29/8/24

سلام بن رزاق کا بحیثیت افسانہ نگار اختصاص، مضمون نگار: صفدر امام قادری

 ماہنامہ اردو دنیا، اپریل 2024

جدیدت کے علَم بردار ادبا کے ساتھ ساتھ 1970 کے بعد جن افسانہ نگاروں نے رفتہ رفتہ خود کو ایک نئے اور مختلف اظہاریے کی طرف موڑنے میں کامیابی پائی، ان میں سلام بن رزاق سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ان کے بعد کے افسانہ نگاروں میں شوکت حیات، شفق، حسین الحق، ساجد رشید، سید محمد اشرف، طارق چھتاری اور عبد الصمد وغیرہ نے بھی اس بدلتے ہوئے افسانوی اسلوب کو پہچاننے کی کوشش کی۔ اولاًسب کے سب جدیدیت بردار قافلے کے سفیروں میں اُنھی مخصوص موضوعات اور اسلوب کے ساتھ پہنچے تھے لیکن ایک دہائی بھی نہیں گزری ہوگی کہ جدید افسانوں کی نا مقبول دنیا سے نکل کر کسی دوسری فضا اور کیفیت کی تلاش میںیہ لوگ منہمک ہو گئے۔ اس دَوران کھلے طور پر یہ سمجھ میں آنے لگا تھا کہ غیاث احمد گدی، سریندر پرکاش، بلراج مین را اور احمد ہمیش کے افسانوی سرمائے سے یکسر مختلف ایک نئی دنیا خلق ہونے لگی ہے۔ جدیدیت کے بعض نقاد اورکچھ رسائل کے مدیران بھی اس خاموش تبدیلی کو شاید ہی بروقت سمجھ سکے۔ دیکھتے دیکھتے ایسے دوسرے رسائل اور مدیران کے ساتھ ساتھ نئے نقاد وںکی صف سامنے آنے لگی جو اس نئے افسانوی بیانیے کو اسلوبِ آئندہ کے طور پر پہچاننے کی کوشش کرے۔ کہنا چاہیے کہ جدیدیت کی تربیت گاہ سے ایک مختلف طرزکی افسانہ نگاری کا سورج طلوع ہو رہا تھااورکم از کم افسانے کی حدتک 1970 کے بعد کی نسل ایک نئی تاریخ گڑھنے کے لیے بڑی تعداد میں میدانِ عمل میں کود چکی تھی۔

جدید افسانے کے معتبر نقاد اور محققین نے تجرید اور علامت کو نشان زد کرکے اس عہد کے نئے افسانوں کے امتیازات واضح کیے تھے۔ 1960 کے پہلے تک ترقی پسند افسانہ نگاروں کی وہ کہکشاں جگ  مگ جگ  مگ کر رہی تھی جسے پریم چند کے بعد افسانہ نگاروں کی سب سے توانا اور مقبول نسل تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1936 سے 1960 کے بیچ معتبر افسانہ نگاروں کی ایک سرسری فہرست بھی تیار کیجیے تو ان میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، دیویندر ستیارتھی، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، سہیل عظیم آبادی،اختر اورینوی اور اپندر ناتھ اشک وغیرہ کے نام بیک نظر سامنے آجائیں گے۔ ان میں سے اکثر کا اسلوب اور افسانوی تکنیک بلاشبہ ایک دوسرے سے مختلف ہے اور پریم چند کی مقبول افسانوی پہچان کے فوراً بعد اس نسل نے ادب کی موضوعاتی دنیا میں انقلاب آفریں تبدیلیاں کر دیں۔ اس نسل نے روسی اور فرانسیسی افسانہ نگاروں سے بھی استفادہ کیا لیکن ان کی حیرت انگیز مقبولیت کی پشت پر پریم چند کا آزمایا ہواوہی بیانیہ سایہ فگن رہا جس میں حسبِ ضرورت ردو بدل کرکے اس نسل کے افسانہ نگاروںنے اس بیانیے میں توسیع کی تھی اور اپنے عہد کے افسانے کو قبولِ عام کے درجے تک پہنچایا تھا۔

جدیدیت کے عہد میں ابھرنے والے بعض ابتدائی افسانہ نگاران بزرگوں کے ذرا پیچھے چل رہے تھے۔غیاث احمد گدی، اقبال مجید، رتن سنگھ اور قاضی عبد الستارجیسے اصحابِ قلم نے 1960 سے پہلے اچھا خاصا لکھ لیا تھااور متواتر لکھنے کی وجہ سے ان کی ایک ادبی پہچان بھی قائم ہونے لگی تھی مگرجدیدیت کے بدلتے اسلوب اور نئے ہم عصروں کی ہم رکابی میں ان سب کے یہاں بھی خالص جدید تبدیلیاں آئیں مگر ان جیسے چند لوگوں نے اس بات کا دھیان رکھا کہ علامت یا تجرید کو اپنے فن کی شکست یا تبلیغ نہیں مانیں گے بلکہ فطری طور پر موضوع و اسلوب کی تبدیلیوں کاسلسلہ چلنا چاہیے۔اسی اندازِ نظر کی ترجمانی وطرف داری کا ایک ابتدائی شعورمذکورہ افراد میں موجود تھا۔ ان چند لکھنے والوں کی آنکھیں اس وقت پھٹی رہ گئیں جب انھوںنے دیکھا کہ اپنے بعد کے لکھنے والوں میں متعدد افراد فیشن زدہ جدیدیت کے پہلو سے ایک نئی راہ کی تلاش میں کامیاب ہو رہے تھے۔ یہ نئی نسل بے شک سلام بن رزاق اور ان کے دوسرے ہم عصروں اور کم عمر ساتھیوں کی وجہ سے میدانِ عمل میں اپنی صلاحیت کا اظہار کر رہی تھی۔

اس وقت یہ افسانہ صرف بیانیہ کی سطح پر تبدیل نہیں ہو رہا تھا، اسلوب اور موضوع بھی بدلنے لگے تھے اور ہر پڑھنے والا یہ سمجھ سکتا تھا کہ سلام بن رزاق یا ان کے دیگر ہم عصروں کے افسانوں میں ایک طرف علامتیں بتدریج گھٹتی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اپنے عہد کے پیچیدہ حقائق کے اظہارکے باوجود بیانیہ کچھ اس انداز سے مرتب کیا جا رہا ہے کہ اس کا ایک سِرا ترقی پسند افسانے اور خاص طور پر پریم چند کی سادگی اور شفافیت سے جڑ جائے۔ یہی بات کافی تھی کہ 1970 کے بعد کے افسانے بلراج مین را اور احمد ہمیش کے اندازو اسلوب سے مختلف معلوم ہونے لگے تھے مگر اس سے بڑھ کر بھی چند ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیںجن کی وجہ سے نیا افسانہ مزید بااعتبار ہوا۔ یہ بات اکثر افراد کے ذہن میں موجود ہوگی کہ جدید افسانوں میں کائنات اور زندگی کے مسائل کی شمولیت کے محدود مواقع تھے۔پھر پیش کش کا انداز بھی کچھ اتنا اشاراتی تھا کہ اگر وہ عہد کسی طرح نظر بھی آرہا تھا تو عکس بے حد دھندلے تھے۔ ترقی پسندوں سے داخلی مخاصمت بھی ایک خاص بات تھی جس کی وجہ سے جدید افسانہ نگاروں نے زندگی اور عہد کے مسائل سے ذرا دور کا رشتہ رکھا۔ نئے افسانہ نگاروں نے اس صورتِ حال کا ہوش مندانہ جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ ایک نیا افسانوی ماحول پیدا ہو سکے۔

سلام بن رزاق نے یوں تو 1964-65 کے زمانے سے افسانہ نگاری شروع کر دی تھی اور مختلف رسائل میں رفتہ رفتہ ان کے افسانے بھی شائع ہوتے رہے لیکن 1970 کے بعد رسائل و جرائد میں ان کے ایسے افسانے آنے لگے جو جدیدیوں سے مختلف تو تھے ہی؛ مکمل طور پر ایک نیا ذائقہ یا تصور بھی پیش کر رہے تھے۔ اپنے ہم عصروں میں تقریباً سب سے پہلے ان کا افسانوی مجموعہ شائع ہوا جس کا عنوان ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ تھا۔ اس مجموعے میں پندرہ افسانے شامل تھے جن میں سے نصف سے زائد افسانے لازمی طور پر ایسے تھے جنھیں ایک مدت تک مابہ الامتیاز ہونے کی وجہ سے اکثر قارئین اور ناقدین نے توجہ سے پڑھا۔ بعد کے زمانے میں سلام بن رزاق کے لیے جو افسانے شناخت نامہ بنے، ان میں خاص طور پر درج ذیل تحریریں ہیں جنھیںستر کے بعد کی نسل کا حقیقی اعتبار قرار دیا جاتا ہے:واسو، پٹا، بجوکا، کالے ناگ کے پجاری، ایک تکونی کہانی، ننگی دوپہر کا سپاہی اور انجام کار جیسے افسانے سلام بن رزاق نے اپنی افسانوی زندگی کے آغاز میں ہی لکھ لیے تھے۔ ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ 1970 کے بعد کے افسانے اور افسانہ نگاروں کے لیے ایک رہ نما کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ بات کھلے طور پر قبول کرنے کی ہے کہ سلام بن رزاق نے جدید افسانے کے پورے نظام سے مراجعت کرتے ہوئے اپنے ہم عصروں یا بعد میں آنے والے افسانہ نگاروں کے لیے ایکPoint of Departure   تیار کیا، اس لیے انھیں1970 کے عہد میں نئے افسانے کی تشکیل کے لیے ماحول سازی اور ادبی نمونہ پیش کرنے کی ذمے داری بھی از خود ملی جسے انھوں نے اپنی تخلیقی خوبیوں کی بدولت استحکام بخشا۔ بے شک جدیدیت سے نکل کر ایک نئی ادبی دنیا اورایک نئے ادبی ماحول کو تیار کرنے میں سلام بن رزاق اکیلے نہیں تھے۔ اس وقت نئے افسانے کی تعمیر و تشکیل میں ساجد رشید، انور خان، حسین الحق، عبدالصمد اور سید محمد اشرف اور دیگر افرادکی کوششیں بھی کارگر رہیں اور سب نے مل کر جدیدیت سے الگ وہ افسانوی نظام تیار کیا جو کم و بیش 1980 اور 1990 کی دہائی میں بھی اپنی موثر موجودگی درج کرا رہا تھا۔

سلام بن رزاق نے زیادہ تعداد میں افسانے نہیں لکھے۔ چار افسانوی مجموعوں میں 60-62 افسانے شامل ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی کی طرح انھوں نے تعداد کے اعتبار سے زیادہ لکھنے پر توجہ نہیں کی۔ ان مجموعوں میں شاید ہی کوئی افسانہ طویل ہو۔ انھوں نے کچھ ترجمے اور کچھ درسی کتابیں تخلیقی وقفوں میں پیش کیں۔ کمال یہ ہے کہ ناول تو ایک بھی نہیں لکھا۔ ناول کے ترجمے البتہ وہ کرتے رہے۔ بیدی کی طرح انھوں نے طویل مختصر کہانی بھی نہیں لکھی۔ ان کے زمانے میں ان کے اکثر ہم عصروں نے مختصر یا طویل ناول لکھنے کی کوشش کی مگر سلام بن رزاق نے غالباً قصداً ناول نگاری کے کوچے کی سیاحی نہیں کی۔ ان کے ہم عصروں میں شوکت حیات نے ایک مدت تک انھی کی طرف صرف افسانہ نگاری کو اپنے تخلیقی کاموں کے مرکز میں رکھا تھا مگر ایک خاص تخلیقی عالم میں انھوں نے ایک ناولٹ ’سرپٹ گھوڑا‘ لکھ ہی دیا۔ سلام بن رزاق نے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے بھی اس میدان میں اترنا گوارا نہیں کیا۔ اگرچہ منٹو نے ایک ناولٹ لکھ دیا تھا مگر وہ اول و آخر افسانہ نگار ہیں۔ بیدی نے مختصر ناولٹ لکھا، ادبی حلقے سے انھیں اس کے لیے داد بھی بہت ملی مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بیدی بھی مکمل طور پر افسانہ نگار ہیں۔ سلام بن رزاق بھی بے شک اول و آخر افسانہ نگار ہیں۔

سلام بن رزاق نے پہلے مجموعے میں ہی اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ وہ عام انسانی معاشرے میں اپنے لیے نئی، انوکھی اور انجانی کہانیوں کی دنیاتلاش کرنے کی مہم میں ہیں۔ اس زمانے میں اجنبی اور عجیب الخلقت کرداروں کی پیش کش قدرے مبہم انداز میں کرکے کہانی کو انجام تک پہنچانے کی کوشش ہوتی تھی۔غیاث احمد گدی نے کچھ ایسے افسانوی کردار خلق کیے جو بے نام سماج سے آتے تھے جن کی کوئی اپنی زندگی نہیں تھی۔ انھوںنے حسبِ ضرورت ایسے کرداروں کا سماجی اور نفسیاتی مطالعہ بھی کیا مگر سلام بن رزاق نے بے نام اور بے زبان معاشرے کے چلتے پھرتے کسی بھی کردار کو سامنے رکھ کر اس کی کہانی بیان کرنے کا انداز اختیار کیا۔ پریم چند کے یہاں جاگیردارانہ عہد میں ابھی بے آواز معاشرے کی بہت حد تک پہچان بھی نہیں ہوئی تھی اور جاگیردارانہ نظام کے تحت معیشت کی بنیاد پر طبقات کی پہچان کا ایک مخصوص انداز سامنے آتا تھا۔سلام بن رزاق نے غالباً راجندر سنگھ بیدی کی افسانوی دنیا کے ان اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کی کہ بڑی بڑی اور حیرت انگیز کہانیاں ہمارے آس پاس کے بے نام کرداروں میں پوشیدہ ہیں۔ بیدی نے عام انسانی گھروں کے بیچ سے اپنی کئی لازوال کہانیاں نکال کر پیش کر دی تھیں۔ سلام بن رزاق نے بھی افسانہ نگاری کے اس نئے طور کو اپنے لیے رَہ نما سمجھا۔

سلام بن رزاق نے نئی سماجی حقیقت نگاری کو ہی اپنی افسانہ نگاری کے بدل کے طور پر رکھا۔ایک تخلیقی فن کار بالخصوص افسانہ نگار کے لیے موضوعات، واقعات اور کردار کی بنیادی اہمیت اپنی جگہ مگر چوں کہ وہ نہ مورخ ہیں اور نہ ہی صحافت پیشہ۔اس لیے انھیں معلوم ہے کہ ایک افسانہ نگار کی تخلیقی ذمے داریاںاس حقیقت نگاری سے سوا ہوتی ہیں۔ یونانی عہد سے ہی تخلیق کی بنیاد میں تخیل کو پیوست مانا گیا ہے۔ سلام بن رزاق تخیل کی دولت سے کس درجہ مالا مال ہیں اور وہ اپنے اصل اور افسانوی کرداروں کی زندگی میں حقیقت اور گمان کے احوال کس مہارت سے شامل کرتے جاتے ہیں، اس کی قدرت کے لیے ان کا مشہور افسانہ ’معبر‘ ملاحظہ کرنا چاہیے۔ حقیقت میں یہ سیاسی بنیاد پر قائم ہوا افسانہ ہے مگر کہانی بُننے کے عمل میں یہ ایک مکمل تخیلاتی شہ پارہ بن گیاہے۔ یہ سلام بن رزاق کے دوسرے افسانوی مجموعے کی اہم ترین کہانی بھی ہے جسے افسانہ نگار نے اسی نام سے شائع کیا۔ ’معبر‘ کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتاتا ہے۔ بہ ظاہر یہ کوئی ایسا جرم نہ ہونا چاہیے جس کی سزا مقرر ہو۔ سلام بن رزاق نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس معاشرے میں خواب دیکھنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے مگر جب لوگ سوتے وقت جو خواب دیکھتے ہیں، ان کی الگ الگ تعبیریں وہ معبر کیوں پیش کرتاہے؟ حقیقی زندگی کی تعبیروں کی کون کہے،خواب کی انجانی اور غیر حقیقی  تعبیریں ہی قابلِ سزا ہو چکی ہیں۔کہانی میں ایک سطح طنزیہ اور ظریفانہ بھی ہے جس سے لطفِ بیان اور لہجے کی معصومیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی کہانی صرف شفاف حقیقت نگار نہیں پیش کر سکتا ہے۔

ابتدائی زمانے میںہی سلام بن رزاق نے اپنی مشہور کہانی ’بجوکا‘ لکھی تھی۔ بعد میں اس عنوان سے کئی افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیاں لکھیں اور باضابطہ طور پر افسانوی موضوع یا علامت کی نئی روایت کے حوالے سے اسے قبول کیا گیا۔ ایسے تمام افسانوں کو ڈاکٹر قنبر علی نے اپنے طویل مقدمے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کر دیاہے۔ سلام بن رزاق کو دیہی زندگی سے ’بجوکا‘ کی علامت ملی۔ سلام بن رزاق کو یہ بات معلوم تھی کہ دیہی زندگی کی وہ پریم چند کے انداز کی ترجمانی کر کے اردو افسانے کی تاریخ میں اپنا کوئی مقام نہیں بنا سکتے۔ اس لیے انھوں نے کہانی کا پورا مواد ہماری عام خاندانی زندگی سے چنا۔ عورت مرد کی گھریلو زندگی کے خواب اور شکستِ خواب کے بیچ پرت در پرت زندگی کس انداز سے ہمارا امتحان لیتی رہتی ہے اور ہم چاہے اَن چاہے کسی نہ کسی رنگ میں بدلتے جاتے ہیں؛ اسے ’بجوکا‘ کا مرکزی خاتون کردار شالوکے اِرد گِرد ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں زندگی کی باریک بینی کے ساتھ تجزیہ ہی نہیں ہے بلکہ ہماری عام گھریلو زندگی میں کتنی نفسیاتی گرہیں موجود ہیں، اس کا اندازہ اس افسانے سے پہلے اور کم از کم اس افسانے کے عنوان کو دیکھ کر نہیں کیا جا سکتا۔ اس افسانے کے اتنے رُخ ہیں اور زندگی کے تضادات کی اتنی جہتیں ہیں کہ کوئی قاری آسانی سے اولین قرأت میں اس بلندی تک پہنچ کر افسانہ نگارکو اس کی معقول داد بھی نہیں دے سکتا۔ سلام بن رزاق نے مرکزی کردار شالو کوجس اہتمام سے فنی چابک دستی کے ساتھ یہاں قائم کیا ہے جیسے محسوس ہو کہ وہ ایک شہ کار گڑھ رہے ہیں۔ سیرابی اور عدم سیرابی، محرومی اور نا محرومی، رسم و رواج کی تابع داری یا ان سے نکل بھاگنے کی خواہش جیسی نہ جانے کتنی دیواریں بیچ بیچ میں کھڑی ہوئی ہیں۔ جس زمانے میں سلام بن رزاق نے یہ افسانہ لکھا، اس ضبط اور فنی احتیاط کے ساتھ شاید ہی کوئی دوسرا اس موضوع پرلکھ سکتا تھا۔ کمال تو یہ ہے کہ بیدی کے ’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ کی رقیق القلبی سے بھی سلام بن رزاق نے یہاں ہوش مندی کے ساتھ دامن بچایا ہے۔

کالے ناگ کی پجاری‘، ’پٹا‘ اور ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘کی بنیادی زمین سیاسی ماحول اور اس کے اثرات ہیں۔ ان افسانوں کے ظاہر میں سیاسی اشارے کم ہیں مگر اطلاق کی سطح پر سیاسی نظام کہیں نہ کہیں ان کی زندگیوں کے مرکز میں چلا آتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک ابتدائی کہانی ’ایک تکونی کہانی‘ بھی ہے۔ سلام بن رزاق کے ہم عصروں میں شوکت حیات اور ساجد رشید نے سیاسی موضوعات کو اپنے افسانوں میں سب سے زیادہ برتنے میں کامیابی پائی۔ سلام بن رزاق کا ذہن سیاسی تفہیم و تجزیے کا متحمل تو ہے مگر وہ سیاست، سماج اور نفسیات کا ایک ایسا محلول تیار کرتے ہیں جس سے ان کا فکشن سارے سیاسی مفاہیم کے باوجود سیاسی اکھاڑا بننے کے در پَے نہیں ہوتا۔ یہ ان کی فنی اعتبار سے ایسی کامیابی ہے جس کی کوئی دوسری نظیر شاید ہی مل سکے۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں ایک زمانے تک سیاسی موضوعات کھُلے طور پر نظر نہیں آتے۔ وہ سب زیریں افسانوی لہروں میں دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

2001میں سلام بن رزاق کا تیسرا مجموعہ ’ شکستہ بتوں کے درمیان‘ منظرِعام پر آیا۔ دوسرے افسانوی مجموعے میں ’دودِ چراغ‘ کی شکل میں ایک ایسا افسانہ ضرور انھوں نے لکھا تھا جسے فرقہ واریت کے تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے مگر بعد کے دَور میں یہ موضوع ملک کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر سلام بن رزاق کے یہاں ایک مرکزی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔ ’آوازِ گریہ‘ تو اس سلسلے سے ان کا شہ کار افسانہ ہے جس میں فرقہ وارانہ صورت کی بدلتی جہات پر قصے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ سلام بن رزاق کے ابتدائی افسانوں میں ملک کی بدلتی ہوئی مذہبی صورتِ حال اور اس کے تکلیف دہ اثرات کے بارے میں کچھ زیادہ لکھا ہوا نہیں ملتا مگر ’معبر‘ کی اشاعت کے بعد سے ان کے یہاں سماجی اور سیاسی صورتِ حال کی تبدیلوں کے اشارے ملنے لگتے ہیں۔ غالباً یہ بھی اس بات کاثبوت ہے کہ کوئی بھی فن کار اپنے عہد کی تبدیلوں سے زیادہ دیر تک بے رُخی یا لا تعلقی نہیں برت سکتا۔ اس سلسلے سے ان کے دوسرے افسانوں’اندیشہ‘،’آندھی میں چراغ‘،’چادر‘، ’چہرہ‘،’زمین‘،’باہم‘، ’خبر‘ وغیرہ کو بہ غور تجزیے کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔

سلام بن رزاق کے تیسرے مجموعے میں ایک عجیب وغریب کہانی ’ابراہیم سقہ‘ ہے۔ یہ ایک بھشتی کی زندگی کی کہانی ہے۔ اس کی جاں فشانی، فرض شناسی کے ساتھ ساتھ جس محبت سے اس کی جذباتی زندگی کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ بڑے بڑے لوگوں اور نام وَر زندگیوں کی کہانیاں لکھنے والے بہت سارے افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں مگر محروم و معدوم آبادیوں کی زندگی کو اس گہرائی اور انسانی سطح سے دیکھنے کا یہ کام واقعتا شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ کرشن چندر کے افسانے ’کالو بھنگی‘ کی بہت شہرت ہے مگر زوال پذیر معاشرے کے ایک فرد کی زندگی کو جس سلیقے سے ’ابراہیم سقہ‘ میںسلام بن رزاق نے پیش کیاہے، وہ انھیں اردو افسانے کی تاریخ میں احترام سے دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح کا ایک مختلف افسانہ ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ ہے۔ افسانہ نگارکی قوتِ متخیلہ، فنتاسی اور فنونِ لطیفہ کے تئیں قلبی لگاؤ کایہ ایسا نمونہ ہے جیسا ہمارے سرمایۂ افسانہ نگاری میں کہیں دوسری جگہ موجود نہیں۔ عالمی سطح پر جس Dying Culture  کاتذکرہ ہوتا ہے اوریہ تصور کہ سارے فنون اور ہماری ساری زندگیاں تلف ہونے کے لیے ہی قائم ہوئی ہیں، اس کا ایک ہیبت ناک استعارہ یہ افسانہ ہے۔ ’گئودان‘ میں بھی پریم چند نے زراعتی سماج اور بالخصوص کسانوں کے زوال کا مرثیہ لکھا تھا۔لیکن وہاں ایک امید بھی تھی کہ جاگیردارانہ سماج کا جہاز ایک نہ ایک دن ڈوب جائے گا اور ہماری جدوجہد آزادی سے ایک نئی معیشت اور نئی دنیا ضرورپیدا ہو سکے گی مگر ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ افسانے میں کہیں جائے اماں نہیں ہے۔ چند صفحات کی یہ کہانی پوری انسانی تاریخ میں فنونِ لطیفہ کے ریاضت کاروں کا وہ مرثیہ ہے جہاں ہزاروں برس کی کاوِشوں اور مشقتوں کی کوئی قدر دانی نہ ممکن ہو سکی۔ اردو شاعری نے میر کے حوالے سے احساسِ زیاں کی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ کا مائکل بھی اسی طرح اپنی ذات کے اندر لہو لہان ہے اور اپنے فن کے وارث اور قدر داںکی تلاش میں جی جی کر مرنے کے لیے مجبور ہے۔

سلام بن رزاق کے آخری مجموعے’ زندگی افسانہ نہیں‘ میں ایک کہانی ’استفراغ‘ ہے۔ یہ کہانی انسان کے شعور اور لاشعور کے بیچ کے رزم نامے کو پیش کرنے کے لیے بُنی گئی ہے۔ فنی احتیاط اور بیان کے نپے تلے انداز نے اس افسانے کو بکھرنے سے بچایا ہے۔ وہ کبھی اپنے مرکزی کردار کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی اس سے لاتعلق ہوکر دُور سے زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ افسانہ نگار کے طور پر یہ حکمتِ عملی ایک عام بات نہیں کہ کرداروں کی زندگی بیان کرتے ہوئے حسبِ ضرورت فن کارانہ لاتعلقی پیدا کر لی جائے۔ سلام بن رزاق مشق کی ان منزلوں تک رفتہ رفتہ پہنچتے گئے جہاں انھیں معلو م ہو کہ کب انھیں اپنے کردار کے دفاع میں کھڑا ہونا ہے اور کب اس کی زندگی کو محض ایک تماش بیں کے طور پر دیکھنا ہے۔ اسی صلاحیت سے ان کے افسانے فنی طور پر موضوعاتی پروپیگنڈا یا واقعاتی کولاج بننے سے محفوظ رہتے ہیں اور وہ فکشن کی ایک نرم اور نازک مٹی پر اگنے والے تازہ پودوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔

سلام بن رزاق نے متوسط طبقے سے زیادہ پسماندہ، محروم اور زوال پذیر طبقات کی کہانیاں لکھیں۔ ان طبقات کی زندگیاں ایک طویل مدت سے ضرر پذیر اور مرگ آشنارہی ہیں۔ جمہوری اداروں نے ہماری تربیت ضرور کی مگر انصاف کی ڈور ابھی بھی ایسے ہاتھوں میں ہے جہاں سے ان زوال آمادہ لوگوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔ سماجی اعتبار سے ان مشکل طبقوں کی حقیقی زندگی کی جانچ پڑتال اور ان کے پیچ جگہ جگہ پیدا ہو رہی کہانیوں کو سلام بن رزاق نے زبان دی۔ اسلوب کی سطح پر سلام بن رزاق کے یہاں نہ کوئی شاعرانہ کیفیت ہے اور نہ ہی رواں دواں زور آور بیانیہ جس کے سحر میں پڑھنے والا گرفتار ہو جائے۔ سلام بن رزاق نے جس انداز کے معاشرے کو اپنا موضوع بنایا، اس کے لیے یہ سب سے زیادہ موزوں تھا کہ وہ بیان کا نہ کوئی پُر پیچ انداز اپنائیں اور نہ ہی زبان کی شاعرانہ جہت کو آزمائیں۔ ان کے لیے یہی مناسب تھا کہ سادہ بیانیے کو اپنی مشق و ریاضت کی بھٹی میں تپاکر نئی اور مشکل زندگیوں کا حصہ بنا کر ہمارے سامنے پیش کریں۔ یہ ہنر ان کے یہاں ابتدائی دَور سے لے کر آخر تک موجود رہا۔  

 انھوںنے فیشن کے طور پر روز نئے نئے موضوعات کی تلاش کے مقابلے میں اپنی جانی پہچانی دنیا میں رہ کر مزید گہرائی اور وسعت کے ساتھ اس ماحول کی پیش کش کو اپنا شعار بنایا۔ سلام بن رزاق کے اکثر و بیش تر کردارمحروم طبقوں سے آتے ہیں۔ زندگی کی چھوٹی بڑی جنگیں وہ روز لڑتے رہتے ہیں۔ اکثر انھی مبارزتوں میں اور بے نام جنگوں میں تلف بھی ہو جاتے ہیں۔ بعض نقادوں نے سلام بن رزاق کے افسانوں کے اس پہلو پر ایک سوالیہ نشان بھی قائم کیا ہے۔ سلام بن رزاق کی بنیادی تربیت سیاسی نہیں تھی اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ افسانوںکو کھُلے طور پر سیاسی بنانے سے ان کا فن مجروح ہوگا۔ سلام بن رزاق نے جن چالیس پچاس برسوں میں اپنے افسانے لکھے، اس دَوران ایسے لوگوںکی زندگی میں کوئی ایسی قابلِ ذکر یا انقلابی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ آدھی صدی محروم طبقات کی پسپائی سے جدو جہد میں گزرتی ہوئی زندگی سے عبارت ہے۔ ان کی تربیت اگرترقی پسندانہ ہوتی تو اپنے افسانوں میں وہ جگہ جگہ نئے سویرے کا اعلان کرتے مگر انھوں نے اس مژدۂ جاں فزا کے اظہار سے اس وجہ سے بھی خود کو روکا کیونکہ سماجی تبدیلی اور ارتقا کے سفر میں ابھی وہ پڑاو واضح نہیں ہے۔ ابھی جد و جہد، شکست اور زیاں در زیاں کے حالات ہیں مگر وہ ان طبقات کو سر گرمِ عمل ہوتے ہوئے اور اپنی زندگی کے تصورات اور خوابوں کی تشکیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہوری نے زندگی میں تھوڑا بہت ہی پایا مگر اس کے آس پاس کی زندگیوں نے نئی صورتِ حال کی طرف بڑھنے کے اشارے پائے تھے۔ سلام بن رزاق کے افسانوں میں شفاف حقیقت نگاری کے بجائے داخلی سطح پر سماج کے محروم طبقات کی جد و جہد کا افسانۂ مسلسل چلتا رہتا ہے۔ یہ ایسی حقیقی کہانیاں ہیں جو تصور اور تخیل سے بڑھ کر ہمارے عہد کا فکر و فلسفہ بن جاتی ہیں۔ اسی لیے سلام بن رزاق کو گذشتہ پچاس برسوں میں ابھرنے والے افسانہ نگاروں کا حقیقی نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

Safdar Imam Quadri

202, Abu Plaza, NIT More, Ashok Rajpath, Patna- 800006 (Bihar)

Mob: 09430466321, 07903688448

Email: safdarimamquadri@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...