30/1/23

تدوین متن: روایت اور مسائل، عبدالباری قاسمی


تلخیص

تدوین تحقیق کا بہت ہی اہم شعبہ ہے،اس کے لغوی معنی جمع کرنا، مرتب کرنا اور تالیف کرنا وغیرہ آتے ہیں، اصطلاح میں کسی بھی اہم متن کو  مصنف کی  منشا اور مقصود کے مطابق تحقیق و تخریج، تحشیہ، تعلیق اور مقدمہ سے مزین کرکے اور تحریفات و الحاقات اور سرقہ وغیرہ سے متون کو پاک و صاف کرکے منظر عام پر لانے کا نام تدوین ہے۔

اردو میں اسے تدوین کے ساتھ ساتھ متنی تنقید اور ترتیب متن بھی کہا جاتا ہے اور انگریزی میںاسے textual criticism بھی کہتے ہیں۔ اگر عالمی سطح پر تدوین کی روایت کا جائزہ لیں تو اسے چار زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یونانی اور لاطینی نسخوں کی تدوین،سنسکرت نسخوں کی تدوین، انگریزی کی قدیم کتابوں کی تدوین اور عربی، فارسی اور اردو نسخوں کی تدوین۔  اول الذکر یعنی یونانی اور لاطینی میں اس کی روایت کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ ہومر، ایلیڈ اور اوڈیسی وغیرہ اور ان کے ساتھ قدیم ڈراموں کی تدوین اس کے ابتدائی نقوش ہیں، جبکہ سنسکرت میں وید،پران،رامائن اور مہابھارت وغیرہ کو اولین تدوین کہا جا سکتا ہے۔

انگریزی زبان میں چاسر اور شیکسپیئر وغیرہ کی ادبی کتابیں تدوین کے اولین نمونے ہیں۔جہاں تک آخری زمرے کا تعلق ہے یعنی عربی،فارسی اور اردو تو عام طور پر لوگوں نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ سب سے آخر میں ان زبانوں میں تدوین کی شروعات ہوئی اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کے اصولوں کو ہی سامنے رکھ کر عربی میں بھی تدوین کا سلسلہ شروع ہوا،اگرچہ قدیم تدوینی نمونے ان زبانوں میں دریافت نہیں؛مگر قرآن اور احادیث وغیرہ کی جو تدوین ہوئی ہے یہیں سے تدوین کے عمدہ اصول و ضوابط دریافت ہوئے ہیں، اس قدر معتبر اور مستند تدوین ہمیں کسی اور زبان میں نہیں ملتی۔ رہا اردو کا تعلق تو یہاں بھی ایک طویل زمانے سے تدوین کا سلسلہ جاری ہے اورابتداسے لے کر اب تک تدوین کے بہت سے عمدہ نمونے ہمارے سامنے آچکے ہیں۔باضابطہ اردو میں تدوین کے نقوش کا جائزہ لیں تو سر سید احمد خاں اور ان کے رفقا کے یہاں اس کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں،اس کے بعد باضابطہ تدوین کی بنیاد حافظ محمود شیرانی اور امتیاز علی خاں عرشی وغیرہ نے رکھی۔

تدوین کے اصول و ضوابط کی اگر بات کریں تو سب سے پہلے دہلی یونیورسٹی نے مخطوطہ شناسی کا شعبہ قائم کیا تھا یہیں سے اصول و ضوابط کے حوالے سے خواجہ احمدفاروقی اور دیگر محققین کے مضامین آنے لگے اور بعد میں ڈاکٹر خلیق انجم نے متنی تنقید کے نام سے مبسوط کتاب لکھی۔

اس زمانے سے لے کر آج تک بڑی تعداد میں تدوین کے نمونے سامنے آئے اور آرہے ہیں۔ اسی فن کی دین ہے کہ سولہویں اور سترہویں صدی تک کی کتابیں آج ہمارے سامنے ہیں۔

کلیدی الفاظ

تدوین، متن، متنی تنقید، تخریج، تحشیہ، تعلیق، اختلاف نسخ، الحاقیات،گلشن ہند، مجموعۂ نغز، تذکرہ ٔ شعرا، تذکرہ ٔ شعرا ئے اردو، تذکرہ مسرت افزا،خلاصہ ٔ تذکرۃ الاکابر،قطعات دلدار،سفرآشوب قلق،کلام شاد، مثنوی راجہ کلیان سنگھ عاشق،مخطوطات،مخطوطہ شناسی،دستورالفصاحت،نامانوس،سرقہ،

تدوین عربی زبان کا لفظ ہے باب تفعیل کا مصدر ہے، اس کا مادہ د، و، ن ہے۔ عربی میں اس کے معنی جمع کرنا مرتب کرنا اور تالیف کرنا وغیرہ ہیں۔ عربی کی مشہور لغت مصباح اللغات میں اس کی تعریف ان الفاظ میں درج ہے’دون الدیوان، ترتیب دینا، رجسٹر میں نام لکھنا۔1؎ صاحب نور اللغات نے ان الفاظ میں تعریف کی ہے تدوین (مونث) جمع کرنا مرتب کرنا 2؎

مشہور انگریزی لغت’آکسفورڈ ڈکشنری ‘میں اس کی وضاحت  اس طرح کی گئی ہے کہ ’’عالمانہ تحقیق و تدوین اس لیے کی جاتی ہے کہ کسی تحریر،مخطوطہ یا طبع شدہ کام کو کاتب کی غلطیوں یا ملاوٹ سے پاک کیا جا سکے تاکہ تحریر مصنف کی منشا کے مطابق ہو جائے۔‘‘

اصطلاحی تعریفاصطلاح میں کسی بھی اہم متن کو مصنف کی منشا اور مقصود کے مطابق تحقیق وتخریج،تحشیہ، تعلیق اور مقدمہ سے مزین کر کے منظر عام پر لانے کا نام ہے۔پروفیسر سیدمحمد ہاشم نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے متن کو اس کوشش کے ساتھ از سر نو مرتب کرنا کہ یہ ہرلحاظ سے وہی متن ہے جو اس کے مصنف نے پیش کیا تھا، ترتیب یا تدوین متن کہلاتا ہے۔ 3؎

اردو میں تدوین متن کی اصطلاحیں

 اردو میں تدوین متن کے لیے محققین متعدد اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جیسے ترتیب، تالیف، تدوین اورمتنی تنقید وغیرہ۔ ترتیب مختلف تحریروں کو ایک جگہ جمع کرنے کا نام ہے، یہاں مرتب کو متن کی صحت سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ تالیف اپنی یا دوسرے کی تحقیقات یا مضامین وغیرہ کو مرتب کرنے کا نام ہے۔ تدوین ایسا تحقیقی عمل ہے جہاں مشمولات کو کیف مااتفق مرتب نہیں کر سکتے بلکہ منشائے مصنف کو بروئے کار لانا ہوتا ہے، اس اعتبار سے یہ ادبی تحقیق کی اہم شاخ ہے۔

ڈاکٹر خلیق انجم نے ’متنی تنقید‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی اور اس فن کا نام بھی انھوں نے ’متنی تنقید‘ رکھا۔ یہ انگر یز ی اصطلاح textual critism  کا ترجمہ ہے اور اہم بات یہ ہے کہ مشہور انگریزی مصنف کاترے کی انگریزی کتاب ہے   Introduction to Textual Critism An۔کاتر ے کی یہ کتاب سنسکرت اورمتون وغیرہ کی تصحیح اور انگریزی روایت پرمنحصر ہے۔ مندرجہ بالا زبانوں میں کاترے کی تحریر کے مطابق مدون متن کو متن میں اصلاح کاحق بھی ہے، وہ ضرورت کے مطابق متن کی تصحیح کرسکتا ہے، مگر اردو میں جو تدوین کا سلسلہ ہے وہ عربی و فارسی کے راستے سے آیا ہے، یہاں مدون کو اصلاح اور درستگی کا کوئی حق نہیں، اسے متن کو اسی شکل میں پیش کرنا ہے جیسا کہ مصنف کی منشا ہے ورنہ الحاق یا سرقہ وغیرہ کے زمرے میں شامل ہو جائے گا۔عربی اور فارسی کے لحا ظ سے اردو میں ’ تدوین متن‘ کی اصطلاح زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اپنی مشہور کتاب ’اصول تحقیق و ترتیب متن‘ میں ’ترتیب متن‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے،یہ اصطلاح بھی مناسب ہے مگر ترتیب کا لفظ اردو میں انتخاب کی جگہ بھی خوب استعمال ہوتا ہے جیسے غزلوں،نظموں اور افسانوں وغیرہ کے انتخاب کو بھی ترتیب سے موسوم کیا جاتا ہے۔

متن

عربی زبان کا لفظ ہے، لغت میں اس کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں۔ جیسے سخت اونچی زمین، مضبوط، پیٹ، پشت، لحاف وغیرہ کا وہ حصہ جو درمیان میں ہوتا ہے۔ کتاب کی وہ عبارت جس کی تشریح کی جائے۔ مشہور لغت ’فرہنگ آصفیہ‘ میں بھی اسی طرح کے معانی بیان کیے گئے ہیں ’’متن (ع)اسم مذکر (پشت)پیٹھ،مضبوط،استوار،مستحکم،سخت اور اونچی زمین،مجازاً کتاب کی اصل عبارت جس کی شرح کی جائے،وہ عبارت جو کتاب کے بیچ میں ہو،بیچ، درمیانی، وسط، درمیانی حصہ جیسے دوشالے کامتن، کتاب کامتن( بہ فتح تائے مثنات ) پڑھنا غلط ہے۔‘ 4؎

اصطلاح میں متن سے مراد وہ عبارت ہے جسے پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو۔ عام طور پر تاریخی اہمیت کی حامل وہ عبارتیں مراد لی جاتی ہیں جنھیں ترتیب دینے کے مقصد سے دریافت کیا گیا ہو۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے اپنی مشہور کتاب’اصول تحقیق وتر تیب متن‘ میں متن کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے متنText کسی ایسی تحریر اور نقوش تحریر کو کہتے ہیں جن کی قرأت یا معنوی تفہیم ممکن ہو۔ ‘‘5؎

ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی تعریف سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی چیزیں متن میں شامل نہیں۔

ڈاکٹرخلیق انجم نے اپنی کتاب ’متنی تنقید‘ میں اس تعلق سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کی تعریف میں چھ اہم نکات ہیں جن کی رو سے ہرتحریرشدہ بامعنی عبارت متن ہے خوا ہ نظم ہو یا نثر، قدیم ہو یا جدید۔ نکات حسب ذیل ہیں

1       متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریری ہو۔

2       متن ایسی تحریر ہے جوکاغذ پرمطبوعہ یا غیر مطبوعہ مختلف دھات کے ٹکڑوں، مٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوحوں، پتوں، پتھروں یا چھڑوں اور چٹانوں وغیرہ کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے۔

3       متن نظم بھی ہوسکتا ہے اور نثربھی۔

4       متن ہزاروں سال قدیم بھی ہوسکتا ہے اور ہمارے عہد کے کسی مصنف کی تحریربھی، اس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں۔

5       ہزاروں صفحوں پر پھیلی ہوئی ہو یا ایک صفحے کی مختصرسی تحریر، دونوں متن ہو سکتے ہیں۔

6       متن کے لیے ضروری ہے کہ بامعنی ہو اور اگر سیکڑوں برس کے عرصے میں نقل درنقل کی وجہ سے متن مسخ ہو گیا ہو تو اس کے اصل الفاظ کا تعین کیا جا سکے۔ 6؎

 تدوین متن

 لغت میں تدوین متن کو جوڑ نا، اکھٹا کرنا، مرتب کرنا وغیرہ کو کہتے ہیں۔

اصطلاح میں مصنف کی منشا یاانشا کے مطابق متن کو مرتب و مدون کرنا، تدوین متن کہلاتا ہے۔ اس میں مدون کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ فن پارے کو اسی اندازسے منظر عام پر لایا جائے، جو مصنف نے پیش کیا تھا۔ قدیم متون عام طور پرمخطوطات وغیرہ کی شکل میں ہوتے ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے زمانہ، قلم، کاغذ، املا، رسم الخط اور عہد کی تاریخ وغیرہ کا بھی علم ضروری ہے۔ اگر مدون ان چیزوں کو جانتا ہے تبھی وہ مآخذ ومراجع آسانی سے تلاش کرسکتا ہے اور ایک اچھا متن مدون و مرتب کر کے قارئین کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔

 تدوین و تحقیق کا رشتہ اور اہمیت

تدوین تحقیق کی ایک کڑی اورشاخ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مصنف کی منشا اور انشا کے مطابق صحیح متن مرتب کیا جائے۔ ادبی تحقیق کا اصل دارو مدار متون کی صحیح تدوین پر ہی ہے۔اس اعتبار سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اس کا تعلق تحقیق سے مزید گہرا ہو جاتا ہے۔

 اگر تدوین متن کا فریضہ نہ انجام دیا جائے تو ہم متون کوتغیر و تبدل اور الحاق وسرقہ وغیرہ سے پاک نہیں کر سکتے اور اس کے بغیر زبان و ادب کی تاریخ بھی نامکمل ہے۔ اس سلسلے میں رشید حسن خاں نے اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہوئے لکھا ہے کہ ’حقائق کی بازیافت، صداقت کی تلاش، حقائق کا تعین اور ان سے نتائج کا استخراج ادبی تحقیق کا مقصود ہے یا ہونا چاہیے،تدوین یعنی متن کی تصحیح و ترتیب اس سے الگ ایک چیز ہے جس کے اپنے مسائل و مطالبات ہیں تحقیق اورتدوین بجائے خود دو مستقل موضوع ہیں، ہاں ضرور ہے کہ ان کی حدیں کہیں کہیں مل جاتی ہیں۔ تحقیق کا لفظ عام طور سے ان دونوں پرحاوی سمجھا جاتارہا ہے مگر یہ اچھا خاصا خلط مبحث ہے۔‘ 7؎

 تحقیق نام ہی ہے تلاش وجستجو کا جب تک ہم قدیم مخطوطات کو تلاش نہ کریں، تدوین کاعمل انجام نہیں دیا جا سکتا۔ تدوین متن کے باب میں فراہمی متن، تصحیح متن، تحقیق متن، تنقیدمتن اور توضیح متن کی بہت اہمیت ہے۔

 تدوین متن کے بنیادی مراحل و مراتب

 متن کی تدوین وتر تیب کے چند بنیادی اور اہم مراحل ہیں، جن کو بروئے کار لا کر ہی تدوین متن کا فریضہ اچھے انداز میں انجام دیا جا سکتا ہے

