26/4/24

اردو زبان کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات کا جائزہ، مضمون نگار: امتیاز احمد


اردو دنیا، فروری 2024

کسی بھی زبان کے آغاز کی کہانی اس قوم کی تہذیب و تمدن، معاشرت و ثقافت، سیاست اور سماجیات کے ارتقا سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس کی نشوونما کسی خاص لمحے یا وقت میں نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنی مستقل شکل اختیار کرنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزرتی ہے جس کو رنگ روپ بخشنے اور نکھارنے میں مختلف عوامل اور عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔ اردو زبان کو بھی وجود میں آنے سے پہلے مختلف مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ زبان کے اس ارتقائی سفر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی ’کتاب تاریخ ادب اردو، جلد اول‘ میں لکھتے ہیں:

’’مختلف تہذیبی عوامل، رنگارنگ قدرتی عناصر، مسلسل میل جول اور رسومِ معاشرت گھل مل کر رفتہ رفتہ صدیوں میں جاکر کسی زبان کے خدوخال اجاگر کرتے ہیں۔ بولی صدیوں میں جاکر زبان بنتی، اپنی شکل بناتی اور اپنا خد و خال اجاگر کرتی ہے۔‘‘ (تاریخ اردو اردو، ص 1)

مولانا سلیمان ندوی نے بھی زبان کے تشکیلی مراحل کو اپنی کتاب’ نقوشِ سلیمانی‘ میں اجاگر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ قوموں اور زبانوں کی تاریخ ایک دن میں نہیں بنتی، ان کا خمیر اٹھتے، مزاج بنتے اور ایک صورت پکڑتے صدیاں لگتی ہیں۔‘‘ (نقوشِ سلیمانی، ص:100)۔

زبان کے ادبی معیار اور حیثیت کی تاریخ اس زبان کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ ہر زبان کی طرح اردو کو بھی معاشرتی ضرورت اور سماجی اختلاط نے پیدا کیا جس میں دھیرے دھیرے تہذیبی خیالات اور ادبی تخلیقات کے لیے وسعت پیدا ہوتی گئی۔ انہی ضروریات و مقتضیات نے اردو کے وجود کو ممکن بنایا اور اس کے لیے ماحول سازگار بنایا اور اسے ایک ایسے معیار پر پہنچایا کہ اٹھارویں و انیسویں صدی میں متعدد ملکی و غیر ملکی علما نے ہندوستانی کے روپ میں اسے ملک کی عوامی زبان کا لقب دیا۔ اردو زبان کی تاریخ ایک طرح سے ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ ہے۔ اسی دور میں ہندوستان کی دوسری زبانوں کی بھی توسیع ہوئی۔ اس دوران ہندوستانی معاشرہ عروج و زوال اور تغیر و تبدل کے جن مراحل سے گزرا اس کا اثر یہاں کی ہر زبان و ادب پر پڑا یعنی تاریخی اور سماجی صورت حال نے کسی بولی اور زبان کو فروغ دیا تو کسی بولی و زبان کی نشوونما کو روک دیا۔ چنانچہ دسویں صدی کے بعد سے کچھ ایسی تاریخی صورت حال پیدا ہوئی کہ ہند آریائی زبانوں کے گروہ میں اس نئی زبان نے جنم لیا جسے آج اردو کہا جاتا ہے۔ 

اردو کا اصل مخرج و منبع کون سی زبان ہے؟ اس کا خمیر کس علاقے کی مٹی سے تیار ہوا؟ اس کا رنگ و روپ کہاں تیار ہوا؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس نہ کوئی دستاویزی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی سائنٹفک حوالہ۔ اسی وجہ سے یہ مسئلہ ماہرینِ لسانیات کے نزدیک کافی پیچیدہ رہا ہے۔ لہٰذا اردو زبان کے دوسری قدیم زبانوں کے ساتھ تقابلی مطالعہ، قواعد، لفظیات، تراکیب اور اس کے لب و لہجے کے تجزیے کی روشنی میں ماہرینِ لسانیات اور ادبا نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ 

سید سلیمان ندوی اپنی کتاب’ نقوشِ سلیمانی‘ میں اردو کو سندھ کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمان سب سے پہلے محمد بن قاسم کی قیادت میں ایک بڑی تعداد میں سندھ میں داخل ہوئے اور اس کو فتح کر کے اسلامی حکومت کے ایک ریاست بنایا۔ مسلمان تقریباً تین سو سال تک سندھ میں قیام پذیر رہے۔ ان کے اور مقامی باشندوں کے اختلاط اور میل جول سے ایک نئی زبان کا وجود ہوا۔ سید سلیمان ندوی اپنی کتاب میں زبان کی پیدائش کے مختلف اسباب و وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس میل جول سے جو زبان بنی اس کا پہلا نمونہ ہم کو 762ھ میں فیروز شاہ تغلق کے عہد میں سندھ میں ملتا ہے۔‘‘ (نقوشِ سلیمانی ،ص252) 

سید سلیمان ندوی اپنے نظریے کی تائید میں جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ گرچہ اس لحاظ سے درست ہیں کہ مسلمانوں نے سندھ کی تہذیب و تمدن اور معاشرت پر اپنے اثرات مرتب کیے اور وہاں کی سندھی زبان پر بھی اثرانداز ہوئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عربی اور سندھی کے اختلاط سے اردو وجود میں آئی البتہ یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے اردو کی ترویج و ترقی، حلقہ اثر کی وسعت اور اس کو علمی و ادبی رنگ و روپ دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ماہر لسانیات سنیتی کمار چٹرجی اپنی کتاب ’ہند آریائی اور ہندی‘ میں لکھتے ہیں:

’’اگر مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تو جدید ہند آریائی زبانوں کے ادبی آغاز و ارتقا میں دو ایک صدی کی تاخیر ضرور ہوتی۔‘‘ (ہند آریائی اور ہندی ، ص 971)۔

مسلمان جس حیثیت سے بھی ہندوستان میں داخل ہوئے ہوں انھوں نے اسے اپنا وطن سمجھا اور یہیں کی مٹی میں گھل مل گئے البتہ مسلمان تعداد میں بہت تھوڑے تھے اس لیے وہ اپنی زبان مقامی لوگوں پر نافذ نہ کر سکے لہٰذا انھوں نے یہاں کی کسی مقامی بولی کو اپنایا اور اسے اپنے خیالات و احساسات کا ذریعہ اظہار بنایا اور اس میں عربی و فارسی الفاظ داخل کیے۔ اس طرح مقامی اثرات اور مسلمانوں کے لسانی و تہذیبی اختلاط و امتزاج سے اس بولی نے ایک نیا رنگ وآہنگ اختیار کر لیا جس نے رفتہ رفتہ مختلف ناموں مثلاً ہندوی، ہندوستانی، گجری، دکنی اور ریختہ کے ناموں سے مقبول عام ہوتی ہوئی اردو کا روپ دھار لی۔

اردو کی جائے پیدائش کا دکنی حوالہ دیتے ہوئے نصیر الدین ہاشمی اپنی کتاب’ دکن میں اردو‘ میں دکن کو اردو کا اصل منبع و مخرج قرار دیتے ہیں۔ نصیر الدین ہاشمی استدلال میں کہتے ہیں کہ مسلمان سب سے پہلے سندھ کے علاوہ سواحلِ مالابار اور کارومنڈل پر بھی نمودار ہوئے تھے جن کا مقصد سیر و تفریح کے علاوہ کاروبار اور تجارت کو فروغ دینا بھی تھا جس کے حصول کے لیے سماجی روابط ضروری تھے لہذا سماجی روابط اور اختلاط بڑھتے گئے۔ اس سماجی اختلاط اور میل جول نے ایک نئی زبان کے وجود کو ممکن بنایا جو موجودہ اردو کی قدیم شکل تھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’برج بھاشا میں عربی، فارسی، ترکی، انگریزی اور پرتگالی الفاظ مل ملا کر ایک نئی زبان مروج ہوگئی جو شاہ جہاں کے زمانے میں اردوئے معلیٰ کے مبارک نام سے نامزد ہوئی اور تیمور کے زمانے میں ہندو مسلمانوں کے ربط ضبط اور روزانہ مراسم نے جنوبی ہند میں بھی ایک زبان کی بنیاد ڈالی جسے آج تک دکھنی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔‘‘  (دکن میں اردو، ص: 5)

نصیر الدین ہاشمی نے اپنے نظریے کی تائید میں مسلمانوں کی آمد کے علاوہ دوسرے منطقی اور مستند شواہد پیش نہیں کیے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ محض قیاس آرائی پر مبنی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دکنی بذات خود ایک زبان ہے جس میں نثری و شعری جواہر پارے موجود ہیں لہٰذا اردو کو دکنی کی قدیم شکل قرار دینا درست نہیں۔

ماہرِ لسانیات محمد حسین آزاد نے برج بھاشا کو اردو زبان کی بنیاد اور سرچشمہ قرار دیا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’آبِ حیات‘ میں لکھتے ہیں:  ’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے‘‘۔ (آب حیات، ص:16)محمد حسین آزاد کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی زبان فارسی اور ترکی تھی اور ہندوؤں کی زبان برج بھاشا اس لیے ان دو زبانوں کے آپسی میل جول اور اختلاط سے اردو زبان پیدا ہوئی۔ حسین آزاد اپنے نظریے کی وجہ سے بہت مشہور بھی ہوئے اور ایک زمانے تک اربابِ اردو اور علمائے نقد و تنقید نے اسی کو حرفِ آخر تصور کیا۔ برج بھاشا دلی کے قرب و جوار میں بولی جانے والی زبانوں میں خاص اہمیت کی حامل تھی۔ یہ آگرہ کی زبان تھی جو کہ مسلمانوں کا پایہ تخت بھی رہا۔ اس کے علاوہ اردو کے قدیم شعری نمونوں خاص کر امیر خسرو کے کلام پر اس کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر محمد حسن آزاد نے یہ قیاس کر لیا کہ اردو کی بنیاد برج بھاشا ہے حالانکہ جب ہم برج بھاشا اور اردو کے بنیادی ڈھانچوں کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اردو کا برج بھاشا سے ماں بیٹی کا رشتہ نہیں بلکہ بہنوں کا رشتہ ہے مثلاً اردو کے تمام اسما، افعال، صفات اور ضمائر الف پر ختم ہوتے ہیں جبکہ برج بھاشا میں ’او‘ پر ختم ہوتے ہیں۔ برج بھاشا کا تعلق مغربی ہندی کی ان بولیوں سے ہے جو واؤ بولیاں کہلاتی ہیں جبکہ اردو کا رشتہ الف والی بولیوں مثلاً ہریانی اور کھڑی بولی سے ہے۔ 

محمد حسین آزاد کے نظریے کو سب سے پہلے محمود شیرانی نے یہ کہتے ہوئے رد کیا کہ اردو اور برج بھاشا کا تعلق ماں بیٹی کا نہیں بلکہ ان کا رشتہ بہن بہن کا ہے۔ محمود شیرانی اپنی کتاب ’پنجاب میں اردو‘ میں رقمطراز ہیں:

’’ہم اردو کو برج بھاشا کی بیٹی سمجھتے رہے ہیں لیکن جب ان دونوں زبانوں کی صرف و نحو، دوسرے خد و خال اور خصائص پر غور کیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے راستے مختلف ہیں۔ اردو جہاں اپنے اسما و افعال کو الف پر ختم کرتی ہے، برج واو پر ختم کرتی ہے۔ برج میں جمع کا طریقہ بہت سادہ اور سہل ہے لیکن اردو میں بہت پیچیدہ ہے۔‘‘ ( پنجاب میں اردو، ص: الف)۔ 

محمود شیرانی محمد حسین آزاد کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو کی اصل جائے پیدائش پنجاب ہے اور یہ پنجاب سے ہی دہلی میں وارد ہوئی وہ لکھتے ہیں:

’’اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کر کے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں۔‘‘( پنجاب میں اردو، ص:ب)

محمود شیرانی اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کچھ تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان لسانی خصوصیات کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں جو پنجابی اور قدیم اردو کے درمیان مشترک تھیں۔ وہ دونوں زبانوں کی تذکیر و تانیث، واحد و جمع، اسما  و افعال اور قواعد پر تقابلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کی تذکیر و تانیث اور جمع اور افعال کے تصرف کا اتحاد اسی ایک نتیجے کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہے۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے اور جب سیانی ہو گئی ہیں تب ان میں جدائی واقع ہوئی ہے۔‘‘ (پنجاب میں اردو، ص:17) 

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیرانی کا نظریہ کسی روایتی قیاس یا محض خیالی مفروضے پر منحصر نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنا نظریہ تاریخی شواہد و دلائل کے پس منظر میں لسانی تجزیہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے جس کی تائید لندن یونیورسٹی میں لسانیات پر تحقیق کرتے ہوئے ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اپنی کتاب ہندوستانی فونٹکس میں کی ہے۔ ڈاکٹر زور کے مطابق اردو کا سنگ بنیاد اصل میں مسلمانوں کی فتح دہلی سے بہت پہلے رکھا جا چکا تھا یہ اور بات ہے کہ اس نے اس وقت تک ایک مستقل زبان کی حیثیت حاصل نہیں کی تھی جب تک کہ مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا پایہ تخت نہ بنا لیا۔ ان کے علاوہ انگریزی کے مستند عالم ٹی گراہم بیلی، جارج گریرسن نے بھی شیرانی کے نظریے کی تائید کی ہے جبکہ شیر علی سرخوش پہلے ہی اپنے تذکرہ اعجاز سخن میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کر چکے تھے۔ 

محمود شیرانی کا یہ نظریہ بنیادی طور پر دو وجوہات کے تحت سے معرضِ وجود میں آیا۔ ایک یہ کہ اردو نے عربی و فارسی سرمایے سے اخذ و استفادہ کیا ہے۔ ہندوستان کی دیگر بولیوں اور زبانوں کے مقابلے اردو میں عربی و فارسی کے الفاظ کثیر تعداد میں ہیں۔ ان الفاظ کی فراوانی کو دیکھ کر شیرانی صاحب نے یہ خیال کر لیا کہ اردو اسلامی دور میں اسلامی اثرات سے وجود میں آئی اور اس کی ابتدا کا تعلق ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے اقتدار و قیام سے جوڑ دیا۔ یہ وجہ اپنے آپ میں غیر مدلل ہے کیونکہ ہر زبان اپنے دور کی دوسری زبانوں سے اخذ و استفادہ کرتی ہے، الفاظ و کلمات کو اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے اور اس کے قواعد و ڈکشن کو فراخ دلی سے قبول کرتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کا وجود ان زبانوں کے اثرات کی وجہ سے ہوا ہو۔ دوسری وجہ یہ کہ مسلمانوں کا وہ سرپرستانہ اور مربیانہ سلوک و برتاؤ ہے جس نے اس زبان کو سینے سے لگایا اور نوک پلک سنوار کر اس قابل بنایا کہ اس کے ذریعے شعری و نثری خیالات کا اظہار ہو سکے، اس میں علمی و فنی کتابیں لکھی جا سکیں۔ یہ وجہ بھی غیر عقلی اور منطقی ہے کیونکہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار، سرپرستی اور دہلی میں آمد سے پہلے بھی وہاں ایک زبان موجود تھی اور بازار میں بولی جاتی تھی۔ 

مسعود حسین خان اس دور کی مختلف بولیوں کے تقابلی اور لسانی مطالعے کے تناظر میں شیرانی کے نظریے کو غیر مستند قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق شیرانی نے قدیم اور دکنی اردو کی جن خصوصیات کی نسبت پنجابی کی طرف کی ہے وہ دراصل دہلی اور اس کے اردگرد کی بولیوں میں موجود تھیں چنانچہ قدیم اردو کا پنجابی پن اس کا ہریانی پن بھی ہے لہٰذا قدیم اردو کے اس ہریانی پن کو نظر انداز کر کے صرف اس کے پنجابی پن پر زور دینا درست نہیں۔ 

مسعود حسین خان شیرانی کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے اردو کی اصل اور سر چشمہ کو دہلی اور اس کے قرب و جوار کی بولیوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق نواح دہلی کی چار بولیوں( ہریانی ، کھڑی بولی، برج بھاشا، میواتی ) نے اردو کے نوک پلک، لب و لہجہ اور ہیئت و ساخت کی تراش خراش میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہریانی اور کھڑی بولیوں نے اردو کی تشکیل اور تعمیر میں اہم کردار ادا کیا جبکہ برج اور میواتی بولیوں نے اس کے معیاری لب و لہجہ اور ہیئت و ساخت کو سنوارا۔ لہٰذا قدیم اردو کی تشکیل براہ راست ہریانی سے ہوئی جبکہ جدید اردو کھڑی بولی پر مبنی ہے۔ مسعود حسین خان ان بولیوں اور ان کے قدیم تحریری مواد کے تجزیے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

’’ قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے اور جب سولہویں صدی میں آگرہ دارالسلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھگتی کی تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام مقبول زبان ہوتی ہے تو سلاطینِ دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعے درست ہوتی ہے۔‘‘ (مقدمہ تاریخ زبان اردو، ص: 236 )۔

