28/7/23

سلطان عظیم آبادی اور حیدر جان:سلطان آزاد


اُردو شاعری کاایک وہ زمانہ رہا جب شرفا، شعرا اور شاعرات کے ساتھ طوائفوں کا ایک بڑا حلقہ بھی اس فن سے تعلق رکھتا تھا یہ اور بات ہے کہ اس وقت کے شعرا اور ناقدین ادب طوائفوں کی شاعری پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ ان میںکچھ شرفا، شعرا جو اس وقت کے استاد الشعرا کہلاتے تھے، کئی طوائفوں کے استاد رہے۔ ان کے کلام پر اصلاحیں دیں۔ اُن میں خصوصی طور پر داغ دہلوی کا نام نمایاں ہے۔ حجاب نامی طوائف جو کلکتہ کی مشہور رقاصہ تھی، داغ دہلوی کی محبوبہ کہلائی، روایت ہے کہ حجاب ایک بار رامپور میں میلہ بے نظیر دیکھنے گئی، داغ دہلوی دیکھ کراس پر ایسے فریفتہ ہوگئے کہ اس کے واپس جانے پر ملاقات کے شوق میں 1299ھ میں عظیم آباد ہوکر کلکتہ گئے۔ کہاجاتا ہے کہ اگر مُنّی بائی حجاب خود شعر نہ کہتی تب بھی محض مثنوی ’فریادِ داغ‘ کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے زندہ رہتی۔ کیونکہ داغ دہلوی نے اپنی فریفتگی کے قصّے کو مثنوی ’فریادِ داغ‘ میں نظم کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیوان ’آفتابِ داغ‘ کی بعض غزلوں کے مقطع میں بھی حجاب کا ذکر ہے۔

اسی طرح کا ایک نوجوان شاعر مرزا رضا علی المتخلص بہ ضیا عظیم آبادی جو شوق نیموی کے ہونہار شاگرد تھے، انہوں نے عظیم آباد میں موجود ایک طوائف اور رقاصہ شاعرہ معشوق سے دل لگا بیٹھے۔ جس کا نام ولایتی جان عرف صاحب جان تھا۔ دونوں میں کافی قربت ہوگئی۔ خط و کتابت کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ نالہ و فغاں، شب کی بیداری، دل کی بیتابیاں، جنون و وحشت اور رشک و رقابت وغیرہ اکثر مضامین جوعاشقانہ شعروں میں خیالی طور پر باندھے جاتے ہیں وہ بالکل ان کے مطابق ہوگئے۔  بالآخر دونوں نے عشق و محبت میں جان بھی دے دی۔

روایت اور تحقیق سے یہ بات عیاں ہے کہ اردو کے کئی شعرا اور صاحبِ حیثیت شعرا طوائفوں کی زلف کے اسیر ہوئے اور ان کے حُسن و عشق کے اس طرح دیوانہ ہوئے کہ مشہور زمانہ ہوئے۔ ان ہی میں عظیم آباد کے خوب رو شاعر، جو نوابان صاحبان محلہ گزری پٹنہ سٹی (عظیم آباد) کے سب سے ممتاز خاندان کے چشم و چراغ، نواب سید تجمل حسین خاں المتخلص بہ سلطان عظیم آبادی بھی ہیں۔ جن کے اوصاف کا ذکر کلیم الدین احمد عاجز اپنی مذکورہ کتاب ’بہار میں اردو شاعری کا ارتقا‘(مطبوعہ 1998)میں یوں کیا ہے

’’نہایت حسین، خوش رو، شہہ زور، موزوں جسم، پیکر خلق و محبت، منکسرالمزاج، متواضع ملنسار ان تمام خوبیوں کے مالک تھے۔جو ایک اچھے انسان کی تشکیل کرتے ہیں۔ آغاز نوجوانی ہی میں شاعری کا چشمہ ذہن سے پھوٹ پڑا۔ اللہ نے انہیں شاعر ہی بنایا تھا۔ صورت شاعرانہ، مزاج شاعرانہ، کوئی بات غیر شاعرانہ نہیں تھی۔‘‘

بقول سید عزیز الدین بلخی راز عظیم آبادی (تاریخ شعراء بہار جلد اوّل) سلطان عظیم آبادی صفیر بلگرامی کے شاگرد تھے۔اُردو کے دو دیوان ایک بحر خفیف میں اور دوسرا مختلف بحروں میں اور دو مثنویاں بھی اپنے نام سے یادگار چھوڑی تھیں۔

نواب سید تحمل حسین خاں عرف سید سلطان مرزا المتخلص بہ سلطان خلف نواب بہادر سید ولایت علی خاں (سی آئی ای) کی پیدائش 1849 کو عظیم آباد میں ہوئی تھی۔ جب سلطان عظیم آبادی جوان ہوچکے تھے۔ ان دنوں نواب بہادر ولایت علی خاں کے یہاں دوسری بڑی اہم تقریب میں لکھنؤ کی ایک بہت حسین کمسن مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ طوائف زینت مجلس بنی تھی۔ اس کا نام حیدر جان تھا۔ اسے دیکھ کر ایک ہی نظر میں سلطان کو حیدر جان سے اور حیدر جان کو سلطان سے عشق ہوا۔ اس واقعے اور حادثے کا ذکر کلیم احمد عاجز اپنی مذکورہ کتاب ’بہار میں اردو شاعری کا ارتقا‘ میں بیان کرتے ہیں

’’یہ حادثہ سلطان عظیم آبادی کی شاعرانہ شخصیت کا بنیادی جزو ہے۔ یہ حادثہ نہ ہوا ہوتا تو شاید سلطان کی شاعری وہ شاعری نہ ہوتی جو ہوئی۔ قطع نظر اس کے کہ سلطان عظیم آبادی کی مثنوی ’دردِدل‘ اس حادثے کی تفصیلی شاعرانہ روداد ہے (یہ مثنوی بھی اب دستیاب نہیں)۔ سلطان کی چند غزلیں جو ایک نہایت گمشدہ بیاض کے ایک گوشے میں لکھی ہوئی ملیں اور جن کے سواغالباً سلطان کی بیس-بائیس سالہ شاعرانہ مشق کی کوئی یادگار باقی نہیں۔ وہ غزلیں اس حادثہ کی روشنی ہی میں زیادہ لطف دے سکتی ہیں۔‘‘

اس سلسلے میں کلیم احمد عاجز مزید واقعے کا ذکر یوں کرتے ہیں

’’حیدر جان پہلی مرتبہ تقریب میں پٹنہ آئی۔ سلطان اور حیدر جان کی نگاہیں چار ہوئیں۔ حیدر جان لکھنؤ بھول گئی۔ سلطان عظیم آباد کو بھول گئے۔تقریب ختم ہوئی۔ لکھنؤ کا قافلہ واپس جانے لگا۔ حیدر جان نے عظیم آباد چھوڑنے سے انکار کیا۔ ماں نے بہت سمجھایا، آخر کچھ دنوں رہ کر ماں تنہا لکھنؤ واپس گئی، جاکر حیدر جان کی خالہ کو لکھنؤ سے عظیم آباد بھیجا کہ اس شوریدہ سر کو پنجۂ عشق سے آزاد کرائو، اس علامہ نے عظیم آباد آکر زمین آسمان ایک کردیا۔ چارو ناچار ہوکر حیدر جان کو عظیم آباد چھوڑنا ہی پڑا۔‘‘

سلطان عظیم آبادی نے اس واقعے اور فراق کے ذکر کا اظہار اس طرح نظم کیا ہے، ملاحظہ ہو    ؎

کیا کہوں اس فراق کا احوال

وہ مرا رنگ وہ مرا احوال

نہ اسے اختیار رہنے کا

نہ مجھے حوصلہ اُلہنے کا

شاق تھی اس نگار کی دوری

تابہ آرہ گیا بہ مجبوری

ریل جس وقت آرہ میں ٹھہری

جمع تھے سب دیہاتی و شہری

اس گھڑی میں اٹھا جو پہلو سے

بھرے آنکھوں کو اپنے آنسو سے

اور بولا کہ لو خدا حافظ

مجھ کو اب جانے دو خدا حافظ

گرچہ دل کو ذرا قرار نہیں

آگے جانے کا اختیار نہیں

سننا تھا یہ کہ وہ بجوش فغاں

بولی ہیں ہیں کہاں کہاں یہ کہاں

میں نہ مانوں گی میں نہ مانوں گی

تم جو اتروگے جان دیدوں گی

کہہ کے یہ میرا تھام کر دامن

چاہا بٹھلائے ریل میں فوراً

میں نے ہٹ کی بہ التجا ہٹ کر

دامن اتنے میں رہ گیا پھٹ کر

کھول کر کھڑکی اور دے کے دعا

ریل کے نیچے میں اتر ہی پڑا

اور کھڑکی کو تھام کر اک بار

بولا چلنے میں مجھ کو کیا انکار

پر مناسب نہیں مرا جانا

تمہیں سمجھو کہ ایسا کیا جانا

عزت خاندان کا بھی ڈر ہے

دم بدم باپ ماں کا بھی ڈر ہے

کہنے کو تو کہا مگر کہوں کیا

دل پہ صدمہ جو کچھ گذر رہا تھا

ریل کی سیٹی اس طرف کو بجی

اور دونوں کا سَنسَنا گیا جی

اس طرف آہ تھی ادُھر نالے

آنکھوں سے آنسوئوں کے پرنالے

دونوں حسرت سے نکلتے تھے باہم

ہائے کچھ کہہ نہ سکتے تھے باہم

اس طرح حیدر جان سے رخصت تو ہوا لیکن اس کا کیا اثر سلطان عظیم آبادی کو ہوا، وہ بیان کرتے ہیں             ؎

مری حالت وہ تھی معاذ اللہ

کہ نہ دکھلائے، وہ گھڑی اللہ

آرہ سے آیا تو میں گھر کو مگر

لانے والوں کو ہے کچھ اس کی خبر

آہ کچھ ایسا میں ہوا دل گیر

دل نے کی جان لینے کی تدبیر

کھانے پینے کو بھی جواب دیا

بلکہ جینے کو بھی جواب دیا

بند آنکھیں کئے زمیں پہ پڑا

نقش پا تھا امید رفتہ کا

اس طرح دونوں کی زندگی جدائی اور فراق میں گذری۔ ان کی بے چینی اور   بے قراری کو دیکھ کر والد نے انہیں کلکتہ لے جانا مناسب سمجھا۔ لیکن سلطان کا دل وہاں بھی نہ لگا۔ اس طرح پٹنہ واپس آگئے۔ انھوں نے حیدر جان کو ایک منظوم خط لکھا۔ ملاحظہ ہوں          ؎

اے تمنائے عاشق ناکام

دلربائے زمانہ دلبر نام

تو سلامت رہے بصد خوبی

روز افزوں ہو تیری محبوبی

تو مسلمان ہے تو اے کافر

یاد کر اپنے قول کو آخر

تجھ کو سوگند شاہ خیبر ہے

بالیقیں تو کنیز حیدر ہے

تجھ کو اپنے ادائوں کی سوگند

مجھ کو میری وفائوں کی سوگند

اپنے حیران نیم جاں پہ نظر

جلد لے جلد آکے میری خبر

ختم اب داستانِ حیراں ہے

خطِ سلطانِ عشق بازاں ہے

بالآخر بہت ساری بندشوں اور رکاوٹوں کے بعد حیدرجان لکھنؤ سے پٹنہ آئی            ؎

سلسلہ وعظ و پند کا ٹوٹا

قفل سب قید و بند کا ٹوٹا

کھُلے بندوں وہ پائے بند وفا

لکھنؤ سے چلی بصدق و صفا

حیدر جان کے پٹنہ آنے پر سلطان عظیم آبادی پر جو کیفیتیں گذریں اس کا اظہار اس طرح کیا           ؎

تغافل سے بہت دعوے کئے تو گھر میں بیٹھا تھا

نکل آیا نہ دل پکڑے ہوئے میری دہائی سے

——

سلطان فراق میں نہ ہو بے چین اس قدر

دو چار روز ہی میں تو وہ آئے جاتے ہیں

——

سُنا ہے تابہ در میری عیادت کو وہ آپہونچے

بغل میں ہاتھ دو کوئی اٹھا دو چارپائی سے

رومانیت شخصیت کا آئینہ اور ذات کی عکاسی ہوتی ہے۔ سلطان عظیم آبادی رومانیت پرور شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا محور عشق اور عشقیہ شاعری ہے۔ بلاشبہ اگر ان کی زندگی میں حیدر جان نہیں آتی تو وہ اس طرح کی شاعری نہیں کرپاتے۔ وہ پھر صفیربلگرامی کی پیروی کرتے ہوئے وہیں تک محدود رہ جاتے اور دیگر تلامذۂ صفیر کے شاعروں میں گنے جاتے۔ انہوں نے عشقیہ شاعری کو اس قدر تہہ دار اور پہلو دار بنا دیا کہ حسن و عشق کے تعلقات اور نازک رشتے سے ایک نئی دنیا کی خبر ملتی ہے۔ یہ دنیا نہ تو غم کی دنیا ہے اور نہ خوشی کی بلکہ علم واحساس سے عبارت ہے، جس کا تصور کیف آفریں ہے۔ اس کا اندازہ ان کے چند اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ ہوں           ؎

سلطان نہ بس اس طرح کراہو

مرجائو اگر یونہی تو کیا ہو

اس موت پہ صدقے لاکھ عمر میں

تیرے ہاتھوں اگر قضا ہو

مدفن مرا وسیع رکھنا

میلا شاہد پسِ فنا ہو

———

لی خبر جلد مری آپ نے ہشیاری کی

سال کٹتا تو مجھے ہجر کا غم کھا جاتا

نزع کے وقت وہ آئے تو اشارے سے کہا

اب تم آئے کہ زباں سے نہیں بولا جاتا

سلطان عظیم آبادی کی دو مثنویوں میں مثنوی ’دردِ دل‘ ایک اہم مثنوی ہے۔ کیونکہ یہ مثنوی ان کی پوری شاعری کا ماخذ ہے۔ ان میں عشقیہ واقعات نظم کیے گئے ہیں جو حقیقت پر مبنی ہیں۔ وہ اس مثنوی کے ہیرو ہیں تو ان کی محبوبہ طوائف ہیروئن ہے۔ اس میں مثنوی نگاری کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ اشعار میں روانی کے ساتھ قصّہ، کردار نگاری، ماجرا نگاری، واقعہ نگاری غرض کہ مثنوی میں جو لوازمات ہونے چاہئیں وہ سب موجود ہیں  اور یہ حقیقت پر مبنی منظوم کہانی ہے۔ اس کی زبان پیاری اور پُرلطف ہے۔ درحقیقت یہ مثنوی شاعر کی منظوم آپ بیتی ہے۔ بہار کے اہم مثنوی نگاروں میں سلطان عظیم آبادی کا ذکر خاص طور سے کیاجانا چاہیے۔

مختصر یہ کہ سلطان عظیم آبادی کا معشوق اگرچہ طوائف ہے جسے اس زمانہ میں بازاری سمجھا جاتا تھا۔ لیکن سلطان عظیم آبادی کے عشق کی روح کی شرافت نے ان کے دل کے اندر رہنے والے فنکار سے اس بازاری طوائف کو گرہستی کی دنیا کا بیش بہا اور پاکیزہ سرمایہ بنا دیا۔ سلطان عظیم آبادی نے بازاری محبوب کو ایسا پردہ نشیں بنایا کہ اس کی ایک ایک ادا پر شرافت قربان ہوتی ہے۔

بچھا دے بشر گل ہاں لگا دے اوٹ پھولوں کی

کہ اس رشک چمن کا وصل ہے اے باغباں ہم سے

حوالے اور ماخذ

  1. .1     تاریخ شعرائے بہار، جلد اول از سید عزیز الدین بلخی راز عظیم آبادی
  2. .2     بہار اور اردو شاعری-معین الدین دردائی
  3. .3     دفتر گم گشتہ (بہار میں اردو شاعری کا ارتقا) کلیم احمد عاجز
  4. .4     تذکرہ شمیم سخن-مولوی  عبدالحئی صفا بدایونی
  5. .5     تذکرۃ الخواتین-مولانا عبدالباری آسی
  6. .6     مثنوی ’’فریادِ داغ‘‘-داغ دہلوی
  7. .7     تذکرہ مسلم شعرائے بہار-حکیم سید احمد اللہ ندوی
  8. .8     بہار میں اردو مثنوی کا ارتقا-ڈاکٹر احمد حسن دانش
  9. .9     مرقع فیض-نواب سید تجمل حسین خاں سلطان عظیم آبادی

Sultan Azad

Pannu Lane

Gulzarbagh

Patna- 800007 (Bihar)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...