ماہنامہ اردودنیا، جولائی 2024
امیر خسرو کے بعد ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے سب سے اہم
شاعر نظیر اکبر آبادی ہیں۔ ان کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کے بارے میں بھی
محققین میں اختلاف ہے تاہم زیادہ تر محققین کا ماننا ہے کہ نظیر جن کا اصل نام ولی
محمد تھا1735میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ ان کی
والدہ آگرہ کے قلعہ دار نواب سلطان خان کی بیٹی تھیں۔ نظیر کی پیدائش کے بعد ہی
دہلی کو مسلسل پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا نادر شاہ نے 1739 میں حملہ کرکے دہلی
کو بڑے پیمانے پر لوٹا اور قتل عام کیا۔ دہلی کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی
تھیں اور دہلی میں بہت دنوں تک بد امنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے بعد احمد شاہ ابدالی
نے بھی مسلسل تین بار دہلی پر حملہ کیا۔ اس سے پریشان ہو کر نظیر اپنی والدہ اور
دادی کے ساتھ دہلی سے اکبر آباد یعنی آگرہ آگئے اور وہاں تاج گنج کے نوری
دروازہ کے مکان میں رہنے لگے۔ نظیر آگرہ میں آباد ہوئے اور 1830 میں یہیں دفن ہوئے۔ وہ آٹھ زبانوں پر دسترس رکھتے تھے جن میں
اردو، فارسی، برج بھا شا، مارواڑی،پنجابی، پوربی اور ہندی ہے۔
نظیر نے طویل عمر پائی۔ ان کا عہد میر، سودا اور درد کا عہد تھا۔ وہ مطمئن طبیعت کے خوش
مزاج انسان تھے۔ ان کی اقتصادی حیثیت بہت ہی معمولی تھی پھر بھی مال و دولت انھیںکبھی
اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔ نواب سعادت علی خان نے انھیںلکھنؤ بلایا لیکن انھوں نے
جانے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح بھرت پور کے نواب نے انھیںبلایا لیکن وہ وہاں بھی
نہیں گئے اور اپنے تدریسی کام کے سلسلے میں کچھ دن متھرا میں رہے پھر آگرہ واپس
آگئے اور لالہ بلاس رائے کے بیٹوں کو محض 71 روپے ماہانہ تنخواہ پر پڑھانے لگے۔
اس معمولی تنخواہ پر ساری زندگی ہنستے ہنستے گزار دی۔ وہ جانتے تھے کہ کس طرح اطمینان
کے ساتھ زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونا ہے۔وہ کسی قیمت پرآگرہ چھوڑنا نہیں چاہتے
تھے وہ کہتے تھے کہ ؎
عاشق کہو اسیر کہو آگرے کا ہے
ملا کہو دبیر کہو آگرے کا ہے
مفلس کہو فقیر کہو آگرے کا ہے
شاعر کہو نظیر کہو
آگرے کا ہے
نظیراکبرآبادی کی شخصیت اور ان کی شاعری دونوں ابتدا ہی
سے متنازع فیہ مسئلہ رہی ہے۔ جہاں بعض تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے ان کو شعری روایت
سے بغاوت کے سبب اپنے تذکروںمیں شامل کرنے اور شاعر تسلیم کرنے سے گریزکیا وہیںگزرتے
وقت کے ساتھ تذکرہ نگاروں اور نقادوں نے نہ صرف نظیرکے کلام کی اہمیت و معنویت
کوپہچانابلکہ ادب کے آسمان پر درخشند ہ ستارے کی طرح بتایااور انھیںاہم شعرامیںشمار کیا جانے لگا۔
نظیراکبرآبادی ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو
رئوسا اور نوابوں کا تھا لیکن انھوں نے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنی شاعری میں
جن موضوعات کو منتخب کیا وہ ایک عام آدمی کے حالات ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس بہت
وسیع ہے انھوں نے اپنے عہد کی شاعری میںخواص کو شامل کرنے کی روایت کے بر عکس عوام
کو شامل کیا۔ وہ ایک عوامی شاعر تھے اور ہر طرح کے لوگوں سے ملتے جلتے تھے۔ نظیر کی
شاعری میں زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے تہذیبی و تمدنی مشاغل کے
خوبصورت رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ زندگی کی رنگا رنگی، مختلف تہوار مثلاًعید، بقرہ عید،
ہولی، دیوالی، بسنت سے لے کر چرند پرند میلے ٹھیلے رنگین اور زرق و برق ملبوسات،
ترکاریاں و مٹی کے برتن تک ان کی شاعری کے موضوعات میں شامل ہیں۔ ان کی عوامی شاعری
کے متعلق کئی بڑے نقّادوں نے اظہارِ خیال کیا ہے جن میں مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین،
آل احمد سرور سے لے کر اختر اورینوی، ڈاکٹر سید اعجاز حسین اور محمد حسن تک ہیں۔
محمد حسن اپنی کتاب ’نظیر اکبرآبادی میں اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ :
’’نظیرعوامی شاعر ہیں اس نے عوام کی باتیں
عوام سے کہیں۔ اس نے نہ تو مذہب کا پرچار کیا اور نہ رہبانیت کا۔ اس کو سمجھنے کے
لیے ہمیں عوام کو سمجھنا ہوگا۔
(ہندستانی ادب کے معمار: نظیر اکبرآبادی،
محمد حسن، ص9، ساہتیہ اکادمی،دہلی،1994)
نظیرایک کھلے ذہن اور بڑے دل کے شاعر تھے ہر مذہب
کے لوگوں سے ان کا تعلق گہرا تھا اور ہر
مذہب کا وہ بہت احترام کرتے تھے اسی لیے انھوںنے ہولی، دیوالی، شبِ برات، عیدوغیرہ
پر خوبصورت نظمیں لکھی ہیںحضرت امیر خسرو کے بعد نظیر اکبرآبادی قومی یکجہتی اور
بھائی چارا کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ آدمی نامہ اسی سلسلے کی ایک مشہور نظم ہے جس میں
آدمی کے دکھ درد و دیگر پریشانیوں کے علاوہ اس کی مختلف قسمیں اور صفات کا بیان
بڑے ہی دلچسپ انداز میں کیا گیاہے ؎
دنیا میں پادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نظیر کی نظموں میں تنوع ہے اس میں ہر قسم کے مضامین
پائے جاتے ہیں۔ ان کی نظموں کی حسین رنگا رنگی اور تنوع کے متعلق رشید حسن خاں
رقمطراز ہیں:
’’تنوع اور رنگارنگی کے لحاظ سے، نظیر کا
کلام آج بھی بے مثال ہے۔ کوئی شاعر اس باب میں ان کا حریف نہیں۔ زندگی اپنی پوری
تفصیل کے ساتھ ان کے کلیات میں جلوہ گر ہے۔ انھوں نے زندگی کے ان خالص مادی
پہلوؤں کو اور ان کے اثرات کو بے حد سادگی و صفائی کے ساتھ پیش کیا، جن کے کرشمے
ہر طرف نظر آتے تھے، لیکن جن کو شاعر کی نظر اور مصور کی آنکھ نے اپنے مرقعوں میں
جگہ نہیں دی تھی۔ تو اچولھا، دال روٹی اور راکھ، منقا، موٹھ، مٹر کو بھلا شاعری سے
کیا تعلق تھا اور اس زمانے میں یہ کس نے کہا تھا کہ جہاں چولھے کی آنچ ہے، وہیں
خالق کی نعمتوں کا ظہور ہے بلکہ اصل میں یہی نور ہے۔ اور اگر پیٹ بھرا ہوا نہ ہو
تو چودہ طبق کیا، ایک طبق بھی روشن نظر نہیں آسکتا۔
(انتخاب نظیراکبرآبادی، تصحیح وترتیب رشید
حسن خاں، ص7، لبرٹی آرٹ پریس،دہلی،1970)
نظیراکبرآبادی نے دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ اس نظم میںبہت
ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ؎
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقّارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلاسر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاویگا جب لاد چلے گا بنجارا
نظیراکبر آبادی، میر و سودا کے ہم عصر تھے اور جن معاشی
و سماجی مسائل سے میر و سودا دوچار رہے، ان سے ملتے جلتے حالات میںنظیراکبر آبادی
بھی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ میرو سودا نے دہلی کی غارت
گری سے اثر لیا جب کہ نظیر آگرہ میں موجود ہونے کی وجہ سے براہ ِ راست غارت گری
سے محفوظ رہے، البتہ دہلی کے حملوں کے سیاسی و سماجی اور معاشی اثرات سے بالواسطہ
متاثر ہوتے رہے۔ شہر آشوب کے شاعر جعفر زٹلی سے سودا تک کے معاصر شعرا نے معاشی
بدحالی کا ذکر اپنی شاعری کے ذریعے کیا ہے۔نظیرا کبر آبادی نے عام نظموں میں بھی
روپئے،پیسے اور مادّی وسائل کے انسانی زندگی اور سماج میں انسانی مقام و مرتبے پر
اثرات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نظیرا کبر آبادی کی مختلف نظمیں مثلاً
کوڑی نامہ، پیسہ، مفلسی، آٹے دال، روٹی نامہ براہِ راست معاشی نظمیں ہیںروٹی نامہ
کاایک بند ملاحظہ ہو ؎
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لیے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتے
بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں
انھوںنے اپنی مشہور نظم ’ مفلسی‘ اور ’ آٹے دال
‘ میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔ نظم مفلسی میں وہ لکھتے ہیں ؎
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے جس پہ کہ آتی ہے مفلسی
نظیر نے اپنے عہد کے پر آشوب ماحول کی عکاسی ان پر درد
الفاظ کے ذریعے کی ہے ؎
مارے ہیں ہاتھ ہاتھ پہ سب یاں کے دستکار
اور جتنے پیشہ ور ہیں سو روتے ہیں زار زار
کچھ ایک دو کے کام کو رونا نہیں ہے یار
چھتیس پیشے والوں کے ہیں کاروبار بند
نظیر اکبر آبادی ایک عوامی شاعر تھے۔ ان کی نظموں میں
ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی رو ح اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے جس کا لب و
لہجہ اور مزاج عوامی ہے۔ ان کے یہاں مختلف موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں۔ کچھ میں
ہندوؤں اور مسلمانوں کا ذکر ہے بعض میں اخلاق و تصوف کا۔ ان کے جمہوری مزاج کے
متعلق پرو فیسر ا حتشام حسین لکھتے ہیں:
’’ انھیں ہندوستانی ادبیات میں جو عظمت حاصل
ہے وہ نظموں ہی کی وجہ سے ہے، کیونکہ اس میں ہندوستانی زندگی اپنی تمام اچھائیوں
اور برائیوں کے ساتھ جی اٹھی ہے۔ اس کلیات کا ایک حصہ کرشن جی، مہادیو جی، بھیروں
جی وغیرہ پرلکھی ہوئی نظموں سے بھرا ہوا ہے۔ نظیر سے پہلے زیادہ تر شعراعام
موضوعات پر لکھنے اور عوام کی زندگی کی تصویر کشی کرنے میں بچتے تھے مگر نظیر نے
اونچے طبقے کے خیالات میں ایک ایسا چور دروازہ بنا دیا جس میں سے ہو کر عوام کا
جلوس قصر ادب میں گھس آیا۔ شاعری کی اس عظیم روایت کے ساتھ نظیر اکبرآبادی کا
نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘
(اردو ادب کی تنقیدی تاریخ،سید احتشام حسین،ص117،قومی
کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،1999)
نظیر اکبر آبادی کا تجربہ ومطالعہ بہت وسیع اور ہمہ گیرہے
انھوں نے مختلف اہم شخصیات پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ مثلاً شری کرشن، گرو نانک وغیرہ۔
کہتے ہیں نانک شاہ جنھیں وہ پورے ہیں آگاہ گرو
وہ کامل رہبر جگ میں ہیں یوں روشن جیسے ماہ گرو
مقصود مراد امّید سبھی بر لاتے ہیں دکھواہ گرو
نت لطف کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا نرواہ گرو
اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو
سب سیس جھکا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو
ان کی شاعری کا جادوئی آہنگ آگرہ کے گلی کوچوںاور
بازاروںمیں گونجتا تھا۔تہواروں اور میلوں میں ان کے گیت لوک گیتوں کی طرح گائے
جاتے تھے۔ شری کرشن کی زندگی پر ان کے لکھے گیت کو فقیر مست ہو کر گاتے تھے ؎
کیا کیا کہوں میں کرشن کنہیا کا بالپن
ایسا تھا بانسوری کے بجیّا کا بالپن
یاروں سنو وہ دہی کے لٹیّا کا بالپن
اور مدھوپوری نگر کے بسیّا کا بالپن
نظیراکبر آبادی ایک ایسے حقیقت پسند شاعر ہیں جن کی
نظموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے انسان کو جینے کے یکساںوسائل
ملنے چاہیے۔ انھوں نے بعض نظمیں بچّوں کے لیے بھی لکھی ہیں جیسے ریچھ کا بچہ، بلی کا بچہ
وغیرہ۔ ان کے بعض موضوعات تو اتنے دلچسپ اور انوکھے ہیں کہ ان پر آج تک کسی
شاعر نے قلم تک نہیں اٹھایا۔ان کی اس قوت مشاہدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر
خورشید الاسلام لکھتے ہیں:
’’
دنیا کو کتاب سے پڑھا اور استاد سے سیکھا بھی جاتا ہے مگر دل زندہ ہو تو اسے
آنکھوں سے اور کانوں سے پیا بھی جاسکتا ہے۔ ‘‘
انھوں نے عام زندگی کے ہر چھوٹے بڑے موضوعات پر نظمیںلکھیں۔
مثلاً کورابرتن، لکڑی، تل کے لڈو وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی نظموں میں
قدرت کے حسین مناظرکوبہت ہی خوبصورتی سے قید کیا ہے ان کی مشہور نظم ’برسات کی بہاریں ‘ قدرتی مناظر کی بھر پور
عکاسی کر تی ہیں ؎
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
نظیرکی شاعری میں جہاں قدرتی مناظر کا عکس دکھائی دیتا
ہے وہیں عرس،میلوں اور تہواروں کے مناظر بھی پیش کیے گئے ہیں۔ انھوں نے نظم ہولی
کے ذریعے ایک ہندوستانی تہوار میں منائی جانے والی خوشیوں کو بڑے دلچسپ انداز میں
بیان کیا ہے۔
آجھمکے عیش و طرب کیا کیا،جب حسن دکھایا ہولی نے
ہر آن خوشی کی دھوم ہوئی، یوں لطف جتایا ہولی نے
ہر خاطر کو خورسند کیا، ہر دل کو لبھایا ہولی نے
دفِ رنگین نقش سنہری کا، جس وقت بجایا ہولی نے
بازار، گلی اور کوچوں میں، غل شور مچایا ہولی کا
نظیر اکبر آبادی اردو نظم کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے
عربی، فارسی، پنجابی، اودھی، برج، کھڑی بولی اور سنسکرت کے الفاظ کو بہت خوبصورتی
کے ساتھ اپنی شاعری میں شامل کیا۔ ان کی شاعری میں فارسی الفاظ اور تراکیب کی کمی
نہیں۔ وہ کفر و ایمان، دیر و حرم، سبحہ وز ناّر کی تراکیب کے علاوہ عاشق،دلبر، دشت
اور آہنگ کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ کھڑی بولی برج اور پنجابی سے آنند، بھیڑ،
جنم، تت بھو، سنسار، لچھن، اوتار، سروپ، پر تپال، مدھ مست کے الفاظ ان کی شاعری میں
جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف چولھا،
ہانڈی اور تنور کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں بلکہ ایسے اودھی کے الفاظ بھی ان کی
شاعری میں جگہ بناتے ہیں جنھیں صرف انھوں نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔
مخاطبت کے لیے ’بابا کے لفظ کا استعمال بھی خالص ہندوستانی مزاج کی نمائندگی کرتا
ہے۔
غرض نظیر اکبر آبادی نے اپنی شاعری میں بے شمار
ہندوستانی الفاظ استعمال کیے ہیں جنھیں ان سے پہلے کسی شاعر نے استعما ل نہیں کیا
تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں زبان پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔
اس طو پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظیرہندوستانی مشترکہ تہذیب
و ثقافت کا بے نظیر شاعر تھا۔
Dr. Jan Nisar Alam
Asst Professor, Dept of Urdu
University of Lucknow
Lucknow- (UP)
Cell.: 9792453618
jannisaralamlko@gmail.com