25/4/24

اردو زبان وادب کے فروغ میں فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کا کردار: مضمون نگار انوپما پول،



اردو دنیا فروری 2024





ہندوستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار بنیادی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ کمپنی نے ہندوستان میں تعلیم وتربیت کے ساتھ زبان وادب کے فروغ کے لیے جوادارے قائم کیے وہ ہندوستان میں عام بول چال اور نثری ارتقا کی تاریخ میں نشاۃ ثانیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک فورٹ ولیم کالج کلکتہ ہے اور دوسرافورٹ سینٹ جارج کالج مدراس۔ اول الذکر کا قیام سنہ 1800 میں ہوا تھا جب کہ آخر الذکر 1812 میں قائم کیا گیا۔ فورٹ سینٹ جارج کالج، مدراس کے بھی وہی مقاصد تھے جوفورٹ ولیم کالج کلکتہ کے تھے۔ دونوں کالجوں کے پیش نظر جونیئر سول ملازمین کی تعلیم وتربیت کا انتظام تھا،لیکن فورٹ سینٹ جارج کالج کو فورٹ ولیم کالج پر ایک طرح سے فضیلت اس لیے حاصل تھی کہ یہاں صرف  سرکاری ملازمین ہی کوتر بیت نہیں دی جاتی تھی بلکہ وکیلوں اور ججوں کے لیے بھی ٹریننگ کا خاص انتظام تھا۔ اس کالج میں ہندوستانی زبان وادب خصوصی طور پر اردوکے ساتھ ساتھ قانون، ریاضی، تاریخ اور فلسفے کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عربی، فارسی سنسکرت، تمل، ملیالم،تلگو اور خصوصاً دکنی کی بھی تعلیم کا انتظام تھا۔ اس کی تصدیق پروفیسرسری نواس چاری کے اس قول سے بھی ہوتی ہے۔

’’اس کالج کے بھی وہی مقاصد تھے جوفورٹ ولیم کالج کے تھے۔ فورٹ ولیم کالج پر اس کالج کو ایک طرح کی فوقیت اس لیے حاصل تھی کہ یہاں ہندوستانی ادب کے ساتھ غیرملکی زبانوں کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہاں صرف منشی ہی نہیں آتے بلکہ وکلاء اور بچوں کو بھی تعلیم دی جاتی تھی۔‘‘(ہسٹری آف دی سٹی آف مدراس، ص: 216)

فورٹ سینٹ جارج کالج کوئی اچانک معرض وجود میں آنے والا ادارہ نہیں تھا بلکہ ایک صدی قبل 1717 میں فورٹ سینٹ جارج کے احاطے میں اسکول کی شکل میں اس کا قیام عمل میں آچکا تھا جب 1812 میں اسے کالج کی شکل میں متعارف کیا جانے لگا تب ناکافی جگہ کی وجہ سے 1816 میں Mr Garrow کا مکان دس سال کے لیے پٹہ پر حاصل کیا گیا، پھر دس سال بعد 1827 میں Mr Morrat  کے مکان میں منتقل کیا گیا اور آج تک اسی مقام پر قائم ہے۔ البتہ کالج تقریباً 1854 تک عمل میں جاری رہا اس کے بعد اس کی کالج کی حیثیت ختم کر دی گئی اور اس کا انضمام مدراس لٹریری سوسائٹی کے ساتھ ہوگیا۔

لیکن آ ج دو صدی گزرنے کے بعد افسوس اس بات کا ہے کہ مورخین زبان وادب فورٹ سینٹ جارج کالج  مدراس کی ادبی خدمات کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ تاریخی بے اعتنائی کی یہ حالت ہے کہ اکثر کتابیں جو اردو ادب کی تاریخ میں لکھی گئی ہیں ان میں اس کالج کا ذکر سرے سے ملتا ہی نہیں ہے۔البتہ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اور ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال سمیت کئی ادبا و ناقدین نے اس کالج کی خدمات کاخصوصی ذکر کیا ہے۔ اب جب اردو ادب میں ہمہ جہت تحقیقی خدمات کا فروغ ہوا ہے تو جنوبی ہند میں اس ادارے کی خدمات کا ذکر بھی سنہرے الفاظ میں کیا جارہا ہے۔ 

فورٹ سینٹ جارج کالج میں تعلیم، سنسکرت، عربی، دکنی، تلگو،ملیالم اور دکنی زبانوں کے شعبے قائم تھے۔تراب علی نامی شعبہ عربی،فارسی اور اردو کے صدرشعبہ تھے۔منشی شمس الدین احمد،منشی ابراہم بیجاپوری،منشی مظفر،قاضی ارتضی علی خاں، مولوی مہدی واصف، سید حسین شاہ حقیقت، مرزا عبدالباقی،سیدتاج الدین تاج، غلام دستگیر، محمد خاں اور میر حیدر بلگرامی وغیرہ نے اس کالج میں برسوں درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔ یہ تمام اساتذہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سینٹ جارج کالج مدارس آئے اور علم و ادب کے فروغ میں کوشاں رہے جس سے اس کالج کی خدمات کی گونج شمال تک پہنچ گئی۔مقامی علما اور شعر انے بھی اس سلسلے میں اپنی زریں خدمات پیش کیں۔ان میں منشی شمس الدین احمد، مہدی واصف،غلام دستگیر،منشی مظفر اور محمدخاں کے نام قابل ذکر ہیں۔ مہدی واصف کے بارے میں محققین کی رائے ہے کہ وہ تین سوکتابوں کے مصنف و مولف تھے۔

اردو ادب کے لیے سرزمین دکن اولین گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ اردوادب کا شاہکار’سب رس‘ دکن ہی کی پیداوار ہے۔اس کے ٹھیک دوسو سال بعد انیسویں صدی کے اوائل میں اردو کی نثری داستانیں لکھنے کا رواج عام ہوا۔ یہ داستانیں فورٹ سینٹ جارج کالج  مدراس کے زیر اہتمام بھی لکھی اور شائع کی گئیں۔ جس طرح شمالی ہند میں فورٹ ولیم کالج نے اردونثر کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا اسی طرح جنوبی ہند میں فورٹ سینٹ جارج کالج نے بھی دکنی زبان وادب کی نشر واشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کالج کی داستانوں میں’ دکنی انوار سہیلی ‘،’ حکایات جلیلہ‘،’سنگھاسن بتیسی‘ اور ’قصہ ملکہ زماں و کام کندلہ‘ مشہور ہیں۔ یہ داستانیں انگریز سرداروںکی تعلیم کے لیے لکھی گئی تھیں۔ یہ کتابیں فورٹ سنیٹ کالج کے پریس سے بھی شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ مقامی مطابع سے بھی کتابیں شائع ہوتی رہیں۔ مدراس کے مشہور مطبع اعظم الاخبار اور مطبع جامع الاخبار نے اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کیں۔طلبا کو نئی زبان سیکھنے پر انعام و اکرام سے نوازا جاتا اس کے علاوہ تصانیف پر مخصوص رقم بطور انعام پیش کی جاتی۔ فورٹ سینٹ کالج میں ایک وسیع کتب خانہ موجود تھا۔کتب خانے میں دکنی زبانوں کی بے شمار کتابیں موجود تھیں۔کرنل میکنزی سرویر جنرل آف انڈ یا کی وجہ سے یہ ذخیرہ جمع ہوگیا۔مخطوطات کے اس ذخیرے کو کرنل میکنزی کے نام سے موسوم کیاگیا۔اس بارے میں ولیم ٹیلر لکھتے ہیں:

’’ ہندوستان سے متعلق تاریخی دستاویزات کا اتنا بیش قیمت ذخیرہ یوروپ یا ایشیا میں آج تک کسی مرواحد نے جمع نہیں کیا۔‘‘
کرنل میکنزی کا یہ کارنامہ ناقابل فراموش ہے۔ اتنے مخطوطات کو اکٹھا کرنا ممکنات میں سے تھا۔مگر یہ کرنل میکنزی کے ذوق وشوق کا ضامن ہے کہ اتنا ذخیرہ جمع ہوپایا۔

ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال اپنی کتاب۔ـ  ’فورٹ سینٹ جارج کالج دکنی زبان وادب کا  ایک اہم مرکز‘ میں رقمطراز ہیں کہ یہ کالج قطب شاہی،عادل شاہی اور نظام شاہی سلطنتوں کے زوال کے بعد دکنی زبان و ادب کا اہم مرکز بن گیا تھا۔ اس کالج کی جتنی اردو مطبوعات و مخطوطات دستیاب ہیں وہ زیادہ تر دکنی زبان میں ہیں۔ مثلاً حکایات الجلیلہ، انوار سہیلی، سنگھاسن بیتسی، گلستان وغیرہ۔ دکنی انوار سہیلی کو مسعود حسین خان نے قدیم اردو کا آخری بڑا نثری کارنامہ قرار دیاہے۔
فورٹ سینٹ جارج کالج کے تعلیمی شعبہ جات مختلف زبانوں پر مشتمل تھے۔ابتدا میں کئی شعبۂ تعلیمی میں اساتذہ کی کمی تھی۔ ان تعلیمی شعبہ جات کی ترویج کے لیے ہندوستان کے مختلف صوبوں سے مصنفین کو مدعو کیا گیا۔ جن میں تراب علی، حسین شاہ حقیقت، عبدالودود عاشق، منشی محمد ابراہم بیجا پوری اور مرزا عبدالباقی وفا کے نام قابل ذکر ہیں ساتھ ہی کئی انگر یزی مصنفین بھی تھے، تو سب سے پہلے انگریز مصنفین کا ذکر کرتے ہیں جن میں ڈاکٹر ہنری ہیرس، الکسانڈرڈنکسن کمیبل،تھامس روبک،کیپٹن گرین آوے اور ڈاکٹر ایڈورڈبالفور اہمیت کے حامل ہیں۔

 جس طرح سے فورٹ ولیم کالج اور ڈاکٹر جان گلکرسٹ دونوں نام ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہوتے ہیں اسی طریقے سے ڈاکٹر ایڈورڈ بالفور اور فورٹ سینٹ کالج بھی لازم ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اگر چہ کالج کے بور ڈ آف اگزامنز کے ممبر رہے، لیکن اصل میں وہ علاقہ مدراس میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔انھوں نے مدراسی مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے ایک انجمن قائم کی جس کا نا م ’’ مجمع علم و ہنر ‘تھا۔ یہی نہیں بلکہ ’ کتب خانہ عام ‘ اور’ مدرسہ اعظم مدراس ‘ کے قیام میں بھی ڈاکٹر ایڈورڈ کا تعاون شامل تھا۔ ڈاکٹر ایڈور ڈ کی تصانیف میں سب سے اہم کارنامہ ’انسائیکلو پیڈیا آف انڈیا ‘ ہے، جس کی تین جلدیں شائع ہوئی تھیں جو اب نایا ب ہیں۔ اس کی ہرجلد ہزا ر صفحات سے زائد پر مشتمل تھی۔ عثمانیہ یونی ورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ انھوںنے اردو میں کئی کتابیں لکھیں اور سبھی الگ الگ علوم سے تعلق رکھتی ہیں۔ ’گلدستہ سخن ‘ جو تذکرہ شعرائے فارسی اور اردو پر مشتمل ہے۔’ کتاب علم نجوم ‘ یہ مسٹر گلیگGleig کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔’ اردو اور انگر یزی میں دنیا میں اعداد و شمار کا نقشہ ‘یہ جنرل نالج پر ہے۔ ’اصول فن قبالت ‘ نرسنگ اور فن ولادت پر ہے۔یہ کتاب بھی ڈاکٹر جی ٹی کنکوئسٹ کی انگر یزی کتاب ’آؤٹ لائن آف مڈوائفری ‘کا اردو ترجمہ ہے۔ ’رسالہ علم کیمیا ‘ یہ کتاب بھی نایاب ہے اور مدراس کے کتب خانہ اہل اسلام میں اس کا ایک نسخہ ہے۔یعنی انھو ں نے کتاب تو لکھی ہی ساتھ ہی دیگر علوم وفنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔

تھامس روبک کا تعلق فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور فورٹ سینٹ کالج دونوں اداروں سے ہے۔ابتدا میں افواج مدراس سے منسلک رہے۔تھامس نے ان دونوں اداروں سے فیض اٹھایا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو میں انھوں نے کئی کتابیںتصنیف کی۔ دوران قیام مدراس ان کی کتاب برٹش انڈیا مانی ٹر   (British India Monitor)   جو فورٹ سینٹ کالج کی جانب سے  نہ صرف شائع  ہو ئی بلکہ اسے کالج کے نصاب میں شامل کیا گیا۔پروفیسر سید محمد نے اپنی کتاب ارباب نثر اردو  میں تھامس روبک کی اور ایک کتاب جہازرانی کا بھی ذکر کیا ہے جس میں اردو قواعد پرایک مختصر رسالہ بھی شامل ہے۔ ان کی اور ایک کتاب ترجمان ہندوستان  Hindustany Interpreterہے اس میں قواعد زبان اردو کے ابتدائی مسائل درج ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ تھامس روبک نے جان گل کرسٹ کی ہندوستانی لغت کی تیاری میں ان کا ساتھ دیاتھاجس کے لیے انھوں نے دوسال کی چھٹی بھی لی تھی،جس کا تذکرہ جان گل کرسٹ نے لغت کے دیباچے میں کیا ہے۔تھامس روبک فورٹ ولیم کالج کے سکریٹری کے عہدے پر فائزر ہے اور 1804 میں گل کرسٹ کی سبکدوشی پر ان کی جگہ اردو کے پروفیسر مامور ہوئے۔ انھوں نے  فورٹ ولیم کالج کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی  جوAnnale of the College of Fort William  کے نام سے شائع ہوئی۔

 ڈاکٹر ہنری ہیرس فورٹ سینٹ کالج سے ہی فارغ التحصیل تھے فوج کے لیے مدراس میں اسسٹنٹ سرجن مقرر تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی مشہور لغت ہندوستانی زبان کا تجزیہ اور اس کی قواعد و لغت  (Analysis ,gramme and dictionay of the Hindusatany Language   ( ہے جوسنہ 1791 میںفورٹ سینٹ کالج کے پریس سے شائع ہونے والی پہلی کتاب ہے جو اب نایاب ہے۔ ڈاکٹرہنری کی اس لغت کے حوالے سے پروفیسر ایس کے جینی نے اپنے مقالے’ اردو لغت نویسی اور اہلِ انگلستان ‘ میںاس لغت کوگل کرسٹ کے کارنامے سے بہتر قرار دیاہے۔اس لغت کی خوبیاںبیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس لغت کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ جنوبی ہند میں بولی جانے والی اردو زبان یا دکنی زبان کا بھی اچھا ذخیرہ ملتاہے۔
 جنرل جوزف اسمتھ کا تعلق فورٹ سینٹ کالج سے تو تھاہی لیکن انھیں جن خطابات سے نوزاگیا وہ ہندو ستانی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں جیسے نواب مبارزالملک، جنرل اسمتھ بہادر اور صولت جنگ۔ مختلف تذکر نگاروں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ میر عطاحسین خاں تحسین نے چہار درویش کا ترجمہ ’نو طرز مرصع‘ کے نام سے جنزل اسمتھ کے کہنے سے ہی کیا تھا، یہ بات سچ اس وجہ سے بھی ہوسکتی ہے کہ تحسین ان کے یہاں منشی کے طور پر بھی کام کرتے تھے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ لکھنؤ میں شجاع الدولہ کے دربار میں کتاب ختم کی۔ اگر چہ جنرل جوزف اسمتھ کا کوئی خاص کارنامہ نہیں ملتا ہے لیکن اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اردو میں نثر کی داغ بیل ڈالنے اور ترو یج وترسیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔ 
الکسا نڈر فورٹ سینٹ کالج سکریٹری کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔انھیں تصنیف و تالیف سے خاصی دلچسپی تھی۔ ان کی ایک  تلگو زبان کی قواعد فورٹ سینٹ کالج کی جانب سے شائع ہوئی۔

اب ہندوستانی محققین پر گفتگو کرتے ہیں تو میں سب سے اہم نام منشی تراب علی نامی کا ہے جو 1179  میں خیرآباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خیرآبادمیں ہی حاصل کی۔ نامی کے ہم درس اور ہم عمر ساتھیوں میں سب سے اہم نام علامہ فضل امام خیرآباد ی کا ہے جو علامہ فضل حق خیرآبادی کے والد محتر م تھے۔ نامی نے کچھ عرصہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت کی پھر1813 میں فورٹ سینٹ جارج کالج کے شعبہ عربی، فارسی اور اردو کے صدر مقرر ہوئے۔ فارسی اور عربی میں آپ کی کئی تصانیف موجود ہیں۔منطق میں درالمنظوم، نحو میں وسیط النحو، رسالہ حکایتی چند اور خزینۃ الامثال وغیرہ۔ وسط النحو عربی زبان میں صرف ونحو کی ایک معیاری کتاب ہے یہ کتاب  فورٹ سینٹ جارج کالج کے نصاب میں شامل تھی۔

سید حسین شاہ حقیقت میر منشی کے عہدے پر فائز تھے۔ سنہ 1774 میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ شاعری سے دلچسپی تھی اور جراتـ کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ابتدا میں ان کی غزلوں کی کتابت کرتے تھے۔پھر معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ریذ یڈ نٹ کلکتہ کے دفتر میں اول منشی رہے۔ حقیقت  کی جملہ تصانیف میں نو کتابیں شامل ہیں۔ صنم کدہ چین، جذب عشق اردو میں ایک عشقیہ شاعری ہے۔تحفتہ العجم وغیرہ۔حقیقت نے قیام مدراس میں دو مثنویاں لکھی۔ مثنوی گلزار اور مثنوی ہیرامن طوطا۔

مولوی حسن علی ماہلی۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہورہا ہے کہ موصوف کا تعلق اعظم گڑھ یو پی سے تھا۔ حسن علی ماہلی سراج الدین علی خاں آرزو اور شیخ حزیں کے مشہور شاگرد ملاعمر کے شاگر د تھے۔  1816 سے 1836 تک سینٹ جارج کالج مدراس سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد وہ صدر مفتی بنائے گئے، لیکن یہ کالج کی جانب سے تھے یا نہیں اس کا حتمی علم نہیں ہے اور 1846 کو ان کی وفات ہوئی۔ ان کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ انھوںنے متعدد کتابیں تصنیف کیں لیکن ان کی مشہور کتابیں ’ تبصرۃ الحکمۃ‘ طبعیات اور الٰہیات میں اور ’ منتخب التحریر ‘ علم ریاضی میں ہیں۔ 

قاضی ارتضا علی خاں خوشنود کا تعلق وپامؤ ضلع ہردوئی یوپی سے تھا۔ ان کا ذکر مذہبی و ادبی ہرز اویے  سے بڑے علما وادبا کے یہاں ملتا ہے۔ مدراس میں ان کا قیام صرف پانچ یا چھ سال رہا۔1815 میں انھوںنے  مدراس سے رخت سفر باندھ لیا۔ان کی کتابوں کا ذکر فرداً فرداً کہیں نہیں ملتا ہے بلکہ اکثر تذکرہ نگاروں نے صاحب کثیر التصانیف لکھا ہے، البتہ حیدرآباد کے کتب خانہ سعیدیہ میں ان کی تینتیس سے زائد عربی و فارسی، قلمی و مطبوعہ کتابیں موجود ہیں۔

محمد مہدی واصف مدراس میں ہی پیدا ہوئے۔وہ اردو، فارسی، عربی، انگریزی، فرنچ، ترکی اور دیگر ہندوستانی زبانوں سے بخوبی واقف تھے۔ موصوف 1818 سے 1835 تک کالج تک وابستہ رہے۔ان کی کچھ کتابیں کالج کے نصاب میں بھی داخل تھیں، جن میں ’حکایات دل پسند ‘، ’لطائف عجیبہ ‘ اور ’حکایات نادرہ ‘ ہیں۔ ان کے علاوہ عربی فارسی اور اردو میں متعدد کتابیں یاد گار چھوڑی ہیں۔ان کی ایک ضخیم کتاب ’مجمع الامثال ‘‘ ہے۔ اس میں جدید و قدیم ضرب الامثال کو یکجا کیا گیا ہے۔ ایک لغت نویس کی حیثیت سے بھی انھیں اہمیت حاصل ہے۔ 1851 میں انگریزی ہندوستانی اور فارسی لغت مدراس سے ہی شائع کی تھی۔دوسری لغت ’دلیل ساطع ‘ ہے۔ اس میں سنسکرت الفاظ کے معانی فارسی اور اردومیں  درج کیے گئے ہیں۔ تیسری لغت ’مناظر اللغات ‘ فارسی اردو لغت ہے۔ ان کے علاوہ خلاصہ تکمیل الایمان، ترجمہ کیمیائے سعادت، رسالہ تعبیر خواب، منہاج العابدین،شادی نامہ، ترجمہ جلالین،نفائس الکلام، فصل الخطاب، انیس الذاکرین، انسان کامل اور دیگر کثیر تصانیف ہیں۔ 
منشی غلام علی معان خاں کا تعلق ارکاٹ سے تھا۔ ان کا ذکر تذکروں میں تو ملتا ہے البتہ ان کی تصانیف کا ذکر کہیں نہیں ملتا ہے۔ ریکارڈ میں اتنا ملتا ہے کہ 1842 تک وہ کالج میں ملازم رہے اور 1851 میں ان کاانتقال ہوا۔
 
ان سب کے علاوہ، مرزاعبدالباقی وفا، مرزا محمد جان، سید تاج الدین، محمد خاں منشی سید غلام دستگیر، منشی مظفر، منشی محمدابراہیم بیجاپوری، منشی شمس الدین احمد، سید امیر حیدر بلگرامی،اکرام علی اور میر بہادر علی حسینی یہاں کے اہم اساتذہ میں تھے جو انگریزوں کو اردو کی تعلیم کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی بخوبی انجام دے رہے تھے۔ 

اس ادارے سے شائع شدہ اہم داستانوں کی بات کی جائے تو ’دکنی انوار سہیلی ‘ کا خصوصی ذکر ہوتا ہے، اس کے مصنف محمد ابراہیم بیجاپوری تھے۔ اس کے بعد ’حکایت الجلیلہ‘ ہے جوالف لیلہ و لیلہ کی دو سو راتوں کا اردو ترجمہ تھا۔تواریخ اور تذکروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اردو میں الف لیلہ کا پہلا اردو ترجمہ تھا۔ اس کے مترجم منشی شمس الدین احمد تھے۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1836 میں کالج پریس سے  شائع ہوئی تھی۔ایک اور داستانی کتاب ’ ملکہ زماں وکام کندلہ ‘ بھی ہے۔ کالج کے ہی پریس سے 1819 میں یہ کتاب شائع ہوئی تھی۔

حاصل کلام فورٹ سینٹ کالج کی اردو خدمات کا اگر جائزہ لیا جائے تو کسی طور پر بھی فورٹ ولیم کالج سے کم نہیں ہوگا کیونکہ اس کو مزید فوقیت دیگر علوم درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں حاصل ہے، جیسا کہ چند مصنفین کی ادبی خدمات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

Dr. Anupama Pol
Dept of Urdu
Mysore Rd, Jnana Bharathi, 
Bengaluru- 560056 (Karnataka)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں