26/4/24

اردو مشاعروں کی افادیت اور ادبی روایت، مضمون نگار: گلشن مسرت

 

اردو دنیا، فروری 2024


زبان اردو کی آبیاری میں درباروں، بازاروں اور مختلف تہذیبی اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ زبان اردو مغلیہ دور میں ابھری اور پروان چڑھی۔ اس کا تعلق محض درباروں سے نہیں رہا یہ عوام کی زبان تھی جو عوام کے درمیان اپنے مقامی رنگ میں ارتقا پزیر تھی۔غزل کیونکہ اردو شاعری کی سب سے محبوب و مقبول صنف ہے۔ زبانِ اردو کے تقریباً ہر شاعر نے غزل میں طبع آزمائی کی۔ مشاعروں کی ابتدا میں صنف غزل کی سحر آفرینی ہی ہے جس نے مشاعروں کی روایت کو نہ صرف وقار بخشا بلکہ زبان کے ارتقائی سفر کو مزید تقویت عطا کی اور زبانِ اردو کو عوام سے جوڑنے کا کارنامہ انجام دیا اور خاص و عام میں مقبولیت عطاکی۔اردو مشاعروں کی روایت صدیوں پر محیط ہے ، دور حاضر میں مشاعرے ایک تہذیبی روایت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

 دیگر ملکی زبانوں میں بھی شعری نشستوں کا انعقاد عمل میں آتا رہا ہے مگر ان میں سے کسی کو بھی عالمی سطح پر وہ امتیاز حاصل نہیں جو اردو مشاعروں کا اعزاز ہے شعراکی مقبولیت اور مشاعروں کی کامیابی کا انحصار شاعری پر ہے شاعری قلب و ذہن پر گزرنے والی واردات اور کیفیات کے اظہار کا بے حد مؤثر ذریعہ ہے جو بات دل سے نکلتی ہے دل پر اثر کرتی ہے۔حالی کے نزدیک ’شاعری عطیہ خداوندی ہے‘

 شاعری کا ذکر دنیا کی تمام زبانوں میں موجود ہے ہندوستانی تاریخ کے مطالعے سے اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ شاعری میں سکون قلب بھی ہے اور روح کو تڑپا دینے کا ہنر بھی۔ علم و فن کا مظاہرہ اور فن کی ستائش کی خواہش نے شعری نشستوں کی بنیاد رکھی تو مشاعروں کی روایت وجود میں آئی۔ 

مشاعرے کی تاریخ بہت قدیم ہے ہندوستان میں مشاعروں کے آغاز سے بہت پہلے عرب اور ایران میں مشاعروں کی ابتدا ہو چکی تھی حالانکہ ان کی نوعیت قدرے مختلف تھی عرب کے مشاعروں میں قبائلی زندگی کی روح اور حسب و نسب کا طمطراق موجود تھا تو ایران کے مشاعروں میں زندگی کی حقیقت اور درباروں کی نفاست کے لوازم موجود تھے۔عربی زبان سے اس روایت کا آغاز ہوا، مگر مقبولیت کے اعتبار سے فارسی اور اردو زبان میں اس کی روایت زیادہ طویل اور مستحکم نظر آتی ہے۔عربوں کے قبائلی جاہ و حشم اور پر تصنع تمدن سے کون واقف نہیں دور جاہلیت میں اس کی تاریخی مثالوں کا ایک باب رقم ہے۔

شاعری کے میدان میں بھی یہ روایت من و عن موجود تھی شاعری کا رواج عوامی سطح تک تھا ہر قبیلے کے اپنے شعراتھے جن کی سرپرستی اور قدردانی میں اہل عرب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی غرض سے ان شعراکی تعظیم و تکریم میں کوئی کسر نہ باقی رکھتے،ہر قبیلہ اعلی ترین شاعر کی اپنے قبیلے میں موجودگی باعث افتخار سمجھتا تھا۔ یہ روایت عہد اسلام کے بعد بھی جاری تھی مگر اب فحاشی، عاشقانہ جذبات اور تلذذ کی جگہ مذہبی پاکیزگی اور ثنا سرائے نے لے لی تھی اور آہستہ آہستہ سماجی ، سیاسی اور مذہبی تبدیلوں کے باعث عربوں کی یہ قدیم عوامی روایت ماند پڑ گئی۔ 

ایران میں فارسی شعرا کا ایک جم غفیر موجود تھا جن میں سے کثیر تعداد ان شعراکی تھی جو درباروں سے وابستہ تھے درباروں سے وابستگی کے سبب ان شعرانے اپنا سارا زور قلم قصائد پر صرف کیا۔ قصائد کے شانہ بشانہ غزل اور دیگر اصناف سخن بھی فروغ پا رہے تھے۔شعراکی سرپرستی، سخاوت اور ادب نواز کہلانے کی خواہش نے اور اپنے درباروں کی رونق میں مزید اضافے کی غرض سے ان شعراکی قدر میں اس قدر اضافہ کیا کہ انھیں رشک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔

 قصائد کے شانہ بشانہ غزل بھی رواج میں آ چکی تھی، مگر اب بھی احساسات، جذبات و خیالات کی ترسیل ایک مخصوص دائرے میں محدود تھی۔ باقاعدہ مشاعرے کا آغاز 15ویں صدی میں 1519کے قریب ہوا، ایران کے شہروں میں مشاعرے کا انعقاد کیا جانے لگا اور شہر شیراز اس کا مرکز بنا۔لیکن ایران میں مشاعرے نے وہ عوامی صورت اختیار نہ کی تھی جو بعد میں فارسی شاعری کی تقلید میں ہندوستان میں واضح ہوئی۔

ہندوستان میں دکن میں جب اردو زبان نے ادبی حیثیت اختیار کی تو تمام اصناف سخن غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ کو فروغ حاصل ہوا نہ صرف شعرابلکہ متعدد بادشاہوں نے بھی فن شاعری میں تخلیقات پیش کیں اور قطب شاہی عہد کے تاجدار قلی قطب شاہ نے اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا افتخار بھی حاصل کیا۔ان میں بعض ایسے بادشاہ بھی شامل تھے جو شعر و سخن کے دلدادہ تو نہیں تھے مگر درباری وضع کی روایت کو برقرار رکھنے کی خاطر اس روایت کا حصہ بنے ہوئے تھے۔

15ویں صدی کی ابتدا کے ساتھ ہی عالمی سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں۔ہندوستان میں مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی ملک کے دیگر خطوں پر مسلمان حکمرانوں کا تسلط قائم ہو چکا تھا۔ان درباروں میں کثیر تعداد میں شعراموجود تھے۔ ایرانی تہذیب و ثقافت کے اثرات ہندوستانی تہذیب کے ہر گوشے کو متاثر کر رہے تھے۔علم و فن ، تہذیب و ثقافت،عوامی زندگی سے حکومت وقت تک ایرانی تہذیب کے اثرات نمایاں تھے۔

دیوان ولی کی دہلی آمد کے بعد شمالی ہند میں با قاعدہ اردو میں شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ ولی کے اشعار گلی کوچوں، ادبی محفلوں اور اہل ذوق کی مجلسوں میں گونجنے لگے۔ شعرائے دہلی، ولی کی زمینوں میں شعر کہنے کو باعث فخر سمجھنے لگے محمد شاہی دور میں جب مغل سلطنت کے زوال کی ابتداہوئی تو بہت سی رنگ رلیوں کے ساتھ مشاعروں کی رونق میں بھی اضافہ ہوا اور غالباً اسی زمانے میں ریختہ اردو کے مشاعروں کی بھی ابتداہوئی۔

 ہندوستان میں شاعری نہ عرب کی طرح عوام سے مخاطب تھی نہ ایران کی طرح صرف خواص اور درباروں تک محدود۔ہندوستان میں ادب اور شاعری سب سے پہلے صوفیا کی خانقاہوں میں پروان چڑھی۔ جب شرفا میں مقبول ہوئی تو درباروں نے اس کی سرپرستی کا حق ادا کیا اور ایک نئی زبان جو آہستہ آہستہ اپنے ارتقاکی راہیں ہموار کر رہی تھی اسے بیک وقت عوام اور خواص دونوں کی محبت اور توجہ نصیب ہوئی۔ اب درباروں میں فارسی کے ساتھ اردو کو بھی اہمیت دی جانے لگی تھی، جہاں ایک طرف فارسی مشاعروں کی دھوم تھی تو دوسری جانب عہد سودا اور میر میں اردو ترقی کے ان ابتدائی مدارج کو طے کر کے اس مرحلے میں پہنچ چکی تھی کہ اس زبان میں مشاعروں کا آغاز ہو چکا تھا

’’میر تقی میر نے نکات الشعرا میں کئی اردو مشاعروں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ فارسی مشاعروں سے ممتاز کرنے کے لیے لوگوں نے ریختہ کے مشاعروں کو ’مراختہ‘ کہنا شروع کیا۔ ‘‘

(ذوق ادب اور شعور: سید احتشام حسین، ص83، ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ) 

 اردو شاعروں کو فارسی سے منفرد اور ممتاز کرنے کی غرض سے زبان ریختہ کے مشاعروں کو مراختہ کہا گیا جن میں صرف شعرا ہی نہیں شرفا، امرا، روسا،  اور صوفیا اور سلاطین باہم شرکت کرتے تھے ایسے کئی مشاعروں کی تفصیلات نکات الشعرا، ریاض الفصحا میں اور دیگر ابتدائی تذکروں میں موجود ہیں اردو شاعری کی مقبولیت کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نکات الشعرا  میں دکن اور شمالی ہند کے 140 شعراکا ذکر موجود ہے۔ 

 صوفی شعرانے بھی محفل سماع کے علاوہ مشاعروں کو بھی ایک تہذیبی روایت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا جن میں خواجہ میر درد کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ خواجہ میر درد ہر ماہ اپنے گھر پر ایک شعری نشست کا اہتمام کرتے جس میں شہر کے معزز شرفا، شعرا کے علاوہ بادشاہ وقت بھی شرکت کرتے تھے۔ 

دہلی پر احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کیا کہ دہلی کی آبادی اپنے محبوب وطن کو خیر آباد کہنے اور دوسرے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوگئی۔اس انتشار کا اثر صرف عوام تک ہی محدود نہ تھا سیاسی حالات پر بھی اس کا شدید اثر ہوا۔ ایسے سیاسی اور معاشی بحران سے متاثر سلاطین و روسا،شعراکی سرپرستی اور قدردانی کرنے والے خود پناہ تلاش کرنے پر مجبور تھے۔ شعراتلاش معاشں کی خاطر ملک کی دیگر ریاستوں سے منسلک ہو گئے۔

 اس وقت تک لکھنؤ ان ملکی حالات سے دوچار نہ ہوا تھا۔لکھنؤ میں امن و نشاط کا دور دورہ تھا ،دہلی کی شکست و ریخت سے متاثر شعرااپنی تمام تر شعری روایت کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہوگئے اور لکھنؤ دوسرا ادبی مرکز بن کر ابھرا۔ لکھنؤ کا عیش پرست ماحول ان شعرا کی توقعات کے عین مطابق تھا۔نوابین اودھ شعروادب کے پرستار بھی تھے اور سرپرست بھی لکھنؤ میں باقاعدگی سے مشاعروں کی محفلوں کا انعقاد ہونے لگا۔ لکھنؤ کا رنگِ شاعری دہلی سے قدرے مختلف تھا۔ استاد شعرااپنے اپنے رنگِ دبستان کی بھرپور نمائندگی کر رہے تھے۔ اپنی اپنی ادبی وراثت کی برتری کی خواہش نے معاصرانہ چشمک کو جنم دیا۔یہاں تک کہ خدائے سخن میر تقی میرکی لکھنؤ آمد پر انھیں جن حالات سے دوچار ہونا پڑا اس درد و کرب کا احساس میر کے ان اشعار سے بخوبی ہو جاتا ہے       ؎

کیا بود و باش پوچھو ہو،پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلی جو ایک شہر تھا،عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی،جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کے،ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں،اسی اجڑے دیار کے

 لکھنؤ شعر و سخن اور علم و فن کی فضا میں ڈوبا ہوا تھا لیکن 1857کے بعد اودھ جو اب تک عیش و نشاط کا گہوارہ تھا وہ بھی اب زوال کی زد میں تھا۔لکھنؤ اجڑ چکا تھا شہر کی ادبی رونق ماند پڑ چکی تھی اور مشاعروں کی پرانی روایت بھی تبدیل ہو گئی تھی۔

اس بدلی ہوئی فضا میں مشاعروں کی روایت کو جلا بخشنے کی سعی میں مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب کی بنیاد رکھی اور شاعری کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا۔

’’21 جنوری 1865کو انجمنِ پنجاب قائم کی گئی۔ ڈاکٹر لانٹنر کو اس انجمن کا صدر منتخب کیا گیا... انجمنِ پنجاب اپنے وسیع تر تناظر میں مختلف امور کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اس زمانے میں بہت سی ادبی انجمنوں میں سے ایک انجمنِ پنجاب ہی ایسی تھی جس نے آگے چل کر اردو ادب پر گہرے نقوش مرتسم کیے۔‘‘

(انجمنِ پنجاب کے مشاعرے: عارف ثاقب، ص 22، الوقار پبلی کیشنز لاہور 1995) 

اب مشاعرے طرحی نہیں موضوعاتی ہونے لگے جس نے مشاعروں کو زندگی سے قریب کر دیا اور شاعری میں بھی حقیقی اور نیچرل شاعری کا اضافہ ہوا اور غزل کے ساتھ ساتھ ان مشاعروں میں نظم کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اس بدلی ہوئی صورت حال میں بھلے ہی مشاعروں کا رنگ پہلے جیسا قائم نہ رہا ہو لیکن اس کی ادبی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ مشاعروں کی اس بدلی ہوئی نوعیت پر ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی تغیرات کا گہرا اثر رہا۔لیکن ان مشاعروں نے نہ صرف مشاعرے کی روایت کو برقرار رکھا بلکہ حقیقی رنگ شاعری نے اس کے موضوعات کے دامن کو مزید وسعت عطا کی اور اردو کو اپنے دور کے بہترین شعرا سے متعارف کروایا۔

 تحریکِ آزادی کی جدوجہد نے زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ شعری نشستوں میں بھی انہیں نظریات کی نمائندگی ہونے لگی، حب وطن اور پیغام آزادی کا درس رواج عام ہو گیا جس نے عوام میں جوش آزادی کا جذبہ بیدار کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ادب کا دامن جیسے جیسے سیاسی اور سماجی تحریکات سے جڑنے لگا مشاعروں کے انداز اور موضوعات میں ایک بار پھر تبدیلی واقع ہوئی اور غزل اور نظم کا دامن مزید وسعت اختیار کرتا گیا۔

 آزادی سے قبل اور بعد میں مشاعرے کی روایت میں اتنی تبدیلی رونماہو چکی تھی کہ اب تصنع ، تکلف اور زبان کی تراش و خراش کی جگہ خیال و فکر کی سادگی و ندرت نے لے لی۔ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر شعراکی تخلیقات میں نئے شعور اور سماجی تغیرات کا اظہار بھی شامل ہوگیا۔اس عہد میں مشاعروں کی روایت نے انفرادی و اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا اور اردو شاعری کو نئے معنی اور نئی جہت عطاکی۔

مشاعرے کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ زمانے کے اعتبار سے مشاعروں کے انداز بھی بدلے،خانقاہوں کی پاکیزہ فضا کی محفل سماع، میر و سودا کے عہد میں منعقد ہونے والے مراختے ،درد کے دولت کدے پر منعقد ہونے والی شعری نشستیں جن کا تعلق خواص سے تھا یا آتش و ناسخ  کے دور میں وہ عام سامعین کے مذاق کے مطابق ہونے والے مشاعرے، انجمن پنجاب اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ہونے والے اصلاحی، فکری، سیاسی مشاعرے شمع سے لاؤڈ سپیکر اور ریڈیو تک کا سفر مشاعروں کی روایت نے جس کامیابی سے طے کیا۔عوام اور ادب کے درمیان جس طرح ایک پل کا کام کیا ان کی مجلسی ،اجتماعی اور لسانی اہمیت غیر معمولی نہیں۔

 مشاعرے میں شعرا نے ہر زمانے میں عام فہم زبان کا استعمال کیا اور ایسے مضامین کو اپنے اشعار میں سمونے کی کوشش کی جس سے سننے والے لطف اندوز ہو سکیں۔ برقی ترقی اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں پہلے ریڈیو پھر ٹیلی ویژن پر منعقد ہونے والے مشاعروں نے کامیابی کی نئی تاریخ رقم کی۔

 زبان اردو کی ترویج و اشاعت اور عوام سے اس کا تعلق استوار کرنے میں مشاعروں نے ابتدا سے ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ زمانہ قدیم جہاں لوگوں کو تفریح اور وقت گزاری کے مواقع میسر نہیں تھے، ایسے وقت میں لوگوں نے ان اجتماعی تقریبات میں جہاں روسا،امرا، اور صوفیاہی نہیں سلاطین کے ساتھ عوام کو باہم شرکت کے مواقع فراہم ہوئے، ان اجتماعی تقریبات کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے آپسی میل جول سے تہذیب و ثقافت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ ملک گیر سطح پر مختلف خطوں میں وہ شعری محفلیں مختلف تہذیبوں کے فروغ کا باعث بنیں۔زبان اردو جو ترقی مدارج طے کرتی ہوئی اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے کوشاں تھی اردو شعرانے اپنی کاوشوں سے اس کے حسن کو مزید جاذبیت عطاکی۔شاعری جو کہ قلبی واردات اور جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ ہے اس نے عوام کو جوڑنے کا کام کیا۔شعراجو ان محفلوں کا حصہ رہے انہوں نے عوام کے مذاق اور تہذیبی روایات کو اپنی شعری کاوشوں میں قائم رکھنے کی پوری کوششیں کی کہیں داخلیت کا زور رہا تو کہیں خارجیت کی بھرمار اس کی مثال دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دہلی کے رنگ شاعری سے واضح ہے۔

مشاعروں میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ضرب المثل بن کر مقبول ہوئے یا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مشاعروں نے شعراکو مقبولیت کے بہترین مواقع فراہم کیے ان میں سے متعدد غزل اور نظم کے اشعار ایسے بھی ہیں جو شعراکی مقبولیت کے ضامن بنے تو بعض اشعار ایسے بھی ہیں جو شعراکے نام سے نہیں بلکہ اپنی جاذبیت کے سبب مقبول ہوئے۔مثال کے طور پر کچھ اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اشعار شعراکی مقبولیت کے ضامن ہیں۔ ان میں سے بعض غزلیں یا صرف چند اشعار اور بعض اشعار کا صرف ایک مصرع ہی ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔

مشاعروں کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی  واضح ہو جاتی ہے کہ ہر زمانے اور ہر دور میں مشاعروں نے منفرد اور مقبول تاریخ مرتب کی ہے، جس سے زبان کو ترقی کے مواقع میسر آئے،تہذیبی روایات کو استحکام اور افتخار حاصل ہوا۔ سیاسی سماجی بیداری کا کارنامہ انجام دیا گیا، اور ایک ایسی روایت قائم ہوئی جس نے ذہنی انبساط اور دائرہ فکر کو وسعت عطاکی۔ آج زبان اردو پر مختلف آرا قائم کی جا رہی ہیں تاہم مشاعروں کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔


Gulshan Musarrat

347/161/16 ka, Old Tikait Ganj

Lucknow- 226017 (UP)

Mob.: 8004727071


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں