21/8/24

نو لکھا راج محل، مضمون نگار: صدر عالم گوہر

 ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024

مدھوبنی ضلع ویسے تو کئی چیزوں کے لیے جانا جاتا ہے جیسے پان، مکھانا، مچھلی، ندی، تالاب،مدھوبنی پینٹنگ اور  راج نگر کا راج محل نولکھا۔ راج محل نولکھاسیاحوں کا پسندیدہ مقام وپکنک منانے والوں کا پکنک اسپاٹ  یا جنت ہے۔یہاں قرب وجوار کے لوگ سیروتفریح کے لیے بھی آتے ہیں۔ راج نگر کا راج پیلس یاراج محل نو لکھا کو میں کئی طرح سے جانتا ہوں بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ میرا بچپن سے اس سے تعلق ہے۔بہت سی یادیں اس سے جڑی ہیں۔ چونکہ میرا ننیہال راج نگر کے پاس ایک گاؤں من ٹولا چچری میں تھا۔ اس لیے میں اپنے گاؤں پر سو لیا ضلع مدھوبنی (بہار) سے من ٹولا راج نگر جاتا آتا رہتا تھا، اپنی ماں کے ساتھ۔

بچپن میں جب راج محل نو لکھا کے کیمپس سے گزرتا تھا تو محل کے چاروں طرف اونچی اونچی فصیل تھی۔قلعہ نما بنایا ہوا تھا بلکہ قلعہ ہی تھا۔ اب جب کہ مدتوں بعد وہاں جانا ہوا تو دیکھا فصیل ٹوٹ چکی ہے، لوگوں نے راج محل کے اندر سے راستہ بنا لیا ہے۔

 جس راج محل میں لوگ پیدل بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک خوف لوگوں کے دلوں میں رہتا تھا۔ وہاں اب لوگ پیدل،سائیکل، موٹر سائیکل اور فور وھیلر سے بے روک ٹوک، بے خوف و خطر آتے جاتے ہیں۔ یہ راج محل جسے راج پیلس بھی کہا جاتا ہے لیکن عرف عام میں نولکھا کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔اب حکومت کی ملکیت ہے۔ اس کے کچھ حصے میں بورڈر سیکورٹی فورس کہ افسران اور سپاہی رہتے ہیں اور آگے کا جو حصہ ہے جس میں عمارتیں کچھ صحیح سلامت ہیں۔اس میں ایک کالج قائم کر دیا گیا ہے۔جس کا نام وشویشور سنگھ جنتا مہاودیالیہ ہے۔ ابھی کچھ برسوں پہلے اس راج محل نو لکھا میں ایک شاندار سہ روزہ پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس کے لیے نو لکھا کے کچھ حصے جو ابھی خالی ہیں، ان کو خوب سجانے اور صاف صفائی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ ایک بہت بڑا پروگرام بہت بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کا نام تھا، ’مدھوبنی لٹریچر فیسٹیول‘۔ اس سہ روزہ پروگرام کے دو سیشن میں مجھے حصہ لینے کا موقع ملا۔ ایک پروگرام میں بطور شاعر اور ایک ڈسکشن کے سیشن میں۔ جس کی وجہ سے راج محل نولکھا کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا۔ایک مرتبہ اور نولکھا محل میں جانے کا موقع ملا۔ اس بار اس محل میں واقع کالج ’وشویشور سنگھ جنتا مہاودیالیہ‘ میں منعقد شب افسانہ پروگرام میں ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے۔اس موقعے پر نولکھا راج محل کا وہ حصہ جو مقفل رہتا ہے اور کالج کے لیے وقف ہے اس حصے کو دیکھنے کا موقع ملا۔

 راج نگر جس کے لیے مشہور ہے وہ ہے یہاںکا  دربھنگہ مہاراج کا بنوایا ہوا راج محل یا راج پیلیس۔ جسے عرف عام میں لوگ نولکھا کہتے ہیں۔اور نولکھا کے نام سے یہ جانا جاتا ہے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس راج محل کو بنانے میں نو لاکھ روپے لگے ہوں گے۔ اس لیے اس راج محل کا نام نو لکھا ہے۔ مگر بعد کی تحقیق سے پتہ چلا کہ نولکھا کیمپس جس میں مندر، تالاب اورعمارتیں ہیں،  وہ سب دربھنگہ مہاراج کے ایک انگریز قرضدار نے بنایا تھا۔ اس کا نام ایم ایس کورنی تھا۔ کورنی ایک اچھا اور معروف آرکیٹیکٹ تھا۔ جب وہ دربھنگہ مہاراج کا قرض ادا نہیں کر سکا تو قرض کے عوض اس نے دربھنگہ کے راجہ مہاراج لکشمیشور سنگھ کے لیے راج نگر میں ایک ایسے راج محل کی تعمیر کا وعدہ کیا جس کا مضبوطی میں کوئی ثانی نہیں ہوگا۔ اس نے کہا کہ وہ ایک ایسا محل راجہ کے لیے بنا دے گا جو کبھی ٹوٹے گا نہیں۔کورنی نے پہلی دفعہ ہندوستان میں سیمنٹ کو متعارف کرایا۔ کورنی نے دربھنگہ مہاراج سے کہا کہ وہ محل کی تعمیر میں ایک ایسے سامان کا استعمال کرے گا، ایک ایسی چیز کا استعمال کرے گا، جس سے اس کا بنایا ہوا محل کبھی برباد نہیں ہوگا۔ کبھی ٹوٹے گا نہیں۔ مثال کے طور پر اس نے سیمنٹ کا استعمال کر کے ایک ہاتھی بنایا اور اپنے دعوے کا ثبوت دیا کہ اسے کوئی توڑ نہیں سکتا ہے۔ مہاراج کو اس کا بنایا ہوا یہ ہاتھی بہت پسند آیا اور اس کی مضبوطی کو دیکھ کر مہاراج نے کہا کہ اسے توڑا نہ جائے،برباد نہ کیا جائے، بلکہ اس کو ہی کھمبا بنا کر اس پر عمارت تعمیر کی جائے،جو آج بھی راج نگر میں موجود ہے اور راج پیلیس کو دیکھنے والے سب سے پہلے یہیں آتے ہیں۔ ان ہاتھیوں کو دیکھتے ہیں، ان ہاتھیوں کے ساتھ اپنی تصویریں کھنچواتے ہیں۔

بعد کی تحقیق سے یہ عقدہ بھی کھلا کی راج محل کو بنانے میں نہیں، صرف راج محل کے اندر جو مندر بنوایا گیا ہے، اس کو بنانے میں دربھنگہ راج کے مہاراج رامیشور سنگھ نے (جو دربھنگہ مہاراج لکشمیشور سنگھ کے چھوٹے بھائی تھے )نو لاکھ چاندی کے سکے خرچ کیے تھے۔

یہ مندر سنگ مرمرسے بنایا گیا ہے، جو بہت ہی خوبصورت ہے۔ اس کی خوبصورتی آج بھی لوگوں کو متاثر کرتی ہے اور راج محل میں جانے والا کالی مندر ضرور جاتا  ہے۔ اس مندر کے سامنے ایک بہت بڑا گھنٹہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ گھنٹہ پہلے پیتل کا تھا لیکن اس کو چور چرا کر لے گئے اور ابھی جو ہے وہ دوسرا اسی سائز کا گھنٹہ ہے جسے بنوا کر لگا دیا گیا ہے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چور جب اس بڑے سے گھنٹے کو اٹھا کر نہیں لے جا سکے تو وہیں سامنے کے تالاب میں پھینک کر چلے گئے۔ حقیقت جو بھی ہو مگر آج بھی اس کالی مندر کے سامنے ایک بہت بڑا گھنٹہ رکھا ہوا ہے۔ جس کو چھونا اور گھنٹہ بجانا منع ہے۔ مگر چونکہ گھنٹے کے پاس کوئی پہریدار نہیں رہتا ہے۔اس لیے بچے اس کو چھوتے اور کھیلتے ہیں۔ یہ کالی مندر چاندنی رات میں تو اور بھی خوبصورت نظر آتی ہے۔ میں جب بھی اس مندر کو دیکھنے گیا یہاں لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔

اس راج محل کی حصار بندی کے بعد 1934 عیسوی میں بہار اور نیپال میں ایک ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا زلزلہ لوگوں نے نہیں دیکھاتھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں بہار کے 1934 عیسوی کے زلزلے کا ذکر موجود ہے۔ ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ پورا راج محل ہی نہیں سارا بسا بسایا ہوا شہر تہس نہس ہو گیا۔اور ایم۔ ایس۔ کورنی کا بنایا ہوا راج محل اور اس کا دعوی بھی اسی کی نذر ہو گیا۔اس زلزلے میں راج محل اس بری طرح برباد ہوا کہ کہنا مشکل ہے۔ اس کے بعد پھر اس راج محل کی مرمت نہیں ہوئی۔ راج محل کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا گیا مگر کورنی کا بنایا ہوا ہاتھی آج بھی موجود ہے اور عوام کی تفریح کا سامان بنا ہوا ہے۔ راج نگر کا نولکھا محل ایک اور تاریخی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ راج نگر متھلا میں ہے جہاں کی زبان میتھلی ہے اور اسی میتھلی زبان میں پہلی بار ایک میتھلی فلم بنانے کا منصوبہ راج نگر کے مرزا پور کے مہنت مدن موہن داس نے بنایا تھا اور ان کے اس منصوبے میں شریک تھے ان کے جگری دوست کیدار ناتھ چودھری۔جو بعد میں ایک ادیب کے طور پر مشہور ہوئے اور کئی ناول لکھے، جن میں ایک سوانحی ناول بھی ہے،جس میں اس میتھلی فلم کے بننے کے دوران کیا کیا مسائل پیش آئے ان کا ذکر ہے، اس فلم کا نام تھا  ’ممتا گابے گیت‘۔  اس فلم کی ہیروئن مسلمان گجراتی اداکارہ عذرا تھی۔ چونکہ پہلی دفعہ میتھلی زبان کی کوئی فلم بن رہی تھی جس کے لیے سارے اداکار اور فلم سے متعلق عملہ ممبئی سے پٹنہ ہوتے ہوئے راج نگر آئے تھے۔ اور اسی راج نگر کے راج پیلس میں اس فلم کی شوٹنگ دو مہینے 13 دن تک ہوئی تھی۔ راج نگر کے راج پیلیس میں سارا سیٹ لگایا گیا تھا اور ساری شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ عذراگجراتی تھی اس لیے عذرا کو میتھلی زبان میں اپنا ڈائلاگ بولنے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس فلم کے گیت اس وقت تو مشہور ہوئے ہی تھے، اب بھی اس کے گیت لوگوں کی زبان پر ہیںجیسے:

 بھر نگری میں شور؍ بوا مامی تو ہر گور؍ ماما چان سن۔ (گلوکارہ سمن کلیان پور، گیت کار روندر ناتھ ٹھاکر)

دوسرا گیت تھا        ؎

 ارا بکری گھاس کھو؍ چھوڑگوٹھلا باہر جو ( گلوکارہ، گیتا دت)

اس فلم میں میتھلی کے عظیم شاعر ودیا پتی کا بھی ایک گیت تھا۔

توہے جنو جاہ  بدیس،ہے مادھو ؍توہے جنو جاہ بدیس (گلوکارہ۔سمن کلیان پور؍شاعر۔ودیا پتی)

راج نگر پہلے دربھنگہ ضلع میں ہی پڑتا تھا،جب دربھنگہ کئی ضلعوں میں منقسم ہوا تو ان میں سے ایک ضلع مدھوبنی بھی وجود میں آیا۔دربھنگہ کے راجا کی خواہش تھی کہ راج نگر کو متھلا کا دارالسلطنت بنایا جائے اور یہیں سے سارے متھلا پر حکومت کی جائے۔اسی لیے بطور خاص راج نگر کو بسایا گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کی یہاں زمین کی کوئی کمی نہیں تھی۔خالی زمین ہونے کی وجہ سے یہ سہولت رہتی ہے کہ شہر کو اپنی ضرورت اور اپنی مرضی کے حساب سے بسایا جا سکتا ہے۔ مگر ایسا ہو نہ سکا اور راج نگر  دارالسلطنت ہوتے ہوتے رہ گیا۔دربھنگہ کے راجا یعنی دربھنگہ مہاراج کا تعلق مغلیہ سلطنت سے بھی رہا ہے۔کیونکہ دربھنگہ کے راجا کو اکبر بادشاہ نے متھلا پر حکومت کرنے کا اختیار دیا تھا۔اور متھلا کا رقبہ یا چوحدی اس طرح کتابوں میں درج ہے: مغرب میں گنڈک کی ندی،مشرق میں کوسی ندی، شمال میں کوہ ہمالیہ اور جنوب میں گنگا ندی۔راجہ دربھنگہ کے یہاں مغلیہ سلطنت کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر کے پوتے شہزادہ میرزا محمد رئیس بخت زبیرالدین گورگان تشریف لائے تھے اور مہاراج لچھمیشر سنگھ بہادر والی ریاست دربھنگہ کی فرمائش پرایک کتاب لکھی تھی جس میں ان کا سفرنامہ ہے اور دربھنگہ کے شاہی خاندان کا ذکر ہے۔  کتاب کا   نام’موج سلطانی‘ ہے۔     

جب مجھے معلوم ہوا کہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادرشاہ کے پوتے دربھنگہ مہاراج کے مہمان ہوئے تھے اور انھوںنے ایک کتاب لکھی تھی تو میرے دل میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ میں اس کتاب کو دیکھوں۔اتفاق سے  دربھنگہ مہاراج کے آخری راجہ مہاراج کامیشور سنگھ کا یوم پیدائش ہر سال منایا جاتا ہے، جس میں دربھنگہ،مدھوبنی،پٹنہ،دلی اور ملک بھر سے  گنے چنے لوگوں کو مدعو کیا جاتاہے  اور ایک شاندار جشن کا انعقاد ہوتا ہے۔میری خوش قسمتی کہ مجھے بھی اس جشن کا دعوت نامہ آتا ہے اور میں اگر بہار میں ہوں تو ضرور اس جشن میں شریک ہوتا ہوں۔اتفاق سے ایک بار جب میں اس جشن میں شرکت کی غرض سے گیا۔

کتب کی نمائش بھی دیکھی، وہاں مجھے وہ کتاب نظر آئی جسے مغل شہزادے زبیرالدین بہادر گورگان نے تصنیف کی ہے۔کتاب دیکھتے ہی مجھے یک گونہ مسرت کا احساس ہوا اور میں نے فورا وہ کتاب جس کی قیمت چار سو پچاس  روپے تھی خرید لی۔گو کہ یہ کتاب دیو ناگری (ہندی) میں ترجمہ شدہ ہے۔لیکن اس کے اردو سرورق کو برقرار رکھا گیا ہے اور ہندی میں بھی کتاب کا نام تحریر ہے۔ اس کتاب کا سرورق کچھ یوں ہے:

نام موج سلطانی جلی حروف میں تحریر ہے اور اس کے نیچے  یہ تحریردرج ہے:

جس کو نہایت عرق ریزی  اور کوشش سے  جناب شاہزادہ والاتبار سموالمکان میرزا محمد رئیس بخت زبیرالدین  گورگان دام اقبالہ نے تصنیف فرمایا۔

بحسب ارشاد

رئیس نامدار نو آئین  بلند اقتدار ملک جناب مہاراج لچھمیشر سنگھ بہادر والی ریاست دربھنگہ دام اقبالہ مطبع نامی منشی نول کشور میں بمصقل ا نطباع متجلی ہوا

اسی کتاب یعنی موج سلطانی میں شہزادہ گورگان نے یہ بھی تحریر کیا ہے،’’راجہ مہیش ٹھاکر صاحب میتھل برہمن پسر رام چندر ٹھاکر نے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے زمانے میں دہلی سرکار سے حکومت حاصل کی۔‘‘

دربھنگہ کے  راجائوں میں علم دوست راجا بھی ہوئے ہیں۔جن میں دو راجائوں کا نام سر فہرست ہے۔ ایک تھے مہاراج سررامیشور سنگھ اور دوسرے کا نام تھا مہاراج کامیشور سنگھ۔یہ دونوں تعلیمی اداروں کے قیام  اور ترقی میں تعاون کیا کرتے تھے۔ایک طرف جہاں انھوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو امداد دی وہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بھی ایک خطیر رقم سے امداد کی۔جس کا ذکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دستاویزات  میں کیا گیا ہے۔ مہاراجہ سر رامیشور سنگھ جب علی گڑھ  پہنچے  تو انھوں نے علی گڑھ کے محمڈن اینگلواورینٹل کالج کو بیس ہزار روپیوں کا عطیہ دیا تھا۔یہ 1912 کی بات ہے۔

اس کے علاوہ 1945 میں دربھنگہ مہاراج کامیشور سنگھ (1907-1962) نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کے لیے 50,000 روپے کی مدد کی۔ اس کی جانکاری خلیق احمد نظامی کے ذریعے مرتب کتاب ’ہسٹری آف دی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (1920-1945) میں بھی ملتی ہے۔ واضح ہو کہ کامیشور سنگھ دربھنگہ مہاراج سررامیشور سنگھ کے بیٹے تھے۔

نولکھا بنانے والے دربھنگہ مہاراج اور ان کے اہل خاندان کی علم دوستی کی ایک اور مثال ہمارے سامنے  دربھنگہ کے للت ناراین متھلا یونیورسٹی کے کیمپس میں  بنی نادرو نایاب لائبریری ہے۔جو مہاراجہ کامیشور سنگھ کی بیوہ کے زیر سایہ جاری ہے۔اسے ایک فائونڈیشن کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔جس کا نام ہے ’مہارانی کلیانی فائونڈیشن‘۔ اسی فائونڈیشن کے ذریعے ہر سال 28 نومبر کو مہاراجہ کامیشور سنگھ کے یوم پیدائش پرایک یادگاری جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔جس میں ملک بھر سے شاعر،ادیب اور نامور ہستیاں شامل ہوتی ہیں اور مہاراجہ کامیشور سنگھ کو یاد کیا جاتا ہے۔

 

Sadre Alam Gauher

Vill+Po- Pursaulia,

Distt.: Madhubani - 847226 (Bihar)

Cell-7715980144

Emai-gauhersadre@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...