29/8/24

سلام بن رزاق: زندگی جو افسانہ ہے، مضمون نگار: رحمٰن عباس

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

’سلام بن رزاق اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔‘ یہ جملہ لکھنا میرے لیے آسان نہیں ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں یہ با ت تسلیم نہیں کر سکتا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔آدمی ہو یا ادیب ایک دن مرنا ہے۔ جسم کو مٹی ہو جانا ہے۔ہم آج ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ آج مٹی کی جون میں ہیں، کل مٹی میں لوٹ جائیں گے۔ لیکن سلام بن رزاق نے مٹی کی اس کایا میں جو زندگی گزاری اور جو ادب تخلیق کیا وہ انھیں سلام بن رزاق بنا تی ہے۔ وہ ادب باقی ہے اور ایک عرصہ یاد رہے گا۔ نئے اذہان انھیں نئے انداز میں دریافت کریں گے۔ ان کے افسانوں اور جس عہد میں انھوں نے افسانے لکھے ان پر گفتگو کریں گے۔ چنانچہ میں یہ کہوں گا وہ ہمارے درمیان ہیں اور رہیں گے۔ جس طرح ہمارے بڑے فکشن نگار انتقال کے برسوں بعد بھی ہمارے ساتھ اور درمیان ہیں۔سلام بھائی پر اس وقت لکھنا میرے لیے آسان نہیں ہے۔میرا ان سے رشتہ یوں تھا جیسے نافرمان بیٹے اور شفیق باپ کے مابین ہوتا ہے۔ میری تمام حماقتوں کے باوجود  مجھے ان کی شفقت نصیب رہی، رہنمائی کرتے رہے، مشورے دیتے رہے۔ گزشتہ بیس پچیس برسوں کا ساتھ رہا ہے۔ دو دہائیوں تک وہ میرے پڑوس میں مکین تھے۔یہ سلسلہ تب رکا جب انھوں نے تین سال پہلے شہر کے دوسرے حصے میں سکونت اختیار کی۔  البتہ فون پر گفتگو ہوتی رہتی۔انتقال سے تقریباً سال بھر پہلے بات کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔ دو مہینے تین مہینے پہلے یکایک چند روز کے لیے اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تھا۔ میں عیادت کرنے نہیں جا سکا۔ اسپتال سے جب گھر وہ آئے، چند روز بعد فون کیا۔ میں نے اپنی مجبوری بتائی،کہا، کسی دن ملیں گے۔ ان کے استفسار پر بتایا کیا لکھ پڑھ رہا ہوں۔ خوش ہوئے ، کہا اچھا ہوتا جب صحت ٹھیک تھی ناول لکھ لیتا۔ ان کے ذہن میں ایک ناول کا خاکہ تھا لیکن اب ہاتھوں میں حرکت نہیں تھی۔ تین چار مہینے پہلے ڈاکٹر سے ملنے یا کسی دوسرے کام سے میرا روڈ آئے۔مجھے شام پانچ بجے ملنے کو بلایا۔ میں پہنچ گیا۔ جب انھیں دیکھا تو اندازہ ہوا صحت میں گراوٹ تیز ہو گئی ہے۔ وہ پارکنسن  کے مرض میں مبتلا تھے۔ علاج جاری تھا لیکن دوائیں اثر نہیں کر رہی تھیں۔ چنانچہ اب رکشے میں مدد کے بغیر سوار ہونا ان کے لیے مشکل تھا۔یہ منظر دیکھنا آنکھوں پر گراں بار تھا۔ میں دوسری طرف سے رکشے میں گیا۔ ان کی مدد کی۔ میری آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ میں نے اس شخص کے ساتھ دو دہائیوں میں کتنا یادگار وقت گزارا تھا۔ رات رات بھر محفلیں سجی تھیں۔ ان کی گفتگو میں کیسی بلا کی خود اعتمادی دیکھی تھی۔کیسی  انجانی قوت تھی ان کے اندر جو انھیںاپنے موقف پر کمزور ہونے نہیں دیتی تھی۔لیکن آج وہ نحیف اور کمزور تھے۔ بات کرتے تو رال ایک طرف سے قمیض پر گر جاتی۔ آنکھوں میں جانے کیوں پانی دکھائی دیتا تھا۔ یہ پانی تھا یا آنسو تھے ؟ رکشے سے کسی طرح وہ اترے۔ اب ایک قدم کے بعد دوسرا قدم رکھنے میں انھیں بیس پچیس سکینڈ درکار تھے۔ رفتہ رفتہ ہم ایک میز پر جا کر بیٹھے۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ ان کی یادداشت متاثر نہیں ہوئی تھی۔ ان کا سینس آف ہیومر جو ں کا توں تھا۔ گدھے کو گدھا کہنا جانتے تھے۔ قہقہہ لگا کر ہنسنا نہیں بھولے تھے۔ اس آخری ملاقات کے بعد میں ڈر گیا تھا۔ میں انھیں دیکھنا اور ان سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ میں انھیں اس حالت میں کیسے دیکھتا؟ میرے لیے مشکل تھا۔ بہت مشکل اور پھر ایک دن اللہ نے یہ مشکل ہم دونوں کے لیے آسان کر دی۔

———

عرصہ ہوا سلام بن رزاق کے افسانوں پر ایک مضمون لکھاتھا وہ انھیں پسند نہیں آیا۔ ان کے ایک افسانے کا تجزیہ کیا وہ بھی انھیں پسند نہیں آیا۔ یہ تجزیہ اس کتاب میں شائع نہیں ہوا جو ان کے افسانوں کے تجزیوں پر مشتمل ہے۔ہم نے اس پر کبھی بات نہیں کی۔ ان کا ایک انٹرویو کیا۔ وہ انھیں پہلے پسند آیا لیکن بعد میں کہا اس انٹرویو کے سبب کچھ لوگ مجھے شکست خوردہ افراد کا افسانہ نگار تصور کر رہے ہیں۔ایسا افسانہ نگار سمجھ رہے ہیں جس کے تمام کردار سرینڈر کر تے ہیں۔ لڑتے نہیں ہیں، احتجاج نہیں کرتے۔ میں نے کہا یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے۔ انھوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ ان کے پاس دولت ِ استدلال تھی، میں سنتا رہا۔ سب کا سچ ایک ہی سچ نہیں ہوتا ہے۔ ادب کا ڈسکورس کوئی ایک نظریہ طے نہیں کرسکتا۔مارکسزم کے بغیر جدیدیت فراڈ ہے۔ ترقی پسندوں نے ادب کم  پروپیگنڈہ زیادہ کیا ہے۔ لایعنیت بیمار اذہان پیدا کرتی ہے۔علامت ادب ہے لیکن چیستان خراب ادب پیدا کرتا ہے۔ یہ اور ایسے ہزاروں موضوعات پر ہم گھنٹوں باتیں کرتے تھے۔ میرے اشتعال انگیز جملوں پر وہ متانت سے اظہار ِخیال کرتے۔ ایک ایک بات کو دھیمے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کرتے۔ کبھی غصہ نہیں ہوتے اور نہ سخت رائے دینے پر منھ موڑ لیتے۔ بے شمار باتیں اور یادیں ہیں جن کا عرصہ تین دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ عرصہ بھی ہے جس میں سلام بن رزاق میری طرح بے شمار نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ میں نے ان کی طرح متوازن، سنجیدہ، مددگار، نئے اذہان کی آبیاری کرنے میں خوشی محسوس کرنے والا، اختلاف ِ رائے کا پاس رکھنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے لوگ کم دیکھے ہیں۔ان کی شخصیت میں اتنا کھلاپن اور بے ساختگی تھی کہ آپ بلاتکلف ان سے اختلاف کر سکتے تھے۔ انھیں کوئی بات پسند نہیں آئی تو برملا اظہار کر دیتے۔ ان کی اپنائیت میں کسی سطح پر کمی نہیں آتی۔ وہ ہر اس شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے جو اختلاف کے آداب سے واقف تھا۔ یہ اردو فکشن کی روایت رہی ہے اور وہ اس روایت کے آخری بڑے ادیب تھے۔

انھوں نے خود پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں جدیدیت سے اختلاف کیا۔ وہ نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے لیکن ترقی پسندی کی پرستش انھوں نے کبھی نہیں کی۔ ترقی پسندوں کی پارٹی پولیٹیکس اور ادب کو نظریے کی تبلیغ کے لیے استعمال کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ اس پر تنقید کرتے تھے۔ ابتدائی دور میں چند افسانوں میں ہیئت کا تجربہ بھی کیا لیکن جب احساس ہوا کہ ادب آدمی، ملک، سماج اور سیاست سے الگ محض ہیئت کا تجربہ نہیں ہے، محض علامت پسندی نہیں ہے، محض باطن کی فسوں کاری نہیں ہے، محض ذات کے کرب کا اظہار نہیں ہے تو جدیدیت سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اپنی فن کاری اور انفرادیت کے لیے انھیں جن لوازم کی ضرورت تھی اسے اپنے باطن اور ادب کی روایت میں تلاش کیا۔ پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت اور انتظار حسین کی روایت کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کی۔ ان کی یہ فکری تبدیلی نہ صرف ان کی افسانہ نگاری کا ایک اہم موڑ ہے بلکہ جدیدیت کے بعد کے افسانے کے لیے سنگِ میل قرار دی جا سکتی ہے۔ بمبئی اور ملک بھر کے جن افسانہ نگاروں نے 1980 کے بعد جس اعتماد کے ساتھ ترقی پسندی کی خامیوںاور جدیدیت کی گمراہیوں کو طشت از بام کیا۔ کہانی، واقعہ، قصہ، بیانیہ اور آدمی کے سماجی و سیاسی سروکار کو غیر ضروری کہنے سے انکار کیا سلام بن رزاق کی شخصیت ان میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس ادبی اختلاف کے باوجود ،وہ شمس الرحمن فاروقی کے قدردان تھے، علمیت کے قائل تھے۔ ان کا ذکر احترام اور عزت سے کرتے تھے۔ یہ توازن وہ آخری دم تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلاف کسی ایک خیال یا تصور سے ہوتا ہے،شخص سے نہیں۔ چنانچہ وہ شخصیت پر معترض ہونے کو شخصی عیب تصور کرتے تھے۔

وہ ادب کی فطری آزادی کے حق میں تھے۔ اس سوچ کے باوجود وہ ہر مذہبی شخص اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کا احترام کرتے تھے۔ دوستی رکھتے، ملتے جلتے رہتے۔ وہ لوگوں کی بنیادی آزادی کا احترام کرتے تھے۔ نئے لکھنے والوں کو تلقین کرتے تھے کہ کسی کے مذہب، مسلک اور سیاسی وابستگی پر معترض ہونے کا ہمیں حق نہیں ہے۔

سلام بن رزاق کی زندگی عام آدمی کی زندگی تھی لیکن کسی طور یہ زندگی عام نہیں تھی۔ یہ ایک وسیع القلب ، وسیع المطالعہ اور وسیع المشرب آدمی کی بے مثال زندگی ہے۔ انگریزی پر انھیں دسترس نہیں تھی لیکن مراٹھی اور ہندی ادب کی تاریخ، بالخصوص فکشن کی تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ اس کا ثبوت ان کے عمدہ اور شستہ تراجم ہیں۔ فکشن کے ساتھ ساتھ وہ ڈراموں اور فلموں سے بھی وابستہ رہے۔ ان کے افسانوں پر بھی کئی ڈرامے اسٹیج ہوئے۔ ان کے مطالعے میں جہاں عربی اورفارسی ادب شامل تھا وہیں پورانک کتھائیں، لوک روایتیں، گوتم بدھ سے منسوب کہانیاں اور زین کہانیاں  Zen Stories بھی تھیں۔ قرآن کے  ساتھ ساتھ انھوں نے گیتا، بائبل  ، وید، اپنشد ، رامائن، مہابھارت اور دوسری مذہبی و مسلکی کتابوں کا بھی مطالعہ کر رکھا تھا۔ اساطیر سے ان کی محبت نہ صرف گفتگو سے آشکار ہوتی تھی بلکہ ان کی بیشتر کہانیوں میں جس ہنر مندی اور فن کاری سے ہندوستانی اساطیر کا انھوں نے استعمال کیا ہے، اس نے ان کہانیوں کی تہہ داری میں شاندار اضافہ کیا ہے۔

ان کی بیشتر کہانیاں آدمی، سماج اور سیاست کے تکون پر قائم ہیں لیکن فن کی جمالیات کے شعور نے ان کہانیوں کو معنویت عطا کی ہے۔ پہلی نگاہ میں ان کے کردار ہمیں عام محسوس ہوں گے لیکن جب گرہیں کھلتی ہیں تو کہانی ہم پر تنوع کے ساتھ معنویت کا الگ دفتر کھولتی ہے۔ ہم ان کرداروں کی زندگی اور خیالات پر اثر انداز ہونے والے عوامل کو سمجھنے لگتے ہیں۔ ابہام کی چادر میں وہ معنی کو پوشیدہ رکھنے کے حق میں نہیں تھے۔یہی ان کا بنیادی اختلاف جدیدیت سے تھا۔ جن خیالات کا اظہار وہ اپنی تقریروں میں کیا کرتے تھے اس کا بہتر ین نمونہ ان کے افسانے ہیں۔ یہ افسانے قاری کو نہ تھکاتے ہیں ، نہ زبان کے گنجلک کھیل سے اکتاہٹ کا شکار کرتے ہیں۔نہ فارم کی احمقانہ تگڑم بازی سے قاری کو ادب سے دور کرتے ہیں۔ بلکہ زبان اور اظہار پر انھیں جو کمال حاصل تھا وہ کہانیوں کی تاثیر میں اضافہ کرتا ہے۔’ ننگی دوپہر کا سپاہی‘ سے لے کر’ زندگی افسانہ نہیں‘ ،میں جو ساٹھ ستر کہانیاں ہیں، ان میں سے بیشتر کہانیاں قاری کو زندگی سے زیادہ قریب کرتی ہیں۔ اطراف کی محرومیوں، کمیوں، نامساعد حالات، سماجی مجبوریوں، باطن کی کیفیتوں، مرد اور عورت کی نفسیاتی کیفیات کا شعور عطا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے خارجی عو امل اور عناصر کو سمجھنے کی گنجائش پیدا کرتی ہیں۔

سلام بن رزاق کی زندگی میں کئی افسانے ہیں اور اتنے ہی افسانے ان کے افسانوں کے ہیں۔ ’زندگی افسانہ نہیں‘ شائع ہوا تو ایک حلقہ بہت چراغ پا ہوا تھا۔ ان کی جدیدیت پر تنقید کے سبب ایک حلقہ ہمیشہ ان کے خلاف سرگرم رہا۔ ان کی میانہ وری سے بھی ان کے چند دوست نالہ رہے۔ لیکن وہ مسکراتے اور اپنا موقف بیان کرتے۔ ان کی شخصیت میں صبر و تحمل تھا۔ یہ صبر وتحمل ان کی کہانیوں کی ایک زیریں سطح بھی ہے۔ شخصیت کا یہ زاویہ ان کی فنکاری کی ایک اہم شناخت ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں کہیں بھی واشگاف ترقی پسند کے طور پر سامنے نہیں آتے۔ وہ مذہب ، سیاست اور ادبی نظریے کی وکالت نہیں کرتے۔ نعرہ نہیںلگاتے، روتے نہیں ہیں، چیختے نہیں ہیں۔ امپر یس کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ کہانی لکھتے رہے، کہانی نہ ہونے کی صورت میں نثر کے جوہر دکھانے کی حماقت کا شکار نہیں ہوئے۔ مجھے ایسا لگتا ہے جتنا کچھ ہم ان کی کہانیوں سے سیکھ سکتے ہیں اس سے زیادہ ہم ان کی زندگی سے سیکھ سکتے ہیں۔ ایک ایسی زندگی جو ایک کامیاب افسانہ قرار دی جاسکتی ہے۔

سلام بن رزاق کی زندگی کا افسانہ سننے اور اس سے سیکھنے کا سلسلہ اب شروع ہو رہا ہے۔ایک کامیاب ادیب کے مزاج کا توازن، اظہار رائے کی جرأت، اختلاف کا پاس رکھنے کی روایت اور مذہب و مسلک کی آزادی کا احترام ایسی کئی باتیں ہیں جو بلاشبہ ہم سلام بن رزاق کی زندگی سے سیکھ سکتے ہیں۔ہم انھیں بھول نہیں سکتے۔ کبھی نہیں۔

 

Rahman Abbas

204/A, Poonam Park

Near Haidri Chowk, Meera Road

Thane- 401107 (MS)

Mob.: 9869083296

Email.: rahmanabbas@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی اردو ادب میں خدمات، تحقیق و تنقید کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد نوشاد عالم ندوی

  ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2024 شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی پیدائش مغربی بنگال کے ضلع فرید پور کے مسورہ گائوں میں 24ستمبر 1930کو ہوئی۔وہ آٹھ س...