31/7/23

کیا یہ فکشن کی صدی ہے؟:احسن ایوبی

گذشتہ دو دہائیوں کے ادبی منظر نامے کا جائزہ لیا جا ئے تو اندازہ ہوگا کہ ماضی کے مقابلے میں یہ صدی فکشن کے لیے سازگار ثابت ہو رہی ہے۔فکشن پرہونے والے مباحثے اور تعلیمی اداروں میں فکشن سے متعلق تحقیق کی رفتار اور تعداد سے بھی یہ محسوس ہو رہا ہے کہ فکشن کے مطالعے اور تفہیم میں اکیسویں صدی کا قاری دلچسپی لے رہا ہے۔ لیکن کیا اس ساز گار ماحول کی وجہ سے خوش گمان ہو ا جاسکتا ہے کہ یہ صدی فکشن کی صدی ہے؟ اطمینان اور خوشی کی بات تو اس وقت ہوگی جب کیفیت و کمیت کے اعتبار سے آج کا فکشن گذشتہ صدی سے بہتر ہو۔

ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے بعد لکھے جانے والے افسانے اور ناولوں میںپیشکش اور زبان و بیان کی درستگی آج بھی کسی نئے لکھنے والے کے لیے جس طرح مشعل راہ بنتی ہے، اُس طرح کیا اِس صدی میں لکھی جانے والی کسی تحریر کو رہنما بنایا جا سکتاہے۔ساتویں اور آٹھویں دہائی کے فکشن نگاروں کے سامنے زبان و بیان اور اظہار کے نئے نئے مسائل تھے۔ جدیدیت کے زیر اثر اسلوبیاتی اور ہیئتی سطح پر افسانے میں جو تبدیلیاں آئی تھیں یا یوں کہہ لیجیے کہ افسانہ،کہانی اور قاری سے دور ہو کر رہ گیا تھا، اسے ازسر نو تعمیر کے مراحل سے گزارنا نئے افسانہ نگاروں کی ذمے داری تھی۔اس لیے 70ء کے بعد لکھے گئے افسانوں میں بیانیہ کی تہہ داری،ابہام اورعلامتوں سے سرو کاراور نئی جہتوں کی گرفت کے ساتھ ساتھ کہانی پن کی جستجوبھی تیز تر ہو گئی تھی، یعنی کہانی پھر اسی محور پر گردش کرنے لگی تھی جس پر منٹو اور ان کے معاصرین چھوڑ گئے تھے۔واضح رہے کہ کہانی پن سے مراد وہ اکہرا بیانیہ نہیں جو ایک زمانے میں اردو افسانے میں در آیا تھا بلکہ ستر کے بعدلکھے جانے والے افسانوں میں کہانی پن پہ زور کے ساتھ ساتھ اس میں تکنیک کے نو بہ نو تجربوں کی بھی آمیزش تھی۔ان سب میں کہانی پن کی واپسی کی آواز زیادہ بلند تھی۔ اُس وقت بھی قاری کی تشفی اور اطمینان کے لیے سلام بن رزاق،رام لعل،عابد سہیل،شوکت حیات، رتن سنگھ، پیغام آفاقی، سید اشرف،اقبال مجید،طارق چھتاری وغیرہ موجود تھے،لیکن اس وقت قاری کے مطالبات، تشفی اور اطمینان کی بات چھوڑیے، زبان و بیان اور موضوع کی سطحی پیشکش اور عامیانہ پن جگہ جگہ قاری کی طبع نازک کو ٹھیس پہنچاتاہے۔مشتعل حالات اور مسائل کو بیان کرنے کا جو ہنرکرشن چندر، عصمت، منٹو، بیدی، شوکت صدیقی  وغیرہ کے یہاں تھا، اس کا عکس ماضی تاحال دیگر ہندوستانی زبانوں خصوصاً تمل، ملیالم،مراٹھی اور ہندی کے فکشن نگاروں کے یہاں پھر بھی نظر آتا ہے لیکن اردو میں اس مہارت کا فقدان ہے۔کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جو فکشن کے قالب میں ڈھل کر معاشرتی سطح پر فکر و عمل کی نئی جہات کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تخلیقی اذہان انقباض کا شکار ہیں اور ان مسائل تک ان کی رسائی نہیں ہو رہی جو دوسری زبانوں کے فکشن میں برتے جا رہے ہیں۔

تسلیم شدہ بات ہے کہ کسی بھی صنف ادب کو مقبول بنانے میں اس کی صنفی خصوصیات اور کشش کے ساتھ ساتھ قارئین کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ قاری کا ذوق، اس کی ذہنی سطح کے تناسب سے اس کے مطالبات کا خیال رکھنا گرچہ مصنف کی ذمے داری نہیں ہے مگر انسان تہذیبی و معاشرتی زوال کے جس مرحلے میں ہے،اس کے پیش نظر فرد کے ذوق سے لے کر سماج کی متنوع کیفیات کا ادراک فکشن نگار کے لیے ضروری ہے۔اس کے برعکس اس صدی میںفکشن نگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے،فکشن پڑھا جا رہا ہے،مباحثے ہورہے ہیں لیکن ملکی اور غیر ملکی زبانوں سے تقابل تو درکنار، بیشتراردو افسانے اور ناول قاری کو ذہنی و جذباتی آسودگی فراہم کرنے اور ذوق مطالعہ کو تسکین دینے کی خوبی سے بھی عاری ہیں۔انگلیوں پر شمار کیے جانے والے چند ناموں کے علاوہ بیشتر مصنفین کے یہاں زبان و بیان کی ایسی فاش غلطیاں ہیں جنھیں در گزر کرنے میں بحیثیت قاری سخت تردد ہوتا ہے۔ لکھنے والوں کو سوشل میڈیا نے شہرت کا شارٹ کٹ ضرور فراہم کر دیا ہے۔ کتابوں کی اشاعت بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا،ہفتے اور مہینے گزرتے نہیں کہ ایک نئی کتاب بازار میں آجاتی ہے، معاشرتی احوال کا سرسری تجزیہ،تہذیبی اصولوں سے باغی کردار وں کی من مانیوں کا نفسیاتی جواز پیش کر کے، بولڈنیس کا تڑکا لگا کر، سنسنی پیدا کر نے والے احوال کے سطحی بیان کو فکشن قرار دینے کا وہم عام ہو چکا ہے۔ان حالات نے قاری کو ایک ایسے تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ مطالعے و تجزیے کی کوئی سمت متعین کرنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔سنجیدہ قاری کے پاس خاموشی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس خاموشی کی اذیت اپنی جگہ، مزید اس پر معاصر فکشن کے عمق سے نابلد ہونے کا الزام بھی ہے۔

اس وقت لکھے گئے ناولوں اور افسانوں میں استعمال ہونے والی زبان اور خشک بیانیے اس زمانے کی یاد شدت سے دلاتے ہیں جب اردو افسانہ نظریات کی بھول بھلیوں میںکھو کر قاری سے دور ہو تا جا رہا تھا، اس میں دوبارہ کشش پیدا کرنے کے لیے افسانہ نگاروں نے نت نئے طرز اختیار کیے تھے لیکن زبان و بیان سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ صحافتی اور تخلیقی بیانیہ کے درمیان ایک حد فاصل تھی۔ تجربات کی شدت اور احساس و شعور کی پیچیدگیوں کو بیان کرنے کے لیے نیا پیرایہ اظہار تلاش کرنے میںحتی الامکان نزاکتوں کا خیال تھا،وہ حسن تناسب اِس صدی کے فکشن میں بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ اس عہد میں بھی افسانے کی ناخدائی وہی لوگ کر رہے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں لکھنا شروع کیا تھا۔دوسری جانب،گزشتہ صدی کی روایت اور طریقہ کار سے استفادہ کرنے والوں کی جو کھیپ تیار ہوئی ان کی راہیں تنقیدی نظریات کی بہتات کی وجہ سے تنگ نظرآتی ہیں۔تخیل اور خلاقی کے بجائے نت نئے موضوعات کو برتنے کی عجلت اور لفظوں کے استعمال اور موزونیت سے ناواقفیت کی وجہ سے فکشن کا ایک اور ہی عکس پیش کر رہی ہے۔بعض ایسے بھی ہیں جو اسلوب کے تجربے اور علامت وضع کرنے کے چکر میں انشائیہ نما چیزیں بطور افسانہ پیش کر رہے ہیں۔ اس تخلیقی انقباض کی ایک وجہ تخلیقی اذہان کی اپنی روایت اور اجتماعی شعور تک نارسائی بھی ہے۔تغیر اورترقی کا تحیر خیز منظر نامہ انھیں روایت اور تہذیب سے اغماض پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ نئے قلمکاروں کا المیہ ہے کہ ماضی تو بہت دور، اپنے عہد کے اہم ناموں سے بھی ناواقف اور ان کی تحریر کی خوبیوں سے نا آشنا ہیں۔اس مغائرت کا اثر تخلیق کار کی ذہنی ساخت اور تخلیقی معاملات پر نظر آنافطری ہے۔ ان باتوں کا مقصد کسی پر بے سمتی یالایعنیت کا الزام عائد کرنا نہیں ہے مگرنئی نسل کو احتساب کرنا چاہیے کہ اس عہد کے زندہ حوالوں اور تہذیب و روایت کی روح کی طرف رجوع کرنے اور رو بہ رو ہونے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔

سنجیدگی کے فقدان اور اطلاعات سے پرمعاصر افسانوی ادب کی اکھڑتی سا نسیں بحال کر نے میں سید محمداشرف، ذکیہ مشہدی، انیس اشفاق،خالد جاوید، صدیق عالم،محسن خان،رضوان الحق اور چند دیگرنئے پرانے تخلیق کار اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے عصر ی تقاضوں کو تہذیب کی روح سے ہم آہنگ کر کے اپنے تجربات، مشاہدات،اقدار اور اجتماعی احساسات کو فکشن کا روپ دیا ہے اور اس صدی کے اردو فکشن کا وقار انھیں جیسے مصنّفین کی تحریروں سے قائم ہے۔یہاں ا ن سینئر لکھنے والوں کا نام قصداً نہیں لیا گیا ہے جو ایک زمانے سے خود کو دہرا رہے ہیں یا کوئی قابل ذکر تخلیق پیش کرنے سے قاصر ہیں۔مذکورہ ناموں میں ہر ایک کی منفرد تخلیقی شناخت ہے اور اس شناخت کی تشکیل میں برسوں لگے ہیں۔

سید محمد اشرف نے اپنے عہد کے سیاسی داؤپیچ کو جس تخلیقی جدت کے ساتھ سیاسی و سماجی معلومات کا انبار لگائے بغیر بیان کیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔انھیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھہر کر اپنے گرد و پیش کی تخریب کاریوں اور سیاسی رویوں کو محسوس کر کے مشاہدات و تجربات کے اظہار کے لیے نئی راہ نکالی ہے۔ ’آخری سواریاں ‘ میں بڑے ہی سہل انداز میں ان مسائل کی طرف اشارے کیے ہیں جو سیاسی جبر کی وجہ سے قابل گرفت ہو سکتے ہیں۔

انیس اشفاق نے ناول کی ہیئت میں جو واقعاتی اور بین المتونی تجربے کیے، تہذیبی تشخص کی بازیافت اور اس کی معنو یت بیانیہ کے ذریعے اجاگر کی وہ ان کی تخلیقی انفرادیت کی بہترین مثال ہے۔ماضی کی طرف مراجعت انیس اشفاق کو عصریت کے تقاضوں سے غافل نہیں کرتی۔انھوں نے مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کے متن کو جس انداز سے اپنے ناول’خواب سراب‘ میں زندہ رکھا اور اس کی بنیاد پر ایک تازہ بیانیہ خلق کیا، ’پری نازاور پرندے ‘میں نیر مسعود کے طویل افسانے ’ طاؤ س چمن کی مینا‘ کی بازگشت کے باوجود تاثرات،احساسات اور کیفیات کو تازہ تخلیقی زاویوں سے پیش کیا، وہ ان کی فنکارانہ ہنر مندی کو یقینی بناتا ہے۔

محسن خان کا ناول ’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘گذشتہ دو دہائی میں شائع ہونے والے ناولوں میں ایک ایسا منفرد شہ پارہ ہے، جس نے بزرگ فکشن نگار اور قارئین سے لے کر نئی نسل کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو یکساں طور پر متاثر کیا۔محسن خان کے افسانوں سے اردو فکشن کے قاری کی دیرینہ آشنائی ہے۔ان کے یہاںاسلوب کی سادگی اور تجسس خیز سچویشن کے ذریعے قاری کی توجہ کشید کرنے کا ہنر موجود ہے۔مذکورہ ناول میں انھوں نے کسی طرح کا نظریاتی یا فلسفیانہ نکتہ نہیں اٹھایا ہے اور نہ ہی ان کے بیانیے میں مطالعے و تحقیق کا رعب اور علمیت کا زعم ہے بلکہ زندگی کے پیچیدہ حقائق کو نہایت ہی سادے سوالوں کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ طریقہ کار نئے لکھنے والوں کے لیے یقینا مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔

رضوان الحق اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ انھوں نے شاعری سے مستعار اسلوب اور علامت کے بجائے روز مرہ کی زبان اور سادہ نثر میں قدرے پیچیدہ اور تہہ دار افسانے اور ناول ’خود کشی نامہ‘ لکھاجو ان کی تخلیقی زرخیز ی کی بہترین مثال ہیں۔دنیا بھر میں خصوصا اپنے ملک میں ہونے والی خود کشی کے واقعات کو بیانیہ کا حصہ بنا کر انھوں نے اس عمل کے محرکات پر مکالمہ قائم کیا ہے۔رضوان الحق نے طریقہ بیان اور برتاؤ سے اس ناول کو راست اظہار سے بعید تر رکھنے کی کوشش کی ہے۔یہ ناول خود کشی سے متعلق مفروضوں کی نفی کرتے ہوئے یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی کے مصائب سے فرار کے لیے اختیار کیا گیا یہ راستہ کس قدر مشکل اور ہمت طلب ہے۔عصری تناظر میں موضوع کی سطح پر یہ ناول اپنی اہمیت منوا نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رحمن عباس کا تازہ ترین ناول ’ زندیق‘ اس وقت ادبی حلقوں میں زیر بحث ہے۔اس میں انھوں نے تخیل اور ٹھوس حقائق کی آمیزش سے ایک نیا تجربہ کرنے یعنی ڈاکیو فکشن لکھنے کی کوشش کی ہے۔گذشتہ دو دہائیوں میں انھوں نے مختلف قرینوں سے ناول پڑھنے اور اس پر گفتگو کرنے کی تگ و دو عملی سطح پر کی ہے۔ اس عرصے میں انھوں نے پا نچ ناول لکھنے کے علاوہ ناول پر اپنے ہم عصر اور نئے لکھنے والوں سے مکالمے بھی کیے ہیں۔ان کے ناولوں میں عشق اوراس راہ پرخار کی اذیتوں کا بیان غالب موضوع کے طور پر سامنے آتا ہے اس کے علاوہ معاشرتی جبر، ثقافتی تنوع،ممبئی کے طرز زندگی کے توسط سے شہری زندگی کے مسائل،رشتوں کی پیچیدگیاں،جنسی ناآسودگی، اخلاقی بے راہ رویوں کی جزئیات ’روحزن ‘ میں کمال ہنر مندی سے بیان کی گئی ہیں۔

اکیسویں صدی میں منظر عام پر آنے والے ناولوں میں مشرف عالم ذوقی کے ناول موضوعات کی جدت کے سبب زیر بحث رہے۔ تیزی سے بدلتی دنیا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے انکشافات کو ذوقی نے بیانیہ کا حصہ بنا کر اردو ناول کو ثروت مند بنانے کی کوشش کی ہے لیکن سب کچھ سمیٹ لینے کی عجلت میں بیانیہ کا اسٹرکچر بکھراؤ کا شکار ہوگیا، مسائل وقوعہ میں نہ ڈھل سکے،حالانکہ حال کے سیاسی منظرنامہ کو منعکس کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی میں جا کر وہ ان جڑوں کو بھی تلاش کرنے میں کامیاب رہے، جہاں سے مسائل جنم لیتے ہیں لیکن ناول یا ادب محض مسائل کی پیشکش کا وسیلہ نہیں بلکہ اس کی شناخت اس کی ہیئت اور شعریات سے ہے جسے برقرار رکھنے کے لیے مسائل کی قلب ماہیت ضروری ہے۔.

ناول کے فنی پہلوؤں سے قطع نظر اگر نظری اور فکری عمق پر گفتگو کی جائے تو وہ ذوقی کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ تازہ ترین ناول ’مرگ انبوہ‘ اور’مردہ خانے میں عورت‘ میں انھوں نے جن سیاسی اور سماجی المیوں کو طنزیہ پیرایے میں بیان کیا ہے اور جن خدشات اور مسائل کے متعلق پیش گوئی کی ہے وہ موجودہ تناظر میں حرف حرف درست ثابت ہوئے ہیں۔ان کا طریقہ اظہار اب تک تعین قدر کرنے والوں کے درمیان معتوب رہا ہے لیکن ادب کے حسن و قبح پر گہری نظر رکھنے والے ایک وسیع النظر پارکھ انتخاب حمید نے ذوقی کے یہاں کچھ ایسا دریافت کیا ہے جو ان کے طرز اظہار کو معتبر بناتا ہے۔وہ لکھتے ہیں

’’ابلیسی سازشوں اور عفریتی توانائیوں کے بالمقابل مسلم معاشرہ کی بے بسی اور اس کی تذلیل پر یہ لرزہ خیز ڈسکورس معاصر اردو فکشن میں ایک منفرد تجربہ ہے اس ڈسکورس کے کچھ ڈائمنشنز ایسے ہیں جنھیں ناولٹی یا نئے پن سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔متن و موضوعات اور زبان و بیان کی سطح پر بھی یہ اختلاف درج کرتا ہے۔سائبر دنیا اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا اس قدر تخلیقی تصرف معاصر اردو فکشن میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔‘‘

’’ہندوستان کی دیگر زبانوں میں اور عالمی سطح پر بھی اس نوعیت کے ملت و قوم اور ثقافت مر کوز بے شمار مخاطبات دستیاب ہیں۔ دلت ادب، افریکن، امریکن، لیٹن امریکی، افریقی اور یوروپ کی مختلف زبانوں میں لاتعداد دانشورانہ نگارشات اورتخلیقی مخاطبات کی اعلی ترین مثالیں ہیں جو اپنے فنی محاسن اور جمالیات ازخود خلق کرتی ہیں۔مزید براں دنیا بھر میں کئی نظریات اور مشہور زمانہ نظریہ ساز اس قبیل کی تخلیقات کی دانشورانہ،نیم فلسفیانہ توجیہات فراہم کرتے ہیں۔‘‘

(اردو کے نئے ناول صنفی و جمالیاتی منطق: انتخاب حمید، ص: 162-71)

انتخاب حمید کی اس حجت کے بعد بحیثیت قاری محاسبہ کیا جائے تو واضح ہوگا کہ کسی تحریر کو مسترد کرنے کے لیے مطالعے کی وسعت ناگزیر ہے۔مختلف زبانوں کے ادب،رجحا نات اور نظریا ت پر گہری نظر کے بغیر کوئی حتمی رائے قائم کرنا غیر تنقیدی رویہ ہے۔

مذکورہ غیر تنقیدی رویے کا مظاہرہ خالد جاوید کی تحریروں کے تئیں بھی کیاگیا۔خالد جاوید نے وجود کے اسرار دریافت کرنے کے لیے زندگی کی پیچیدگیوں کو ٹھوس اور معنوی پیرایے میںبیان کرنے کی کوشش کی ہے۔اس پرپیچ سفر میں انھوں نے حقیقت پسند اور بیانیہ کی سیدھی لکیر سے انحراف کرتے ہوئے اپنا ایک نیا لہجہ تخلیق کیا ہے جس سے مانوس نہ ہونے کی وجہ سے اسے بیشتر قارئین نے رد کیا لیکن بالغ نظر اور مختلف اسالیب سے آشنااذہان نے ان ناولوں کی تفہیم مختلف زاویوں سے کرتے ہوئے مطلوبہ مقام پر رکھا۔خالد جاوید کے ناولوں پر فلسفیانہ اور وجودی نظریات کا اطلاق کر کے تفہیم کی کوشش نتیجہ خیز تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے برعکس یہ خیال عام ہو چلا ہے کہ مصنف نے فلسفیانہ نظریے کے تحت یا وجودی فلسفے کی روشنی میں ناول کا تانا بانا تیار کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خالد جاوید کا (یا کسی بھی مصنف کا) تخلیقی عمل نظریات اور اصولوں کاپابندنہیں بلکہ مصنف کااسلوب اور طرز اظہار، قاری کے اندر یہ وہم پیدا کرتے ہیں کہ مصنف نے شعوری طور پر ان نظریات کا سہارا لیا ہے۔خالد جاوید کا تخلیقی تجربہ اپنی معنویت کا دائرہ جن عناصر سے پورا کرتاہے ان میں انسانی وجود کے تاریک گوشے ضرور شامل ہو تے ہیں۔

اردو فکشن کی صدی پر گفتگو کرتے ہوئے سرحد پا ر لکھے جانے والے فکشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہاں کی بہ نسبت وہاں قدرے بہتر صورت حال ملتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ہی کئی ایسے ناول منظر عام پر آئے  جن میں موضوع اور مواد کی شمولیت اور انتخاب میں بڑی وسعت ہے۔اس ضمن میں وحید احمد کا ناول زینو،جس میں بیک وقت کئی علوم سے استفادہ کر کے،رومان کی آمیزش سے تاریخی حقائق کو بیانیہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’غلام باغ‘ اور’صفر سے ایک تک‘ میں پیچیدہ ترین وقوعوں اور غیر معمولی کرداروں کی پیشکش کے ذریعے بیانیہ کو ایک نئے ڈگر پر رواں رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔ اسی طرح خالد طور کے ناول ’بالوں کا گچھا‘ میں اسلوب کی کشش موضوع کی فرسودگی کو عیاں نہیں ہونے دیتی۔ان کے علاوہ اور کئی ناول ہیں جن کا اگر ذکر کیا جائے تو فہرست سازی  کے زمرے میں آئے گا کیوں کہ اس مختصر مضمون میں تمام ناولوں کا احاطہ ناممکن ہے۔

فکشن کے تئیں سازگار فضا تشکیل دینے کی کوشش ہمارے فکشن نگار کر رہے ہیں،اس کوشش میںکامیابی اسی وقت ممکن ہے جب تحریر کو ناپختہ احساسات اور فکری انتشار کا ملغوبہ بننے سے محفوظ رکھا جائے اور وہ معیار پیش نظر ہوں، جن کی بنیاد پر کوئی تخلیقی تجربہ اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

گذشتہ صفحات میں پیش کیے گئے نام فکشن صدی کی مصنوعی فضا کو با قرینہ اور زرخیز بنانے کے لیے کافی تو نہیں مگر اطمینان بخش ضرور ہیں۔اس اطمینان بخش فضا کو بحال رکھنے کے لیے ان تخلیقات پر گفتگو اور قابل ذکر صفات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ خامیوں کی بھی نشاندہی کی جا نی چاہیے تاکہ اس صدی کا فکشن وقت کی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی قاری کے حافظے کا حصہ بن سکے۔


Ahsan Ayyubi

C-4/3,Suroor Apartment, Sir Syed Nagar

Aligarh- 202001

Mob: 9616272524

 

 

 

 

 

 

 

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں