26/4/24

بدنام نظر کی نظموں میں زندگی کی خوشبو، مضمون نگار: عشرت ظہیر

 

اردو دنیا، فروری 2024

فرانس میں انیسویں صدی کے وسط میں Victor- Hugo کی رومانٹک شاعری اور بورژوا (Bourgeois) سماج کی مادیت پرستی کے خلاف احتجاج کو کچھ نوجوان شعرا نے ناقابل اعتنا سمجھا، پھر بھی وہ لوگ خاطرخوا ہ انقلاب نہ لاسکے۔ اس تحریک نے پہلی جنگ عظیم کے بعد اپنے خد و خال کو اختیار کیا۔ نتیجے کے طور پر انتہائی ذاتی احساسات اور تلازمات علامتی پیرائے میں ڈھل گئے یعنی اس معاشرے کے فر دپر جو ضرب لگائی گئی تھی اور اس کی شکست و ریخت کا جو سامان پیدا کردیا گیا تھا، اس کا ردعمل ہوا— اردو میں اس بدلتی ہوئی روش کی طرف حالی نے توجہ مبذول کرائی تھی اور اقبال نے پہلی بار اپنی نظموں کے ذریعے اس صنف میں خاطرخواہ تبدیلیاں کیں۔

اقبال کے اجتہاد کے بعد عملی طور پر نظموں کو جدید سانچے میں ڈھالنے والوں میں میراجی اور ن م راشد اولین توجہ کے مستحق ہیں اور اس سلسلے میں پیش رو ہونے کے ناتے ان کی شاعری اپنے بعد والوں سے کہیں زیادہ ابہام میں پناہ گزیں ہے۔ میرا جی اور ن م راشد کے بعد جدید اردو نظم نگاروں کا ایک لمبا اور قابل قدر قافلہ ہے۔ اس قافلے میں ایک اہم اور لائق توجہ نام بدنام نظر ہے۔

بدنام نظر نظم و غزل دونو ںکو اپنی شاعری کا وسیلہ بناتے ہیں۔ تاہم ان کا غالب رجحان نظم کی جانب ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’تہی دست‘ نظموں کے انتخاب پر مشتمل تھا۔ دوسرے مجموعہ کلام ’نزول‘ میں غزلیں تھیں، لیکن تیسرے مجموعہ کلام ’بارگراں‘ میں 59 نظمیں ہیں جو 105 صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان کے برعکس 45 غزلوں کے لیے کل 50 صفحات مختص ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بدنام نظر کا رجحان و میلان ترجیحی طور پر نظم کی جانب ہے۔ لہٰذا میں اپنے اس مضمون کا دائرۂ مطالعہ نظم پر ہی مرتکز کرتا ہوں۔ یوں بھی نظم اپنی تہہ داری اور پرپیچ کیفیت کے باعث جزئیات کے مطالعے کی متقاضی ہوتی ہے۔

بدنام نظر کی شاعری ایک ایسی زندگی کی نقیب ہے، جہاں زندگی کے حزن اور تفکر ذات کے اظہار کے باوجود زندگی کی رنگ آمیزی، ہلچل اور روشنی مدھم نہیں ہوتی، اور یہ احساس اس لیے بھی مستحکم ہے کہ ان کا گہرا تعلق گاؤں اور تہذیب گم گشتہ سے ہے۔ ان کی نظموں میں سنہری تہذیب ماضی کے ساتھ پیوستہ ہے۔ ان کی یہ وابستگی ان کی کائنات نظم میں روپ بدل بدل کر وارد ہوئی ہے۔ یہ کبھی ماضی کی راہو ںکی سیر کراتی ہے، کبھی عظمت رفتہ کی گم شدگی کا احساس دلاتی ہے ،کبھی پیڑ پودے، برگد، سمندر اور گاؤں کے استعاراتی اور علامتی نظام کے توسط سے زندگی کی بہترین قدروں اور وراثت دیرینہ کے کھو جانے کے تاسف آمیز جذبے سے ہمکنار کرتی ہے۔ ان کی نظم ’لیب ٹسٹ‘ کا ایک اقتباس ملاحظ ہو،یہاں حزن بھی ہے، اور امید کی روشنی بھی جگمگا رہی ہے؎

پیکر، روح، انساں، منظر، موسم، دنیا، ذہن و مذہب اور فرقہ

سب خالق کی تخلیق

الگ لگ اجزا کی لیکن الگ الگ تاثیر

ایک طرف ہابیل

ایک طرف قابیل

زندگی کے روشن احساس اور رنگ آمیزی کے باوجود، عہد حاضر کا درد اور کشمکش حیات انسان کو متفکر اور بے چین بھی کرتا ہے اور وسوسوں میں بھی مبتلا کرتا ہے، کیونکہ مثبت اور منفی قوتوں کا تصادم ہر آن جاری ہے، یہ رکتا نہیں۔ تاہم تمام تر سوالوں اور اندیشوں کے باوجود ہابیل کی زندگی امید کی صورت اجاگر ہے ؎

مسجدوں کے منارے زمیں میں دھنسے جارے ہیں

سرخ کا لا لہو بہہ رہا ہے

لاشیں گلیوں میں سڑنے لگی ہیں

پھر بھی ہابیل و قابیل دونوں میں کوئی بھی مرتا نہیں ہے

دونوں میں کوئی بھی تھکتا نہیں ہے؟

(اقتباس: نظم، لہو، آتما، اشارے)

بدنام نظر کی نظمیں احساسات کی مختلف النوع تہوں سے مزین ہیں، ان میں مظاہر کائنات اور حیات انسانی کی تصویریں متحرک بھی ہیں اور مجسم بھی۔ بدنام نظر خوبصورت اور دلکش منظرنامے کی تخلیق و تشکیل میں ماضی کی گزرگاہوں میں صدیوں کا سفر طے کرتے ہیں۔ اپنے اس سفر میں وہ نوحؑ کے ضبط محبت، حضرت محمد ﷺ کی نرم مزاجی اور انسانیت نوازی، حضرت حسینؓ کی ایثار و قربانی، گوتم بدھ کی تپسیا، شری رام کی آگیا کاری اور شری کرشن کی مرلی سے ابھرنے والے پریم سندیش کے پس منظر میں انسان کی زریں اور بہترین وراثتِ گم گشتہ اور اثاثۂ حیات کے زیاں کے احساس کی سناٹگی کو نظم ’یہاں وہ نہیں ہے‘ میں مجسم کرتے ہیں؎

یہاں وہ نہیں ہے

ہاں یہ چہرہ اسی کا ہے 

گھر بھی وہی، راستہ بھی وہی ہے

مگر یہ تو میں ہوں!

کہ توقیر کے سیکڑوں ہار پہنے

اس کی مسند پہ جلوہ فگن ہوں

ذرا شامہ کی نلی لمبی کرلو

تو دیکھو گے مٹی میں وہ سوندھی خوشبو نہیں ہے

(اقتباس نظم یہاں وہ نہیں ہے)

یوں تو بدنام نظر کی نظمیں روح عصر کے سب رنگوں سے مزین ہیں۔ لیکن عہد حاضرکے تفکرات اور رعنائیاں، انسان کی محبت اور درد ان کی نظموں میں ماضی میں ملفوف دکھتی ہیں۔ یعنی وہ کسی موضوع اورکسی درد کے احسا س کو موثر طور پر پیش کرتے ہوئے بطور پیراڈوکس درِ ماضی کو بصورت ’کھل جا سم سم‘ وا کرتے ہیں۔ ان کے یہاں ماضی بہ صورت نوحہ منعکس نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ بہترین قدروں اور عظمت رفتہ کے آئینے میں عہد حاضر کو عکس ریز کرنے کی قابل تحسین سعی ہے۔  ’ایک نظم‘ جسے انھوں نے اپنے ماموں جان کے نام معنون کیا ہے، کا استعاراتی نظام ماضی بعید کے نگار خانے کی سیر کراتا ہے ؎

طبل جنگ کی تھاپوں پہ بھی رقصاں تھی تو

تیز تلواروں کی جھنکار پہ گایا تونے

بن گئی میر تو جی بھر کے رُلایا تونے

بنی اکبر تو زمانے کو ہنسایا تونے

اس ضمن میں ایک خوبصورت نظم ’دعا‘ کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ نظم کا پہلا مصرع علامہ اقبال کی نظم ’بچے کی دعا‘ سے مستعار لیا گیا ہے۔مستعار لیا گیا مصرع دراصل ایک دور گم گشتہ میں جینے کی صورت ہے ؎

’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘

مانگتا تھا یہ دعا

شام و سحر بچپن میں

جانے کیا روز تھا، کیا وقت تھا، کیا لمحہ تھا؟

درِ تاثیر کھلا تھا

کہ خدا عرش بریں سے

چلا آیا تھا زمیں پر

نور اک چمکا کچھ ایسا کہ مرے سینے میں

آگ سی ایک لگی

اور بڑھتی ہی رہی رگ رگ میں

ایک مختصر نظم ’آخری دن سے پہلے‘ اپنے اسٹرکچر، اپنی بنت اور کشید کردہ ماحول کے اعتبار سے وقت موجود کی حدوں اور بندشوں سے پرے تاریخ کی دور دراز فضاؤں میں لے جاتی ہے ؎

زرد شاخوں پہ بیٹھی ہوئی فاختائیں

اپنی چونچوں میں زیتون کی پتیوں کو دبائے

سمندر کی تہہ اور حدیں ناپتی ہیں

کہیں کوئی کشتی نہیں ہے

بدنام نظر کی اکثر نظمیں گم گشتہ قدروں کی یاد میں تاسف کی صورت ابھرتی ہیں اور نئی تہذیب اور ترقیِ عہد حاضر کو گویا ترقیِ معکوس کی شکل میں اجاگر کرتی ہیں، اور ذہن کو پریشان سوالوں میں محصور کیے دیتی ہیں      ؎

جگے رہو

اپنی آنکھیں حیران منظروں کے شکم میں گاڑے

تمام قدریں بدل چکی ہیں

مشینیں انسان بن چکی ہیں

گھروں میں تصویریں جھولتی ہیں

بطوطہ اور فاہیان کے نسخے کھوگئے ہیں

کہیں کوئی کاشف الحقائق؟

نہیں

یہاں کچھ نہیں ملے گا

سرنگیں کھودیں مگر سرنگوں کے پار کیا ہے؟

بسیط پانی عریض پانی!

(نظم ’آخری شمع بجھا دو‘ سے اقتباس)

مٹتی تہذیب، اور عہد حاضر کے ’عروج آدم خاکی‘ نے ایک تذبذب اور تشویش کی صورت حال پیدا کی ہے، جس نے پریشان کن خیالوں اور سوالوں میں انسان کو اسیر کیا ہوا ہے؎

سنو زیتون کے پیڑو

زمینیں نائٹروجن، فاسفیٹ اور آکسیجن کھارہی ہیں

تمھاری کوکھ میں اب بانجھ پن پلنے لگا ہے

تو اپنے جسم کی زینت نہ نوچو

کہ یہ دو چار پتّی

کسی تاریخ داں کے کام آئے گی

(نظم ’با یاد پارینہ‘ سے اقتباس)

مظاہر قدرت کے لامتناہی سلسلے، کہسار، ساحل، ریت، جنگل، بارش، سیلاب، سوکھا، دھواں، سایہ، چاندنی اور سمندر، دراصل سربستہ رازہیں۔ سمندر کی گہرائی ایک رہسّیہ ہے، اس کی تہوں میں حیرت ناک عجائبات اور حیات و موت کے وسیلے ہیں۔بدنام نظر نے اپنی نظم ’سمندر کتنا گہرا ہے‘ میں ’سمندر‘ کو مختلف تناظر میں منکشف کیا ہے۔ زندگی کی مختلف کیفیتیں اور صورت حال کی عکاسی میں ’سمندر‘ کو بڑی ہنرمندی اور فنکاری کے ساتھ علامتی پیرایے کے توسط سے نت نئی جہتیں عطا کی ہیں؎     

سمندر چپ

 سمندر کتنا گہرا ہے

 پیاس

 لمبی پیاس کا اک سلسلہ

کہسار، ساحل، ریت، جنگل، کھیت، گھر، بارش، دھواں، سیلاب، سوکھا،دھوپ

سایہ، چاندنی اور ناریل کے پیڑ

پھڑکتے ہونٹوں پہ اک ذائقہ ناعاقبت اندیش

گدگدی جسموں کی، سینوں کے تموج، خواب آنکھوں کے

جزیرے بن رہے ہیں

 جزیرے کا تسلسل رشتہ آبی

 پیاس ٹھنڈی پیاس

سمندر سے سمندر تک

(نظم ’سمندر کتنا گہرا ہے‘سے اقتباس)

بدنام نظر کا اختصاص یہ ہے کہ وہ نرے الفاظ سے اظہار کے لمبے سلسلے کشید کرنے پر قادر ہیں۔ مذکورہ نظم الفاظ کے لغوی معنی سے پرے کیفیت حیات کی رنگ آمیزی اور آہنگ شعری کا طلسم پیدا کرتی ہے— یہ کیفیت ان کی نظم ’تصویریں‘ میں بھی ہویدا ہے، ملاحظہ ہو ایک اقتباس؎

ہوا کی بو، سمندر کا نمک، سورج کے قطرے، بدلیوں کا رنگ

سب کے ہاتھ پھیلے ہیں

سکوتِ قبر، گھر کی چیخ، شہروں کی چمک، دیہات کی تاریکیاں اور

جنگلوں کا شور

سب کتبوں کی صورت

کھڑے ہیں ہاتھ باندھے!

بدنام نظر کی نظموں کا مطالعہ ادھورا رہے گا اگر ان کی نظموں میں پیڑ پودے اور گاؤں کی منظرکشی اور ان کے توسط سے کشید کی گئی فطری حسیت کو ضبط تحریر میں نہ لایا جائے۔ بدنام نظر عظمت رفتہ یا پیڑ پودوں، چڑیوں، فاختاؤں، کھیت کی کچی پگڈنڈی، جنگل، وادی، پہاڑی، پنگھٹ اور آم کے باغوں کی باتیں کرتے ہیں تو دراصل پس منظر میں گاؤں ہی ہوتا ہے، کہ گاؤں تو ان سارے مناظرسے ہی مزین ہے— گاؤں اور گاؤں کے مناظر سے بدنام نظر کی گہری وابستگی ان کی نظموں سے عیاں ہے      ؎

جانے کتنے گاؤں کے پنگھٹ

آم کے باغ

کھیتوں کی کچی پگڈنڈی

اب بھی مجھے یاد کرتی ہیں (نظم ’تنہائی‘ سے اقتباس)

نظم ’تماشہ سلامتی کا‘ کے ذیل کے بند میں شاعر کے لطیف اشارے کے توسط سے گاؤں کا کھُلا اور کھِلا ہوا منظر نگاہوں میں تازہ ہوجاتا ہے ؎

نظر اچانک اٹھ گئی

 پڑوس کی منڈیر پر

منڈیر سے چپک گئی تھی اک کبوتری

سفید دھلی دھلی

 بارشوں کے قطروں سے ڈری ڈری

ہوائیں  اس کے پر سے کھیلنے لگیں

ہوا کے ساتھ میں نے بھی

اپنے جلتے ہونٹ ان پروں پہ رکھ دیے

سربریدہ انگلیوں سے پر کی نرمیاں ٹٹولنے لگا

بجھی نگاہ سے پڑھا/ سکون، امن، آشتی

گاؤں اور گاؤں کے مناظر کے تعلق میں بدنام نظر کے یہاں پیڑ پودے بطور خاص اجاگر ہوئے ہیں۔ ایک نظم ’عظیم برگد‘ بھی قابل ذکرہے۔ برگد کے پیڑ کی ہندو متھ میں بڑی اہمیت ہے۔ نظم ’عظیم برگد‘ کو اگر غور سے پڑھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ گاؤں کی پوری تاریخ، تہذیب و تمدن ختم ہوچکی ہے ،جسے محسوس کرکے شاعر جھنجھلا اٹھتا ہے اور Fossil کی طرح کھڑے پیڑ کو Carbon Twelve کے ذریعے اس کی عمر، اس کا حسن اور اس کی جسامت اور کلچر جاننے کی شاعر کوشش نہیں کرتا، بلکہ نئی تہذیب کے چولہے اس کو جلا کر خاک کردینا چاہتے ہیں تاکہ پھر کوئی ماضی کے کھنڈر میں جاکر خودکشی نہ کرے     ؎

عظیم برگد

 قدیم برگد

برہنہ سر اور برہنہ تن یوں کھڑا ہوا ہے

کہ جیسے تاریخ کی حقیقت

کہ جیسے اسلاف کی عقیدت

جو ریزہ ریزہ بکھر چکی ہے

جدید دل اور دماغ سے جو اتر چکی ہے

عظیم برگد، عظیم ہوگا، قدیم ہوگا

ہمارا اس سے نہ کوئی رشتہ، نہ کوئی ناتہ

ہمارا ناتہ بس اس سے اتنا ہی رہ گیا ہے

کہ اس کے سوکھے ہوئے بدن کو

کسی  چولہے کی آگ کردیں

ہم اپنے اجداد کے نقش کو مٹا دیں

ہڈیاں جلا دیں

خلوص، شفقت، وفا کے سارے دیے بجھا دیں

(نظم ’عظیم برگد‘ سے اقتباس)

ایک اور نظم ’پیڑ تلے‘ میں برگد کا تعلق شاعر نے اپنی نوجوانی کے عشق سے جوڑا ہے۔ اس طرح ان کی کئی نظموں میں پیڑ اور خاص طور پر برگد کا پیڑکئی طرح کی علامتوں اور استعاروں کا کام کرتا ہے۔ اس نظم ’پیڑ تلے‘ میں پیڑ دراصل ایک وسیلہ ہے، انتظار کے کرب اور تنہائی کا— پیڑ، عالم تنہائی میں لمبی مدت کے انتظار کا گواہ ہے اور مومن کے اس شعر ؎

تم مرے  پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

کی سی شدت کرب اور احساس نارسائی کی اذیت کو بیان کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس  ؎

اسی برگد کے تلے جم گئے ہیں پاؤں مرے

آخری بار جہاں تم سے ملاقات ہوئی

جس جگہ تم نے کہا تھا کہ ابھی آتی ہوں

ایک مدت ہوئی اس بات کو گزرے پھر بھی

میں اسی پیڑ کے سایے میں کھڑا ہوں اب تک

بدنام نظر کی نظموں میں جہاں زندگی کی سوندھی مٹی کی خوشبو اور چاہت کا احساس بسا ہے، وہاں حیات کی مختلف صورتوں اور انسان کی سائیکی میں ملفوف زندگی کی پیچیدگی اور نارسائی کا اظہار بھی مؤثر اندازمیں ہوا ہے۔ ادب و شعر کی پائیداری اور لمبی بازگشت میں ہیومن سائیکی کا بڑا دخل ہے۔ 1955 میں Vladmir Nabokov کا controversial ناول Lolita دراصل ہیومن سائیکی کی بنیاد پر لکھا گیا تھا جس میں ناول کا مرکزی کردار لمبی مدت تک بچپن کے ایک واقعے کے حصار میں نظر آتا ہے۔ بدنام نظر کی نظم ’آنکھیں میری کیا ڈھونڈتی ہیں‘ ہیومن سائیکی کا بہترین نمونہ ہے۔ اس میں شاعر کی متلاشی آنکھیں اپنی محبت، اپنی چاہت کا وہ لمحہ، وہ احساس ، زندگی کی مختلف گزرگاہوں اور مرحلوں میں ڈھونڈتی ہیں، جو نارسائی کی دھند میں گم ہے ؎؎

آنکھیں میری کیا ڈھونڈتی ہیں؟

پانی میں یا چٹانوں میں

شبنم کے ننھے قطروں میں

بارودی دہکتے شعلوں میں

گلزاروں میں

یا ریگستانوں میں

محفل میں تنہائی میں

نظم کا ارتقا، انتہا،اختتام، دریا کے بلاخیز اور پرشور بہاؤ کی مانند حیات افروز اور رواں دواں ہے۔ یہ نظم بالآخر ایک گہری سوچ کے لمبے سلسلے پر ختم ہوتی ہے    ؎

اس چہرے کی متلاشی ہیں آنکھیں میری

جس چہرے میں وہ رہتی تھیں

وہ چہرہ جواب خود کو بھی پہچاننے سے قاصر ہے نظر

آنکھیں اس کو کیا ڈھونڈیں گی؟

انسان ہمیشہ ذہنی مد و جزر میں گرفتار رہتا ہے، لیکن یہی کیفیت تخلیق کا سبب بنتی ہے، فنکار، حالات، حادثات، عمل اور ردعمل کے دائرے میں ہی نہیں، بلکہ اپنی ذات کے باطن سے بھی الجھتا رہتا ہے، فنکار پر انکشاف ذات نہیں ہوسکتا تو انکشاف کائنات بھی ممکن نہیں— بدنام نظر سمندر کے گہرے باطن کی غواصی بھی کرتے ہیں اور انکشاف کائنات کی صورت ابھرتے بھی ہیں۔  لہٰذا ان کی نظمیں، انکشاف ذات سے انکشاف کائنات کے سفر کی روداد بیان کرتی ہیں۔ مٹی کا ادراک، جینے کی راہ، اگر ایسا ہوا تو، میرے بچے اگر پوچھیں، اور ’ضد‘ انکشاف کائنات کی نمائندہ نظمیں ہیں۔

بدنام نظر کا شعری رجحان داخلیت کی طرف ہے، وہ انکشاف ذات اور انکشاف حیات سے اپنی کائناتِ شاعری کو مزین بھی کرتے ہیں اور معتبر بھی بناتے ہیں، اس عمل کی وسعت میں وہ ایمائیت سے بھی کام لیتے ہیں اور ابہام  سے بھی اپنی شاعری میں نکھار پیدا کرتے ہیں۔

بدنام نظر کا اختصاص یہ ہے کہ وہ حال کے واقعے، احساس یا کیفیت کا اظہار ماضی کے حوالے سے کرتے ہیں، لیکن چونکہ اصل زندگی حال ہے لہٰذا ان کی نظموں میں مستقبل کی تلاش کے اشارے بھی نظر آتے ہیں اور ان نظموں کا تناظر اتنا وسیع ہے کہ اس میں کائنات کی ساری آویزش تحلیل ہوجاتی ہے اور جذبو ںکی متاع اور کرب و نشاط بصورت طوفان چاروں طرف سے امنڈتا نظر آتا ہے۔


Ishrat Zaheer

House No: 370 A, 4th Floor

Gali No 6 A, Zakir Nagar, Jamia Nagar

New Delhi - 110025

Mob: 9801527481

Email.:ishratzaheer2@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں