29/12/22

امداد صابری حیات اور خدمات: محمد مظاہر


امداد صابری  کی پیدائش  ہندوستان کی راجدھانی، دہلی کے معروف علاقہ چوڑی والان  کے چوراہے پروا قع ایک  چھوٹے سے مکان میں ہوئی۔پور اگھرانہ علمی قمقموں کی روشنی سے جگمگ تھا۔1 ان کے دادا قاری جلال الدین خدا رسیدہ بزرگ اور انگریزی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ لال قلعے میں ان کی آمد ورفت تھی اور یہ بہادر شاہ ظفر کے خاص معتمدین میں سے تھے۔2 امداد صابری کے والد مولانا شرف الحق بھی مشہور روحانی شخصیت مولانا رحیم بخش کے تربیت یافتہ تھے۔ مولانا شرف الحق کی تعلیم وتربیت ملک کے مشہور و معروف  ادارہ دارالعلوم دیوبند میں ہوئی تھی۔ ان کے مشہور اساتذہ میں مولانا رشید گنگوہی کا نام سرفہرست ہے۔ان بڑے اساتذہ کے روحانی فیوض کا  اثر یہ ہوا کہ  مولانا شرف الحق  اپنے وقت کے بڑے علما میں شمار ہوتے تھے۔وہ عربی وفارسی کے  علاوہ عبرانی اورسنسکرت جیسی زبانوں   میں  ید طولی رکھتے تھے۔وقت  کے بڑے بڑے پادری ان کی صلاحیت کے قائل تھے اور ان سے مناظرہ کر نے سے ڈرتے تھے۔3 مولانا شرف الحق کو کوئی نرنیہ اولاد نہیں تھی۔بڑی دعاؤں کے بعد 16 اکتوبر 1914 کو مولانا امداد صابری  نے  اس عرصہ ہستی میں قدم رکھا۔چونکہ ان کو اپنے  استاد حاجی امداد اللہ اورمولانا رشید احمد گنگوہی سے بڑی عقیدت تھی اس لیے انھوں نے اپنے فرزندکا نام اپنے استاد وں کے نام پر امداد الرشید رکھا۔پنڈت ہرسروپ شرما اس جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’مولانا شرف الحق صاحب  مرحوم کو اپنے پیر حضرت حاجی امداد اللہ اور اپنے استاد مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیحد عقیدت و محبت تھی۔ آپ کے نرینہ اولاد  نہیں ہوئی تھی۔ بڑی دعاؤں کے بعد  16 اکتوبر 1914 کے جنگی دور میں مولانا امداد صابری پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے فرزند کا  نام پیرواستاد کے نام پر امداد الرشید رکھا۔ ان دونوں انقلابی ناموں کے اثرات مولانا امداد صابری کی زندگی پر بھی پڑے۔‘‘4

  10 سال کی چھوٹی عمر میں انھیں انگریزی زبان میں تعلیم دی گئی۔ انھوں نے سہارنپور میں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے 1930 میں پنجاب یونیورسٹی سے کالج کی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں انھوں نے 1937 میں جیل کے احاطے میں ہندی زبان سیکھی اور ادب میں دلچسپی پیدا کی۔مولانا امداد صابری نے ادیب، فاضل وغیرہ کا امتحان پاس کیا۔اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ ازہر جانے کا ارادہ تھا اور اس سلسلے میں کارروائی  چل  ہی رہی تھی کہ والد مولاناشرف الحق کا انتقال 28 جنوری 1936میں ہوگیا اور پھر گھرکی ساری ذمے داری ان کے سرپر آگئی۔پنڈت ہرسروپ شرما  لکھتے ہیں

’’مولانا امداد صابری ادیب، فاضل وغیرہ کا امتحان دے چکے تھے۔ ان کے والد ان کو جامعہ ازہر(مصر) بھجوانے کے لیے پاسپورٹ بنوانے  کی تیاریاں کر رہے تھے کہ ان کے والد کا نتقال 28 جنوری 1936 کو ہوا۔ گھر کے دیکھ بھال کی ذمہ داری ان پر پڑ گئی۔‘‘5

امداد صابری بچپن سے ہی انقلابی ذہن کے آدمی تھے اور اپنے سینے میں ہمددری کا جذبہ رکھتے تھے۔ وہ ظلم اور ناانصافی کو کبھی بھی پسند نہیں کرتے تھے  اور ان کے خلاف آواز اٹھانا اپنا  فریضہ تصور کرتے تھے۔ ان کی عمر محض سترہ برس کی  ہی تھی کہ انھوں نے ایک پولس افسرکو  اس وقت دھکا   دے دینا چاہاجب وہ ایک خاتون پر ڈنڈا چلانے کی کوشش  میں تھا۔ ان کے اس  اقدام پر اس انگریزی پولس افسر نے ان کی زدوکوب کیا تھا اور وہ بیہوش ہوگئے تھے۔ اس کی تفصیل پنڈت ہرسروپ شرما کی کتاب میں اس طرح ہے

’’مولانا امداد صابری کی سترہ برس کی عمر ہوگی غالبا 1930 یا 1931 کا واقعہ ہے کہ یہ شام کے وقت کوتوالی کے سامنے ایک کانگریسی جلوس اور پولس کا تصادم کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک انگریزی پولس افسر نے ایک جوان لڑکی پر، ڈنڈا  مارنے کے لیے اٹھایاتو مولانا صابری  نے اس انگریزی پولس افسر کو دھکا دینے کی کوشش کی۔ پولس افسر سنبھلا اور اس نے پوری قوت سے مولانا صابری کے سرپر ڈنڈا کھینچ کر مارا۔ مولانا صابری فورا زمین پر گر گئے اور بیہوش ہو گئے۔ بھیڑمیں بھگدڑ مچ گئی۔دوتین گھنٹے کے بعد راہگیروں نے مولانا صابری کے گھر کا پتہ دریافت کرکے ان کے گھر پہنچا دیا۔ ‘‘6

ماحول کا  اثر حساس شخصیتوں پر بہت تیزی سے پڑتا ہے۔ امداد صابری جب  21 یا 22برس کے تھے کہ ملک  کے حالات نے انھیں اپنی طرف  متوجہ کیا۔  قوم کی ناگفتہ بہ حالت نے انھیں  مجبور کیا کہ وہ اس جانب متوجہ ہوں۔اوقاف کی حالت اس وقت نہایت خراب تھی۔  انھوں نے محسوس کیا کہ اگر ان کا صحیح استعمال کیا جائے تو قوم کی اقتصادی حالت مضبوط ومستحکم ہوسکتی ہے۔ انھوں نے اوقاف کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کا بیڑا  اٹھایا  اور انھوں نے 1936 میں  دہلی کی جامع مسجدکے مکبر پر اصلاحی تقریریں کرنی شروع کر دیں۔آگے چل کر بات اتنی بگڑ گئی کہ 1937 میں انھیں  پولس نے دفعہ 107 نقض امن  کے تحت گرفتار کر لیا اور  پھر بعد میں ایک ہزار روپیہ کی ضمانت پر رہا کردیا۔ پنڈت ہرسروپ شرما رقمطراز ہیں

’’آپ نے دیکھا کہ قوم کی حالت ناگفتہ ہے اور انتہائی برے مدارج پر پہنچ گئی ہے تو آپ سے نہ رہا گیا۔آپ نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی کی وجہ شریف ٹولیاں  اور اڈے ہیں جو مسلمانوں  کے  اوقاف پر قابض ہیں اور مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کرر ہے ہیں۔چنانچہ آپ نے اوقاف کے سرمایے کی حفاظت اور اس کے صحیح مصرف کرانے کا بیڑا اٹھایا اور 1936 میں جامع مسجد دہلی کے مکبر پر اصلاحی  تقریروں کا سلسلہ شروع کیا...جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ9جولائی کو نماز جمعہ سے قبل جامع مسجد کے ارد گرد تقریبا پانچ سو پولس  کی جمعیت نے مولانا صابری کو جامع مسجد دریبہ والے دروازے سے داخل ہوتے وقت دفعہ 107 نقض امن کے تحت گرفتار کر لیا جس میں سال بھر کی ضمانت  ایک ہزار روپیہ کی لی گئی۔‘‘7

امداد صابری  نے متعدد  سیکولر سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان پرالیکشن میں قسمت آزمائی۔بیشتر انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔وہ دہلی کارپوریشن کے ڈپٹی میئر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 8 انھوں نے دہلی میونسپل کمیٹی میں قابل ستائش کام کیا اور لوگوں کو ان معاملات میں دلچسپی لینے کے لیے متحرک کیا جو ان کے علاقوں میں بہتری کے متقاضی تھے۔ انھوں نے شہر میں بجلی کی مقامی فراہمی کی حمایت میں بھی آواز بلند کی۔ ان کی طرف سے چلائی جانے والی دیگر تحریکوں میں ٹرام چلانے کے خلاف تحریک، 9ہاؤس ٹیکس کو دوگنا کرنا10، سائیکل ٹیکس کا خاتمہ، ایک لاکھ روپے کے سرمائے پر اناج کی دکانیں کھولنا11، اورہفتہ اخبار چنگاری کی اشاعت شامل تھی۔  انھیں 15 اگست 1942 سے 30 نومبر 1943 تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔

ضمانت پر ہونے کے باوجود، انھیں گرفتار کر لیا گیا اور1945 میں نیتا جی سباش چندربوس کے جاپانی ساتھیوں کی مدد کرنے کے الزام میں انھیں شاہی قیدی بنا دیا گیا12۔ انھوں نے نیتا جی کے ساتھیوں کو اپنے گھر پر رکھا اور ان کے لیے ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے کا انتظام کیا۔ چونکہ یہ الزام ثابت نہیں ہو سکا اس لیے ان پر دوسرے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور انھیں 13 ماہ کی سزا سنائی گئی۔13 اس مدت کو سیشن کورٹ نے منسوخ کر دیا۔ اس طرح انھوں نے دہلی جیل، ملتان جیل میں وقت گزارا اور فیروز پور میں گھر میں نظر بند بھی رہے۔ 14

امداد صابری ایک بڑے مجاہد آزادی بھی تھے۔ انھوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔جب ہندوستان میں   1942کے اندرجنگ آزادی کی آخری تحریک شروع ہوئی تو انھوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اس جرم کی پاداش میں گرفتار بھی ہوئے اور نظر بند بھی کیے گئے۔ 15

مولانا امداد صابری گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ایک طرف  وہ اگر سیاست داں اور مجاہد آزادی تھے تو دوسری  طرف وہ  کہنہ مشق صحافی   اور ادیب بھی ۔ ان کی صحافتی زندگی حکومت سے پنجہ آزمائی سے عبارت ہے۔ انھوں  نے اپنے قلم کے ذریعے حالات پر بے لاگ تبصرہ کیا۔ جہاں جس طرح کی خرابی نظرآئی اس پر نوک قلم سے حملہ بول دیا۔ جیل کے اندر خرابی نظرآئی تو اس جانب بھی حکومت کو متوجہ کیا۔ مزدوروں پر ظلم ہوا تو اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ محکمہ پولس میں خرابی نظر آئی تو اس پر خامہ فرسائی کی۔ تعلیم کے شعبے میں اگر کچھ خامیاں نظر آئیں تو اس جانب بھی اشارہ کیا۔ غرض کہ ایک سچے صحافی کا فریضہ ادا کیا۔ امداد صابری نے تقریبا  آٹھ اخبارات  نکالے یا ا ن میں بحیثیت ایڈیٹر اپنی خدمات پیش کیں۔ ان اخبارات میں شائع خبروں ومضامین کے اچھے اثرات مرتب ہوتے تھے اور حکومت کے محکموں میں  اصلاح کا  کام بھی ہوتا تھا۔

امدادصابری نے سب سے  پہلے1940 میں ہفتہ وار اخبار اتحاد کے ایڈیٹر کی ذمے داری نبھائی۔دہلی میں  1947 سے قبل کوئی اسمبلی نہیں تھی اور میونسپل کمیٹی ہی  اسمبلی کی طرح کام کرتی تھی۔ اخبار اتحاد نے  میونسپل کمیٹی کی خرابیوں کی نشاندہی کی   اور ساتھ  ہی ساتھ جامع مسجد اور فتح پوری کی منتظمہ کمیٹی کی بدعنوانیوں کو   بھی اجاگر کیا۔اس اخبار کی نکتہ چینی کے سبب  جامع مسجد اور مسجد فتح پوری کمیٹی  کو اصلاحی رویہ اختیار کرنا پڑا۔ چیف کمشنر کا محکمہ بھی اس اخبار کی خبر پر حرکت میں آ جاتا تھا۔16

اخبار اتحاد جب  فروی 1947 میں بند ہوگیا تو امداد صابری اخبار’تیغ‘ کی ادارتی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ یہ اخبار صابری صاحب کے پرانے دوست علامہ ابوالبیان آزاد نکالتے تھے۔ یہ ماہانہ اخبار تھا جو بعد میں ہفتہ واری ہوگیا تھا۔ پنڈت ہرسروپ شرما لکھتے ہیں

’’اخبار اتحاد فروری 1947 میں بند ہوگیا تھا۔ صابری صاحب کے قدیمی دوست علامہ ابولبیان آزاد ہفتہ وار تیغ اخبار نکالتے تھے۔ یہ پہلے ماہانہ رسالہ تھا بعد میں ہفتہ واری ہوگیا تھا۔ آزاد  صاحب کے ایما  اور خواہش پر صابری صاحب اس کی ادارت میں شامل ہوئے۔‘‘17

امداد صابری نے  ہفتہ وار اخبار ’چنگاری‘ کی بھی ادارت کی۔ اس اخبا رکے مالک عبداللہ شمیم تھے جو  امداد صابری کے دیرینہ دوست تھے۔امداد صابری اس اخبار کی ادارت پانچ چھ مہینے ہی کرپائے کیونکہ انھیں پھر نظربند کردیا گیا۔مذکورہ تینوں اخبارات میں امداد صابری نے اعزازی کام کیا تھا۔ 18

1947 میں جب مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ حکومت بنی تو امداد صابری نے 9مئی 1947کو اپنا ذاتی ہفتہ واری اخبار’قومی حکومت ‘ نکالا۔قومی حکومت کا آخری پرچہ 23 اگست 1947کو شائع ہوا۔اس کے بعدملک میں فسادات شروع ہوگئے اور اس اخبار کا نکلنا مشکل ہوگیا۔ اس اخبار کا آخری شمارہ 7 اکتوبر 1947کو منظر عام پر آیا اور پھر یہ اخبار بھی بند ہوگیا۔ ایک سال بعد17کتوبر 1948 کو یہ اخبار دوبارہ جاری ہوا۔ 19

1949 میں جب ماہانہ رسالہ ’آزاد ہندوستان‘ جاری ہوا  تو امداد صابری اس کے مدیر بنے۔ اس اخبار میں حالات حاضرہ، کسٹوڈین اور میونسپل کمیٹی  اور محکمہ پولس وغیرہ کی بدعنوانیوں کی خبرکے ساتھ ساتھ ادبی، تاریخی اور سیاسی مضامین بھی شامل ہوتے تھے۔20 11جولائی 1952کو انھوں نے  اپنا ذاتی ہفتہ وار اخبار ’انگارہ‘ جاری کیا۔ اس اخبار کی  عمر بھی بہت رہی اور دو مہینے کے قلیل عرصے میں یہ بھی بند ہوگیا۔ اس اخبار کے کل آٹھ شمارے ہی نکل پائے۔آخری شمارہ 14 نومبر 1952 کو شائع ہوا تھا۔ 21

1954 میں انھوں نے ایک اور  ہفتہ واری اخبار ’جماعت‘ جاری کیا۔ یہ اخبار بھی انگارہ کا ہم عمر ہوکر لقمہ اجل بن گیا۔ 10 ستمبر 1954کو اس اخبار کا آخری شمارہ شائع ہوا تھا۔ اس اخبار کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں ایک نئی بات کا اعلان کیا گیاتھا کہ تذکرہ شعرائے دہلی مرتب کیا جائے گا اور بالاقساط شعرا کے حالات اور ان کے کلام شائع کیے جائیں گے اور پھر انھیں کتابی شکل دی جائے گی۔اس اخبار میں جگن ناتھ آزاد،حافظ منیرالدین منیر دہلوی اور حکیم رفیق احمد  رسا دہلوی کے حالات زندگی اور ان کے کلام کو شائع کیا گیا۔22

20 جنوری 1956 میں امداد صابری نے ’عوامی رائے‘ دہلی سے شائع کیا۔یہ اخبار ایک سال تک  تواتر کے ساتھ شائع ہوتا رہا اور بالاخر یہ بھی بند ہوگیا۔ اس اخبارکا آخری شمارہ  28 دسمبر 1956 کو منظرعام آیا تھا۔ 23

امداد صابری نے درجنوں کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں

تاریخ صحافت اردو (تین جلدوں میں)، تاریخ جرم و سزا (تین جلدوں میں)، فرنگیوں کا جال، داستان پر غم، تاریخ آزاد ہند فوج، نیتا جی سبھاش چندر بوس کے ساتھ، سبھاش بابو کی تقریر، آزاد ہند فوج کا البم 1857 کے مجاہد شعرا، 1857 کے غدار شعرا، حاجی امداد اللہ اور ان کے خلفا، رسول خدا کا دشمنوں سے سلوک،رسول خدا کی غریبوں سے محبت، فیضان رحمت، دہلی کی یادگار شخصیتیں، دہلی کے قدیم مدارس اور مدرّس، سیاسی رہنماؤں کی مائیں اور بیویاں، اللہ کے گھر میں بار بار حاضری، اخبار مخبر عالم مراد آباد اور تحریک آزادی، آثار رحمت، جنوبی افریقہ کے اردو شاعر روح صحافت۔24

امداد صابری دیواری  صحافت سے بھی شغف رکھتے تھے۔ وہ نہایت خوبصورت پوسٹر لکھاکرتے تھے۔ پوسٹروں کی زبان  بڑی شستہ ہوتی تھی  اور یہ نہایت دیدہ زیب ہوا کرتے تھے۔ یہ پوسٹر راتوں کو جاگ  جاگ کر لکھے جاتے اور صبح فجر سے قبل  دیواروں پر چسپاں کردیے جاتے۔ مولانا کا پوسٹر سب سے پہلے آیا کرتا تھا۔ ظفر انور اس سلسلے میں رقمطراز ہیں

’’مولانا دہلی کی دیواری صحافت و سیاست یعنی پوسٹروں میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے تھے، مولانا کا پوسٹر منفر د ہوتا ، زبان و بیان کے علاوہ انتہائی خوبصورت  و دیدہ زیب تو ہوتا ہی تھا حالات کے تناظر میں لوگوں کے لیے نوشتہ دیوار بھی ثابت ہوتا تھا۔ دہلی کے پوسٹروں کی صحافت کا دور بھی بڑا ہی دلچسپ تھا۔ رات بھر جاگ کر تیاری ہوتی اور صبح فجر سے قبل ہی یہ پوسٹر دیواروں پر آویزاں کر دیے جاتے تھے۔ مولانا  کا  پوسٹر سب سے پہلے سامنے آتا تھا۔ یہ سلسلہ بہت قدیمی تھا جو مولانا کے دور تک  ہی اپنی معنویت کے ساتھ قائم رہ سکا۔ ‘‘25

امداد صابری  74 سال کی عمر میں  13 اکتوبر 1988 کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔دہلی کے مہندیان کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔26 ان کے دو فرزند شرف صابری اور احمد صابری   دہلی میں قیام پذیر ہیں۔ دونوں ہی  اپنے والد گرامی کی روایتوں کے امین و پاسبان ہیں۔27  ان کے شاگردوں  میں دہلی کے مشہور صحافی قاری محمد میاں مظہری کا نام بھی لیا جاتا ہے۔28

امداد صابری کی  زندگی انتہائی سادہ تھی۔ان میں انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔وہ ہمہ وقت دوسروں کے کام میں مصروف  رہا کرتے۔ اپنے ساتھ مہر اور پیڈ لے کر چلا کرتے۔ جس نے بھی اپنی ضرورت کا فارم آگے بڑھایا فورا دستخط کر کے مہر ثبت کر دیا۔گرمیوں کے دنوں میں بجلی گل ہونے  کی صورت میں دستی پنکھا کا استعمال کرتے اوراپنے کام میں مصروف رہتے۔

مولانا امداد صابری سچے اور پکے  مجاہد آزادی اور سبھاش  چندر بوس  سے گہری عقیدت  رکھتے تھے۔ بیباک صحافی،  کہنہ مشق ادیب اور مجاہد صفت سیاست داں تھے۔ 


حوالہ جات

  1.         دہلی کے پچاس صحافی،ظفر انور ،ص230 اصیلہ آفسیٹ پریس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی2015
  2.         مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص2،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  3.         ایضا،ص4
  4.         ایضا،ص5
  5.         ایضا،ص5
  6.         مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص5پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  7.         ایضا،ص5-7
  8.         دلی جوایک شہرہے، ظفر انور، ص  90شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، ص234،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015
  9.         مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری ص19-20،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  10.       ایضا،ص 31
  11.       ایضا،ص38
  12.       ایضا،ص11
  13.       ایضا،ص11
  14.       ایضا،ص11
  15.       ایضا،ص63
  16.       مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص58-59،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی
  17.       ایضا،ص62
  18.       ایضا،ص64
  19.       ایضا،ص71
  20.       ایضا،ص75-76
  21.       ایضا،ص83-84
  22.       ایضا،ص 84
  23.       ایضا،ص84
  24. دہلی کے پچاس صحافی، ظفر انور، ص 87،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2015،مختصرحالات زندگی مولانا امداد صابری،ص46,55،پنڈت ہرسروپ شرما، کھنہ پریس، دہلی، دلی جوایک شہرہے ، ظفر انور،  ص  87شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019
  25. دلی جوایک شہرہے، ظفر انور، ص  90،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، 233،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015
  26.  دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، ص239،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015دلی جوایک شہرہے، ظفر انور، ص  86شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی، 2019
  27. دلی جوایک شہرہے، ظفر انور،  ص  87،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، 231،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015
  28.  دلی جوایک شہرہے، ظفر انور،  ص  87،شالیمار آفسیٹ پریس، کوچہ چیلان، نئی دہلی،2019، دہلی کے پچاس صحافی، ظفرانور، 230،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی، 2015

Mohd Mazahir

Research Scholar, Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں