25/4/24

روئداد: تعریف، تفاعل اور کردار، مضمون نگار: عبدالرحمن فیصل

 

اردو دنیا، فروری 2023



علم بیانیات (Narratology) کے ماہرین نے جب سے بیانیہ کے اوصاف، تفاعل اور اس کی اہمیت و افادیت پر مباحث کا سلسلہ شروع کیا ہے، بیانیہ اصناف میں روئداد کی اہمیت مسلم ہوئی ہے۔ روئداد (Description)  کے پُرقوت بیانیہ تفاعل کودیکھتے ہوئے ماہرین اب اسے محض طرز اظہار کی ایک حاوی شکل کے طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ اسے ادبی نمائندگی کی ایک جہت تصور کرتے ہیں۔ 

اردو میں Descriptionکے لیے دو لفظ مستعمل ہیں روئداد اور وصف حال۔ یہ نظم یا نثری متن کی وہ ترتیب ہے جس میں ’عمل‘ کے علاوہ دوسری بیشتر انواع بیان کی نمائندگی شامل ہے۔ بیانیہ میں روئداد کی اہمیت و افادیت اور اس کے کردار پر گفتگو سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ روئداد کے کیا معنی ہیں اور ادب کے ماہرین کے نزدیک اس کی کیا تعریف ہے۔ 

اکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری میں روئداد کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں:

1 (الف) بیان، نقل، کہنے، بنانے،کھینچ کر دکھانے کا عمل (ب) کسی شخص، شے یا واقعہ کا زبانی یا تحریری نقشہ۔  

2 قسم، نوع۔

پروفیسر کلیم الدین احمد کی مرتب کردہ انگریزی اردو لغت میں روئداد کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں:

’’(1) بیان، ذکر؛وصف، کیفیت، تعریف، صراحت (2)قسم، نوع (3) (ہندسہ) شکل بنانا۔‘‘

Mieke Bal کی مرتب کردہ کتاب "Narrative Theory" میں شامل مضمون "What is a description by Philippe Hamon میں روئداد کی یہ تعریف کی گئی ہے

 ’’روئداد اشیا کا بیان ہے اور بیانیہ اعمال (Acts)  یا واقعات کا بیان ہے۔ گرامر (Morphological) کی زبان میں روئداد /وصف حال اسم و صفت کا بیان ہے اور بیانیہ فعل سے مشتق ہے۔‘‘... ’’ روئداد، لسانی اکائی کی ایک خود مختار صورت ہے جو بیانیہ کا کم و بیش ضمیمہ ہے۔ روئداد بیانیہ میں آزادی کے ساتھ داخل ہو سکتی ہے۔ روئداد میں کسی مخصوص نشان یا روایتی اشیا کا فقدان ہوتا ہے۔ روئداد ماقبل کی کسی پابندی سے مشروط نہیں ہوتی ہے۔ ‘‘1

مزید لکھتا ہے:

’’تعریف کی رو سے روئداد ایک پیرامیٹر کے سبب (فہرست، شمار، فرہنگ) بیانیہ میں داخل ہو کر رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے۔اس طرح وہ کردار کے دیکھنے کے عمل کو منظر تصور کرکے مخصوص عرصے میں پھیلا دیتا ہے۔ دیکھنے کا یہ عمل  روئداد سے منسوب کیا جائے گا ‘‘2

ژرارژینت رقم طرازہے:

’’ہر بیان حقیقتاً دو قسم کی نمائندگی سے مل کر بنتا ہے جو مختلف تناسب میں ایک دوسرے میں گھلی ملی ہوتی ہیں۔ ایک طرف عمل او رواقعات کی نمائندگی ہے جو اپنے خالص مفہوم میں بیانیہ ہے اور دوسری طرف اشیا و کرداروں کا بیان ہے جو روئداد اور تفصیل کا نتیجہ ہے۔‘‘  3

گرامر کی زبان میں روئداد یا وصف حال اسم و صفت کا بیان ہے یعنی روئداد میں فعل کا بیان نہیں ہوگا۔ لیکن کوئی بھی بامعنی جملہ صرف اسم و صفت یا صرف فعل سے تشکیل نہیں پاتا، اس لیے ایک بامعنی متن ان تینوں کے اتصال سے ہی تعمیر ہوگا۔ اس  سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ فعل سے مشتق نہ ہونے کے سبب روئداد بیان کے خالص مکانی وجود پردلالت کرتا ہے۔لیکن روئداد کبھی آزاد حالت میں نہیں پایا جاتا، یہ بیانیہ کا لازمی جز ہوتا ہے۔ بیانیہ جوکہ واقعہ کا بیان ہے اور واقعے میں صورت حال کی تبدیلی ایک زمانی تسلسل کی پابند ہوتی ہے اس لیے جیسے ہی روئداد واقعہ کے درمیان میں داخل ہوتی ہے وقت کاگزران رک جاتا ہے۔ یعنی اپنے خالص مکانی وجود کے سبب روئداد کے بیان میں وقت ٹھہرجاتا ہے اور پھر وقت میں حرکت اس وقت شروع ہوتی ہے جب ’واقعہ‘ بیان ہونے لگتا ہے۔گویا فکشن بیانیہ میں مکان (Space) کا تصور اور تعین روئداد کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ 

بیانیہ اور روئداد کے اس طرح ہم آمیز ہونے کے سبب دونوں میں کسی نہ کسی نوع کا ربط و تعلق بھی موجود ہوگا۔ دونوں کے درمیان ربط و تعلق کا مطالعہ ہی اصلاً روئداد کے بیانیہ تفاعل کی وضاحت کرتا ہے۔ روئداد کے بیانیہ تفاعل کی ایک ابتدائی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے ژرارژِینت لکھتا ہے:

’’اصولاً ایک خالص روئدادی متن کا تصور ممکن ہے، جس کا مقصد کسی واقعے بلکہ کسی بھی زمانی جہت سے ماورا و بے نیاز،معروض کی خالصتاً اپنے مکانی وجود میں نمائندگی ہے..... حتیٰ کہ ایک فعل بھی اس اعتبار سے کم و بیش روئداد ہوسکتا ہے کہ وہ فعل یا عمل کو بے کم و کاست بیان کرتا ہے.....  اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی فعل روئداد کے شائبہ سے یکسر خالی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ روئداد بیانیہ کے مقابلے میں زیادہ ناگزیر ہے، اس لیے کہ بغیر بیانیہ عناصر کے تفصیل بیان کرنا، بغیر روئداد کے بیانیہ کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ (غالباً اس لیے کہ ایک شے بغیر حرکت کے وجود رکھتی ہے، جب کہ حرکت بغیر شے کے ممکن نہیں)۔‘‘ 4

مذکورہ اقتباس سے یہ واضح ہے کہ روئداد کا تصور بیانیہ کے بغیر ممکن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ روئداد کبھی آزاد حالت میں نہیں ملتا اس لیے کہ کوئی بھی صنف محض روئداد نہیں ہوتی ہے۔ ایک اوراہم بات جو مذکورہ اقتباس کے اس جملے سے (کہ کوئی فعل روئداد کے شائبہ سے یکسر خالی نہیں ہوسکتا) ظاہر ہوتی ہے کہ بیانیہ میں وقت کا تصور بھی مکان کے چوکھٹے میں ہی قائم ہوتا ہے یعنی روئداد کے بغیر بیانیہ کا وجود ہی ممکن نہیں۔ صرف یہ کہہ دینا کہ روئداد اسم و صفت سے مشتق ہے یا اسما و کردار کا تفصیلی بیان ہے، کافی نہ ہوگا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فکشن بیانیہ میں وقت/زمانے کا تصور/تعین روئداد کے ہی ذریعے ایک مخصوص مکانی وجود میں قائم ہوتا اور اپنے معنی دیتا ہے۔

وقت اور جگہ کے تعین کے ساتھ ساتھ فکشن بیانیہ میں وقت کے بہاؤ کو ’بیان‘ کا پابند رکھنے کے لیے فکشن نگار روئداد کا  استعمال کرتا ہے۔ اس کا عام طریقہ یہ ہے کہ افسانے/ ناول کا راوی کسی کردار،صورت حال، شے یا جگہ کا بیان کرتے ہوئے نہایت کامیابی سے روئداد/ وصف حال کو واقعے سے مربوط کرلیتا ہے۔

روئداد/ وصف حال کا بنیادی طریقہ یہی ہے کہ روئداد میں وقت ٹھہرجاتا ہے یعنی افسانہ نگار واقعہ کو درمیان میں روک کر کردار کی کیفیت، صورت حال یا جگہ کی تفصیل بیان کرنے لگتا ہے۔ اور پھر وقت میں حرکت اس وقت شروع ہوتی ہے جب واقعہ بیان ہونے لگتا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ افسانے کا راوی اس وقفے کو جہاں وہ وقت کے دھارے کو روک دیتا ہے، اپنے مشاہدے کے بیان سے تشکیل دیتا ہے۔ لیکن اس بیان میں روئداد وقت اور دورانیہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ہم آمیز ہو جاتے ہیں کہ قاری کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ افسانہ نگار افسانے میں وقت کے دھارے کو روک کر روئداد سے پُر کرتا ہے۔

اس کی مثال میں اسدمحمدخاں کے افسانہ ’نربدا‘ کا یہ اقتباس دیکھیںجس میں جب بوڑھا راجپوت گھڑ سواروں کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ بٹ مار ہیں سسرے اورپھر اپنی نیام کی ہوئی سروہی، کٹار اور سوا بالشت چوڑی راجپوتی ڈھال پیال سے نکال کر زمین پر آکھڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ٹھگوں کے گھوڑوں کا بیان روک کر افسانہ نگار دونوں باپ اور بیٹے کی لڑائی کے لیے تیاری کی تفصیل بیان کرتا ہے:

’’پٹکے میں کٹار اڑس کے کمر سے نیام کا پرتلا باندھے ہوئے ’’ماآلائے بھوانی!‘‘ کہتا وہ گاڑی چھوڑ رسان سے زمین پہ آکھڑا ہوا۔ ایک بار اس نے اپنی تلوار کے قبضے کو چھوا۔ وہ ہاتھ اپنے ماتھے اور آنکھوں پہ پھیرتا ہوا ہونٹوں تک لایا، اسے چوم کر تلوار کے قبضے پر مضبوط گرفت قائم کی اور بیٹے کی طرف دیکھ کر کہا ’’ہاں رے پتر سارنگ سنگھ!‘‘

لڑکے نے بھی یہی سب کرتے ہوئے دھیرے سے کہا ’’ہاں رے بابا!‘‘

دونوں نے اپنی اپنی تیاری کی خبردی تھی۔

لڑکے کی کمر سے کھانڈا بندھا تھا۔ کھانڈا بوڑھے کی سروہی سے کوئی سوائی ڈیوڑھی لمبائی کا تھا۔ ایسے ہتھیار بلخ اور بخارا سے منگائے جاتے تھے اور صرف نوجوان تلوریوں میں مقبول تھے۔ پرانی ڈھب کے ساونت انھیں دیکھ دیکھ کے ہنستے تھے اور طنز کرتے تھے کہ گنوار کھامرے یا اٹھائے مرے… کہتے تھے،’ ’ای کھانڈا چھوڑ، کلھاڑا کا ہے نئیں باندھ لیہو کمر سے، ہاں بھیا؟‘‘

لڑکی یاد کرکے مسکرائی۔ اس نے بٹ ماروں کو بڑھتے اور دونوں کو تیاری کرتے دیکھا۔ باپ بیٹے کی حرکات میں ایک طرح کی ہمواری اور سبھاؤ میں دھیماپن تھا… گھات کرتے چیتے کا دھیماپن کہ جب وہ زمین سے پیٹ لگائے ایک ایک قدم بڑھ رہاہوتا ہے۔ ٹھگوں کے تومرکب تک اوبڑ کھابڑ ٹانگیں مارتے آرہے تھے۔

لڑکے نے اب اپنی طرف کے پیا ل میں ہاتھ ڈال دیا۔ اس نے ایک سبک سی برچھی او رراجپوتی ڈھال کھینچ نکالی۔ ’’ای لو… دونوں تمہارے ہی مطبل کے ہیں۔‘‘ اس نے یہ ہتھیار لڑکی کی طرف بڑھادیے۔ 

’’اخا!‘‘ لڑکی نے برچھی سنبھالتے ہوئے بے اختیار تعریف کی۔ چاروں سوار خاصا بڑھ آئے تھے۔ اس نے برچھی ہاتھ میں تو لی۔ زخمی شانے کو آرام دینا تھا سو ڈھال کا تسمہ الجھاکر اس نے ہاتھ کو دوسرے شانے پر ٹکالیا اور ریت میں قدم جماکے کمرسے اوپر اپنا بدن دائیں بائیں جھلاتے ہوئے نیزہ زنی کی ابتدائی مشقیں دہرانی شروع کردیں۔ وہ منھ ہی منھ میں شمار کرتی جارہی تھی، ’ایک، دو، تین، دائیں! ایک، دو، تین،بائیں!، تین، دو، ایک، ہا! ایک، دو، تین، ہا!‘‘ ہر’ ’ہا!‘‘ پر اس کا برچھی والا ہاتھ ہوا میں مارکرتا تھا۔

لڑکا دیکھ کے مسکرانے لگا مسخرے میں اس کی تعریف کی۔ بولا، ’’ہاں آں، تمہیں تو یاد ہے۔ واوا! پورا سبک یاد ہے!‘‘ پھر اس نے خود بھی یہ مشقیں دہرائیں، ’’ایک، دو، تین، دائیں! ایک، دو، تین، بائیں! تین، دو، ایک، ہو! ایک، دو، تین، ہو!‘ ہو!‘ پر اس کا بھی ہاتھ نیزہ پھینکنے کادکھاوا کرتا تھا۔‘

گاڑی سے سو قدم دور رہ گئے تو سواروں نے ایک دوسرے کو اشارہ دیا اور رخ مار کے گھوڑوں کو ایڑدیتے مختلف سمتوں میں انھیں دور تک دوڑائے چلے گئے۔‘‘  5

مندرجہ بالا اقتباس میں دیکھیں کہ ٹھگوں کے گھوڑوں کا ذکر اس وقت تک رکا رہتا ہے،جب تک باپ بیٹے کی تیاری چلتی رہتی ہے۔ لیکن اس بیانیہ میں وقت ٹھہرا ہوا نہیں ہے بلکہ ٹھگوں کے گھوڑے دوڑے آرہے ہیں اس کا اشارہ اقتباس میںموجود ہے مثلا (1)’’اس نے بٹ ماروں کو بڑھتے اور دونوں کو تیاری کرتے دیکھا۔‘‘ (2) ’’ٹھگوں کے تومرکب تک اوبڑ کھابڑ ٹانگیں مارتے آرہے تھے۔‘‘ (3) ’’چاروں سوار خاصابڑھ آئے تھے۔‘‘ لیکن چونکہ ٹھگ فاصلے پر تھے تو راوی نے اس دورانیہ کو باپ بیٹے کی تیاری کی تفصیل کے لیے استعمال کرلیا۔ اس طرح ایک ہی بیان میں ایک طرف وقت جاری رہتا ہے اور دوسری طرف فاصلے کے سبب پیدا ہونے والے وقفے کو  افسانہ نگار وصف حال/ روئداد سے پُرکر لیتا ہے۔

 اس سے روئداد کے تفاعل میں جو نمایاں فرق ہوا ہے وہ یہ کہ مذکورہ اقتباس میں روئدادکو بیانیہ کی طرح ڈرامائی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔اسی طرح جب کسی کردار کی جسامت کی لسانی تشکیل، اس کے لباس اور اس کے اطراف کی اشیا سے اس قدر مربوط یا ہم آمیز کر دی جاتی ہے کہ وہ سب مل کر کردار کی نفسیات کا بیک وقت انکشاف بھی کرتے ہیں اور اس کے ہونے کا سبب اور نتیجہ بھی بنتے ہیں۔اردو افسانے میں اس کی عمدہ مثال منٹو کے افسانہ’ سوگندھی‘ میں سوگندھی کا کردار ہے۔ژرارژینت کہتا ہے کہ روئداد کے اس قدر معنوی اہمیت حاصل کر لینے کی وجہ سے اس کی خود مختاری ختم ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ روئداد کی اہمیت کم ہوئی ہے یا بیانیہ متن /فکشن بیانیہ میں روئداد کے کردار کی تخفیف ہوئی ہے بلکہ اگر اسے اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے کہ روئداد،جامد ذہنی نقشہ کے بجائے بیانیہ کی طرح ڈرامائی اور متحرک صفات سے متصف  ہو ئی ہے تو یہ روئداد اور بیانیہ کے جدلیاتی رشتے کو زیادہ مضبوط اور مستحکم بناتی ہے۔6

مذکورہ اقتباس میں روئداد (آرائشی یا تزئینی) نے جامد کردار کے بجائے معنوی اور ڈرامائی اہمیت تو حاصل کر لی ہے لیکن اس سے اس کے مکانی کردار میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے کیونکہ اس اقتباس میں روئداد دیکھنے کے عمل کو بقول ’فلپ ہیمن‘ ایک منظر تصور کرکے وقت کو معطل کر دیتا ہے اور بیانیہ یعنی عمل کے تسلسل کو ایک مخصوص زمانی عرصے میں پھیلا دیتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیانیہ کلام (Discourse) کے زمانی کردار پر دلالت کرتا ہے اور روئداد معروض یا اشیا کے ہمہ وقتی وجود کے سبب بیان کے خالص مکانی وجود پر دلالت کرتا ہے۔ اظہار کی سطح پر بیانیہ اور روئداد کلام (Discourse) کی اقسام ہیں۔ اس نقطئہ نظر سے ایک واقعے کا بیان اور دوسرا معروض یا اشیا (Objects) کا تفصیلی بیان،دونوں ایک ہی طرح کے عمل ہیں اور دونوں زبان کے یکساں وسائل کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن دونوں میں جو نمایاں فرق ہے اس کے متعلق ژرارژینت لکھتا ہے:

’’بیانیہ، کلام کے زمانی کردار کے حوالے سے سلسلۂ واقعات کو دوبارہ قائم کرتا ہے جب کہ روئداد مبرہن تسلسل میں ان اشیا کی نمائندگی کو موزوں ترین ترتیب کے ساتھ پیش کرتا ہے جو ایک مخصوص محل میں بہ یک وقت اور پہلو بہ پہلو موجود ہیں۔‘‘ 7

لیکن اگر طرزِ اظہار کے بجائے زبان کے تخلیقی کردار کا مطالعہ کیا جائے تو روئداد کی زبان ہی بیانیہ کو حد درجہ تخلیقی بناتی ہے اس لیے کہ روئداد اشیا یا معروض کو حواس کی سطح پر خلق کرتی ہے اور قاری کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ بیان کردہ جزئیات کو ایک ذہنی تصویر کی صورت دے سکے۔  روئداد چونکہ اسما و صفات کا استعمال کرتی ہے لہٰذا اس کی زبان زیادہ موضوعی اور پُر استغراق ہوتی ہے۔اس نقطۂ نظر سے روئداد کی زبان بیانیہ کے مقابل زیادہ تخلیقی/ شعری ہوتی ہے۔ 

جس طرح روئداد کے بغیر بیانیہ کا وجود ممکن نہیں ہے اسی طرح روئداد کے بغیر پُر قوت تخلیقی بیانیہ کی تشکیل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو تخلیق کار روئداد نگاری پر قدرت نہیں رکھتا وہ پُرقوت تخلیقی بیانیہ تشکیل نہیں دے سکتا۔ 

روئداد، ادبی نمائندگی کے ایک طرز کی حیثیت سے کبھی بھی اپنی خود مختاری کا دعوی نہیں کرتا لیکن بیانیہ سے روئداد کے اس جدلیاتی رشتے کے سبب متن میں روئداد کے تفاعل اور اس کے کردار کا مطالعہ نہایت ہی ناگزیر ہو جاتا ہے جیسا کہ ژرارژینت کا خیال ہے کہ اگر ہم بیانیہ کے تصور میں ادبی نمائندگی کی، تمام صورتوں کو شامل کر یں اور روئداد کو صرف ایک طرز نہ سمجھیں (جس کے لیے زبان کی تخصیص ضروری ہوگی) بلکہ زیادہ سیدھے سادے طریقے سے اسے ادبی نمائندگی کی ایک جہت تصور کریں تو ممکن ہے کہ وہ ایک مخصوص نقطۂ نظر سے سب سے زیادہ پُرکشش ہو۔ 

حواشی

1 Micke Ball(Edited) Narrative theory, Critical concept in literary and cultural studies, Routledge Taylor & Francis group London, New york, V-l, 2004, Pg-309

2 ایضاً،ص312

3 رسالہ تنقید، ششماہی علی گڑھ مشمولہ:  بیانیہ کی سرحدیں: مترجم قاضی افضال حسین، 2011، ص171

4 رسالہ تنقید، ششماہی علی گڑھ مشمولہ:  بیانیہ کی سرحدیں: مترجم قاضی افضال حسین،2011، ص171

5 افسانہ نربدا،مجموعہ نربدا، مشمولہ جو کہانیاں لکھیں2006، ص 392-93

6 رسالہ تنقید، ششماہی علی گڑھ مشمولہ:  بیانیہ کی سرحدیں: مترجم قاضی افضال حسین،2011، ص174

7 رسالہ تنقید، ششماہی علی گڑھ مشمولہ:  بیانیہ کی سرحدیں: مترجم قاضی افضال حسین،2011، ص175


Dr. Abdur Rahman Faisal

Assistant Prof. (C)

UP Rajarshi Tondon Open University

Prayagraj - 211013 (UP)

Mob.: 8218467664


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں