22/12/25

اردو ناولوں میں منفی کرداروں کی اہمیت و افادیت،مضمون نگار: محمد ابرار

 اردو دنیا،جون 2025

حیات انسانی متنوع جہات کی حامل ہے۔ آدمی شروع سے ہی مختلف مدارج و مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں حالات و تغیرات سے دوچار ہوتا ہوا مسلسل ترقی کے منازل طے کرتا رہا ہے۔ اس دوران پیش آنے والے نشیب و فراز کا تدریجی ارتقا انسان کے ذہن و فکر اور عادت و اطوار پر دیر پا اثرات مرتسم کرتا ہے۔حیات انسانی کے اس اتار چڑھاؤ کو ادبی سطح پر قصے، کہانیوں اور افسانوں میں خوب برتا گیا ہے۔ ادب چونکہ انسانی زندگی اور فطرت کے لازوال خزانوں کا امین اور مختلف احساسات و واقعات کا مرقع ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے ذریعے انسانی زندگی کے مختلف کوائف سے بخوبی آگہی ہوتی ہے۔

ناول کا فریضہ زندگی کے مختلف گوشوں اور موضوعات کا احاطہ کرکے ایک فلسفہ حیات پیش کرنا ہوتا ہے۔ عام طور پر فلسفۂ حیات کی اساسی اکائی افراد قصہ کے ذہنی رجحانات سے پیدا ہوتی ہے، جسے (افراد قصہ) عوام و خواص ’کردار‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ چونکہ ناول کا تانا بانا قصّوں پر منحصر ہوتا ہے اور قصّوں کا انحصارکرداروں پر، تو ایسی صورت میں کردار ناول کے لیے بالواسطہ جزو لا زم کے مثل ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کردار ناول کے بیانیے میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کام کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارا جسم ریڑھ کی ہڈی کی بدولت سیدھا کھڑا رہتا ہے ٹھیک اسی طرح کردار بھی ناول کے بیانیے کو آگے بڑھاتے ہیں اوراس کی ترتیب و تنظیم میں بڑا اہم رول ادا کرتے ہیں۔گویا ناول کرداروں کے توسط سے پروان چڑھتے ہیں اور حیات انسان کے مختلف گوشوں کو یا کسی ایک گوشے کو پیش کرتے ہیں۔پھر ان ہی کرداروں کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی وساطت سے آخر میں کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔

یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ ناول کے وہی کردار ابدی زندگی پاتے ہیں جن میں زمینی حقائق سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔جن کے مزاج اور ماحول میں ارضی ہم آہنگی ہوتی ہے۔انسانی سطح پر خطا اور نسیان سے مرکب ہوتے ہیں۔ ذہانت و فطانت اور فطرت کے پیش نظر جن کے اعمال و افعال میں مطابقت ہوتی ہے اور ان کے عمل اور ردعمل کے تمام مظاہر موزوں اور قرین قیاس صورت میں پیش ہوتے ہیں، ورنہ چھوٹی سی بھول ناول کے پورے بیانیے کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ فنکار کی فنی کمزروری کی وجہ بن جاتی ہے۔ اس لیے کرداروں کی تخلیق میں بڑی سنجیدگی، متانت اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔اختر اورینوی اسی بابت لکھتے ہیں:

’’کامیاب کردار نگاری صرف خد و خال کی پیش کش نہیں۔ بلکہ اساسی، جذباتی، تخیلی اور جذباتی زندگی کی رونمائی ہے...کرداروں کی نفسی زندگی کو ابھارنا اور نفسی زندگی کی ترجمانی ایک پیچیدہ عمل ہے۔ یہ عمل اور رد عمل، اثر و تاثیر، جبلتوں اور شعور کا پیچیدہ مرکب ہے... اس لیے زندہ کردار نگاری کے لیے تجزیہ نفس کی ضرورت ہے اور نفس انسانی کی نیرنگی سے واقف ناول نگار ہی عمدہ کردار نگاری کر سکتا ہے۔‘‘

   (اختر اورینوی:تحقیق و تنقید،مطبوعہ کتابستان الہ آباد، 1961، ص 137)

محولہ سطور کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کردار نگاری ناول کی جان ہوتی ہے، ناول صرف قصہ گوئی یا محض تسلسل واقعات   نہیںبلکہ بے حد حزم و احتیاط اور فنی دسترس کے ساتھ عمدہ کردار نگاری کا نام ہے۔ اس لیے کردار محض کٹھ پتلی اور بازیچۂ اطفال نہ ہوں بلکہ جیتے جاگتے، سانس لیتے، متحرک اور فعال ہوں۔ ان کی رگوں میں خون رواں ہو اور سر میں مغز جواں۔ وہ محض تصویر بتاں اور سایہ دیوار نہ ہوں بلکہ حساس، سوچنے سمجھنے والے، اثر ڈالنے والے اور اثر قبول کرنے والے بھی ہوں۔گویا ناول نگار کرداروں کا ایسا خد و خال  ابھارے کی ان کی جیتی جاگتی شکلیں آنکھوں میں گھر کر جائیں، اجنبیت کا احساس بالکل نہ ہواور ایسا لگے کہ یہ کردار ہمارے آس پاس موجود ہے۔

واقعات چاہے ارضی ہوں یا فرضی ’افراد قصّہ‘ یعنی کردار سب کے لیے ناگزیر ہیں۔ بغیر کردار کے نہ تو ارضی واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی فرضی واقعات۔ ناول نگار واقعات کا جو ماحولیاتی بیانیہ پیش کرتا ہے، اس کے کردار بھی اسی ماحول اور فضا کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کے کینوس پر نمودار ہونے والے کرداروں کا تعلق حقیقی دنیا سے ماورا نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی جڑیں دنیائے ارض سے پیوستہ ہوتی ہیں۔ ناول کے کر دار جتنے زیادہ زمینی، تہہ دار، پیچیدہ اور گنجلک ہوں گے قاری کے لیے اتنے ہی دلچسپی اور تجسس کا باعث ہوں گے۔ناول نگار کی شدید آزمائش کرداروں کی پیش کش اور پلاٹ کی تخلیق میں ہوتی ہے۔ یہیں پر ناول نگار کی فنکارانہ مہارت اور گرفت کی سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اس لیے ناول نگار کے لیے یہ مرحلہ کسی خار زار وادی عبور کرنے سے کم نہیں ہوتا ہے۔اسی بات کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلام سندیلوی لکھتے ہیں:

’’ایک کامیاب ناول کے کردار ہمارے جیسے گوشت و پوست سے بنے ہوتے ہیں۔ہماری ہی فضا میں وہ سانس لیتے ہیں ہماری ہی طرح خوشی اور غم کے وہ جذبات بھی رکھتے ہیں... وہ (ناول نگار) مختلف کرداروں کو ہمارے سامنے پیش کرے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ان کا نقشہ پھر جائے اور ہم ان کی شکل و صورت اور گفتار و کردار کو بھی نہ بھول سکیں۔بعض ناول نگار ایسی تصویر کھینچنے کے لیے رسمی طور پر ایک ایک جزو کا ذکر کرتے ہیں۔مگر یہ تجربہ با لکل ناکام رہا ہے۔ ایک ماہر فنکار یہ جانتا ہے کہ کن جزئیات کا ذکر کرنا چاہیے اور کن کو ترک کردینا چاہیے، تاکہ ناظرین خود اپنی قوت تخیل سے اس خلا کو پر کر لیں۔‘‘

( ڈاکٹر سلام سندیلوی :ادب کا تنقیدی مطالعہ،  ص 157-59، پبلشر نسیم بک ڈپو، لکھنؤ 1972)

مذکورہ قول سے یہ بات ثابت ہو جا تی ہے کہ کرداروں کی کامیابی اور ناکامی دونوں کا انحصار ناول نگار کی فنکارانہ استعداد پر ہے۔ ناول میں چونکہ معاشرتی زندگی کے پیچ و خم کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے کردار بھی بنی نوع انسان کی طرح مختلف رنگ و روپ اور صفات کے حامل ہوتے ہیں۔کبھی یہ مثبت رنگ و روپ میں متشکل ہوتے ہیں اور شر کے خلاف علم خیر بلند کرتے ہیں۔ کبھی یہی کردارمنفی شکل و صورت میں سامنے آتے ہیں تو علم شر اٹھانے کی پیہم کوشش کرتے ہیں۔ جس میں یہ کامیاب ہوتے ہوتے بیشتر ناکام ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں ناول نگار سماج اور معاشرے کے داخلی عناصر ظاہرکرتا ہے۔ مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرکے کوئی نتیجہ منتج کرتا ہے۔ تاکہ معاشرے کا وہ رخ بھی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو سکے جو دانستہ یا نہ دانستہ معاشرے کا حصہ ہے۔

مثبت کرداروں کی اہمیت اپنی جگہ بہ سر و چشم تسلیم ہے۔ لیکن منفی کرداروں کی اہمیت بھی کسی صورت ان سے کم نہیں بلکہ بعض دفعہ ان سے بڑھ بھی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ منفی کردار وں کے اعمال و افعال ہی ہوتے ہیں جو زندگی کی ناہمواریوں اور معاشرے میں موجود غلط روشوں کی عکاسی کرتے ہیں۔سست اور مند سماج کو چاق و چوبند اور متحرک رکھتے ہیں۔ اشیا کے کھونے اور جان کے تلف ہونے کا ڈر پیدا کرتے ہیں۔یہ اصول مبنی برحق ہے کہ جب تعمیری اور تخریبی عناصر کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو مثبت اور سودمند نتائج برآمد ہوتے ہیں۔حقیقی معنوں میں ایک مثالی معاشرے اورایک اچھے سماج کی تشکیل اور پہچان منفی کرداروں کی بدولت ہوتی ہے۔ کیونکہ عربی کا مقولہ ہے ’تعرف الاشیاء باضدادھا‘ یعنی چیزیں اپنے مخالف سے جانی جاتی ہیں۔گویا جہان رنگ و بو میں سوز و ساز،درد و داغ اور جستجو و آرزو سب منفی کرداروں کے دم سے ہے۔ ورنہ اگر معاشرے کے سارے افراد نیک سیرت، پاکیزہ طینت اور شریف الخصلت ہوتے، تو دل یزداں میں نہ ہی کوئی کانٹے کی طرح کھٹکتا اور نہ ہی کوئی راہ راست سے در بدر بھٹکتا۔ معلوم یہ ہوا کہ ناول میں تجسس و تحیر برقرار رکھنے کے لیے منفی کردار اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنے مثبت کردار اہم ہوتے ہیں۔

منفی کرداروں کو انگریزی میں ’ ولن‘ اور ہندی میں ’کھلنایک‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ادب میں عموماً منفی کرداروں سے مراد وہ کردار ہیں، جو اخلاقیات سے عاری، دوسروں کو تکلیف پہونچانے کے عادی، برے راستوں کے ہادی،اخلاق حسنہ اور اچھے برتاؤ  سے خالی ہوتے ہیں۔اسی سے ملتی جلتی منفی کرداروں کی تعریف کیمبرج ڈکشنری میں بھی کی گئی ہے۔ مثلاً؛

"A bad person who harms other people or breaks the law, or a cruel or evil character in a book, play, or film."

اسی طرح سے انگریزی ڈکشنری کولنس میں بھی  اس کی تعریف کی گئی ہے:

"A villain is someone who deliberately harms other people or breaks the law in order to get what he or she wants……...The villain in a novel , film, or play is the main bad character."

مذکورہ دونوں تعریفوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ منفی کردار کہانیوں اور قصوں میں اعمال رذیلہ اور افعال قبیحہ کے حامل ہوتے ہیں اورجن کا کام عموماً دوسروں کو تکلیفیں پہنچانا ہے۔

اردو ناولوں میں شروع سے ہی منفی کرداروں کی روایت ملتی ہے چونکہ ناول داستان کی ترقی یافتہ صورت ہے،اس لیے داستانوی رنگ و آہنگ کا ہونا لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ناولوں میں خیر و شر کی کشمکش، تصادم اور ٹکراؤ خوب دیکھنے کو ملتا ہے مگر جیسے جیسے اس فن میں پختگی آتی گئی ویسے ویسے داستانوی اثر ہوتا گیا۔ جیسے ڈپٹی نذیر احمد کا شروعاتی ناول ’توبتہ النصوح‘ جس میں کلیم اور نعیمہ کے باغیانہ رویّے نصوح کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتے رہتے ہیں۔ جن کی اصلاح کے لیے نصوح شدت کی حد تک کب پہنچ جاتا ہے اس کا احساس اسے خود بھی نہیں ہوپاتا ہے۔ نتیجتاً کلیم نا خوش ہو کر گھر بار چھوڑ دیتا ہے اور نعیمہ کو اس کی خالہ کے گھر صالحہ کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ناول میں ڈپٹی نذیر احمد نے اگرچہ کلیم اور نعیمہ کو منفی کردار کے طور پر ضدی، اڑیل اورنا فرمان بنا کر پیش کیا ہے مگراس کے باوجود ان  دونوں کے لیے قارئین کے دلوں میں ہمدردی اور محبت کا جذبہ ابھرتا ہے، جب کہ اس کے برعکس نصوح کے لیے ناراضگی اور خفگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں پر یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے کہ  ڈپٹی نذیر احمد نصوح کو زیادہ پاکباز اور فرشتہ صفت بنانے کی فراق میں کہیں ناکام تو نہیں ہو گئے، جس کی وجہ سے قاری کی محبت اور ہمدردی کلیم کے ساتھ ہو جاتی ہے اور ناول نگار سے در پردہ ناراضگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔اس بات کی تائید محمد احسن فاروقی کے ذیل میں دیے گئے اقتباس سے بھی ہوتی ہے۔وہ لکھتے ہیں:

’’ یہ مولانا کی نفرت کا خاص شکار ہے مگر ہمیں اس سے اس قدر ہمدردی ہو جاتی ہے کہ مولانا سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ‘‘

(محمد احسن فاروقی،  اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ص 47، دوسرا ایڈیشن  1962)

اسی سلسلے میں آل احمد سرور بھی لکھتے ہیں:

’’ان کے کردار فرشتے ہوتے ہیں یا شیطان... نذیر احمد سب کچھ بھول سکتے ہیں مگر وہ مقصد نہیں بھول سکتے، جس کے تحت وہ قصہ لکھتے ہیں۔‘‘

(آل احمدسرور، تنقید کیا ہے، ص 16، مطبوعہ سرفراز قومی پریس لکھنو، 1964)

مذکورہ بالا دونوں اقوال کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اگرچہ کلیم اورنعیمہ کے کردار کو مسخ کرکے لائق نفرت بنانے کی کوشش کی ہے مگر وہ کلی طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔اس لیے اگر کلیم اور نعیمہ کے کردار کو نیم منفی کردار کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ یہ دونوں ایسے منفی کردار ہیں جن سے نفرت کم ہمدردی اور لگاؤ زیادہ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ ایسے بھی منفی کردار ہیں جن سے حد درجہ نفرت ہوتی ہے۔ جیسے ناول ’’فردوس بریں ‘‘میں فرقہ باطنیہ کا مبلغ شیخ  علی وجودی۔جو اردو ناول کی تاریخ میں سب سے بڑا ولن (منفی) کردار ہے اور عبدالحلیم شررکا تخلیق کردہ ہے۔ شرر نے ’شیخ علی وجودی‘  کی کردار نگاری میں بڑی مہارت اور اعلیٰ فن کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے شیخ علی وجودی کا کردار اتنا فعّال، طاقتور اور متحرک  بنا کر پیش کیا ہے کہ اس کے سامنے ہیرو (حسین) کا کردار بالکل سپاٹ اور بے بس نظر آتا ہے۔فرقہ باطنیہ کا بانی کوئی بھی ہو مگر پورے ناول میں شیخ علی وجودی کی موجودگی سحر انگیزی اورتجسس کا باعث ہے۔اس کی وجہ سے ہی ناول میں قارئین کی دلچسپی از اول تا آخر برقرار رہتی ہے اور واقعات حادثات کے بارے میں جاننے کے لیے قارئین ہمہ وقت بے تاب و بے چین رہتے ہیں۔ یہی چیزیں ناول ’فردوس بریں ‘کی   کامیابی اور دلچسپی کی ضمانت اور دلیل ہیں۔ ناول کو جو رفعت و عظمت شیخ علی وجودی کی موجودگی میں حاصل ہوئی ہے شایدہی اس کی عدم موجودگی میں حاصل ہوتی۔ اسی طرح ناول ’امراؤ جان ادا ‘ کا ولن دلاور خاں، جو انتقام کی شدیدآگ میں جل رہا ہوتا ہے۔وہ ایک شریف زادی امیرن کو اغوا کرتا ہے اور خانم کے کوٹھے پر پہنچا دیتا ہے۔جہاں تعلیم وتربیت پا کر وہ امیرن سے امراؤ جان بنا دی جاتی ہے۔خانم کے کوٹھے پراس کی پرورش و پرداخت اگرچہ ہوتی ہے مگر اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون ایک شریف و نظیف نسل کا تھا، جس کی وجہ اس دلدل سے نکلنے کے لیے وہ کئی دفعہ راہ فرار اختیار کرتی ہے مگر سوئے قسمت ناکام ہوتی ہے۔ دکھ اور لا چارگی سے بھری ہوئی امیرن کی آپ بیتی قارئین کے دلوں میںہمدردی اور محبت کا جذبہ پیدا کرتی ہے جب کہ دلاور خاں کے لیے شدید نفرت کا۔ حالانکہ ناول کے آخری صفحات میں جہاں دلاور خاں کے گرفتار ہونے کا بیان ہے وہاں دلاورخاں کی حالت بھی قابل رحم ہوتی ہے۔ اس کی موجودہ حالت نفرت کے جذبات ختم تو نہیں کر پاتی ہے مگر کم ضرور کر دیتی ہے۔ لیکن ظالم پر رحم مظلوم پر ظلم کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ دلاور خاں کے ظالم اور بے رحم ہونے میں کوئی شک نہیں۔

کچھ ایسے ہی منفی کردار ان کے بعد آنے والے ناول نگاروں کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہاں پرہم تفصیلات سے اعراض کرتے ہوئے چند منفی کرداروں کے فقط ذکر پر اکتفا کریں گے۔ ان میں سے چند مشہور و معروف اور قابل ذکر منفی کردار جیسے دلاور خاں (’امراؤ جان ادا ‘ از مرزا محمد ہادی حسن رسوا)، پنڈت داتا دین اور ماتادین (’گئودان ‘ از پریم چند)، پنڈت سروپ کشن (’شکست‘ از کرشن چندر)، نیاز اور خان بہادر (’خدا کی بستی‘ از شوکت صدیقی)،احسان میاں (’معصومہ‘ از عصمت چغتائی)، مہربان داس (’ایک چادر میلی سی ‘ از راجندر سنگھ بیدی)، مرزا صاحب عرف بڑے سرکار (’شب گزیدہ‘ از قاضی عبد الستار)، وینکٹ ریڈی اور ملیشیم ریڈی (’بارش سنگ‘ از جیلانی بانو)، شہوار خانم اور نگار خانم (’گردش رنگ چمن‘از قرۃ العین حیدر)، بھاردواج اور پی این ورما (’فائر ایریا‘ از الیاس احمد گدی) اورجہانگیر اعوان (’نادار لوگ‘ از عبد اللہ حسین) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح ہمیں منفی کرداربیسویں اور اکیسویں صدی کے دیگر ناول نگاروں کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جن میں سے بعض کرداروں کو دنیائے اردو ادب میں شہرت عام کے ساتھ ساتھ بقائے دوام بھی حاصل ہوئی اور بعض کو شہرت عام تو نہیں مگر حیات ابدی ضرورحاصل ہو ئی۔ وہ (کردار)اپنی منفرد شناخت و پہچان قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان کی موجودگی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یہی چیزیں ناول نگار کو ایک کامیاب تخلیق کار کے زمرے میں شمار کرواتی ہیں، مثلاً قاری ان کے کرداروں سے متأثر ہو،ان کی طرف توجہ دے، ان کے اثرات ان پر مرتسم ہوں اور وحدت تأثر قائم ہو۔ اس طرح کے کامیاب اور اہم ناول نگاروںمیں رتن ناتھ شرشار، قاضی عبد الغفار، سجاد حیدر یلدرم، خواجہ احمد عباس، عزیز احمد، خدیجہ مستور، ممتاز مفتی، انتظار حسین، حسین الحق، انور سجاد، شمس الرحمن فاروقی، مشرف عالم ذوقی، ترنم ریاض، طارق چھتاری، سید محمد اشرف، غضنفر، رحمٰن عباس، خالد جاوید، انیس اشفاق اور صادقہ نواب سحر وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔

 ان تمام ناول نگاروں نے فقط کردار نگاری سے ہی کام نہیں لیا ہے بلکہ بہترین فنکاری،عمدہ تکنیک، دلکش اسلوب اور اعلیٰ ادبی شان و شوکت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ انھوں نے اپنے پیچھے منفی اور مثبت کردار وں کی ایسی انمول اور ناقابل فراموش مثالیں اور روایتیں چھوڑی ہیں کہ جن سے صرف نظر کسی بھی ادیب ا ور تخلیق کار کے لیے نا ممکن ہے۔

 

Mohd Abrar

Research Scholar, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202001 (UP)

Mob.: 8009386712

mohdabrar253@gmail.com

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو ناولوں میں منفی کرداروں کی اہمیت و افادیت،مضمون نگار: محمد ابرار

  اردو دنیا،جون 2025 حیات انسانی متنوع جہات کی حامل ہے۔ آدمی شروع سے ہی مختلف مدارج و مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں حالات...