27/8/24

شکستہ بتوں کے درمیان: سلام بن رزاق، مضمون نگار: نورالحسنین

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

جن افسانہ نگاروں نے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں اپنی شناخت قائم کی ان میں انور خان، سلام بن رزاق، شوکت حیات، حسین الحق، عبدالصمد،شفق، علی امام نقوی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ یہ دور جدیدیت کے رجحان کا  دورتھا اس دور میں بلراج مینرا، سریندر پرکاش، احمد ہمیش، جوگندرپال،  زاہدہ حنا، رشید امجدجیسے افسانہ نگاروں کا طوطی بولتا تھا،افسانہ غور و فکر کی دعوت دیتا تھا  اور ایک نیا مزاج سامنے آرہا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ ذہین افسانہ نگاروں کے ساتھ ہی ایک ایسی جماعت بھی جدید افسانہ لکھنے لگی تھی جنھوں نے جدیدیت کو سمجھا ہی نہیں تھا اور انشائیہ کے مماثل بلکہ لایعنی تحریروں کا انبار سامنے آنے لگا تھا اور ایسے افسانے بھی رسالہ شب خون، اور جواز میں شائع ہونے لگے تھے اور کچھ ناقدین ان کا تجزیہ بھی کر رہے تھے۔ ان لوگوں نے ایک ذہین رجحان کو خود ساختہ علامتوں میں پھنسا دیاتھا، ان کی تشبیہات، استعارے قاری کی سمجھ سے بالاتر تھے۔کہانی خود کلامی اور مختلف اسالیب میں سانسیںلے رہی تھی اور ناقدین ادب کے تجزیوں اور تشریحات ہی میںکہانی اس دلہن کی طرح نہایت دھیمے لہجے میں اقرار کرتی کہ قبول ہے قبول ہے۔ مجبوراً وہ نسل جو بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں اپنی شناخت بنا رہی تھی وقت اور ضرورت کے تحت جدید رجحان کو اپنانے پر مجبور تھی۔ لیکن سلام بن رزاق جن کے مطالعے میں  ہندی ادب بھی تھا وہ اس بات کو جان چکے تھے کہ یہ رجحان اب زیادہ دیر تک باقی نہیں رہے گا اور افسانہ کروٹ بدلے گا۔ اس رجحان سے نکلنے کے لیے انھوں نے تمثیلی افسانے لکھنا شروع کیے۔ان کے ساتھ ہی ساتھ ان کے دیگر ساتھی بھی اسی قسم کے افسانے لکھنے لگے تھے اور افسانہ نگاری کا مزاج بدلنے لگا تھا۔

بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی تک پہنچتے پہنچتے جدیدیت کا خمار بھی اترنے لگا تھا۔ افسانہ خود اختراع علامتوں اور تمثیل سے باہر نکلنے لگا تھا اور کچھ اور نام اس فہرست میں جڑنے لگے تھے جن میں سید محمد اشرف، ساجد رشید، بیگ احساس، مشتاق مومن،  شموئل احمد کے ساتھ ہی ساتھ راقم اور کئی اور نام دکھائی دینے لگے تھے۔ جو افسانے کو حقیقت پسندی اور ایک نئے بیانیے سے روشناس کروارہے تھے۔ اس بیانیے میں زبان کا مزاج تو جدیدیت سے قریب تر تھا لیکن ماجرا سازی اور کردار نگاری ترقی پسند تحریک سے لی گئی تھی۔ نیا افسانہ ماجرا، کردار، حسب ضرورت علامتوں اور تشبیہات کی شمولیت کے ساتھ اپنا سفر طے کرنے لگا تھا۔افسانے کا یہ مزاج پھر ایک بار قاری کو واپس لانے کے قابل ہوگیا تھا۔ 

یہاں تک پہنچتے پہنچتے سلام بن رزاق کے دو افسانوی مجموعے ننگی دوپہر کا سپاہی، اور معبر  شائع ہو چکے تھے۔ جنھیں ناقدین ادب اور قارئین نے نہ صرف پسند کیا تھا بلکہ سلام بن رزاق کے سر وہ مقبولیت کا تاج رکھ دیا تھا جو آج تک بھی ان ہی کے سر پر موجود ہے۔ اس مضمون میں میں ان کے تیسرے افسانوں کے مجموعے ’ شکستہ بتوں کے درمیان ‘کے افسانوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا کیونکہ ان کے مذکورہ دونوں مجموعوں  کے افسانوں پر تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں۔

سلام بن رزاق کا  سفر اپنے تیسرے افسانوں کے مجموعے تک پہنچتے پہنچتے بیانیہ کے اس مزاج تک پہنچ گیا تھا جو مطالعاتی وصف کی جمالیات، لفظوں کے دروبست کی خوبیوں اور ماجرے کے تجسس میں قاری کو کس طرح الجھا کر افسانے کی آخری سطر تک لے جایاجا سکتا ہے۔ ان کے اس مجموعے میں جملہ 16 افسانے شامل ہیںلیکن موضوعاتی سطح پر ان میں بھی قومی یکجہتی، عام آدمی کا استحصال، عدم تحفظ کا احساس، فرقہ واریت اور تنہائی کا احساس، نیا معاشرتی نظام اور اس نئے نظام سے جوجھتا ہوا فرد وغیرہ شامل ہیں۔ اس مجموعے میں شامل افسانے ’اندیشہ ‘  اور ’شکستہ بتوں کے درمیان ‘ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے تعاقب میں دکھائی دیتے ہیں۔ نفرتوں کے مختلف انداز، فسادات اور تحفظ کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے اب ہر فرقہ اپنی ایک الگ کالونی بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ محفوظ زندگی بسر کر سکے۔ اب اس قسم کی کالونی دیکھنے کو بہت کم ملتی ہے جس میں ہندو، مسلمان، بودھ، عیسائی اور سکھ ایک ساتھ ہی رہتے ہوں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوں، عیدین اور تہواروں پر سچے دل سے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوں۔

افسانہ ’اندیشہ ‘کا مرکزی کردار رضی الدین جب اپنی ملازمت سے وظیفے پر سبکدوش ہوتا ہے تو اپنے لیے ایک سستا سا مکان بنانا چاہتا ہے لیکن بیوی اور لڑکوں کا اصرار ہے کہ مکان کسی ایسی جگہ بنوایا جائے جہاں پر مسلمانوں کی بڑی آبادی ہو، شہر میں کبھی بھی فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ پچھلے بار ہی کس مصیبت سے سامنا ہوا تھا ؟ یاد ہے نا؟ اس کے بعد وہ اپنے دوستوں سے مشورہ کرتا  ہے۔جو اس کی طرح ہی بزرگ ہیں۔ اس گفتگو کو ملاحظہ فرمائیں:

’’نہیں یہ بات نہیں ہے۔ سستا مکان عظمت نگر کے آس پاس شاستری نگر یا جنتا کالونی میں بھی مل سکتا ہے۔ مگر شیخ صاحب وہاں مکان اس لیے نہیں لیا جاسکتا کہ وہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے اور عظمت نگر میں سو فیصد مسلم آبادی ہے۔ ‘‘

’’ارے یار! تو اس میں کیا برائی ہے۔ہر شخص اپنوں کے درمیان ہی تو رہنا چاہتا ہے۔‘‘ گپتا نے پھر وکالت کی۔

’’گپتا  ! یہی اپنوں والی بات تو ہمیں ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ ہم دھیرے دھیرے اپنے ہی گھر میں دیواریں کھڑی کر رہے ہیں۔ ہمارے ذہنوں سے انسانی برادری کا آفاقی تصور ختم ہو تا جا رہا ہے۔ ہم ہندو، مسلم، مراٹھا، گجراتی، پنجابی  اور کشمیری جیسے ذیلی ناموں سے پکارا جانا پسند کرنے لگے ہیں۔ملک غیر محسوس طور پر خانوں میں بٹتا جا رہا ہے۔ یہ رجحان یقیناً پوری قوم کو پارہ پارہ کردے گا۔ ‘‘  (افسانہ: اندیشہ، کتاب،  شکستہ بتوں کے درمیان،  ص6)

معمر افراد اگرچہ اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتے لیکن حالات اور اولاد کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ رضی الدین  اپنا مکان عظمت نگر میں بنوالیتے ہیں جو شہر سے دور ہے لیکن خالص مسلمانوں کی بستی ہے۔یہاں ایک بڑی سی مسجد بھی ہے جس میں مسلمان پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں خود رضی الدین بھی پہلے پابندی سے جاتے تھے۔ لیکن انھیں اپنے دوستوں کی یاد ستاتی ہے اور وہ ان سے ملنے کے لیے بس گاڑی میں دھکے کھاتے ہوئے جاتے ہیں۔ بعد میں ایک سائیکل خرید لیتے ہیں۔ ایک روز انھیں واپسی میں دیر ہوجاتی ہے وہ بھاجی ترکاری اور کچھ کھانے پینے کا سامان لے کر عظمت نگر لوٹ رہے تھے اندھیرے میں کتّے انھیں بھونکتے ہیں بلکہ پیچھا کرتے ہیں اور وہ گرجاتے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ رات کو کتوں کا بھونکنا اور حملہ کرنا یہ ان کی جبلت ہے۔ پھر یہ کتے شہر کے نہیں اسی عظمت نگر کے ہیں۔ وہ علامت نہیں بن سکے۔ کسی بھی پلاٹ پر مشاقی تو کہانی تیار کر سکتی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کا پلاٹ ذہن میں آسکتا ہے لیکن اس پر جس قسم کی کہانی لکھی جانا چاہیے تھی وہ نہیں بن سکی۔ ہم نے شروع ہی میں کہا کہ افسانہ ’ اندیشہ‘ اور ’ شکستہ بتوں کے درمیان ‘ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے تعاقب میں دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں کہانیاں اقدار کے بکھرنے کا سبب بیان کرتی ہیں۔ وہ لوگ جو ممبئی میں رہتے ہیں وہاں پر اکثر نوجوان اپنے فن کا مظاہرہ پبلک اسپاٹ پر کرتے ہیں کوئی اپنی اداکاری کا مظاہرہ کرتا ہے تو کوئی ڈانس کا، ریت پر مجسمے بنا کر یا ڈرائنگ بنا کر لوگوں کو متوجہ کرتے رہتے ہیں اور دیکھنے والے کچھ روپیہ ان کے سامنے پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ اِن مناظر نے سلام بن رزاق کو ایک کہانی کا پلاٹ عطا کیا ہے۔

کہانی کچھ اس طرح ہے کہ سمندر کنارے مختلف کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ہی کچھ فنکار بڑی عجیب عجیب پینٹنگ بھی بناتے ہیں ریت کے مجسمے بھی بناتے ہیں ایک روز مائیکل نامی ایک نوجوان ریت پر ایک خوب صورت بچے کا مجسمہ بناتا ہے،جس کے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اٹھے ہوئے ہیں گویا وہ چاند کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہیں پر ایک بوڑھا مجسمہ ساز بھی آجاتا ہے۔ اسے مائیکل کی فنکاری بہت متاثر کرتی ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ اپنے اسٹوڈیو لے کر آتا ہے جہاں بوڑھے کے بنائے ہوئے بہت سارے مکمل، ادھورے مجسمے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اسے انھیں مکمل کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ نوجوان اپنی ساری صلاحیتیں صرف کرکے انھیں مکمل کرتا ہے۔یہاں تک کہ وہ شہرت کی بلندیوں کو پالیتا ہے۔ ایک دن وہ اپنے اسٹوڈیو میں آتا ہے اپنے بنائے ہوئے مجسموں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ ان بتوں کے درمیان وہ خود بھی ایک بت بن کر رہ گیا ہے۔یہیں سے افسانہ ایک نیا رخ بدلتا ہے۔

’’اس نے حسرت سے اپنے اسٹوڈیو اور شکستہ، نیم شکستہ بتوں پر ایک نظر ڈالی اور لاٹھی ٹیک کر کھڑا ہوگیا۔ وہ لاٹھی ٹیکتا ہوا اسٹوڈیو کے باہر نکل آیا۔دھوپ سے اس کی بوڑھی آنکھیں چندھیانے لگیں۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ہتھیلی کا چھجا بنا کر آنکھوں کو دھوپ سے بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ لاٹھی ٹیکتا اور کھٹ کھٹ کی آواز کرتا شہر کی گلیوں، فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر چلتا رہا۔ شہر بدل چکا تھا۔ پرانے مکانوں کی جگہ اونچی اونچی عمارتیں بن گئی تھیں۔ اور اونچی عمارتیں اور بھی اونچی ہوگئی تھیں۔ سڑکیں کشادہ اور فٹ پاتھ کشادہ ہوگئے تھے۔بڑی بڑی دکانیں کھل گئی تھیں۔دکانوں کی رونق بڑھ گئی تھی۔ گہما گہمی میں اضافہ ہوگیا تھا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ لوگوں کے قد گھٹ گئے تھے۔ مرد عورت، بوڑھے جوان کسی کا بھی قد تین چار فٹ سے زیادہ نہیں تھا... سب اپنے اپنے کاروبار میں ایسے محو تھے کہ کسی  سے کسی کو واسطہ نہیں تھا۔ اسے بچے کہیں نظر نہیں آئے۔ ‘‘

(افسانہ: شکستہ بتوں کے درمیان، کتاب، شکستہ بتوں کے درمیان، ص49)

یہ ایک تہہ دار افسانہ ہے اور کہانی کے اندر سے بننے والی علامتیںقاری کے ذہن میں آپ ہی آپ سوال بننے لگتی ہیں۔ مثلاً لوگوں کے قد کیوں چھوٹے ہو گئے تھے اور بچے کہاں چلے گئے تھے یا بچے تھے ہی نہیں؟ افسانہ جواب دیتا ہے کہ لوگوں کے قد اس لیے گھٹ گئے تھے کہ وہ اپنی قدروں سے دور ہو گئے تھے جس کی وجہ سے  بستی میں بے حسی  پیدا ہو گئی تھی۔ کوئی کسی کے حال چال دریافت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ بچوں کا غائب ہوجانا یعنی شہر سے معصومیت اور اخلاق کے خاتمے کا سبب ہے۔

سلام بن رزاق کی کہانیوں کا اختتام قاری کی سوچ پر  نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے اس مقام پر پہنچاتے ہیں جو اکثر اس کی سوچ سے پرے ہوتا ہے۔ بوڑھا قدم آگے بڑھاتا ہے اور سمندر کے ساحل پر پہنچتا ہے جہاں پھر کسی نوجوان فنکار نے وہی بچہ بنایا ہے جس کے ہاتھ اوپر اٹھے ہوئے ہیں اور وہ چاند کو چھونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور اس کو بنانے والا مرگیا ہے اور اس کی لاش پر لوگ پیسے پھینک رہے ہیں۔

بچہ یہاں پھر ایک نئی علامت کا روپ لیتا ہے کہ بچہ دراصل انسان ہے اور فنکار اس کا خالق، اور بوڑھا مائیکل وقت کی علامت ہے اور انسان خواہشات کا پتلا ہے۔ چاند کو پکڑنا یا چھونا دراصل وہ خواہشات ہیں جن کی کبھی تکمیل نہیں ہوسکتی۔

فساد کے موضوع پر ان کا ایک اور افسانہ ’چادر‘ ہے جس کا تعلق 1992 میں ممبئی میں ہونے والے بھیانک ترین فسادپر ہے بقول سلام بن رزاق یہ کہانی جو حقیقت پر مبنی ہے ان کے ایک دوست نے سنائی تھی، وہ جب بھی اسے لکھنے کی کوشش کرتے ظلم و جبریت کے واقعات ان کو لرزا دیتے اور کہانی ادھوری رہ جاتی آخر اس کہانی کو انھوں نے1996 میں لکھا تھا۔ یہ کہانی آج بھی قاری کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ 

سلام بن رزاق نے بعض افسانے ضرورت کے تحت بھی لکھے جن میں ’دوسرا قتل، بنارسی ساڑی  اور ’ ہدف ‘ جیسے افسانے شا مل ہیں۔ جو افسانے فرمائش پر یا ضرورت کے تحت ہوتے ہیں ان میں کوئی گہرائی وگیرائی نہیں ہوتی، بس وہ بیانیہ کی عمدہ مثال ہوتے ہیں چنانچہ افسانہ ’دوسرا قتل‘ ایک نہایت کمزور افسانہ ہے۔ یہ ایک دولتمند انسان کی کہانی ہے جس کا مقصد محض دولت کمانا ہے۔ خوب دولت کمانے کے بعد اس کی نظریں اپنے دوست کی دولت پر پڑتی ہیں۔ وہ اس کی بیوی کو اپنی محبت کے جال میں پھانستا ہے اور آخر ایک دن اپنے دوست کو اس کی بیوی کی مدد سے قتل کر دیتا ہے۔ کچھ دن کے بعد اسے پچھتاوا ہوتا ہے اور ایک دن وہ خود بھی اپنے آپ کو قتل کر دیتا ہے۔ یہ ایک کمزور کہانی ہے اور تنقید نے اس کہانی پر زبان بھی نہیں کھولی، دوسری کہانی ’بنارسی ساڑی‘ بھی ایک گھریلو کہانی ہے اورافسانہ ’ہدف‘ فقیروں پر لکھی ہوئی ایک کہانی ہے۔

اِس کے علاوہ بھی اس افسانوں کے مجموعے میں کچھ اور بھی کہانیاں شامل ہیں جیسے ’آندھی میں چراغ ‘ اور ’آوازگریہ ‘ پہلی کہانی کا موضوع بے حد اہم ہے۔ فسادات کے بعد کے حالات، جوان بیٹے کی شہادت، جوان بیوی، ایک ننھا سا معصوم بیٹا، اور گھرکی  ساری ذمے داریاں ایک ضعیف اور ناتواں کے کندھوں پر۔خاندان میں مرکز نظر ایک شادی شدہ بھتیجہ اس کے دو بچے جو گاؤں سے دور ممبئی میں رہتا ہو۔ یہی کہانی کے کردار ہیں جن کے اطراف سلام بن رزاق نے ایک طویل کہانی کو بنا ہے۔ اس میں خاندانی محبتیں بھی ہیں، اپنی اپنی ذمے داریاں بھی ہیں اور ایک آفت ِ ناگہانی بھی ہے۔

یہ وہ زمانہ ہے جب ملک میں بار بار فسادات ہو رہے تھے اور مسلمان اِس ظلم کو بار بار جھیل رہے تھے۔ رضوان کو ممبئی میں اطلاع ملتی ہے کہ دھرم پور میں پھر ایک بار فساد ہوا ہے۔ وہ اپنے اکلوتے چچا ہاشم علی اور ان کے لواحقین کی خیریت جاننے کے لیے دھرم پور پہنچتا ہے۔ اس بار سب ہی خیریت سے تھے لیکن دوسال پہلے جو فساد ہوا تھا اس میں اس کا نوجوان چچا زاد بھائی ارشد مارا گیا تھا۔اس کی نوجوان بیوی اس کے سامنے سفید لباس میں دکھائی دیتی ہے، اسے  اس روپ میں دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ فساد تھم گیا تھا لیکن اب بھی کرفیو جاری تھا۔ چچا ہاشم علی اس کرفیو میں بھی عشا کی نماز پڑھنے اپنی خاندانی مسجد میں جاتے  کیونکہ وہ گھر سے بہت قریب ہے۔ تین دن کے بعد رضوان ممبئی واپس ہو جاتا ہے  اور اپنے بیوی بچوں میںمصروف ہوجاتا ہے۔

کچھ دنوں کے بعد دھرم پور میں پھر فساد ہوجاتا ہے اور ہاشم چچا کا خط رضوان کو ملتا ہے کہ وہ جلد آنے کی کوشش کرے اور وہ پھر ایک بار گاؤں پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بار گھر پر بھی حملے کی کوشش کی گئی تھی بلکہ جلانے کی کوشش بھی ہوئی تھی لیکن ارشد کے ہندو دوست وکرم نے بہت ساتھ دیا تھا۔ رضوان کو وکرم یاد آتا ہے کہ ارشد کی موت کے بعد جب وہ گاؤں آیا تھا تو اس سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور اس نے کہا تھا :

’’  رضوان بھائی ! آپ وشواس رکھیے۔میں پوری کوشش کروں گا ارشد کے قاتلوں کا پتہ چلانے کی۔ ‘‘

’’ وکرم صاحب ! اب اِس غیر ضروری تسلی سے کوئی فائدہ نہیں آج تک فسادات میں قتل کرنے والوں کا کبھی کوئی سراغ ملا ہے جو آپ کو مل جائے گا۔ آپ کس کس کو پکڑیں گے اور سزا دیں گے اور پھر قاتلوں کو پکڑ بھی لیں تو آپ میرا بھائی تو مجھے لوٹا نہیں سکتے۔ نہیں وکرم صاحب نہیں...  آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ ‘‘

وکرم شاید اس کے لہجے کی تلخی کو بھانپ گیا تھا، نادم ہوکر بولا، ’’میں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں رضوان بھائی... ارشد آپ ہی کا نہیں میرا بھی بھائی تھا۔ اس کی موت سے میرا بھی ایک بازو کٹ گیا ہے۔اس کے باوجود آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔ ‘‘

(افسانہ، آندھی میں چراغ، کتاب، شکستہ بتوں کے درمیان، ص35)

فسادات کیوں ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے کیا مقاصد ہوتے ہیں سلام نے نہایت واضح انداز میں اس کی پول کھول دی ہے۔

جس مقصد کے لیے رضوان کو ہاشم علی نے بلوایا تھا وہ اسے بتاتے ہیں کہ ان فسادات نے زندگی اجیرن کر دیا ہے۔ خاندانی مسجد جسے اس کے پرکھوں نے بنوایا تھا وہ اب بہت شکستہ ہوچکی ہے، وہ کسی بھی وقت ڈھے سکتی ہے لیکن مجھے اس کا خوف نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ کا گھر ہے وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ میں نے فیصلہ کیاہے کہ میں اپنی کھیتی باڑی کو بیچ دیتا ہوں جس سے مجھے پانچ لاکھ روپیہ آئے گا۔ وہ رقم میں صحیفہ ( راشد کی بیوہ ) اور بچے کے نام جمع کردوں گا، اور میری خواہش ہے کہ تم اس سے نکاح کر لو اور اسے اور اس کے بچے کو یہاں سے ممبئی لے کر چلے جاؤ اور منا کو خوب پڑھاؤ لکھاؤ۔ رضوان یہ بات سن کر سکتے میں آجاتا ہے تو چچا بتاتے ہیں میں نے اس کے لیے صحیفہ کو بھی راضی کر لیا ہے۔ رضوان اسی وقت صحیفہ کی طرف دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے جیسے اس کی آنکھیں حیا سے بند ہو رہی ہیں۔ رضوان کی خاموشی دیکھ کر چچا کہتے ہیں تم ممبئی جاؤ اور تمھاری بیوی کو بھی سمجھاؤ  مجھے یقین ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے وہ راضی ہوجائے گی۔

دوسرے دن رضوان ممبئی کے لیے روانہ ہوجاتا ہے اور جیسے ہی اس کا رکشہ ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوتا ہے صحیفہ اسے الوداع کہتی ہے۔ لیکن وہ سوچتا ہے :

 ’’ رکشہ گھر کے پچھواڑے سے گھوم کر بڑی سڑک پر چلا تو اس نے دیکھا کہ پچھواڑے کے دروازے میں صحیفہ منے کو گود میں لیے کھڑی اس کے رکشے کی طرف دیکھ رہی ہے۔اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے خدا حافظ کہا ں وہ بھی منے کا ہاتھ ہاتھ میں لیے الوداع کہہ رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی مسکراہٹ تھی اس کا رکشہ پھٹ پھٹ کرتا تیزی سے اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا مگر اسے لگ رہا تھا کوئی زبردست قوت اسے پیچھے کی طرف کھینچ رہی ہے۔ صحیفہ اور منا کا چہرہ بار بار اس کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا صحیفہ ہاتھ ہلا کر اسے الوداع کہہ رہی تھی۔مگر وہ اسے الوداع کہاں کہہ رہی تھی وہ تو اسے واپس بلا رہی تھی۔ اس کے دل میں ہوک سی اٹھی اسے روزی اور بچے یاد آگئے معاً روزی کے غصے سے تمتمایا ہوا چہرہ اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ وہ کسی خونخوار شیرنی کی طرح بپھری ہوئی تھی۔ اور صحیفہ کا چہرہ دھندلانے لگا تھا۔ مگر وہ دھندلاتے دھندلاتے بھی سات پردوں سے روزی کے چہرے پر امپوز ہورہا تھا۔ اس کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں اور سینے میں ایک تلاطم سا پیدا ہوا، اچانک اسے لگا وہ رونا چاہتا ہے، پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتا ہے۔اس نے محسوس کیا ہزار ضبط کے باوجود آنسووں کا ایک تیز وتند سیلاب اس کی پلکوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ‘‘

(افسانہ،  آندھی میں چراغ، کتاب، شکستہ بتوں کے درمیان، ص45)

سلام بن رزاق کی یہ ایک بہت عمدہ کہانی بن سکتی تھی لیکن غیر ضروری طوالت اور جزئیات نگاری نے اس کے تاثر کی شدت کو قاری پر حاوی ہونے نہیں دیا۔ اسی طرح افسانہ ’ آواز گریہ‘ کا بھی یہی حال ہوا۔

سلام بن رزاق کا ایک افسانہ جس کا عنوان ’خبر ‘ ہے۔ یہ افسانہ ان کی سیاسی بصیرت کا ایک عمدہ افسانہ ہے کہ سیاست داں اور انتظامیہ کا سربراہ بھولی بھالی عوام کو کس طرح اصل موضوع سے بہلا کر ان کی توجہ دوسری طرف بھٹکا دیتے ہیں۔یہ پورا افسانہ مکالموں کے ذریعے مکمل ہوا ہے۔

سلام بن رزاق کے تیسرے افسانوں کے مجموعے کے چند اہم افسانوں پر ہم نے گفتگو کی ہے۔ ا ن  میں بعض افسانے یقینا بہت عمدہ ہیں۔ ان افسانوں میں سلام نے منظر نگاری اور کردار سازی میں اپنا کمال دکھایا ہے۔ ان کا بیانیہ بے حد کسا ہوا ہے۔ اور حقیقت پسندانہ اسلوب اختیار کرنے کے باوجود بھی علامتیں در آتی ہیں جو افسانے میں گہرائی وگیرائی پیدا کرتی ہیں۔ ان کی نثر رس دار ہے الفاظ کا استعمال وہ بہت سوچ سمجھ کے سا تھ کرتے ہیں جس کی وجہ سے تحریر میں مطالعاتی وصف پیدا ہوجاتا ہے اور قاری ایک بیٹھک ہی میں پورا افسانہ پڑھ لیتا ہے۔یہ سلام بن رزاق کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

 

Noorul Husnain

1- 12- 31, Pragati Colony

Ghai, Aurangabad - 431001 ( M.S )

Mob.: 9284606318

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

تاریخ گوئی: فن اصول اور روایت، مضمون نگار: عبد القوی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 اردوادب اور فنِ ریاضی سے بیک وقت شغف رکھنے والے حضرات/شعرا کے لیے فن تاریخ گوئی نہایت عمدہ اور دلچسپ فن ہے۔ یہ فن...