔ دونوں باتیں کسی کو بھی خوف زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ عقیل احمد صدیقی کے خیال میں ’ ’اس نظم میں ابولہب مذہبی استعارے کے طور پر مستعمل نہیں ہے بلکہ یہ ’فنکار‘ کی علامت ہے اور ’بیوی‘ اس کا ’فن‘ ہے۔ یہ فن عوام کو اس لیے پسند نہیں کہ یہ اجنبی بوباس رکھتا ہے اور ان کے لیے اچنبھے اور خوف کا باعث ہے۔ ‘‘9

ابولہب کو فنکار کی علامت بنانے سے متعلق عقیل صاحب یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ ’’یہ دراصل عوام کے رویے کے خلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے جس طرح فرانس کے علامت نگار خود کو ’زوال پسند(ڈکیڈینس)‘ کہتے تھے گویا اسی طرح راشد نے بھی خود کو ابولہب کہا ہے۔ اس میں ایک طنز کی کیفیت ہے اور یہ طنز عوام پر ہے کہ وہ سنجیدہ شاعروں کو اپنا دشمن مانتے ہیں۔‘‘10

 اب کچھ ایسی نظموں کا تذکرہ جن میں اسلامی اور اسرائیلی اساطیر سے قطع نظر ان اساطیر سے استفادہ کیا گیا ہے جنھیں کسی مکانی یا ثقافتی چوکھٹے میں بندکرنا مشکل ہے۔ اسا طیر سے ماخوذ علامتوں میں راشد کی ایک علامت  ’سمندر‘ ہے۔ سمندر ادبیات اور اساطیر عالم کی ایک اہم علامت سمجھی جاتی ہے۔ہر تہذیب کے اساطیر میں سمندر ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ چینی تہذیب کے مطابق سمندر ہی اژدہاؤں کا خصوصی مسکن اور ہر قسم کی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ قدیم ہند کے ویدک زمانے میں پانی کو زندگی کی ماں کہا گیا۔ پانی کو لافانی بتایا گیا ہے۔اس زمین پر پانی ہی چیزوں کا آغاز اور انجام ہے، یعنی سمندر کے ساتھ موت اور ازسر نو پیدائش کا تصور پایا جاتا ہے۔ راشد کی دو نظموں ’اے سمندر‘ اور ’سمندر کی تہہ میں‘ میں سمندر تہ در تہ لاشعور کی علامت ہے، جس کی اتھاہ گہرائیوں میں نامعلوم کیا کچھ پڑا ہے،گویاماضی اور ماضی کے تجربات، اساطیر، خواب، ناتمام خواہشیں اور پرانی یادیں         ؎

سمندر کی تہ میں

 سمندر کی سنگین تہ میں

 ہے صندوق...

 صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا

 میں ڈبیا...

 میں کتنے معانی کی صبحیں

 وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بند

 اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی کتنی سہمی ہوئی!(سمندر کی تہ میں) 11

 ذکر جب راشد کا ہو تو ان کی محبوب ترین علامت ’آگ‘ کا تذکرہ کیے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔زمانہ قبل از تاریخ سے ’آگ‘ ایک مافوق الفطرت قوت کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ بعد ازاں دنیا کی قدیم تہذیبوں مثلاً مصر اور ویدک ہند میں آگ کو دیوتا کا مقام حاصل ہوگیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں یہ دیوتا مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا۔ چنانچہ آریا اسے اگنی، مصری رع، یونانی اپالو اور ہیلی اوس،  رومی ولکن اور ایرانی اسے مزد کہتے تھے۔12

مشرق اور مغرب کی دیومالا میں آگ سے متعلق تصورات میں حیرت انگیز یکسانیت نظر آتی ہے۔ قدیم انسان نے آگ سے جو تجربات حاصل کیے، ان میں ہمہ گیر مماثلت کا عنصر ملتا ہے مثلاً قدیم انسان کا تعلق زرعی زندگی سے تھا۔ انسان ہمیشہ سے بکثرت پیداوار کا خواہش مند رہا۔ اس ضمن میں وہ آگ کو اپنا مددگار اور دوست سمجھتا تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ آگ کے سحر سے اس کی فصلوں پر ہونے والے برے اثرات دور ہوسکیں گے۔ زرخیزی کے ساتھ ساتھ آگ کے ساتھ تطہیر کا تصور بھی وابستہ تھا یعنی آگ سے چھوجانے والی ہر چیز پاک، صاف اور گناہ و آلائش کی آلودگی سے مصفا ہوجاتی ہے۔ زرخیزی، افزائش اور تطہیر کے یہ تصورات پوری دنیا میں موجود رہے ہیں، اس سلسلے میں یورپ، ایشیا اور افریقہ میں فرق نہیں ہے۔ ہندو دیومالا کے مطابق ’اگنی‘ ہی ایک ایسا دیوتا ہے جس میں دیگر تمام دیوتا جذب ہوجاتے ہیں، اسی لیے اسے دیوتاؤں کا مجموعہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ راشد کی شاعری میں مختلف شعوری اور غیرشعوری تصورات کی پیش کش کے لیے آگ بار بار اپنے تلازمات کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔ کہیں وہ آزادی کی علامت ہے تو کہیں جذبے اور شعور کی علامت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے توکہیں اس کے تطہیری کردار کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے

آگ آزادی کا دلشادی کا نام

 آگ پیدائش کا، افزائش کا نام

 آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شفیق و نسترن

 آگ آرائش کا، زیبائش کا نام

 آگ وہ تقدیس دھل جاتے ہیں جس سے سب گناہ

 آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرم

 عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب (دل مرے صحرا نورد پیر دل)13

راشد نے نہ صرف یہ کہ اساطیر کا بحسن و خوبی استعمال کیا ہے بلکہ ان کے یہاں اسطور سازی کی کامیاب کوشش بھی نظر آتی ہے۔ راشد کا حسن کوزہ گر، جہاں زاد، وزیرے چنیں اور وزیر معارف کیانی وغیرہ ایسے ہی کردار ہیں جو دیومالائی کردار محسوس ہوتے ہیں۔ حسن کوزہ گر شعریت کے اعتبار سے ان کی نظموں میں ایک مختلف رنگ یعنی ایک وجدانی طرز احساس کی حامل علامت نظم بن جاتا ہے،جہاں بغداد کے اساطیری حوالوں سے راشد نے ایک نیا اسطورتشکیل دینے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ الف لیلوی علامتیں بغداد کی گلیوں اور دروازوں سے ابھرتی ہیں اور قاری خود کو ایک دیومالائی دنیا میں سانس لیتا ہوا محسوس کرتا ہے۔نظم میں جہاں زاد کا کردار ’دنیازاد‘ کے کردار سے ماخوذ ہے۔ حسن کوزہ گر کا کردار راشد نے ایک سیریز کے تحت چار نظموں میں پیش کیا ہے۔ یہ چاروں نظمیں مل کر ایک کل کی تشکیل کرتی ہیں اور جزوی طور پر اپنا اپنا مکمل مفہوم بھی رکھتی ہیں۔اس کی معنوی توضیح اور کرداروں کی توضیح مختلف سطحوں پرکی جاسکتی ہے، کیونکہ راشد نے اس نظم میں محض افسانے یا کردار کی تخلیق پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ عہد جدید کے بعض فکری عناصر بھی سموئے ہیںخصوصاً وقت کا مسئلہ اور زمان و مکاں کے مباحث اس نظم کے مصرعوں میں بار بار آئے ہیں۔ راشد چاہتے تو اسے جنوبی ایشیا کے کسی مقام سے شروع کرسکتے تھے یا کسی ایرانی شہر مثلاً تہران، مشہد اورقزوین وغیرہ سے کیونکہ یہ دیار و امصار راشد کے براہ راست تجربے کا حصہ تھے، لیکن ان کا تخلیقی حوالہ بغداد اور دجلہ کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ خطہ ماضی کے آثار قدیمہ اور داستانوں کا ایک کثیر ذخیرہ رکھتا ہے اور راشد نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک اسطورکی تشکیل کی کوشش کی ہے۔ وہ حسن اور جہاں زاد کے رومانس کے اولیں منظروں کے لیے دجلہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دجلہ وہ الف لیلوی دریا ہے جس کے نام کے ساتھ ہزار راتوں کی داستانیں منسوب ہیں۔

راشد کی شاعری سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر آغا لکھتے ہیں ’’خارجی زندگی کے جن پہلوؤں کے خلاف راشد نے جہاد کیا، وہ زمانے کی ایک ہی کروٹ سے مٹ چکے ہیں اور یوں راشد کے جہاد کی عمومی اپیل بھی ازخود ختم ہوگئی۔‘‘14

وزیر آغاکے ان الفاظ سے گزرتے ہوئے عقل حیران تھی کہ یہ ادب کے متعلق گفتگو ہے یا کسی فوجی مشن پر جانے سے متعلق۔ اہم بات یہ ہے کہ راشد کے یہاں اساطیری لہجے کی گونج اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہے۔ عمومی اپیل وہ شاعری کھو دیتی ہے جس میں معانی کی ایک سے زیادہ سطحوں کے امکانات نہیں ہوتے۔ لیکن راشد کی مبہم اور علامتی شاعری کو آپ ہر زمانے کے ظلم و جبر کے خلاف اور نظریات کی فرسودگی اور ٹکراؤ میں اپنے دل کی آواز کے ہمراہ پاتے ہیں۔راشد کی بہت سی نظموں میں علامتیں، استعارے، تمثالیں اور تلازمے اگرچہ تاریخ کے خاص کرداروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر یہ علامتیں زمانی اور مکانی حوالوں کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں اور وہی کشش رکھتی ہیں۔ تبسم کاشمیری کی رائے اس سلسلے میں انتہائی معتدل ہے کہ ’’زمان و مکاں کے کسی دور میں بھی جب جمود و انحطاط کی ایسی غیر تخلیقی حالت طاری ہوجائے تو ’سبا ویراں‘ میں اس کی علامتی معنویت موجود ہوگی اور نظم کا یہی قرینہ اسے ہر زمانی حالت میں زوال کی علامت بنا سکتا ہے۔‘‘15

راشد کی متعدد نظموں کے تجزیے سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ راشد کے یہاں نہ صرف یہ کہ عربی اور اسرائیلی روایات اور اساطیر کا گہر ااثر موجود ہے بلکہ عالمی اساطیر کے حوالے بھی ان کی شاعری میں قابل ذکر تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اردو نظم کی تاریخ میں راشد کی مسلم اور منفرد حیثیت کو مستحکم کرنے میں ان کے ان اساطیری حوالوں کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔

حواشی

  1.         سید یحییٰ نشیط، اسطوری فکر و فلسفہ، پونہ؛ اصول پبلیکیشنز، 2008، ص15
  2.         تبسم کاشمیری ’راشد اور شہر کی تمثال‘، لا مساوی راشد،لاہور؛ نگارشات، 1994، ص145
  3.         ن م راشد، کلیات راشد، دہلی؛ کتابی دنیا، 2016، ص168
  4.         طارق ہاشمی، جدید نظم کی تیسری جہت،فیصل آباد؛ شمع بکس، 2014، ص103
  5.         سہیل احمد خان، ’علامتوں کے سرچشمے‘، علامت کے مباحث مرتبہ اشتیاق احمد، لاہور؛ بیت الحکمت، 2005، ص117
  6.          ن م راشد، کلیات راشد، ص 285
  7.         ایضاً، ص270
  8.          ایضاً
  9.         عقیل احمد، صدیقی، جدید اردونظم نظریہ و عمل، علی گڑھ؛ ایجوکیشنل ہاؤس، ص297
  10.       ایضاً
  11.       ن م راشد، کلیات راشد، ص450
  12.       تبسم کاشمیری،  لا مساوی راشد،ص124
  13.        ن م راشد، کلیات راشد، ص271
  14.       وزیر آغا، اردو شاعری کا مزاج، دہلی؛ دار الاشاعت مصطفائی، 2014، ص357
  15.       تبسم کاشمیری، لامساوی راشد،ص97

Dr. Qamar Jahan

Asst Prof. Dept of Urdu

Mahila P G College

Bahraich- 271801 (UP)

Mob.: 9910360096

29/12/22

امداد صابری حیات اور خدمات: محمد مظاہر


امداد صابری  کی پیدائش  ہندوستان کی راجدھانی، دہلی کے معروف علاقہ چوڑی والان  کے چوراہے پروا قع ایک  چھوٹے سے مکان میں ہوئی۔پور اگھرانہ علمی قمقموں کی روشنی سے جگمگ تھا۔1 ان کے دادا قاری جلال الدین خدا رسیدہ بزرگ اور انگریزی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ لال قلعے میں ان کی آمد ورفت تھی اور یہ بہادر شاہ ظفر کے خاص معتمدین میں سے تھے۔2 امداد صابری کے والد مولانا شرف الحق بھی مشہور روحانی شخصیت مولانا رحیم بخش کے تربیت یافتہ تھے۔ مولانا شرف الحق کی تعلیم وتربیت ملک کے مشہور و معروف  ادارہ دارالعلوم دیوبند میں ہوئی تھی۔ ان کے مشہور اساتذہ میں مولانا رشید گنگوہی کا نام سرفہرست ہے۔ان بڑے اساتذہ کے روحانی فیوض کا  اثر یہ ہوا کہ  مولانا شرف الحق  اپنے وقت کے بڑے علما میں شمار ہوتے تھے۔وہ عربی وفارسی کے  علاوہ عبرانی اورسنسکرت جیسی زبانوں   میں  ید طولی رکھتے تھے۔وقت  کے بڑے بڑے پادری ان کی صلاحیت کے قائل تھے اور ان سے مناظرہ کر نے سے ڈرتے تھے۔3 مولانا شرف الحق کو کوئی نرنیہ اولاد نہیں تھی۔بڑی دعاؤں کے بعد 16 اکتوبر 1914 کو مولانا امداد صابری  نے  اس عرصہ ہستی میں قدم رکھا۔چونکہ ان کو اپنے  استاد حاجی امداد اللہ اورمولانا رشید احمد گنگوہی سے بڑی عقیدت تھی اس لیے انھوں نے اپنے فرزندکا نام اپنے استاد وں کے نام پر امداد الرشید رکھا۔پنڈت ہرسروپ شرما اس جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’مولانا شرف الحق صاحب  مرحوم کو اپنے پیر حضرت حاجی امداد اللہ اور اپنے استاد مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیحد عقیدت و محبت تھی۔ آپ کے نرینہ اولاد  نہیں ہوئی تھی۔ بڑی دعاؤں کے بعد  16 اکتوبر 1914 کے جنگی دور میں مولانا امداد صابری پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے فرزند کا  نام پیرواستاد کے نام پر امداد الرشید رکھا۔ ان دونوں انقلابی ناموں کے اثرات مولانا امداد صابری کی زندگی پر بھی پڑے۔‘‘4

  10 سال کی چھوٹی عمر میں انھیں انگریزی زبان میں تعلیم دی گئی۔ انھوں نے سہارنپور میں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے 1930 میں پنجاب یونیورسٹی سے کالج کی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں انھوں نے 1937 میں جیل کے احاطے میں ہندی زبان سیکھی اور ادب میں دلچسپی پیدا کی۔مولانا امداد صابری نے ادیب، فاضل وغیرہ کا امتحان پاس کیا۔اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ ازہر جانے کا ارادہ تھا اور اس سلسلے میں کارروائی  چل  ہی رہی تھی کہ والد مولاناشرف الحق کا انتقال 28 جنوری 1936میں ہوگیا اور پھر گھرکی ساری ذمے داری ان کے سرپر آگئی۔پنڈت ہرسروپ شرما  لکھتے ہیں

’’مولانا امداد صابری ادیب، فاضل وغیرہ کا امتحان دے چکے تھے۔ ان کے والد ان کو جامعہ ازہر(مصر) بھجوانے کے لیے پاسپورٹ بنوانے  کی تیاریاں کر رہے تھے کہ ان کے والد کا نتقال 28 جنوری 1936 کو ہوا۔ گھر کے دیکھ بھال کی ذمہ داری ان پر پڑ گئی۔‘‘5

امداد صابری بچپن سے ہی انقلابی ذہن کے آدمی تھے اور اپنے سینے میں ہمددری کا جذبہ رکھتے تھے۔ وہ ظلم اور ناانصافی کو کبھی بھی پسند نہیں کرتے تھے  اور ان کے خلاف آواز اٹھانا اپنا  فریضہ تصور کرتے تھے۔ ان کی عمر محض سترہ برس کی  ہی تھی کہ انھوں نے ایک پولس افسرکو  اس وقت دھکا   دے دینا چاہاجب وہ ایک خاتون پر ڈنڈا چلانے کی کوشش  میں تھا۔ ان کے اس  اقدام پر اس انگریزی پولس افسر نے ان کی زدوکوب کیا تھا اور وہ بیہوش ہوگئے تھے۔ اس کی تفصیل پنڈت ہرسروپ شرما کی کتاب میں اس طرح ہے

’’مولانا امداد صابری کی سترہ برس کی عمر ہوگی غالبا 1930 یا 1931 کا واقعہ ہے کہ یہ شام کے وقت کوتوالی کے سامنے ایک کانگریسی جلوس اور پولس کا تصادم کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک انگریزی پولس افسر نے ایک جوان لڑکی پر، ڈنڈا  مارنے کے لیے اٹھایاتو مولانا صابری  نے اس انگریزی پولس افسر کو دھکا دینے کی کوشش کی۔ پولس افسر سنبھلا اور اس نے پوری قوت سے مولانا صابری کے سرپر ڈنڈا کھینچ کر مارا۔ مولانا صابری فورا زمین پر گر گئے اور بیہوش ہو گئے۔ بھیڑمیں بھگدڑ مچ گئی۔دوتین گھنٹے کے بعد راہگیروں نے مولانا صابری کے گھر کا پتہ دریافت کرکے ان کے گھر پہنچا دیا۔ ‘‘6

ماحول کا  اثر حساس شخصیتوں پر بہت تیزی سے پڑتا ہے۔ امداد صابری جب  21 یا 22برس کے تھے کہ ملک  کے حالات نے انھیں اپنی طرف  متوجہ کیا۔  قوم کی ناگفتہ بہ حالت نے انھیں  مجبور کیا کہ وہ اس جانب متوجہ ہوں۔اوقاف کی حالت اس وقت نہایت خراب تھی۔  انھوں نے محسوس کیا کہ اگر ان کا صحیح استعمال کیا جائے تو قوم کی اقتصادی حالت مضبوط ومستحکم ہوسکتی ہے۔ انھوں نے اوقاف کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کا بیڑا  اٹھایا  اور انھوں نے 1936 میں  دہلی کی جامع مسجدکے مکبر پر اصلاحی تقریریں کرنی شروع کر دیں۔آگے چل کر بات اتنی بگڑ گئی کہ 1937 میں انھیں  پولس نے دفعہ 107 نقض امن  کے تحت گرفتار کر لیا اور  پھر بعد میں ایک ہزار روپیہ کی ضمانت پر رہا کردیا۔ پنڈت ہرسروپ شرما رقمطراز ہیں

’’آپ نے دیکھا کہ قوم کی حالت ناگفتہ ہے اور انتہائی برے مدارج پر پہنچ گئی ہے تو آپ سے نہ رہا گیا۔آپ نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی کی وجہ شریف ٹولیاں  اور اڈے ہیں جو مسلمانوں  کے  اوقاف پر قابض ہیں اور مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کرر ہے ہیں۔چنانچہ آپ نے اوقاف کے سرمایے کی حفاظت اور اس کے صحیح مصرف کرانے کا بیڑا اٹھایا اور 1936 میں جامع مسجد دہلی کے مکبر پر اصلاحی  تقریروں کا سلسلہ شروع کیا...جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ9جولائی کو نماز جمعہ سے قبل جامع مسجد کے ارد گرد تقریبا پانچ سو پولس  کی جمعیت نے مولانا صابری کو جامع مسجد دریبہ والے دروازے سے داخل ہوتے وقت دفعہ 107 نقض امن کے تحت گرفتار کر لیا جس میں سال بھر کی ضمانت  ایک ہزار روپیہ کی لی گئی۔‘‘7

امداد صابری  نے متعدد  سیکولر سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان پرالیکشن میں قسمت آزمائی۔بیشتر انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔وہ دہلی کارپوریشن کے ڈپٹی میئر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 8 انھوں نے دہلی میونسپل کمیٹی میں قابل ستائش کام کیا اور لوگوں کو ان معاملات میں دلچسپی لینے کے لیے متحرک کیا جو ان کے علاقوں میں بہتری کے متقاضی تھے۔ انھوں نے شہر میں بجلی کی مقامی فراہمی کی حمایت میں بھی آواز بلند کی۔ ان کی طرف سے چلائی جانے والی دیگر تحریکوں میں ٹرام چلانے کے خلاف تحریک، 9ہاؤس ٹیکس کو دوگنا کرنا10، سائیکل ٹیکس کا خاتمہ، ایک لاکھ روپے کے سرمائے پر اناج کی دکانیں کھولنا11، اورہفتہ اخبار چنگاری کی اشاعت شامل تھی۔  انھیں 15 اگست 1942 سے 30 نومبر 1943 تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔

ضمانت پر ہونے کے باوجود، انھیں گرفتار کر لیا گیا اور1945 میں نیتا جی سباش چندربوس کے جاپانی ساتھیوں کی مدد کرنے کے الزام میں انھیں شاہی قیدی بنا دیا گیا12۔ انھوں نے نیتا جی کے ساتھیوں کو اپنے گھر پر رکھا اور ان کے لیے ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے کا انتظام کیا۔ چونکہ یہ الزام ثابت نہیں ہو سکا اس لیے ان پر دوسرے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور انھیں 13 ماہ کی سزا سنائی گئی۔13 اس مدت کو سیشن کورٹ نے منسوخ کر دیا۔ اس طرح انھوں نے دہلی جیل، ملتان جیل میں وقت گزارا اور فیروز پور میں گھر میں نظر بند بھی رہے۔ 14

امداد صابری ایک بڑے مجاہد آزادی بھی تھے۔ انھوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔جب ہندوستان میں   1942کے اندرجنگ آزادی کی آخری تحریک شروع ہوئی تو انھوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اس جرم کی پاداش میں گرفتار بھی ہوئے اور نظر بند بھی کیے گئے۔ 15

مولانا امداد صابری گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایک طرف  وہ اگر سیاست داں اور مجاہد آزادی تھے تو دوسری  طرف وہ  کہنہ مشق صحافی   اور ادیب بھی ۔ ان کی صحافتی زندگی حکومت سے پنجہ آزمائی سے عبارت ہے۔ انھوں  نے اپنے قلم کے ذریعے حالات پر بے لاگ تبصرہ کیا۔ جہاں جس طرح کی خرابی نظرآئی اس پر نوک قلم سے حملہ بول دیا۔ جیل کے اندر خرابی نظرآئی تو اس جانب بھی حکومت کو متوجہ کیا۔ مزدوروں پر ظلم ہوا تو اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ محکمہ پولس میں خرابی نظر آئی تو اس پر خامہ فرسائی کی۔ تعلیم کے شعبے میں اگر کچھ خامیاں نظر آئیں تو اس جانب بھی اشارہ کیا۔ غرض کہ ایک سچے صحافی کا فریضہ ادا کیا۔ امداد صابری نے تقریبا  آٹھ اخبارات  نکالے یا ا ن میں بحیثیت ایڈیٹر اپنی خدمات پیش کیں۔ ان اخبارات میں شائع خبروں ومضامین کے اچھے اثرات مرتب ہوتے تھے اور حکومت کے محکموں میں  اصلاح کا  کام بھی ہوتا تھا۔

امدادصابری نے سب سے  پہلے1940 میں ہفتہ وار اخبار اتحاد کے ایڈیٹر کی ذمے داری نبھائی۔دہلی میں  1947 سے قبل کوئی اسمبلی نہیں تھی اور میونسپل کمیٹی ہی  اسمبلی کی طرح کام کرتی تھی۔ اخبار اتحاد نے  میونسپل کمیٹی کی خرابیوں کی نشاندہی کی   اور ساتھ  ہی ساتھ جامع مسجد اور فتح پوری کی منتظمہ کمیٹی کی بدعنوانیوں کو   بھی اجاگر کیا۔اس اخبار کی نکتہ چینی کے سبب  جامع مسجد اور مسجد فتح پوری کمیٹی  کو اصلاحی رویہ اختیار کرنا پڑا۔ چیف کمشنر کا محکمہ بھی اس اخبار کی خبر پر حرکت میں آ جاتا تھا۔16

اخبار اتحاد جب  فروی 1947 میں بند ہوگیا تو امداد صابری اخبار’تیغ‘ کی ادارتی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ یہ اخبار صابری صاحب کے پرانے دوست علامہ ابوالبیان آزاد نکالتے تھے۔ یہ ماہانہ اخبار تھا جو بعد میں ہفتہ واری ہوگیا تھا۔ پنڈت ہرسروپ شرما لکھتے ہیں

’’اخبار اتحاد فروری 1947 میں بند ہوگیا تھا۔ صابری صاحب کے قدیمی دوست علامہ ابولبیان آزاد ہفتہ وار تیغ اخبار نکالتے تھے۔ یہ پہلے ماہانہ رسالہ تھا بعد میں ہفتہ واری ہوگیا تھا۔ آزاد  صاحب کے ایما  اور خواہش پر صابری صاحب اس کی ادارت میں شامل ہوئے۔‘‘17

امداد صابری نے  ہفتہ وار اخبار ’چنگاری‘ کی بھی ادارت کی۔ اس اخبا رکے مالک عبداللہ شمیم تھے جو  امداد صابری کے دیرینہ دوست تھے۔امداد صابری اس اخبار کی ادارت پانچ چھ مہینے ہی کرپائے کیونکہ انھیں پھر نظربند کردیا گیا۔مذکورہ تینوں اخبارات میں امداد صابری نے اعزازی کام کیا تھا۔ 18

1947 میں جب مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ حکومت بنی تو امداد صابری نے 9مئی 1947کو اپنا ذاتی ہفتہ واری اخبار’قومی حکومت ‘ نکالا۔قومی حکومت کا آخری پرچہ 23 اگست 1947کو شائع ہوا۔اس کے بعدملک میں فسادات شروع ہوگئے اور اس اخبار کا نکلنا مشکل ہوگیا۔ اس اخبار کا آخری شمارہ 7 اکتوبر 1947کو منظر عام پر آیا اور پھر یہ اخبار بھی بند ہوگیا۔ ایک سال بعد17کتوبر 1948 کو یہ اخبار دوبارہ جاری ہوا۔ 19

1949 میں جب ماہانہ رسالہ ’آزاد ہندوستان‘ جاری ہوا  تو امداد صابری اس کے مدیر بنے۔ اس اخبار میں حالات حاضرہ، کسٹوڈین اور میونسپل کمیٹی  اور محکمہ پولس وغیرہ کی بدعنوانیوں کی خبرکے ساتھ ساتھ ادبی، تاریخی اور سیاسی مضامین بھی شامل ہوتے تھے۔20 11جولائی 1952کو انھوں نے  اپنا ذاتی ہفتہ وار اخبار ’انگارہ‘ جاری کیا۔ اس اخبار کی  عمر بھی بہت رہی اور دو مہینے کے قلیل عرصے میں یہ بھی بند ہوگیا۔ اس اخبار کے کل آٹھ شمارے ہی نکل پائے۔آخری شمارہ 14 نومبر 1952 کو شائع ہوا تھا۔ 21

1954 میں انھوں نے ایک اور  ہفتہ واری اخبار ’جماعت‘ جاری کیا۔ یہ اخبار بھی انگارہ کا ہم عمر ہوکر لقمہ اجل بن گیا۔ 10 ستمبر 1954کو اس اخبار کا آخری شمارہ شائع ہوا تھا۔ اس اخبار کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں ایک نئی بات کا اعلان کیا گیاتھا کہ تذکرہ شعرائے دہلی مرتب کیا جائے گا اور بالاقساط شعرا کے حالات اور ان کے کلام شائع کیے جائیں گے اور پھر انھیں کتابی شکل دی جائے گی۔اس اخبار میں جگن ناتھ آزاد،حافظ منیرالدین منیر دہلوی اور حکیم رفیق احمد  رسا دہلوی کے حالات زندگی اور ان کے کلام کو شائع کیا گیا۔22

20 جنوری 1956 میں امداد صابری نے ’عوامی رائے‘ دہلی سے شائع کیا۔یہ اخبار ایک سال تک  تواتر کے ساتھ شائع ہوتا رہا اور بالاخر یہ بھی بند ہوگیا۔ اس اخبارکا آخری شمارہ  28 دسمبر 1956 کو منظرعام آیا تھا۔ 23

امداد صابری نے درجنوں کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں

تاریخ صحافت اردو (تین جلدوں میں)، تاریخ جرم و سزا (تین جلدوں میں)، فرنگیوں کا جال، داستان پر غم، تاریخ آزاد ہند فوج، نیتا جی سبھاش چندر بوس کے ساتھ، سبھاش بابو کی تقریر، آزاد ہند فوج کا البم 1857 کے مجاہد شعرا، 1857 کے غدار شعرا، حاجی امداد اللہ اور ان کے خلفا، رسول خدا کا دشمنوں سے سلوک،رسول خدا کی غریبوں سے محبت، فیضان رحمت، دہلی کی یادگار شخصیتیں، دہلی کے قدیم مدارس اور مدرّس، سیاسی رہنماؤں کی مائیں اور بیویاں، اللہ کے گھر میں بار بار حاضری، اخبار مخبر عالم مراد آباد اور تحریک آزادی، آثار رحمت، جنوبی افریقہ کے اردو شاعر روح صحافت۔24

امداد صابری دیواری  صحافت سے بھی شغف رکھتے تھے۔ وہ نہایت خوبصورت پوسٹر لکھاکرتے تھے۔ پوسٹروں کی زبان  بڑی شستہ ہوتی تھی  اور یہ نہایت دیدہ زیب ہوا کرتے تھے۔ یہ پوسٹر راتوں کو جاگ  جاگ کر لکھے جاتے اور صبح فجر سے قبل  دیواروں پر چسپاں کردیے جاتے۔ مولانا کا پوسٹر سب سے پہلے آیا کرتا تھا۔ ظفر انور اس سلسلے میں رقمطراز ہیں

’’مولانا دہلی کی دیواری صحافت و سیاست یعنی پوسٹروں میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے تھے، مولانا کا پوسٹر منفر د ہوتا ، زبان و بیان کے علاوہ انتہائی خوبصورت  و دیدہ زیب تو ہوتا ہی تھا حالات کے تناظر میں لوگوں کے لیے نوشتہ دیوار بھی ثابت ہوتا تھا۔ دہلی کے پوسٹروں کی صحافت کا دور بھی بڑا ہی دلچسپ تھا۔ رات بھر جاگ کر تیاری ہوتی اور صبح فجر سے قبل ہی یہ پوسٹر دیواروں پر آویزاں کر دیے جاتے تھے۔ مولانا  کا  پوسٹر سب سے پہلے سامنے آتا تھا۔ یہ سلسلہ بہت قدیمی تھا جو مولانا کے دور تک  ہی اپنی معنویت کے ساتھ قائم رہ سکا۔ ‘‘25

امداد صابری  74 سال کی عمر میں  13 اکتوبر 1988 کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔دہلی کے مہندیان کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔26 ان کے دو فرزند شرف صابری اور احمد صابری   دہلی میں قیام پذیر ہیں۔ دونوں ہی  اپنے والد گرامی کی روایتوں کے امین و پاسبان ہیں۔27  ان کے شاگردوں  میں دہلی کے مشہور صحافی قاری محمد میاں مظہری کا نام بھی لیا جاتا ہے۔28

امداد صابری کی  زندگی انتہائی سادہ تھی۔ان میں انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔وہ ہمہ وقت دوسروں کے کام میں مصروف  رہا کرتے۔ اپنے ساتھ مہر اور پیڈ لے کر چلا کرتے۔ جس نے بھی اپنی ضرورت کا فارم آگے بڑھایا فورا دستخط کر کے مہر ثبت کر دیا۔گرمیوں کے دنوں میں بجلی گل ہونے  کی صورت میں دستی پنکھا کا استعمال کرتے اوراپنے کام میں مصروف رہتے۔

مولانا امداد صابری سچے اور پکے  مجاہد آزادی اور سبھاش  چندر بوس  سے گہری عقیدت  رکھتے تھے۔ بیباک صحافی،  کہنہ مشق ادیب اور مجاہد صفت سیاست داں تھے۔ 


حوالہ جات

  1.         دہلی کے پچاس صحافی،ظفر انور ،ص230 اصیلہ آفسیٹ پریس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی2015
  2.         مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص2،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  3.         ایضا،ص4
  4.         ایضا،ص5
  5.         ایضا،ص5
  6.         مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص5پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  7.         ایضا،ص5-7
  8.         دلی جوایک شہرہے، ظفر انور، ص  90شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، ص234،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015
  9.         مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری ص19-20،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  10.       ایضا،ص 31
  11.       ایضا،ص38
  12.       ایضا،ص11
  13.       ایضا،ص11
  14.       ایضا،ص11
  15.       ایضا،ص63
  16.       مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص58-59،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  17.       ایضا،ص62
  18.       ایضا،ص64
  19.       ایضا،ص71
  20.       ایضا،ص75-76
  21.       ایضا،ص83-84
  22.       ایضا،ص 84
  23.       ایضا،ص84
  24. دہلی کے پچاس صحافی، ظفر انور، ص 87،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2015،مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص46,55،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی، دلی جوایک شہرہے ، ظفر انور،  ص  87شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019
  25. دلی جوایک شہرہے، ظفر انور، ص  90،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، 233،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015
  26.  دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، ص239،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015دلی جوایک شہرہے، ظفر انور، ص  86شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی، 2019
  27. دلی جوایک شہرہے، ظفر انور،  ص  87،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، 231،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015
  28.  دلی جوایک شہرہے، ظفر انور،  ص  87،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، 230،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015

Mohd Mazahir

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

بیرونی سیاروں کی دریافت کس طرح کی جاتی ہے: انیس الحسن صدیقی


 اس صدی کے نوجوان بہت ہی خوش قسمت ہیں کیونکہ وہ سائنس اور تکنیک کی صدی میں پل بڑھ رہے ہیں۔یہ ان کے لیے علم فلکیات کا سنہرا دور ہے۔علم فلکیات میں روز بہ روز دریافتوں کا انبار لگتا چلا جا رہا ہے۔ سائنسداں اور تکنیکی ماہروں نے کائنات کے بارے میں اچھی طرح جان لیا ہے کہ کائنات کی کوئی حد نہیں ہے اور کائنات میں نہ ختم ہونے والا خزانہ موجود ہے۔ بس ضرورت ہے کہ کون اس مینا کو بڑھ کر اٹھاتا ہے۔لہٰذا وہ ملک بہت ہی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جو علم فلکیات میں دن اور رات کام کر رہے ہیں۔اب اپنے ملک کو شدید ضرورت ہے کہ علم فلکیات کو عام اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جائے اور اس میدان میں دن اور رات کام کیا جائے۔ شہید راشٹریہ پتا مہاتما گاندھی جی کا بھی یہی خواب تھا کہ ہندوستان کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں علم فلکیات ہر طالب علم کو اس کی مادری زبان میں دستیاب ہو۔وہ خود بھی اس علم میں دلچسپی رکھتے تھے اور قید کے دوران آسمانی اجرام کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔

آج کل دنیا کے فلکیاتی ماہرین اور سائنسداں اپنی زمین جیسے بیرونی سیاروں کی تلاش میں منہمک ہیں۔ان کو پوری امید ہے کہ ایک نہ ایک دن کائنات میں کہیں نہ کہیں ہمارے جیسی ذہین زندگی مل جائے گی۔اس تلاش میں روز بہ روز سائنسی اور تکنیکی آلات بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا اثرانسانی زندگی کی بہتری پر پڑ رہا ہے۔ اس زمین پر انسانی زندگی بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔

حال ہی میں دنیا کے فلکیاتی اور تکنیکی ماہرین کی ایک ٹیم نے ہماری زمین جیسا چٹانی سیارہ سورج کے پڑوسی ستارہ نیر قنطورس(Proxima Centaury) کے نظام میں دریافت کیا ہے۔ستارہ نیرقنطورس، سورج کے سب سے نزدیک ستاروں میں سے ایک ہے۔یہ سورج سے صرف 4نوری سال2 کے فاصلہ پر موجود ہے۔اس کا اپنا ایک سیاروی نظام 3ہے۔

اگست 2016 میں ستارہ قنطورس کے سیاروی نظام میں سیارہ قنطورس۔بی دریافت ہوا تھا۔جنوری 2020 میں سیارہ قنطورس۔سی دریافت ہوا تھا۔جنوری 2022 میں سیارہ قنطورس۔ڈی دریافت ہوا ہے۔ 10فروری 2022میں امریکہ کے مشہور رسالہ اسٹرونامی و فلکیاتی  طبیعیات میں ستارہ نیر قنطورس کے گرد ایک ننھا سیارہ قنطورس۔ ڈی دریافت ہونے کا اعلان شائع ہوا ہے۔ اس اعلان کے مطابق یہ سیارہ ہماری زمین جیساچٹانی سیارہ ہے۔ گو کہ اس کا مادہ ہماری زمین کے مادے کا ایک چوتھائی ہے۔ یہ سیارہ ستارہ نیر قنطورس کے رہائشی علاقے میں پایا گیا ہے۔

بالکل اس طرح جس طرح ہماری زمین سورج کے رہائشی علاقے میں موجود ہے۔ اس سیارے پر مائع پانی پایا گیا ہے۔ابھی اس سیارے کی باقی تفصیلات موصول نہیں ہوئی ہیںلیکن تحقیق دانوں کو ان دو خاصیتوں کی بنا پر ان کو اس سیارے پر ہماری جیسی ذہین زندگی کی بھر پور امید ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ تحقیق دانوں نے کس طریقے سے معلوم کیا کہ اس ستارے کے سیاروی نظام میں کون کون سے سیارے ہیں؟

چلی میں یورپی جنوبی رصد گاہ(European Southern Observatory)کی ایک بہت ہی بڑی دوربین جدید آلات کے ساتھ نصب ہے۔اس دوربین پر فلکیاتی ماہرین اور تحقیق داں دن رات کام کرتے ہیں۔اس دوربین پر ایک خاص آلہ ایکلے اسپیکٹرو گراف (Echelle Spectrograph) بھی نصب ہے۔ اس آلے کے ذریعے کسی بھی ستارے کے طیف (Spectrum) کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ دوربین کے ذریعے ستارے کا مستقل مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ مشاہدے کے دوران اگر ستارہ اپنے مرکز سے ڈگمگاتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ اس کے گرد کوئی بھاری مادے والا جرم اپنی کشش کے ذریعے اس ستارے کو اپنے مرکز پر ڈگمگا رہا ہے۔ ایچلے اسپیکٹرو گراف  کے ذریعے اس ستارے کے طیف کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس ستارہ کا طیف اگر نیلے رنگ سے لال رنگ میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ ڈوپلر شفٹ4کہلاتا ہے۔ یہ طیف ستارے کے گرد ستارے کو ڈگمگانے والے جرم کا پتہ دیتا ہے۔ اگر ڈگمگانے والے جرم کا مادہ ستارے کے مادے سے کم ہوتا ہے تو تو وہ کوئی دوسرا ستارہ نہیں بلکہ اس ستارہ کا سیارہ ہی ہوتا ہے۔ اس آلے کے ذریعے ستارے کو ڈگمگانے والے جرم کا مادہ  اس ستارے سے اس کے درمیان کے فاصلے کا پتہ لگتا ہے۔ ایسا بھاری سیارہ نظام شمسی کے سیارہ مشتری (Jupiter) جیسا ہوتا ہے۔جب تحقیق دانوں کو ستارے کے سب سے بھاری مادہ والے سیارے کا مادہ اور دونوں کے درمیان کا فاصلہ پتہ معلوم ہوجاتا ہے تو کیپلر5 کے قوانین کے مطابق ستارے کے باقی سیاروں کے مادوں اور درمیانی فاصلوںکا پتہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔پھر اس ستارے کے تمام سیاروں کی دوربین کی مدد سے نشاندہی کی جاتی ہے۔ 

مثال کے طور پر 1995میں تحقیق دانوں نے ایک اور نزدیکی ستارہ فرس اعظم(Pegasus) کا اسی دوربین سے مشاہدہ کیا تھا۔

دوربین کے مشاہدے نے اس ستارے کا ڈگمگاتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا۔ پھر اس آلے کے ذریعے ستارہ فرس اعظم کے طیف کا مطالعہ کر کے اس کے سب سے بھاری مادے والے سیارے کی نشاندہی ڈوپلر شفٹ کے ذریعے کی گئی تھی۔اس کے طیف کے ذریعے ستارے کے اس بھاری والے مادہ سیارہ کا مادہ اور اس کے ستارہ کے درمیان کا فاصلہ بھی پتہ لگایا گیا تھا۔ پھر کیپلر کے قوانین کے مطابق باقی کے تمام سیاروں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

بالکل اسی طرح ستارہ نیر قنطورس کے سیاروں کا پتہ چلا تھا۔ اس ستارے کا مستقل مشاہدہ کرنے سے پتہ چلا کہ یہ اپنے مرکز سے تھوڑا ڈگمگا رہا ہے۔ تحقیق دانوں کو یقین ہوگیا کہ ضرور اس ستارے کے سب سے بھاری مادے کا سیارہ جو اس کے گرد گردش کر رہا ہے اس کے مادہ کی کشش کی وجہ سے ستارہ اپنے مرکز سے تھوڑا ڈگمگا رہا ہے۔ ڈوپلر شفٹ کے ذریعے اس بھاری مادہ والے سیارے کا مادہ اور ستارہ اور اس کے درمیانی فاصلہ کا پتہ چلا۔ یہ بھاری مادہ والا سیارہ بھی نظام شمسی کے سیارہ مشتری جیسا تھا۔کیپر قوانین کے مطابق ان دونوں معلومات سے باقی کے سیاروں کی نشاندہی ہوئی ہے۔

آج تک تقریباً 400 ایسے ستاروں کے سیارے دریافت ہوئے ہیں جو نظام شمسی کے سیارہ مشتری جیسے ہیں۔ آسمان میں ایسے ستارے اپنے مرکز سے تھوڑا ڈگمگانے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ کائنات میں ایسے ستارے بھی ہیں جن کے بھاری مادہ والے سیارے نہیں         ہیں۔ ایسے ستاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ضروری نہیں کہ ہر ستارہ نظام شمسی جیسا ستارہ ہو۔کسی ستارے کے دو سیارے بھی ہو سکتے ہیں تو کسی کے تین یا چار بھی ہو سکتے ہیں۔ تعداد متعین نہیں ہے۔

 ایسے ستاروں کی تلاش کس طرح کی جاتی ہے؟ ایسے ستاروں کی تلاش قران سیارہ (Transit of planet)     6سے کی جا تی ہے۔

قران سیارہ  

سب سے زیادہ سیاروں کی تلاش کیپلر خلائی دوربین کے ذریعے کی گئی تھی۔یہ خلائی دوربین 2009 میں خلا میں داغی گئی تھی۔اس دوربین کوخاص طور پر قران سیارے کی تلاش کے لیے ڈیزائین کیا گیا تھا۔اس دوربین نے خلا میں تقریباً تین سال کا عرصہ گزارہ تھا۔اس نے خلا میںشروعات ایک دھبے سے کی تھی۔ خلا میں یہ دھبہ ستاروں سے بھرا ہوا تھا لیکن خاص طور پر یہ چمکدار مثال سے خالی تھا۔ یہ آسمان کے شمالی حصے میں مجمع النجوم دجاجہ (Cygnus) اور مجمع النجوم شلیاق(Lyra)  کے درمیانی حد پر تھا۔کیپلر خلائی دوربین نے ہر 30منٹ میں تقریباً 150 ستاروں کی چمک ناپی اور ہر منٹ پر چنے ہوئے نظاموں کی ایک چھوٹی تعداد کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس خلائی دوربین کا ارادہ ان سیاروں کی تلاش تھا جہاں ہماری جیسی ذہین زندگی شاید موجود ہو سکتی تھی یعنی سیاروی دنیائیں سورج جیسے ستاروں کے گرد خاص طور پر ستارہ سے ایک فاصلے پر  درجۂ حرارت، مائع پانی کی اجازت دیتا ہو۔

ناسا  کا ایک نیا سیٹلائٹ ٹس (TESS) (Short for Transiting Exoplanet Surver Satellite)

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بنایا گیا جو نزدیکی ستاروں کے گرد سیاروں کو قران سیارہ کے ذریعہ تلاش کرے۔اس سیٹلائٹ کے ذریعہ کافی تعدادمیں ایسے سیاروں کی تلاش ہوئی جوتقریباً ہماری زمین جیسے ہیں۔ ایسے سیاروں کی تلاش جاری ہے جن پر ہمارے جیسی ذہین زندگی بستی ہو۔

A. H. Siddiqui

7 B, Tippet Street

Hills Borough

New Jersey- 08844 (USA)

Email.: aneessiddiqui2003@gmail.com

28/12/22

کرامت علی کرامت ایک ہمہ جہت شخصیت: سعید رحمانی


 شعر وادب کے عصری منظرنامہ میں پروفیسر کرامت علی کرامت کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ بنیادی طور پر شاعر تھے مگر بطور ناقد انھیں مستحکم شناخت حاصل تھی۔اس کے علاوہ ترجمہ نگاری کے فن میں بھی انھیں کمال حاصل تھا۔اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی‘ اڑیا اور ہندی زبانوں پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ریاضیات جیسے خشک موضوع کا پروفیسر ہونے کے باوجود ادب اور شاعری جیسی صنفِ لطیف میں انھوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

1963سے تا حال ان کی درجن بھر تصنیفات شائع ہوکر اہلِ ادب سے خراج حاصل کرچکی ہیں۔یہ تصنیفات شعر وادب ‘نقد وتحقیق اور ترجموں پر مبنی ہیں۔ان کی اولین پیشکش ’آبِ خضر‘ہے جس میں اڈیشا کے قدیم وجدید شعرا کا تذکرہ شامل ہے۔یہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں مرحوم شعرا‘دوسرے میں موجودہ شعرا اور تیسرے میں ان بیرونِ صوبہ کے شعرا کا تذکرہ ہے جن کا قیام اڈیشامیں مستقل یا عارضی رہا ہے۔اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگر کوئی اسکالر اڈیشا میں اردو شاعری کا ماضی اور حال لکھنے بیٹھے گا تواس کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔اس کا پہلا ایڈیشن 1993  میں شائع ہوا اور دوسرا ایڈیشن2020 میں جسے اڈیشا اردواکادمی نے نئی آب وتاب کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ ہے ’کلیاتِ نجمی‘کی تالیف جس کی اشاعت 2017  میں ہوئی اور جس کا پیش لفظ’گفتنی‘ کے عنوان کے تحت اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر سید مشیر عالم نے لکھا ہے۔ان کی تحریر کے مطابق حضرت امجد نجمی کی شعری بصیرت کی عکاسی حوالوں کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ کتاب ریسرچ اسکالرز‘ناقدین اور باذوق قارئین کے لیے ایک بیش بہا سرمایے سے کم نہیں۔

ایک ناقد کی حیثیت سے بھی کرامت صاحب نے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔اس ضمن میں ان کی دو کتابیں ’اضافی تنقید‘ اور ’نئے تنقیدی مسائل اور امکانات‘ سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا برملا اعتراف آل احمد سرور ‘خلیل الرحمن اعظمی‘ وزیر آغا‘ابنِ فرید‘شمس الرحمن فاروقی‘ گوپی چند نارنگ‘سلیم شہزادوغیرہ کرچکے ہیں۔ ان میں سے صرف دو شخصیتوں کا قول یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔وزیر آغا فرماتے ہیں’’کرامت علی کرامت بہت اچھے نقاد ہیں۔اہلِ نظر کی امیدیں ان سے وابستہ ہیں۔کرامت صاحب ہمارے بہت ہی ہوش مند اور کھرے نقاد ہیںاور ان کی کتاب کی اہمیت کا احساس دلانا ضروری ہے‘‘۔

بقول سلیم شہزاد ’’پروفیسر کرامت کی تنقید میانہ روی اور ادب کے ناقد کے خلوص کی مثال ہے۔ جدیدیت نے جو ناقدین فراہم کیے ہیں ان میں پروفیسر صاحب کا اپنا مقام ہے اور اپنی اعتدال پسندی کی وجہ سے وہ جدید Extremistناقدین سے الگ اپنی شناخت بناتے ہیں اور تاثراتی تنقید کے ناقدوں، نیازفتحپوری، سجاد انصاری‘ فراق اورآل احمدسرور کے خطوط کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کی سائنسی فکر ادب کے مطالعے اور تنقید پر حاوی نہ ہوتے ہوئے اس میں معاونت کرتی ہے۔‘‘

پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ کرامت صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔بعد میں نثر نگاری کی طرف آئے۔پھر تنقید کی جانب توجہ مبذول کی تو پہلا مضمون بعنوان’مجاز کی غنائیت‘سپردِ قلم کیا اور جو رسالہ ’صبحِ نو ‘پٹنہ کے جنوری 1995 کے شمارے کی زینت بنا۔اس کے بعد ترجمہ نگاری پر توجہ دی۔سب سے پہلا ترجمہ پروفیسر بدھو بھوشن داس کے ایک اڑیا مضمون کا تھا۔اس کے بعد انھوں نے اڑیا نظموں کے متعدد مجموعوں کو اردو قالب عطا کیاجن میں سیتا کانت مہاپاترا کی اڑیا نظموں کا مجموعہ بھی شامل ہے جسے انھوں نے’لفظوں کا آکاش‘ کے نام سے شائع کروا یاتھا۔ساہتیہ اکادمی انھیں اس مجموعے پر ٹرانسلیشن ایوارڈ برائے 2004 سے نواز چکی ہے۔

صحافت کے میدان میں بھی ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انھوں نے 1956 میں دو ماہی ’شاخسار‘ کا  اجرا کیا تھا۔یہ رسالہ برصغیر ہندوپاک میں کافی مقبول ہوا۔ اس وقت کے تمام اکابر ینِ ادب کی تخلیقات اس میں تسلسل سے شائع ہوتی تھیں۔ اس کے ذریعے نو آموز شعرا اور ادبا کو بھی آگے بڑھنے کا موقع ملا جو آج ادب کے آسمان پر درخشندہ ستاروں کی طرح ضیا پاشی کررہے ہیں۔ اس رسالے کے ذریعے انھوں نے صالح اور صحت مند جدیدیت کو فروغ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس زمانے میں چونکہ وہ کالج کے پروفیسر ہوا کرتے تھے اور ان کا تبادلہ اڈیشا کے مختلف اضلاع میں ہوتارہا تھا اس لیے اس کی ترتیب وتزئین کی ذمے داری انھوں نے اپنے استاد محترم حضرت امجد نجمی مرحوم کو سونپ رکھی تھی۔حضرت نجمی جب تک زندہ رہے ’شاخسار‘ پابندی سے شائع ہوتا رہااور ان کے انتقال کے بعد یہ بند ہوگیا۔ اس کے ہر شمارے میں کرامت صاحب کے اداریے اور تبصرے شامل رہتے تھے۔ ان اداریوں کے مطالعے سے کرامت صاحب کی فکری صلابت‘دروں بینی اور تنقیدی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ساتھ ہی اس زمانے کی ادبی سرگرمیوں‘ تحریکات ورجحانات سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔خوشی کی بات ہے کہ ان اداریوں اور تبصروں کو کتابی شکل میں شائع کیا جاچکا ہے جس کا نام ہے’شاخسار کے اداریے اور تبصرے‘۔ اس رسالے پر تحقیقی کام بھی ہو چکا ہے۔’اردو ادب کو شاخسار کی دین‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھنے پر سلمان راغب کو اتکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوچکی ہے۔

بہرحال سائنس اور ادب کو ہم آمیزکرکے کرامت صاحب نے جس طرح سائنس کو آرٹ کا ایک حصہ بنا دیا ہے اس کی مثال بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔اس طرح انھوں نے شیلے‘ پیٹر‘روجر اور ٹی۔ایس۔ایلیٹ کے اس نظریے کی توثیق کی ہے کہ’’ سائنس جب جذبات کے ساتھ مل جائے تو وہ آرٹ بن جاتا ہے۔‘‘

ان کی تخلیقی کاوشوں کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نثر نگاری ان کی شاعری پر حاوی نظر آتی ہے۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جہاں وہ اب تک اردو کی ستر70 کتابوں کا پیش لفظ لکھ چکے ہیں،وہیں سیکڑوں کتابوں پر بے لاگ تبصرے بھی کیے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کے مضامین وتراجم کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ان کی معرکتہ الآرا تصنیف ’اضانی تنقید‘کو بہر طورایک رجحان ساز کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔ جس میں پہلی بار انھوں نے ریاضیاتی و شماریاتی اسلوبیات کے اصولوں کو منطبق کر کے اسلوبیاتی تنقید کو نئی جہات سے آشنا کرایا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی شاعری کا قد کسی طرح کم ہے۔ بلکہ شاعری میں بھی اپنی فکر رسا کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ ان کے کلام میں حکیمانہ بصیرت‘متصوفانہ اعماق اور توانائی کے ساتھ شعری روایات کے عمدہ نقوش مرتسم نظر آتے ہیں۔ ان کے شعری و فکری رجحان کا پتہ اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے           ؎

لہجہ ہے اپنا گرچہ کرامت بہت ہی نرم

ہے موج تہہ نشیں کی طرح اس میں احتجاج

’شاخِ صنوبر‘ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو اولین مجموعے ’شعاعوں کی صلیب‘ کے پورے 34 سال بعد منظر عام پر آیا۔ ابتدا میں ’لفظ لفظ جستجو‘ کے عنوان سے حمد،نعت،آزاد نظمیں اور آزاد غزلیں شامل ہیں اور ’خواب خواب لمحہ‘ غزلوں پر مشتمل ہے جسے ایک مکمل دیوان کی صورت دی گئی ہے۔

کرامت صاحب نے اپنے مندرجہ ذیل شعر کو کتاب کا سرنامہ بنایا ہے            ؎

مرجھا گیا ہے پھول کا چہرہ تو کیا ہوا

گل کے عوض ہے شاخ صنوبر مجھے عزیز

ظاہر ہے خاروں کو عزیز رکھنے والا شخص درد آشنا ہوگا ایک ایسا درد جو دوسروں کے دل میں بھی ہوتو اس کی کسک وہ خود بھی محسوس کر سکتا ہے۔تا ہم ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے دھنک رنگی اجالے جا بہ جا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بقول عنوان چشتی ’فیشن گزیدہ جدیدیت سے اجتناب کرتے ہوئے انھوں نے ادب کی صالح روایات سے اپنا رشتہ مستحکم رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لب و لہجے میں شگفتگی اور زبان و بیان میں لطافت و سادگی پائی جاتی ہے۔ ’’شاخِ صنوبر‘  ان سبھی محاسن سے متصف ہے۔‘‘

 اس تعلق سے مزید کچھ کہنے کی بجائے بہتر سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری صاحب کا قول دہرادوں جو اسی کتاب کے پیش لفظ سے مستعار ہے۔بقول ان کے۔۔۔۔ ’’شاخِ صنوبرڈاکٹر کرامت علی کرامت کی تخلیقی بوطیقا کا اظہاریہ ہے جس میں اردو غزل کے تہذیبی مزاج،  فکری اساس اور فنی ساخت کی تفہیم و ادراک کے در کھلتے ہیں۔‘‘ایجاز و اختصار کے ساتھ بڑے جامع انداز سے انھوںنے اس مجموعے کی خصوصیات پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کتاب کے آخر میں اور فلیپ پر اکابرین ادب کی گراں قدر آرا بھی شامل ہیں جن میں فراق گورکھپوری،خواجہ احمد فاروقی، احتشام حسین،جمیل مظہری،وزیر آغا،گوپی چند نارنگ، اسلوب احمد انصاری، بلراج کومل، مظہر امام، وارث علوی، بانی، خلیق انجم، خلیل الرحمٰن اعظمی، شمیم کرہانی،  عنوان چشتی کے علاوہ اور بھی بیسوں شخصیتوں کا نا م لیا جا سکتا ہے۔ تقریباً سبھوں نے کرامت صاحب کی شاعری کو عمدہ خراج پیش کیا ہے۔ صرف لطف الرحمٰن صاحب انھیں اوسط درجے کا شاعر بھی تسلیم نہیں کرتے جب کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خیال میں کرامت صاحب شاعرانہ اسلوب کے عرفان سے عاری ہیں۔

مذکورہ اقوال سے اتفاق کا انحصار صاحب الرائے قارئین پر ہے کہ وہ ان خیالات کو قبول کریں یا رد کردیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی غزلیہ شاعری ذاتی تجربات اور مشاہدات کی منہ بولتی تصویر ہے جس میں انھوں نے رعایتِ لفظی سے کام لے کر آشنا لفظوں کو نئی معنویت اور نئے مفاہیم عطا کیے ہیں۔ زبان و بیان کی خوبی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔مختصر یہ کہ اپنے مشاہدات کو شعری پیکر عطا کرنے میں انھوں نے جس کمالِ فن کا مظاہرہ کیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ سبھی غزلیں ان کی تخلیقی صلاحیت اور علوئے فکر کاآئینہ دار ہیں۔

ان کی مطبوعہ تصنیفات حسبِ ذیل ہیں:

  1.         شاخِ صنوبر(شعری مجموعہ2006)
  2.         نئے تنقیدی مسائل اور امکانات(تنقیدی مضامین 2009)
  3.         لفظوں کا آسمان(سیتا کانت مہاپاترا کی اڑیا نظموں کا ترجمہ مع پیش لفظ از ڈاکٹر وزیر آغا1990۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ برائے ترجمہ نگاری)
  4.         کلیاتِ نجمی(تالیف)2017
  5.         شاخسار کے اداریے اور تبصرے2017
  6.         گلکدۂ صبح و شام(شعری مجموعہ2016)
  7.         ماہرِ اقبالیاتشیخ حبیب اللہ2019
  8.         آبِ خضر(تذکرۂ شعرائے اڈیشا۔دوسرا ایڈیشن2020
  9.         اڑیا زبان و ادب:ایک مطالعہ2020
  10.   God Particles And Otther poems (کرامت صاحب کی نظموں کا انگریزی ترجمہ:از ایلزبتھ کورین مونا2021)
  11.       ایکانت رو سورو(تنہائی کی چیخ۔کرامت صاحب کی اردو نظموں کا اڑیا ترجمہ از انور بھدرکی2021)
  12.       میرے منتخب پیش لفظ۔تنقید و تجزیہ2021

شعر وادب کے منظر نامہ میں کرامت صاحب بطور شاعرامتیازی حیثیت کے حامل تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی شاعری جہاں ذاتی تجربات و مشاہدات کی آئینہ دار ہے وہیں ان کے رجحانِ طبع سے بھی روشناس کراتی ہے۔ان کی شاعری اگر ایک طرف زندگی کو درپیش مسائل کا اظہاریہ ہے تو دوسری طرف سائنسی نظریات اور متصوفانہ موضوعات کی گرہ کشائی بھی کرتی نظر آتی ہے۔مختلف موضوعات پر مبنی یہاں ان کے چند اشعاربطور نمونہ پیشِ خدمت ہیں          ؎

کیا زمانے کا اعتبار کروں

اب نہیں اپنا اعتبار مجھے


کڑی دھوپ مجھ کو بلاتی رہی

مگر پیڑ جامن کا راہوں میں تھا


مقابلہ کیا جس پیڑ نے ہواؤں کا

اسی پہ برقِ تپاں کا عتاب اترا تھا

ندی جو پیاس بجھاتی تھی سب کی صدیوں سے

خود اس کی پیاس بجھانے سراب اترا تھا


ہاتھ آئے کرامت کو کیا عالمِ فانی سے

آیا ہے بشر تنہا جائے گا بشر تنہا

ان کے بیشتر اشعار سے سائنس کے جدید اکتشافات سے ابھرنے والے کائناتی شعورکا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔لیکن تعریف کی بات یہ ہے کہ اس خشک موضوع کو اس طرح جزوِ شاعری بنایا ہے کہ شعریت کہیں بھی مجروح نہیں ہوتی ہے۔اس ضمن میں یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں          ؎

انجم کا ٹوٹنا ہے محشر کا ایک منظر

کرتا ہے پھر بھی انساں آوازِ صور پر شک

آئینوں کے درمیاں رکھ دو چراغِ آرزو

دیکھتا رہ جائے گا منہ پھر مقابل کا چراغ

جب روزنِ سیاہ میں گم ہوگیا وجود

کرتی رہی مثالِ خضر رہبری شعاع

ہو ذات سے صفات کا کیوں کر مقابلہ

کرتی ہے نورِ عین سے جو ہم سری شعاع

درج بالااشعار میں انھوں نے سائنس کے مختلف اکتشافات پر روشنی ڈالی ہے۔ان سب کی تشریح کی جائے تو مضمون کافی طویل ہوجائے گا۔اس لیے آخری شعر کی تشریح پر اکتفا کرنا چاہوں گا۔اس شعر میں شاعر نے فلسفۂ وجودیت کو بڑی آسانی سے شعری جامہ پہنا دیا ہے۔ فلسفۂ وجودیت کی  رو سے Existence precedes essence یعنی کسی شے کا وجود اس کے جوہر سے پہلے کی چیز ہوا کرتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ذات کا وجود اصل ہے اور صفات بعد کی چیز ہے۔نورِ عین ذات کی طرح ہے اور شعاع صفات سے مشابہ۔نورِ عین یعنی وہ نور جو نظر میں عین الیقیں کی طرح پوشیدہ ہوتا ہے اور اس کا مقابلہ علم الیقیں کی شعاع نہیں کرسکتی۔

کرامت صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے مگر اس کے باوجود وہ سائنسی صداقتوں سے انحراف بھی نہیں کرتے تھے۔ایک شاعر کی حیثیت سے دنیا نیز کائنات میں رونما ہونے والی ہر بات سے ان کے دل میں ایک وجدانی کیفیت پیدا ہوتی اور وہ اس کا سائنسی انداز سے تجزیہ کرکے خود کو تسلی دے لیتے تھے۔ان کی شاعری میں فلسفیانہ موشگافیوں کے علاوہ پیکر تراشی‘ علامت پسندی اور ایمائیت جیسی مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔ چونکہ وہ ریاضی کے پروفیسر رہ چکے تھے اس لیے ان کے بعض اشعارمیں اس کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے          ؎

بے ربطیِ حیات سے بے ربط کا سبق

تنظیمِ کائنات میں اک انتشار دیکھ

اس شعر سے ریاضی کے نظریۂ امکانات (Theory of Probablity)کا اظہار ہوتا ہے۔مثلاًاگر ایک مہرہ پھینکیں تو وہ جس جگہ گرتا ہے ‘ دوسری بار پھینکنے پر اسی جگہ گرنے کی پشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ مہرہ کے گرنے کے واقعات ایک دوسرے سے بے تعلق اور بے ربط ہوتے ہیں، لیکن بار بار پھینکتے رہیں تو نظریۂ امکانات کے ذریعے یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی خاص عدد کتنی بارآئے گا۔غرض کہ قدرت کے مختلف بے ربط واقعات میں ایک ربطِ تسلسل برقرار رہتا ہے۔یہی خیال مندرجہ بالا شعر میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جگہ جگہ باصرہ‘لامسہ‘شامہ‘ذائقہ جیسی حسوں کا بھی برملا استعمال کیا ہے جس کی بدولت ان اشعار میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے۔قوتِ ذائقہ کی صرف ایک مثال دیکھیں           ؎

      تمھاری آنکھوں نے بخشی ہے گل کو نمکینی

      تم اپنی آنکھوں میں جلوے نچوڑتے کیو ںہو

اردو دنیا میں بلند مقام پر متمکن ہونے کے باوجودان میں ذرا بھی خود نمائی نہیں تھی۔طبیعت میں بلا کی انکساری تھی۔چھوٹے بڑے سبھوں کے ساتھ بڑے خلوص اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ان میں بچوں جیسی معصومیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔دوست احباب سے ملتے وقت چہرے پر ہلکا سا تبسم رقصاں ہوتا تھا۔ بہر حال یہ کہنے میں باک نہیں کہ اردو شعر وادب اور نقد وتحقیق کے باب میں پروفیسر کرامت صاحب نے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیںوہ تاریخِ ادب کا حصہ بنی رہیں گی۔ان خدمات کے پیشِ نظر صحیح معنوں میں وہ اردو ادب کے کوہِ نور تھے۔   

کٹک میں ان کی ولادت 23ستمبر 1936 کو ہوئی تھی۔عمر کے آخری پڑاؤ تک فعال زندگی گزارتے ہوئے بالآخر 5اگست 2022کو وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ ان کے انتقال سے اڈیشا کے ادبی حلقے میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ آسانی سے پر نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس اعلیٰ میں مقام عطا کرے۔ آمین!     آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Sayeed Rahmani

Editor

Adabi Mahaz

Deewan Bazar

Cuttack- 753001 Odisha))