29/12/22

بیرونی سیاروں کی دریافت کس طرح کی جاتی ہے: انیس الحسن صدیقی


 اس صدی کے نوجوان بہت ہی خوش قسمت ہیں کیونکہ وہ سائنس اور تکنیک کی صدی میں پل بڑھ رہے ہیں۔یہ ان کے لیے علم فلکیات کا سنہرا دور ہے۔علم فلکیات میں روز بہ روز دریافتوں کا انبار لگتا چلا جا رہا ہے۔ سائنسداں اور تکنیکی ماہروں نے کائنات کے بارے میں اچھی طرح جان لیا ہے کہ کائنات کی کوئی حد نہیں ہے اور کائنات میں نہ ختم ہونے والا خزانہ موجود ہے۔ بس ضرورت ہے کہ کون اس مینا کو بڑھ کر اٹھاتا ہے۔لہٰذا وہ ملک بہت ہی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جو علم فلکیات میں دن اور رات کام کر رہے ہیں۔اب اپنے ملک کو شدید ضرورت ہے کہ علم فلکیات کو عام اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جائے اور اس میدان میں دن اور رات کام کیا جائے۔ شہید راشٹریہ پتا مہاتما گاندھی جی کا بھی یہی خواب تھا کہ ہندوستان کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں علم فلکیات ہر طالب علم کو اس کی مادری زبان میں دستیاب ہو۔وہ خود بھی اس علم میں دلچسپی رکھتے تھے اور قید کے دوران آسمانی اجرام کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔

آج کل دنیا کے فلکیاتی ماہرین اور سائنسداں اپنی زمین جیسے بیرونی سیاروں کی تلاش میں منہمک ہیں۔ان کو پوری امید ہے کہ ایک نہ ایک دن کائنات میں کہیں نہ کہیں ہمارے جیسی ذہین زندگی مل جائے گی۔اس تلاش میں روز بہ روز سائنسی اور تکنیکی آلات بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا اثرانسانی زندگی کی بہتری پر پڑ رہا ہے۔ اس زمین پر انسانی زندگی بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔

حال ہی میں دنیا کے فلکیاتی اور تکنیکی ماہرین کی ایک ٹیم نے ہماری زمین جیسا چٹانی سیارہ سورج کے پڑوسی ستارہ نیر قنطورس(Proxima Centaury) کے نظام میں دریافت کیا ہے۔ستارہ نیرقنطورس، سورج کے سب سے نزدیک ستاروں میں سے ایک ہے۔یہ سورج سے صرف 4نوری سال2 کے فاصلہ پر موجود ہے۔اس کا اپنا ایک سیاروی نظام 3ہے۔

اگست 2016 میں ستارہ قنطورس کے سیاروی نظام میں سیارہ قنطورس۔بی دریافت ہوا تھا۔جنوری 2020 میں سیارہ قنطورس۔سی دریافت ہوا تھا۔جنوری 2022 میں سیارہ قنطورس۔ڈی دریافت ہوا ہے۔ 10فروری 2022میں امریکہ کے مشہور رسالہ اسٹرونامی و فلکیاتی  طبیعیات میں ستارہ نیر قنطورس کے گرد ایک ننھا سیارہ قنطورس۔ ڈی دریافت ہونے کا اعلان شائع ہوا ہے۔ اس اعلان کے مطابق یہ سیارہ ہماری زمین جیساچٹانی سیارہ ہے۔ گو کہ اس کا مادہ ہماری زمین کے مادے کا ایک چوتھائی ہے۔ یہ سیارہ ستارہ نیر قنطورس کے رہائشی علاقے میں پایا گیا ہے۔

بالکل اس طرح جس طرح ہماری زمین سورج کے رہائشی علاقے میں موجود ہے۔ اس سیارے پر مائع پانی پایا گیا ہے۔ابھی اس سیارے کی باقی تفصیلات موصول نہیں ہوئی ہیںلیکن تحقیق دانوں کو ان دو خاصیتوں کی بنا پر ان کو اس سیارے پر ہماری جیسی ذہین زندگی کی بھر پور امید ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ تحقیق دانوں نے کس طریقے سے معلوم کیا کہ اس ستارے کے سیاروی نظام میں کون کون سے سیارے ہیں؟

چلی میں یورپی جنوبی رصد گاہ(European Southern Observatory)کی ایک بہت ہی بڑی دوربین جدید آلات کے ساتھ نصب ہے۔اس دوربین پر فلکیاتی ماہرین اور تحقیق داں دن رات کام کرتے ہیں۔اس دوربین پر ایک خاص آلہ ایکلے اسپیکٹرو گراف (Echelle Spectrograph) بھی نصب ہے۔ اس آلے کے ذریعے کسی بھی ستارے کے طیف (Spectrum) کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ دوربین کے ذریعے ستارے کا مستقل مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ مشاہدے کے دوران اگر ستارہ اپنے مرکز سے ڈگمگاتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ اس کے گرد کوئی بھاری مادے والا جرم اپنی کشش کے ذریعے اس ستارے کو اپنے مرکز پر ڈگمگا رہا ہے۔ ایچلے اسپیکٹرو گراف  کے ذریعے اس ستارے کے طیف کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس ستارہ کا طیف اگر نیلے رنگ سے لال رنگ میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ ڈوپلر شفٹ4کہلاتا ہے۔ یہ طیف ستارے کے گرد ستارے کو ڈگمگانے والے جرم کا پتہ دیتا ہے۔ اگر ڈگمگانے والے جرم کا مادہ ستارے کے مادے سے کم ہوتا ہے تو تو وہ کوئی دوسرا ستارہ نہیں بلکہ اس ستارہ کا سیارہ ہی ہوتا ہے۔ اس آلے کے ذریعے ستارے کو ڈگمگانے والے جرم کا مادہ  اس ستارے سے اس کے درمیان کے فاصلے کا پتہ لگتا ہے۔ ایسا بھاری سیارہ نظام شمسی کے سیارہ مشتری (Jupiter) جیسا ہوتا ہے۔جب تحقیق دانوں کو ستارے کے سب سے بھاری مادہ والے سیارے کا مادہ اور دونوں کے درمیان کا فاصلہ پتہ معلوم ہوجاتا ہے تو کیپلر5 کے قوانین کے مطابق ستارے کے باقی سیاروں کے مادوں اور درمیانی فاصلوںکا پتہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔پھر اس ستارے کے تمام سیاروں کی دوربین کی مدد سے نشاندہی کی جاتی ہے۔ 

مثال کے طور پر 1995میں تحقیق دانوں نے ایک اور نزدیکی ستارہ فرس اعظم(Pegasus) کا اسی دوربین سے مشاہدہ کیا تھا۔

دوربین کے مشاہدے نے اس ستارے کا ڈگمگاتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا۔ پھر اس آلے کے ذریعے ستارہ فرس اعظم کے طیف کا مطالعہ کر کے اس کے سب سے بھاری مادے والے سیارے کی نشاندہی ڈوپلر شفٹ کے ذریعے کی گئی تھی۔اس کے طیف کے ذریعے ستارے کے اس بھاری والے مادہ سیارہ کا مادہ اور اس کے ستارہ کے درمیان کا فاصلہ بھی پتہ لگایا گیا تھا۔ پھر کیپلر کے قوانین کے مطابق باقی کے تمام سیاروں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

بالکل اسی طرح ستارہ نیر قنطورس کے سیاروں کا پتہ چلا تھا۔ اس ستارے کا مستقل مشاہدہ کرنے سے پتہ چلا کہ یہ اپنے مرکز سے تھوڑا ڈگمگا رہا ہے۔ تحقیق دانوں کو یقین ہوگیا کہ ضرور اس ستارے کے سب سے بھاری مادے کا سیارہ جو اس کے گرد گردش کر رہا ہے اس کے مادہ کی کشش کی وجہ سے ستارہ اپنے مرکز سے تھوڑا ڈگمگا رہا ہے۔ ڈوپلر شفٹ کے ذریعے اس بھاری مادہ والے سیارے کا مادہ اور ستارہ اور اس کے درمیانی فاصلہ کا پتہ چلا۔ یہ بھاری مادہ والا سیارہ بھی نظام شمسی کے سیارہ مشتری جیسا تھا۔کیپر قوانین کے مطابق ان دونوں معلومات سے باقی کے سیاروں کی نشاندہی ہوئی ہے۔

آج تک تقریباً 400 ایسے ستاروں کے سیارے دریافت ہوئے ہیں جو نظام شمسی کے سیارہ مشتری جیسے ہیں۔ آسمان میں ایسے ستارے اپنے مرکز سے تھوڑا ڈگمگانے کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ کائنات میں ایسے ستارے بھی ہیں جن کے بھاری مادہ والے سیارے نہیں         ہیں۔ ایسے ستاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ضروری نہیں کہ ہر ستارہ نظام شمسی جیسا ستارہ ہو۔کسی ستارے کے دو سیارے بھی ہو سکتے ہیں تو کسی کے تین یا چار بھی ہو سکتے ہیں۔ تعداد متعین نہیں ہے۔

 ایسے ستاروں کی تلاش کس طرح کی جاتی ہے؟ ایسے ستاروں کی تلاش قران سیارہ (Transit of planet)     6سے کی جا تی ہے۔

قران سیارہ  

سب سے زیادہ سیاروں کی تلاش کیپلر خلائی دوربین کے ذریعے کی گئی تھی۔یہ خلائی دوربین 2009 میں خلا میں داغی گئی تھی۔اس دوربین کوخاص طور پر قران سیارے کی تلاش کے لیے ڈیزائین کیا گیا تھا۔اس دوربین نے خلا میں تقریباً تین سال کا عرصہ گزارہ تھا۔اس نے خلا میںشروعات ایک دھبے سے کی تھی۔ خلا میں یہ دھبہ ستاروں سے بھرا ہوا تھا لیکن خاص طور پر یہ چمکدار مثال سے خالی تھا۔ یہ آسمان کے شمالی حصے میں مجمع النجوم دجاجہ (Cygnus) اور مجمع النجوم شلیاق(Lyra)  کے درمیانی حد پر تھا۔کیپلر خلائی دوربین نے ہر 30منٹ میں تقریباً 150 ستاروں کی چمک ناپی اور ہر منٹ پر چنے ہوئے نظاموں کی ایک چھوٹی تعداد کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس خلائی دوربین کا ارادہ ان سیاروں کی تلاش تھا جہاں ہماری جیسی ذہین زندگی شاید موجود ہو سکتی تھی یعنی سیاروی دنیائیں سورج جیسے ستاروں کے گرد خاص طور پر ستارہ سے ایک فاصلے پر  درجۂ حرارت، مائع پانی کی اجازت دیتا ہو۔

ناسا  کا ایک نیا سیٹلائٹ ٹس (TESS) (Short for Transiting Exoplanet Surver Satellite)

اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بنایا گیا جو نزدیکی ستاروں کے گرد سیاروں کو قران سیارہ کے ذریعہ تلاش کرے۔اس سیٹلائٹ کے ذریعہ کافی تعدادمیں ایسے سیاروں کی تلاش ہوئی جوتقریباً ہماری زمین جیسے ہیں۔ ایسے سیاروں کی تلاش جاری ہے جن پر ہمارے جیسی ذہین زندگی بستی ہو۔

A. H. Siddiqui

7 B, Tippet Street

Hills Borough

New Jersey- 08844 (USA)

Email.: aneessiddiqui2003@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں