ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024
تعلیم انسانی شعور و ادراک کی بیداری کا ذریعہ ہے۔
سائنسی اور مشینی دور سے پہلے ہندوستان اپنے تعلیمی اداروں، نالندہ اور تکشلا کے
امتیازی اوصاف کے باعث پوری دنیا میں مشہور و معروف رہا ہے۔ یہاں کی علمی و عملی
اقدار نے ہمیشہ اپنی تہذیبی روایات کی پاسداری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
ہندوستانی تعلیمی نظام میں ہمیشہ گزرتے وقت کے حاصل سے سبق لے کر مستقبل کے خواب
سجائے اور اپنی پالیسیوں میں ترمیم و اضافے کو ترجیح دی گئی ہے۔ یہ تبدیلیا ں ایک
تو حکومتی سطح پر عمل میں لائی جاتی رہی ہیں اوردوسرے تعلیمی اداروں اور ان کے
شعبہ جات کے ذریعے یہ حسنِ عمل اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے ذریعے ہندوستانی تاریخ و تہذیب سے نئی نسلوں
کو روشناس کرایا جاتا ہے، جس میں ان کے روشن مستقبل کی فکر اور ہندوستانی سماجوں کی
اقداروروایات سے واقفیت کو پیشِ نظر رکھا جاتاہے۔یہ اقدار و روایات ہندوستان کے
قومی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت و اہمیت رکھتی ہیں اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کی
امین ہوتی ہیں۔ انہی شہری و دیہی عوام کے بل بوتے پر قومی یکجہتی منحصر ہوتی ہے،
جو اپنی روزمرہ زندگی کے شب و روز میں قدر و روش کے نئے آمیزوں سے دن کے اجالے
اور رات کی چاندنی و سیاہی کو نئی تازگی و توانائی عطا کرنے کا فر یضہ انجام دیتے
ہیں۔ اس طرح تمدن کی شان اور عوام کی آن دونوں کو اپنے اپنے اوپر ناز کرنے کی
طمانیت و ہمت حاصل ہوتی رہتی ہے۔ یہی ہمت و طاقت ہے جو ہندوستانی قومیت کے مختلف
المذاہب اور کثیراللسان ہونے کی ضمانت پیش کرتی چلی آ رہی ہے۔ اسی ضمانت کے ذخیرہ
وراثت میں لوک ادب اور اعلیٰ ادب کے سرمایوں کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ لوک ادب اور
اعلیٰ ادب ہماری علمی وفطر ی اور فکری و تہذیبی عمل داریوں کا آئینہ ہونے کی وجہ
سے ہمارے تعلیمی نظام میں حصے داری اور شمولیت کا شرف رکھتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح اعلیٰ
ادب کو تعلیمی نظام میں نصاب کا حصہ بنایاجاتا ہے اسی طرح لوک ادب کو بھی تعلیمی
نصابات میں شامل کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ لوک ادب سانجھی سنسکرتی یعنی مشترکہ تہذیب
و ثقافت اور خصوصاً ہندوستانیت کی ترجمانی کرتا
ہے۔
کسی بھی زبان اور قوم اور ملک کا لوک ادب اس کی لسانی
اور سماجی و تہذیبی تاریخ کا بیش بہا خزینہ ہوتا ہے۔ یہ سماج کے ہر فرد کے سینے میں
زبانی روایت میں موجود رہتا ہے اور ہر فرد کی زندگی کے شب و روز کے ہر لمحے اور ہر
ایک کیفیت کو اپنے دامن میں سجا لیتا ہے۔ سکھ دکھ، سردوگرم اور بزمیہ و طربیہ
موقعوں پر اکثر اجتماعی حالتوں میں اس کی عکاسی کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ مواقع
ہی اعلیٰ ادب اور ادیبوں کو موضوع اور مواد فراہم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کیونکہ
لوک فن کار نام و نمود اور صلے و ستائش کے حصول اور شہرت سے بے نیاز رہتے ہیں جب
کہ اعلیٰ ادب کے تخلیق کار ان ہی عوام اور ان کی زندگی کے شب و روز کے لمحات سے
اپنی بصیرت اور مشاہدات کی قوت کے بَل پر انفرادی تجربات کو تخلیقی اور عملی سطح
پر پیش کرتے ہیں اور شہرت و دولت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ادنی ٰو اعلیٰ یعنی
عام و خاص، دیہی و شہری، لوک ادب اور ادبِ عالیہ ایک سکے کے دو پہلو بن جاتے ہیں۔
دونوں کی حیثیت و اہمیت ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ثابت ہوتی ہے۔ اس نزاکت کو سمجھنے
کے لیے پیڑ کی مثال بہت ممدو معاون ہے۔ اس
طرح کہ پیڑ کی زمیں دوز جڑیں اور سوتے ادنیٰ، عام ، دیہی اور لوک ادب کی حیثیت و
اہمیت رکھتے ہیں اور پیڑ کا ظاہری حصہ یعنی تنا، شاخیں اور پتّے اعلیٰ، خاص، شہری
اور ادبِ عالیہ کی ترجمانی پیش کرتے ہیں۔ جس طرح پیڑ کی جڑیں اور سوتے پیڑکے ظاہر
ہونے سے پہلے ارتقائی منزلیں طے کرتے ہیں اُسی انداز میں لوک ادب اپنے اختراعی و
تخلیقی عمل سے بہتے پانی کی طرح گزرتا اور آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اسی لیے جس طرح جن
پیڑ پودوں کی جڑیں اور سوتے جس قدر اور جس تناسب میں صحت مند ہوتے ہیں اْن کی ظاہری
حالت اور ثمر آوری اتنی ہی تندرست اور
توانا پائی جاتی ہے۔ یعنی وہ زبانیں
اور قومیں جن کے لوک ادب کاورثہ جتنی وافر مقدار میں مروج و محفوظ ہوتا ہے اْن کا
ادبِ عالیہ اتنا ہی زیادہ اور اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے۔
ہم ہندوستانیوں کی دیہی زندگی کا انداز لوک وراثت کا امین
ہے اور اس کا انحصار قدیم اور روایتی نظامِ حیات پر ہوتا ہے۔ جب کہ شہری اور تمدنی طرزِ زندگی نئی اور جدید
تازہ کاری پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے عملی شب و روز نِت نئے خاکے کشید کرتے ہیں اور
سماجی و تہذیبی تاریخ میں لسان و ادب کی سطحوں
کی پاسداری کا لحاظ رکھتے ہوئے نئے سنگِ میل نصب کرنے کا فریضہ انجام دیتے
ہیں۔ دیہی و شہری، قدامت و جدت اور لوک ادب و ادبِ عالیہ کے یہ سلسلے انسانی
سماجوں اور ان کی زبانوں اور تہذیبوں کی تاریخوں میں اساسی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان
کی ارتقائی تفصیل کی داستانوں میں انسان کے خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرنے کے
آغاز سے لے کر ماہتاب کو مسخر کر لینے
اور مریخ پر کمندیں ڈال دینے کے نشیب و
فراز کی روداد ملاحظہ کی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوک وراثتوں کے امین اور شیدائی
تحقیقی حکمت عملی میں لوک ادب کو فنونِ لطیفہ کے طور پر دیکھنے اور پرکھنے کے ساتھ
علم البشریات کے اہم شعبے سے تعبیر کرتے رہے
ہیں۔ کیونکہ اس کا مطالعہ و مشاہد ہ فطرتِ انسانی کے اسرارِ نہانی سے پردہ
ہٹانے کی خدمت کا کردار نباہتا ہے۔ اس کی
مدد سے انسان کی انفرادی و اجتماعی فطری و جبلّی کیفیتوں تک رسائی حاصل کرنے کا
امکان نکلتا ہے۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ انسان کو سمجھنے اور ظاہر و باطن
کے کرداروں کو دیکھنے اور آزمانے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ہمارے
تعلیمی نظام میں جو بول بالا ادبِ عالیہ کے حصے میں آتا رہا ہے اسی کا تقاضا لوک
ادب کا بھی استحقاق ہے۔
ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اور زندگی روح و بدن کے
امتزاج کا نام ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ان دونوں کی صحت مندی
و توانائی نبض کے تحرک کی طاقت و تسلسل کی مناسبت و مطابقت رکھتی ہے۔ ادیب نباض
ہوتا ہے اور اپنی ہنروری و فن کاری کی مہارت سے مجموعہ اعضا روح و بدن اور مجموعہ
انسان سماج کی زندگی کو بہتر و صحت مند بنائے رکھنے کے لیے نباضی کرتا ہے۔ اس کی
حکیمی و ڈاکٹری جہاں روح و بدن کی فلاح و بہبود کی ضامن بنتی ہے وہیں نئی روشنی
اور نئے عرفان وآگہی کی ہمہ جہت روشنیوں کی کائناتوں سے روشناس کراتی ہے۔ حکیم
اور ڈاکٹر ہی کی طرح ادیب اور فن کار ظاہر و باطن سے باخبر ہوتا ہے۔ لہٰذا ادیب و
ادب کو تشخص کے اعتبار سے ناصح اور نصیحت، مصلح اور اصلاح یا صوفی و سنت کی حالتوں
اور زمروں میں رکھ کر سمجھنا آسان ہے۔ یعنی ایک طرح کی خدمت انجام دینے والے دو
طبقوں اور دو زمروں کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک جسموں پر راج کرتا ہے اور دوسرا دلوں
پر۔ اس کلیے کا اطلاق کم و بیش تقریباً اٹھارہ ہزار مخلوقات اور کائنات کے ہر ایک
شعبے پر ہوتا ہے۔ لیکن یہاں صرف زبان و ادب مقصود ہیں۔اس لیے ہمارے ادیب و ادب کے
صوفی و سنت میں ایک کی حکمت عملی حصولِ بدل ہوتی ہے۔ جب کہ دوسرا دیوانہ وار
خدمت کو اپنا نصب العین اور مقصدِ حیات
تصور کرتا ہے۔ ٹھیک ان ہی دو زمروں اور طبقوں جیسا حال و احوال اور آثار ہندوستانی
لوک ادب اور ادبِ عالیہ کا ہے۔ اس لیے ادبِ عالیہ کے اختراعی عوامل و محرکات کی
نشاندہی میں لوک وراثت کی معاونت ،طمانیت افزا ثابت ہوگی اور ادبِ عالیہ کی معنوی
تہوں کی پرتیں کھولنے اور زیریں لہروں میں غواصی کرنے میں مشعلِ راہ ہونے کا کردار
ادا کرے گی۔ اس کے دم خم کے دوش پر سوار ہوکر زبان فہمی کی راہیں ہموار ہوں گی اور
الفاظ کے لباس بدلنے اور لباسوں کے نئے بدن اختیار کرنے کا سراغ ملے گا۔ کیونکہ
لوک وراثت میں عصبیت و فرقہ واریت کے عناصر نہیں پائے جاتے۔ اس سرمائے کی نظر اتنی
تیز ہوتی ہے کہ کسی قسم کی عینک کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اسی کا نام
ہندوستان اور ہندوستانیت کی پہچان ہے۔
المختصر ہندوستانی لوک وراثت جو مشترکہ گنگا جمنی تہذیب
و ثقافت کی ضامن ہے اس کا وافر سرمایہ اُردو ہندی کی مشترکہ روایت کی تاریخ کا عظیم
سرمایہ ہے۔ یہ عمارت مخلوط قدروں کی بنیادوں پر تعمیر ہوئی ہے اور جسے قلعہ
ہندوستانی کہے جانے پر ہم ہندوستانیوں کو وہ خوشی حاصل ہوتی ہے کہ سر فخر سے بلند
اور سینہ چوڑا ہو جاتا ہے۔اس بحث کی وضاحت کے لیے چند مثالیں ایک کہانی، دو گیت
اور دو اشعار کے طور پر اس طرح ہیں۔
لوک کہانی
ایک چڑا تھا ایک تھی چڑیا۔ چڑا لایا چاول کا دانا چڑیا
لائی دال کا دانا۔ دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔
لوک گیت
گھوڑی برسانے سے آئی واپہ چڑھو نہ اترو جائے
اللہ میاں توری بگیا میں میں نے مانگی مراد اللہ میاں توری بگیا میں
لوگ چڑھاویں مرگے مرگیاں میں چڑھاؤں اپنی جان
اشعار
بیادِ دل ربا خوشحال می باش
گہے افضل گہے گوپال می باش
(مولانا محمد افضل پانی پتی)
اُردو کے چند لفظ ہیں جب سے زبان پر
تہذیب مہرباں ہے مرے خاندان پر
(اشوک ساحل)
ان مثالوں میں برتے گئے الفاظ کی تلازماتی کیفیت بات میں
بات اور گرہ میں گرہ کی خوبی رکھتی ہے اور اصل اور شفاف ہندوستانی سماج کی شبیہ پیش
کرتی ہے۔ تخلیق اور پیش کش کے اعتبار سے آفاقی اقدار کی پاسدار ہے۔ مثلاً چڑے اور
چڑیا کی لوک کہانی میں انسانی اور مخلوقی ارتقاکی مفصل واردات، ذاتی اور جسمانی
ساخت ان کے اوصاف اور نتیجہ خیزی، الغرض جتنی گرہیں کھولی جائیں اتنی وضاحتیں اور
توجیہیں سامنے آتی ہی رہیں گی۔ یہاں تک کہ کل کائنات روح و بدن کے مرکب میں سمٹ
آئے گی۔ اسی طرح لوک گیت کی مثال میں گھوڑی کا برسانے سے آنا اور اس پر چڑھنا
اور اترنا یعنی پھسلنا اور پھر چڑھنا۔ ہندوستانی تاریخ میں شری کرشن جی کا مثالی
کردار اور اس تناظر میں برسانے کی تاریخی و تہذیبی اہمیت سب اْجاگر ہوجاتے ہیں۔اسی طرح دوسرا گیت جس میں
اللہ میاں کی بگیا اور اُس میں مراد اور چڑھاوا ، گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے ترجمان ہیں اور دو مختلف تہذیبوں کے اختلاط
و اشتراک کی عقدہ کشائی کرتے ہیں۔ اسی طرح اشعار کی مثالوں میں مولانا محمد افضل
پانی پتی کے بارہ ماسے جسے مثنوی نما ہونے
کا شرف بھی حاصل ہے اس کا آخری شعر نہایت شفاف آئینہ ہے۔آخری شعر کا تعلق دیو
مالائی روایت کے امین اشوک ساحل سے ہے۔ اس شعر میں تہذیب کی زمینی حقیقت اجاگر کی
گئی ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے ظاہر ہوا کہ دنیا کی ترقی یافتہ
زبانوں کی طرح اردوکا ذخیرہ ادب بھی بیان و بلاغت کے زیورات سے آراستہ ہونے ہی کی
صورت میں ہر دلعزیزی سے سرفراز ہوا ہے۔ اردو ادب کی مقناطیسی کشش اس کے لوک ادب کی
مرہونِ منّت ہے۔ کیونکہ الفاظ کی ترویج اور اخذ و قبول کی پہلی آماجگاہ عوام ہوتے
ہیں۔ یہی اپنی روزمرہ زندگی کے دامن کو نت نئے لسانی گْل بوٹوں سے سجاتے اور
سنوارتے رہتے ہیں۔ ماہرین لسانیات کے مطابق دیہی اور ناخواندہ افراد تعلیم یافتہ
افراد کے مقابلے میں آٹے میں نمک جتنے الفاظ کے ذخیرے کے سہارے تمام عمر اسی طرح
گزار دیتے ہیں جس طرح پڑھے لکھے سماج کے افراد اپنی زندگی کے شب و روز اور ماہ و سال بسر کرتے ہیں۔ اور رنج و راحت کے
سرد و گرم احساسات کے نشیب و فراز کی مختلف النوع منزلیں طے کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے
کہ لوک ادب اولاً بیان و بلاغت کی کسوٹی کے لیے الفاظ، محاورے، روزمرہ اور ضرب
الامثال وغیرہ کی ترویج و اختراع کا کردار ادا کرتا ہے اور اسی مروجہ و جمع شدہ خزینے
کی ترقی یافتہ اور توسیع شدہ شکل فنکاری کے انفرادی چاک پر ڈھل کر ادب کہلاتی ہے۔یعنی ؎
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
اردو ادب اور لوک ادب کے دو اہم زمرے شعری اور نثری
شاخوں کے طور پر مطالعے میں آتے ہیں اور ان دونوں کے مرکب سے ایک اور شاخ بھی ادبی
تاریخ کا حصہ رہی ہے جسے ناٹک یا عوامی کھیل اور ڈرامے کے زمرے کی حیثیت و اہمیت
حاصل ہے۔ ادب کے ان تینوں اہم زمروں اور شاخوں میں پائے جانے والے آداب علم بیان،
علم بلاغت اور علم عروض کے تابع ہوتے ہیں اور ان علوم کے ادراک و شعور کے متقاضی
ہوتے ہیں۔ یعنی نظم اور نثر کے معیارات کا تعین اور فنکارانہ جوہروں کی تصدیق کیا
جانا ان ہی علوم کے اصول و قواعد کے تحت ممکن ہو پاتاہے۔ لیکن یہ کیسا المیہ ہے کہ
ان علوم یا ان کے کسی اصول کا ذکر آتے ہی خدمت گارانِ ادب کہلانے والے زیادہ تر
اساتذہ دامن بچانے کی راہیں نکال لیتے ہیں۔
ہماری دانشگاہوں کے زیادہ تر اعلیٰ تعلیمی
نصابات میں شاذ و نادر ہی ان علوم کی موجودگی دیکھنے میں آتی ہے۔ حالانکہ ہمارے نصابات
میں نظم و نثر خصوصاً اور ڈراما و ترجمہ عموماً شامل رہتے ہیں۔ البتہ ان ادبی
زمروں کے جواہر پاروں کی صحت مندی کی نباضی کے آلے نما اصول و قواعد والے علوم
سے چشم پوشی و بے حسی کے بادلوں کا
منڈراتے رہنا زبان ، سماج اور ادب کے حق میں کسی بھی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا
ہے۔
نظم و نثر ہوں یا لوک قصے کہانی اور لوک گیت، طبعی
اظہار کے ان پیرایوں میں خطِ امتیاز و انفراد موزونیت اور نا موزونیت ہے۔ موزونیت
اردو میں وزن اور ہندی میں راگ کے آداب اور اصولوں کی ترجمانی اور پیشکش ہوتی ہے۔ ہندی میں اسے چھند گیان کے تحت
تلاش کیا جاتا ہے۔ جبکہ اردو میں اس کا مطالعہ علم عروض کی روشنی میں دریافت ہوتا
ہے۔ علم عروض میں برتے جانے والے ارکان کو تشکیل دینے والے اجزا دوحرفی اور سہ حرفی
ہوتے ہیں۔ لیکن ہندی میں اچھند گیان میں استعمال ہونے والے یہی سَم اور وِشم
کہلانے والے اجزا لگھو گرو یعنی یک حرفی اور دو حرفی ہوجاتے ہیں۔ یہاں عروضی باریکیوں
کی گتھیوں کو سلجھانے کے بجائے وزن کی حقیقت سے باخبری مقصود ہے۔ وزن در اصل صوتی
پیمانے کو کہا جاتا ہے۔ یعنی جس میں سْر تال کی ہم آہنگی ظاہر ہو۔ مثلاً ؎
کیسا اچھا تو ہے اللہ
تو نے ہم کو دی ہیں آنکھیں
دنیا بھر کو جن سے دیکھیں
اللہ اللہ کیا کرو
نام نبی کا لیا کرو
دکھ نہ کسی کو دیا کرو
وہ ہم سب کا مالک ہے
نام اسی کا لیا کرو
اس مختصر بحث کا مجموعی حاصل یہ ہواکہ ادب کو سمجھنے
اور پرکھنے کے اختراعی پہلو نکالنے کے لیے ادبیاتی قواعد کے علوم ، علم بیان و
بلاغت اور عروض سے واقفیت لازمی ہے۔ ان علوم کا انحصار لفظ و صوت پر ہوتاہے۔ الفاظ
اصوات کی تصویر ہوتے ہیں۔ ان تصویروں کی خاکہ کشی اور رنگ آمیزی کی خدمت عام عوام
انجام دیتے ہیں۔ عام عوام کی اس خدمت کی ثمر آوری اور ذخیرہ دوزی لوک ادب ہوتا ہے۔ لہٰذا اردو کا باشعور طالب علم ، ماہر
استاد، منجھا ہوا نقاد اور لائق محقق بننے
کے لیے اردو لوک ادب، بیان و بلاغت اور ادب کے آداب اور اردو کے مزاج سے باخبری
ضروری ہے۔ اس مقصد کے ہدف کی خاطر اردو کے نصابات میں لوک ادب کی آمیزش اور شمولیت
ناگزیر ہے اور یہی نئی تعلیمی پالیسی کا اشارہ و مشورہ ہے۔
Dr. Rashid Azeez
Dept of Urdu
Central University of Kashmir
Ganderbal- 191131 (J & K)
Mob.: 8803766036
rashidazeez128@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں