25/4/24

اردو شاعری میں کرشن کنہیا، مضون نگار: طالب اکرام

 اردو دنیا، فروری 2024


ابتدا سے ہی اردو شاعری میں عشق کا رنگ غالب رہا ہے۔ کہیں عشق حقیقی تو کہیں عشق مجازی۔شعرا کلام میں اپنے محبوب کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے رہے ہیں۔ محبوب کوئی بھی ہو خواہ وہ شخص ہو یا ملک یا مذہب۔سبھی شعرا اپنے مزاج کے مطابق کلام اخذ کرتے رہے اور اظہار خیالات کا ذریعہ بناتے رہے۔ اکثراردو شعرا کے کلام میں عشق حقیقی کا رنگ واضح طور پر نظر آتا ہے۔جس طرح سے بعض شعرا نے ملک و قوم کو اپنا محبوب بنایا تو بعض شعرا نے مذہب و ملت اور اشخاص کو اپنا محبوب بنایا۔حتی ٰکہ بر صغیر کے بعض شعرا نے کرشن کنہیا کو اپنی شاعری کا محور و مرکز بنایا۔ جن میں امیر خسرو، پنڈت چندربھان برہمن، ملک محمدجائسی، رسکھان، عبدالرحیم، محمود دریائی، کاظم قلندر کاکوروی، شاہ بدر الدین جانم، واجد علی شاہ، حسرت موہانی، نظیراکبر آبادی، سیماب اکبر آبادی، ڈاکٹر اقبال، حفیظ جالندھری، منور لکھنوی،محسن کاکوروی، کیفی دہلوی، جوش ملیح آبادی، سرور جہان آبادی، چکبست اور ظفر علی خاں وغیرہ کے اسماقابل ذکر ہیں، جن میں ملک محمد جائسی کا نام اہم ہے،جنھوں نے اپنی شاعری میں کرشن کنہیا کو خاص جگہ دی ہے۔ 

تیرہویں صدی کا عظیم صوفی شاعر امیر خسرو جن کی شاعری میں ہندوی زبان یعنی عربی،فارسی،ہندی اور سنسکرت وغیرہ زبان کے الفاظ کثرت سے نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں کرشن کنہیا کے موضوع کوترجیح دی۔ایک جگہ امیر خسرو اپنے کلام میںکرشن کنہیا کی تعریف  و  توصیف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جگ میں ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔محبت نفرت میں تبدیل ہو چکی تھی۔آفتاب اخوت ڈوب چکا تھا۔ ہر سمت عداوت عام ہو چکی تھی۔ جہالت کی  بدلی چھائی ہوئی تھی۔اخلاقیات سے کسی کو دور تک بھی واسطہ نہیں تھا۔لا علمی، پستی،کم ہمتی اور جمود وسکوت کے عناصر غالب ہوگئے تھے۔ انسانیت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ہر جانب ہراس و ناامیدی کی گھنگھور گھٹا تھی۔چراغ امید بجھ چکا تھا۔ ایسے پرفتن دور میں جناب کرشن عالم میں جلوہ پذیر ہوئے،جس سے ظلم وجبر نیست و نابود ہوا۔ دولت علم و عمل عام ہوئی۔ اخوت و الفت اور انسانیت کے دیپ جل اٹھے۔ محبت عام ہوئی۔امید کا سورج طلوع ہوا۔سنسار روشن و منور ہو گیا۔شعر ملاحظہ ہو؎      

 شیام سیت گوری لے جنمت  بھئی انیت

ایک پل میں پھر جات ہیںجوگی کاکے میت1

کرشن جی کی محبت میں رسکھان نے اپنی شاعری میں کرشن کی بال لیلاؤں کا،گو چارن لیلائوں کا،کنج لیلائوں کا،راس لیلائوں کا،پنگھٹ لیلائوںکااور کرشن کی مرلی لیلائوں کا تذکرہ کیا ہے۔وہ کرشن کی بھکتی کے دلدادہ تھے اور ان کی شخصیت سے اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ گرچہ انھیں دوسرا جنم حاصل ہو تو برج میں نصیب ہواور کرشن کے ہی بھکت بنے۔ اگر جانوروں کی رحم میں پیدائش ملے تو وہ نند کی گایوںکے ساتھ چریں، پتھر بنوں تواسی پہاڑ پر جائوںجسے کرشن نے آراستہ و پیراستہ کیاہے اور اگر پرندہ بنو ں تو جمنا کے ساحل پر کاشانہ بنائوں۔اس ضمن میں اشعار ملاحظہ ہوں      ؎

مانش ہوں تو وہی رسخانی بسوں برج گوکل گائوں کے گوارن

جو پشو ہوں تو کہابس میرا چروںنت نند کی دھینو منجھارن 

پاہن ہوں تو وہی گری کو جو دھریو کر چھتر پورندر کارن

جو کھگ ہوں تو بسیرا کروں ملی کالندی کول کدنب کی ڈارن 2

رسکھان ورندا جنگل کی ہر چیز سے محبت کرتے تھے۔ وہاں کے پھول،پتے،پیڑ پودھے وغیرہ سے عشق کرتے تھے۔’پریم واٹکا ‘ان کی مشہور نظم ہے،جس میں سری کرشن اور رادھا کے عشق کو عشق حقیقی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ وہ سری کرشن کو وشنو کا اوتار گمان کرتے تھے۔یہی سبب ہے کہ ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔اسی طرح عبدالرحیم بھی جناب کرشن کے مداح تھے۔ وہ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک تھے،جنہیں کئی زبانوں پردسترس حاصل تھی۔ انھوں نے اپنی نظموں میںسری کرشن کے اوصاف و کمالات کی بڑی خوب صورتی کے ساتھ عکاسی کی ہے، جس سے سری کرشن کے ساتھ ان کی عقیدت کاواضح ثبوت ملتا ہے۔ دراصل وہ اپنے محبوب حقیقی کے عشق میں ہرلمحہ فنا رہتے ہیں، جس سے ان کا دل ہمہ وقت بے چین و بے قرار رہتا ہے اور دھیان سدا اپنے محبوب کی جانب مائل رہتا ہے۔شعر ملاحظہ ہو ؎

تیں رحیم من آپنو،کینہوں چارو چکور  

نسی باسر لاگو رہے،کرشن چندر کی اور 

سولہویں صدی میں شاہ بدر الدین جانم نے کرشن کنہیا کے موضوع پر ’سکھ سہیلا‘نام سے دوہے لکھے۔بعد ازاں اٹھارویں صدی کے تقریباًتین شعرا شاہ طیب چشتی اورولی دکنی نے کرشن بھکتی کا تذکرہ کیاہے۔علاوہ ازیں عالم شیخ نے بھی کرشن کنہیا کے عشق میں ڈوب کر اشعار کہے ہیں۔

اردو کے شعرا نے بھی کرشن جی کو موضوع سخن بنایا ہے۔ مثلاًشاہ برہان الدین جانم ’ ارشاد نامہ‘، حفیظ جالندھری ’کرشن کنہیا‘،واجد علی شاہ ’راس لیلا‘اورنظیر اکبر آبادی نے خاص طور پر’ جنم کنہیا جی، کنہیا جی کی شادی اورکنہیا جی کا راس‘  وغیرہ نظموں میں طبع آزمائی کی ہے۔اسی طرح کیفی دہلوی ’بنسی کی دھن سنائے جا،کرشن جی کا فلسفۂ عمل،بنسی والے آجااور رادھے شیام ‘نظمیں لکھی ہیں۔ باسط بسانوی نے ’شہید معانی‘ تصنیف میںکرشن اور یشودا موضوع پر نظمیں اخذ کی ہیں۔ظفر علی خاں نے ’گوکل کی بنسری کی گونج‘، حسرت موہانی نے ’متھرا جی‘ اور سیماب اکبر آبادی نے اپنی تصنیف ’کار امروز‘ میںسری کرشن نام کی نظم لکھی ہے۔ اسی طرح منور لکھنوی نے کشن کا مقام،خداے حسن کشن، رکمنی اور کشن کی عظمت نظمیں لکھیں ہیں۔ جوش ملیح آبادی، ساغر نظامی اور شاہ محمد کاظم وغیرہ نے بھی کرشن کنہیا پر نظمیں کہی ہیں۔

کلام حسرت موہانی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کرشن کنہیا کے بہت بڑے شیدائی تھے۔وہ متھرا کی حاضری کو عین سعادت سمجھتے تھے اوردل میں یہ امید سجائے تھے کہ ایک روز ایساآئے گا جب میں کرشن جی کے در پر حاضر ہوں گا،کیوںکہ وہ اپنے عاشقوں پر خاص نظر  رکھتے ہیں اور ان سے شفقت  و محبت کرتے ہیں، پھر کیوں نہ ہو  جب اقلیم عشق ہی ان کے قدموں تلے ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں   ؎ 

آنکھوں میں نور جلوہ ٔبے کیف و کم ہے خاص

جب سے نظر پہ ان کی نگاہ ِکرم ہے خاص

کچھ ہم کو بھی عطا ہو کہ اے حضرتِ کرشن

اقلیمِ عشق آپ کے زیرِ قدم ہے خاص

حسرت کی بھی قبول ہو متھرا میں حاضری

سنتے ہیں عاشقوں پہ تمہارا کرم ہے خاص3

کلیات حسرت موہانی میں ایسے متعدد اشعارہیں جس میںان کا دل عشق کرشن میں سرشار ہے۔ان کے بیشتر اشعار میںکرشن کنہیا کا ذکر ملتا ہے۔بسا اوقات تصور میں حاضری بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ ان کے نزدیک سرزمین متھرا ہی عاشقوں کا منبع و مرکز ہے، جس سے دل ِعشاق مست و بیخود اور سیراب ہوتے ہیں۔  سری کرشن کی بانسری کی مدھر آوازسے گوپیوں کو حیات جاودانی میسر ہوتی تھی۔  چنداشعار ملاحظہ ہوں ؎  

متھرا کہ نگر ہے عاشقی کا

دم بھرتی ہے آرزو اسی کا

ہرذرۂ سر زمین گوکل 

دارا ہے جمال دلبری کا

برسانا  و  نند گائوں میں بھی

دیکھ آئے ہیں جلوہ ہم کسی کا

پیغامِ حیاتِ جاوداں تھا

ہر نغمہ کرشن بانسری کا

وہ نور سیاہ یا کہ حسرت 

سرچشمہ فروغِ آگہی کا4

نظیر اکبر آبادی کی نظمیں کنہیا جی کی شادی،لہو و لعب کنہیا،بانسری،بالپن بانسری بجیا،جنم کنہیاجی، مہتا،اورکنہیا جی کی راس وغیرہ قابل ستائش ہیں،جو عشق کرشن میں غوطہ زن ہیں۔ ان میں عقید ت و احترام کا جذبہ کو ٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ نظمیں ہندو اور مسلم اتحاد و یگانگت کی بہترین مثالیں ہیں۔ وہ اپنی نظم ’ بالپن بانسری بجیا‘ میں کرشن کے بچپن کو عہد بچپن سے تعبیر نہیں کرتے ہیںبلکہ اسے جوانی اور بڑھاپا کے مترادف قرار دیتے ہیںان کا بظاہر بچپنا تھا مگر در حقیقت سن بلوغیت میں داخل تھے۔اس لیے کہ ان کا ہر فعل قابل ستائش تھا۔انھیں بچپن سے کیا غرض تھی ان کے لیے تو بچپن،جوانی اور بڑ ھاپا سبھی یکساں تھے کیونکہ وہ تو وشنو کے اوتاربن کر سنسار میں پیدا ہوئے تھے اور عالم کی حفاظت کے لیے مامور تھے۔ لکھتے ہیں ؎        

ان کو تو بالپن سے نہ تھا کام کچھ ذرا

سنسار کی جو ریت تھی اس کو رکھا بچا

مالک تھے وہ تو آپی انہیں بالپن سے کیا

واں بالپن جوانی بڑھاپا سب ایک تھا5

 اسی طرح ایک جگہ کرشن جی کو متعدد القاب و آداب سے تعبیر کرتے ہیں اور انھیں موہن، مدن، گوردھن، گوپال، نند لال اور ہری ناتھ وغیرہ کے صفاتی اسما سے موسوم کرتے ہیں۔ ان کے اوصاف و کمالات بیان کرتے ہیں اور ان پرتن من دھن سب قربان کردینے کی بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک  دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر اپنے محبوب سے عشق کرنالازمی ہے اور کنہیا جی ایسے محبوب حقیقی ہیں جو ہم جگت واسیوں کے ملجا و ماوا ہیں، جنہوں نے ہم جگت واسیوں کی خاطر تمام طرح کے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے دامن میں سمو لیاہے۔ اس ضمن میں ایک جگہ ارشاد پذیر ہیں  ؎        

موہن مدن گوپال ہری بنس من ہرن

بلہاری ان کے نام یہ میرا تن بدن

گردھاری نند لال ہری ناتھ گوردھن

لاکھوں کئے بنائو ہزاروں کئے جتن6

  نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم’ہر کی تعریف ‘میں کرشن جی کے اسماکا بیان نہایت عقیدت مندانہ انداز میں کیا ہے۔ مثلاً  ہری ناتھ، گوردھن،مدن، شیام، کنج بہاری، گردھاری، کانھ مراری، کشن کنہیا، مرلی دھر، من موہن، گھنشیام،نند لال وغیرہ۔ اکبر آباد کی ہی سرزمین سے تعلق رکھنے والادوسرا اہم شاعر سیماب اکبر آبادی ہیں جنھوں  نے ’پریت کے گیت‘ میں سری کرشن سے والہانہ عشق کا اظہار کیا ہے اور فضائے دہر میں محبت کے ترانے گنگناتا ہوا بسنت کی آمد کا نقشہ کھینچا ہے جس سے ہر جانب بہار ہی بہار ہے اور فرط مسرت کا خوب صورت ماحول ہے، محبوب کی زیبائش اور آرائش کا سلسلہ پورے عروج پر ہے۔ اسی طرح محسن کاکوروی نے ’گلدستۂ محسن کاکوروی ‘میںمتھرا ، گوکل کنہیا اور گوپیوں کے چرچے کئے ہیںاور محبوب کے عشق میں رقص بسمل ہیں۔نیز ان کا لامیہ قصیدہ ’سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل‘بہت معروف و مقبول ہے جو اصل میں نعت رسول ہے،لیکن انہوں نے بطور استعار ہ  استعمال  کیا ہے۔ اس میں محسن کاکوروی نے کرشن کنہیا کی تعریف اس انداز میں کی ہے کہ قاری رشک کرتا ہے اور عشق کنہیا میںمست و بے خود ہو اٹھتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں              ؎

دیکھیے ہوگا سری کشن کا کیوںکر درشن

سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بیکل

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

تیرتا ہے کبھی گنگا کبھی جمنا بادل

سمت کاشی سے گیا جانب متھرا بادل

برج میں آج سری کشن ہے کالا بادل

خوب چھایا ہے سرِ گوکل و متھرا بادل

رنگ میں آج کنہیا کے ہے ڈوبا بادل

راجہ اندر ہے پری خانۂ مے کا پانی

نغمہِ مے کا سرِ کشن کنہیا بادل7

جوش ملیح آبادی ایک جگہ گھنشیام کی دلکش اور سریلی آواز میں بانسری بجانے کا ذکر کرتے ہیںجس سے گوپیاں ان کی جانب متوجہ ہوجاتی ہیںاور ان کے عشق میں فنا ہو کر جاں نثار کر دیتی ہیں۔مزید ایک جگہ جناب کرشن اور گوپیوں کے عشق کی داستان کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں کہ کنہیا کے مدھر بانسری کی آواز سے گوپیوں کے ہردے میں بدری چھا جاتی ہے اور ہر دل عشق کنہیا میںگرفتار ہو جاتا ہے اور گوکل جنگل میں عشق و محبت کی داستان چھڑ جاتی ہے۔اسی طرح جوش ملسیانی نے اپنی معروف نظم ’بھگوان تمہیں کیا‘ میںکرشن کنہیا سے عقیدت وانسیت کا اظہار کیا ہے اور انھیں بھگوان اور گھنشیام جیسے القاب سے یاد کیا ہے۔اس کے علاوہ ندا فاضلی نے ’ورندا ون کے کرشن کنہیا اللہ ھو‘سے ان کا تذکرہ کیا ہے۔حفیظ جالندھری بھی کرشن کے بہت بڑے مداح تھے۔ برصغیر میںان کی نظم  ’کرشن کنہیا‘ کو شہرت دوام حاصل ہوئی ہے۔ ان کی نظر میں کرشن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ وہ بے مثل ہیں۔بے نظیر ہیں۔وہ ہری داس، گوپال اور منوہر ہیں۔جس کے باعث سبھی ان کے متوالے نظر آتے ہیں۔ کلیات حفیظ جالندھری (ص 86)میں کہتے ہیںکہ گوکل کا گوالا  یہ بانسری والا دنیا سے نرالا ہے جو اخلاق کا دھنی اور اخلاص کا پیکر ہے اور بظاہر ایک شخص ہے لیکن در حقیقت کچھ اور ہی شے ہے ۔ 8

شاہ کاظم عباسی کاکوروی کے حوالے سے کرشن جی کا ذکرکرنا مناسب سمجھتا ہوں،جن کی شاعری گنگ و جمن کا سنگم قرار دی گئی ہے،کیونکہ ان کے مطالعہ کلام سے عشق کنہیا کی دھارا بہتی نظر آتی ہے،جس سے تشنگان دل سیراب ہوتے نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری اٹھارہویں صدی کے معروف شاعر رسکھان کی شعری روایت کو مزید آگے بڑھاتی ہے۔انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’سانت رس‘ تصنیف کرکے بھکتی روایت کو شہرت دوام بخشا ہے۔ وہ لکھتے ہیں           ؎

کہاں گئے برج لال بسیا

من موہنی بنسی کے بجیا

کہاں چھپی جائے موہنی مورتیا

سگرے نگر کے من کی چھلیا

جون کرت رہے کھیل کنجن ما

کونے کنج چھپو ای دیاّ

کہاں گئیں گوپیں روپ انوپیں

دودھ ماکھن گورس کی بچیا

چھین چھین دَدۡھۡ مٹکی پھوڑ پھوڑ  9

اسی طرح مزید ایک جگہ کہتے ہیںمعلوم نہیں وہ کیا معاملہ تھا اور کیا ترکیبیںتھیںجن سے کاظم (رادھا) نے شیام کے دل کو فتح کرلیا اور ان کے دلوں پر سکہ بٹھا دیا وہ کنہیا جو رادھا کے من کو موہ لیا تھا اور اپنی کامرانی کا سکہ جما دیا تھا۔ شعر ملاحظہ ہو ؎

کہہ گن کاظم شیام لبھانے

رادھا ہر کے جئے دھنسیا 10 

فراق گورکھپوری کی شاعری میں جہاں زیست کی سرمستیاں، شادابیاں، وصل و ہجر کی تلخیاںاور غم و آلام کی جلوہ فرمائیاں موجود ہیںوہیں حسن و عشق کے عناصر بھی جاگزیں ہیں۔ محبوب کے ناز و نعم، حسن و جمال، حسین ادائیں، سرشاری اور جاں نثاری کے رنگ بھی غالب ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام میںرادھااورکرشن کنہیا کے حسن و عشق کی داستان کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اورجا بجاکیف و سرور، سرمستی، رندی، تشنگی، سرشاری اور حسن و جمال کی منظر کشی بھی کی ہے      ؎

یہ کیف و رنگ نظارہ یہ بجلیوں کی لپک

کہ جیسے کرشن سے رادھا کی آنکھ اشارہ کردے کردے11

وہ راتوں ر ات سری کرشن کو اٹھائے ہوئے

بلا کی قید سے بسدیو کا نکلجانا12

 ایک جگہ مزید رادھا اور سری کرشن کے عشق و محبت کی داستان بیان کرتے ہیں  ا ور کہتے ہیں کہ اے دل اس مایا روپی سنسار میں نہ جانے کتنے مہابھارت برپا ہوئے  اور دل گھروندا بنا ۔ کہیںہیرا اور رانجھا کی شکل میں ،کہیں قیس اور مجنوں کی شکل میں،کہیں یوسف اور زلیخا کے عشق حقیقی کی شکل میں تو کہیںرادھا اور کنہیا کے عشق حقیقی کی شکل میں۔ حتیٰ کہ عشق نے شیخ سرمد اور منصور حلاج جیسے عظیم سالک کو بھی اپنے زد میں لے لیا اور انہیں تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ملاحظہ ہو         ؎ ؎ 

دنیا میں ہو ئے اے  دل کتنے  ہی مہا بھارت 

ارجن کی کماں تھاتو،بھیشم کی پیکاں تھا   

اسی دیار نے دیکھی ہے کرشن کی لیلا    

یہیں گھروندوں  میں سیتا، سلوچنا، رادھا 13 

اسی طرح چندر بھان کیفی دہلوی کی شاعری میں بھی کرشن کنہیا کی مدح سرائی واضح طور پرنظر آتی ہے۔کہیں الفت کرشن میںیشودا کا بے قرار ہوناتو کہیںسری کرشن کا یشودا سے ملنے کی تدبیر کرنا اور ان کی محبت میںبے خود ہوناوغیرہ کنہیا سے اظہار محبت کی واضح دلیل ہے۔ ایک جگہ کنہیا کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد پذیر ہیں          ؎

ہیں جسودھا کے لیے زینت آغوش کہیں

گوپیوں کے بھی تصور سے ہیں روپوش کہیں

گوپیاں سن کے مرلیاں ہوئیں ایسی بیتاب

گر گئے ہار کہیں، رہ گئی پاپوش کہیں14

حاصل کلام یہ کہ اگر بنظرعمیق و دقیق مطالعہ کیاجائے تو ارد و شاعری میںمدح کرشن کے عناصرجا بجا نظر آتے ہیں۔ اردو شعرا نے اپنے کلام میں کرشن کنہیا کے بارے میں لکھ کر کی ہے۔ان شعرا کے کلام سے تہذیب گنگ و جمن کی ایسی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے جس سے پوری فضا معطر ہوجاتی ہے۔

حواشی

1 کلیات ہندوی امیر خسرو،گوپی چند نارنگ، ساہتیہ اکادمی دہلی، 2017،ص25

2 رسکھان گرنتھا ولی (ہندی)، پروفیسردیش راج سنگھ بھاٹی، اشوک پرکاشن دہلی، 1966، ص 155

3 دیوان حسرت موہانی،مرتبہ مرحومہ بیگم حسرت موہانی، ح ہفتم، شفیق بک ڈپو اردو بازار جامع مسجد دہلی،1977،ص312

4 ایضاًص371

5 کلیات نظیر اکبر آبادی، عبد الباری آسی،نول کشور پریس بکڈپولکھنؤ، 1951،ص743-44 

6 ایضاًص 745

7 کلیات مولوی محمد محسن،مولوی محمد نور الحسن،نامی پریس کانپور، 3123ھ،ص 97تا1107

8 کلیات حفیظ جالندھری، فرید بک ڈپو دہلی، 2008، ص86

9 سانت رس،شاہ محمد کاظم قلندر، خانقاہ عالیہ کاظمیہ کاکوروی لکھنٔو، 1957،ص160-61

10 ایضاًص32

11 گل نغمہ، فراق گورکھپوری، مکتبۂ فروغ اردو مٹیا محل دہلی، 2006، ص135

12 ایضاً، ص 256

13 ایضاً، ص 249

14 خمستان کیفی، طالب دہلوی، دلی پرنٹنگ ورکس دہلی، 1951، ص76



Dr. Talib Ikram S/o Master Ikramul Haque Abbasi

Vill.: Chheetay Mau, post- Mahraunda

Via- Mau Aima

Dist- Prayagraj- 212507

E mail.:  talibikram3@gmail.com

Mob.: 7800812595


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں