31/7/23

کیا یہ فکشن کی صدی ہے؟:احسن ایوبی

گذشتہ دو دہائیوں کے ادبی منظر نامے کا جائزہ لیا جا ئے تو اندازہ ہوگا کہ ماضی کے مقابلے میں یہ صدی فکشن کے لیے سازگار ثابت ہو رہی ہے۔فکشن پرہونے والے مباحثے اور تعلیمی اداروں میں فکشن سے متعلق تحقیق کی رفتار اور تعداد سے بھی یہ محسوس ہو رہا ہے کہ فکشن کے مطالعے اور تفہیم میں اکیسویں صدی کا قاری دلچسپی لے رہا ہے۔ لیکن کیا اس ساز گار ماحول کی وجہ سے خوش گمان ہو ا جاسکتا ہے کہ یہ صدی فکشن کی صدی ہے؟ اطمینان اور خوشی کی بات تو اس وقت ہوگی جب کیفیت و کمیت کے اعتبار سے آج کا فکشن گذشتہ صدی سے بہتر ہو۔

ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے بعد لکھے جانے والے افسانے اور ناولوں میںپیشکش اور زبان و بیان کی درستگی آج بھی کسی نئے لکھنے والے کے لیے جس طرح مشعل راہ بنتی ہے، اُس طرح کیا اِس صدی میں لکھی جانے والی کسی تحریر کو رہنما بنایا جا سکتاہے۔ساتویں اور آٹھویں دہائی کے فکشن نگاروں کے سامنے زبان و بیان اور اظہار کے نئے نئے مسائل تھے۔ جدیدیت کے زیر اثر اسلوبیاتی اور ہیئتی سطح پر افسانے میں جو تبدیلیاں آئی تھیں یا یوں کہہ لیجیے کہ افسانہ،کہانی اور قاری سے دور ہو کر رہ گیا تھا، اسے ازسر نو تعمیر کے مراحل سے گزارنا نئے افسانہ نگاروں کی ذمے داری تھی۔اس لیے 70ء کے بعد لکھے گئے افسانوں میں بیانیہ کی تہہ داری،ابہام اورعلامتوں سے سرو کاراور نئی جہتوں کی گرفت کے ساتھ ساتھ کہانی پن کی جستجوبھی تیز تر ہو گئی تھی، یعنی کہانی پھر اسی محور پر گردش کرنے لگی تھی جس پر منٹو اور ان کے معاصرین چھوڑ گئے تھے۔واضح رہے کہ کہانی پن سے مراد وہ اکہرا بیانیہ نہیں جو ایک زمانے میں اردو افسانے میں در آیا تھا بلکہ ستر کے بعدلکھے جانے والے افسانوں میں کہانی پن پہ زور کے ساتھ ساتھ اس میں تکنیک کے نو بہ نو تجربوں کی بھی آمیزش تھی۔ان سب میں کہانی پن کی واپسی کی آواز زیادہ بلند تھی۔ اُس وقت بھی قاری کی تشفی اور اطمینان کے لیے سلام بن رزاق،رام لعل،عابد سہیل،شوکت حیات، رتن سنگھ، پیغام آفاقی، سید اشرف،اقبال مجید،طارق چھتاری وغیرہ موجود تھے،لیکن اس وقت قاری کے مطالبات، تشفی اور اطمینان کی بات چھوڑیے، زبان و بیان اور موضوع کی سطحی پیشکش اور عامیانہ پن جگہ جگہ قاری کی طبع نازک کو ٹھیس پہنچاتاہے۔مشتعل حالات اور مسائل کو بیان کرنے کا جو ہنرکرشن چندر، عصمت، منٹو، بیدی، شوکت صدیقی  وغیرہ کے یہاں تھا، اس کا عکس ماضی تاحال دیگر ہندوستانی زبانوں خصوصاً تمل، ملیالم،مراٹھی اور ہندی کے فکشن نگاروں کے یہاں پھر بھی نظر آتا ہے لیکن اردو میں اس مہارت کا فقدان ہے۔کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جو فکشن کے قالب میں ڈھل کر معاشرتی سطح پر فکر و عمل کی نئی جہات کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تخلیقی اذہان انقباض کا شکار ہیں اور ان مسائل تک ان کی رسائی نہیں ہو رہی جو دوسری زبانوں کے فکشن میں برتے جا رہے ہیں۔

تسلیم شدہ بات ہے کہ کسی بھی صنف ادب کو مقبول بنانے میں اس کی صنفی خصوصیات اور کشش کے ساتھ ساتھ قارئین کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ قاری کا ذوق، اس کی ذہنی سطح کے تناسب سے اس کے مطالبات کا خیال رکھنا گرچہ مصنف کی ذمے داری نہیں ہے مگر انسان تہذیبی و معاشرتی زوال کے جس مرحلے میں ہے،اس کے پیش نظر فرد کے ذوق سے لے کر سماج کی متنوع کیفیات کا ادراک فکشن نگار کے لیے ضروری ہے۔اس کے برعکس اس صدی میںفکشن نگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے،فکشن پڑھا جا رہا ہے،مباحثے ہورہے ہیں لیکن ملکی اور غیر ملکی زبانوں سے تقابل تو درکنار، بیشتراردو افسانے اور ناول قاری کو ذہنی و جذباتی آسودگی فراہم کرنے اور ذوق مطالعہ کو تسکین دینے کی خوبی سے بھی عاری ہیں۔انگلیوں پر شمار کیے جانے والے چند ناموں کے علاوہ بیشتر مصنفین کے یہاں زبان و بیان کی ایسی فاش غلطیاں ہیں جنھیں در گزر کرنے میں بحیثیت قاری سخت تردد ہوتا ہے۔ لکھنے والوں کو سوشل میڈیا نے شہرت کا شارٹ کٹ ضرور فراہم کر دیا ہے۔ کتابوں کی اشاعت بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا،ہفتے اور مہینے گزرتے نہیں کہ ایک نئی کتاب بازار میں آجاتی ہے، معاشرتی احوال کا سرسری تجزیہ،تہذیبی اصولوں سے باغی کردار وں کی من مانیوں کا نفسیاتی جواز پیش کر کے، بولڈنیس کا تڑکا لگا کر، سنسنی پیدا کر نے والے احوال کے سطحی بیان کو فکشن قرار دینے کا وہم عام ہو چکا ہے۔ان حالات نے قاری کو ایک ایسے تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ مطالعے و تجزیے کی کوئی سمت متعین کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔سنجیدہ قاری کے پاس خاموشی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس خاموشی کی اذیت اپنی جگہ، مزید اس پر معاصر فکشن کے عمق سے نابلد ہونے کا الزام بھی ہے۔

اس وقت لکھے گئے ناولوں اور افسانوں میں استعمال ہونے والی زبان اور خشک بیانیے اس زمانے کی یاد شدت سے دلاتے ہیں جب اردو افسانہ نظریات کی بھول بھلیوں میںکھو کر قاری سے دور ہو تا جا رہا تھا، اس میں دوبارہ کشش پیدا کرنے کے لیے افسانہ نگاروں نے نت نئے طرز اختیار کیے تھے لیکن زبان و بیان سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ صحافتی اور تخلیقی بیانیہ کے درمیان ایک حد فاصل تھی۔ تجربات کی شدت اور احساس و شعور کی پیچیدگیوں کو بیان کرنے کے لیے نیا پیرایہ اظہار تلاش کرنے میںحتی الامکان نزاکتوں کا خیال تھا،وہ حسن تناسب اِس صدی کے فکشن میں بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ اس عہد میں بھی افسانے کی ناخدائی وہی لوگ کر رہے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں لکھنا شروع کیا تھا۔دوسری جانب،گزشتہ صدی کی روایت اور طریقہ کار سے استفادہ کرنے والوں کی جو کھیپ تیار ہوئی ان کی راہیں تنقیدی نظریات کی بہتات کی وجہ سے تنگ نظرآتی ہیں۔تخیل اور خلاقی کے بجائے نت نئے موضوعات کو برتنے کی عجلت اور لفظوں کے استعمال اور موزونیت سے ناواقفیت کی وجہ سے فکشن کا ایک اور ہی عکس پیش کر رہی ہے۔بعض ایسے بھی ہیں جو اسلوب کے تجربے اور علامت وضع کرنے کے چکر میں انشائیہ نما چیزیں بطور افسانہ پیش کر رہے ہیں۔ اس تخلیقی انقباض کی ایک وجہ تخلیقی اذہان کی اپنی روایت اور اجتماعی شعور تک نارسائی بھی ہے۔تغیر اورترقی کا تحیر خیز منظر نامہ انھیں روایت اور تہذیب سے اغماض پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ نئے قلمکاروں کا المیہ ہے کہ ماضی تو بہت دور، اپنے عہد کے اہم ناموں سے بھی ناواقف اور ان کی تحریر کی خوبیوں سے نا آشنا ہیں۔اس مغائرت کا اثر تخلیق کار کی ذہنی ساخت اور تخلیقی معاملات پر نظر آنافطری ہے۔ ان باتوں کا مقصد کسی پر بے سمتی یالایعنیت کا الزام عائد کرنا نہیں ہے مگرنئی نسل کو احتساب کرنا چاہیے کہ اس عہد کے زندہ حوالوں اور تہذیب و روایت کی روح کی طرف رجوع کرنے اور رو بہ رو ہونے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔

سنجیدگی کے فقدان اور اطلاعات سے پرمعاصر افسانوی ادب کی اکھڑتی سا نسیں بحال کر نے میں سید محمداشرف، ذکیہ مشہدی، انیس اشفاق،خالد جاوید، صدیق عالم،محسن خان،رضوان الحق اور چند دیگرنئے پرانے تخلیق کار اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے عصر ی تقاضوں کو تہذیب کی روح سے ہم آہنگ کر کے اپنے تجربات، مشاہدات،اقدار اور اجتماعی احساسات کو فکشن کا روپ دیا ہے اور اس صدی کے اردو فکشن کا وقار انھیں جیسے مصنّفین کی تحریروں سے قائم ہے۔یہاں ا ن سینئر لکھنے والوں کا نام قصداً نہیں لیا گیا ہے جو ایک زمانے سے خود کو دہرا رہے ہیں یا کوئی قابل ذکر تخلیق پیش کرنے سے قاصر ہیں۔مذکورہ ناموں میں ہر ایک کی منفرد تخلیقی شناخت ہے اور اس شناخت کی تشکیل میں برسوں لگے ہیں۔

سید محمد اشرف نے اپنے عہد کے سیاسی داؤپیچ کو جس تخلیقی جدت کے ساتھ سیاسی و سماجی معلومات کا انبار لگائے بغیر بیان کیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔انھیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھہر کر اپنے گرد و پیش کی تخریب کاریوں اور سیاسی رویوں کو محسوس کر کے مشاہدات و تجربات کے اظہار کے لیے نئی راہ نکالی ہے۔ ’آخری سواریاں ‘ میں بڑے ہی سہل انداز میں ان مسائل کی طرف اشارے کیے ہیں جو سیاسی جبر کی وجہ سے قابل گرفت ہو سکتے ہیں۔

انیس اشفاق نے ناول کی ہیئت میں جو واقعاتی اور بین المتونی تجربے کیے، تہذیبی تشخص کی بازیافت اور اس کی معنو یت بیانیہ کے ذریعے اجاگر کی وہ ان کی تخلیقی انفرادیت کی بہترین مثال ہے۔ماضی کی طرف مراجعت انیس اشفاق کو عصریت کے تقاضوں سے غافل نہیں کرتی۔انھوں نے مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے متن کو جس انداز سے اپنے ناول’خواب سراب‘ میں زندہ رکھا اور اس کی بنیاد پر ایک تازہ بیانیہ خلق کیا، ’پری نازاور پرندے ‘میں نیر مسعود کے طویل افسانے ’ طاؤ س چمن کی مینا‘ کی بازگشت کے باوجود تاثرات،احساسات اور کیفیات کو تازہ تخلیقی زاویوں سے پیش کیا، وہ ان کی فنکارانہ ہنر مندی کو یقینی بناتا ہے۔

محسن خان کا ناول ’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘گذشتہ دو دہائی میں شائع ہونے والے ناولوں میں ایک ایسا منفرد شہ پارہ ہے، جس نے بزرگ فکشن نگار اور قارئین سے لے کر نئی نسل کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو یکساں طور پر متاثر کیا۔محسن خان کے افسانوں سے اردو فکشن کے قاری کی دیرینہ آشنائی ہے۔ان کے یہاںاسلوب کی سادگی اور تجسس خیز سچویشن کے ذریعے قاری کی توجہ کشید کرنے کا ہنر موجود ہے۔مذکورہ ناول میں انھوں نے کسی طرح کا نظریاتی یا فلسفیانہ نکتہ نہیں اٹھایا ہے اور نہ ہی ان کے بیانیے میں مطالعے و تحقیق کا رعب اور علمیت کا زعم ہے بلکہ زندگی کے پیچیدہ حقائق کو نہایت ہی سادے سوالوں کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ طریقہ کار نئے لکھنے والوں کے لیے یقینا مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔

رضوان الحق اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ انھوں نے شاعری سے مستعار اسلوب اور علامت کے بجائے روز مرہ کی زبان اور سادہ نثر میں قدرے پیچیدہ اور تہہ دار افسانے اور ناول ’خود کشی نامہ‘ لکھاجو ان کی تخلیقی زرخیز ی کی بہترین مثال ہیں۔دنیا بھر میں خصوصا اپنے ملک میں ہونے والی خود کشی کے واقعات کو بیانیہ کا حصہ بنا کر انھوں نے اس عمل کے محرکات پر مکالمہ قائم کیا ہے۔رضوان الحق نے طریقہ بیان اور برتاؤ سے اس ناول کو راست اظہار سے بعید تر رکھنے کی کوشش کی ہے۔یہ ناول خود کشی سے متعلق مفروضوں کی نفی کرتے ہوئے یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی کے مصائب سے فرار کے لیے اختیار کیا گیا یہ راستہ کس قدر مشکل اور ہمت طلب ہے۔عصری تناظر میں موضوع کی سطح پر یہ ناول اپنی اہمیت منوا نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رحمن عباس کا تازہ ترین ناول ’ زندیق‘ اس وقت ادبی حلقوں میں زیر بحث ہے۔اس میں انھوں نے تخیل اور ٹھوس حقائق کی آمیزش سے ایک نیا تجربہ کرنے یعنی ڈاکیو فکشن لکھنے کی کوشش کی ہے۔گذشتہ دو دہائیوں میں انھوں نے مختلف قرینوں سے ناول پڑھنے اور اس پر گفتگو کرنے کی تگ و دو عملی سطح پر کی ہے۔ اس عرصے میں انھوں نے پا نچ ناول لکھنے کے علاوہ ناول پر اپنے ہم عصر اور نئے لکھنے والوں سے مکالمے بھی کیے ہیں۔ان کے ناولوں میں عشق اوراس راہ پرخار کی اذیتوں کا بیان غالب موضوع کے طور پر سامنے آتا ہے اس کے علاوہ معاشرتی جبر، ثقافتی تنوع،ممبئی کے طرز زندگی کے توسط سے شہری زندگی کے مسائل،رشتوں کی پیچیدگیاں،جنسی ناآسودگی، اخلاقی بے راہ رویوں کی جزئیات ’روحزن ‘ میں کمال ہنر مندی سے بیان کی گئی ہیں۔

اکیسویں صدی میں منظر عام پر آنے والے ناولوں میں مشرف عالم ذوقی کے ناول موضوعات کی جدت کے سبب زیر بحث رہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے انکشافات کو ذوقی نے بیانیہ کا حصہ بنا کر اردو ناول کو ثروت مند بنانے کی کوشش کی ہے لیکن سب کچھ سمیٹ لینے کی عجلت میں بیانیہ کا اسٹرکچر بکھراؤ کا شکار ہوگیا، مسائل وقوعہ میں نہ ڈھل سکے،حالانکہ حال کے سیاسی منظرنامہ کو منعکس کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی میں جا کر وہ ان جڑوں کو بھی تلاش کرنے میں کامیاب رہے، جہاں سے مسائل جنم لیتے ہیں لیکن ناول یا ادب محض مسائل کی پیشکش کا وسیلہ نہیں بلکہ اس کی شناخت اس کی ہیئت اور شعریات سے ہے جسے برقرار رکھنے کے لیے مسائل کی قلب ماہیت ضروری ہے۔.

ناول کے فنی پہلوؤں سے قطع نظر اگر نظری اور فکری عمق پر گفتگو کی جائے تو وہ ذوقی کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ تازہ ترین ناول ’مرگ انبوہ‘ اور’مردہ خانے میں عورت‘ میں انھوں نے جن سیاسی اور سماجی المیوں کو طنزیہ پیرایے میں بیان کیا ہے اور جن خدشات اور مسائل کے متعلق پیش گوئی کی ہے وہ موجودہ تناظر میں حرف حرف درست ثابت ہوئے ہیں۔ان کا طریقہ اظہار اب تک تعین قدر کرنے والوں کے درمیان معتوب رہا ہے لیکن ادب کے حسن و قبح پر گہری نظر رکھنے والے ایک وسیع النظر پارکھ انتخاب حمید نے ذوقی کے یہاں کچھ ایسا دریافت کیا ہے جو ان کے طرز اظہار کو معتبر بناتا ہے۔وہ لکھتے ہیں

’’ابلیسی سازشوں اور عفریتی توانائیوں کے بالمقابل مسلم معاشرہ کی بے بسی اور اس کی تذلیل پر یہ لرزہ خیز ڈسکورس معاصر اردو فکشن میں ایک منفرد تجربہ ہے اس ڈسکورس کے کچھ ڈائمنشنز ایسے ہیں جنھیں ناولٹی یا نئے پن سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔متن و موضوعات اور زبان و بیان کی سطح پر بھی یہ اختلاف درج کرتا ہے۔سائبر دنیا اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا اس قدر تخلیقی تصرف معاصر اردو فکشن میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔‘‘

’’ہندوستان کی دیگر زبانوں میں اور عالمی سطح پر بھی اس نوعیت کے ملت و قوم اور ثقافت مر کوز بے شمار مخاطبات دستیاب ہیں۔ دلت ادب، افریکن، امریکن، لیٹن امریکی، افریقی اور یوروپ کی مختلف زبانوں میں لاتعداد دانشورانہ نگارشات اورتخلیقی مخاطبات کی اعلی ترین مثالیں ہیں جو اپنے فنی محاسن اور جمالیات ازخود خلق کرتی ہیں۔مزید براں دنیا بھر میں کئی نظریات اور مشہور زمانہ نظریہ ساز اس قبیل کی تخلیقات کی دانشورانہ،نیم فلسفیانہ توجیہات فراہم کرتے ہیں۔‘‘

(اردو کے نئے ناول صنفی و جمالیاتی منطق: انتخاب حمید، ص: 162-71)

انتخاب حمید کی اس حجت کے بعد بحیثیت قاری محاسبہ کیا جائے تو واضح ہوگا کہ کسی تحریر کو مسترد کرنے کے لیے مطالعے کی وسعت ناگزیر ہے۔مختلف زبانوں کے ادب،رجحا نات اور نظریا ت پر گہری نظر کے بغیر کوئی حتمی رائے قائم کرنا غیر تنقیدی رویہ ہے۔

مذکورہ غیر تنقیدی رویے کا مظاہرہ خالد جاوید کی تحریروں کے تئیں بھی کیاگیا۔خالد جاوید نے وجود کے اسرار دریافت کرنے کے لیے زندگی کی پیچیدگیوں کو ٹھوس اور معنوی پیرایے میںبیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس پرپیچ سفر میں انھوں نے حقیقت پسند اور بیانیہ کی سیدھی لکیر سے انحراف کرتے ہوئے اپنا ایک نیا لہجہ تخلیق کیا ہے جس سے مانوس نہ ہونے کی وجہ سے اسے بیشتر قارئین نے رد کیا لیکن بالغ نظر اور مختلف اسالیب سے آشنااذہان نے ان ناولوں کی تفہیم مختلف زاویوں سے کرتے ہوئے مطلوبہ مقام پر رکھا۔خالد جاوید کے ناولوں پر فلسفیانہ اور وجودی نظریات کا اطلاق کر کے تفہیم کی کوشش نتیجہ خیز تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے برعکس یہ خیال عام ہو چلا ہے کہ مصنف نے فلسفیانہ نظریے کے تحت یا وجودی فلسفے کی روشنی میں ناول کا تانا بانا تیار کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خالد جاوید کا (یا کسی بھی مصنف کا) تخلیقی عمل نظریات اور اصولوں کاپابندنہیں بلکہ مصنف کااسلوب اور طرز اظہار، قاری کے اندر یہ وہم پیدا کرتے ہیں کہ مصنف نے شعوری طور پر ان نظریات کا سہارا لیا ہے۔خالد جاوید کا تخلیقی تجربہ اپنی معنویت کا دائرہ جن عناصر سے پورا کرتاہے ان میں انسانی وجود کے تاریک گوشے ضرور شامل ہو تے ہیں۔

اردو فکشن کی صدی پر گفتگو کرتے ہوئے سرحد پا ر لکھے جانے والے فکشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہاں کی بہ نسبت وہاں قدرے بہتر صورت حال ملتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ہی کئی ایسے ناول منظر عام پر آئے  جن میں موضوع اور مواد کی شمولیت اور انتخاب میں بڑی وسعت ہے۔اس ضمن میں وحید احمد کا ناول زینو،جس میں بیک وقت کئی علوم سے استفادہ کر کے،رومان کی آمیزش سے تاریخی حقائق کو بیانیہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’غلام باغ‘ اور’صفر سے ایک تک‘ میں پیچیدہ ترین وقوعوں اور غیر معمولی کرداروں کی پیشکش کے ذریعے بیانیہ کو ایک نئے ڈگر پر رواں رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔ اسی طرح خالد طور کے ناول ’بالوں کا گچھا‘ میں اسلوب کی کشش موضوع کی فرسودگی کو عیاں نہیں ہونے دیتی۔ان کے علاوہ اور کئی ناول ہیں جن کا اگر ذکر کیا جائے تو فہرست سازی  کے زمرے میں آئے گا کیوں کہ اس مختصر مضمون میں تمام ناولوں کا احاطہ ناممکن ہے۔

فکشن کے تئیں سازگار فضا تشکیل دینے کی کوشش ہمارے فکشن نگار کر رہے ہیں،اس کوشش میںکامیابی اسی وقت ممکن ہے جب تحریر کو ناپختہ احساسات اور فکری انتشار کا ملغوبہ بننے سے محفوظ رکھا جائے اور وہ معیار پیش نظر ہوں، جن کی بنیاد پر کوئی تخلیقی تجربہ اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

گذشتہ صفحات میں پیش کیے گئے نام فکشن صدی کی مصنوعی فضا کو با قرینہ اور زرخیز بنانے کے لیے کافی تو نہیں مگر اطمینان بخش ضرور ہیں۔اس اطمینان بخش فضا کو بحال رکھنے کے لیے ان تخلیقات پر گفتگو اور قابل ذکر صفات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ خامیوں کی بھی نشاندہی کی جا نی چاہیے تاکہ اس صدی کا فکشن وقت کی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی قاری کے حافظے کا حصہ بن سکے۔


Ahsan Ayyubi

C-4/3,Suroor Apartment, Sir Syed Nagar

Aligarh- 202001

Mob: 9616272524

 

 

 

 

 

 

 

 


 

28/7/23

سلطان عظیم آبادی اور حیدر جان:سلطان آزاد


اُردو شاعری کاایک وہ زمانہ رہا جب شرفا، شعرا اور شاعرات کے ساتھ طوائفوں کا ایک بڑا حلقہ بھی اس فن سے تعلق رکھتا تھا یہ اور بات ہے کہ اس وقت کے شعرا اور ناقدین ادب طوائفوں کی شاعری پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ ان میںکچھ شرفا، شعرا جو اس وقت کے استاد الشعرا کہلاتے تھے، کئی طوائفوں کے استاد رہے۔ ان کے کلام پر اصلاحیں دیں۔ اُن میں خصوصی طور پر داغ دہلوی کا نام نمایاں ہے۔ حجاب نامی طوائف جو کلکتہ کی مشہور رقاصہ تھی، داغ دہلوی کی محبوبہ کہلائی، روایت ہے کہ حجاب ایک بار رامپور میں میلہ بے نظیر دیکھنے گئی، داغ دہلوی دیکھ کراس پر ایسے فریفتہ ہوگئے کہ اس کے واپس جانے پر ملاقات کے شوق میں 1299ھ میں عظیم آباد ہوکر کلکتہ گئے۔ کہاجاتا ہے کہ اگر مُنّی بائی حجاب خود شعر نہ کہتی تب بھی محض مثنوی ’فریادِ داغ‘ کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے زندہ رہتی۔ کیونکہ داغ دہلوی نے اپنی فریفتگی کے قصّے کو مثنوی ’فریادِ داغ‘ میں نظم کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیوان ’آفتابِ داغ‘ کی بعض غزلوں کے مقطع میں بھی حجاب کا ذکر ہے۔

اسی طرح کا ایک نوجوان شاعر مرزا رضا علی المتخلص بہ ضیا عظیم آبادی جو شوق نیموی کے ہونہار شاگرد تھے، انہوں نے عظیم آباد میں موجود ایک طوائف اور رقاصہ شاعرہ معشوق سے دل لگا بیٹھے۔ جس کا نام ولایتی جان عرف صاحب جان تھا۔ دونوں میں کافی قربت ہوگئی۔ خط و کتابت کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ نالہ و فغاں، شب کی بیداری، دل کی بیتابیاں، جنون و وحشت اور رشک و رقابت وغیرہ اکثر مضامین جوعاشقانہ شعروں میں خیالی طور پر باندھے جاتے ہیں وہ بالکل ان کے مطابق ہوگئے۔  بالآخر دونوں نے عشق و محبت میں جان بھی دے دی۔

روایت اور تحقیق سے یہ بات عیاں ہے کہ اردو کے کئی شعرا اور صاحبِ حیثیت شعرا طوائفوں کی زلف کے اسیر ہوئے اور ان کے حُسن و عشق کے اس طرح دیوانہ ہوئے کہ مشہور زمانہ ہوئے۔ ان ہی میں عظیم آباد کے خوب رو شاعر، جو نوابان صاحبان محلہ گزری پٹنہ سٹی (عظیم آباد) کے سب سے ممتاز خاندان کے چشم و چراغ، نواب سید تجمل حسین خاں المتخلص بہ سلطان عظیم آبادی بھی ہیں۔ جن کے اوصاف کا ذکر کلیم الدین احمد عاجز اپنی مذکورہ کتاب ’بہار میں اردو شاعری کا ارتقا‘(مطبوعہ 1998)میں یوں کیا ہے

’’نہایت حسین، خوش رو، شہہ زور، موزوں جسم، پیکر خلق و محبت، منکسرالمزاج، متواضع ملنسار ان تمام خوبیوں کے مالک تھے۔جو ایک اچھے انسان کی تشکیل کرتے ہیں۔ آغاز نوجوانی ہی میں شاعری کا چشمہ ذہن سے پھوٹ پڑا۔ اللہ نے انہیں شاعر ہی بنایا تھا۔ صورت شاعرانہ، مزاج شاعرانہ، کوئی بات غیر شاعرانہ نہیں تھی۔‘‘

بقول سید عزیز الدین بلخی راز عظیم آبادی (تاریخ شعراء بہار جلد اوّل) سلطان عظیم آبادی صفیر بلگرامی کے شاگرد تھے۔اُردو کے دو دیوان ایک بحر خفیف میں اور دوسرا مختلف بحروں میں اور دو مثنویاں بھی اپنے نام سے یادگار چھوڑی تھیں۔

نواب سید تحمل حسین خاں عرف سید سلطان مرزا المتخلص بہ سلطان خلف نواب بہادر سید ولایت علی خاں (سی آئی ای) کی پیدائش 1849 کو عظیم آباد میں ہوئی تھی۔ جب سلطان عظیم آبادی جوان ہوچکے تھے۔ ان دنوں نواب بہادر ولایت علی خاں کے یہاں دوسری بڑی اہم تقریب میں لکھنؤ کی ایک بہت حسین کمسن مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ طوائف زینت مجلس بنی تھی۔ اس کا نام حیدر جان تھا۔ اسے دیکھ کر ایک ہی نظر میں سلطان کو حیدر جان سے اور حیدر جان کو سلطان سے عشق ہوا۔ اس واقعے اور حادثے کا ذکر کلیم احمد عاجز اپنی مذکورہ کتاب ’بہار میں اردو شاعری کا ارتقا‘ میں بیان کرتے ہیں

’’یہ حادثہ سلطان عظیم آبادی کی شاعرانہ شخصیت کا بنیادی جزو ہے۔ یہ حادثہ نہ ہوا ہوتا تو شاید سلطان کی شاعری وہ شاعری نہ ہوتی جو ہوئی۔ قطع نظر اس کے کہ سلطان عظیم آبادی کی مثنوی ’دردِدل‘ اس حادثے کی تفصیلی شاعرانہ روداد ہے (یہ مثنوی بھی اب دستیاب نہیں)۔ سلطان کی چند غزلیں جو ایک نہایت گمشدہ بیاض کے ایک گوشے میں لکھی ہوئی ملیں اور جن کے سواغالباً سلطان کی بیس-بائیس سالہ شاعرانہ مشق کی کوئی یادگار باقی نہیں۔ وہ غزلیں اس حادثہ کی روشنی ہی میں زیادہ لطف دے سکتی ہیں۔‘‘

اس سلسلے میں کلیم احمد عاجز مزید واقعے کا ذکر یوں کرتے ہیں

’’حیدر جان پہلی مرتبہ تقریب میں پٹنہ آئی۔ سلطان اور حیدر جان کی نگاہیں چار ہوئیں۔ حیدر جان لکھنؤ بھول گئی۔ سلطان عظیم آباد کو بھول گئے۔تقریب ختم ہوئی۔ لکھنؤ کا قافلہ واپس جانے لگا۔ حیدر جان نے عظیم آباد چھوڑنے سے انکار کیا۔ ماں نے بہت سمجھایا، آخر کچھ دنوں رہ کر ماں تنہا لکھنؤ واپس گئی، جاکر حیدر جان کی خالہ کو لکھنؤ سے عظیم آباد بھیجا کہ اس شوریدہ سر کو پنجۂ عشق سے آزاد کرائو، اس علامہ نے عظیم آباد آکر زمین آسمان ایک کردیا۔ چارو ناچار ہوکر حیدر جان کو عظیم آباد چھوڑنا ہی پڑا۔‘‘

سلطان عظیم آبادی نے اس واقعے اور فراق کے ذکر کا اظہار اس طرح نظم کیا ہے، ملاحظہ ہو    ؎

کیا کہوں اس فراق کا احوال

وہ مرا رنگ وہ مرا احوال

نہ اسے اختیار رہنے کا

نہ مجھے حوصلہ اُلہنے کا

شاق تھی اس نگار کی دوری

تابہ آرہ گیا بہ مجبوری

ریل جس وقت آرہ میں ٹھہری

جمع تھے سب دیہاتی و شہری

اس گھڑی میں اٹھا جو پہلو سے

بھرے آنکھوں کو اپنے آنسو سے

اور بولا کہ لو خدا حافظ

مجھ کو اب جانے دو خدا حافظ

گرچہ دل کو ذرا قرار نہیں

آگے جانے کا اختیار نہیں

سننا تھا یہ کہ وہ بجوش فغاں

بولی ہیں ہیں کہاں کہاں یہ کہاں

میں نہ مانوں گی میں نہ مانوں گی

تم جو اتروگے جان دیدوں گی

کہہ کے یہ میرا تھام کر دامن

چاہا بٹھلائے ریل میں فوراً

میں نے ہٹ کی بہ التجا ہٹ کر

دامن اتنے میں رہ گیا پھٹ کر

کھول کر کھڑکی اور دے کے دعا

ریل کے نیچے میں اتر ہی پڑا

اور کھڑکی کو تھام کر اک بار

بولا چلنے میں مجھ کو کیا انکار

پر مناسب نہیں مرا جانا

تمہیں سمجھو کہ ایسا کیا جانا

عزت خاندان کا بھی ڈر ہے

دم بدم باپ ماں کا بھی ڈر ہے

کہنے کو تو کہا مگر کہوں کیا

دل پہ صدمہ جو کچھ گذر رہا تھا

ریل کی سیٹی اس طرف کو بجی

اور دونوں کا سَنسَنا گیا جی

اس طرف آہ تھی ادُھر نالے

آنکھوں سے آنسوئوں کے پرنالے

دونوں حسرت سے نکلتے تھے باہم

ہائے کچھ کہہ نہ سکتے تھے باہم

اس طرح حیدر جان سے رخصت تو ہوا لیکن اس کا کیا اثر سلطان عظیم آبادی کو ہوا، وہ بیان کرتے ہیں             ؎

مری حالت وہ تھی معاذ اللہ

کہ نہ دکھلائے، وہ گھڑی اللہ

آرہ سے آیا تو میں گھر کو مگر

لانے والوں کو ہے کچھ اس کی خبر

آہ کچھ ایسا میں ہوا دل گیر

دل نے کی جان لینے کی تدبیر

کھانے پینے کو بھی جواب دیا

بلکہ جینے کو بھی جواب دیا

بند آنکھیں کئے زمیں پہ پڑا

نقش پا تھا امید رفتہ کا

اس طرح دونوں کی زندگی جدائی اور فراق میں گذری۔ ان کی بے چینی اور   بے قراری کو دیکھ کر والد نے انہیں کلکتہ لے جانا مناسب سمجھا۔ لیکن سلطان کا دل وہاں بھی نہ لگا۔ اس طرح پٹنہ واپس آگئے۔ انھوں نے حیدر جان کو ایک منظوم خط لکھا۔ ملاحظہ ہوں          ؎

اے تمنائے عاشق ناکام

دلربائے زمانہ دلبر نام

تو سلامت رہے بصد خوبی

روز افزوں ہو تیری محبوبی

تو مسلمان ہے تو اے کافر

یاد کر اپنے قول کو آخر

تجھ کو سوگند شاہ خیبر ہے

بالیقیں تو کنیز حیدر ہے

تجھ کو اپنے ادائوں کی سوگند

مجھ کو میری وفائوں کی سوگند

اپنے حیران نیم جاں پہ نظر

جلد لے جلد آکے میری خبر

ختم اب داستانِ حیراں ہے

خطِ سلطانِ عشق بازاں ہے

بالآخر بہت ساری بندشوں اور رکاوٹوں کے بعد حیدرجان لکھنؤ سے پٹنہ آئی            ؎

سلسلہ وعظ و پند کا ٹوٹا

قفل سب قید و بند کا ٹوٹا

کھُلے بندوں وہ پائے بند وفا

لکھنؤ سے چلی بصدق و صفا

حیدر جان کے پٹنہ آنے پر سلطان عظیم آبادی پر جو کیفیتیں گذریں اس کا اظہار اس طرح کیا           ؎

تغافل سے بہت دعوے کئے تو گھر میں بیٹھا تھا

نکل آیا نہ دل پکڑے ہوئے میری دہائی سے

——

سلطان فراق میں نہ ہو بے چین اس قدر

دو چار روز ہی میں تو وہ آئے جاتے ہیں

——

سُنا ہے تابہ در میری عیادت کو وہ آپہونچے

بغل میں ہاتھ دو کوئی اٹھا دو چارپائی سے

رومانیت شخصیت کا آئینہ اور ذات کی عکاسی ہوتی ہے۔ سلطان عظیم آبادی رومانیت پرور شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا محور عشق اور عشقیہ شاعری ہے۔ بلاشبہ اگر ان کی زندگی میں حیدر جان نہیں آتی تو وہ اس طرح کی شاعری نہیں کرپاتے۔ وہ پھر صفیربلگرامی کی پیروی کرتے ہوئے وہیں تک محدود رہ جاتے اور دیگر تلامذۂ صفیر کے شاعروں میں گنے جاتے۔ انہوں نے عشقیہ شاعری کو اس قدر تہہ دار اور پہلو دار بنا دیا کہ حسن و عشق کے تعلقات اور نازک رشتے سے ایک نئی دنیا کی خبر ملتی ہے۔ یہ دنیا نہ تو غم کی دنیا ہے اور نہ خوشی کی بلکہ علم واحساس سے عبارت ہے، جس کا تصور کیف آفریں ہے۔ اس کا اندازہ ان کے چند اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ ہوں           ؎

سلطان نہ بس اس طرح کراہو

مرجائو اگر یونہی تو کیا ہو

اس موت پہ صدقے لاکھ عمر میں

تیرے ہاتھوں اگر قضا ہو

مدفن مرا وسیع رکھنا

میلا شاہد پسِ فنا ہو

———

لی خبر جلد مری آپ نے ہشیاری کی

سال کٹتا تو مجھے ہجر کا غم کھا جاتا

نزع کے وقت وہ آئے تو اشارے سے کہا

اب تم آئے کہ زباں سے نہیں بولا جاتا

سلطان عظیم آبادی کی دو مثنویوں میں مثنوی ’دردِ دل‘ ایک اہم مثنوی ہے۔ کیونکہ یہ مثنوی ان کی پوری شاعری کا ماخذ ہے۔ ان میں عشقیہ واقعات نظم کیے گئے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہیں۔ وہ اس مثنوی کے ہیرو ہیں تو ان کی محبوبہ طوائف ہیروئن ہے۔ اس میں مثنوی نگاری کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ اشعار میں روانی کے ساتھ قصّہ، کردار نگاری، ماجرا نگاری، واقعہ نگاری غرض کہ مثنوی میں جو لوازمات ہونے چاہئیں وہ سب موجود ہیں  اور یہ حقیقت پر مبنی منظوم کہانی ہے۔ اس کی زبان پیاری اور پُرلطف ہے۔ درحقیقت یہ مثنوی شاعر کی منظوم آپ بیتی ہے۔ بہار کے اہم مثنوی نگاروں میں سلطان عظیم آبادی کا ذکر خاص طور سے کیاجانا چاہیے۔

مختصر یہ کہ سلطان عظیم آبادی کا معشوق اگرچہ طوائف ہے جسے اس زمانہ میں بازاری سمجھا جاتا تھا۔ لیکن سلطان عظیم آبادی کے عشق کی روح کی شرافت نے ان کے دل کے اندر رہنے والے فنکار سے اس بازاری طوائف کو گرہستی کی دنیا کا بیش بہا اور پاکیزہ سرمایہ بنا دیا۔ سلطان عظیم آبادی نے بازاری محبوب کو ایسا پردہ نشیں بنایا کہ اس کی ایک ایک ادا پر شرافت قربان ہوتی ہے۔

بچھا دے بشر گل ہاں لگا دے اوٹ پھولوں کی

کہ اس رشک چمن کا وصل ہے اے باغباں ہم سے

حوالے اور ماخذ

  1. .1     تاریخ شعرائے بہار، جلد اول از سید عزیز الدین بلخی راز عظیم آبادی
  2. .2     بہار اور اردو شاعری-معین الدین دردائی
  3. .3     دفتر گم گشتہ (بہار میں اردو شاعری کا ارتقا) کلیم احمد عاجز
  4. .4     تذکرہ شمیم سخن-مولوی  عبدالحئی صفا بدایونی
  5. .5     تذکرۃ الخواتین-مولانا عبدالباری آسی
  6. .6     مثنوی ’’فریادِ داغ‘‘-داغ دہلوی
  7. .7     تذکرہ مسلم شعرائے بہار-حکیم سید احمد اللہ ندوی
  8. .8     بہار میں اردو مثنوی کا ارتقا-ڈاکٹر احمد حسن دانش
  9. .9     مرقع فیض-نواب سید تجمل حسین خاں سلطان عظیم آبادی

Sultan Azad

Pannu Lane

Gulzarbagh

Patna- 800007 (Bihar)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

27/7/23

فرہنگ آصفیہ میں نامعلوم شعرا کے نام انتسابِ شعر اور قرأت شعر کی غلطیاں:خلیق الزماں نصرت

 

فرہنگِ آصفیہ کو مولوی سیدّ احمد دہلوی نے ترتیب دیا ہے۔فرہنگ آصفیہ جلد اوّل او رجلد دوّم کو پہلے مفید عام پر یس آگرہ نے 1891 میں شائع کیا تھا۔ جلد سوم اور چہارم ترقی اُردو بورڈ نے1974 میں شائع کیا تھا۔قومی اُردو کونسل دہلی نے بڑے اہتمام کے ساتھ تین جلدوں میں شائع کر کے ایک بڑا کام کیا ہے۔ یہی اشاعت میرے پیشِ نظر ہے۔

لغت روز کے پڑھنے کی چیز نہیں ہے۔ کسی لفظ کی معلومات نہ ہونے یا اس کے معنی الگ الگ ہونے کی وجہ سے اسے بطور حوالہ کھول کر دیکھنا پڑتا ہے۔  1300  اشعار بر محل اشعار او ران کے مآخذ (پہلی جلد) 2011 میں شائع ہوئی۔ اس کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ اسی چھان بین کے دوران فرہنگ آصفیہ ہمارے مطالعے میں آئی اس میں سے میں نے تقریباً100/125 اشعار کے حوالے قبول کیے ہیں بقیہ کئی اشعار کی تو ثیق کی ہے۔

لغت میں لاکھوں الفاظ کے معنی ہوتے ہیںچند ہی لغات ایسی ہیں جن میں الفاظ کے معنی سمجھانے کے لیے شعروں کے حوالے دیے گئے ہیں۔ ایک ایک لفظ کے لیے کئی کئی اشعار ہیں جن سے ہم شعروں کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔ سید احمد دہلوی نے اپنی لغت سے معنی کو سمجھانے کا بڑا کا م کیا ہے۔ یہ ان کی خاص خوبیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر تراق پڑاق (استعمال تڑاق تڑاق ) لکھا ہے۔کسی چیز کے ٹوٹنے یا سینگی توڑنے کی آواز چٹاخ کو تراق کہتے ہیں۔

تڑاق پڑاق-1- تابع فل (1)  جلد جلد پے در پے۔ متواتر۔ برابر

(2)   چٹا چٹ۔ چٹ چٹ۔ چٹاخ چٹاخ۔ ٹوٹنے کی آواز        ؎

ذرا بھی سینۂ حسد چاک میں جو تڑپا دل تو

ٹوٹ جائیں گے تارِ رفو تڑاق پڑاق

نہ کیجیے ہم سے بہت گفتگو تڑاق پڑاق

  وگرنہ  ہو ویگی پھر  دو بدو  تڑاق  پڑاق  

(3)   تڑا تڑ ‘ پڑا پڑ ‘ سڑا سڑ

سزا دل کی اگر اس کو باندھ کر زلفیں

لگائیں کوڑے ترے روبرو تڑا ق پڑاق ظفر

اسی طرح 3 اور شعر کے حوالے دیے گئے ہیں۔

امیر اللغات میں بھی اشعار کے حوالے ہیں مگر الگ ہیں۔ معنی ملتے جلتے ہیں۔ سیّد صاحب کی لغت سے امیر مینائی نے استفادہ کیا ہے۔ مگر دونوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔امیر اللغات کی ترتیب میں کئی شاعروں کا کام ہے، اسے کئی مرحلے میں طے کیا گیا ہے مگر فرہنگ آصفیہ فرد ِ واحد کا کام ہے۔ اب بر محل اشعار کے تعلق سے چند اشعار مثال کے طور پر 269 پرآگے کے معنی اس طرح دیے گئے ہیں۔ آگے آگے۔ہ۔ تابع فعل۔ آگے کو۔ زمانہ مستقبل میں تھوڑے دنوں بعد چند روز میں             ؎

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا  

آگے  آگے دیکھیے ہوتا  ہے کیا

نا معلوم

مذکورہ شعر میں شاعر کا نام نہیں ہے او رروایت کے مطابق ’نا معلوم‘ لکھا ہے۔

اب دوسرا شعر اس کے معنی کے لیے لکھا گیا ہے        ؎

تم تو نظیر مکرے اور کل ہی ہم نے دیکھا

تھے تم تو پیچھے پیچھے وہ شوخ آگے آگے

نظیر 

ابتدائے عشق...  بر محل شعر ہے۔ یہ میر کا مشہور شعر ہے۔ مگر فرہنگ آصفہ کے مولف نے نامعلوم لکھا  ہے۔ کلیات ِمیر ص 133 پر اس طرح درج ہے        ؎

راہِ دورِ عشق میں‘ روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

راہِ دورِ عشق میں کسی جگہ ’ابتدائے عشق ہے ‘ استعمال ہوتا ہے۔ اب یہ تحقیق طلب ہے کہ آیا میر  نے اس مصرعے کو بدلا یا کسی استاد ِ زماں نے تصرف کیاتھا۔ میری تحقیق میں پتہ چلا کہ بہت سے مصرعے بدلے گئے ہیں۔

فرہنگ آصفیہ کے اشعار میں نے بر محل اشعار ڈھونڈنے کے لیے ہزاروں شعر پڑھ ڈالے تھے۔ اس لغت میں تقریباً 100 سے زیادہ بر محل اشعار ہیں  او راکثر جگہوں پر جہاں شاعر کا نام ہوتا ہے نا معلوم لکھا ہے۔ممکن ہے قارئین کو ان کے شعرا  کا نام معلوم نہ ہو۔

اس لیے میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ چند اشعار میری غیر مطبوعہ کتاب میں ہیں اور کئی تو مشہور اشعار گمنام شاعر کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔

فرہنگِ آصفیہ کے اشعار میں چند اشعار کے انتساب میں غلطی ملی ہے۔ کہیں پر شاعر کا نام نہیں دے کر خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد ِ خاص یہ ہے کہ آئندہ ایڈیشن کے حاشیے میں ان تمام خامیوں کی تصحیح ہوجائے۔

اب آئیے صحیح عنوان پر آتے ہیں،  جلد نمبر1 ص 187

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

                                                          نا معلوم

اس شعر میں نا معلوم لکھا ہے، یہ عام طور سے اسی طرح مشہور ہے۔ یہ دونوں مصرعے اس طرح ہیں

گئے دونوں جہاں کے کام سے ہم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم  نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

اوپر کا پورا مصرعہ او رثانی مصرع کا آدھا ٹکڑا مشہور ہے مگر یہ شعر مرزا صادق شرر کا ہے او رگلستان ِ خزاں، ص 121 پر ہے۔ کچھ او رتذکروں میں ایسا ہی ہے۔

(ص 24 اور II 254 )

تم تو بیٹھے ہی بیٹھے آفت ہو

اٹھ کھڑے ہو تو کیا قیامت ہو

میر

یہ شعر میر  کا نہیں ہے حاتم  کا ہے۔ مختلف تذکروں میں اس کی قرأت الگ الگ ہے۔ گلشن بے خار جو ص 55 پر ہوئے پہ آفت ہو، عیار الشعراص 152 پر اسی طرح ہے مگر انتخاب سخن(1)۔ مولانا حسرت موہانی میںایسا ہے اور یہی درست ہے

تم کہ بیٹھے ہوئے اک آفت ہو

اٹھ کھڑے ہو تو کیا قیامت ہو

(ص 3-261)

سینہ تمام جلنے لگا دل کے داغ سے

لو گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

یہی مشہور ہو گیا۔ شعرائے ہنودمیں ص 39 پر شعر اس طرح ہے اور یہی درست ہے۔

شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے

آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

                 نامعلوم

اس شعر کے شاعر کا نام نہیں لکھا ہے۔ یہ شعر پنڈت مہتاب رائے تاباں نے بارہ برس کی عمر میں میر درد کے مشاعرے میں پڑھا تھا۔محمد حسین آزاد  نے بھی اس برہمن زادے کا نام نہیں لکھا تھا۔

ص 4-269)

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آئو ں

گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا

یہ میر کا نہیں غالب کا ہے او ردیوان ِ غالب ص 20 پر ہے۔

(ص 6-334)

تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو

رونا ہے یہ کچھ ہنسی نہیں ہے

                                        میر   ×

یہ شعر بدھ سنگھ قلندر کا ہے او ر اس طرح ہے        ؎

تھمتے ہی تھمے گا اشک ناصح

رونا ہے یہ کچھ ہنسی نہیں ہے

                                        میر   ×

میر  پر بڑا ظلم ہوا ہے۔ کئی دوسرے اشعا ر کو میر کا نام دے کر کتابوں او ررسالوں میں شائع کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ شعر میر کا ہی ہے۔ اس طرح کی غلطیاں مستند کتابوں میںبھی ہیں۔میر  کے بعد سب سے زیادہ اشعا ر علامہ اقبال کے کھاتے میں ڈال دیے گئے ہیں۔ میں نے اپنی تحقیقی کتاب ’بر محل اشعار او راُن کے مآخذ ‘ میں اصل شاعر کی کھوج کی ہے۔

(ص7-442)

کیا ملا عرضِ مدعا کر کے

بات بھی کوئی التجا کر کے

                                                     لااعلم

یہ شعر سید محمد خان رند کا ہے جو خلیق  او رآتش  کے شاگرد تھے۔ اس کے دیوان ’گلدستہ ٔ عشق‘ کے ص 135 پر شعر اسی طرح ہے۔

(ص 8-907-513)

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

                                                        لااعلم

یہ شعر مولانا ضیا ء الدین رضا  کا ہے جو مولوی شاہ امام بخش تھا نیسر ی سے بیعت تھے۔اس مفہوم کو بہت سے شعرا نے ان کے بعد شعر میں باندھا ہے۔ امیر مینائی          ؎

زیست کا اعتبار کیا ہے امیر

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

 غیرت بہارستان، ص143

امیر  نے تضمین کی ہوگی مگر اشارہ نہیں کیا۔ عیار الشعرا میںشعر اس طرح درج ہے        ؎

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا

یہاں اولیٰ مصرع کو ثانی کر دیا گیا ہے۔ اس شعر کی غزل کے دوسرے اشعار بھی ہیں۔

(ص 9-693)

خط پڑھ کے اور بھی وہ ہوا پیچ و تاب میں

کیا جانے لکھ دیا اسے کیا اضطراب میں

(60-70)

نام یوں پستی میں بالا تر ہمارا ہوگیا

جس طرح پانی کو ئیں کی تہہ میں تارا ہو گیا

ان دونوں اشعار میں شاعر کا نام نہیں ہے  او ریہ ذوق اور مومن کے اشعار ہیںاو رباالترتیب دیوانِ مومن کے ص 129او ر6 پر ہیں۔(ص11-727)

ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو

کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو

نامعلوم

یہ شعر خواجہ وزیر لکھنوی کا ہے۔ حسرت موہانی کے انتخاب ِ سخن ص 222 پر ہی نہیں کئی انتخاب میں مولانا حسرت موہانی ایسا لکھا ہے۔

(ص 614، 626 اور 13-801)

کوئی عاشق نظر نہیں آتا

ٹوپی والوں نے قتل ِ عام کیا

                                مومن ×

یہ شعر میر کا نہیں شرف الدین علی خاں پیام  کا ہے۔ بحوالہ مجموعہ نغز ص131۔ یہ ایک قطعہ کا شعر ہے          ؎

دلّی کے کج کلاہ لڑکوں نے

کام عشاق کا تمام کیا

کوئی عاشق نظر نہیں آتا

ٹوپی والوں نے قتل عام کیا

                                       میر تقی میر

(ص 14-823)

تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس

یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا

قیس×

یہ قیس کا ،نہیںشناور کا ہے جو آتش کا شاگرد تھا۔

دبستانِ آتش ص 151 پر            ؎         

 کب ہے عریانی سے بڑھ کر کوئی دنیا میں لباس

شہکار غزلوں میں ثانی مصرعے میں سیدھا الٹا ہے، میرے خیال سے الٹا سیدھا درست ہے تذکرہ خوش معرکہ زیبا IIص 26 پر بھی ’کب ہے‘ہے۔ مختلف تذکروں میں اس شعر کی قرأت الگ الگ ہے۔

(15-894)

چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کر نا رفو

تا قیامت سوزنِ تدبیر گوسیتی رہے

یہ جعفر علی خاں کا شعر ہے مگر اولیٰ مصرعے میں ہونا او رثانی میں گر ہے۔

(16-976)

پھول تو دو دن بہارِ جانفزا دکھلاگئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے

یہ شعر ذوق  کا ہے اور دیوان ِ ذوق ‘ مرتبہ تنویر احمد میں ص 261  پر اولیٰ مصرعہ اس طرح ہے        ؎

کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے

مؤ لف نے کس کتاب کو مآخذ بنایا ہے پتہ نہیں اور یہی مشہور بھی ہو گیا۔ کلیم الدین احمد (معاصر6) نے بھی پھول تو..... لکھا ہے۔(16 II 78/999)

خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال

کہ آگ لینے کو جائے پیمبری ہو جائے

 یہ شعر امین الدولہ مہر کا ہے۔ اس کا کوئی مستند مآخذ نہیں ملا ہے       ؎

بائو بھی کھائی نہ تھی دل نے کہ مرجھا نے لگا

آہ یہ غنچہ تو کچھ کھلتے ہی کمھلانے لگا

یہ میر ضیاء الدین ضیا کا شعر ہے۔ تذکرہ گلشن بے خار ص 127۔

(17-1013)

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمرِ جا وداں کے لیے

                                                 عارف ×

یہ شعر غالب کا ہے او ردیوانِ غالب میں ص 563پر ہے۔

(18-19)  جلد نمبر II

درد ِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں

ذوق×

یہ مرزادرد  کا شعر ہے او ران کے دیوان میں ص 119 پر اسی طرح ہے۔

(19-180)

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں

کیادیڑھ چُلّو پانی سے ایمان بہہ گیا

غالب×

یہ شعر غالب کا نہیں ذوق کے دیوان ص27 پر اسی طرح ہے۔

(20-193)

یارب زمانہ ہم کو مٹاتا ہے کس لیے

لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہیںہم

اس شعر کے ساتھ شاعر کا نام نہیں ہے۔ یہ مشہور شعر غالب  کے دیوان میں ص 291 پر ہے اور اولیٰ میں مجھ ہے او رثانی میں ہوں میں ہے۔

(21-199)

زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں

ذوق×

یہ ذوق کا نہیں ناسخ  کا شعر ہے او راسی طرح مشہور بھی ہے۔ بیشتر حضرات نے ایسا ہی لکھا ہے مگر اولیٰ مصرعہ بحر سے خارج ہو جاتاپھر بھی یہی مشہور ہے۔ ناسخ کے دیوان میں ص105 پر ’ہے نام ‘  ہے۔

(22-216)

مئے بھی ہے ‘مینا بھی ہے ‘ ساغر بھی ہے ‘ ساقی نہیں

جی میں آتا ہے لگادیں آگ میخانے کو ہم

             گویا

یہ شعر نظیر کی غزل کا ہے۔ کلیات نظیر میں ص106 پر ہے۔ مگر ثانی مصرعہ میں دل ہے۔

(23-244)

آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی مری جا میرے بعد

                                                                  لا اعلم

یہ شعر میر  کے نام سے مشہور ہے۔ مگر مصحفی کے ایک شاگرد منور حسین غافل کا شعر ہے۔ اس کا دیوان شائع ہوا ہے۔ میری کتاب میں بھی یہ شعر چمن بے خزاں (ص27) کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔

(24-420)

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

                                             لا اعلم

یہ شعر آتش  کے کلیات میں ص20پر ہے۔

(25-423)

شہہ زور اپنے زور میں گرتا ہے سر کے بل

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

                                                                 لا اعلم

اس شعر کے اولیٰ مصرعہ کو اس طرح بدل کے پڑھا جاتا ہے       ؎

گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں

                                         لاا علم

یہ مرزا عظیم بیگ عظیم کے ایک مخمس کے دو اشعار ہیں او رمجموعۂ نغز ص13 پر (شہہ زور...) ہے او ردوسرے مصرعے میں ’کرے ‘ ہے۔(26-426)

(27-522)

لیے پھرتی ہے بلبل چونچ میں گل

شہیدِ ناز کی تربت کہاں ہے

                                         لا اعلم

اس شعر میں لا علم لکھا تھا مگر میں نے نواب تخلص کے ایک شاعر کا نام پڑھا ہے جو درد  کا ہمعصر تھا۔ممکن ہے آئندہ کی تحقیقی کتاب میں اس کی معلومات آجائے۔

(28-658)

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یونہی تمام ہوتی ہے

                                                        لا اعلم

یہ شعر احمد حسین امیر اللہ تسلیم کا ہے او رجدید شاعری ص 791پر ہے او ران کے دیوان میں بھی ہے۔

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

غالب

اس شعر کو اکثر لوگ غالب کا سمجھتے تھے۔ مگر ان کے شاگرد میاں داد سیاح او رانھیں کے دیوان میں ص189پر یہ شعر ہے۔

(29-671)

ایسی ضد کا کیا ٹھکانا اپنا مذہب چھوڑ کر

میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

یہ شعر کس کا ہے میں نے کیا کسی نے ابھی تک نہیں بتایا ہے۔ غالب کے نام سے مشہور ہو گیا۔

(30-728)

ہے فقیروں سے کج ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

عاشق

میر تقی میر کا شعر ہے مگر کلیات ِ میر ص 128پر ہے کی جگہ ہم اور کج ادائی کی جگہ بے ادائی ہے۔ فصاحت کا دھیان دیتے ہوئے یہ شعر اسی طرح پڑھا جائے گا۔

(31-735)

سر سبز اور خط سے ہوا حسن یار کا

آخر خزاں نے کچھ نہ اکھاڑا بہار کا

یہ جیون لال عشاق کھتری کا شعر ہے میر محمدی کا شاگرد تھا۔ مجموعہ نغز کے ص 396پر ایسا ہے        ؎

آنے سے خط کے دُونا ہوا حسنِ یار کا

آخر خزاں نے کچھ نہ اوپاڑا بہار کا

                                           لا اعلم

(32-769)

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر

ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

مومن×

یہ خواجہ فخرالدین سخن، غالب  کے شاگرد کا ہے۔ دیوان ِ سخن ص 107پر اسی طرح ہے۔

(33-782)

لائے اس بت کو التجا کر کے

کفر توڑا خدا خدا کر کے

                                            نا معلوم

یہ مومن  کا نہیں،  دیا شنکر نسیم  کا شعر ہے او ریہ مستند ہے۔ مگر نسیم  کے مجموعے میں او رجواہر سخن میں ہے اور ص226 پر ٹوٹا ہے او ریہ درست بھی ہے‘ کفر توڑا درست نہیں ہے۔ میں نے ہر جگہ کفر ٹوٹا پڑھا ہے۔

(34-797)

نہ خوف آہ بتوں کو نہ ڈر ہے نالوں کا

بڑا کلیجہ ہے ان دل دکھانے والوں کا

 میر×

یہ شعر ضامن علی جلال لکھنوی کا ہے او رحسر ت موہانی کے انتخاب سخن میں بھی ص70 پر ہے۔

(53-830)

مہیّاجس کنے اسباب ملکی اور مالی تھے

وہ اسکندر گیا یاں سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے

میر

یہ شعر میر کا نہیں ہے منشی محمد رضا معجز کا ہے۔ اس مفہوم پر تقریباً دسو ں شعر ہم نے پڑھے ہیں۔ جن میں تھوڑا تھوڑا تصرف کیا ہوا ہے۔ لیکن شعر ایسا ہے۔

مہیّاگو کہ سب سامان ملکی اور مالی تھے

سکند رجب چلا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے   

نامعلوم

(جلد III، (36-5

گو ہم سے تم ملے نہ تو تم ہم بھی مر گئے

کہنے کو بات رہ گئی اور دن گذر گئے

یہ قائم کاشعر ہے او راس کے دیوان میں ص220 پر اس طرح ہے         ؎

گو ہم سے تم ملے نہ تو کچھ ہم نہ مر گئے

کہنے کو رہ گیا یہ سخن دن گزر گئے

                                                           نامعلوم

(37-5)

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

                                                         نامعلوم

یہ شعر آتش کا ہے او رکلیاتِ آتش کے ص49پر ہے۔

(38-6)

زلف کا کہنا پریشاں عقل کی دوری ہے یہ

ہر گرہ میں اس کے دل ہے گانٹھ کی پوری ہے یہ

نیاز×

39/63

گلستاں میں جا کے ہر اک گل کو دیکھا

نہ تیری سی رنگت نہ تیری سی بو ہے

                                              لاا علم

یہ شعر نیاز کا نہیں نصیر الدین حیدرپادشاہ کا ہے اور ہوبہوخمخانۂ جاوید (2) ص40 پر ہے تاریخ اردو187 پر بھی یہی شعر ہے۔ کہیں کہیں میں نے چمن بھی دیکھا ہے۔

(40-209)

کون کہتا ہے کہ ہم تم میں لڑائی ہوگی

کسی دشمن نے ہوا ئی یہ اڑائی ہوگی

                                       نامعلوم

مؤلف نے اس شعر کے خالق کے نام سے لا علمی کا اظہار کیا ہے مگر یہ شعر محمد امان نثار کا ہے اورگلشنِ بے خار میں اس طرح درج ہے۔

مجھ میں اور ان میں سبب کیا جو لڑائی ہو گی

یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہو گی

(41-331)

سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا

سرخ و سپید مٹّی کی مورت ہوئی تو کیا

نا معلوم

یہ شعر خواجہ احسن اللہ بیان  کا ہے صرف مٹی کی جگہ ماٹی ہے۔ کئی تذکروں میں یہ بیکل کے نام سے منسوب ہے مگر بیان کے شعری مجموعے میں بھی ہے۔

(42-362)

زلف کا کھولنا بہانا تھا

مدّعا ہم سے منہ چھپانہ تھا

                        نا معلوم

شعر نواب عما دالملک غازی الدین فیروز جنگ نظام کا ہے او ر نشترِ عشق ص130 پر ہے۔

(43-383)

ایک آفت سے تو مرمر کے ہوا تھا بچنا

پڑگئی اور یہ کیسی مرے اللہ نئی

رند

یہ میر سوز کا شعر ہے، بچنا کی جگہ جینا ہے۔

(44-519)

آئینہ ان کا ٹوٹ گیا میرے ہاتھ سے

اب کوئی منہ دکھانے کی صورت نہیں رہی

حیدری

یہ شعر رند کا نہیں ہے اس کے دیوان میں بھی نہیں ہے کئی تذکروں میں بھی نہیں ملا۔

(45/533)

برابری کا ترے گل نے جب خیال کیا

صبا نے ما ر طمانچہ منہ اس کا لال کیا

اصل میں یہ شعر میر تقی میر کا ہے او راس کے دیوان میں اس طرح ہے۔

جو گل نے دعوی رخ کا ترے خیال کیا

صبا نے مارے طمانچوں کے منہ کو لال کیا

نامعلوم

(47-693)

حیدری بعد کا شاعر ہے او رہے بھی یا نہیں یہ تونثر نگار تھا۔ میرے خیال سے اس نے سرقہ کیا ہے۔ ویسے بھی اس مضمون کے کئی دعویدار ٹھہرائے گئے ہیں۔سودا  کا بھی شعر اسی طرح ہے۔

(49-845)

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی

                                          نامعلوم

امیر اللہ تسلیم  کا یہ مشہور شعر ہے۔ چند تذکروں میں بھی ہے آوارہ گرد اشعار ص82 پر اسی طرح ہے۔

(48-441)

میکدہ میں گر سراسر فعلِ نا معقول ہے

مدرسہ دیکھا تو واں بھی فاعل و مفعول ہے 

                                                         نامعلوم

یہ شعر مضمون کا ہے او ر فرہنگ ِ آصفیہ جلد دوّم ص 563 پر گر کی جگہ گو ہے۔ تذکرہ شورش ص387 پر بھی درج ہے۔آبِ حیات ص 92 سراسر کی جگہ ’سراپا ‘ ہے۔

آعندلیب مل کے کریںآہ و زاریاں

توہائے گل پکار میں چلّائوں ہائے دل

یہ نواب سید محمد خاں رند  کے دیوان گلدستہ ٔعشق کے ص نمبر 179 پر اسی طرح ہے۔

(50-863)

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

یہ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ  کا مشہور شعر ہے جو دیوان ِ شیفتہ کے ص26پر شائع ہو ا ہے۔

کتابیات

  1. 1      بر محل اشعار او ر ان کے مآخذ(I) او رغیر مطبوعہII (اہم)
  2. 2      عیار الشعراء ،شعرائے ہنود، انتخاب سخن (حسرت موہانی)
  3. 3      جواہر سخن ، دبستان ِآتش،  خوش معرکہ زیبا، مجموعہ نغز، جدید شاعری ، تاریخ ادب ،  نشترِ عشق، آوارہ گرد اشعار
  4. 4              کلیات دیوان میر، غالب، گلدستہ عشق، غیرتِ بہارستان، ذوق، کلیاتِ ناسخ، نظیر، غافل، میاں داد سیاح، مومن، نسیم، جلال، قائم، آتش، بیان، مضمون۔

n

Khaleequzzaman Nusrat

861, 203, Opp. Salauddin Ayyubi School

Ishrat Apartment, Kashanaenusrat

Bhiwandi- 421302 (MS)

Mob.: 9923257606