مسعود حسین خان اپنی کتاب میں دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوں کے دوسری بولیوں کے ساتھ منطقی اور لسانی تجزیے کے بعد قطعیت کے ساتھ لکھتے ہیں:

’’زبان دہلی و پیرامنش اردو کا اصل منبع و سر چشمہ ہے اور حضرت دہلی اس کا حقیقی مولد و منشا۔‘‘

 ( مقدمہ تاریخ زبان اردو، ص:262)

لفظ پیرامنش سے مراد دہلی اور اس کے نواح کی چار بولیاں ہیں جن میں ہریانی ، کھڑی بولی، برج بھاشا، میواتی شامل ہیں۔ کھڑی بولی کی دو شکلیں ہیں ایک وہ جو دو آبہ گنگ و جمن کے بالائی علاقے یعنی سہارنپور، مظفر نگر اور میرٹھ میں بولی جاتی ہے جبکہ دوسری شکل گنگا پار کے بجنور، رام پور اور مراد آباد کے علاقے میں بولی جاتی ہے۔ مسعود حسین خان نے انہی علاقوں میں بولی جانے والی کھڑی بولی کو اردو سے قریب ترین قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنے نظریے کے استدلال میں کھڑی بولی، ہریانی اور دکنی کی صوتی اور صرفی کئی مماثلتیں اور مثالیں پیش کی ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔ 

ہریانی اور قدیم دکنی دونوں میں جھ، بھ، چھ، دھ وغیرہ کا تلفظ سہل اور سادہ ہوتا ہے جیسے بھی (بی)، مجھ (مج)۔

ہریانی اور دکنی میں جمع بنانے کا طریقہ مشترک ہے جیسے غریباں، جھوٹاں، اونٹاں۔ 

دکنی کے ضمائر ہریانی سے زیادہ قریب ہیں جیسے متکلم جمع ہم اور ہمیں حاضر جمع تَم اور تمھیں ہریانی، جبکہ تۡم دکنی۔ 

دکنی اردو کی طرح کھڑی بولی میں بھی درمیانی ’ہ‘ گرا دی جاتی ہے اور نفسی آوازیں اپنی ہیئت کھو دیتی ہے جیسے وہ ( وو)، کہاں (کاں)، کبھی (کبی)۔

معیاری اردو کے بر عکس کھڑی بولی ڑ اور ڑھ کی جگہ ڈ اور ڈھ کو ترجیح دیتی ہے جیسے بوڑھا (بڈھا)، گڑھا (گڈھا)، پڑھ ( پڈھ)، چڑھ ( چڈھ)۔

مسعود حسین خان دہلی اور نواحِ دہلی کی زبانوں کے صوتی و صرفی تقابل کے وقت دکنی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اپنے نظریے کو صرف نواحِ دہلی تک محدود رکھتے ہیں جس سے ایک طرح کا ذہنی تضاد جھلکتا ہے۔ اسی طرح اردو کی ارتقائی شکل کے حوالے سے مسعود حسین نے جتنے بھی صوفیائے کرام کا ذکر کیا ہے۔ ان سب کے توسط سے انھوں نے شعوری طور پر صرف اور صرف شیرانی کے نظریے کی تردید کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اور نصب العین صرف شیرانی کے نظریے کی تردید تھی جس وجہ سے انھوں نے دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیوں کے علاوہ کسی اور بولی پر توجہ نہیں دی۔ اس کا واضح ثبوت خود مسعود حسین خان کے درج ذیل الفاظ سے مل جاتا ہے:

’’زبانِ دہلی پورب اور دکن کے علاوہ پنجاب میں بھی اپنا گھر کر رہی تھی جس کا بیّن ثبوت گرونانک، نامدیو اور کبیر جیسے سنتوں کا کلام ہے، یعنی ایک طرف فارسی عربی کے عام مروجہ الفاظ کی آمیزش اور دوسری جانب ان لسانی اثرات کو قبول کرنا جو دہلی کے سر چشمے سے پھوٹ کر ہندوستان کے چاروں طرف پھیل رہے تھے۔‘‘(مقدمہ تاریخ زبان اردو، ص: 68)

اردو کی ابتدا کو دہلی اور نواحِ دہلی میں تلاش کرنے والے نظریہ سازوں میں شوکت سبزاواری بھی ہیں۔ انھوں نے اردو کے متعلق موجودہ تمام نظریات پر مدلل اور سیرِ حاصل گفتگو کے بعد یہ نظریہ دیا کہ اردو کھڑی بولی سے ترقی پا کر بنی ہے جو دہلی اور میرٹھ کے ارد گرد گیارہویں صدی میں بولی جاتی تھی۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب ’داستانِ زبانِ اردو‘ میں رقمطراز ہیں:

’’ہندوستانی کے مولد کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں، سب متفقہ طور سے اسے دہلی اور میرٹھ کی زبان بتاتے ہیں، اردو اس کی ادبی شکل ہے۔ اس زبان کو یہ نام بعد میں اس وقت دیا گیا جب مسلمانوں کی سرپرستی میں بول چال کی زبان سے ترقی کر کے اس نے ادب و شعر کی زبان کا درجہ پایا۔ ‘‘ ( داستان زبان اردو، ص: 39)۔

شوکت سبزواری براہ راست مسعود حسین کے نظریے کی تنقید تو نہیں کرتے لیکن مغربی ہندی کی بولیوں کو ذہنی تجرید اور منطقی اپج قرار دے کر مسترد کرتے ہیں اور اپ بھرنش کو اردو اور پراکرت کی درمیانی کڑی قرار دیتے ہیں جو دہلی اور میرٹھ میں گیارہویں صدی عیسوی میں بولی جاتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اردو اور پراکرت کی درمیانی کڑی اپ بھرنش ہے،  اس لیے مغربی ہندی کو درمیان سے نکال کر یہ کہنا کہ اردو اپ بھرنش سے ارتقا پا کر وجود میں آئی زیادہ صحیح ہے۔‘‘

 (داستان زبان اردو، ص:79)

ڈاکٹر سہیل بخاری اور پروفیسر گیان چند جین شوکت سبزواری کے نظریے سے متفق نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری ’نقوش‘ کے شمارہ 102 میں اردو و ہندی پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد کھڑی بولی کو اردو کا اصل ماخذ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’دراصل اردو اور ہندی ایک ہی زبان کے دو روپ ہیں جسے ماہرین علم زبان نے کھڑی بولی کا نام دیا ہے۔ ان کے موجودہ روپوں میں دو فرق واضح ہیں۔ ایک لپی اور دوسرا دخیل لفظ... اس نقطہ نظر سے ہندی اور اردو کی تاریخ ایک ہی ہے خاص کر کھڑی بولی کی قدیم تاریخ، اردو زبان کا بھی ایسا ہی اہم حصہ ہے جیسا ہندی زبان کا۔‘‘( نقوش، شمارہ: 102، ص: 48)۔

پروفیسر گیان چند جین بھی شوکت سبزواری کے نظریے سے متفق نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’حقائق‘ میں لکھتے ہیں:

’’اردو کے آغاز کو دو منزلوں میں ڈھونڈنا چاہیے۔ اولاً کھڑی بولی کا آغاز، دوسری کھڑی بولی میں عربی فارسی لفظوں کا شمول جس کا نام اردو ہو جاتا ہے۔‘‘  ( حقائق، ص:063)

پروفیسر صاحب ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’میں شوکت سبزواری اور سہیل بخاری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ لسانیاتی نقطہ نظر سے اردو ہندی اور کھڑی بولی ایک ہیں۔ اردو کھڑی بولی کا وہ روپ ہے جس میں عربی فارسی الفاظ کی قدر زیادہ اور تت سم سنسکرت الفاظ تقریباً نہیں کے برابر ہوتے ہیں لیکن اس خصوصیت کے باعث اردو کھڑی بولی سے علیحدہ زبان نہیں ہو جاتی۔‘‘ ( حقائق، ص: 853)۔

شوکت سبزواری نے اردو اور کھڑی بولی کے متعلق جو دلائل اور وضاحتیں دی ہیں ان میں کچھ مستند اور منطقی تو ہیں لیکن اپ بھرنش، قدیم مغربی ہندی اور ہندوستانی وغیرہ سے متعلق ان کی بہت سی توضیحات اور مباحث کافی گنجلک، مبہم اور متضاد ہیں۔ کبھی وہ اردو کے ارتقا کو براہ راست کھڑی بولی اور ہندوستانی سے جوڑنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی بول چال کی اپ بھرنش اور قدیم مغربی ہندی کی بولیوں میں اردو کی اصل تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ سہیل بخاری کی تائید پرانی ہے جسے انھوں نے بعد میں باطل قرار دے کر مسترد کیا ہے اور ایک دوسرا نیا نظریہ پیش کیا ہے جس کا تعلق اڑیا سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اردو سنسکرت سے الگ تھلگ اور آزاد ٹھیٹھ ہندوستانی یا دراوڑی بولی ہے جو جنم جنم سے اس دیس میں بولی جا رہی ہے۔ اب رہی بات کہ آج کل کی سب ہندوستانی بولیاں پراکرتوں سے نکلی ہیں سو یہ ناموں کا پھیر ہے جنھیں کل پراکرت کہتے تھے وہی آج بھاشائیں کہلاتی ہیں۔‘‘( اردو کا روپ، ص:35)۔

مذکورہ بالا نظریات کے دلائل و شواہد کا جب ہم بچشمِ غور مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی منطقی و عقلی توضیح کرتے ہیں توہمیں دو بنیادی باتیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ مسلمانوں کی آمد سے یہاں ایک نئی زبان کا وجود ہوا۔ سید سلیمان ندوی سے لے کر شوکت سبزواری تک ہر ایک کے استدلال میں یہ بات نمایاں نظر آتی ہے۔ دوسری یہ کہ اس زبان نے مختلف عہد میں یہاں کی دیگر بولیوں سے اخذ و استفادہ کیا اور ان کے اثرات بھی لیے۔ یہ بات بھی ہمیں ان مذکورہ بالا شخصیات اور ماہرِ لسانیات کے یہاں پوری شد و مد اور حوالے کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ احتشام حسین اپنی کتاب ’ہندوستانی لسانیات کا خاکہ‘ میں اردو زبان کے ماخذ کے حوالے سے جیولز بلاک، محی الدین قادری زور اور سنیتی کمار چٹرجی کے خیالات پر سیرِ حاصل بحث کے بعد لکھتے ہیں:

 ’’ جس نئی زبان کا ڈھانچہ عربی فارسی الفاظ اور آوازوں کے اختلاط سے بن رہا تھا اس میں پنجابی، ہریانی اور کھڑی بولی ہر ایک کو شریک سمجھنا چاہیے۔ ابتدا میں پنجابی اور کھڑی بولی میں صرف تدریجی فرق رہا ہوگا۔ بعد میں ایک بولی پنجابی بن گئی، دوسری کھڑی بولی،  اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ اردو نہ تو پنجابی سے مشتق ہے اور نہ کھڑی بولی سے بلکہ اس زبان سے جو ان دونوں کا مشترک سر چشمہ تھی۔‘‘ ( ہندوستانی لسانیات کا خاکہ، ص:65)

سید احتشام حسین اپنی دوسری کتاب ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘ میں سید سلیمان ندوی، سہیل بخاری اور شوکت سبزواری کے نظریات پر بحث کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی ایک بھاشا یا بولی نے اردو زبان کے لب و لہجہ، ہیئت و ساخت اور قواعد و لفظیات کو جنم نہیں دیا بلکہ مختلف بولیوں نے اس کو سنوارنے، نکھارنے اور ادبی شکل عطا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’دلی کے چاروں طرف بولی جانے والی کئی بولیوں میں فارسی، عربی کے لفظوں سے ملنے اور مغربی ہندی کی اس بولی میں جسے کھڑی بولی کہا جاتا ہے، نکھری ہوئی شکل اختیار کرنے سے ایک نئی زبان کا ارتقا ہوا۔ ابتدا میں اس پر پنجابی کا اثر زیادہ رہا لیکن دھیرے دھیرے کھڑی بولی ہی اردو کی شکل میں واضح ہوتی گئی۔ تاریخی اسباب سے اپنی ضروریات کے مطابق اس نے فارسی، عربی اور سنسکرت کے ذخیرہ لغات سے بھی کام لیا۔ اس کی موجودہ بنیاد کھڑی بولی ہے مگر ایک زندہ زبان ہونے کے باعث ان سبھی زبانوں کے الفاظ آ گئے ہیں جن سے اس کا ربط ضبط ہے۔‘‘( اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، ص71-81)۔

زبان کی اس فطرت اور نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے محمد حسن آزاد نے بھی اپنی کتاب قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، میں ایک متوازن نظریے کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیںکہ:

 ’’ کسی ایک مذہب کی کوئی ایک زبان نہیں ہوتی۔ مسلمان کے لفظ سے صرف مذہب کی پہچان ہوتی ہے، زبان اور تہذیب کی بناوٹ میں مذہب کے علاوہ دوسرے کئی عناصر شامل ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اردو زبان و ادب کے سلسلے میں مسلمان کے بجائے ترک، ایرانی اور افغان اثرات کا ذکر کیا جائے جو مذہبی نہیں تہذیبی اکائیاں تھیں جن کا ملاپ ہندوستان میں رہنے والی مختلف تہذیبی اکائیوں سے ہوا۔‘‘ ( قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، ص:9)

درج بالا تمام نظریات کے جائزہ اور منقطی توضیح و تفہیم کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی ایک نظریے کو دوسرے پر ترجیح دینا یا دوسرے سے مستند قرار دینا درست نہیں۔ ہمارے پاس ایسے دستاویزی ثبوت اور دلائل نہیں جن کی بنیاد پر کسی نظریے کو ہر طرح کے شک و شبہے اور خیالی مفروضے سے مبرّا بتایا جا سکے۔ کسی ایک نظریہ کو مستند نہ ٹھہرانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی زبان کسی مخصوص لمحے کی پیداوار نہیں ہوتی بلکہ وہ مختلف علاقوں کی بولیوں کی لفظیات، صوتیات، صرفیات اور مارفیمات سے اخذ و استفادہ کرتی ہے اور ان کے اثرات کو بخوشی قبول کرتی ہے۔  اردو زبان بھی ان مراحل و کیفیات سے دوچار ہوئی اور ہندوستان کی مختلف بولیوں مثلاً گجری، دکنی، پنجابی، ہریانی، میواتی، برج اور کھڑی سے مستفید ہوتی ہوئی اردو کی ایک مستقل و معیاری شکل و صورت بنی ہے۔ نیز کسی ایک نظریہ ساز کو دوسرے پر فوقیت اس لیے بھی نہیں دی جا سکتی کہ ہر زمانے اور عہد کے وسائل و ذرائع کی نوعیت اور رسائی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس لیے قوی امکان یہ بھی ہے کہ محمدحسین آزاد کے زمانے میں جتنے مواد اور ذرائع تک رسائی ممکن رہی ہو انھوں نے ان سبھی تک پہنچنے کی کوشش کی ہو۔ اسی طرح مسعود حسین کے زمانے میں اس سے زیادہ مواد اور دستاویزات کی فراہمی و حصولیابی سہل تھی تو انھوں نے ان کی روشنی میں اپنا نظریہ پیش کیا۔

حوالہ جات 

1 ڈاکٹر جمیل جالبی: تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ایجوکیشن بک ہاؤس، علی گڑھ، 1993

2 مولانا سید سلیمان ندوی۔ نقوشِ سلیمانی، مطبوعہ معارف پریس، علی گڑھ، 1980

3 ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی۔ ہند آریائی اور ہندی،ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1983

4 نصیر الدین ہاشمی: دکن میں اردو، نظام دکن پریس، حیدرآباد، 1924

5 محمد حسین آزاد: آب حیات (ڈیلکس ایڈیشن)، ایچ ایس آفیسٹ پرنٹرس، دہلی ، 2014

6 حافظ محمود شیرانی: پنجاب میں اردو، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1982

7 پروفیسر مسعود حسین خان: مقدمہ تاریخ زبان اردو(جدید ایڈیشن)، ایجوکیشن بک ہاؤس، علی گڑھ 1954

8 ڈاکٹر شوکت سبزواری: داستان زبان اردو، چمن بکڈپو، اردو بازار دہلی، 1961

9 ڈاکٹر سہیل بخاری، ’اردو کا قدیم ترین ادب‘ مشمولہ نقوش، شمارہ 102، ص: 84، مئی 1965.

10 ڈاکٹر سہیل بخاری: اردو کا روپ، پبلشربشیر احمد چوہدری، 1971

11 پروفیسر گیان چند جین۔ حقائق، نیشنل آرٹ پریس، الہ آباد، 1978

12 جان بیمز۔ ہندوستانی لسانیات کا خاکہ، مترجم، سید احتشام حسین، دانش محل، امین الدولہ پارک، لکھنؤ، 1971

13 محمد حسن۔ قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ( اٹھارویں صدی تک)، دوسرا ایڈیشن، اترپردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ، 2005


Imtiyaz Ahmad

Dept of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025










کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں