26/4/24

’امالہ‘ سے بے نیازی: ایک بڑی غلطی، مضمون نگار: اسلم جاوداں


اردو دنیا، فروری 2024

امالہ اردو زبان کا ایک بے حد خاص اور پیچیدہ قاعدہ ہے، جس سے اکثر اہل زبان بے نیاز ہیں۔ جس کے سبب ان کی تحریر میں بڑی خاموشی کے ساتھ غلطی در آتی ہے، جو اہل زبان کی شان کے منافی ہے۔

پہلے تو یہ جان لیا جائے کہ ’امالہ‘ ہے کیا؟ آسان زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ جملے کی ساخت کے اعتبار سے کچھ لفظوں کی کھڑی آواز کو پڑی آواز میں بدلنے کے عمل یا قاعدے کو ’امالہ‘کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جملے کی ساخت کے اعتبار سے مخصوص الفاظ کے آخر میں آنے والے ’الف‘، ہائے مختفی اور ’ہ ‘ کو یائے مجہول یعنی بڑی ’ے‘ میں بدلنے کے عمل کو ’ امالہ‘ کہتے ہیں۔ جیسے لڑکا سے لڑکے، سہرا سے سہرے، کتا سے کتے، مدینہ سے مدینے، نقشہ سے نقشے وغیرہ۔

مثال کے طور پر کہا جائے کہ’اس لڑکا کو بلاؤ ‘ تو یہ غلط ہوگا، لفظ’ لڑکا ‘ میں امالہ مطلو ب ہے۔ جملے کی ساخت کے اعتبار سے ’لڑکا ‘ کے الف کو ’ ے ‘ سے بدلنا ہوگا :

یعنی ’اس لڑکے کو بلاؤ ‘ کہنا ہوگا۔ واضح رہے کہ لڑ کے یہاں پر جمع نہیں بلکہ امالہ یافتہ ہے۔

اسی طرح ’میخانہ میں شراب نہیں ہے‘ کی بجائے :

’میخانے میں شراب نہیں ہے‘۔ لکھا جائے گا۔

گویا جملے کی نوعیت کے اعتبار سے کسی خاص لفظ کے آخر آنے والے ’الف‘ یا ’ ہ‘ کو بڑی ’ یے ‘ میں بدلنے کے عمل کو امالہ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ امالے کا عمل اس سے بھی آگے ہے۔ مگر اصل اور عمومی قاعدہ یہی ہے، جس کی واقفیت لازمی ہے۔

دوران مطالعہ مجھے اندازہ ہو تا رہا ہے کہ اس اہم قاعدے سے بڑے بڑے شاعر اور ادیب بھی بے نیاز یا ناواقف ہیں، ہما شما کی بات تو خیر جانے دیجیے، ان کے یہاں عام طور سے اس کا شعور بھی نہیں ہے۔

عالمی شہرت کے حامل شاعر پدم شری ڈاکٹر کلیم احمد عاجز بھی اس سے بے نیاز گزرے ہیں۔شعر ملاحظہ ہوں   ؎

نہ وہ محفل جمی ساقی نہ پھر وہ دور جام آیا 

ترے ہاتھوں میں جب سے’میکدہ ‘ کا انتظام آیا

( کلیات کلیم عاجز : ص176)

دوسرے مصر عے میں، ’میکدہ‘ کی جگہ ’میکدے ‘ ہونا چاہیے۔ یہاں امالہ مطلوب ہے۔

کلیم عاجز صاحب کے حج کے سفر نامے کا نام ہے :

’ یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ ‘

جب کہ اس کا نام ’یہاں سے کعبہ،کعبے سے مدینہ‘ ہونا چاہیے تھا ۔ان کا شعر بھی ملاحظہ ہو ؎

سفر ہوتا بہ خم، پھر تا بہ مینا

یہاں سے کعبہ، کعبہ سے مدینہ

شفیع جاوید بہار کے اردو افسانے کا ایک معتبر اور مستند نام ہے۔ لیکن ان کے یہاں بھی امالے کی غلطیاں ہیں۔ ان کے افسانوں کے ایک مجموعے کا نام ہے :

’ دائرہ کے باہر ‘ جب کہ اس کا نام ہونا چاہیے تھا :

’دائرے کے باہر ‘۔

کتاب کا نام ہی غلط ہونا بڑا ستم ہے۔

اختر اورینوی جیسے جید زبان داں سے بھی کہیں کہیں چوک ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں :

’’حسن عسکری نے اپنے ایک گرانقدر 'مقالہ 'میں مغلیہ عہد کے قبل کے ان اثرات کا ذکر کیا ہے۔‘‘

(بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا، ص183) 

حالانکہ مقالہ میں امالہ مطلوب ہے۔ ’ مقالے ‘ ہونا چاہیے ۔اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

’’اس میں تعزیہ کی برائی۔۔۔ کا بیان ہے۔‘‘

( بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا، ص 321 )

بالکل واضح ہے کہ ’ تعزیے کی برائی ‘ ہونا چاہیے۔

جمیل جالبی لکھتے ہیں :

’’لیکن اس کے برخلاف گولکنڈا میں ان کے معاصر ۔‘‘ ( تاریخ ادب اردو جلد اول قدیم دور ،ص291 )

قاعدے کے حساب سے گولکنڈے ہونا چاہیے۔

دوسری مثال ملاحظہ کریں :

’’وہ ایک چڑیا کی طرح گاتا چلا جاتا ہے ۔‘‘

(تاریخ ادب اردو جلد اول قدیم دور، ص 333 )

’’وہ ایک چڑیے کی طرح گاتا چلا جاتا ہے۔‘‘

گوپی چند نارنگ کے یہاں بھی یہ بے نیازی ہے۔ لکھتے ہیں : 

’’ پوری ذمہ داری اور غور خوض کے بعد کی ہوں گی ۔‘‘

’’انھوں نے یہ ذمہ داری خاکسار کو سونپی ۔‘‘

(’املا نامہ‘ ص 39-49)

’ذمہ داری ‘کی بجائے’ذمے داری‘ہونا چاہیے ۔

’ مصرع کی علامت ‘ ( املا نامہ ص : 102)

’مصرعے کی علامت‘ لکھا جانا چاہیے۔

ناوک حمزہ پوری نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے کہ لکھنو کے ایک مدیر نے اپنے رسالے میں لکھا :

’’اس شمارہ کے ساتھ رسالہ اپنی اشاعت کے ستائیسواں سال میں داخل ہوگیا ۔‘‘

جب کہ ہونا چاہیے تھا:

’’اس شمارے کے ساتھ رسالہ  اپنی اشاعت کے ستائیسویں سال میں داخل ہوگیا۔‘‘

’دعوت‘ جیسے معتبر اور معیاری اخبار کے ہر شمارے کے پہلے صفحے پر آپ کو یہ تحریر ملے گی۔

’’اس شمارہ میں مزیدآپ کے لیے۔‘‘

جب کہ ہونا چاہیے تھا :

جب کہ ہونا چاہیے :

’’اس ’شمارے‘ میں مزید آپ کے لیے ۔‘‘

گویا املا سے بے نیازی اور لاعلمی آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی۔         

اس کے باوجود امالے جیسے اہم موضوع پر قواعد کی کتابوں میں عموما کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے اور اس اہم موضوع کو اب تک غیر اہم سمجھا جاتا رہا ہے۔ زبان اور قواعد کے بڑے نکتہ داں رشید حسن خاں بھی امالے کے موضوع پر تقریبا خاموش ہی رہے ہیں۔ امالے کی بجائے غیر واضح انداز میں ’ محرف صورت‘ کہا ہے۔ لیکن اپنی اہم تصنیف ’تفہیم ‘ کے ص 155 (ہندوستانی فارسی میں تلفظ اور املا کے بعض مسائل )پر’امالہ‘ کے سلسلے میں انھوں نے کچھ باتیں تحریر کی ہیں، مگر وہ نگارش سے متعلق نہیں، بلکہ تلفظ سے متعلق ہیں۔ گویا سمجھا جا سکتا ہے کہ امالے جیسے اہم اصول و قاعدے سے اہل زبان میں بے اعتنائی رہی ہے اور بہتیرے تو اس سے واقف بھی نہیں ہیں۔ حالانکہ اس سے بے اعتنائی ہماری تحریر کو شرمسار کرتی ہے۔

میرے مطالعے کی حد تک دبستان بہار میں ناوک حمزہ پوری ہی ایک ایسے ماہر زباں ہیں، جنھوں نے امالے پر ایک مضمون لکھا اور اس پر کچھ روشنی ڈالی ہے، ورنہ یہ میدان خالی نظر آتا ہے۔

امالہ : قواعد اور اصول 

امالہ فہمی کے لیے ادب نگاروں کا اہل زبان ہونا لازمی شرط ہے۔ اگر وہ اہل زباں ہوں گے تو انھیں خود بخود اندازہ ہو جائے گا کہ اس لفظ میں امالہ مطلوب ہے یا نہیں؟

مثلا کسی بچے کو بلا نا ہوگا تو ایک اہل زبان یہ نہیں کہے گا کہ’اس بچہ کو بلاؤ‘، بلکہ وہ کہے گا’اس بچے کو بلاؤ۔‘

وہ یہ نہیں کہے گا کہ :

’میں پٹنہ جا رہا ہوں‘ بلکہ کہے گا ’ میں پٹنے جا رہا ہوں‘

وہ نہیں لکھے گا کہ ’میخانہ میں دور جام چل رہا ہے‘ بلکہ لکھے گا کہ ’میخانے میں دور جام چل رہا ہے۔‘

ایسا اس لیے ہوگا کہ وہ اہل زبان ہے، اس کی زبان سے ایسا خودبخود نکلے گا۔ 

آپ نے دیکھا کہ اس عمل میں اصول اور قواعد کے جاننے سے زیادہ زبان و بیان پر گرفت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اہل زبان جملہ سازی کے وقت الفاظ کے صحیح استعمال پر پوری توجہ دیں۔ 

اما لے کے فن پر گرفت رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل اصولوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

قاعدہ 1: جس اسم کے آخر میں الف ہو تو اس کو یائے مجہول یعنی بڑی ’ے ‘ میں تبدیل کر دیا جائے۔ 

مثلا : گھوڑا۔ گھوڑے پر بیٹھ جاؤ۔

جوتا۔ اس کو جوتے مارو 

باجا۔ باجے والے کو بلاؤ 

ڈھیلا۔ اس نے ڈھیلے سے سر پر مارا 

ڈراما۔ ڈرامے کی تاریخ روشن ہے۔

مٹکا۔ مٹکے سے دودھ ٹپک رہا ہے۔

سہرا۔ سہرے کی بہار خوب ہے۔

ڈنڈا۔ اسے ڈنڈے مار کر بھگاؤ۔

لیکن یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے،ایسا نہیں ہے کہ تمام اسما،جن کے بھی آخر میں ’ الف‘ ہے اس کو یائے مجہول سے بدل کر امالے کے قاعدے کی پیروی کی جا سکتی ہے۔

مثلا :راجا۔ راجا کو بلاؤ،

( لڑکے کو بلاؤ کی طرح راجے کو بلاؤ نہیں ہوگا )

ایسے عربی الفاظ جن کے آخر میں الف کے بعد ہمزہ ہو،(خواہ وہ ہمزہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے ) امالہ قبول نہیں کرتے ہیں۔ مثلا : 

دعاء،  بقاء،  فناء،  جزاء  وغیرہ  

قاعدہ 2: جس اسم کے آخر میں ہائے مختفی یا گول ’ہ‘ ہو تو اس کو بھی یائے مجہول یعنی بڑی ’ ے‘ میں بدلا جائے گا ۔ مثلا :

شیشہ۔ ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے 

بتا کیا تو میرا ساقی نہیں ہے 

افسانہ۔ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے 

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 

میخانہ۔ اب تو اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں 

پیمانہ۔ جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں 

قاعدہ 3: جن شہروں یا ریاستوں کے نام کے آخر میں ’الف‘ یا ہائے مختفی یا گول ’ہ‘ ہو ان میں اکثر کو یائے مجہول یعنی بڑی ’ے‘ سے بدل دیتے ہیں۔ مثلا :   

مدینہ۔ ’ مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ‘

مکہ۔ مکے کی روحانیت کا کیا کہنا۔ 

کلکتہ۔ ’کوئی چھینٹا پڑے تو داغ کلکتے چلے جائیں‘

آگرہ۔ ’ میں آگرے کے سینٹ پیٹرز کالج میں داخل ہو جاؤ ں۔‘ ( یادوں کی برات : جوش ملیح آبادی، ص 152 )

بنگالہ۔ جناب کا تعلقہ بنگالے میں کس طرف ہے ؟ 

( قرۃ العین حیدر : آگ کا دریا، ص 190)

پٹنہ۔ میں کل پٹنے جا رہا ہوں۔

گولکنڈا۔ گولکنڈے میں ہمارے کئی رشتے دار ہیں۔ 

پونہ۔ وہ پونے میں رہتا ہے۔

کعبے کو شہر مکہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس لیے عام طور پر مکے کی جگہ کعبہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ 

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب . . (غالب) 

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے (اقبال) 

مگر یہ اصول آنکھ بند کر کے تمام شہروں پر نافذ نہیں ہوگا۔

مثلا : قسطنطنیہ، بخارا، بلیا، رومانیہ وغیرہ۔ یہاں پر لسانی صوابدید کا سہارا لینا ہوگا۔

قاعدہ4:  اکثر الفاظ جو اسم ہوں یا نہ ہو ں اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی یا گول ’ہ‘ ہو، تو ان کو بھی یائے مجہول یعنی بڑی ’ ے‘ میں بدل دیا جائے گا۔  

مثلا : سانحہ سے سانحے، واسطہ سے واسطے وغیرہ

 اسی طرح ہنگامہ، واقعہ، ذریعہ، نظریہ، مقابلہ، نشانہ، فائدہ، وعدہ، نشہ، حصہ، معاملہ، معانقہ، مشاعرہ، مطالعہ، سلسلہ، وغیرہ بے شمار الفاظ اسی ضمن کے ہیں۔

قاعدہ5:  رشتے ظاہر کرنے والے کچھ الفاظ جن کے آخر میں الف یا ہائے مختفی ہو امالہ قبول کرتے ہیں، مثلا بیٹا، بھانجہ، بھتیجا، سالا، پوتا، نواسہ وغیرہ۔ لیکن ابا، چچا، پھوپھا، ماما، نانا، دادا، بھیا، آپا وغیرہ امالہ قبول نہیں کرتے ہیں۔ ان سب کا استعمال اہل زبان اپنی صوابدید سے کرتے ہیں۔

 قاعدہ6: مرکب الفاظ سے بنے ہوئے اسماجن کے بیچ اضافت نہیں ہو اور ان کے آخر میں ہائے مختفی یا گول ’ ہ‘ ہو وہ اکثر امالہ قبول کرتے ہیں۔

مثلا : شراب خانہ۔  

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں 

 فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق (اقبال )

اسی طرح : میکدہ سے میکدے، دولت خانہ سے دولت خانے وغیرہ۔ 

مگر یہ قاعدہ بھی ہر جگہ نافذ نہیں ہوگا۔ جہاں گول ’ہ‘ لفظ کے آخر میں الگ سے آئے، وہاں امالہ نہیں ہوگا۔ مثلا چراگاہ سے چراگاہے نہیں ہوگا،نماز گاہ سے نماز گاہے نہیں ہوگا۔ ایسے الفاظ کے سلسلے میں بھی اپنی لسانی صوابدید کو روبہ عمل لانا ہوگا۔ 

عام طور سے یہ تصور ہے کہ الفاظ کے اواخر میں آنے والے الف، ہائے مختفی یا گول ’ہ ‘ کو یائے مجہول میں بدل دینے کے عمل کو ہی امالہ کہتے ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ امالے کاعمل اس سے بھی آگے ہے

(ساتواں اور آٹھواں قاعدہ ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں بھی وہی قاعدہ ہے یعنی کھڑی آواز کو پڑی آواز، میں بدل دینا۔اس طورسے اسے بھی امالہ ہی کہا جاتا ہے )

قاعدہ 7 : ایسے اسما یا دوسرے الفاظ جن کے آخر میں ’اں‘  ہو،  اس کو ’ ئیں ‘ سے بدل کر امالہ بناتے ہیں۔

مثلا دھواں سے دھوئیں، کنواں سے کنو ئیں، رواں سے روئیں، دایاں سے دائیں، بایاں سے بائیں وغیرہ۔

قاعدہ8:  وہ صفات عددی جن کے آخر میں ’ اں‘ ہو، ان کو ’ یں‘ میں بدل کر امالے کی شکل دیتے ہیں۔ 

مثلاً: ساتواں سے ساتویں، بائیسواں سے بائیسویں، پچیسواں سے پچیسو یں۔ پچاسواں سے پچاسویں وغیرہ۔

امالے کی ایک اور شکل ہے۔ کتاب سے کتیب بنایا جائے۔ حساب سے حسیب، حجاب سے حجیب، حجاز سے حجیز وغیرہ۔ مگر امالے کا یہ قاعدہ بالخصوص ہماری فارسی میں مستعمل ہے۔

مذکورہ تفصیل اور مثالوں سے امالے کے سلسلے میں بہت حد تک بنیادی باتیں آگئی ہیں، مگر ان قواعد اور اصولوں کو جاننے سے زیادہ لسانی شعور اور الفاظ کے استعمال پر مضبوط گرفت لازمی ہے اور اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ اہل زبان نے مختلف الفاظ کا استعمال کس طور سے کیا ہے۔


Dr. Aslam  Jawedan

Darul Gheya 

Near  Hotel  Blue  Diamond 

Sabzi Bagh, Patna,: 800004, Bihar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں