27/8/24

سلام کی سادگی کو سلام، مضمون نگار: غضنفر

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024



جس وقت اردو کہانی لکھی تو جا رہی تھی مگر پڑھی اور سنی نہیں جا رہی تھی کہ کہانی شروع کرتے ہی قاری کے ذہن کے تار جھنجھنانے لگتے،اس کے دماغ کی ہڈیاں چٹخنے لگتیں اور اس کا ہاضمہ خراب ہو جاتا،اس وقت بھی ایک آدھ جائے پناہ موجود تھی۔ جہاں کہانیاں سر سہلا دیا کرتی تھیں۔ یہ ان معدودِ چند ایسے افسانہ نگاروں کی کہانیاں تھیں جن پر وقت کی ادبی و ثقافتی آندھی کا دباؤ تو تھا مگر وہ اس آندھی میں بہہ نہیں گئے، وہ جھکڑوں کی سیلیوں کے باوجود جڑ سے اکھڑے نہیں۔آندھی کے اس زور و شور میں بھی وہ اپنی روش پر قائم رہے۔اور قاری کی افسانوی پیاس بجھانے کا جتن کرتے رہے۔ جو افسانوی پیڑ جدیدیت کی آندھی میں نہیں اکھڑے ان میں ایک سلام بن رزاق بھی تھے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جن دنوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو  میں ریسرچ کر رہا تھا، جدیدیت کے زیرِسایہ جنمے افسانوں کا بڑا زور تھا۔ ہم اکثر  جدیدیوں کے افسانے مشترکہ طور پر پڑھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے جن میں میرے ساتھ طارق چھتاری، خورشید احمد، شارق ادیب، پیغام آفاقی، نسیم صدیقی غیاث الرحمان وغیرہ بھی ہوا کرتے تھے۔ اپنی مختصر سی مخصوص محفل میں خاص طور پر قمرا حسن کو سمجھنے کے لیے ہم ان کا کوئی افسانہ لے کر بیٹھ جاتے۔  افسانے کی پیشکش، اس کے تھیم ، اس کے ڈکشن  اس کی بنت پر خوب غور کرتے۔ہم سبھی اپنا اپنا دماغ لگاتے۔اس زمانے کے مشہور و مقبول فکشن پارکھی مہدی جعفر کے تجزیوں کے چراغ بھی سامنے رکھتے پھر بھی قمر احسن کے شیر ِآہو خانہ کے افسانے : اسپ کشت مات۔1 اسپ کشت مات - 2 کوڑھی کی مٹھی میں سور کی ہڈی، ہڈی کی مٹھی میں سور کا کوڑھی،نمودپر شکستہ شب، الطارق الطارق وغیرہ افسانوں کے خط و خال، اس کے رنگ روپ وغیرہ کو دیکھ نہیں پاتے تھے۔ زیادہ زور لگاتے تھے تو واقعی ہمارے دماغ کی ہڈیاں بھی چٹخنے لگتیں۔ذہن ماؤف ہوجاتا،طبیعت مکدر ہو جاتی۔ ہمارا احساس ایک عجیب و غریب قسم کی کیفیت سے گزرنے لگتا۔ ایسے میں ہم یا تو اقبال مجید کے افسانوں کی طرف رخ کرتے  یا سلام بن رزاق کی کہانیوں کی جانب  بڑھ جاتے۔ زیادہ تر  ہمارے قدم سلام بن رزاق کے افسانوں کی طرف بڑھتے کہ سلام بن رزاق اسی دور سے تعلق رکھتے تھے جس دور سے قمر احسن اور ان کے قبیل کے افسانہ نگاروں احمد ہمیش، بلراج مین را، سریندر پرکاش،حمید سہروردی وغیرہ کا تعلق تھا۔ سلام تک پہنچنے کے پیچھے منطق شاید یہ ہوتی کہ سبھی ایک ہی زمانے میں لکھ رہے تھے اور سبھی کا تعلق جدیدیت سے تھا مگر ایک کی کہانیاں ذرا سی محنت کے بعد سمجھ میں آ جاتیں  اور دوسروں کی کہانیاں پورا زور لگانے کے باوجود بھی کھل نہیں پاتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان پر کیے گئے تجزیے بھی ان کے مفاہیم کو واضح نہیں کرپاتے تھے۔

جب ہم نے غور کیا کہ آخر کیا بات ہے کہ ایک کی تحریر تو سمجھ میں آجاتی ہے اور دوسرے کی تحریر لاکھ کوشش کے باوجود سمجھ میں نہیں آتی توہماری نظریں دونوں کی زبان پر رک گئیں :

اندازہ ہوا کہ سلام بن زراق کی زبان،آسان ,سہل رواں ، واضح اور غیر مبہم ہے جب کہ احسن کی زبان مشکل ادق، پیچیدہ اور مبہم ہے۔مثلاً:

’’شکست خوردہ فوج کی ٹکڑی کے زخم سپاہیوں کو چھوڑ کر وہ بہت آگے نکل گئے۔ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑی ہوئی گرد نہ جانے کب کی ٹھنڈی ہو گئی۔ انھوں نے دھندلی نظروں اور سن کانوں سے شیروں اور بھیڑیوں کے ریت پر سرکنے کی سرسراہٹ محسوس کی تو بے چارگی سے مسکرا کر رہ گئے۔ لہریں کبھی صف بستہ گھوڑوں کی قطاریں بن کران کی طرف دوڑیں اور کبھی بادلہ پوش علم کی شکل اختیار کر لیتیں جن کے پھریرے لہر بہ لہر چکرا رہے تھے۔کبھی پھر وہی پْراسرار سرسراہٹ جیسے لا تعداد درندے ان کی بو کی طرف ہیبت ناک خاموشی اور چالاکی سے بڑھتے چلے آ رہے ہوں۔‘‘

(نمود پر شکستہ شب : شیر آہو خانہ : قمر احسن ص 69)

————

’’دیواروں پر ہزاروں  مٹ میلے،ہلکے زرد، لمبے نیم مردہ کیچوے چپکے ہوئے تھے۔دیواریں چھلنی ہوئی جا رہی تھیں۔

جیسے انھیں لونا لگ گیا ہو۔جب کبھی یہ ختم ہوں گے تو دیوار کس قدر مکروہ، لچکیلے، جالی دار خانوں سے بھری ہوگی۔ اس نے دیوار کو دیکھا اور پھپھک کر رو پڑا... میں کب کسی کے لیے کار آمد رہا ہوں۔میں نحس تاریخ اور نحس گھڑی کی پیدائش ،ساری زندگی مجھے غم و آلام کا شکار رہنا ہے۔(اماں ! تمھیں میرے وجود کے علاوہ میری زبان سے بھی دکھ پہنچے ہیں اور تم بلک بلک کر روئی ہو میری ماں ہونے کے باوجود) اچانک وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا پھر گھور گھور کرسارے کمرے کو دیکھا۔ قمیض کا دامن اٹھایا اور اپنے پھولتے بڑھتے پیٹ کوسہلانے لگا۔   اس نے دیکھا کہ وہی گھوڑا تڑاخ تڑاخ جنگل اور پہاڑی میں دوڑ رہا ہے۔ جہاں جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہوتیں  وہاں وہ چوہا بن کر پھدک کر نکل جاتا اور جہاں دلدل آتی تھی وہاں وہ کیچوا بن کر رینگ کر باہر نکل آتا۔‘‘

(اسپ کشت مات 2،شیر آہو خانہ،قمر احسن ص33)

’’یک لویہ نے جھٹ سے کمان سیدھی کی۔ترکش سے تیرکھینچا اور اپنی مضطرب نگاہوں سے ا ِدھر ادھر تاکا۔آسمان پر ایک مرغابی اڑتی جا رہی تھی۔ بھیل بچے نے بجلی کی سرعت کے ساتھ تیر کمان پر چڑھایا۔بایاں پاؤں آگے رکھا، دائیں پاؤں کا گھٹنا زمین پر ٹیکا اور نشانہ باندھ کر چلہ چھوڑ دیا۔تیر سنسناتا ہوا نکلا اور چشم زدن میں مرغابی تیر میں بند پھڑپھڑاتی یک لویہ کے قدموں میں آ گری۔‘‘

(یک لویہ: سلام بن رزاق : اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں ،مرتبہ ڈاکٹر رمیشا قمر ص35)

————

’’  کہتے ہیں بستی کے پاس ہی ایک گھنے پیڑ پر ایک پری رہتی تھی۔ ننھی منی،موہنی صورت اور معصوم سیرت والی، گلابی آنکھوں اور شہابی ہونٹ سنہرے بالوں اور سرخ گالوں والی پری۔پری گاؤں والوں پر بڑی مہربان تھی۔ وہ اکثر  اپنے چمک دار پروں کے ساتھ اڑتی ہوئی آتی اور ان کے روتے ہوئے بچوں کو گدگدا کر ہنسا دیتی۔ لڑکیوں کے ساتھ ساون کے جھولے جھولتی، آنکھ مچولی کھیلتی، لڑکے بالوں کے ساتھ پیڑوں پر چڑھتی، ندی میں تیرتی،کبھی کبھی کسی کے کھلیان کو اناجوں سے بھر دیتی، کبھی کسی کے آنگن میں رنگ برنگے پھول کھلا دیتی...بستی والے بھی اس کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ اگر وہ ایک دن بھی دکھائی نہیں دیتی تو وہ بے چین ہو جاتے۔ ‘‘

(ایک جھوٹی سچی کہانی: سلام بن رزاق، اردو کے مختصر افسانے، مرتبہ: صغیر افراہیم، ص 265)

————

ابتدائی دو اقتباسات قمر احسن کے افسانوں سے اخذ کیے گئے ہیں اور بعد کے دو اقتباسات سلام بن رزاق کی کہانیوں سے لیے گئے ہیں۔

دونوں فن کاروں کی زبان ،ان کی لفظیات ، لفظوں کی ترتیب  اور جملوں کی ساخت  سے صاف پتا چلتا ہے کہ کس کے یہاں وسیلۂ اظہار صاف ستھرا، سہل ،  سہج اور رواں دواں ہے اور کس کا پیرایۂ بیان  پیچیدہ ،مشکل مبہم اور الجھا ہوا ہے۔

گہرائی سے غور کرنے پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ افسانوی نگارش کی زبان وہ نہیں ہوتی جو کسی غیر افسانوی  یاعلمی و فلسفیانہ تحریر کی ہوتی ہے۔اس لیے کہ کہانی کی زبان کا بنیادی منشا  لطف و انبساط کی فراہمی، بیداریِ احساس، بالیدگیِ ادراک و شعور اور تزکیۂ نفس  ہے۔اس کے لیے کہانی کار کو وہ وہ کرنا پڑتا ہے جن سے علمی زبان اور فلسفیانہ اظہار میں بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ سعی اس لیے کی جاتی ہے کہ اگر وہ کیا گیا جو کہانی کی زبان میں کیا جاتا ہے تو علمی تحریر کے اظہار میں بیڑیاں پڑ جائیں۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگ جائیں۔ اس کے ذہن کو لقوہ مار جائے۔اس کی زبان اینٹھ جائے اور اس کا مقصد فوت ہو جائے۔کیونکہ علمی زبان کا مقصد ہوتا ہے کہ معلومات کی ترسیل آسانی سے ہو جائے۔اس کی راہ میں کسی قسم کی کوئی اڑچن نہ آئے۔ اگر یہاں تشبیہ استعارے اور صنائع بدائع کی پریاں اتر گئیں یا اتار دی گئیں تو موضوع و مواد کا آگے بڑھنا دشوار ہو جائے گا۔

اور اگر علامتیں شامل کر دی گئیں تو ممکن ہے ا ظہار کا کھلنا بھی دشوار ہوجائے۔   جبکہ کہانی کی زبان عام زبان نہیں ہوتی۔ وہ کسی اہم خبر کو اس طرح نہیں سناتی کہ میں ایک چونکانے والی یا حیرت میں ڈالنے والی خبر لایا ہوں۔   بلکہ یوں سناتی ہے :

’’ لا،  ہاتھ دے ،ایسی خبر سناؤں تیری گنجی کھوپڑی پر بال اُگ آئیں۔ ‘‘

تخلیقی زبان فکر مند، بیمار اور لاغر ابّا کو یہ نہیں کہتی کہ ابا دبلے پتلے ہوگئے ہیں بلکہ ان کی اس حالت کو اس طرح بیان کرتی ہے:

’’ابا کتنے دبلے پتلے لمبے  جیسے محرم کا علم ایک بار جھک جاتے تو سیدھے کھڑا ہونا دشوار تھا۔ ‘‘

پریم چند کی تخلیقی زبان کفن کے بے درد، خود غرض اور بے حس کرداروں گھیسو اور مادھو کے بارے میں یہ نہیں کہتی کہ وہ آلو کھا کر اطمینان اور بے فکری سے سو گئے  بلکہ یہ کہتی ہے :

’’آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پاؤں پیٹ میں ڈالے سو رہے تھے جیسے دو بڑے اژدر کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔ ‘‘

اس زبان میں ان کی بے حسی اور بے فکری کا بیان ہی نہیں ہے بلکہ ان کی طینت کی سفاکی کی عکاسی بھی ہے اور ان کو انسان سے سانپ بنا دینے والی صورت کی تصویر کشی اور معصوم عورت کی چھٹپٹاہٹ کی مصوری بھی۔

تخلیقی زبان کا حسن دیکھنا ہو اور اس حسن سے حواس میں حرکت و حرارت محسوس کرنا ہو تو ان نمونوں پر بھی نگاہیں مرکوز کیجیے :

’’نام کی گوری تھی مگر کم بخت سیاہ بہت تھی، جیسے الٹے توے پر کسی پھوہڑیا نے پراٹھے تل کر چمکتا چھوڑ دیا ہو۔‘‘

————

’’اس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں،پتنگ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جدا ہو جائے۔ دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت ابھرا ہوا تھا جو بار بار مونڈنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کر گیا تھا جیسے نچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔ ‘‘

————

’’وہ گا رہی تھی۔ اس کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ ان کے سینوں میں دل تڑپ اٹھے... لوگ حیرت سے آنکھیں پھاڑے، منہ کھولے اس کا گیت سنتے رہے، سنتے رہے یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں دبی تلواریں پھولوں کی چھڑیوں میں تبدیل ہو گئیں اور نیزے مورچھل بن گئے۔‘‘

(ایک جھوٹی سچی کہانی: سلام بن رزاق)

————

تخلیقی زبان جب آگے بڑھتی ہے تو اپنے پیچھے دھنک تانتی جاتی ہے۔شفق کی لالی اور پھولوں کی مہک چھوڑتی جاتی ہے۔ چلتی ہے تو اس سے پٹاخے پھوٹتے ہیں۔پھلجھڑیاں چھوٹتی ہیں۔   اس کی دھمک سے دھند چھٹتی ہے۔ بدلی پھٹتی ہے۔تیرگی ہٹتی ہے۔ تخلیقی زبان  وہ آبشار ہے جس سے پگھلی ہوئی چاندی کی دھاریں اچھلتی ہیں۔ رنگین پھوہاریں نکلتی ہیں اور فضائیں ٹھنڈک سے بھر جاتی ہیں۔ یہ وہ زبان ہے جس میں خوشبو دکھائی دیتی ہے۔ رنگ سنائی دیتا ہے۔

اس کی صوت و صدا کا لمس چھوتا ہے تو لہو میں لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔ رگوں میں کیف و سرور کی نہریں بہنے لگتی ہیں۔مساموں میں لطف و نشاط موجیں لہر لینے لگتی ہیں۔

تخلیقی زبان یوں نہیں بنتی۔یہ تشبیہوں کے جمال، استعاروں کے کمال،صنعتوں کے خط و خال، علامتوں، اور لفظوں کے تخلیقی استعمال سے خلق ہوتی ہے۔ یہ وہ آبشار ہے جس سے پگھلی ہوئی چاندی کی دھاریں اچھلتی ہیں۔رنگین پھوہاریں نکلتی ہیں۔ یہ وہ زبان ہے جس میں خوشبو دکھائی دیتی ہے۔رنگ سنائی دیتا ہے۔

انسان اپنی سیمابی جبلت کے سبب ہر دم،ہر پل، ہر گام پر کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے کہ جس سے اس کے آس  پاس کی صورتِ حال بدل جائے۔ کسی گوشے سے کچھ نیا نکل آئے یا پرانا پن نئے پن میں تبدیل ہو جائے تاکہ زندگی میں نیا رنگ،نیا رس بھرتا رہے۔دل و دماغ کو تازگی کا احساس ہوتا رہے۔لطف و انبساط ملتا رہے۔ انسان کی یہی خواہش، اس کے اندرون کی یہی  رو اور ان دونوں کا اظہار اس کی تخلیقیت ہے۔اسی تخلیقیت سے فنونِ لطیفہ وجود میں آتے ہیں۔تخلیقی رو کے زیرِ اثر ہی ترسیل و ابلاغ کے نئے وسیلے پیدا ہوتے ہیں۔ انھیں وسیلوں کی غمازی سلام بن رزاق کی کہانیوں سے ماخوذ درج بالا اقتباسات میں ہوئی ہے۔ اس کا  مطلب یہ نہیں کہ قمر احسن کے یہاں تخلیقیت نہیں ہے۔تخلیقیت ان کے افسانوں میں بھی ہے۔زبان و بیان  میں حسن ان کے یہاں بھی پیدا کرنے کا جتن کیا گیا ہے مگران کے خیالات کی پیچیدگی ان کے اسلوب میں بھی در آئی ہے اور اظہار کو اتنا پیچیدہ اور بوجھل بنا دیا ہے کہ حسن معدوم ہو گیا ہے۔

سلام اس لیے بھی سمجھ میں آئے کہ ان کے افسانوی متن میں فلسفیانہ موشگافیاں نہیں ٹھوس حقائق تھے۔صفحۂ  قرطاس پر آسمان نہیں زمین بچھی تھی۔ان کے اوراق میں خیالات کم محسوسات زیادہ تھے۔ مطالعات کم تجربات و مشاہدات زیادہ تھے۔ ان کی کہی گئی باتیں اپنی لگیں۔ان کا احساس اپنا احساس محسوس ہوا۔ ان کے جذبات میں اپنے جذبوں کا رنگ نظر آیا۔ان کا کرب اپنا کرب لگا۔ان کا تجربہ ایسا لگا جیسے اپنا تجربہ ہو۔

افسانہ  یک لویہ ہو، یا ایک جھوٹی /سچی کہانی ہو، انجام کار ہو یا بجوکا ہو،  ننگی دو پہر کا سپاہی ہو یا معبر ہو، آوازِ گریہ ہو یا گیت ہو سلام بن رزاق اپنی ہر کہانی میں سہل، سہج  اور قابلِ فہم لگتے ہیں۔ اسی لیے وہ سب کو اچھے لگتے ہیں۔انھیں سمجھنے کے لییکبھی بھی کسی مہدی جعفر کی ضرورت نہیں پڑی۔ انجام کار کی علامتی گرہوں کو کھولنے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ذہن کو لہو لہان نہیں ہونا پڑا۔

گویا سلام بن رزاق نے اس زمانے میں بھی کہانی کو کہانی بنائے رکھنے میں اہم کردار نبھایا جس عہد نے کہانی سے کہانی پن کو دور کرنے کا پوری طرح من بنا لیا تھا۔ جس نے کہانی کاروں کے دماغوں میں کچھ ایسا خیال پیوست کر دیا تھا کہ کہانی اگر سمجھ میں آگئی تو وہ کہانی نہیں رہ پائے گی۔اچھی کہانی وہ ہے جو آسانی سے کھلے نہیں اور کھلے بھی تو صاف صاف دکھائی نہ دے۔کچھ پردے ضرور حائل رہیں۔ تخلیق کاروں نے اس  خیال کو عملی جامہ پہنانے میں ایسے دبیز پردوں کا  استعمال شروع کر دیا کہ ان کو ہٹانے میں قاری کے ذہن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔ تخلیق کاروں نے ان پردوں کو ٹانگنے میں رسیاں بھی ایسی لگائیں کہ ان پردوں کو سرکانا دشوار ہو گیا۔ ساتھ ہی اس درجہ تکلیف دہ بھی کہ قاری کہانی کے پاس جانے سے گھبرانے لگا۔اور اس طرح قاری کہانی سے دور ہو گیا۔

     ایسی صورتِ حال میں بھی سلام بن رزاق نے خود کو اور اپنے ساتھ کچھ اور لوگوں کو بھی اردو کہانی کی ہموار ڈگر پر روکے رکھا اور کہانی کی روح کو بھٹکنے نہیں د یا۔ اپنے معاصرین اور اپنے جونئیرز کو بھی اپنے ساتھ لگائے رکھا اور کہانی میں کہانی پن کی واپسی کے لیے انھوں نے وہ کچھ کیا جو ایک باپ راہ سے بھٹکی ہوئی اپنی اولاد کو راہِ راست پر لانے کے لیے کرتا ہے۔

   نئے زمانے کی نئی ڈگر  پر نئی نسل کے افسانہ نگاروں کو چلانے کے لیے ’بزمِ افسانہ‘کے نام سے انھوں نے ایک ایسا افسانوی فورم کا  قیام تیار کیا جو آج بھی نئے افسانہ نگاروں کے لیے مشعل ِ راہ بنا ہوا ہے۔

   سلام بن رزاق جتنے سہل اور سہج اپنی کہانی میں لگتے ہیں اتنے ہی سہل و سہج اپنی زندگانی میں بھی محسوس ہوتے تھے۔ وہ جو باہر تھے وہی اندر بھی تھے۔ ایسا نہیں کہ وہ ناریل یا بیل پتھر ہوں کہ باہر سے کچھ اور اندر سے کچھ۔ وہ کسی بھی جذبے یا کیفیت کے اظہار میں ایکٹنگ نہیں کرتے تھے۔ اپنے اوپر کوئی ملمع نہیں چڑھاتے تھے۔ کسی قسم کی کوئی منافقت نہیں دکھاتے تھے۔ محبت، نفرت، خلوص، غصہ کسی بھی اظہار میں تماشا نہیں کرتے تھے، کسی بھی جذبے کو دبا کر نہیں رکھتے۔ تھے  بلکہ ہر ایک کا برملا اظہار کرتے تھے۔ میں نے عالم ِ سرشاری میں ان کے  ہونٹوں سے پھول کی مانند جھڑتے ہوئے تحسینی کلمات بھی سنے اور حالت ِ غیظ وغضب میں  منہ سے نکلتے اور ابلتے ہوئے مغلظات بھی۔ محفلوں میں اظہارِ خیالات کی خواہش ان کی بھی ہوتی تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ انھوں نے ادب کو براہ راستپڑھا تھا۔متن میں اتر کر مواد و موضوع کا مطالعہ کیا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے چپو چلاکر تخلیق کے سمندر کو پار کیا تھا کسی نا خدائے نقد کے پتوار کے سہارے نہیں، اس کے باوجود میں نے دیکھا کہ کلکتے کی ایک بڑی اہم اور یادگار افسانوی محفل کی جب انھیں صدارت سونپی گئی  تو انھوں نے انکار کر دیا جبکہ وہ پہلی بار کولکتہ کے کسی ادبی جلسے میں شریک ہوئے تھے اور جس میں انھیں اپنی تنقیدی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل رہا تھا۔ یہ کسی فن کار کی وہ اداتھی جو اس بات  کی غمازی کر رہی تھی کہ فن کار کس حد تک بے نیاز ہوتا ہے اور اس کی یہی بے نیازی اس کے قد کو اور,بلند کر ریتی ہے۔

 سلام کی سادگی اور سادہ مزاجی  کا انداز اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو  میرے علی گڑھ کے مکان جو نیا نیا بنا تھا میں دوستوں کی ایک دعوت کے دوران رو نما ہوا تھا۔ طعام سے پہلے خوش گپیوں کے دوران یکایک سلام سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے بول پڑے۔

’’ مجھے بے پناہ خوشی ہو رہی ہے کہ میرے کسی دوست کے پاس اتنا بڑا مکان ہے۔‘‘

 سلام  کا یہ جملہ سن کر یک لخت میرے لبوں سے قہقہہ پھوٹ پڑا ’’ سلام کو میری ہنسی نا گوار لگی۔‘‘

  مجھے اس طرح قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھ کر بولے:

’’اس میں اس طرح  ہنسنے کی کیا بات ہے غضنفر !‘‘

’’آپ اس مکان کو بڑا بتا رہے ہیں اس لیے ہنسی چھوٹ پڑی۔ لگتا ہے آپ نے بڑا مکان نہیں دیکھا ہے؟‘‘

 میری بات سن کر وہ مزید سنجیدہ ہوتے ہوئے بولے :

’’غضنفر ! تم نے چھوٹا مکان نہیں دیکھا ہے۔کبھی بمبئی آؤ تو تمھیں دکھائیں گے کہ چھوٹا مکان کیسا ہوتا ہے۔‘‘

 اس سے پہلے میں نے اپنے کسی دوست  یا ادیب کو ایساسفاک سچ اپنے بارے میں بولتے ہوئے نہیں سنا تھا۔

ایک بار ممبئی جانے کا اتفاق ہوا تو سلام نے اپنے گھر پر میری دعوت کی اور میرے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا اہتمام بھی کیا۔جب شعر وسخن اور ماحضرِ مرغن سے فارغ ہو گئے اور خوش گپیاں شروع ہوئیں تو اچانک سلام مجھے مخاطب کرکے بول پڑے :

غضنفر! تمھیں شاید یاد ہوگا کہ تمھارے گھر ایک دن میں نے تم سے کہا تھا کہ کبھی ممبئی آؤگے تو میں تمھیں دکھاؤں گا کہ چھوٹا مکان کیسا ہوتا ہے تو لو دیکھ لو، چھوٹا مکان ایسا ہوتا ہے۔

سلام کی بات سن کر میں بولا:

’’ہاں ہے تو یہ چھوٹا مگر اس میں وسعت بہت ہے۔ اتنی وسعت کہ اس میں آکھا( پورا ) ممبئی سما گیا ہے۔‘‘

میرے اس جملے کو سنتے ہی سلام کی بیٹھک میں ایک ساتھ بہت ساری صدائیں گونج پڑیں جن میں ساجد رشید، انور قمر، علی امام نقوی، قاسم امام، وقار قادری، فصیح اکمل، مقدر حمید، الیاس شوقی، علی احمد فاطمی، رحمان عباس، عبدالاحد ساز وغیرہ کے سر بھی شامل تھے۔

سلام کسی بڑی پوسٹ پر نہیں تھے،ممکن ہے اس کا انھیں ملال بھی  رہا ہو کہ وہ بڑی سے بڑی پوسٹ کے لیے ڈزرو کرتے تھے مگر انھوں نے کبھی کسی سے اپنی معاشرتی پوزیشن کو چھپایا نہیں اور نہ ہی اس میدان میں پچھڑ جانے پر کبھی نادم ہوئے یا احساسِ کم مائگی کے شکار ہوئے۔ان کا یہ رویہ بھی ان کو بڑا بناتا ہے اور ان کے قد کو اونچا کرتا ہے۔

    ویسے تو سلام کا قلم ہر جگہ بے باکی سے چلتا ہے اور بنا کسی مصلحت کا شکار ہوئے آگے بڑھتا جاتا ہے اور وہ سب کچھ لکھتا جاتا ہے جو سلام کے مشاہدے اور تجربے میں آتاہے مگر آوازِگریہ میں اس خامۂ خوں چکاں نے جس بے باکی اور کربناکی کا مظاہرہ کیا ہے اسے دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں۔اس کہانی میں سلام کا خامہ تیغِ بے نیام بن گیا ہے۔جو بھی اس کے راستے میں آتا ہے کٹتا چلا جاتا ہے۔اور قاری کا سینہ بھی پھٹتا جاتا ہے۔

یہ انداز بھی سلام کو ان کی شخصیت کی سادگی نے بخشا ہے۔یہاں سلام کی سادگی کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے اور اس کرب کے اظہار کا بھی جو سلام کی مفارقت کی ضرب سے ان کے چاہنے والوں کو پہنچا ہے          ؎

سب کو سلام کرگیا پیارا سلام آج

رخصت ہوا زبانِ قلم سے کلام آج

کیا بات ہوگئی کہ ہوا، ربط منقطع

کیوں روٹھ گیا بزمِ ادب کا امام آج

اتنا تھا وہ عزیز کہ روتے ہیں زار زار

فرقت میں اس کی چاروں طرف خاص و عام آج

کیا تھا وہ میرا کون تھا رشتہ تھا کیا مرا

اشکوں کا کیوں نگاہ میں ہے ازدہام آج

اتنا اہم تھا شہر فسانہ میں وہ فقیہ

ٹھپ ہوگئے ہیں، سارے کہانی کے کام آج

اپنا خلوص، اپنی دعا، اپنی آرزو

پونجی تمام نذر کریں اس کے نام آج

ایسا ہے اضطراب غضنفر دماغ میں

جی چاہتا ہے لب سے لگاؤں میں جام آج

 

Ghazanfar

Bushra, Lane A-12

Hamza Colony

New Sir Syed Nagar Ext.

Aligarh - 202002 (UP)

Mob.: 7678436704

ghazanfarjmi@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...