27/5/21

شیکسپیئر کے گیارہ سانیٹس کا اردو ترجمہ - مضمون نگار: ف س اعجاز

 



ولیم شیکسپیئر  ((1564-1616 کے154  سانیٹوں کا شمار انگریزی کے سدا بہار منظوم ادب میں ہوتا ہے۔اور اس کے سانیٹس میںعشقیہ سانیٹس((Love Sonnets شاہکار قرار دیے جاتے ہیں۔اِن میں نمبر 127سے 154تک کے 28سانیٹس جو اس نے اپنی ’ڈارک لیڈی‘ ((Dark Ladyکو منسوب کیے ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ یہ شیکسپئیر کی زندگی کے ایک خاص دور کا پس منظر بھی فراہم کرتے ہیں۔عجیب بات ہے تخلیقی ادب میں کالی عورت کو ایک الگ قابلِ ذکر مقام ملا ہے۔ صوفی شاعر بابا بلّھے شاہ نے مجنوں کے تعلق سے کہا ہے         ؎

کیتا سوال میاں مجنوں  نوں

تیری لیلیٰ رنگ دی کالی اے

دِ تّا جواب  میاں مجنوں   نے

تیری انکھ نہ  د یکھن والی اے

ٹیگور کی مصوّری میں بھی ایک ڈارک لیڈی قابل ذکر ہے جس کا مفصّل ذکر میں نے اپنی کتاب ’تھوڑا سا ٹیگور‘ میں ایک تحقیقی مضمون میں کیا ہے۔یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے اپنی ہی ایک کہانی ’یونس تنویر کا فلیٹ‘ (مشمولہ افسانوی مجموعہ’پلوٹو کی موت‘)کے فریدہ نام کے حقیقی کردار کی یاد آرہی ہے۔میرا یہ سیاہ فام کریکٹر کہانی کے ناقدین نے بہت پسند کیا۔مگر ظاہر ہے کہ اپنے کالے رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار یا سائیکی کی بدولت۔

بہر حال شیکسپیئر کی’ڈارک لیڈی‘ کیا ہے،کون ہے یہ تحقیق بہت دلچسپ پیرائے میں میری فرمائش پر جناب ستیہ پال آنند صاحب( کنیڈا) نے مضمون کی شکل میں لکھی تھی ’جو ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ‘ کے دوسرے البم ایڈیشن میں شامل ہے۔شیکسپیئر کی یہ سیاہ عورت Lucy Negroتھی جو Black Luce کے نام سے بھی موسوم تھی۔لوسی نیگرو شمالی لندن کے کلرکین ویل چکلے کی بدنام رنڈی تھی جسے شیکسپیئر نے "My female evil" اور"My bad engel "گردانا ہے۔

 بہر حال، شیکسپیئر کے سانیٹس سے اس کے ا علیٰ افکار ہی نہیں اُس کے اپنے کردار کے بھی کئی گوشے سامنے آتے ہیں۔سانیٹ کا ترجمہ پابند سانیٹ میں بہت مشکل کام ہے۔اور پھر شیکسپیئر کے زمانے کی انگریزی میں لکھے گئے اس کے سانیٹس کا ترجمہ بہت کٹھن کام ہے۔ہندی میں تو شعری زبان یوں بھی آزاد ہے۔اس لیے ہندی میں ترجمے کے نام پر شیکسپیئر کے سانیٹس کا جو  زبانی یا تحریری متن ملتا ہے اُسے اصل کی تشریح سے تو تعبیر کیا جا سکتا ہے، ہیئت کے اعتبار سے ترجمہ نہیں کہا جا سکتا۔ شیکسپیئر کے سانیٹوں کا ترجمہ تھوڑی محنت سے کیا جا سکتا تو اب تک اس کے کئی سانیٹوں کا ترجمہ ہو چکا ہوتا۔میں نے بھی اب تک اس کے صرف11 سانیٹ ترجمہ کیے ہیں۔پہلے دو ترجمے شیکسپیئر یَن سوسائٹی آف انڈیا کی  دعوت پر 1989شاعر کی 425 ویں سالگرہ کے موقع پر کیے تھے۔وہ تقریب کلکتہ کے روٹری سدن میں ہوئی تھی۔پھرمزید تین  ترجمے کیے۔اُس کے بعد آنند صاحب کے مذکورہ تحقیقی مضمون کی Support میں ضرورتاً ایک سانیٹ ترجمہ کیا  جو ’ ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ‘ کے دوسرے ایڈیشن میں ’میرا گلاب ‘ عنوان سے  شامل ہوا۔ پھر کورونا کی وجہ سے لگے لاک ڈائون میں کرفیو کے دوران دیگرادبی کاموں کے ساتھ پانچ سانیٹوں کا ترجمہ کیا۔ اصل متن کی چودہ سطروں میں رموزِ اوقاف (Punctuations ) کو سمجھنا اور پھر اپنی زبان میں ان وقفوں کی گرہیں کھول کر اپنی زبان میں چودہ سطروں ہی میں گرہیں ڈالنا۔ مترجم کا دماغ الجھا دینے کے لیے بہت کافی ہے۔ یہاں کُل گیارہ سانیٹس کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ واضح رہے کہ شیکسپیئر کے سانیٹ بلا عنوان تھے۔ لیکن میں نے اردو قاری کی دلچسپی اور فہمائش کے لیے ہر ترجمے کو  اپنا ایک من چاہا عنوان دیا ہے۔

حسن اور موسم ِگرما: سانیٹ نمبر18

گرما  کے دن سے میں کروں تیرا مقابلہ؟          

  تو دل رُبا زیادہ ہے اور معتدل ہے خوب

   ہِلتے ہیں گو شگوفے مئی کی ہَوا سے خوب

گرمی کے دن   زیادہ نہیں ‘کم ہے آسرا؟

 

چمکے  ہے گرم  آنکھ  کبھی آسمان کی

 

جتنا  سنہر ا  رنگ  ہو    سنولاتا  ہے کبھی

ہر حسن اپنے رُتبے سے گِر جاتا ہے کبھی

ہو بات اتّفاق کی‘ فطرت کی آن کی

 

مُرجھانے دے گی پر نہ جو گرمی ازل کی ہے

جو ملکیت ہے حسن کی وہ کھو نہ پائے گی

 آوارگی  پہ  موت  نہ  شیخی   دکھائے گی

تیری  نمو  میں  پنہاں     ترقّی   ازل کی ہے

 

  جب تک تُوسانس لے سکے یا آنکھ دیکھ لے

جب تک کہ زندگی  تجھے  دے  اور تُو جیے

چھایا کا تماشہ: سانیٹ نمبر43

جب آنکھوں کو میں سب سے زیادہ ہوں جھپکتا

وہ   چیزیں تکیں دن  میں کہ عزت نہیں جن کی

پر سوئوں تو بس خواب میں دیکھیں وہ تجھے ہی

ظلمت  میں جو  چمکے  سوئے ظلمت  ہے   لپکتا

 

تب تُو  کہ  تری چھایا کو چمکاتے ہیں سائے

  بن   پائے  گا کیوں کر   تیری  چھایا   کا  تماشہ

اِس دن میں کہ روشن ہے تو دن سے بھی زیادہ

نا دیکھتی  آنکھوں  میں  ترا  سایہ چمک جائے

 

اُس نے میری آنکھوں کو ہے نعمت سے نوازا

 دن زندہ ہے میں اس میں تجھے دیکھوں بہت صاف

     اس   گہری   سیہ   شب   میں      ترا    سایۂ شفّاف

جو  نیند  میں بے  نور سی  آنکھوں  پہ ہے ٹھہرا

 

دن  لگتے  ہیں راتیں، ترا دیدار کیے بِن

تُو خواب میں آئے تو لگے رین مجھے دن

ظاہر سے جدا: سانیٹ نمبر 69

وہ پہلو  ترا      دنیا  کی  آنکھیں  جسے  دیکھیں

محتاج      نہیں     لوگوں  کے  کلماتِ رفو  کا

سچ بول دے جب خلقِ خدا خود ترے حق میں

کلمہ  پڑھے  دشمن   بھی  ترے  جوہرِ خو    کا

 

ظاہر کو  ملے  ظاہری  توصیف  کا  اک تاج

لوگوں  کی  زبانیں  جو کبھی کرتی ہیں تائید

گر ٹھان لیں، کر دیتی ہیں عزت کو بھی تاراج

جب   آنکھوں   کو  ہر بات   سُجھا  دیتی  تنقید

 

یہ  دیکھنے  لگ  جاتی  ہیں  باطن  کی  حقیقت

اور  تولنے  لگ  جاتی  ہیں اچھے برے  اعمال

اُ جڈ ّ کی  طرح  پھر  نہیں  کر تیں یہ مروّت

چاہے  تو کسی  پھول  میں تو گھاس کی بو ڈال

 

  لیکن  تری خوشبو  ترے ظاہر سے  جدا کیوں؟

مٹّی  کا   جنا   چھوڑ کے  مٹّی  کو  اُگا کیوں؟

پُرانا سونا: سا نیٹ نمبر 76

جانے کیوں ہیں میری نظمیں نئے رنگ سے خالی

ہر   ہونی  انہونی  سے  ہوں کیوں  اتنا   بیگانہ

سمے  کی بدلی  دھارا  دیکھوں،  ایسی خُو نہیں ڈالی

نئی  نئی   ترکیبوں  سے  ہوں  میں  با لکل  انجانا

 

کیوں لکھتا ہوں جانے اب تک وہی ایک سے بول

وہی        پرانا     سبزہ     میرا   میدانِ تحقیق

اک  اک  اکشر  پیٹے  میرے  اپنے  نام  کا  ڈھول

کتنی    دور  کی  راہی  ہوگی    میری      ہر تخلیق؟

 

لیکن،  میری  جانِ تمنا!  تیرے  لیے  ہی  لکھتا ہوں

تُو  اور  تیری   پیت   ابھی  تک  میر  ا ایک    سوال

اسی  لیے  تو  شبد  پرانے  پھر     سے سجاتا رہتا ہوں

تاکہ  جس  کو  خرچ کیا، پھر  خرچ کروں  وہ مال

 

جیسے  سورج  روز  نیا ہے  جیسے  روز پرانا

میری پیت کا کام ہے  پچھلے قصے کو دہرانا

موسم کی تبدیلیاں: سانیٹ نمبر 104

میرے  لیے  تو کبھی  نہ  بوڑھی  ہوگی اے محبوب

پہلے پہل جب تیری آنکھیں میری آنکھ نے دیکھی تھیں

تین  سردیاں  تین گرمیوں  کا فخر  ہلا کر گذریں

اب  بھی  تیرا  حسن  ہے  لیکن پہلے  جیسا خوب

 

تین حسین بہاریں زرد خزاں میں ہوئیں تبدیل

تین سال کے جُون    جلا  گئے تین اپریل کی خوشبو

آج بھی تُو سر سبز ہے لیکن آج بھی تازہ دم ہے تُو

میں نے  یوں  ہوتے  دیکھی  ہے  موسم کی تکمیل

 

آہ تیرا  یہ حسن  گھڑی کے ہاتھ کے جیسا لگتا ہے

کچھ ہندسوں کو چُرا لیتی ہے پر معلوم نہیں ہوتا

تیرا  میٹھا  رنگ  مجھے  لگتا ہے اپنی جگہ ٹھہرا

لیکن وہ حرکت میں ہے، میری آنکھ کا دھوکا لگتا ہے

 

سُن اِس خوف سے، عمر کا تیری کوئی نہیں ہے بھروسا

تُو  جب پید ا ہوئی  تھی تب ہی مر گیا حسن کا  سرما

میرا گلاب: سانیٹ نمبر 109

جانِ من یہ کبھی نہ کہنا کہ میں دل کا جھوٹا تھا

گرچہ  میرا  غائب  رہنا ایسا ثابت کرتا ہے

لیکن تیرا عاشق کیا یوں ہی تیرا دم بھرتا ہے

مرنا تھا تو تجھ سے جدا ہونا ہی خوب بہانا تھا

 

تیرا سینہ ہی میری چاہت کا گھر ہے، ٹھکانہ ہے

میں ہوں ایک مسافر ایسا ، سمے پہ جو لوٹ آئے

ایسے وقت نہیں آتا،  جو اُس کا وقت بدل جائے

خود ہی پانی لانا ہے، اپنے دھبّوں کو  مٹانا ہے

 

لوگوں  کا  تُو یقیں نہ کرنا،  دیکھ  تُو میری سُن

عیب جو میری فطرت میں تھے آپ ہی میں کہہ دوں

ہر وہ نقص تھا مجھ میں جس سے آلودہ ہوجائے خوں

لیکن کیسے چھوڑوں  تجھ کو،  تجھ میں سارے گُن

 

 کائنات  میں تُو ہے  تو  لگتا ہے      اپنا  سب کچھ ہے

  تُو ہی تو وہ گلاب ہے جس کے اندر میرا سب کچھ ہے

مورکھ عشق: سانیٹ نمبر 137

اے مورکھ اندھے عشق یہ آنکھوں سے کیا کیا؟

وہ دیکھ کر نہ دیکھیں کہ کیا دیکھتی ہیں وہ؟

کیا حسن ہے کہاں پہ ہے یہ جانتی ہیں وہ

پھر بھی  جو  سب سے  خوب  اُسی کو برا کہا!

 

جزُوی  نظر   نے  آنکھوں کو برباد کردیا

  چڑھتے ہیں سب جہاں اُسی کھاڑی پہ رُک گئیں

   کذِب ِنظر  سے   ایسے   شکنجے  میں  جا پھنسیں؟

جس سے بندھا ہوا ہے میرے دل کا فیصلہ؟

 

کیوں  سمجھے  میرا دل اُسے اک مختلف  مقام

جس کو کہے  جہاں میں وہ اک عام سر زمیں؟

یا  دیکھ کر کہیں  مِری  آنکھیں ’یہ سچ نہیں

سچّائی گندے چہرے پہ رکھنے کا کیا ہے کام؟

  یہ چشم و دل  نے کیسے  غلط  کام کرلیے

طاعون کے مرَض میں جو  اَب منتقل ہوئے

                            جھوٹا سچ: سانیٹ نمبر 138

جھوٹی قسموں کے سہارے وہ دلاتی ہے یقیں:

’’سچ کہوں، کس لیے میں تم پہ بہت مرتی ہوں

تم ابھی تک ہو جواں اِس لیے دم بھرتی ہوں‘‘

اُس کی باتوں  پہ مگر مجھ  کو   بھروسہ  ہی نہیں

 

میں سمجھتا ہوں  عبث وہ مجھے کہتی ہے جواں

اُس کو  معلوم ہے کہ  ہے ِمری  مٹّی پہ  زوال

اب جوانی ہے مری اُس کی ہی باتوں کا کمال

لاکھ   اچّھی  لگے  پر  بات  میں  سچّائی کہاں؟

 

پھر بھی  وہ کہہ دے  تو کیا  کوئی غلط کہتی ہے؟

 میں نے کب خود بھی کہا اُس سے کہ میں بوڑھا ہوں

   پیار   میں  سچے  بھروسے  کے   تحت       زندہ  ہوں

عشق    میں   عمر   جوانی   کی طرح  بہتی  ہے!

 

اس لیے جھوٹ رَوا رکھتے ہیں ہم آپس میں

  اک  خوشامد سی کیا کرتے ہیں ہم آپس میں

مکافات: سانیٹ نمبر 142

میری     الفت  پاپ  ہے، تیری  نفرت کا جنجال

میرے پاپ سے تُو نفرت کر، ہے جو  مجرم  پیار

دیکھ  مری  حالت  کے   آگے  لیکن   اپنا   حال

اپنے  حق  میں  دو  بھی  لفظ  نہیں ملیں گے یار

 

مل بھی گئے تو تیرے منہ سے کب وہ ہوں گے ادا

پاپی   لبوں  نے  لفظوں  کے زیو ر کی  عصمت لوٹی

اپنی    محبت    پر    جھوٹے    پیما ں    کی   مہر    لگا

جیسے    میں  نے  غیروں  کے  بستر  کی  نعمت  لوٹی

 

تجھ   کو  پیار کروں  میں،  جیسا  تُو کرتا   غیروں  کو

ہو   تیرے   افسوس    پہ    ساری     دنیا    کو   افسوس

تجھ کو میں اُس آنکھ سے دیکھوں جس سے تو اوروں کو

اِک  پَل  اپنی  نفرت  پر  تُو    اپنے  دل  کو  مسوس

 

اپنے  عمل  سے جس  حق  کا  تُو  کرتا  ہے   انکار

تجھ  کو  بھی  وہ  نہیں  ملے  گا  ہر گز  میرے   یار

جاں بخشی: سانیٹ نمبر 145

وہ  ہونٹ جنھیں  پیار  کے  ہاتھوں  نے  بنایا

اُن  ہونٹوں  سے  آواز  چلی آتی تھی ’نفرت

سن کر جسے کیا رنگ اڑا میرا خدایا

پر  اُس  نے  جو دیکھی  مِری بگڑی ہوئی حالت

اک  رحم  سا  محبوب  کے  د ل میں  اُبھر  آیا

پلٹا    دیا   یوں   شیریں   و   مشّاق   زباں  کو

پھر   موت     کا    عالم    مجھے   ٹلتا   نظر   آیا

دینے  لگا   دعوت    و ہ   مِری     چشمِ جواں  کو

نفرت ہے مجھے‘  کہہ کے بدلنے لگا  وہ بات

جنت سے جہنم کو چلے جیسے کہ شیطان

دِن جیسے بڑے دھیرے سے بن جائے سیہ رات

جب  دیکھ  چکا  وہ مِرے  اُڑتے  ہوئے اوسان

نفرت ہے مجھے‘  کہہ  کے  عجب آگ لگا دی

پر تم سے نہیں‘ کہہ  کے    مِری   جان  بچادی

پرانا پاگل: سانیٹ نمبر 147

مِری   محبت  بخار جیسی  اسی کو اب بھی ترس رہی ہے

بہت دنوں تک بڑھائے رکھتا ہے جو مرَض کو

مریض  رہتا ہے جس کے چارے پہ زندہ دیکھو

وہ چارئہ بے یقیں ہمیشہ مِٹی ہے روگی کی بھوک جس سے

 

یہ عقل  میری  ،  مِر ی محبت  کی جو  معالج  بنی  ہوئی ہے

ہے اس پہ برہم کہ  اس کا نسخہ کوئی بھی مانا نہیں گیاہے

جو چھوڑ کر یہ مجھے گئی ہے تو میں نے اقرار اب کیا ہے

کہ ہے جو خواہش وہ موت ہے ‘ میرے تن سے جو کہ چُھٹی ہوئی ہے

 

علاج ماضی ہوں اور ماضی کے دیکھنے میں لگا ہوا ہوں

پرانا  پاگل  ہمیشہ  بدامنی  پیدا  کرنا  شعار میرا

کہ اپنے افکار و گفتگو سے بگاڑ ہے کاروبار میرا

جو بات سچائی سے سوا ہے اسی کا اظہار کررہا ہوں

 

تجھے جو قسما ً کہا ہے گورا، کہا ہے روشن ہے تیرا چہرہ

ہے تُو جہنّم کے جیسی کالی، سیاہ شب سا ہے رنگ تیرا



 

Fay Seen Ejaz

Editor 'Mahnama Insha'

B, Zakaria Street-25

Kolkata - 700073

Mob.: 9830483810

 

 ماہنامہ اردو دنیا ، مئی 2021