28/12/22

کرامت علی کرامت ایک ہمہ جہت شخصیت: سعید رحمانی


 شعر وادب کے عصری منظرنامہ میں پروفیسر کرامت علی کرامت کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ بنیادی طور پر شاعر تھے مگر بطور ناقد انھیں مستحکم شناخت حاصل تھی۔اس کے علاوہ ترجمہ نگاری کے فن میں بھی انھیں کمال حاصل تھا۔اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی‘ اڑیا اور ہندی زبانوں پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔حیرت اس بات پر ہے کہ ریاضیات جیسے خشک موضوع کا پروفیسر ہونے کے باوجود ادب اور شاعری جیسی صنفِ لطیف میں انھوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

1963سے تا حال ان کی درجن بھر تصنیفات شائع ہوکر اہلِ ادب سے خراج حاصل کرچکی ہیں۔یہ تصنیفات شعر وادب ‘نقد وتحقیق اور ترجموں پر مبنی ہیں۔ان کی اولین پیشکش ’آبِ خضر‘ہے جس میں اڈیشا کے قدیم وجدید شعرا کا تذکرہ شامل ہے۔یہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں مرحوم شعرا‘دوسرے میں موجودہ شعرا اور تیسرے میں ان بیرونِ صوبہ کے شعرا کا تذکرہ ہے جن کا قیام اڈیشامیں مستقل یا عارضی رہا ہے۔اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگر کوئی اسکالر اڈیشا میں اردو شاعری کا ماضی اور حال لکھنے بیٹھے گا تواس کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔اس کا پہلا ایڈیشن 1993  میں شائع ہوا اور دوسرا ایڈیشن2020 میں جسے اڈیشا اردواکادمی نے نئی آب وتاب کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ ہے ’کلیاتِ نجمی‘کی تالیف جس کی اشاعت 2017  میں ہوئی اور جس کا پیش لفظ’گفتنی‘ کے عنوان کے تحت اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر سید مشیر عالم نے لکھا ہے۔ان کی تحریر کے مطابق حضرت امجد نجمی کی شعری بصیرت کی عکاسی حوالوں کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ کتاب ریسرچ اسکالرز‘ناقدین اور باذوق قارئین کے لیے ایک بیش بہا سرمایے سے کم نہیں۔

ایک ناقد کی حیثیت سے بھی کرامت صاحب نے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔اس ضمن میں ان کی دو کتابیں ’اضافی تنقید‘ اور ’نئے تنقیدی مسائل اور امکانات‘ سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جس کا برملا اعتراف آل احمد سرور ‘خلیل الرحمن اعظمی‘ وزیر آغا‘ابنِ فرید‘شمس الرحمن فاروقی‘ گوپی چند نارنگ‘سلیم شہزادوغیرہ کرچکے ہیں۔ ان میں سے صرف دو شخصیتوں کا قول یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔وزیر آغا فرماتے ہیں’’کرامت علی کرامت بہت اچھے نقاد ہیں۔اہلِ نظر کی امیدیں ان سے وابستہ ہیں۔کرامت صاحب ہمارے بہت ہی ہوش مند اور کھرے نقاد ہیںاور ان کی کتاب کی اہمیت کا احساس دلانا ضروری ہے‘‘۔

بقول سلیم شہزاد ’’پروفیسر کرامت کی تنقید میانہ روی اور ادب کے ناقد کے خلوص کی مثال ہے۔ جدیدیت نے جو ناقدین فراہم کیے ہیں ان میں پروفیسر صاحب کا اپنا مقام ہے اور اپنی اعتدال پسندی کی وجہ سے وہ جدید Extremistناقدین سے الگ اپنی شناخت بناتے ہیں اور تاثراتی تنقید کے ناقدوں، نیازفتحپوری، سجاد انصاری‘ فراق اورآل احمدسرور کے خطوط کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کی سائنسی فکر ادب کے مطالعے اور تنقید پر حاوی نہ ہوتے ہوئے اس میں معاونت کرتی ہے۔‘‘

پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ کرامت صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔بعد میں نثر نگاری کی طرف آئے۔پھر تنقید کی جانب توجہ مبذول کی تو پہلا مضمون بعنوان’مجاز کی غنائیت‘سپردِ قلم کیا اور جو رسالہ ’صبحِ نو ‘پٹنہ کے جنوری 1995 کے شمارے کی زینت بنا۔اس کے بعد ترجمہ نگاری پر توجہ دی۔سب سے پہلا ترجمہ پروفیسر بدھو بھوشن داس کے ایک اڑیا مضمون کا تھا۔اس کے بعد انھوں نے اڑیا نظموں کے متعدد مجموعوں کو اردو قالب عطا کیاجن میں سیتا کانت مہاپاترا کی اڑیا نظموں کا مجموعہ بھی شامل ہے جسے انھوں نے’لفظوں کا آکاش‘ کے نام سے شائع کروا یاتھا۔ساہتیہ اکادمی انھیں اس مجموعے پر ٹرانسلیشن ایوارڈ برائے 2004 سے نواز چکی ہے۔

صحافت کے میدان میں بھی ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انھوں نے 1956 میں دو ماہی ’شاخسار‘ کا  اجرا کیا تھا۔یہ رسالہ برصغیر ہندوپاک میں کافی مقبول ہوا۔ اس وقت کے تمام اکابر ینِ ادب کی تخلیقات اس میں تسلسل سے شائع ہوتی تھیں۔ اس کے ذریعے نو آموز شعرا اور ادبا کو بھی آگے بڑھنے کا موقع ملا جو آج ادب کے آسمان پر درخشندہ ستاروں کی طرح ضیا پاشی کررہے ہیں۔ اس رسالے کے ذریعے انھوں نے صالح اور صحت مند جدیدیت کو فروغ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس زمانے میں چونکہ وہ کالج کے پروفیسر ہوا کرتے تھے اور ان کا تبادلہ اڈیشا کے مختلف اضلاع میں ہوتارہا تھا اس لیے اس کی ترتیب وتزئین کی ذمے داری انھوں نے اپنے استاد محترم حضرت امجد نجمی مرحوم کو سونپ رکھی تھی۔حضرت نجمی جب تک زندہ رہے ’شاخسار‘ پابندی سے شائع ہوتا رہااور ان کے انتقال کے بعد یہ بند ہوگیا۔ اس کے ہر شمارے میں کرامت صاحب کے اداریے اور تبصرے شامل رہتے تھے۔ ان اداریوں کے مطالعے سے کرامت صاحب کی فکری صلابت‘دروں بینی اور تنقیدی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ساتھ ہی اس زمانے کی ادبی سرگرمیوں‘ تحریکات ورجحانات سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔خوشی کی بات ہے کہ ان اداریوں اور تبصروں کو کتابی شکل میں شائع کیا جاچکا ہے جس کا نام ہے’شاخسار کے اداریے اور تبصرے‘۔ اس رسالے پر تحقیقی کام بھی ہو چکا ہے۔’اردو ادب کو شاخسار کی دین‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھنے پر سلمان راغب کو اتکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوچکی ہے۔

بہرحال سائنس اور ادب کو ہم آمیزکرکے کرامت صاحب نے جس طرح سائنس کو آرٹ کا ایک حصہ بنا دیا ہے اس کی مثال بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔اس طرح انھوں نے شیلے‘ پیٹر‘روجر اور ٹی۔ایس۔ایلیٹ کے اس نظریے کی توثیق کی ہے کہ’’ سائنس جب جذبات کے ساتھ مل جائے تو وہ آرٹ بن جاتا ہے۔‘‘

ان کی تخلیقی کاوشوں کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی نثر نگاری ان کی شاعری پر حاوی نظر آتی ہے۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جہاں وہ اب تک اردو کی ستر70 کتابوں کا پیش لفظ لکھ چکے ہیں،وہیں سیکڑوں کتابوں پر بے لاگ تبصرے بھی کیے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کے مضامین وتراجم کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ان کی معرکتہ الآرا تصنیف ’اضانی تنقید‘کو بہر طورایک رجحان ساز کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔ جس میں پہلی بار انھوں نے ریاضیاتی و شماریاتی اسلوبیات کے اصولوں کو منطبق کر کے اسلوبیاتی تنقید کو نئی جہات سے آشنا کرایا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی شاعری کا قد کسی طرح کم ہے۔ بلکہ شاعری میں بھی اپنی فکر رسا کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ ان کے کلام میں حکیمانہ بصیرت‘متصوفانہ اعماق اور توانائی کے ساتھ شعری روایات کے عمدہ نقوش مرتسم نظر آتے ہیں۔ ان کے شعری و فکری رجحان کا پتہ اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے           ؎

لہجہ ہے اپنا گرچہ کرامت بہت ہی نرم

ہے موج تہہ نشیں کی طرح اس میں احتجاج

’شاخِ صنوبر‘ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو اولین مجموعے ’شعاعوں کی صلیب‘ کے پورے 34 سال بعد منظر عام پر آیا۔ ابتدا میں ’لفظ لفظ جستجو‘ کے عنوان سے حمد،نعت،آزاد نظمیں اور آزاد غزلیں شامل ہیں اور ’خواب خواب لمحہ‘ غزلوں پر مشتمل ہے جسے ایک مکمل دیوان کی صورت دی گئی ہے۔

کرامت صاحب نے اپنے مندرجہ ذیل شعر کو کتاب کا سرنامہ بنایا ہے            ؎

مرجھا گیا ہے پھول کا چہرہ تو کیا ہوا

گل کے عوض ہے شاخ صنوبر مجھے عزیز

ظاہر ہے خاروں کو عزیز رکھنے والا شخص درد آشنا ہوگا ایک ایسا درد جو دوسروں کے دل میں بھی ہوتو اس کی کسک وہ خود بھی محسوس کر سکتا ہے۔تا ہم ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے دھنک رنگی اجالے جا بہ جا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بقول عنوان چشتی ’فیشن گزیدہ جدیدیت سے اجتناب کرتے ہوئے انھوں نے ادب کی صالح روایات سے اپنا رشتہ مستحکم رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لب و لہجے میں شگفتگی اور زبان و بیان میں لطافت و سادگی پائی جاتی ہے۔ ’’شاخِ صنوبر‘  ان سبھی محاسن سے متصف ہے۔‘‘

 اس تعلق سے مزید کچھ کہنے کی بجائے بہتر سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری صاحب کا قول دہرادوں جو اسی کتاب کے پیش لفظ سے مستعار ہے۔بقول ان کے۔۔۔۔ ’’شاخِ صنوبرڈاکٹر کرامت علی کرامت کی تخلیقی بوطیقا کا اظہاریہ ہے جس میں اردو غزل کے تہذیبی مزاج،  فکری اساس اور فنی ساخت کی تفہیم و ادراک کے در کھلتے ہیں۔‘‘ایجاز و اختصار کے ساتھ بڑے جامع انداز سے انھوںنے اس مجموعے کی خصوصیات پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کتاب کے آخر میں اور فلیپ پر اکابرین ادب کی گراں قدر آرا بھی شامل ہیں جن میں فراق گورکھپوری،خواجہ احمد فاروقی، احتشام حسین،جمیل مظہری،وزیر آغا،گوپی چند نارنگ، اسلوب احمد انصاری، بلراج کومل، مظہر امام، وارث علوی، بانی، خلیق انجم، خلیل الرحمٰن اعظمی، شمیم کرہانی،  عنوان چشتی کے علاوہ اور بھی بیسوں شخصیتوں کا نا م لیا جا سکتا ہے۔ تقریباً سبھوں نے کرامت صاحب کی شاعری کو عمدہ خراج پیش کیا ہے۔ صرف لطف الرحمٰن صاحب انھیں اوسط درجے کا شاعر بھی تسلیم نہیں کرتے جب کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خیال میں کرامت صاحب شاعرانہ اسلوب کے عرفان سے عاری ہیں۔

مذکورہ اقوال سے اتفاق کا انحصار صاحب الرائے قارئین پر ہے کہ وہ ان خیالات کو قبول کریں یا رد کردیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی غزلیہ شاعری ذاتی تجربات اور مشاہدات کی منہ بولتی تصویر ہے جس میں انھوں نے رعایتِ لفظی سے کام لے کر آشنا لفظوں کو نئی معنویت اور نئے مفاہیم عطا کیے ہیں۔ زبان و بیان کی خوبی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔مختصر یہ کہ اپنے مشاہدات کو شعری پیکر عطا کرنے میں انھوں نے جس کمالِ فن کا مظاہرہ کیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہ سبھی غزلیں ان کی تخلیقی صلاحیت اور علوئے فکر کاآئینہ دار ہیں۔

ان کی مطبوعہ تصنیفات حسبِ ذیل ہیں:

  1.         شاخِ صنوبر(شعری مجموعہ2006)
  2.         نئے تنقیدی مسائل اور امکانات(تنقیدی مضامین 2009)
  3.         لفظوں کا آسمان(سیتا کانت مہاپاترا کی اڑیا نظموں کا ترجمہ مع پیش لفظ از ڈاکٹر وزیر آغا1990۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ برائے ترجمہ نگاری)
  4.         کلیاتِ نجمی(تالیف)2017
  5.         شاخسار کے اداریے اور تبصرے2017
  6.         گلکدۂ صبح و شام(شعری مجموعہ2016)
  7.         ماہرِ اقبالیاتشیخ حبیب اللہ2019
  8.         آبِ خضر(تذکرۂ شعرائے اڈیشا۔دوسرا ایڈیشن2020
  9.         اڑیا زبان و ادب:ایک مطالعہ2020
  10.   God Particles And Otther poems (کرامت صاحب کی نظموں کا انگریزی ترجمہ:از ایلزبتھ کورین مونا2021)
  11.       ایکانت رو سورو(تنہائی کی چیخ۔کرامت صاحب کی اردو نظموں کا اڑیا ترجمہ از انور بھدرکی2021)
  12.       میرے منتخب پیش لفظ۔تنقید و تجزیہ2021

شعر وادب کے منظر نامہ میں کرامت صاحب بطور شاعرامتیازی حیثیت کے حامل تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی شاعری جہاں ذاتی تجربات و مشاہدات کی آئینہ دار ہے وہیں ان کے رجحانِ طبع سے بھی روشناس کراتی ہے۔ان کی شاعری اگر ایک طرف زندگی کو درپیش مسائل کا اظہاریہ ہے تو دوسری طرف سائنسی نظریات اور متصوفانہ موضوعات کی گرہ کشائی بھی کرتی نظر آتی ہے۔مختلف موضوعات پر مبنی یہاں ان کے چند اشعاربطور نمونہ پیشِ خدمت ہیں          ؎

کیا زمانے کا اعتبار کروں

اب نہیں اپنا اعتبار مجھے


کڑی دھوپ مجھ کو بلاتی رہی

مگر پیڑ جامن کا راہوں میں تھا


مقابلہ کیا جس پیڑ نے ہواؤں کا

اسی پہ برقِ تپاں کا عتاب اترا تھا

ندی جو پیاس بجھاتی تھی سب کی صدیوں سے

خود اس کی پیاس بجھانے سراب اترا تھا


ہاتھ آئے کرامت کو کیا عالمِ فانی سے

آیا ہے بشر تنہا جائے گا بشر تنہا

ان کے بیشتر اشعار سے سائنس کے جدید اکتشافات سے ابھرنے والے کائناتی شعورکا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔لیکن تعریف کی بات یہ ہے کہ اس خشک موضوع کو اس طرح جزوِ شاعری بنایا ہے کہ شعریت کہیں بھی مجروح نہیں ہوتی ہے۔اس ضمن میں یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں          ؎

انجم کا ٹوٹنا ہے محشر کا ایک منظر

کرتا ہے پھر بھی انساں آوازِ صور پر شک

آئینوں کے درمیاں رکھ دو چراغِ آرزو

دیکھتا رہ جائے گا منہ پھر مقابل کا چراغ

جب روزنِ سیاہ میں گم ہوگیا وجود

کرتی رہی مثالِ خضر رہبری شعاع

ہو ذات سے صفات کا کیوں کر مقابلہ

کرتی ہے نورِ عین سے جو ہم سری شعاع

درج بالااشعار میں انھوں نے سائنس کے مختلف اکتشافات پر روشنی ڈالی ہے۔ان سب کی تشریح کی جائے تو مضمون کافی طویل ہوجائے گا۔اس لیے آخری شعر کی تشریح پر اکتفا کرنا چاہوں گا۔اس شعر میں شاعر نے فلسفۂ وجودیت کو بڑی آسانی سے شعری جامہ پہنا دیا ہے۔ فلسفۂ وجودیت کی  رو سے Existence precedes essence یعنی کسی شے کا وجود اس کے جوہر سے پہلے کی چیز ہوا کرتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ذات کا وجود اصل ہے اور صفات بعد کی چیز ہے۔نورِ عین ذات کی طرح ہے اور شعاع صفات سے مشابہ۔نورِ عین یعنی وہ نور جو نظر میں عین الیقیں کی طرح پوشیدہ ہوتا ہے اور اس کا مقابلہ علم الیقیں کی شعاع نہیں کرسکتی۔

کرامت صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے مگر اس کے باوجود وہ سائنسی صداقتوں سے انحراف بھی نہیں کرتے تھے۔ایک شاعر کی حیثیت سے دنیا نیز کائنات میں رونما ہونے والی ہر بات سے ان کے دل میں ایک وجدانی کیفیت پیدا ہوتی اور وہ اس کا سائنسی انداز سے تجزیہ کرکے خود کو تسلی دے لیتے تھے۔ان کی شاعری میں فلسفیانہ موشگافیوں کے علاوہ پیکر تراشی‘ علامت پسندی اور ایمائیت جیسی مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔ چونکہ وہ ریاضی کے پروفیسر رہ چکے تھے اس لیے ان کے بعض اشعارمیں اس کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے          ؎

بے ربطیِ حیات سے بے ربط کا سبق

تنظیمِ کائنات میں اک انتشار دیکھ

اس شعر سے ریاضی کے نظریۂ امکانات (Theory of Probablity)کا اظہار ہوتا ہے۔مثلاًاگر ایک مہرہ پھینکیں تو وہ جس جگہ گرتا ہے ‘ دوسری بار پھینکنے پر اسی جگہ گرنے کی پشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ مہرہ کے گرنے کے واقعات ایک دوسرے سے بے تعلق اور بے ربط ہوتے ہیں، لیکن بار بار پھینکتے رہیں تو نظریۂ امکانات کے ذریعے یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی خاص عدد کتنی بارآئے گا۔غرض کہ قدرت کے مختلف بے ربط واقعات میں ایک ربطِ تسلسل برقرار رہتا ہے۔یہی خیال مندرجہ بالا شعر میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جگہ جگہ باصرہ‘لامسہ‘شامہ‘ذائقہ جیسی حسوں کا بھی برملا استعمال کیا ہے جس کی بدولت ان اشعار میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے۔قوتِ ذائقہ کی صرف ایک مثال دیکھیں           ؎

      تمھاری آنکھوں نے بخشی ہے گل کو نمکینی

      تم اپنی آنکھوں میں جلوے نچوڑتے کیو ںہو

اردو دنیا میں بلند مقام پر متمکن ہونے کے باوجودان میں ذرا بھی خود نمائی نہیں تھی۔طبیعت میں بلا کی انکساری تھی۔چھوٹے بڑے سبھوں کے ساتھ بڑے خلوص اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ان میں بچوں جیسی معصومیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔دوست احباب سے ملتے وقت چہرے پر ہلکا سا تبسم رقصاں ہوتا تھا۔ بہر حال یہ کہنے میں باک نہیں کہ اردو شعر وادب اور نقد وتحقیق کے باب میں پروفیسر کرامت صاحب نے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیںوہ تاریخِ ادب کا حصہ بنی رہیں گی۔ان خدمات کے پیشِ نظر صحیح معنوں میں وہ اردو ادب کے کوہِ نور تھے۔   

کٹک میں ان کی ولادت 23ستمبر 1936 کو ہوئی تھی۔عمر کے آخری پڑاؤ تک فعال زندگی گزارتے ہوئے بالآخر 5اگست 2022کو وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ ان کے انتقال سے اڈیشا کے ادبی حلقے میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ آسانی سے پر نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس اعلیٰ میں مقام عطا کرے۔ آمین!     آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Sayeed Rahmani

Editor

Adabi Mahaz

Deewan Bazar

Cuttack- 753001 Odisha))

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں