30/8/24

ہندوستانی مشترکہ تہذیب کا شاعر نظیر اکبر آبادی، مضمون نگار: جاں نثار عالم

 ماہنامہ اردودنیا، جولائی 2024

امیر خسرو کے بعد ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے سب سے اہم شاعر نظیر اکبر آبادی ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کے بارے میں بھی محققین میں اختلاف ہے تاہم زیادہ تر محققین کا ماننا ہے کہ نظیر جن کا اصل نام ولی محمد تھا1735میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ ان کی والدہ آگرہ کے قلعہ دار نواب سلطان خان کی بیٹی تھیں۔ نظیر کی پیدائش کے بعد ہی دہلی کو مسلسل پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا نادر شاہ نے 1739 میں حملہ کرکے دہلی کو بڑے پیمانے پر لوٹا اور قتل عام کیا۔ دہلی کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور دہلی میں بہت دنوں تک بد امنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد احمد شاہ ابدالی نے بھی مسلسل تین بار دہلی پر حملہ کیا۔ اس سے پریشان ہو کر نظیر اپنی والدہ اور دادی کے ساتھ دہلی سے اکبر آباد یعنی آگرہ آگئے اور وہاں تاج گنج کے نوری دروازہ کے مکان میں رہنے لگے۔ نظیر آگرہ میں آباد ہوئے اور 1830  میں یہیں دفن ہوئے۔  وہ آٹھ زبانوں پر دسترس رکھتے تھے جن میں اردو، فارسی، برج بھا شا، مارواڑی،پنجابی، پوربی اور ہندی  ہے۔

نظیر نے طویل عمر پائی۔ ان کا عہد میر، سودا  اور درد کا عہد تھا۔ وہ مطمئن طبیعت کے خوش مزاج انسان تھے۔ ان کی اقتصادی حیثیت بہت ہی معمولی تھی پھر بھی مال و دولت انھیںکبھی اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔ نواب سعادت علی خان نے انھیںلکھنؤ بلایا لیکن انھوں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح بھرت پور کے نواب نے انھیںبلایا لیکن وہ وہاں بھی نہیں گئے اور اپنے تدریسی کام کے سلسلے میں کچھ دن متھرا میں رہے پھر آگرہ واپس آگئے اور لالہ بلاس رائے کے بیٹوں کو محض 71 روپے ماہانہ تنخواہ پر پڑھانے لگے۔ اس معمولی تنخواہ پر ساری زندگی ہنستے ہنستے گزار دی۔ وہ جانتے تھے کہ کس طرح اطمینان کے ساتھ زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونا ہے۔وہ کسی قیمت پرآگرہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے وہ کہتے تھے کہ           ؎

عاشق کہو اسیر کہو آگرے کا ہے

ملا کہو دبیر کہو آگرے کا ہے

مفلس کہو فقیر کہو آگرے کا ہے

شاعر  کہو  نظیر کہو  آگرے  کا ہے

نظیراکبرآبادی کی شخصیت اور ان کی شاعری دونوں ابتدا ہی سے متنازع فیہ مسئلہ رہی ہے۔ جہاں بعض تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے ان کو شعری روایت سے بغاوت کے سبب اپنے تذکروںمیں شامل کرنے اور شاعر تسلیم کرنے سے گریزکیا وہیںگزرتے وقت کے ساتھ تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے نہ صرف نظیرکے کلام کی اہمیت و معنویت کوپہچانابلکہ ادب کے آسمان پر درخشند ہ ستارے کی طرح  بتایااور انھیںاہم شعرامیںشمار کیا جانے لگا۔

نظیراکبرآبادی ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو رئوسا اور نوابوں کا تھا لیکن انھوں نے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنی شاعری میں جن موضوعات کو منتخب کیا وہ ایک عام آدمی کے حالات ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے انھوں نے اپنے عہد کی شاعری میںخواص کو شامل کرنے کی روایت کے بر عکس عوام کو شامل کیا۔ وہ ایک عوامی شاعر تھے اور ہر طرح کے لوگوں سے ملتے جلتے تھے۔ نظیر کی شاعری میں زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے تہذیبی و تمدنی مشاغل کے خوبصورت رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ زندگی کی رنگا رنگی، مختلف تہوار مثلاًعید، بقرہ عید، ہولی، دیوالی، بسنت سے لے کر چرند پرند میلے ٹھیلے رنگین اور زرق و برق ملبوسات، ترکاریاں و مٹی کے برتن تک ان کی شاعری کے موضوعات میں شامل ہیں۔ ان کی عوامی شاعری کے متعلق کئی بڑے نقّادوں نے اظہارِ خیال کیا ہے جن میں مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، آل احمد سرور سے لے کر اختر اورینوی، ڈاکٹر سید اعجاز حسین اور محمد حسن تک ہیں۔ محمد حسن اپنی کتاب ’نظیر اکبرآبادی میں اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ :

’’نظیرعوامی شاعر ہیں اس نے عوام کی باتیں عوام سے کہیں۔ اس نے نہ تو مذہب کا پرچار کیا اور نہ رہبانیت کا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں عوام کو سمجھنا ہوگا۔

(ہندستانی ادب کے معمار: نظیر اکبرآبادی، محمد حسن، ص9، ساہتیہ اکادمی،دہلی،1994)

نظیرایک کھلے ذہن اور بڑے دل کے شاعر تھے ہر مذہب کے  لوگوں سے ان کا تعلق گہرا تھا اور ہر مذہب کا وہ بہت احترام کرتے تھے اسی لیے انھوںنے ہولی، دیوالی، شبِ برات، عیدوغیرہ پر خوبصورت نظمیں لکھی ہیںحضرت امیر خسرو کے بعد نظیر اکبرآبادی قومی یکجہتی اور بھائی چارا کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ آدمی نامہ اسی سلسلے کی ایک مشہور نظم ہے جس میں آدمی کے دکھ درد و دیگر پریشانیوں کے علاوہ اس کی مختلف قسمیں اور صفات کا بیان بڑے ہی دلچسپ انداز میں کیا گیاہے        ؎

دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نظیر کی نظموں میں تنوع ہے اس میں ہر قسم کے مضامین پائے جاتے ہیں۔ ان کی نظموں کی حسین رنگا رنگی اور تنوع کے متعلق رشید حسن خاں رقمطراز ہیں:

’’تنوع اور رنگارنگی کے لحاظ سے، نظیر کا کلام آج بھی بے مثال ہے۔ کوئی شاعر اس باب میں ان کا حریف نہیں۔ زندگی اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ان کے کلیات میں جلوہ گر ہے۔ انھوں نے زندگی کے ان خالص مادی پہلوؤں کو اور ان کے اثرات کو بے حد سادگی و صفائی کے ساتھ پیش کیا، جن کے کرشمے ہر طرف نظر آتے تھے، لیکن جن کو شاعر کی نظر اور مصور کی آنکھ نے اپنے مرقعوں میں جگہ نہیں دی تھی۔ تو اچولھا، دال روٹی اور راکھ، منقا، موٹھ، مٹر کو بھلا شاعری سے کیا تعلق تھا اور اس زمانے میں یہ کس نے کہا تھا کہ جہاں چولھے کی آنچ ہے، وہیں خالق کی نعمتوں کا ظہور ہے بلکہ اصل میں یہی نور ہے۔ اور اگر پیٹ بھرا ہوا نہ ہو تو چودہ طبق کیا، ایک طبق بھی روشن نظر نہیں آسکتا۔

(انتخاب نظیراکبرآبادی، تصحیح وترتیب رشید حسن خاں، ص7، لبرٹی آرٹ پریس،دہلی،1970)

نظیراکبرآبادی نے دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ اس نظم میںبہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا  ہے        ؎

 

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقّارا

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلاسر بھارا

کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاویگا جب لاد چلے گا بنجارا

نظیراکبر آبادی، میر و سودا کے ہم عصر تھے اور جن معاشی و سماجی مسائل سے میر و سودا دوچار رہے، ان سے ملتے جلتے حالات میںنظیراکبر آبادی بھی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میرو سودا نے دہلی کی غارت گری سے اثر لیا جب کہ نظیر آگرہ میں موجود ہونے کی وجہ سے براہ ِ راست غارت گری سے محفوظ رہے، البتہ دہلی کے حملوں کے سیاسی و سماجی اور معاشی اثرات سے بالواسطہ متاثر ہوتے رہے۔ شہر آشوب کے شاعر جعفر زٹلی سے سودا تک کے معاصر شعرا نے معاشی بدحالی کا ذکر اپنی شاعری کے ذریعے کیا ہے۔نظیرا کبر آبادی نے عام نظموں میں بھی روپئے،پیسے اور مادّی وسائل کے انسانی زندگی اور سماج میں انسانی مقام و مرتبے پر اثرات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نظیرا کبر آبادی کی مختلف نظمیں مثلاً کوڑی نامہ، پیسہ، مفلسی، آٹے دال، روٹی نامہ براہِ راست معاشی نظمیں ہیںروٹی نامہ کاایک بند ملاحظہ ہو        ؎

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے

یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لیے

وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے

ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتے

بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں

 انھوںنے اپنی مشہور نظم ’ مفلسی‘ اور ’ آٹے دال ‘ میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔ نظم مفلسی میں وہ لکھتے ہیں           ؎

جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی

کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی

پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی

بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی

یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی

نظیر نے اپنے عہد کے پر آشوب ماحول کی عکاسی ان پر درد الفاظ کے ذریعے کی ہے          ؎

مارے ہیں ہاتھ ہاتھ پہ سب یاں کے دستکار

اور جتنے پیشہ ور ہیں سو روتے ہیں زار زار

کچھ ایک دو کے کام کو رونا نہیں ہے یار

چھتیس پیشے والوں کے ہیں کاروبار بند

نظیر اکبر آبادی ایک عوامی شاعر تھے۔ ان کی نظموں میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی رو ح اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے جس کا لب و لہجہ اور مزاج عوامی ہے۔ ان کے یہاں مختلف موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں۔ کچھ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ذکر ہے بعض میں اخلاق و تصوف کا۔ ان کے جمہوری مزاج کے متعلق پرو فیسر ا حتشام حسین لکھتے ہیں:

’’ انھیں ہندوستانی ادبیات میں جو عظمت حاصل ہے وہ نظموں ہی کی وجہ سے ہے، کیونکہ اس میں ہندوستانی زندگی اپنی تمام اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ جی اٹھی ہے۔ اس کلیات کا ایک حصہ کرشن جی، مہادیو جی، بھیروں جی وغیرہ پرلکھی ہوئی نظموں سے بھرا ہوا ہے۔ نظیر سے پہلے زیادہ تر شعراعام موضوعات پر لکھنے اور عوام کی زندگی کی تصویر کشی کرنے میں بچتے تھے مگر نظیر نے اونچے طبقے کے خیالات میں ایک ایسا چور دروازہ بنا دیا جس میں سے ہو کر عوام کا جلوس قصر ادب میں گھس آیا۔ شاعری کی اس عظیم روایت کے ساتھ نظیر اکبرآبادی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘

(اردو ادب کی تنقیدی تاریخ،سید احتشام حسین،ص117،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،1999)

نظیر اکبر آبادی کا تجربہ ومطالعہ بہت وسیع اور ہمہ گیرہے انھوں نے مختلف اہم شخصیات پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ مثلاً شری کرشن، گرو نانک وغیرہ۔

کہتے ہیں نانک شاہ جنھیں وہ پورے ہیں آگاہ گرو

وہ کامل رہبر جگ میں ہیں یوں روشن جیسے ماہ گرو

مقصود مراد امّید سبھی بر لاتے ہیں دکھواہ گرو

نت لطف کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا نرواہ گرو

اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو

سب سیس جھکا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو

ان کی شاعری کا جادوئی آہنگ آگرہ کے گلی کوچوںاور بازاروںمیں گونجتا تھا۔تہواروں اور میلوں میں ان کے گیت لوک گیتوں کی طرح گائے جاتے تھے۔ شری کرشن کی زندگی پر ان کے لکھے گیت کو فقیر مست ہو کر گاتے تھے        ؎

کیا کیا کہوں میں کرشن کنہیا کا بالپن

ایسا تھا بانسوری کے بجیّا کا بالپن

یاروں سنو وہ دہی کے لٹیّا کا بالپن

اور مدھوپوری نگر کے بسیّا کا بالپن

نظیراکبر آبادی ایک ایسے حقیقت پسند شاعر ہیں جن کی نظموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے انسان کو جینے کے یکساںوسائل ملنے چاہیے۔ انھوں نے بعض نظمیں بچّوں کے لیے بھی لکھی ہیں جیسے ریچھ کا بچہ،   بلی کا بچہ  وغیرہ۔ ان کے بعض موضوعات تو اتنے دلچسپ اور انوکھے ہیں کہ ان پر آج تک کسی شاعر نے قلم تک نہیں اٹھایا۔ان کی اس قوت مشاہدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خورشید الاسلام لکھتے ہیں:

 ’’ دنیا کو کتاب سے پڑھا اور استاد سے سیکھا بھی جاتا ہے مگر دل زندہ ہو تو اسے آنکھوں سے اور کانوں سے پیا بھی جاسکتا ہے۔ ‘‘

انھوں نے عام زندگی کے ہر چھوٹے بڑے موضوعات پر نظمیںلکھیں۔ مثلاً کورابرتن، لکڑی، تل کے لڈو وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی نظموں میں قدرت کے حسین مناظرکوبہت ہی خوبصورتی سے قید کیا ہے ان کی مشہور نظم  ’برسات کی بہاریں ‘ قدرتی مناظر کی بھر پور عکاسی کر تی ہیں           ؎

ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں

سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں

بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں

ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں

نظیرکی شاعری میں جہاں قدرتی مناظر کا عکس دکھائی دیتا ہے وہیں عرس،میلوں اور تہواروں کے مناظر بھی پیش کیے گئے ہیں۔ انھوں نے نظم ہولی کے ذریعے ایک ہندوستانی تہوار میں منائی جانے والی خوشیوں کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔

آجھمکے عیش و طرب کیا کیا،جب حسن دکھایا ہولی نے

ہر آن خوشی کی دھوم ہوئی، یوں لطف جتایا ہولی نے

ہر خاطر کو خورسند کیا، ہر دل کو لبھایا ہولی نے

دفِ رنگین نقش سنہری کا، جس وقت بجایا ہولی نے

بازار، گلی اور کوچوں میں، غل شور مچایا ہولی کا

نظیر اکبر آبادی اردو نظم کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے عربی، فارسی، پنجابی، اودھی، برج، کھڑی بولی اور سنسکرت کے الفاظ کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں شامل کیا۔ ان کی شاعری میں فارسی الفاظ اور تراکیب کی کمی نہیں۔ وہ کفر و ایمان، دیر و حرم، سبحہ وز ناّر کی تراکیب کے علاوہ عاشق،دلبر، دشت اور آہنگ کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ کھڑی بولی برج اور پنجابی سے آنند، بھیڑ، جنم، تت بھو، سنسار، لچھن، اوتار، سروپ، پر تپال، مدھ مست کے الفاظ ان کی شاعری میں جگہ  جگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف چولھا، ہانڈی اور تنور کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں بلکہ ایسے اودھی کے الفاظ بھی ان کی شاعری میں جگہ بناتے ہیں جنھیں صرف انھوں نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ مخاطبت کے لیے ’بابا کے لفظ کا استعمال بھی خالص ہندوستانی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔

غرض نظیر اکبر آبادی نے اپنی شاعری میں بے شمار ہندوستانی الفاظ استعمال کیے ہیں جنھیں ان سے پہلے کسی شاعر نے استعما ل نہیں کیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں زبان پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔

اس طو پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظیرہندوستانی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا بے نظیر شاعر تھا۔

 

Dr. Jan Nisar Alam

Asst Professor, Dept of Urdu

University of Lucknow

Lucknow- (UP)

Cell.: 9792453618

jannisaralamlko@gmail.com

29/8/24

محی الدین قادری زور کی ادبی خدمات، مضمون نگار: سوشیل کمار

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

ڈاکٹر زور ایک ممتاز ماہر لسانیات، نقاد، افسانہ نگار، سوانح نگار، تذکرہ نویس، شاعر، معلم و منتظم ہی نہیں تھے بلکہ وہ بلند پایے کے محقق و مدون بھی تھے۔ اس کا ثبوت ان کی تصانیف ہیں۔ دیگر موضوعات کے علاوہ دکنیات ڈاکٹر زور کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔ لسا نیات و صوتیات، سوانحیات و افسانہ نویسی وغیرہ کے علاوہ تحقیق و تدوین میں بھی دکنیات ان کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ تحقیق و تدوین کے متعلق ڈاکٹر زور کی تصانیف کی ایک طویل فہرست ہے جن میں اردو شہ پارے جلد اول، دکنی ادب کی تاریخ، عہد عثمانیہ میں اردو کی ترقی، تاریخ ادب اردو، اردو کے اسالیب بیان، داستان ادب حیدرآباد، جامعہ عثمانیہ کے فرزندوں کی اردو خدمات، ادبی تحریریں، مثنوی طالب و موہنی، فن انشا پردازی، عبدل کا ابراہیم نامہ، فرخندہ بنیاد حیدرآباد، تذکرہ گلزار ابراہیم، تذکرہ مخطوطات اردو (پانچ جلدیں)، متاع سخن، باد سخن،فیض سخن، رمز سخن، معنی سخن، تذکرہ نوادر ایوان اردو، مکتوبات شاد عظیم آبادی، شاد اقبال، جواہر سخن، معانی سخن، نذر محمد قلی قطب شاہ، مختصر حالات شاہ، اردو شاعری کا انتخاب، کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہم ڈاکٹر زور کی دیگر تصانیف کا بھی جائزہ لیں تو وہاں بھی ان کی تحقیقی نگارشات بخوبی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ڈاکٹر زور جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لندن گئے تھے تو وہاں انھوں نے کئی قدیم تاریخی کتب خانوں سے استفادہ کیا، وہاں ان کو اردو ادب کے متعلق ایسا نایاب مواد بھی حاصل ہوا جسے ڈاکٹر زور نے ہندوستان واپس آنے کے بعد کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کروایا۔ اردو شہ پارے اسی عمل کی ایک کڑی ہے جو انھوں نے 1929 میں شائع کرائی۔

اردو شہ پارے‘ جلد اول جس میں اردو ادب کے آغاز سے لے کر ولی کے زمانے تک کے شاعروں اور نثر نگاروں کے شہ پاروں سے اہم اور دلچسپ انتخابات پیش کیے گئے ہیں۔ 396 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جس میں ابتدائی کوششوں سے ولی کے زمانے تک کے اردو شہ پاروں کے مصنفین اور ان کے کارناموں پر ایک سرسری تاریخی نظر ڈالی گئی ہے۔اگرچہ اس سے ڈاکٹر زور کا مقصد اس دور کی ایک مکمل ادبی تاریخ پیش کرنا نہیں ہے بلکہ اس جلد میں جو شہ پارے پیش کیے گئے ہیں ان کی تخلیق کس زمانے میں، کن کے ہاتھوں سے، کس ماحول میں اور کس طریقے سے عمل میں آئی ان کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر زور نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ایسے مصنفین کا بھی ذکر کیا ہے جن کا کلام موجود نہیں ہے اور معلومات کی کمی کی وجہ سے اختصار سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس میں شاعروں اور کتابوں کے متعلق جو کچھ حالات لکھے گئے ہیں چند معمولی اور غیر معروف کو چھوڑ کر ڈاکٹر زور کی ذاتی تحقیق و تفتیش اور اصلی ماخذوں کے مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ اس کتاب کی ابواب بندی ڈاکٹر زور نے اس طرح کی ہے:

باب اول: اردوادب کی ابتدائی کوششیں، باب دوم: اردو ادب بیجا پور میں، باب سوم: اردو ادب گولکنڈہ میں، باب چہارم: اردو ادب مغلوں کی حکومت میں۔ اس کے علاوہ شہ پاروں کی فہرست بہ لحاظ مضامین ، اردو شہ پارے نظم و نثر، دور اول کے مصنفین اور ان کے کارنامے، بیجاپوری مصنفین اور ان کے کارنامے، گولکنڈہ کے مصنفین اور ان کے کارنامے، مغلیہ عہد کے مصنفین اور ان کے کارنامے، ایڈنبرا کی بیاض کے مرثیہ نگار، اردو ادب سے متعلق سنیںوغیرہ کا ڈاکٹر زور نے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ڈاکٹر زور نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مجموعے میں بعض ایسی اعلیٰ درجے کی ادبی کتابوں کے انتخاب موجود نہ ہوں جو کسی خانگی کتب خانے میں محفوظ ہیں یا جن کے متعلق عام طورپر معلومات نہیں۔ چونکہ ڈاکٹر زور نے یہ کتاب آج سے 94 برس پہلے لکھی تھی جس میں ڈاکٹر زور نے قلمی کتابوں کے انتخاب بھی شامل کیے ہیں۔

تاریخ ادب اردو‘ ڈاکٹر زور کی ایک اہم کتاب ہے۔ ڈاکٹر زور نے اس کتاب کو ادارۂ ادبیات اردو حیدرآباد سے 1940 میں شائع کروایا تھا۔ اگرچہ یہ ایک مختصر کتاب ہے جو محض 173 صفحات پر مشتمل ہے۔ چونکہ ادارے میں دیگر زبانوں کی تاریخ پر کتاب شائع کر رہے تھے اس لیے اردو زبان کی مختصر تاریخ کو بھی مرتب کرکے شائع کرایا گیا۔ اردو کی تاریخ پر مختصر مگر جامع کتاب کی ضرورت تھی۔

دکنی ادب کی تاریخ‘ ڈاکٹر زور کی ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ اس میں ڈاکٹر زور نے اردو زبان کے قدیم مرکزوںگلبرگہ، بیدر، بیجاپور، گولکنڈہ، حیدرآباد اور اورنگ آباد کے شاعروں اور ادیبوں کی اردو خدمات پر تفصیلی بحث کی ہے اور 1350 تا 1750 کی ادبی تاریخ کو بیان کیا ہے۔ باب اول میں بہمنی عہد، گلبرگہ اور بیدر یعنی 1350 تا 1525 کا احاطہ کیا ہے۔ باب دوم میں عادل شاہی عہدبیجاپور یعنی 1490 سے 1686 تک ہے۔ باب سوم قطب شاہی عہد، گولکنڈہ اور حیدرآباد، 1508سے 1686 تک ہے۔ باب چہارم مغل عہد، حیدرآباد اور اورنگ آباد ، 1686 تا 1750 پہنچتا ہے۔ باب پنجم میں دکنی ادب کا اثر شمالی ہند کی اردو پر وغیرہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر زور لکھتے ہیں کہ ’’قدیم دکنی ادب کی تاریخ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ اب سے تیس برس قبل جب میں نے 1928 میں ’اردو شہ پارے‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی نہ دکنی ادب کا چرچہ تھا اور نہ عام اردو دانوں کو معلوم تھا کہ اردو زبان میں تین چار سوسال قبل اتنی اعلیٰ درجے کی نثر و نظم لکھی گئی ہوگی۔۔۔۔۔ تیس سال کے اس طویل عرصے میں متعددادیبوں اور محققوں نے اس کی طرف توجہ کی اور دکنی ادب کے گوناگوں گوشوں کو اجاگر کیا اور کئی نئے شاعر اور ادیب روشناس کیے گئے۔‘‘

)دکنی ادب کی تاریخ، ڈاکٹر زور، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی، 1960، ص6(

ڈاکٹر زور نے دکنی ادب کی تحقیق اور فروغ میں نہ صرف تن من اور دھن سے کام لیا بلکہ ایسے لوگوں کو بھی متعارف کروایا ہے جنہوں نے دکنی ادب کے فروغ میں اہم حصہ لیا ۔ ’عہد عثمانیہ میں اردو کی ترقی‘ بھی ڈاکٹر زور کی اہم تصنیف ہے۔ یہ کتاب تقریباً 200 صفحات پر مشتمل ہے جو 1934 میں اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ اس میں ڈاکٹر زور نے عہد عثمانیہ کے گزشتہ 25سال سے حیدرآباد دکن میں اردو زبان و ادب کی نشوو نما کا تذکرہ کیا ہے جو نہایت ہی اہم اور دلچسپ ہے۔

ڈاکٹر زور لکھتے ہیں : ’’سرزمین دکن سے اردو کا آغاز نہ معلوم کون سی مبارک گھڑی میں کیا تھا کہ اس کے سپوت آج تک اس کی خدمت میں سرگرم کار ہیں اور گزشتہ تین چار صدیوں کے طویل عرصے میں کبھی کسی وجہ سے بھی اپنے کام کو ملتوی نہیں کیا۔ شاید ہی کوئی یہاں ایسا گزرا ہو جس میں اردو سے کسی کی بے توجہی کی گئی ہو۔۔۔۔۔‘‘

)ڈاکٹر زور ، عہد عثمانیہ میں اردو کی ترقی، اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد ، 1934، ص 11(

ڈاکٹر زور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ عہد عثمانیہ کا سب سے درخشاں کارنامہ جس نے زبان اردو کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے مستحکم کردیا اور اس کے لیے ترقی کی سیکڑوں راہیں پیدا کردیں وہ جامعہ عثمانیہ کا قیام ہے۔ ڈاکٹر زور نے جامعہ کی دیگر خدمات کے علاوہ اردو زبان و ادب کے متعلق مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے اور تفصیلاً واضح کیا ہے کہ حیدرآباد میں اردو زبان کی اصلاح و ترقی اور بولنے والوں کے علاوہ اردو کے مختلف مراکز ، حیدرآبادی اردو اور شمالی ہند کی اردو کا میل جول، حیدرآباد کی جدید اردو، علمی اور فنی ضرورتوں کی تکمیل، حیدرآباد میں اردو کی عام مقبولیت، جامعہ عثمانیہ میں ہندو طلبہ کی کثرت اور کامیابیاں، اردو تعلیم اور جامعہ عثمانیہ کے قیام کے لیے ہندوؤں کی کوششیں جیسے موضوعات پر ڈاکٹر زور نے مفصل بحث کی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک مکمل اور مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ’داستان ادب حیدرآباد‘ بھی ڈاکٹر زور کی ایک اہم کتاب ہے۔ اس میں ڈاکٹر زور نے حیدرآباد کے تین سو سالہ اردو، فارسی و عربی ادب و شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ چونکہ ڈاکٹر زور نے قطب شاہی اور آصف جاہی عہد کی تاریخ و ادب کو بطور خاص اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ اس لیے مختلف ادوار میں حیدرآباد میں ابھرنے والی علمی و ادبی تحریکوں اور ان کے پس منظر کے پہلو بہ پہلو جملہ ارباب کمال کے مختصر واقعات حیات اور ان کے رشحات قلم کی خصوصیات سے بھی قارئین کو واقف کرانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر زور نے دور انتشار کے حیدرآباد کے سیاسی ، سماجی ودیگر پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس وقت کی علمی و ادبی خدمات اور شعرا و مصنفین پر مفصل بحث کی ہے جو نہایت اہم اور دلچسپ ہے۔

اردو کے اسالیب بیان‘ ڈاکٹر زور کی مرتبہ تواریخ کی ایک کڑی ہے۔ اس کا شمار اردو نثر کی تواریخِ ادب کے زمرے میں ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر زور نے اردو زبان میں نثر کے ابتدائی کارنامے، دسویں صدی ہجری کے بعد دکن میں نثر کی نشوو نما، شمالی ہند میں نثر کے ابتدائی مراحل، فورٹ ولیم کالج کی نثری کوششیں، غدر اور اس کے قریبی زمانے میں نثر کی حالت، سرسید کی کوششوں کا اثر، موجودہ انشا پردازوں کی نثر اور اس کے اسالیب، اردو نثر کے رجحانات اور اردو نثر کا مستقبل وغیرہ موضوعات کا جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر زور لکھتے ہیں:

’’اردو نثر کی ابتدا کے متعلق ابھی کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ۔ بعض تحقیقات نے شیخ عین الدین گنج العلم کے رسالوں کو قدیم ترین تصنیفات قرار دیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ خیال بھی غلط ثابت ہو کیونکہ شیخ الدین 706ھ میں پیدا ہوئے تھے اور اب بعض ایسی کتابیں دستیاب ہو رہی ہیں جو 500ھ کے قریب زمانے میں لکھی گئی تھیں۔۔۔۔۔۔‘‘

)اردو کے اسالیب بیان، ڈاکٹر زور، اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد، دکن، 1940، ص25(

یہ کتاب اردو نثر کی ابتدا اور ارتقا پر ایک اہم کتاب ہے جس میں ڈاکٹر زور نے اسالیب بیان کے لحاظ سے اردو نثر کی ارتقائی منزلوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

مطالعہ زور‘ میں اکبر حیدری لکھتے ہیں کہ ’اردو کے اسالیب بیان‘ اردو ادب کی بہترین انشا پردازی اور اعلیٰ نثری کارناموں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر زور نے جو کچھ بھی اس میں اپنا خیا ل پیش کیا ہے وہ حق و صداقت پر مبنی ہے۔ یہ کتاب لکھ کر مصنف نے اس بات کا ثبوت دیا کہ ایک تنقید نگار کو کیسے غیر جانب دار رہنا چاہیے۔ انھوں نے اس کتاب میں کسی بھی انشاپرداز کے بارے میں ذرا بھی تعصب نہیں برتا۔ چنانچہ انھوں نے خود بھی کتاب کے آغاز میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔‘‘

)مطالعہ زور، اکبر حیدری، الماس بک ڈپو، لکھنؤ، 1966، ص59(

تحقیق و تدوین کے متعلق ڈاکٹر زور نے متعدد تصانیف لکھی ہیں، جیساکہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے جن کی طویل فہرست ہے ۔ ان تمام کی وضاحت اور جائزے کے لیے ایک مکمل مقالہ درکار ہے۔ اپنے موضوع و مقصد کے پیش نظر ان کا ذکر اور مرکزی خیال پیش کرنا ہی مناسب ہوگا۔

فن انشا پردازی کے متعلق بھی ڈاکٹر زور کی دلچسپ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ’سخن سیریز‘ پر ڈاکٹر زور کی کئی تصانیف ہیں ’مرقع سخن‘ (دوجلدیں) متاع سخن، باد سخن، فیض سخن، رمز سخن، معنی سخن، جواہر سخن وغیرہ تصانیف میں ڈاکٹر زور نے دکن کے ایسے گمنام شعرا کی خدمات اور کلام کو  اجاگر کیا ہے جو اردو زبان و ادب سے گم ہوچکے تھے۔ ان کے علاوہ تذکرہ گلزار ابراہیم، تذکرہ مخطوطات (پانچ جلدیں)، تذکرہ نوادر ایوان اردو، مکتوبات شاد عظیم آبادی، شاد اقبال، مثنوی طالب و موہنی، عبدل کا ابراہیم نامہ، فرخندہ بنیاد حیدرآباد، نذر محمد قلی قطب شاہ، مختصر حالات شاہ، باغ و بہار، اردو شاعری کا انتخاب، سلطان محمود غزنوی کی بزم ادب اور کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ ڈاکٹر زور کی تحقیق و تدوین پر نہایت ہی اہم تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب میں ایک بہت بڑا اضافہ ہے۔ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ولی کو پہلا شاعر مانا جاتا تھا لیکن شمس اللہ قادری کے علاوہ ڈاکٹر زور کی تحقیق نے یہ ثابت کیا تھا کہ ولی نہیں بلکہ سلطان محمد قلی قطب اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے۔ ڈاکٹر زور نے ’کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ‘ کو مرتب کرکے اردو ادب کی تاریخ میں تین سو سال کا اضافہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر زور نے قلی قطب شاہ کے احوال و کوائف و دیگر بنیادی چیزوں کو بھی شامل کیا ہے جو تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر زور عملی طور پر بھی یوم قلی قطب شاہ مناتے رہے جس میں دکن کی تہذیب و تمدن ، تاریخ و تعمیری روایات کو دکھایا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم ڈاکٹر زور کی کسی بھی تصنیف کا مطالعہ کرتے ہیں چاہے وہ جس بھی موضوع سے تعلق رکھتی ہو یعنی کہ ان کی لسانی و صوتی خدمات، سوانحی خدمات، افسانہ نگاری و دیگر تمام تصانیف میں دکنیات کا موضوع ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے اور ہر موضوع پر ان کا تحقیقی عنصر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر زور کی تصانیف میں اکثر سن ہجری کا استعمال زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی تصانیف کی اہمیت و افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے برصغیر کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان کی تصانیف نصاب میں شامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی ڈاکٹر زور کی تحقیقی و تدوینی تصانیف اردو زبان و ادب میں ایک بہت بڑا اضافہ ہیں۔

 

Dr.Sushil Kumar

352-E/5, Munirka Village

New Delhi-110067

Mob.: 6006920406

Email.: sushiljnu2015@gmail.com

سلام بن رزاق کا بحیثیت افسانہ نگار اختصاص، مضمون نگار: صفدر امام قادری

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024

جدیدت کے علَم بردار ادبا کے ساتھ ساتھ 1970 کے بعد جن افسانہ نگاروں نے رفتہ رفتہ خود کو ایک نئے اور مختلف اظہاریے کی طرف موڑنے میں کامیابی پائی، ان میں سلام بن رزاق سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ان کے بعد کے افسانہ نگاروں میں شوکت حیات، شفق، حسین الحق، ساجد رشید، سید محمد اشرف، طارق چھتاری اور عبد الصمد وغیرہ نے بھی اس بدلتے ہوئے افسانوی اسلوب کو پہچاننے کی کوشش کی۔ اولاًسب کے سب جدیدیت بردار قافلے کے سفیروں میں اُنھی مخصوص موضوعات اور اسلوب کے ساتھ پہنچے تھے لیکن ایک دہائی بھی نہیں گزری ہوگی کہ جدید افسانوں کی نا مقبول دنیا سے نکل کر کسی دوسری فضا اور کیفیت کی تلاش میںیہ لوگ منہمک ہو گئے۔ اس دَوران کھلے طور پر یہ سمجھ میں آنے لگا تھا کہ غیاث احمد گدی، سریندر پرکاش، بلراج مین را اور احمد ہمیش کے افسانوی سرمائے سے یکسر مختلف ایک نئی دنیا خلق ہونے لگی ہے۔ جدیدیت کے بعض نقاد اورکچھ رسائل کے مدیران بھی اس خاموش تبدیلی کو شاید ہی بروقت سمجھ سکے۔ دیکھتے دیکھتے ایسے دوسرے رسائل اور مدیران کے ساتھ ساتھ نئے نقاد وںکی صف سامنے آنے لگی جو اس نئے افسانوی بیانیے کو اسلوبِ آئندہ کے طور پر پہچاننے کی کوشش کرے۔ کہنا چاہیے کہ جدیدیت کی تربیت گاہ سے ایک مختلف طرزکی افسانہ نگاری کا سورج طلوع ہو رہا تھااورکم از کم افسانے کی حدتک 1970 کے بعد کی نسل ایک نئی تاریخ گڑھنے کے لیے بڑی تعداد میں میدانِ عمل میں کود چکی تھی۔

جدید افسانے کے معتبر نقاد اور محققین نے تجرید اور علامت کو نشان زد کرکے اس عہد کے نئے افسانوں کے امتیازات واضح کیے تھے۔ 1960 کے پہلے تک ترقی پسند افسانہ نگاروں کی وہ کہکشاں جگ  مگ جگ  مگ کر رہی تھی جسے پریم چند کے بعد افسانہ نگاروں کی سب سے توانا اور مقبول نسل تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1936 سے 1960 کے بیچ معتبر افسانہ نگاروں کی ایک سرسری فہرست بھی تیار کیجیے تو ان میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، دیویندر ستیارتھی، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، سہیل عظیم آبادی،اختر اورینوی اور اپندر ناتھ اشک وغیرہ کے نام بیک نظر سامنے آجائیں گے۔ ان میں سے اکثر کا اسلوب اور افسانوی تکنیک بلاشبہ ایک دوسرے سے مختلف ہے اور پریم چند کی مقبول افسانوی پہچان کے فوراً بعد اس نسل نے ادب کی موضوعاتی دنیا میں انقلاب آفریں تبدیلیاں کر دیں۔ اس نسل نے روسی اور فرانسیسی افسانہ نگاروں سے بھی استفادہ کیا لیکن ان کی حیرت انگیز مقبولیت کی پشت پر پریم چند کا آزمایا ہواوہی بیانیہ سایہ فگن رہا جس میں حسبِ ضرورت ردو بدل کرکے اس نسل کے افسانہ نگاروںنے اس بیانیے میں توسیع کی تھی اور اپنے عہد کے افسانے کو قبولِ عام کے درجے تک پہنچایا تھا۔

جدیدیت کے عہد میں ابھرنے والے بعض ابتدائی افسانہ نگاران بزرگوں کے ذرا پیچھے چل رہے تھے۔غیاث احمد گدی، اقبال مجید، رتن سنگھ اور قاضی عبد الستارجیسے اصحابِ قلم نے 1960 سے پہلے اچھا خاصا لکھ لیا تھااور متواتر لکھنے کی وجہ سے ان کی ایک ادبی پہچان بھی قائم ہونے لگی تھی مگرجدیدیت کے بدلتے اسلوب اور نئے ہم عصروں کی ہم رکابی میں ان سب کے یہاں بھی خالص جدید تبدیلیاں آئیں مگر ان جیسے چند لوگوں نے اس بات کا دھیان رکھا کہ علامت یا تجرید کو اپنے فن کی شکست یا تبلیغ نہیں مانیں گے بلکہ فطری طور پر موضوع و اسلوب کی تبدیلیوں کاسلسلہ چلنا چاہیے۔اسی اندازِ نظر کی ترجمانی وطرف داری کا ایک ابتدائی شعورمذکورہ افراد میں موجود تھا۔ ان چند لکھنے والوں کی آنکھیں اس وقت پھٹی رہ گئیں جب انھوںنے دیکھا کہ اپنے بعد کے لکھنے والوں میں متعدد افراد فیشن زدہ جدیدیت کے پہلو سے ایک نئی راہ کی تلاش میں کامیاب ہو رہے تھے۔ یہ نئی نسل بے شک سلام بن رزاق اور ان کے دوسرے ہم عصروں اور کم عمر ساتھیوں کی وجہ سے میدانِ عمل میں اپنی صلاحیت کا اظہار کر رہی تھی۔

اس وقت یہ افسانہ صرف بیانیہ کی سطح پر تبدیل نہیں ہو رہا تھا، اسلوب اور موضوع بھی بدلنے لگے تھے اور ہر پڑھنے والا یہ سمجھ سکتا تھا کہ سلام بن رزاق یا ان کے دیگر ہم عصروں کے افسانوں میں ایک طرف علامتیں بتدریج گھٹتی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اپنے عہد کے پیچیدہ حقائق کے اظہارکے باوجود بیانیہ کچھ اس انداز سے مرتب کیا جا رہا ہے کہ اس کا ایک سِرا ترقی پسند افسانے اور خاص طور پر پریم چند کی سادگی اور شفافیت سے جڑ جائے۔ یہی بات کافی تھی کہ 1970 کے بعد کے افسانے بلراج مین را اور احمد ہمیش کے اندازو اسلوب سے مختلف معلوم ہونے لگے تھے مگر اس سے بڑھ کر بھی چند ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیںجن کی وجہ سے نیا افسانہ مزید بااعتبار ہوا۔ یہ بات اکثر افراد کے ذہن میں موجود ہوگی کہ جدید افسانوں میں کائنات اور زندگی کے مسائل کی شمولیت کے محدود مواقع تھے۔پھر پیش کش کا انداز بھی کچھ اتنا اشاراتی تھا کہ اگر وہ عہد کسی طرح نظر بھی آرہا تھا تو عکس بے حد دھندلے تھے۔ ترقی پسندوں سے داخلی مخاصمت بھی ایک خاص بات تھی جس کی وجہ سے جدید افسانہ نگاروں نے زندگی اور عہد کے مسائل سے ذرا دور کا رشتہ رکھا۔ نئے افسانہ نگاروں نے اس صورتِ حال کا ہوش مندانہ جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ ایک نیا افسانوی ماحول پیدا ہو سکے۔

سلام بن رزاق نے یوں تو 1964-65 کے زمانے سے افسانہ نگاری شروع کر دی تھی اور مختلف رسائل میں رفتہ رفتہ ان کے افسانے بھی شائع ہوتے رہے لیکن 1970 کے بعد رسائل و جرائد میں ان کے ایسے افسانے آنے لگے جو جدیدیوں سے مختلف تو تھے ہی؛ مکمل طور پر ایک نیا ذائقہ یا تصور بھی پیش کر رہے تھے۔ اپنے ہم عصروں میں تقریباً سب سے پہلے ان کا افسانوی مجموعہ شائع ہوا جس کا عنوان ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ تھا۔ اس مجموعے میں پندرہ افسانے شامل تھے جن میں سے نصف سے زائد افسانے لازمی طور پر ایسے تھے جنھیں ایک مدت تک مابہ الامتیاز ہونے کی وجہ سے اکثر قارئین اور ناقدین نے توجہ سے پڑھا۔ بعد کے زمانے میں سلام بن رزاق کے لیے جو افسانے شناخت نامہ بنے، ان میں خاص طور پر درج ذیل تحریریں ہیں جنھیںستر کے بعد کی نسل کا حقیقی اعتبار قرار دیا جاتا ہے:واسو، پٹا، بجوکا، کالے ناگ کے پجاری، ایک تکونی کہانی، ننگی دوپہر کا سپاہی اور انجام کار جیسے افسانے سلام بن رزاق نے اپنی افسانوی زندگی کے آغاز میں ہی لکھ لیے تھے۔ ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ 1970 کے بعد کے افسانے اور افسانہ نگاروں کے لیے ایک رہ نما کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ بات کھلے طور پر قبول کرنے کی ہے کہ سلام بن رزاق نے جدید افسانے کے پورے نظام سے مراجعت کرتے ہوئے اپنے ہم عصروں یا بعد میں آنے والے افسانہ نگاروں کے لیے ایکPoint of Departure   تیار کیا، اس لیے انھیں1970 کے عہد میں نئے افسانے کی تشکیل کے لیے ماحول سازی اور ادبی نمونہ پیش کرنے کی ذمے داری بھی از خود ملی جسے انھوں نے اپنی تخلیقی خوبیوں کی بدولت استحکام بخشا۔ بے شک جدیدیت سے نکل کر ایک نئی ادبی دنیا اورایک نئے ادبی ماحول کو تیار کرنے میں سلام بن رزاق اکیلے نہیں تھے۔ اس وقت نئے افسانے کی تعمیر و تشکیل میں ساجد رشید، انور خان، حسین الحق، عبدالصمد اور سید محمد اشرف اور دیگر افرادکی کوششیں بھی کارگر رہیں اور سب نے مل کر جدیدیت سے الگ وہ افسانوی نظام تیار کیا جو کم و بیش 1980 اور 1990 کی دہائی میں بھی اپنی موثر موجودگی درج کرا رہا تھا۔

سلام بن رزاق نے زیادہ تعداد میں افسانے نہیں لکھے۔ چار افسانوی مجموعوں میں 60-62 افسانے شامل ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی کی طرح انھوں نے تعداد کے اعتبار سے زیادہ لکھنے پر توجہ نہیں کی۔ ان مجموعوں میں شاید ہی کوئی افسانہ طویل ہو۔ انھوں نے کچھ ترجمے اور کچھ درسی کتابیں تخلیقی وقفوں میں پیش کیں۔ کمال یہ ہے کہ ناول تو ایک بھی نہیں لکھا۔ ناول کے ترجمے البتہ وہ کرتے رہے۔ بیدی کی طرح انھوں نے طویل مختصر کہانی بھی نہیں لکھی۔ ان کے زمانے میں ان کے اکثر ہم عصروں نے مختصر یا طویل ناول لکھنے کی کوشش کی مگر سلام بن رزاق نے غالباً قصداً ناول نگاری کے کوچے کی سیاحی نہیں کی۔ ان کے ہم عصروں میں شوکت حیات نے ایک مدت تک انھی کی طرف صرف افسانہ نگاری کو اپنے تخلیقی کاموں کے مرکز میں رکھا تھا مگر ایک خاص تخلیقی عالم میں انھوں نے ایک ناولٹ ’سرپٹ گھوڑا‘ لکھ ہی دیا۔ سلام بن رزاق نے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے بھی اس میدان میں اترنا گوارا نہیں کیا۔ اگرچہ منٹو نے ایک ناولٹ لکھ دیا تھا مگر وہ اول و آخر افسانہ نگار ہیں۔ بیدی نے مختصر ناولٹ لکھا، ادبی حلقے سے انھیں اس کے لیے داد بھی بہت ملی مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بیدی بھی مکمل طور پر افسانہ نگار ہیں۔ سلام بن رزاق بھی بے شک اول و آخر افسانہ نگار ہیں۔

سلام بن رزاق نے پہلے مجموعے میں ہی اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ وہ عام انسانی معاشرے میں اپنے لیے نئی، انوکھی اور انجانی کہانیوں کی دنیاتلاش کرنے کی مہم میں ہیں۔ اس زمانے میں اجنبی اور عجیب الخلقت کرداروں کی پیش کش قدرے مبہم انداز میں کرکے کہانی کو انجام تک پہنچانے کی کوشش ہوتی تھی۔غیاث احمد گدی نے کچھ ایسے افسانوی کردار خلق کیے جو بے نام سماج سے آتے تھے جن کی کوئی اپنی زندگی نہیں تھی۔ انھوںنے حسبِ ضرورت ایسے کرداروں کا سماجی اور نفسیاتی مطالعہ بھی کیا مگر سلام بن رزاق نے بے نام اور بے زبان معاشرے کے چلتے پھرتے کسی بھی کردار کو سامنے رکھ کر اس کی کہانی بیان کرنے کا انداز اختیار کیا۔ پریم چند کے یہاں جاگیردارانہ عہد میں ابھی بے آواز معاشرے کی بہت حد تک پہچان بھی نہیں ہوئی تھی اور جاگیردارانہ نظام کے تحت معیشت کی بنیاد پر طبقات کی پہچان کا ایک مخصوص انداز سامنے آتا تھا۔سلام بن رزاق نے غالباً راجندر سنگھ بیدی کی افسانوی دنیا کے ان اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کی کہ بڑی بڑی اور حیرت انگیز کہانیاں ہمارے آس پاس کے بے نام کرداروں میں پوشیدہ ہیں۔ بیدی نے عام انسانی گھروں کے بیچ سے اپنی کئی لازوال کہانیاں نکال کر پیش کر دی تھیں۔ سلام بن رزاق نے بھی افسانہ نگاری کے اس نئے طور کو اپنے لیے رَہ نما سمجھا۔

سلام بن رزاق نے نئی سماجی حقیقت نگاری کو ہی اپنی افسانہ نگاری کے بدل کے طور پر رکھا۔ایک تخلیقی فن کار بالخصوص افسانہ نگار کے لیے موضوعات، واقعات اور کردار کی بنیادی اہمیت اپنی جگہ مگر چوں کہ وہ نہ مورخ ہیں اور نہ ہی صحافت پیشہ۔اس لیے انھیں معلوم ہے کہ ایک افسانہ نگار کی تخلیقی ذمے داریاںاس حقیقت نگاری سے سوا ہوتی ہیں۔ یونانی عہد سے ہی تخلیق کی بنیاد میں تخیل کو پیوست مانا گیا ہے۔ سلام بن رزاق تخیل کی دولت سے کس درجہ مالا مال ہیں اور وہ اپنے اصل اور افسانوی کرداروں کی زندگی میں حقیقت اور گمان کے احوال کس مہارت سے شامل کرتے جاتے ہیں، اس کی قدرت کے لیے ان کا مشہور افسانہ ’معبر‘ ملاحظہ کرنا چاہیے۔ حقیقت میں یہ سیاسی بنیاد پر قائم ہوا افسانہ ہے مگر کہانی بُننے کے عمل میں یہ ایک مکمل تخیلاتی شہ پارہ بن گیاہے۔ یہ سلام بن رزاق کے دوسرے افسانوی مجموعے کی اہم ترین کہانی بھی ہے جسے افسانہ نگار نے اسی نام سے شائع کیا۔ ’معبر‘ کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتاتا ہے۔ بہ ظاہر یہ کوئی ایسا جرم نہ ہونا چاہیے جس کی سزا مقرر ہو۔ سلام بن رزاق نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس معاشرے میں خواب دیکھنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے مگر جب لوگ سوتے وقت جو خواب دیکھتے ہیں، ان کی الگ الگ تعبیریں وہ معبر کیوں پیش کرتاہے؟ حقیقی زندگی کی تعبیروں کی کون کہے،خواب کی انجانی اور غیر حقیقی  تعبیریں ہی قابلِ سزا ہو چکی ہیں۔کہانی میں ایک سطح طنزیہ اور ظریفانہ بھی ہے جس سے لطفِ بیان اور لہجے کی معصومیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی کہانی صرف شفاف حقیقت نگار نہیں پیش کر سکتا ہے۔

ابتدائی زمانے میںہی سلام بن رزاق نے اپنی مشہور کہانی ’بجوکا‘ لکھی تھی۔ بعد میں اس عنوان سے کئی افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیاں لکھیں اور باضابطہ طور پر افسانوی موضوع یا علامت کی نئی روایت کے حوالے سے اسے قبول کیا گیا۔ ایسے تمام افسانوں کو ڈاکٹر قنبر علی نے اپنے طویل مقدمے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کر دیاہے۔ سلام بن رزاق کو دیہی زندگی سے ’بجوکا‘ کی علامت ملی۔ سلام بن رزاق کو یہ بات معلوم تھی کہ دیہی زندگی کی وہ پریم چند کے انداز کی ترجمانی کر کے اردو افسانے کی تاریخ میں اپنا کوئی مقام نہیں بنا سکتے۔ اس لیے انھوں نے کہانی کا پورا مواد ہماری عام خاندانی زندگی سے چنا۔ عورت مرد کی گھریلو زندگی کے خواب اور شکستِ خواب کے بیچ پرت در پرت زندگی کس انداز سے ہمارا امتحان لیتی رہتی ہے اور ہم چاہے اَن چاہے کسی نہ کسی رنگ میں بدلتے جاتے ہیں؛ اسے ’بجوکا‘ کا مرکزی خاتون کردار شالوکے اِرد گِرد ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں زندگی کی باریک بینی کے ساتھ تجزیہ ہی نہیں ہے بلکہ ہماری عام گھریلو زندگی میں کتنی نفسیاتی گرہیں موجود ہیں، اس کا اندازہ اس افسانے سے پہلے اور کم از کم اس افسانے کے عنوان کو دیکھ کر نہیں کیا جا سکتا۔ اس افسانے کے اتنے رُخ ہیں اور زندگی کے تضادات کی اتنی جہتیں ہیں کہ کوئی قاری آسانی سے اولین قرأت میں اس بلندی تک پہنچ کر افسانہ نگارکو اس کی معقول داد بھی نہیں دے سکتا۔ سلام بن رزاق نے مرکزی کردار شالو کوجس اہتمام سے فنی چابک دستی کے ساتھ یہاں قائم کیا ہے جیسے محسوس ہو کہ وہ ایک شہ کار گڑھ رہے ہیں۔ سیرابی اور عدم سیرابی، محرومی اور نا محرومی، رسم و رواج کی تابع داری یا ان سے نکل بھاگنے کی خواہش جیسی نہ جانے کتنی دیواریں بیچ بیچ میں کھڑی ہوئی ہیں۔ جس زمانے میں سلام بن رزاق نے یہ افسانہ لکھا، اس ضبط اور فنی احتیاط کے ساتھ شاید ہی کوئی دوسرا اس موضوع پرلکھ سکتا تھا۔ کمال تو یہ ہے کہ بیدی کے ’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ کی رقیق القلبی سے بھی سلام بن رزاق نے یہاں ہوش مندی کے ساتھ دامن بچایا ہے۔

کالے ناگ کی پجاری‘، ’پٹا‘ اور ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘کی بنیادی زمین سیاسی ماحول اور اس کے اثرات ہیں۔ ان افسانوں کے ظاہر میں سیاسی اشارے کم ہیں مگر اطلاق کی سطح پر سیاسی نظام کہیں نہ کہیں ان کی زندگیوں کے مرکز میں چلا آتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک ابتدائی کہانی ’ایک تکونی کہانی‘ بھی ہے۔ سلام بن رزاق کے ہم عصروں میں شوکت حیات اور ساجد رشید نے سیاسی موضوعات کو اپنے افسانوں میں سب سے زیادہ برتنے میں کامیابی پائی۔ سلام بن رزاق کا ذہن سیاسی تفہیم و تجزیے کا متحمل تو ہے مگر وہ سیاست، سماج اور نفسیات کا ایک ایسا محلول تیار کرتے ہیں جس سے ان کا فکشن سارے سیاسی مفاہیم کے باوجود سیاسی اکھاڑا بننے کے در پَے نہیں ہوتا۔ یہ ان کی فنی اعتبار سے ایسی کامیابی ہے جس کی کوئی دوسری نظیر شاید ہی مل سکے۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں ایک زمانے تک سیاسی موضوعات کھُلے طور پر نظر نہیں آتے۔ وہ سب زیریں افسانوی لہروں میں دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

2001میں سلام بن رزاق کا تیسرا مجموعہ ’ شکستہ بتوں کے درمیان‘ منظرِعام پر آیا۔ دوسرے افسانوی مجموعے میں ’دودِ چراغ‘ کی شکل میں ایک ایسا افسانہ ضرور انھوں نے لکھا تھا جسے فرقہ واریت کے تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے مگر بعد کے دَور میں یہ موضوع ملک کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر سلام بن رزاق کے یہاں ایک مرکزی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔ ’آوازِ گریہ‘ تو اس سلسلے سے ان کا شہ کار افسانہ ہے جس میں فرقہ وارانہ صورت کی بدلتی جہات پر قصے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ سلام بن رزاق کے ابتدائی افسانوں میں ملک کی بدلتی ہوئی مذہبی صورتِ حال اور اس کے تکلیف دہ اثرات کے بارے میں کچھ زیادہ لکھا ہوا نہیں ملتا مگر ’معبر‘ کی اشاعت کے بعد سے ان کے یہاں سماجی اور سیاسی صورتِ حال کی تبدیلوں کے اشارے ملنے لگتے ہیں۔ غالباً یہ بھی اس بات کاثبوت ہے کہ کوئی بھی فن کار اپنے عہد کی تبدیلوں سے زیادہ دیر تک بے رُخی یا لا تعلقی نہیں برت سکتا۔ اس سلسلے سے ان کے دوسرے افسانوں’اندیشہ‘،’آندھی میں چراغ‘،’چادر‘، ’چہرہ‘،’زمین‘،’باہم‘، ’خبر‘ وغیرہ کو بہ غور تجزیے کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔

سلام بن رزاق کے تیسرے مجموعے میں ایک عجیب وغریب کہانی ’ابراہیم سقہ‘ ہے۔ یہ ایک بھشتی کی زندگی کی کہانی ہے۔ اس کی جاں فشانی، فرض شناسی کے ساتھ ساتھ جس محبت سے اس کی جذباتی زندگی کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ بڑے بڑے لوگوں اور نام وَر زندگیوں کی کہانیاں لکھنے والے بہت سارے افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں مگر محروم و معدوم آبادیوں کی زندگی کو اس گہرائی اور انسانی سطح سے دیکھنے کا یہ کام واقعتا شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ کرشن چندر کے افسانے ’کالو بھنگی‘ کی بہت شہرت ہے مگر زوال پذیر معاشرے کے ایک فرد کی زندگی کو جس سلیقے سے ’ابراہیم سقہ‘ میںسلام بن رزاق نے پیش کیاہے، وہ انھیں اردو افسانے کی تاریخ میں احترام سے دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح کا ایک مختلف افسانہ ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ ہے۔ افسانہ نگارکی قوتِ متخیلہ، فنتاسی اور فنونِ لطیفہ کے تئیں قلبی لگاؤ کایہ ایسا نمونہ ہے جیسا ہمارے سرمایۂ افسانہ نگاری میں کہیں دوسری جگہ موجود نہیں۔ عالمی سطح پر جس Dying Culture  کاتذکرہ ہوتا ہے اوریہ تصور کہ سارے فنون اور ہماری ساری زندگیاں تلف ہونے کے لیے ہی قائم ہوئی ہیں، اس کا ایک ہیبت ناک استعارہ یہ افسانہ ہے۔ ’گئودان‘ میں بھی پریم چند نے زراعتی سماج اور بالخصوص کسانوں کے زوال کا مرثیہ لکھا تھا۔لیکن وہاں ایک امید بھی تھی کہ جاگیردارانہ سماج کا جہاز ایک نہ ایک دن ڈوب جائے گا اور ہماری جدوجہد آزادی سے ایک نئی معیشت اور نئی دنیا ضرورپیدا ہو سکے گی مگر ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ افسانے میں کہیں جائے اماں نہیں ہے۔ چند صفحات کی یہ کہانی پوری انسانی تاریخ میں فنونِ لطیفہ کے ریاضت کاروں کا وہ مرثیہ ہے جہاں ہزاروں برس کی کاوِشوں اور مشقتوں کی کوئی قدر دانی نہ ممکن ہو سکی۔ اردو شاعری نے میر کے حوالے سے احساسِ زیاں کی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ کا مائکل بھی اسی طرح اپنی ذات کے اندر لہو لہان ہے اور اپنے فن کے وارث اور قدر داںکی تلاش میں جی جی کر مرنے کے لیے مجبور ہے۔

سلام بن رزاق کے آخری مجموعے’ زندگی افسانہ نہیں‘ میں ایک کہانی ’استفراغ‘ ہے۔ یہ کہانی انسان کے شعور اور لاشعور کے بیچ کے رزم نامے کو پیش کرنے کے لیے بُنی گئی ہے۔ فنی احتیاط اور بیان کے نپے تلے انداز نے اس افسانے کو بکھرنے سے بچایا ہے۔ وہ کبھی اپنے مرکزی کردار کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی اس سے لاتعلق ہوکر دُور سے زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ افسانہ نگار کے طور پر یہ حکمتِ عملی ایک عام بات نہیں کہ کرداروں کی زندگی بیان کرتے ہوئے حسبِ ضرورت فن کارانہ لاتعلقی پیدا کر لی جائے۔ سلام بن رزاق مشق کی ان منزلوں تک رفتہ رفتہ پہنچتے گئے جہاں انھیں معلو م ہو کہ کب انھیں اپنے کردار کے دفاع میں کھڑا ہونا ہے اور کب اس کی زندگی کو محض ایک تماش بیں کے طور پر دیکھنا ہے۔ اسی صلاحیت سے ان کے افسانے فنی طور پر موضوعاتی پروپیگنڈا یا واقعاتی کولاج بننے سے محفوظ رہتے ہیں اور وہ فکشن کی ایک نرم اور نازک مٹی پر اگنے والے تازہ پودوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔

سلام بن رزاق نے متوسط طبقے سے زیادہ پسماندہ، محروم اور زوال پذیر طبقات کی کہانیاں لکھیں۔ ان طبقات کی زندگیاں ایک طویل مدت سے ضرر پذیر اور مرگ آشنارہی ہیں۔ جمہوری اداروں نے ہماری تربیت ضرور کی مگر انصاف کی ڈور ابھی بھی ایسے ہاتھوں میں ہے جہاں سے ان زوال آمادہ لوگوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔ سماجی اعتبار سے ان مشکل طبقوں کی حقیقی زندگی کی جانچ پڑتال اور ان کے پیچ جگہ جگہ پیدا ہو رہی کہانیوں کو سلام بن رزاق نے زبان دی۔ اسلوب کی سطح پر سلام بن رزاق کے یہاں نہ کوئی شاعرانہ کیفیت ہے اور نہ ہی رواں دواں زور آور بیانیہ جس کے سحر میں پڑھنے والا گرفتار ہو جائے۔ سلام بن رزاق نے جس انداز کے معاشرے کو اپنا موضوع بنایا، اس کے لیے یہ سب سے زیادہ موزوں تھا کہ وہ بیان کا نہ کوئی پُر پیچ انداز اپنائیں اور نہ ہی زبان کی شاعرانہ جہت کو آزمائیں۔ ان کے لیے یہی مناسب تھا کہ سادہ بیانیے کو اپنی مشق و ریاضت کی بھٹی میں تپاکر نئی اور مشکل زندگیوں کا حصہ بنا کر ہمارے سامنے پیش کریں۔ یہ ہنر ان کے یہاں ابتدائی دَور سے لے کر آخر تک موجود رہا۔  

 انھوںنے فیشن کے طور پر روز نئے نئے موضوعات کی تلاش کے مقابلے میں اپنی جانی پہچانی دنیا میں رہ کر مزید گہرائی اور وسعت کے ساتھ اس ماحول کی پیش کش کو اپنا شعار بنایا۔ سلام بن رزاق کے اکثر و بیش تر کردارمحروم طبقوں سے آتے ہیں۔ زندگی کی چھوٹی بڑی جنگیں وہ روز لڑتے رہتے ہیں۔ اکثر انھی مبارزتوں میں اور بے نام جنگوں میں تلف بھی ہو جاتے ہیں۔ بعض نقادوں نے سلام بن رزاق کے افسانوں کے اس پہلو پر ایک سوالیہ نشان بھی قائم کیا ہے۔ سلام بن رزاق کی بنیادی تربیت سیاسی نہیں تھی اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ افسانوںکو کھُلے طور پر سیاسی بنانے سے ان کا فن مجروح ہوگا۔ سلام بن رزاق نے جن چالیس پچاس برسوں میں اپنے افسانے لکھے، اس دَوران ایسے لوگوںکی زندگی میں کوئی ایسی قابلِ ذکر یا انقلابی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ آدھی صدی محروم طبقات کی پسپائی سے جدو جہد میں گزرتی ہوئی زندگی سے عبارت ہے۔ ان کی تربیت اگرترقی پسندانہ ہوتی تو اپنے افسانوں میں وہ جگہ جگہ نئے سویرے کا اعلان کرتے مگر انھوں نے اس مژدۂ جاں فزا کے اظہار سے اس وجہ سے بھی خود کو روکا کیونکہ سماجی تبدیلی اور ارتقا کے سفر میں ابھی وہ پڑاو واضح نہیں ہے۔ ابھی جد و جہد، شکست اور زیاں در زیاں کے حالات ہیں مگر وہ ان طبقات کو سر گرمِ عمل ہوتے ہوئے اور اپنی زندگی کے تصورات اور خوابوں کی تشکیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہوری نے زندگی میں تھوڑا بہت ہی پایا مگر اس کے آس پاس کی زندگیوں نے نئی صورتِ حال کی طرف بڑھنے کے اشارے پائے تھے۔ سلام بن رزاق کے افسانوں میں شفاف حقیقت نگاری کے بجائے داخلی سطح پر سماج کے محروم طبقات کی جد و جہد کا افسانۂ مسلسل چلتا رہتا ہے۔ یہ ایسی حقیقی کہانیاں ہیں جو تصور اور تخیل سے بڑھ کر ہمارے عہد کا فکر و فلسفہ بن جاتی ہیں۔ اسی لیے سلام بن رزاق کو گذشتہ پچاس برسوں میں ابھرنے والے افسانہ نگاروں کا حقیقی نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

Safdar Imam Quadri

202, Abu Plaza, NIT More, Ashok Rajpath, Patna- 800006 (Bihar)

Mob: 09430466321, 07903688448

Email: safdarimamquadri@gmail.com

سلام بن رزاق: زندگی جو افسانہ ہے، مضمون نگار: رحمٰن عباس

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

’سلام بن رزاق اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔‘ یہ جملہ لکھنا میرے لیے آسان نہیں ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں یہ با ت تسلیم نہیں کر سکتا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔آدمی ہو یا ادیب ایک دن مرنا ہے۔ جسم کو مٹی ہو جانا ہے۔ہم آج ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ آج مٹی کی جون میں ہیں، کل مٹی میں لوٹ جائیں گے۔ لیکن سلام بن رزاق نے مٹی کی اس کایا میں جو زندگی گزاری اور جو ادب تخلیق کیا وہ انھیں سلام بن رزاق بنا تی ہے۔ وہ ادب باقی ہے اور ایک عرصہ یاد رہے گا۔ نئے اذہان انھیں نئے انداز میں دریافت کریں گے۔ ان کے افسانوں اور جس عہد میں انھوں نے افسانے لکھے ان پر گفتگو کریں گے۔ چنانچہ میں یہ کہوں گا وہ ہمارے درمیان ہیں اور رہیں گے۔ جس طرح ہمارے بڑے فکشن نگار انتقال کے برسوں بعد بھی ہمارے ساتھ اور درمیان ہیں۔سلام بھائی پر اس وقت لکھنا میرے لیے آسان نہیں ہے۔میرا ان سے رشتہ یوں تھا جیسے نافرمان بیٹے اور شفیق باپ کے مابین ہوتا ہے۔ میری تمام حماقتوں کے باوجود  مجھے ان کی شفقت نصیب رہی، رہنمائی کرتے رہے، مشورے دیتے رہے۔ گزشتہ بیس پچیس برسوں کا ساتھ رہا ہے۔ دو دہائیوں تک وہ میرے پڑوس میں مکین تھے۔یہ سلسلہ تب رکا جب انھوں نے تین سال پہلے شہر کے دوسرے حصے میں سکونت اختیار کی۔  البتہ فون پر گفتگو ہوتی رہتی۔انتقال سے تقریباً سال بھر پہلے بات کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔ دو مہینے تین مہینے پہلے یکایک چند روز کے لیے اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تھا۔ میں عیادت کرنے نہیں جا سکا۔ اسپتال سے جب گھر وہ آئے، چند روز بعد فون کیا۔ میں نے اپنی مجبوری بتائی،کہا، کسی دن ملیں گے۔ ان کے استفسار پر بتایا کیا لکھ پڑھ رہا ہوں۔ خوش ہوئے ، کہا اچھا ہوتا جب صحت ٹھیک تھی ناول لکھ لیتا۔ ان کے ذہن میں ایک ناول کا خاکہ تھا لیکن اب ہاتھوں میں حرکت نہیں تھی۔ تین چار مہینے پہلے ڈاکٹر سے ملنے یا کسی دوسرے کام سے میرا روڈ آئے۔مجھے شام پانچ بجے ملنے کو بلایا۔ میں پہنچ گیا۔ جب انھیں دیکھا تو اندازہ ہوا صحت میں گراوٹ تیز ہو گئی ہے۔ وہ پارکنسن  کے مرض میں مبتلا تھے۔ علاج جاری تھا لیکن دوائیں اثر نہیں کر رہی تھیں۔ چنانچہ اب رکشے میں مدد کے بغیر سوار ہونا ان کے لیے مشکل تھا۔یہ منظر دیکھنا آنکھوں پر گراں بار تھا۔ میں دوسری طرف سے رکشے میں گیا۔ ان کی مدد کی۔ میری آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ میں نے اس شخص کے ساتھ دو دہائیوں میں کتنا یادگار وقت گزارا تھا۔ رات رات بھر محفلیں سجی تھیں۔ ان کی گفتگو میں کیسی بلا کی خود اعتمادی دیکھی تھی۔کیسی  انجانی قوت تھی ان کے اندر جو انھیںاپنے موقف پر کمزور ہونے نہیں دیتی تھی۔لیکن آج وہ نحیف اور کمزور تھے۔ بات کرتے تو رال ایک طرف سے قمیض پر گر جاتی۔ آنکھوں میں جانے کیوں پانی دکھائی دیتا تھا۔ یہ پانی تھا یا آنسو تھے ؟ رکشے سے کسی طرح وہ اترے۔ اب ایک قدم کے بعد دوسرا قدم رکھنے میں انھیں بیس پچیس سکینڈ درکار تھے۔ رفتہ رفتہ ہم ایک میز پر جا کر بیٹھے۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ ان کی یادداشت متاثر نہیں ہوئی تھی۔ ان کا سینس آف ہیومر جو ں کا توں تھا۔ گدھے کو گدھا کہنا جانتے تھے۔ قہقہہ لگا کر ہنسنا نہیں بھولے تھے۔ اس آخری ملاقات کے بعد میں ڈر گیا تھا۔ میں انھیں دیکھنا اور ان سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ میں انھیں اس حالت میں کیسے دیکھتا؟ میرے لیے مشکل تھا۔ بہت مشکل اور پھر ایک دن اللہ نے یہ مشکل ہم دونوں کے لیے آسان کر دی۔

———

عرصہ ہوا سلام بن رزاق کے افسانوں پر ایک مضمون لکھاتھا وہ انھیں پسند نہیں آیا۔ ان کے ایک افسانے کا تجزیہ کیا وہ بھی انھیں پسند نہیں آیا۔ یہ تجزیہ اس کتاب میں شائع نہیں ہوا جو ان کے افسانوں کے تجزیوں پر مشتمل ہے۔ہم نے اس پر کبھی بات نہیں کی۔ ان کا ایک انٹرویو کیا۔ وہ انھیں پہلے پسند آیا لیکن بعد میں کہا اس انٹرویو کے سبب کچھ لوگ مجھے شکست خوردہ افراد کا افسانہ نگار تصور کر رہے ہیں۔ایسا افسانہ نگار سمجھ رہے ہیں جس کے تمام کردار سرینڈر کر تے ہیں۔ لڑتے نہیں ہیں، احتجاج نہیں کرتے۔ میں نے کہا یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے۔ انھوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ ان کے پاس دولت ِ استدلال تھی، میں سنتا رہا۔ سب کا سچ ایک ہی سچ نہیں ہوتا ہے۔ ادب کا ڈسکورس کوئی ایک نظریہ طے نہیں کرسکتا۔مارکسزم کے بغیر جدیدیت فراڈ ہے۔ ترقی پسندوں نے ادب کم  پروپیگنڈہ زیادہ کیا ہے۔ لایعنیت بیمار اذہان پیدا کرتی ہے۔علامت ادب ہے لیکن چیستان خراب ادب پیدا کرتا ہے۔ یہ اور ایسے ہزاروں موضوعات پر ہم گھنٹوں باتیں کرتے تھے۔ میرے اشتعال انگیز جملوں پر وہ متانت سے اظہار ِخیال کرتے۔ ایک ایک بات کو دھیمے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کرتے۔ کبھی غصہ نہیں ہوتے اور نہ سخت رائے دینے پر منھ موڑ لیتے۔ بے شمار باتیں اور یادیں ہیں جن کا عرصہ تین دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ عرصہ بھی ہے جس میں سلام بن رزاق میری طرح بے شمار نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ میں نے ان کی طرح متوازن، سنجیدہ، مددگار، نئے اذہان کی آبیاری کرنے میں خوشی محسوس کرنے والا، اختلاف ِ رائے کا پاس رکھنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے لوگ کم دیکھے ہیں۔ان کی شخصیت میں اتنا کھلاپن اور بے ساختگی تھی کہ آپ بلاتکلف ان سے اختلاف کر سکتے تھے۔ انھیں کوئی بات پسند نہیں آئی تو برملا اظہار کر دیتے۔ ان کی اپنائیت میں کسی سطح پر کمی نہیں آتی۔ وہ ہر اس شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے جو اختلاف کے آداب سے واقف تھا۔ یہ اردو فکشن کی روایت رہی ہے اور وہ اس روایت کے آخری بڑے ادیب تھے۔

انھوں نے خود پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں جدیدیت سے اختلاف کیا۔ وہ نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے لیکن ترقی پسندی کی پرستش انھوں نے کبھی نہیں کی۔ ترقی پسندوں کی پارٹی پولیٹیکس اور ادب کو نظریے کی تبلیغ کے لیے استعمال کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ اس پر تنقید کرتے تھے۔ ابتدائی دور میں چند افسانوں میں ہیئت کا تجربہ بھی کیا لیکن جب احساس ہوا کہ ادب آدمی، ملک، سماج اور سیاست سے الگ محض ہیئت کا تجربہ نہیں ہے، محض علامت پسندی نہیں ہے، محض باطن کی فسوں کاری نہیں ہے، محض ذات کے کرب کا اظہار نہیں ہے تو جدیدیت سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اپنی فن کاری اور انفرادیت کے لیے انھیں جن لوازم کی ضرورت تھی اسے اپنے باطن اور ادب کی روایت میں تلاش کیا۔ پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت اور انتظار حسین کی روایت کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ ان کی یہ فکری تبدیلی نہ صرف ان کی افسانہ نگاری کا ایک اہم موڑ ہے بلکہ جدیدیت کے بعد کے افسانے کے لیے سنگِ میل قرار دی جا سکتی ہے۔ بمبئی اور ملک بھر کے جن افسانہ نگاروں نے 1980 کے بعد جس اعتماد کے ساتھ ترقی پسندی کی خامیوںاور جدیدیت کی گمراہیوں کو طشت از بام کیا۔ کہانی، واقعہ، قصہ، بیانیہ اور آدمی کے سماجی و سیاسی سروکار کو غیر ضروری کہنے سے انکار کیا سلام بن رزاق کی شخصیت ان میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس ادبی اختلاف کے باوجود ،وہ شمس الرحمن فاروقی کے قدردان تھے، علمیت کے قائل تھے۔ ان کا ذکر احترام اور عزت سے کرتے تھے۔ یہ توازن وہ آخری دم تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلاف کسی ایک خیال یا تصور سے ہوتا ہے،شخص سے نہیں۔ چنانچہ وہ شخصیت پر معترض ہونے کو شخصی عیب تصور کرتے تھے۔

وہ ادب کی فطری آزادی کے حق میں تھے۔ اس سوچ کے باوجود وہ ہر مذہبی شخص اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کا احترام کرتے تھے۔ دوستی رکھتے، ملتے جلتے رہتے۔ وہ لوگوں کی بنیادی آزادی کا احترام کرتے تھے۔ نئے لکھنے والوں کو تلقین کرتے تھے کہ کسی کے مذہب، مسلک اور سیاسی وابستگی پر معترض ہونے کا ہمیں حق نہیں ہے۔

سلام بن رزاق کی زندگی عام آدمی کی زندگی تھی لیکن کسی طور یہ زندگی عام نہیں تھی۔ یہ ایک وسیع القلب ، وسیع المطالعہ اور وسیع المشرب آدمی کی بے مثال زندگی ہے۔ انگریزی پر انھیں دسترس نہیں تھی لیکن مراٹھی اور ہندی ادب کی تاریخ، بالخصوص فکشن کی تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ اس کا ثبوت ان کے عمدہ اور شستہ تراجم ہیں۔ فکشن کے ساتھ ساتھ وہ ڈراموں اور فلموں سے بھی وابستہ رہے۔ ان کے افسانوں پر بھی کئی ڈرامے اسٹیج ہوئے۔ ان کے مطالعے میں جہاں عربی اورفارسی ادب شامل تھا وہیں پورانک کتھائیں، لوک روایتیں، گوتم بدھ سے منسوب کہانیاں اور زین کہانیاں  Zen Stories بھی تھیں۔ قرآن کے  ساتھ ساتھ انھوں نے گیتا، بائبل  ، وید، اپنشد ، رامائن، مہابھارت اور دوسری مذہبی و مسلکی کتابوں کا بھی مطالعہ کر رکھا تھا۔ اساطیر سے ان کی محبت نہ صرف گفتگو سے آشکار ہوتی تھی بلکہ ان کی بیشتر کہانیوں میں جس ہنر مندی اور فن کاری سے ہندوستانی اساطیر کا انھوں نے استعمال کیا ہے، اس نے ان کہانیوں کی تہہ داری میں شاندار اضافہ کیا ہے۔

ان کی بیشتر کہانیاں آدمی، سماج اور سیاست کے تکون پر قائم ہیں لیکن فن کی جمالیات کے شعور نے ان کہانیوں کو معنویت عطا کی ہے۔ پہلی نگاہ میں ان کے کردار ہمیں عام محسوس ہوں گے لیکن جب گرہیں کھلتی ہیں تو کہانی ہم پر تنوع کے ساتھ معنویت کا الگ دفتر کھولتی ہے۔ ہم ان کرداروں کی زندگی اور خیالات پر اثر انداز ہونے والے عوامل کو سمجھنے لگتے ہیں۔ ابہام کی چادر میں وہ معنی کو پوشیدہ رکھنے کے حق میں نہیں تھے۔یہی ان کا بنیادی اختلاف جدیدیت سے تھا۔ جن خیالات کا اظہار وہ اپنی تقریروں میں کیا کرتے تھے اس کا بہتر ین نمونہ ان کے افسانے ہیں۔ یہ افسانے قاری کو نہ تھکاتے ہیں ، نہ زبان کے گنجلک کھیل سے اکتاہٹ کا شکار کرتے ہیں۔نہ فارم کی احمقانہ تگڑم بازی سے قاری کو ادب سے دور کرتے ہیں۔ بلکہ زبان اور اظہار پر انھیں جو کمال حاصل تھا وہ کہانیوں کی تاثیر میں اضافہ کرتا ہے۔’ ننگی دوپہر کا سپاہی‘ سے لے کر’ زندگی افسانہ نہیں‘ ،میں جو ساٹھ ستر کہانیاں ہیں، ان میں سے بیشتر کہانیاں قاری کو زندگی سے زیادہ قریب کرتی ہیں۔ اطراف کی محرومیوں، کمیوں، نامساعد حالات، سماجی مجبوریوں، باطن کی کیفیتوں، مرد اور عورت کی نفسیاتی کیفیات کا شعور عطا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے خارجی عو امل اور عناصر کو سمجھنے کی گنجائش پیدا کرتی ہیں۔

سلام بن رزاق کی زندگی میں کئی افسانے ہیں اور اتنے ہی افسانے ان کے افسانوں کے ہیں۔ ’زندگی افسانہ نہیں‘ شائع ہوا تو ایک حلقہ بہت چراغ پا ہوا تھا۔ ان کی جدیدیت پر تنقید کے سبب ایک حلقہ ہمیشہ ان کے خلاف سرگرم رہا۔ ان کی میانہ وری سے بھی ان کے چند دوست نالہ رہے۔ لیکن وہ مسکراتے اور اپنا موقف بیان کرتے۔ ان کی شخصیت میں صبر و تحمل تھا۔ یہ صبر وتحمل ان کی کہانیوں کی ایک زیریں سطح بھی ہے۔ شخصیت کا یہ زاویہ ان کی فنکاری کی ایک اہم شناخت ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں کہیں بھی واشگاف ترقی پسند کے طور پر سامنے نہیں آتے۔ وہ مذہب ، سیاست اور ادبی نظریے کی وکالت نہیں کرتے۔ نعرہ نہیںلگاتے، روتے نہیں ہیں، چیختے نہیں ہیں۔ امپر یس کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ کہانی لکھتے رہے، کہانی نہ ہونے کی صورت میں نثر کے جوہر دکھانے کی حماقت کا شکار نہیں ہوئے۔ مجھے ایسا لگتا ہے جتنا کچھ ہم ان کی کہانیوں سے سیکھ سکتے ہیں اس سے زیادہ ہم ان کی زندگی سے سیکھ سکتے ہیں۔ ایک ایسی زندگی جو ایک کامیاب افسانہ قرار دی جاسکتی ہے۔

سلام بن رزاق کی زندگی کا افسانہ سننے اور اس سے سیکھنے کا سلسلہ اب شروع ہو رہا ہے۔ایک کامیاب ادیب کے مزاج کا توازن، اظہار رائے کی جرأت، اختلاف کا پاس رکھنے کی روایت اور مذہب و مسلک کی آزادی کا احترام ایسی کئی باتیں ہیں جو بلاشبہ ہم سلام بن رزاق کی زندگی سے سیکھ سکتے ہیں۔ہم انھیں بھول نہیں سکتے۔ کبھی نہیں۔

 

Rahman Abbas

204/A, Poonam Park

Near Haidri Chowk, Meera Road

Thane- 401107 (MS)

Mob.: 9869083296

Email.: rahmanabbas@gmail.com

تازہ اشاعت

مغرب کی تقلید میں شعری ادب کا بھلا نہیں: رفیق جابر،خصوصی گفتگو، غضنفر اقبال

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024   غضنفراقبال:محترم رفیق جعفر صاحب!آج کا اُردو قاری یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی کے وہ کون سے سین ہی...