اردو دنیا،جون 2025
مثنوی
ایک جامع، بلیغ و وسیع اور کامل صنف سخن ہے۔ اس کا مضمون مسلسل اور بیان مربوط
ہوتا ہے لیکن ہر شعر جدا ہوتا ہے اس لیے اس میں لچک کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس میں
شاعر کو جذبات نگاری اور واقعہ نگاری کا ایک وسیع میدان ملتا ہے جس میں وہ اپنی
شاعری کے جوہر دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی شاہکار شاعری ہر زبان میں مثنوی میں
موجود ہے۔
مثنوی
کی ابتدا فارسی سے ہوئی اور فارسی کی پہلی مثنوی کلیلہ و دمنہ ہے جو رودکی نے
320ھ/932ء میں لکھی اور اس کا قصہ عربی زبان سے ماخوذ تھا۔ اس کے بعد یہ صنف سرد
پڑ گئی اور امیر خسرو کی ’مطلع الانوار‘ 698ھ1299ء تک صرف نظامی کی مخز ن الاسرار
اور چند مثنویاں قابل قبول رہیں۔ خسرو کے بعد جب اردو میں مثنوی لکھنے کا رواج ہوا
تو اسے عروج حاصل ہوا۔ نصیر الدین ہاشمی نے ’دکن میں اردو‘ میں نظامی بیدری کی
مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کو پہلی مثنوی قرار دیا ہے۔ اس سے قبل ایک عرصے تک وجدی کی
تحفہ عاشقان، خوب محمد چشتی کی خوب ترنگ، قطبن کی مرگاوتی کو اردو کی اولین مثنویاں
سمجھا جاتا رہا ہے۔
اردو
مثنوی سب سے پہلے کس غیر مسلم شاعر نے لکھی اس کاحتمی جواب ملنا مشکل ہے البتہ بیجاپور
میں علی عادل شاہی خاندان کے آخری چشم و چراغ سکندر شا ہ کے عہد میں ایک ہندو شاعر
رام راؤ کا ذکر ملتا ہے جس کا تخلص سیوا ہے۔نصیر الدین ہاشمی نے اسے واقعات کربلا
کی مثنوی کا خالق بتا یا ہے۔ یہ مثنوی اب نایاب ہے۔ رام راؤ گلبرگہ کا رہنے والا
تھا اور بیجاپور میں مقیم تھا۔ وہ علی عادل شاہ ثانی کا معاصر تھا اور اس نے 1683ء
میں روضتہ الشہدا کا منظوم ترجمہ کیا۔ قدرت اللہ قاسم نے درد کے ایک شاگرد منشی
جھمن لال کا ذکر کیا ہے جس نے ’بہار دانش‘ کا ترجمہ کیا ہے۔
ہم
اس مقالے میں پہلے ان یورپی شعرا کے کلام پر نظر ڈالیں گے، بعد ازاں ہندو شعرا کی
مثنویوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان مذہبی کتابوں کے تراجم کا ذکر کریں گے جو مثنوی کی
شکل میں لکھی گئی ہیں۔
جارج
سوم اور چارج چہارم کے زمانے میں ایک شاعر فراسو نام کا گزرا ہے۔ اس کا نام فرنسنس
گائیلیب کوئن اور فراسو تخلص تھا۔والد کا نام جان آگسٹین گوبیلب کوین تھا۔ اس کی
زندگی آسودگی سے بھری تھی۔ اس کی تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی جہاں فارسی اور
اردو کی حکمرانی تھی۔ شعر و شاعری کے چرچے تھے۔ ان کے سرپرست ظفر یاب خان اردو کے
شاعر تھے۔ شیفتہ نے اسے دل سوز کا شاگرد لکھا ہے۔ فراسو کو شاعری سے اس قدر لگاؤ
تھا کہ اس نے نہ صرف غزلیات اور مثنوی تصنیف کی بلکہ منظوم خطوط بھی لکھے۔ احباب
کے نام ان کے منظوم خطوط دستیاب ہوئے ہیں۔ ایک کلیات یادگار ہے جوطبع نہ ہو سکا،
البتہ حسرت نے ان کے کلام کا انتخاب شائع کیا تھا۔ ان کی ایک مثنوی ’عشق افزا‘ ہے۔
اس میں بسم اللہ کے بجائے ’روح القدس‘ درج ہے۔ اس کے بعد حمد باری تعالیٰ اور پھر
تیس اشعار پر مشتمل ایک نعت حضرت عیسیٰ روح اللہ کے نام سے درج ہے۔ بعد ازاں شاہ
کشور لندن کی مدح ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نظم ’در وصف عشق‘ کے عنوان سے ہے۔نمونہ
کلام ملاحظہ ہو ؎
شہر
دہلی یوں ہے ہندوستان میں
جیسے
ہو رنگیں چمن بستان میں
اس
کا اس رونق پہ ہر بازار ہے
جیوں
نمو اک تختۂ گلزار ہے
بیچ
میں بازار کے اک نہر ہے
آب
کوثر کی سی جس میں لہر ہے
مالنیں
سب ان درختوں کے تلے
بیٹھی
ہیں پھولوں کے ہاروں کو لیے
شور
یورپ کے شعرائے اردو میں سب سے زیادہ مشہور و معروف ہیں۔ نام جارج پیش اور تخلص
شور تھا۔اس کی پیدائش 1823 میں ضلع علی گڑھ کے مقام کوئل میں ہوئی تھی۔ والدین
مستقل طور پر وہاں قیام پذیر تھے۔ والد فرانسیسی اور والدہ جرمن تھیں۔ صاحب طبقات
الشعرا کریم الدین نے لکھا ہے کہ غدر سے چالیس سال قبل ان کے اجداد نواح دہلی میں
آباد ہوئے اور والد ملازمت کے سلسلے میں علی گڑھ آئے۔ شور نے چھ دواوین، ایک مثنوی
اور ایک بیاض یادگار چھوڑی ہے۔ اسے اپنی شاعری پر فخر تھا۔ لکھتا ہے ؎
کرکے
خوں خشک یہ اشعار کیے ہیں پیدا
تاکہ
اے شورمرے بعد یہ اولاد رہے
شور
کے زمانے میں اہل مغرب مشرق کے رنگ میں رنگ جانے کو باعث فضیلت سمجھتے تھے۔ اس وقت
مغرب کی اندھی تقلید شروع نہیں ہوئی تھی۔رسم و رواج، بو دوباش، طرز معاشرت، لباس
اور فیشن کے معاملے میں مشرقی اقدار کا اعتبار قائم تھا۔شور اپنی وضع قطع کے لحاظ
سے مسلمان دکھائی دیتے تھے۔کلام پر مرزا رحیم بیگ میرٹھی سے اصلاح لیتے تھے۔ بعد میں
قطب الدین مشیر دہلوی اور ان کے بیٹے غلام دستگیر مبین سے اصلاح لے کر مرتبہ استاذ
حاصل کیا۔دیوان شور میں غزلیں قطعہ، رباعیاں، سہرا، تضمین اور مثنوی موجود ہیں۔
مشاہیر دہلی کے نام لکھی گئی ایک مثنوی سے کلام کا نمونہ ملاحظ ہو ؎
تھے
شعرا بھی دہلی میں وہ بے مثال
کہ
تھا شعر گوئی میں ان کا کمال
ہوئے
نامور ایسے تھے ایک میر
کہ
دیوان ان کے ہیں چھ بے نظیر
ہوئے
میر حسن اور دہلی میں ایک
کہ
سو میں تھے وہ ایک ہی مرد نیک
کہی
مثنوی خوب وہ انتخاب
نہیں
ہند میں پایا اس کا جواب
اور
ایک نامی گرامی تھے شاہ نصیر
کہ
جوں مہر و ماہ تھے وہ روشن ضمیر
فراسو
بھی شاگرد ان کے ہوئے
تھے
قوم فرنگی میں شاعر بڑے
اردو
میں آزاد کا نام آب حیات کی وجہ سے مشہور ہے لیکن یہاں جن آزاد کا تذکرہ کیا جا
رہا ہے ان کانام منشی بوڑ امل اور تخلص آزاد تھا۔ پنجاب کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے یسوع مسیح کی شان میں حمد، نعت اور
ثنا لکھی ہے جو مثنوی کی ہیئت میں ہے۔ صنائع بدائع کا استعمال بھی خوب کیا ہے۔ ایک
مثنوی میں مریض کو مسیح کے ہاتھ سے شفا پانے کے واقعے کو اس طرح رقم کیا ہے ؎
ایک
محتاج پُر ز رنج و بلا
مبتلا
و مریض استسقا
بھوکوں
مرتا تھا وہ بہ ناداری
تھا
شکم پُر مگر زبیماری
پیٹ
پھولا تھا مثل نقارہ
عازم
کوچ تھا وہ آوارہ
پانی
کیا اپنا خون پیتا تھا
انتظار
اجل میں جیتا تھا
ڈی
ایچ ہیریسن قربان مراد آبادی نے الہ آباد
سے منشی کامل فارسی اور اعلیٰ قابلیت اردو کے امتحانات پاس کیے۔ تعلیم کے دوران
شعر و شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اور 1938 سے باقاعدہ شعر کہنے لگے تھے۔ابتدا میں حکیم
محبوب علی خان اختر فیروزآبادی کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ بعد میں منشی بشیشور
پرشاد منورلکھنوی سے فخر تلمذ حاصل کیا۔انھوں نے نثر میں شیکسپیئر کی کہانیوں کا
ترجمہ کیا۔انھوں نے غزلوں اور نظموں کے علاوہ ایک مثنوی'داستان عجب' کے نا م سے
لکھی۔
پنڈت
امر ناتھ ہالو آشفتہ ایک کشمیری برہمن تھے۔ یہ اپنے عہد کے مشہور غزل گو شاعر
تھے۔اکثر تذکرہ نگاروں نے ان کا ذکر غزل گو شاعر کی حیثیت سے کیا ہے لیکن ان کی
مثنوی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔ انھوں نے اپنی مثنوی 'گلشن ہفت رنگ'میں حاتم طائی
کا قصہ نظم کیا ہے۔ یہ دو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدا حمد سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد
مناجات، سبب تصنیف، بیان سخن اور توصیف استاد ہے۔ اصل قصہ حاتم طائی کے اپنے وطن
سے رخصت ہونے پر ختم ہو جاتا ہے۔نمونہ ملاحظہ ہو ؎
عجب
پُر فضا گلشن لالہ زار
وہ
دلی کہ دل ہائے باغ و بہار
مصفا
در و بام، رنگیں تمام
ہر
اک خشت پر لاجوردی کا کام
وہ
رستہ، وہ بازار رشک قصور
دکانیں
برابر کہ بین السطور
وہ
نہر ایسی بازار کے درمیاں
فلک
پر ہو جیسے خط کہکشاں
منشی
امیربریلی کے رہنے والے خوش گو شاعر تھے۔ انھوں
نے کتھاست نرائن کے نا م سے ایک مثنوی لکھی جو ساڑھے چار سو اشعار پر مشتمل
ہے۔ اس مثنوی کی زبان شستہ اور انداز بیان
پاکیزہ ہے۔نمونہ ملاحظہ ہو ؎
اسی
کی ہر طرف جلوہ گری ہے
کہیں
زہرہ، کہیں وہ مشتری ہے
جدا
ہے سب سے لیکن ہے ہر اک جا
دوئی
سے دور ہے، یکتا ہے یکتا
بیاں
کیا کر سکے یہ پیکر خاک
بجز
اس کے کہ ہے وہ ایزد پاک
آئیے
اب ان شاہ کار فن پاروں پر نظر ڈالتے ہیں تو جو اپنی فصیح زبان اور سادہ بیان کے لیے
کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان میں رامائن، مہابھارت اور گیتا کے منظوم ترجمے
شامل ہیں۔رامائن کا سب سے پہلا منظوم ترجمہ مثنوی کی شکل میں منشی جگن ناتھ لال
خوشتر لکھنوی نے 1852 میں کیا۔ اودھ سے رام اور لچھمن کے رخصت ہوتے وقت بادشاہ کی
حالت زار کا قصہ، فضا اور ماحول کی سوگواری کی تصویر ملاحظہ ہو ؎
کیا
غم سے سحر نے پیرہن پاک
اڑائی
سر پہ اپنے شام نے خاک
جہاں
گریاں تھا سب آہ و فغاں سے
فرشتے
گل فشاں تھے آسماں سے
زمیں
پر شاہ تھا اس طرح بیتاب
کہ
ہو جس طرح سے آتش پہ سیماب
1867 میں منشی شنکر دیال فرحت لکھنوی نے لکھنوی انداز میں رامائن کو
پیش کیا۔ اس میں فصاحت کے ساتھ صنائع بدائع بھی ملتے ہیں۔ الفاظ بھی پُر شکوہ ہیں
اور انداز بیان بھی باحشمت ہے۔رام چندر جی کی شان سپہ گری کے ترجمے میں یہ اشعار
ملاحظہ ہوں ؎
قریب
قوس پہنچے جب سری رام
قدم
سے دامن غرا لیا تھام
دھنک
کو توڑ پھینکا جب زمیں پر
اندھیرا
چھا گیا عرش بریں پر
ہوئے
آثار محشر مچ گیا شور
چھپے
گوشوں میں مرغ و ماہی و مور
1880 میں منشی بانکے لال بہاری بہار دہلوی نے رامائن کا تیسرا ترجمہ
کیا۔ اس مثنوی سے شاعر کی ذہانت و فطانت اور جولانی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور
معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مضمون کو شعر میں پیش کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔
بہار
کی یہ مثنوی سلیس زبان میں لکھی گئی ہے لیکن اس میں وہ شاعرانہ حسن و جمال موجود
نہیں ہے جو اس سے قبل خوشتر کی مثنوی میں نظر آتا ہے۔ اس میں وہ لطف بھی موجود نہیں
ہے جو فرحت کی رامائن میں ہے۔
ویاس
نے مہابھارت نام کی ایک شہرہ آفاق مثنوی بھی 500 ق م میں تصنیف کی۔ اب تک ہر بڑی
زبا ن میں اس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ہندوستان میں فیضی نے اس کا ترجمہ فارسی نثر
میں کیا تھا۔ بنگالی میں کیشو رام مترا نے اور اوتکل میں مرنوداس نے اس کا نثری
ترجمہ کیا۔ البتہ شاعری میں اس کا پہلا ترجمہ منشی طوطا رام شایاں لکھنوی نے کیا۔شایاں
کی مثنوی ’مہابھارت‘ میں شاعرانہ جو ش وخروش اور زمزمہ اپنے پورے جاہ و جلا ل کے
ساتھ کارفرما ہے۔ شایاں نے یہ ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ اگرلوگ اس کو ترجمہ نہ کہہ
کر طبع زاد کہتے تو اس سے کوئی انکار نہ کر سکتا تھا۔ انھیں اپنے فن پر بھروسہ
تھا۔ لکھتے ہیں ؎
فن
شاعری میں سر افراز ہوں
تخلص
سے شایاں کے ممتاز ہوں
خدا
نے کیا علم سے بہر ور
بنا
فیض سے اس کے صاحب ہنر
کیے
ہیں نئے طبع موزوں نے کام
کہ
دلچسپ و شیریں ہے اپنا کلام
شایاں
کو اس بات کا اندازہ تھا ہزاروں لوگوں نے اس کتاب کی عظمت کا اعتراف کیا ہے لیکن
ان کی زور طبیعت نے انھیں اس بات پر آمادہ نہیں کیا اسے نظم کیا جائے۔اسی لیے
انھوں نے اسے ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا۔ لکھتے ہیں ؎
مرے
قلزم دل میں اٹھی ترنگ
کہ
ہو اب صف آرائی نظم جنگ
شایاں
نے اس مثنوی میں دکنی مثنویوں کے طرز پر حمد، تعریف سخن کے بعد مہابھارت کا ذکر
کرنے سے قبل اپنے معاصرین باکمالوں پر سبقت جتانے کی کوشش کی ہے۔اس مثنوی میں ایک
سیل رواں ہے جو بہا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ شایاں اس کا اختتام کر دیتے ہیں ؎
بیاں
سے ہے عاجز زبان قلم
بس
اب ہو چکا امتحان قلم
مہابھارت
میں اسلحوں کی الگ الگ تعریف میں اردو مرثیوں کا انداز نظر آتا ہے جس طرح میر انیس
کرتے ہیں ؎
زبان
قلم پر ہے تیروں کا حال
دم
رزم سنیے یہ ان کا کمال
کماں
پر کوئی تیر رکھا اگر
جو
کھینچا تو سب کو دس آئے نظر
ہوا
جس گھڑی وہ کماں سے جدا
نظر
آئے سو تیر بس برملا
یہ
مثنوی زبان و بیان، جوش و خروش اور شکوت و شکوہ کے اعتبار سے ایک دل پذیر اور جاں
نواز بے نظیر فن پارہ ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کو دوبارہ چھپنا نصیب نہیں
ہوا۔
گیتا
کے اردو زبان میں مختلف اصناف میں ترجمے کیے گئے۔جس میں نثری اور شعری دونوں شامل
ہیں۔ 1275ھ میں سب سے پہلے منشی جگن ناتھ لال خوشتر نے مثنوی کی شکل میں اس کا
ترجمہ کیا۔یہ مثنوی سلاست، نفاست اور صفائی و شگفتگی کے لحا ظ سے نہایت عمدہ ہے۔اس
کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے جو آگے چل کر مناجات کا رنگ لیے ہوئے ہے۔
1328ھ/1910 کو گیتا کا دوسرا ترجمہ منشی لچھمی پرشاد صدر لکھنوی نے
کیا۔ ان کی مثنوی کا نا م ’خورشید معرفت‘ ہے۔ یہ ترجمہ سلیس ہے اور صدر نے کرشن جی
کی تعلیم پر کافی زور دیا ہے۔کرشن جی کے ذریعے ارجن کو دیے گئے اپدیش کو صدر نے اس
طرح نظم کیا ہے ؎
عبث
رنج کرتا ہے تو دمبدم
کہ
بے فائدہ ہے یہ سب رنج و غم
کر
ایشور کی طاعت،کر ایشور کا دھیان
کہ
بے اس کے پائے گی تکلیف، جان
غم
اس کا نہ کر جو نہ دے فائدہ
مری
بات کو غور سے سن ذرا
یہ
سامان دہر اور ماہ شما
رہیں
گے قیامت تلک رونما
بدلتا
ہے تن، جاں بدلتی نہیں
خلش
تن پہ ہے، جاں پہ چلتی نہیں
سداوقت
پر اپنے آتی ہے موت
کسی
کو نہیں چھوڑ جاتی ہے موت
درس
عمل کو اس طرح پیش کیا ہے ؎
عمل
سے ہوا آشکارا جہاں
عمل
سے ہے دوزخ، عمل سے جناں
عمل
ہی بناتا ہے اہل کمال
عمل
ہی مٹاتا ہے سارے وبال
1337ھ/1919 میں مثنوی کی شکل میں گیتا کا ترجمہ منشی میوہ لال عاجز
عظیم آبادی نے کیا۔اس مثنوی میں صرف اس حصے کا ترجمہ کیا گیا ہے جس میں کرشن جی نے
ارجن پر عرفان الٰہی کے رموز اور اس سلسلے میں فرمان الٰہی کے اسرار منکشف کیے ہیں
اور بتایا ہے کہ دھیان کیا چیز ہے۔معرفت کسے کہتے ہیں، جسم و روح کا تعلق کیا ہے۔
1338ھ/ 1920 میں دیوکی نندن لال مبتدی عظیم آبادی نے گیتا کا ترجمہ
کیا لیکن چونکہ یہ مثنوی محض زبان و ادب کی خدمات اور وقت گزاری کے لیے لکھی گئی
اور جوش اور شاعرانہ ذوق کو کوئی جگہ نہیں دی گئی تو اس میں ولولہ اور حسن کیوں کر
پیدا ہو سکتا ہے۔ مثنوی میں فن کے لحاظ سے بھی جان نہیں ہے۔
1344ھ/1926 میں منشی بجرنگ سہائے صنوبر عظیم آبادی نے گیتا کا اردو
مثنوی میں ترجمہ کیا۔اس مثنوی میں سلاست بھی ہے اور روانی بھی۔ لسانی محاسن بھی
موجود ہیں اور تاریخی رعایتیں بھی مل جاتی ہیں۔ 1351ھ/1932 میں منشی راج کشور
احقرجائسی نے 144 اشعار پر مشتمل منظوم ترجمہ کیا جس میں سے صرف ایک شعر ڈاکٹر گیان
چند جین نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔1353ھ/1934 یوگی راج نے گیتا کا منظوم ترجمہ
کیا۔
حوالہ
جاتی کتب
ہندوستانی
قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں:گوپی چند نارنگ
اردو
مثنوی شمالی ہند میں: گیان چند جین
اردو
کے ہندو شعرا: جگدیش مہتہ درد
اردو
کے مسیحی شعرا:ڈی اے ہریسن قربان مرادآبادی
تذکرہ
یوروپین شعرائے اردو:محمد سردار علی
امر
کہانی (منظوم رامائن):بیتاب بریلوی
مہابھارت:افق
لکھنوی
Dr. Mohammad Sharib
Asst. Prof., P.G. Dept of Language
& Literature, Fakir Mohan University
Balasore-756089 (Odisha)
Mob: 7032775100
Email: mohdsharibkhan54@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں