29/8/24

محی الدین قادری زور کی ادبی خدمات، مضمون نگار: سوشیل کمار

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

ڈاکٹر زور ایک ممتاز ماہر لسانیات، نقاد، افسانہ نگار، سوانح نگار، تذکرہ نویس، شاعر، معلم و منتظم ہی نہیں تھے بلکہ وہ بلند پایے کے محقق و مدون بھی تھے۔ اس کا ثبوت ان کی تصانیف ہیں۔ دیگر موضوعات کے علاوہ دکنیات ڈاکٹر زور کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔ لسا نیات و صوتیات، سوانحیات و افسانہ نویسی وغیرہ کے علاوہ تحقیق و تدوین میں بھی دکنیات ان کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ تحقیق و تدوین کے متعلق ڈاکٹر زور کی تصانیف کی ایک طویل فہرست ہے جن میں اردو شہ پارے جلد اول، دکنی ادب کی تاریخ، عہد عثمانیہ میں اردو کی ترقی، تاریخ ادب اردو، اردو کے اسالیب بیان، داستان ادب حیدرآباد، جامعہ عثمانیہ کے فرزندوں کی اردو خدمات، ادبی تحریریں، مثنوی طالب و موہنی، فن انشا پردازی، عبدل کا ابراہیم نامہ، فرخندہ بنیاد حیدرآباد، تذکرہ گلزار ابراہیم، تذکرہ مخطوطات اردو (پانچ جلدیں)، متاع سخن، باد سخن،فیض سخن، رمز سخن، معنی سخن، تذکرہ نوادر ایوان اردو، مکتوبات شاد عظیم آبادی، شاد اقبال، جواہر سخن، معانی سخن، نذر محمد قلی قطب شاہ، مختصر حالات شاہ، اردو شاعری کا انتخاب، کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہم ڈاکٹر زور کی دیگر تصانیف کا بھی جائزہ لیں تو وہاں بھی ان کی تحقیقی نگارشات بخوبی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ڈاکٹر زور جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لندن گئے تھے تو وہاں انھوں نے کئی قدیم تاریخی کتب خانوں سے استفادہ کیا، وہاں ان کو اردو ادب کے متعلق ایسا نایاب مواد بھی حاصل ہوا جسے ڈاکٹر زور نے ہندوستان واپس آنے کے بعد کتابی شکل میں مرتب کرکے شائع کروایا۔ اردو شہ پارے اسی عمل کی ایک کڑی ہے جو انھوں نے 1929 میں شائع کرائی۔

اردو شہ پارے‘ جلد اول جس میں اردو ادب کے آغاز سے لے کر ولی کے زمانے تک کے شاعروں اور نثر نگاروں کے شہ پاروں سے اہم اور دلچسپ انتخابات پیش کیے گئے ہیں۔ 396 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جس میں ابتدائی کوششوں سے ولی کے زمانے تک کے اردو شہ پاروں کے مصنفین اور ان کے کارناموں پر ایک سرسری تاریخی نظر ڈالی گئی ہے۔اگرچہ اس سے ڈاکٹر زور کا مقصد اس دور کی ایک مکمل ادبی تاریخ پیش کرنا نہیں ہے بلکہ اس جلد میں جو شہ پارے پیش کیے گئے ہیں ان کی تخلیق کس زمانے میں، کن کے ہاتھوں سے، کس ماحول میں اور کس طریقے سے عمل میں آئی ان کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر زور نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ایسے مصنفین کا بھی ذکر کیا ہے جن کا کلام موجود نہیں ہے اور معلومات کی کمی کی وجہ سے اختصار سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس میں شاعروں اور کتابوں کے متعلق جو کچھ حالات لکھے گئے ہیں چند معمولی اور غیر معروف کو چھوڑ کر ڈاکٹر زور کی ذاتی تحقیق و تفتیش اور اصلی ماخذوں کے مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ اس کتاب کی ابواب بندی ڈاکٹر زور نے اس طرح کی ہے:

باب اول: اردوادب کی ابتدائی کوششیں، باب دوم: اردو ادب بیجا پور میں، باب سوم: اردو ادب گولکنڈہ میں، باب چہارم: اردو ادب مغلوں کی حکومت میں۔ اس کے علاوہ شہ پاروں کی فہرست بہ لحاظ مضامین ، اردو شہ پارے نظم و نثر، دور اول کے مصنفین اور ان کے کارنامے، بیجاپوری مصنفین اور ان کے کارنامے، گولکنڈہ کے مصنفین اور ان کے کارنامے، مغلیہ عہد کے مصنفین اور ان کے کارنامے، ایڈنبرا کی بیاض کے مرثیہ نگار، اردو ادب سے متعلق سنیںوغیرہ کا ڈاکٹر زور نے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ڈاکٹر زور نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مجموعے میں بعض ایسی اعلیٰ درجے کی ادبی کتابوں کے انتخاب موجود نہ ہوں جو کسی خانگی کتب خانے میں محفوظ ہیں یا جن کے متعلق عام طورپر معلومات نہیں۔ چونکہ ڈاکٹر زور نے یہ کتاب آج سے 94 برس پہلے لکھی تھی جس میں ڈاکٹر زور نے قلمی کتابوں کے انتخاب بھی شامل کیے ہیں۔

تاریخ ادب اردو‘ ڈاکٹر زور کی ایک اہم کتاب ہے۔ ڈاکٹر زور نے اس کتاب کو ادارۂ ادبیات اردو حیدرآباد سے 1940 میں شائع کروایا تھا۔ اگرچہ یہ ایک مختصر کتاب ہے جو محض 173 صفحات پر مشتمل ہے۔ چونکہ ادارے میں دیگر زبانوں کی تاریخ پر کتاب شائع کر رہے تھے اس لیے اردو زبان کی مختصر تاریخ کو بھی مرتب کرکے شائع کرایا گیا۔ اردو کی تاریخ پر مختصر مگر جامع کتاب کی ضرورت تھی۔

دکنی ادب کی تاریخ‘ ڈاکٹر زور کی ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ اس میں ڈاکٹر زور نے اردو زبان کے قدیم مرکزوںگلبرگہ، بیدر، بیجاپور، گولکنڈہ، حیدرآباد اور اورنگ آباد کے شاعروں اور ادیبوں کی اردو خدمات پر تفصیلی بحث کی ہے اور 1350 تا 1750 کی ادبی تاریخ کو بیان کیا ہے۔ باب اول میں بہمنی عہد، گلبرگہ اور بیدر یعنی 1350 تا 1525 کا احاطہ کیا ہے۔ باب دوم میں عادل شاہی عہدبیجاپور یعنی 1490 سے 1686 تک ہے۔ باب سوم قطب شاہی عہد، گولکنڈہ اور حیدرآباد، 1508سے 1686 تک ہے۔ باب چہارم مغل عہد، حیدرآباد اور اورنگ آباد ، 1686 تا 1750 پہنچتا ہے۔ باب پنجم میں دکنی ادب کا اثر شمالی ہند کی اردو پر وغیرہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر زور لکھتے ہیں کہ ’’قدیم دکنی ادب کی تاریخ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ اب سے تیس برس قبل جب میں نے 1928 میں ’اردو شہ پارے‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی نہ دکنی ادب کا چرچہ تھا اور نہ عام اردو دانوں کو معلوم تھا کہ اردو زبان میں تین چار سوسال قبل اتنی اعلیٰ درجے کی نثر و نظم لکھی گئی ہوگی۔۔۔۔۔ تیس سال کے اس طویل عرصے میں متعددادیبوں اور محققوں نے اس کی طرف توجہ کی اور دکنی ادب کے گوناگوں گوشوں کو اجاگر کیا اور کئی نئے شاعر اور ادیب روشناس کیے گئے۔‘‘

)دکنی ادب کی تاریخ، ڈاکٹر زور، اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی، 1960، ص6(

ڈاکٹر زور نے دکنی ادب کی تحقیق اور فروغ میں نہ صرف تن من اور دھن سے کام لیا بلکہ ایسے لوگوں کو بھی متعارف کروایا ہے جنہوں نے دکنی ادب کے فروغ میں اہم حصہ لیا ۔ ’عہد عثمانیہ میں اردو کی ترقی‘ بھی ڈاکٹر زور کی اہم تصنیف ہے۔ یہ کتاب تقریباً 200 صفحات پر مشتمل ہے جو 1934 میں اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد سے شائع ہوئی۔ اس میں ڈاکٹر زور نے عہد عثمانیہ کے گزشتہ 25سال سے حیدرآباد دکن میں اردو زبان و ادب کی نشوو نما کا تذکرہ کیا ہے جو نہایت ہی اہم اور دلچسپ ہے۔

ڈاکٹر زور لکھتے ہیں : ’’سرزمین دکن سے اردو کا آغاز نہ معلوم کون سی مبارک گھڑی میں کیا تھا کہ اس کے سپوت آج تک اس کی خدمت میں سرگرم کار ہیں اور گزشتہ تین چار صدیوں کے طویل عرصے میں کبھی کسی وجہ سے بھی اپنے کام کو ملتوی نہیں کیا۔ شاید ہی کوئی یہاں ایسا گزرا ہو جس میں اردو سے کسی کی بے توجہی کی گئی ہو۔۔۔۔۔‘‘

)ڈاکٹر زور ، عہد عثمانیہ میں اردو کی ترقی، اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد ، 1934، ص 11(

ڈاکٹر زور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ عہد عثمانیہ کا سب سے درخشاں کارنامہ جس نے زبان اردو کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے مستحکم کردیا اور اس کے لیے ترقی کی سیکڑوں راہیں پیدا کردیں وہ جامعہ عثمانیہ کا قیام ہے۔ ڈاکٹر زور نے جامعہ کی دیگر خدمات کے علاوہ اردو زبان و ادب کے متعلق مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے اور تفصیلاً واضح کیا ہے کہ حیدرآباد میں اردو زبان کی اصلاح و ترقی اور بولنے والوں کے علاوہ اردو کے مختلف مراکز ، حیدرآبادی اردو اور شمالی ہند کی اردو کا میل جول، حیدرآباد کی جدید اردو، علمی اور فنی ضرورتوں کی تکمیل، حیدرآباد میں اردو کی عام مقبولیت، جامعہ عثمانیہ میں ہندو طلبہ کی کثرت اور کامیابیاں، اردو تعلیم اور جامعہ عثمانیہ کے قیام کے لیے ہندوؤں کی کوششیں جیسے موضوعات پر ڈاکٹر زور نے مفصل بحث کی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک مکمل اور مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ’داستان ادب حیدرآباد‘ بھی ڈاکٹر زور کی ایک اہم کتاب ہے۔ اس میں ڈاکٹر زور نے حیدرآباد کے تین سو سالہ اردو، فارسی و عربی ادب و شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ چونکہ ڈاکٹر زور نے قطب شاہی اور آصف جاہی عہد کی تاریخ و ادب کو بطور خاص اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ اس لیے مختلف ادوار میں حیدرآباد میں ابھرنے والی علمی و ادبی تحریکوں اور ان کے پس منظر کے پہلو بہ پہلو جملہ ارباب کمال کے مختصر واقعات حیات اور ان کے رشحات قلم کی خصوصیات سے بھی قارئین کو واقف کرانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر زور نے دور انتشار کے حیدرآباد کے سیاسی ، سماجی ودیگر پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس وقت کی علمی و ادبی خدمات اور شعرا و مصنفین پر مفصل بحث کی ہے جو نہایت اہم اور دلچسپ ہے۔

اردو کے اسالیب بیان‘ ڈاکٹر زور کی مرتبہ تواریخ کی ایک کڑی ہے۔ اس کا شمار اردو نثر کی تواریخِ ادب کے زمرے میں ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر زور نے اردو زبان میں نثر کے ابتدائی کارنامے، دسویں صدی ہجری کے بعد دکن میں نثر کی نشوو نما، شمالی ہند میں نثر کے ابتدائی مراحل، فورٹ ولیم کالج کی نثری کوششیں، غدر اور اس کے قریبی زمانے میں نثر کی حالت، سرسید کی کوششوں کا اثر، موجودہ انشا پردازوں کی نثر اور اس کے اسالیب، اردو نثر کے رجحانات اور اردو نثر کا مستقبل وغیرہ موضوعات کا جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر زور لکھتے ہیں:

’’اردو نثر کی ابتدا کے متعلق ابھی کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ۔ بعض تحقیقات نے شیخ عین الدین گنج العلم کے رسالوں کو قدیم ترین تصنیفات قرار دیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ خیال بھی غلط ثابت ہو کیونکہ شیخ الدین 706ھ میں پیدا ہوئے تھے اور اب بعض ایسی کتابیں دستیاب ہو رہی ہیں جو 500ھ کے قریب زمانے میں لکھی گئی تھیں۔۔۔۔۔۔‘‘

)اردو کے اسالیب بیان، ڈاکٹر زور، اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد، دکن، 1940، ص25(

یہ کتاب اردو نثر کی ابتدا اور ارتقا پر ایک اہم کتاب ہے جس میں ڈاکٹر زور نے اسالیب بیان کے لحاظ سے اردو نثر کی ارتقائی منزلوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

مطالعہ زور‘ میں اکبر حیدری لکھتے ہیں کہ ’اردو کے اسالیب بیان‘ اردو ادب کی بہترین انشا پردازی اور اعلیٰ نثری کارناموں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر زور نے جو کچھ بھی اس میں اپنا خیا ل پیش کیا ہے وہ حق و صداقت پر مبنی ہے۔ یہ کتاب لکھ کر مصنف نے اس بات کا ثبوت دیا کہ ایک تنقید نگار کو کیسے غیر جانب دار رہنا چاہیے۔ انھوں نے اس کتاب میں کسی بھی انشاپرداز کے بارے میں ذرا بھی تعصب نہیں برتا۔ چنانچہ انھوں نے خود بھی کتاب کے آغاز میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔‘‘

)مطالعہ زور، اکبر حیدری، الماس بک ڈپو، لکھنؤ، 1966، ص59(

تحقیق و تدوین کے متعلق ڈاکٹر زور نے متعدد تصانیف لکھی ہیں، جیساکہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے جن کی طویل فہرست ہے ۔ ان تمام کی وضاحت اور جائزے کے لیے ایک مکمل مقالہ درکار ہے۔ اپنے موضوع و مقصد کے پیش نظر ان کا ذکر اور مرکزی خیال پیش کرنا ہی مناسب ہوگا۔

فن انشا پردازی کے متعلق بھی ڈاکٹر زور کی دلچسپ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ’سخن سیریز‘ پر ڈاکٹر زور کی کئی تصانیف ہیں ’مرقع سخن‘ (دوجلدیں) متاع سخن، باد سخن، فیض سخن، رمز سخن، معنی سخن، جواہر سخن وغیرہ تصانیف میں ڈاکٹر زور نے دکن کے ایسے گمنام شعرا کی خدمات اور کلام کو  اجاگر کیا ہے جو اردو زبان و ادب سے گم ہوچکے تھے۔ ان کے علاوہ تذکرہ گلزار ابراہیم، تذکرہ مخطوطات (پانچ جلدیں)، تذکرہ نوادر ایوان اردو، مکتوبات شاد عظیم آبادی، شاد اقبال، مثنوی طالب و موہنی، عبدل کا ابراہیم نامہ، فرخندہ بنیاد حیدرآباد، نذر محمد قلی قطب شاہ، مختصر حالات شاہ، باغ و بہار، اردو شاعری کا انتخاب، سلطان محمود غزنوی کی بزم ادب اور کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ ڈاکٹر زور کی تحقیق و تدوین پر نہایت ہی اہم تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب میں ایک بہت بڑا اضافہ ہے۔ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ولی کو پہلا شاعر مانا جاتا تھا لیکن شمس اللہ قادری کے علاوہ ڈاکٹر زور کی تحقیق نے یہ ثابت کیا تھا کہ ولی نہیں بلکہ سلطان محمد قلی قطب اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے۔ ڈاکٹر زور نے ’کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ‘ کو مرتب کرکے اردو ادب کی تاریخ میں تین سو سال کا اضافہ کیا ہے۔ اس کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر زور نے قلی قطب شاہ کے احوال و کوائف و دیگر بنیادی چیزوں کو بھی شامل کیا ہے جو تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر زور عملی طور پر بھی یوم قلی قطب شاہ مناتے رہے جس میں دکن کی تہذیب و تمدن ، تاریخ و تعمیری روایات کو دکھایا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم ڈاکٹر زور کی کسی بھی تصنیف کا مطالعہ کرتے ہیں چاہے وہ جس بھی موضوع سے تعلق رکھتی ہو یعنی کہ ان کی لسانی و صوتی خدمات، سوانحی خدمات، افسانہ نگاری و دیگر تمام تصانیف میں دکنیات کا موضوع ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے اور ہر موضوع پر ان کا تحقیقی عنصر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر زور کی تصانیف میں اکثر سن ہجری کا استعمال زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی تصانیف کی اہمیت و افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے برصغیر کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان کی تصانیف نصاب میں شامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی ڈاکٹر زور کی تحقیقی و تدوینی تصانیف اردو زبان و ادب میں ایک بہت بڑا اضافہ ہیں۔

 

Dr.Sushil Kumar

352-E/5, Munirka Village

New Delhi-110067

Mob.: 6006920406

Email.: sushiljnu2015@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...