1       صحت متن اور صحیح املا کے مطابق ترتیب کی ہرممکن کوشش کی جائے۔

2       ممکنہ حد تک متن سے اغلاط و تحریفات کو دور کیا جائے۔

3       متن سے الحاقیات و غیر کو ختم کیا جائے۔

4       مجمل حوالہ جات کی تشریح کی جائے۔

5       متن کے مباحث سے متعلق ضروری استدراکات

6       غیر معروف اشخاص، کتب اور مقامات سے متعلق حواشی و تعلیقات

7       مصطلحات، مشکل اور غیر مانوس الفاظ کی فرہنگ سازی

8       آیات قرآنی، احادیث، اشعار، اقوال اور اقتباسات وغیرہ کی تخر یج

9       نا قابل استفادہ اور ناقابل قرأت متون کو پڑھنے کے قابل بنانا

10     سہوکی نشاندہی خواہ مصنف کی ہو یا کسی اور کی۔

11     الفاظ متروکہ کی نشاندہی اور ان کے معانی کو بیان کرنا۔

12     رسم الخط کی تبدیلی کی نشاندہی

یہ ایسی چیزیں ہیں،جن کا جاننا ہرمدن ومرتب کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان مراحل سے گزرے بغیر تدوین کافریضہ انجام نہیں دیا جاسکتا۔

تدوین متن کے اصول اور طریقہ کار

تدوین متن کے دواصول ہیں ایک عام اور دوسرا خاص۔ پہلی قسم کاتعلق ہرطرح کے متن سے ہے خواہ وہ کسی بھی طرح کے متن کومدون و مرتب کر رہا ہومگر دوسری قسم کاتعلق خاص موضوع یامخصوص مخطوطہ وغیر ہ سے ہے۔

 تدوین متن کے عام اصول

1       نسخوں کی تعداد اور ان کے مقامات کا علم مدون متن کو یہ معلوم ہونا چاہے کہ جس مخطوطے یا کتاب کی تدوین کر رہا ہے، اس کے کتنے نسخے ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں۔

2       نسخوں کا انتخاب جہاں مختلف اور متعد دنسخے ہوتے ہیں وہاں مدون کو ایک یا چندنسخوں کو منتخب کرناپڑتا ہے، البتہ وہ کیسے نسخوں کو منتخب کرے گا اس کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔

3       تقابل و موازنہ

4       حواشی کا التزام مدون اختلاف نسخ اور دیگر اہم چیزیں جومتن میں شامل نہیں کر سکتے انھیں حاشیے میں درج کرے تا کہ قاری کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

5       فرہنگ سازی اس میں مدون مشکل الفاظ و اصطلاحات کی تشریح بھی کرتا ہے اور غیر مانوس الفاظ، تلمیحات اور متروک الاستعمال الفاظ وغیرہ کی تشریح کرتا ہے۔

 تدوین متن کے خاص اصول

متن کا تعلق نثر اور شعر دونوں سے ہو سکتا ہے۔ مدون جس چیز کی تدوین کررہا ہے، اس کے کیا تقا ضے اور کیا اصول ہیں، انھیں جاننا ضروری ہے۔

 اگر کوئی شعری متن مدون کررہا ہے تو اسے شعر کی جملہ اصناف کا علم ہونا چاہیے۔ اگر نثری کتاب ہے تو اس کا تعلق جس صنف سے بھی ہواس سے واقفیت کے ساتھ ساتھ عہد بہ عہد املا کی تبدیلی، الفاظ کی تبدیلی اور رائج شدہ املا اور الفاظ سے متعلق عمدہ معلومات ہونی چاہیے۔

  تدوین متن کی روایت اردو میں تدوین متن کی روایت عربی اور فارسی کے راستے پہنچی ہے اور جن اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھ کر علمائے کرام اور محدثین نے تدوین کا فریضہ انجام دیا تھا وہی اصول و ضوابط اردو تدوین و تحقیق کے لیے بھی مشعل راہ بنائے گئے،اگر مطلقا تدوین کے آغاز و ارتقا کی بات کریں تو بہت وثوق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تدوین متن کی ابتدا قرآن کریم کی تدوین سے ہوئی،قرآن پاک کا نزول چوں کہ وقفہ دروقفہ ہوا اس لیے کاتبین وحی صحابہ کرام مختلف اشیا پر اسے تحریر کرتے رہے اور ساتھ ساتھ اسے حفظ بھی کرتے رہے باضابطہ تدوین قرآن کا کارنامہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں انجام دیا گیا،اس کے بعد حضرت عمر فاروق نے ایک سال کے عرصے میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا،حضرت عثمان غنی کے دور میں اختلاف قرأت بہت زیادہ تھا اس وجہ سے کتابی صورت میں جمع کرنے کا کام مکمل کیا گیا۔حضرت عثمان کے حکم سے حضرت حفصہ کے صحیفوں سے قرآن کریم نقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور تدوین کا عمل انجام دیا گیا۔

تدوین حدیث حدیث کی تدوین کے لیے محدثین اور علما نے جو اصول و ضوابط مرتب کیے ان سے مضبوط اور مستحکم اصول طے کرنا ممکن نہیں،ایک ایک حدیث کی صحت کو جاننے کے لیے کئی کئی سو میل تک سفر کیا،ان کا طریقہ کار تھا کہ جب تک آخری چشم دید راوی تک نہیں پہنچ جاتے کسی روایت کو بیان نہیں کرتے تھے اسی وجہ سے فن اسماء الرجال کا بھی وجود ہوا،حضور اکرمؐ کی زندگی میں ہی دس ہزار سے زائد احادیث کی تدوین و ترتیب ہو چکی تھی اس کے بعد صحابہ کرام نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا،پھر تابعین اور تبع تابعین وغیرہ نے۔محدثین نے صحاح،سنن،معاجم،مراسل،امالی اور عوالی وغیرہ کے نام سے بڑی تعداد میں احادیث کے مجموعے تیار کیے۔صرف مسند کے نام سے تقریبا 96مجموعے تیار کیے گئے۔

عربی میں تدوین متن عربی میں تدوین متن کی روایت قدیم ہے،فن اصول حدیث اور فن اسماء الرجال سے عربی تدوین نے بہت کچھ استفادہ کیا ہے مگر اسے باضابطہ فن بنانے میں مستشرقین کا کردار ہے۔ گرچہ محدثین اور مستشرقین کے راستے بالکل الگ ہیں،مستشرقین کا تعلق قدیم لاطینی نسخوں سے ہے جبکہ محدثین کا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے باوجودباضابطہ اصول تدوین متن کی تعیین میں مستشرقین نے اہم کردار ادا کیا ہے،اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر نعمان خان لکھتے ہیں ’’ عربی متون کی تدوین کے اصول و ضوابط پر سب سے پہلا کام جرمن مستشرق برگسٹراسر (Bergstrasser) کے وہ لکچرس ہیں جو انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں 1931میں ایم،اے کے طلبہ کو دیے۔ان لکچرس کو ڈاکٹر محمد حمدی بکری نے 1969 میں دارالکتاب قاہرہ سے شائع کیا۔اس کو دوبارہ 1995 میں شائع کیا گیا ‘‘8؎۔عربی میں تدوین متن کو فروغ دینے میں ڈاکٹر محمد حمدی بکری،ڈاکٹر محمد مندور،عبدالسلام محمد ہارون اور ڈاکٹر ابراہیم بیومی مدکور،علامہ عبدالعزیز میمنی،ڈاکٹر محمد بدرالدین علوی، ڈاکٹر عبدالمعید خان اور امتیاز علی خاں عرشی وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔ہندوستان میں دائرۃ المعارف عثمانیہ حیدرآباد کا بھی عربی تدوین کے باب میں اہم کردار رہا ہے۔

فارسی میں تدوین متن اردو میں تدوین کی روایت فارسی کے واسطے سے پہنچی ہے اس لیے تدوین کے فارسی پس منظر کو بھی سمجھنا ضروری ہے ایران میں علامہ عبدالوہاب قزوینی،علی اکبر دہخدا،استاد معین، ڈاکٹر نفیسی،مجتبی مینوی،بدیع الزماں فروز انفر،اور عبدالعظیم قریب وغیرہ نے تدوین متن کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا،عربی کی طرح فارسی میں بھی ہندوستان میں تدوینی کارنامے انجام دیے گئے،اس سلسلے میں پروفیسر شریف حسین قاسمی رقمطراز ہیں ’’ ہندوستان میں فارسی قدیم متون کی ایک قاعدے کے مطابق جسے آج ہم علمی نہیں کہہ سکتے،تدوین کے اولین نقوش شاہ جہاں کے دور حکومت میں نظر آتے ہیں اور غالباً فارسی متون کی تدوین کی تاریخ اسی دور سے شروع ہوتی ہے اس ضمن میں ایک نام عبداللطیف عباسی متوفی ( 1048ھ یا 1049ھ)کا لیا جا سکتا ہے۔انھوں نے چند خطی نسخوں کی بنیاد پر سنائی کی حدیقۃ الحقیقہ اور مولانا روم کی مثنوی مرتب کی۔ عباسی کی مرتبہ مثنوی معنوی کا نام ’نسخہ ٔ ناسخہ مثنوی ‘ ہے۔‘‘9؎

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عباسی نے کس قدراہم کارنامہ انجام دیا۔عباسی نے تدوین کا جدید طریقہ اختیار کیا اسی سلسلے کو سرسید نے آئین اکبری اور تاریخ فیروز شاہی وغیرہ کو مدون کرکے آگے بڑھایا۔بعد میں حافظ محمود شیرانی،پروفیسر نذیر احمد،قاضی عبدالودود،امتیاز علی عرشی،امیر حسن عابدی اور پروفیسر شریف حسین قاسمی وغیرہ نے اہم کارنامے انجام دیے۔

اردو میں تدوین متن اردو میں تدوین متن کے باضابطہ آغاز کی بات کریں تو اس کے ابتدائی نقوش سرسید کے یہاں دیکھنے کوملتے ہیںالبتہ سرسید نے جو تدوینی کارنامہ انجام دیا اس کا تعلق فارسی سے ہے اردو کے پہلے باضابطہ مدون متن علامہ شبلی نعمانی ہیں۔انھوں نے مرزا علی خاں لطف کے مشہور تذکرہ ’گلشن ہند‘ کو 1906  میں مرتب کرکے شائع کیا۔یہ اردو میں تدوین متن کا پہلا کارنامہ ہے۔چونکہ گلشن ہند کی تدوین کے وقت شبلی کے پیش نظر ایک ہی نسخہ تھا اس لیے تقابل و موازنہ یہاں ممکن نہیں تھا اس کے باوجود شبلی نے حاشیے میں مبہم عبارتوں کی وضاحت کی ہے اس کے علاوہ جہاں جہاں ضرورت محسوس ہوئی ہے املا بھی درست کیا ہے،گلشن ہند میں شبلی کے حواشی کی تعداد تقریبا 42 ہے،شبلی نے گلشن ہند کی کس طرح ترتیب و تدوین کی اس کا تعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی لکھتے ہیں:

 ’’ گلشن ہند کی تصحیح و تدوین میں علامہ شبلی نعمانی نے کن اصولوں کو پیش نظر رکھا تھا،اس کی انھوں نے کہیں وضاحت نہیں کی ہے،ان کے قلم سے جو حواشی وضاحتی نوٹ ہیں،ان سے طریقۂ تصحیح و تدوین کا اندازہ کسی قدر ضرورہوتا ہے اوران کی بنیاد پر کہا جاسکتاہے کہ علامہ شبلی نے اپنے ہی تحقیقی و تدوینی اصولوں سے بڑی حد تک کام لیا ہے،انھوں نے اصل سے تحقیق و مراجعت بھی کی ہے اور وضاحتی و تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں بعض اضافے بھی کیے ہیں،املا کی تصحیح بھی کی ہے اس کے علاوہ مفید علمی و تنقیدی حواشی بھی لکھے ہیں،ان ہی پانچ بنیادی امور سے تذکرہ گلشن ہند مزین ہوکر طبع و اشاعت کی منزل سے گزرا۔‘‘10 ؎

علامہ شبلی نعمانی کے بعد اس فن کو فروغ دینے میں مولوی عبدالحق نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے، مولوی عبدالحق نے بڑی تعداد میں مخطوطات اور قلمی نسخوں کو مدون کرکے شائع کیا،خاص طور پر قدیم دکنی متون اور مخطوطات اور شعرائے اردو کے نایاب تذکروں کو دریافت کرکے ان کی تدوین کا جو کارنامہ بابائے اردو نے انجام دیا وہ بے مثال ہے۔مولوی عبدالحق کی مرتبہ کتابوں میں نکات الشعرا میر تقی میر،تذکرہ ریختہ گویاں سید فتح علی حسینی گردیزی،مخزن نکات قیام الدین قائم،چمنستان شعرا لچھمی نرائن شفیق،گل عجائب اسد علی خاں تمنا،عقد ثریا،ریاض الفصحا  اور تذکرہ ہندی غلام ہمدانی مصحفی،مخزن شعرا قاضی نورالدین حسن خاں رضوی فائق،قطب مشتری،سب رس ملا وجہی،گلشن عشق ملا نصرتی، معراج العاشقین بندہ نواز گیسو دراز،دیوان اثر،مثنوی خواب و خیال خواجہ سید محمد اثر،دیوان تاباں میر عبدالحی تاباں،رانی کیتکی کی کہانی سید محمد انشا دہلوی اور باغ و بہار میر امن وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی تعداد سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بابائے اردو نے کس محنت اور جاں فشانی سے کام کیا ہے۔

مولوی عبدالحق کے بعد حافظ محمود شیرانی نے تدوین و ترتیب کے سلسلے کو آگے بڑھایا،حافظ شیرانی کی شہرت ’پنجاب میں اردو‘ کتاب اور نظریہ کی وجہ سے ہوئی۔حافظ محمود شیرانی نے سائنٹفک انداز سے تحقیقی کارنامہ انجام دے کر اہل اردو کے لیے ایک نئی روایت قائم کی اور جس دلجمعی سے تحقیق و تدوین میں گراں قدر خدمات انجام دی وہ لاجواب ہے۔حافظ شیرانی کا سب سے گراں قدر تدوینی کارنامہ ’مجموعۂ  نغز ‘ حکیم ابوالقاسم میر قدرت اللہ قاسم کا تذکرہ ہے،قدرت اللہ قاسم نے اسے 1221ھ میں مکمل کیا۔جلد اول اور جلد دوم 812 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں 693شعرا کا تذکرہ ہے،اس عہد کے دیگر تذکروں کی طرح یہ بھی فارسی زبان میں ہے۔حافظ محمود شیرانی نے اس تذکرہ کو 1933 میں  34صفحات پر مشتمل مبسوط اور مدلل مقدمہ کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے شائع کیا ۔اس تذکرہ کی تدوین کے وقت حافظ شیرانی کے پاس دو نسخے تھے۔پہلا نسخہ تو مخطوطہ کی شکل میں مولانا حسین آزاد کی ذاتی لائبریری سے دستیاب ہوا جبکہ دوسرا نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن سے،دوسرے نسخے کی مدد سے کرم خوردگی کی وجہ سے جو نامکمل حروف تھے اس کمی کو دور کیا،مجموعہ نغز کی تدوین کی بنیاد کس مخطوطہ پر ہے اس کی وضاحت خود حافظ شیرانی نے اس طرح کی ہے ’’ جس مخطوطہ پر مطبوعہ متن مبنی ہے وہ مجموعہ کتب مولانا محمد حسین آزاد سے تعلق رکھتا ہے ‘‘ 11؎

یہ نسخہ حافظ شیرانی کو بوسیدگی کی حالت میں دریافت ہوا تھا اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں

 ’’ نسخہ ہذا مجھ کو نہایت خستہ حالت میں ملا ہے اول تو مصنف کی تحریر میں نقاط کا بہت کم التزام ہے اور اس لیے اس کی نقل لینا آسان کام نہیں تھا،متن کی تصحیح میں ہر ممکن ذریعہ سے کام لیا گیا ہے تاہم کئی مقام اب بھی صاف نہیں ہوئے،دوسرے کثرت سے کرم خوردہ ہونے کے علاوہ جس کا اثر عبارت متن پر بھی عامل ہے،متعدد اوراق کا کچھ کچھ حصہ ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو انچ کے دور میں ضائع ہو چکا ہے ‘‘ 12؎

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حافظ شیرانی نے یہ کارنامہ کس قدر محنت اور عرق ریزی سے کیا ہے،حافظ شیرانی نے صحت متن کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔پروفیسر حنیف نقوی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں

 ’’ترتیب کی دوسری خوبیوں سے قطع نظر یہ خصوصیت بہ طور خاص قابل ذکر ہے کہ متن میں حتی الامکان مولف کے مخصوص املا کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ایک عالم کو اہل قلم کے خصائص املا و انشا معلوم رہیں اور اردو الفاظ کا مخصوص تلفظ جس طرح سے وہ بولے جا رہے تھے ہم پر روشن ہو جاتے ‘‘ 13؎

مخطوطے کا تعارف کراتے ہوئے حافظ شیرانی نے مخطوطے کے اوراق کی تعداد 397اور فی صفحہ سترہ سطروں کا ذکرکیا ہے،مقدمہ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ مخطوطہ سرخ اور سیاہ روشنائی سے تحریر کردہ ہے اور خط نستعلیق رواں شکستہ مائل ہے۔شیرانی نے اسے مصنف کے ہاتھ کا لکھا بتایا ہے، جگہ جگہ تصرفات بھی موجود ہیں مگر ترقیم موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے کاتب اور تاریخ کتابت کا اندازہ نہیں ہوتا۔شیرانی نے تصرفات کی19 مثالیں درج کی ہے۔مرتب نے اس عہد میں کون سے الفاظ کس طرح لکھے جاتے تھے اس کی بھی نشاندہی کی ہے جیسے جھونپڑا کو جھوپڑا،ہونٹوں کو ہوٹوں،آنگن کو آگن وغیرہ۔

اسی تذکرے میں شیرانی نے وضاحت کی کہ’ آب حیات ‘ مجموعۂ نغز سے ماخوذ ہے۔ آزاد کے علاوہ اسپرنگر، گارساں دتاسی وغیرہ نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے۔اس تعلق سے حافظ شیرانی مقدمہ میں لکھتے ہیں

 ’’ مولانا نے اگرچہ ہر موقع پر اس تالیف سے استفادہ کا اظہار نہیں کیا ہے تاہم وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ’آب حیات‘ کا ایک بڑا حصہ اس تذکرہ سے ماخوذ ہے‘‘14؎

مجموعہ نغز کی تدوین میں حافظ شیرانی نے تین بنیادی خوبیوں کا التزام کیا ہے،ضائع شدہ عبارتوں کو قلابین میں درج کرکے نسخے کو مکمل کیا کہیں کہیں قیاسی اضافے کرکے قوسین میں درج کیا ہے،ورنہ پڑھنا مشکل ہو جاتا، اگر قلابین کی عبارت کو حذف کر دیا جائے تو ایک سطر بھی پڑھنا مشکل ہے۔ دوسری خوبی یہ کہ شیرانی نے ثابت کر دیا کہ آب حیات کا ماخذ مجموعۂ نغز ہے اس سے پہلے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا،تیسری خوبی یہ کہ دیگر تذکروں کی مدد سے شیرانی نے مجموعۂ  نغز کے مصنف کے حالات زندگی کو یکجا کر دیا۔شیرانی کی یہ کاوش تدوین متن کا عمدہ نمونہ ہے۔

حافظ شیرانی نے’خالق باری‘بھی مرتب کی اور اس کے مصنف کو بھی دریافت کیا مگر ان دونوں کتابوں کی تدوین میں تعلیقات کو شامل نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ روایت ساز نہیں بن سکے۔مشہور مدون رشید حسن خان نے کمیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔

محی الدین قادری زور کا بھی اردو کے اہم محققین اور مدونین میں شمار ہوتا ہے۔زور محقق کے ساتھ ساتھ ماہر لسانیات،مخطوطہ شناس اور اچھے ناقد بھی ہیں زور کے تدوینی کارناموں میں ’اردو شہ پارے‘، ’کلیات قلی قطب شاہ‘اور ’گلزار ابراہیم مع گلشن ہند‘ وغیرہ شامل ہیں۔

محی الدین زور کا سب سے اہم کارنامہ کلیات قلی قطب شاہ کی تدوین ہے،ان کی کوششوں کی وجہ سے کم از کم قلی قطب شاہ کا کلام منظر عام پر آ گیا ورنہ ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔یہ الگ  با ت ہے کہ اس کام میں تدوین کے اصولوں کو کس حد تک بروئے کار لایا گیا ہے،مشہور مدون رشید حسن خاں نے زور کے تدوینی کام پر اعتراضات کیے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ ان کا کام تدوین کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔

اردو تحقیق میں حافظ محمود شیرانی کی روایت کو آگے بڑھانے والے عظیم محقق قاضی عبدالودود ہیں انھیں اردو تحقیق کا معلم ثانی بھی کہاجاتا ہے،قاضی عبدالودود ایک اچھے مدون بھی تھے متعدد کتابیں تدوین کیں جیسے تذکرۂ شعرا مصنفہ ابن امین اللہ طوفان،تذکرۂ  شعرا ئے اردو از میر حسن،تذکرہ مسرت افزا، خلاصۂ تذکرۃ الاکابر،قطعات دلدار،سفرآشوب قلق،کلام شاد،مثنوی راجہ کلیان سنگھ عاشق وغیرہ مگر قاضی صاحب تدوین پر دسترس کے باوجود تدوین کے باب میں تحقیق کی طرح کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔

رشید حسن خاں قاضی صاحب کی تدوینی خدمات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’تدوین جن شرائط کا مطالبہ کرتی ہے،وہ سب قاضی صاحب میں بدرجہ ٔ اتم پائی جاتی ہیں،قدیم زبان،متعلقات،قواعد و زبان وغیرہ پر ان کو قابل رشک دسترس حاصل تھی لیکن تدوین جس ضبط و نظم کا مطالبہ کرتی ہے ان کا مزاج اس سے میل نہیں کھاتا تھا وہ متفرق کام اعلیٰ پیمانے پر انجام دیا کرتے تھے،منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی مفصل اور مربوط کام کرنا یعنی کسی بڑے کینوس پر مربوط نقش کی تشکیل ان کا مزاج ا س سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا تھا۔بہت سے ٹکڑوں میں منقسم کام کو وہ خوب کیا کرتے تھے ان کی اس افتاد طبع نے تدوین کے دائرہ میں انھیں کوئی بڑا کام نہیں کرنے دیا۔ان کی جو حیثیت تحقیق میں ہے،تدوین میں وہ حیثیت پیدا نہ ہوسکی اور اس سے تدوین کی روایت کو نقصان پہنچا ‘‘ 15؎

امتیاز علی عرشی کا بھی شمار اردو کے ممتاز مدونین میں ہوتا ہے،امتیاز علی عرشی کو تدوین متون سے خاص شغف تھا،ان کا سب سے مثالی کارنامہ ’مکاتیب غالب ‘ کی تدوین ہے،امتیاز علی عرشی اصول تدوین سے اچھی طرح آشنا تھے،اختلاف نسخ کا بھی علم اچھا تھا،عربی،فارسی اور اردو زبانوں کے ساتھ ادبیات کی تاریخ پر بھی گہری نگاہ تھی اس کا فائدہ انھیں تدوینی کام میں ملا۔ان کے اہم تدوینی کارناموں میں مکاتیب غالب،دستور الفصاحت،دیوان غالب نسخۂ عرشی،سلک گوہر،کہانی رانی کیتکی کی اور تاریخ محمدی وغیرہ ہیں۔مگر سب سے اہم تدوینی کارنامہ مکاتیب غالب،دستورالفصاحت اور دیوان غالب ہے اور خاص بات یہ ہے کہ ان تینوں کے موضوعات مختلف ہیں،مکاتیب غالب کا تعلق خطوط سے ہے،دستورالفصاحت کا شعرائے اردو کے تذکرے سے اور دیوان غالب کا شاعر کے کلام سے ہے۔

 امتیاز علی عرشی کا سب سے پہلا تدوینی کارنامہ ’مکاتیب غالب ‘ ہے اسے مدون کرکے 1937میں شائع کیا۔اس میں غالب کے وہ خطوط شامل ہیں جو انھوں نے فردوس مکانی نواب یوسف علی خاں ناظم اور ان کے جانشین خلد آشیانی نواب کلب علی خاں کے نام تحریر کیے تھے،امتیاز علی عرشی نے تفصیلی مقدمہ اور حواشی کے ساتھ اسے شائع کیا ہے 1937 سے 1969تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہوئے، پہلے ایڈیشن میں 320 صفحات تھے جبکہ آخری میں 600صفحات،مختلف ایڈیشنوں میں عنوانات،خطوط اور حواشی میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں،پہلے ایڈیشن میں نواب یوسف کے نام بیالیس خطوط تھے جبکہ آخری چوالیس،اسی طرح کلب علی خاں کے نام پہلے میں 65تھے اور آخری میں 73،آخری ایڈیشن میں سید محمد عباس علی خاں کے نام بھی ایک خط ہے اور منشی سیل چند کے نام سات خطوط۔مولانا امتیاز علی عرشی کی عادت ہے کہ موضوع کی مناسبت سے اپنی مدونہ کتاب میں تفصیلی مقدمہ تحریر کرتے ہیں اور تصحیح متن کے ساتھ ضرورت کے مطابق حواشی بھی درج کرتے ہیں،مکاتیب غالب میں مکتوب نگار کا تعارف اور غالب کے خطوط کی ترتیب کے سلسلے میں گفتگو کی ہے،ساتھ ساتھ مجموعۂ خطوط کا مرتبہ بھی متعین کیا ہے،جہاں سے نیا خط شروع ہوتا ہے تو مکتوب الیہ کا تعارف حاشیے میں کراتے ہیں اور خطوط میں جن شخصیات کا ذکر ہوتا ہے حاشیے میں ان شخصیات کا بھی تعارف کراتے ہیں،اجمالی واقعات اور حادثات وغیرہ کا بھی ذکر کرتے ہیں،موقع و محل کی مناسبت سے جا بہ جا جوابی خطوط سے بھی اقتباسات نقل کرتے ہیں اسی طرح متن میں جہاں بھی نامانوس الفاظ آتے ہیں اس کی تشریح کرتے ہیں، سرگزشت غالب کے عنوان سے مقدمہ میں غالب کے احوال و کوائف کو داخلی شہادتوں سے بیان کیے ہیں۔طباعت خطوط کے ضمن میں عرشی نے عود ہندی، اردوئے معلی  اور مکاتیب غالب کے متعلق دلچسپ معلومات درج کیے ہیں۔

دستورالفصاحت بھی امتیاز علی عرشی کی اہم مدونہ کتابوں میں شامل ہے اس کے مصنف حکیم سید احمد علی خاں یکتا ہیں،اس کا سنہ تصنیف 1230ھ مطابق 1815 کے قریب ہے،یہ کتاب اردو زبان کی صرف و نحو،معانی و بیان،عروض و قافیہ وغیرہ پر مشتمل ہے،کتاب فارسی زبان میں ہے۔پہلے باب میں ان فارسی قواعد کو بیان کیا گیا ہے جن سے واقفیت اردو کے طلبا کے لیے ضروری ہے،دوسرے باب میں اردو زبان کے قواعد،تیسرے باب میں اردو صرف و نحو کے مباحث،چوتھے باب میں عروض و قافیہ اور پانچویں باب میں فن بدیع کو بیان کیا گیا ہے،آخر میں ’در تذکرۃ الشعرا ‘ کے عنوان سے خاتمہ ہے،اس میں ان شعرا کے احوال اور منتخب کلام کو بیان کیا گیا ہے جن کے اشعار دستورالفصاحت میں بطور حوالہ پیش کیے گئے ہیں،امتیاز علی خاں عرشی نے اسے 1943 میں رامپور سے شائع کیا۔اس کتاب کے مقدمہ میں عرشی نے اردو اور فارسی کے 57مطبوعہ و غیر مطبوعہ تذکروں کی فہرست دی ہے اس کے علاوہ کتب خانۂ شاہ اودھ اور برٹش میوزیم کے مخطوطات کی بھی فہرست درج کی ہے۔دستورالفصاحت کے مقدمہ میں عرشی نے مصنف کے حالات زندگی بیان کیے ہیں اس کے بعد تذکروں کی تاریخ پر مفصل گفتگو کی ہے اور ساتھ ساتھ تقدم زمانی کی بھی تعیین کی ہے اور متن میں جہاں بھی کسی شاعر کا ذکر آتا ہے اس کا تعارف بھی حاشیے میں کراتے ہیں ساتھ ساتھ اس کا ذکر کس کس تذکرہ میں آیاہے سب کو بیان کرتے ہیں۔عرشی نے قلمی نسخے کی کیفیت اس انداز سے بیان کی ہے، سائز،ضخامت،اول و آخر زائد اوراق،صفحے میں سطروںکی تعداد،نسخے کے کاتبوں کی تعداد،متن کی روشنائی،اوراق کی کیفیت،کرم خوردگی کی کیفیت وغیرہ۔

 امتیاز علی عرشی کا تیسرا سب سے اہم تدوینی کارنامہ دیوان غالب ہے،اسے امتیاز علی عرشی نے 1958 میں مرتب و مدون کرکے عالمانہ مقدمہ کے ساتھ شائع کیا،یہ مقدمہ 120 صفحات پر مشتمل ہے اوراس میں 59ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں،غالب کی شخصیت اور شاعری پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔اور اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ غالب کے حالات زندگی غالب کی ہی تحریروں کی روشنی میں بیان کیے ہیں اسی طرح غالب کے نزدیک شعر کے معائب و محاسن کیا کیا ہیںانھیں بھی خطوط سے ہی اخذ کیا ہے اور 17اقتباسات محاسن پر اور 11اقتباسات معائب شعر پر نقل کیے ہیں۔

دیوان غالب کی تدوین کا یہ طریقہ عرشی نے اپنایا کہ پہلے غالب کی شخصیت پر روشنی ڈالی اس کے بعد تدوین کے اصول اورطریقہ کار کی وضاحت کی پھر نسخوں کی مکمل کیفیت،مآخذ کی تاریخی ترتیب پر گفتگو اور نسخوں کے اختلافات کو حاشیے میں بیان کیا ہے۔اس کے علاوہ جہاں بھی غالب نے اپنے اشعار کی خود تشریح کی ہے اسے حاشیے میں درج کیا ہے، غالب کے اردو اور فارسی کے ہم مضمون اشعار کو بھی متعارف کرایا ہے،کلام کو تاریخی ترتیب کے مطابق درج کیا ہے،متن میں جہاں بھی کسی شخصیت کا ذکر آیا ہے اس کا بھی تعارف کرایا ہے۔اشخاص،مقامات اور کتب و رسائل وغیرہ کے اشاریے مرتب کیے ہیں،یہی وجہ ہے کہ دیوان غالب (نسخہ عرشی)کو فن تدوین کا عروج سمجھا جاتا ہے۔

اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے تدوین کے تمام پہلووں کو پیش نظررکھ کر منشائے مصنف کے مطابق تدوین کا فریضہ انجام دیا ہے۔عرشی اردو،فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر عبوررکھتے تھے اس کا بھی فائدہ انھیں خوب ملا۔

پروفیسر سیدہ جعفر امتیاز علی خاں عرشی کی تدوینی وتحقیقی خدمات کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ

’’ امتیاز علی خاں عرشی کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو تحقیق کے آداب و رموز سے آشنا کیا،ان کی تدوین تحقیق کے تازہ واردان کی رہبری اور رہنمائی کرتی اور انھیں اس فن کے اصولوں سے آگاہ کرتی ہے۔بہت سی کتابوں کو جو نقش طاق نسیاں ہو چکی تھیں،عرشی نے نئی زندگی عطا کی اور تدوین کو اعتبار بخشا۔‘‘16؎

سید مسعود حسن رضوی ادیب بھی اردو کے اہم مدون و محقق ہیں رضوی صاحب کے تدوینی کارناموں میں کئی کلاسیکی متون شامل ہیں جیسے فیض میر کی تدوین،اس کی دریافت کا سہرا بھی سید مسعود حسن رضوی ادیب کے سر ہے۔اس کے علاوہ ’مجالس رنگین، فسانۂ عبرت،دیوان فائز، تذکرۂ نادر، اندرسبھا، تذکرۂ گلشن سخن،روح انیس،شاہکار انیس اور رزم نامۂ انیس وغیرہ بھی اہم تدوینی کارنامے ہیں۔

سید مسعودحسن رضوی ادیب کا اہم تدوینی کارنامہ دیوان فائز کی تدوین ہے،اسے مسعود حسن رضوی ادیب نے تدوین متن کے جدید اصولوں کے مطابق مرتب کیا اور بہت اچھے انداز میں فائز کو متعارف کرایا،رشید حسن خاں دیوان فائز کی تدوین کو عمدہ کارنامہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

 ’’ اس سے بہتر (گلشن سخن) دیوان فائز کی تدوین ہے۔یہ کتاب پہلی بار 1946 میں شائع ہوئی تھی۔قاضی عبدالودود نے اس پر خاصا مفصل تبصرہ کیا تھا۔1965 میں نظر ثانی کے بعد دوسرا ایڈیشن شائع ہوا،جو مندرجات کے لحاظ سے پہلے ایڈیشن سے بہتر ہے،انھوں نے تدوین کے بعض اور بھی کام کیے ہیں،مگر ان میں سے کوئی بھی ’اندرسبھا‘ کو نہیں پہنچتا۔’اندرسبھا ‘ کی تدوین تو خیر بڑا کام ہے،ان کے دوسرے کام ’دیوان فائز‘ کی تدوین کی برابری بھی نہیں کر پاتے۔‘‘17؎

مالک رام بھی تدوین متن کے باب میں محتاج تعارف نہیں ہیں،مالک رام کے تدوینی کارناموں میں ذکر غالب،دیوان غالب،گل رعنا،کربل کتھا،خطوط غالب، غبار خاطر،تذکرہ،خطبات آزاد اور خطوط ابوالکلام آزادوغیرہ شامل ہیں۔

 مالک رام کے نمایاں کارناموں میں سے ایک غبار خاطر کی تدوین ہے،مالک رام نے بیس صفحات پر مشتمل تفصیلی مقدمہ تحریر کیا ہے،یہ پانچ حصوں میں منقسم ہے،پہلے حصے میں مالک رام نے ہندوستان کے اس عہد کا ذکر کیا ہے جب ہندوستان چھوڑدو تحریک زور و شور سے چل رہی تھی،اس حصے میں مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے بھی حالات زندگی شامل ہیں،دوسرے حصے میں غبار خاطر کی اہمیت و افادیت کو بیان کیا ہے،تیسرے حصے میں مولانا آزاد کا مختصر تعارف،خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت وغیرہ کو بیان کیا ہے،چوتھے حصے میں غبار خاطر کی ترتیب و تدوین اور اس کی اشاعت وغیرہ میں جو دشواریاں پیش آئیں انھیں بیان کیا ہے۔پانچویں اور آخری حصے میں املا،کتابت اور قواعد وغیرہ کے متعلق گفتگو کی ہے۔حاشیے میں تخریج اشعار،اشخاص و اماکن کی نشاندہی،آیات اور احادیث کی تخریج  اور متن میں مذکور کتابوں کے ناموں کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اختلاف متن اور تصحیح متن کا بھی التزام کیا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر محنت سے مالک رام نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں

 ’’اس کی ترتیب و تدوین اور تحشیہ کا کام مالک رام صاحب نے جس خوبی سے انجام دیا ہے،اس سے بہتر انجام دیا جانا مشکل تھا۔انھوں نے متن میں وارد اردو،فارسی اور عربی اشعار،آیات قرآنی اور دوسرے اقوال و منقولات کی تخریج محنت شاقہ سے کی ہے۔جن مصنفین اور کتابوں کے نام آئے ہیں ان کے متعلق بقدر ضرورت معلومات تحریر کرنے کے علاوہ مزید معلومات کے لیے اصل مراجع بھی بتا دیے ہیں،مولانا نے اشعار میں جو تصرف کیا ہے،ان کی نشاندہی کی ہے اور ان سے نقل میں جو مسامحت ہوئی ہے ان کی اور بعض دوسری فروگزاشتوں کی تصحیح بھی کی ہے ۔‘‘18؎

پروفیسر نورالحسن ہاشمی نے بھی تدوین کے باب میں اہم کارنامے انجام دیے ہیں،کلیات ولی، ایک نادر روزنامچہ،بکٹ کہانی،مثنوی سراپاسوز،طوطی نامہ،کلیات حسر ت دہلوی،تذکرۂ مشاہیر سندیلہ، فسانہ اعجاز، دیوان مبتلا، انتخاب سب رس اورنوطرز مرصع وغیرہ اہم تدوینی کارنامے ہیں۔فہرست سے ہی ان کی تدوینی خدمات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے تدوینی کارنامے کس قدر اہم ہیں۔

امتیاز علی عرشی نے تحقیق و تدوین میں جو روایت قائم کی تھی اس کو فروغ دینے میں رشید حسن خان کا اہم کردار ہے۔پروفیسر گیان چند جین نے رشید حسن خان کو ’خدائے تدوین ‘ کا خطاب دیا ہے۔ تحقیق کے باب میں رشید حسن خان قاضی عبدالودود سے متاثرہیں اور وہی راستہ منتخب کرتے ہیں جبکہ تدوین کے میدان میں امتیاز علی عرشی کو اپنا پیروکار بناتے ہیں۔متعدد اہم کلاسیکی متون کو آراستہ کرکے اہم کارنامہ انجام دیا۔ ان کی مدونہ کتابوں میں باغ و بہار، فسانۂ عجائب،مثنوی سحرالبیان، گلزار نسیم، مثنویات شوق، انتخاب کلام ناسخ،انتخاب سودا،انتخاب مراثی انیس و دبیر،انتخاب خواجہ میر درد،انتخاب نظیراکبرآبادی، انتخاب شبلی اور زٹل نامہ وغیرہ۔پروفیسر گیان چند جین رشید حسن خان کے متعلق لکھتے ہیں’’ میں انھیں پیغمبر تدوین کہنے پر قانع نہیں انھیں خدائے تدوین کہوں گا گو کہ اس پر کتنے زعما چین بہ جبیں ہوں‘‘19؎۔ صحت متن،اختلاف نسخ،زبان و قواعد،املا،عہد کی زبان،تاریخ اور لسانی باریکیوں پر اچھی نگاہ تھی۔یہی چیزیں تدوین کی بنیاد بنتی ہیں اورا ن کو بروئے کار لاکر ہی اچھا تدوینی کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر صابر علی سیوانی رشید حسن خان کے تدوینی کارناموں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’ رشید حسن خان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے جن کلاسکی متون کی تدوین کی،اس میں تدوین متن کے اصولوں کی مکمل طور پر پیروی کی۔مقدمہ لکھا،حواشی تحریر کیے،صحت متن کا کام کیا،تعلیقات پیش کیں،اشاریے بنائے اور فرہنگ مرتب کی اور سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے تمام متون کی تدوین میں منشائے مصنف کو پیش کرنے کی حتی المقدور کوشش کی اور یہ ثابت کردکھایا کہ متون کی تدوین سائنٹفک انداز سے کیسے کی جاتی ہے۔ان متون پر اعراب نگاری کا بھی فریضہ انجام دیا۔مذکورہ متون کی جدید علمی اصولوں کے مطابق اس انداز سے تدوین کی کہ انھیں خدائے تدوین کا رتبہ حاصل ہو گیا ۔‘‘20؎

اہم مدونین میں پروفیسر عبدالقادرسروی کا بھی شمار ہوتا ہے،ان کے تدوینی کارناموں میں کلیات سراج،پھول بن،قصہ ٔ بے نظیر،مراۃ الاسرار،مہتاب سخن اور بوستان خیال وغیرہ ہے۔

اسی طرح پروفیسر نذیر احمد نے کتاب نورس اور پرت نامہ مدون کرکے تدوین متن کے باب میں اہم کارنامہ پیش کیا،تنقید و تحقیق دونوں لحاظ سے ان کی یہ کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔پروفیسر نذیر احمد کا سب سے اہم کارنامہ کتاب نورس کی تدوین ہے،یہ ابراہیم عادل شاہ کے 56گیتوں اور 17دوہوں کا مجموعہ ہے،متعدد نسخوں سے تقابل و موازنہ کے بعدمستند متن مع ترجمہ تیار کرکے پروفیسر نذیر احمدنے 1955 میں لکھنؤ سے شائع کیا۔کتاب نو رس کی تدوین میں پروفیسر نذیر احمد نے سخت اور مشکل الفاظ کی صحیح قرأت کا التزام کیا ہے،دوران تدوین جابہ جا متن میں اہتمام سے اعراب لگایا ہے،اختلافات نسخ کو حاشیے میں درج کیا ہے،اس کے علاوہ عام فہم انداز میں ترجمہ بھی کیا ہے تاکہ سمجھنے میں دشواری نہ ہو،آخر میں فرہنگ کو بھی شامل کیا ہے۔

ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خان کا بھی تدوین متن کے باب میں اہم مقام ہے،بکٹ کہانی،قصہ مہر افروز دلبر،ابراہیم نامہ،پرت نامہ وغیرہ ان کے اہم تدوینی کارنامے ہیں۔پروفیسر مسعود حسین کے تدوینی کارناموں میں قصہ مہر افروز دلبر کو کافی اہمیت حاصل ہے،انھوں نے اس کتاب کو جدید اصول تدوین اور سائنٹفک طریقے سے مرتب کیا ہے،چوں کہ مسعود حسین خاں ماہر لسانیات تھے اس لیے انھوں نے اس کی تدوین میں بھی لسانی مطالعے کو کافی اہمیت دی ہے اور صوتی خصوصیات وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔مقدمہ کے آخر میں مخطوطے کی کیفیت،رنگ،سائز،تقطیع کے اوراق اور سطر وغیرہ کو بیان کیا ہے۔

پروفیسر سیدہ جعفر کاشمار دکنی ادب کی تحقیق و تدوین میں نمایاں ہے،کلیات قلی قطب شاہ کی تدوین ان کا اہم کارنامہ ہے۔ان کے تدوینی کارناموں میں من سمجھاون،دکنی رباعیاں،سکھ انجن،یادگار مہدی، دکنی نثرکا انتخاب،یوسف زلیخا،چندربدن ومہیار،مثنوی گلدستہ اور نوسرہار وغیرہ شامل ہیں۔

خلیق انجم کا بھی شمار اہم متنی تنقید نگاروں میںہوتا ہے،تدوین متن کے حوالہ سے خلیق انجم کی کتاب ’متنی تنقید ‘ کافی اہمیت کی حامل ہے۔ خلیق انجم نے غالب کے مکمل خطوط کو پہلی بارتاریخ وار چارجلدوں میں مرتب کیا،کمال احمد صدیقی خلیق انجم کے متعلق لکھتے ہیں

 ’ ڈاکٹر خلیق انجم سودا اور مظہر جان جاناں اور متنی تنقید جیسے وقیع کام کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن اب جو ’ خطوط غالب‘ انھوں نے مرتب کیے ہیں،انھیں پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ متن کی تدوین جیسی انھوں نے کی ہے پہلے خطوط غالب کے سلسلے میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔اردو میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کام ہے۔انھوں نے قینچی سے نہیں ذہن سے کام لیا ہے۔پہلی جلد کا مقدمہ ایک مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس سے زیاد ہ نہیں تو اتنا ہی اہم کام حواشی کا ہے۔ایک ایک لفظ مختلف نسخوں کے تقابلی مطالعے میں چیک کیا گیا ہے جو واقعی دیدہ ریزی کا کام ہے ۔‘‘21؎

اس کے علاوہ پروفیسر مختارالدین احمد، خواجہ احمد فاروقی، ڈاکٹر جمیل جالبی، پروفیسر حنیف نقوی، پروفیسر نثار احمد فاروقی،سید محمد حیدرآباد،محمد اکبرالدین صدیقی، ڈاکٹر حفیظ قتیل، پروفیسر ظفر احمد صدیقی اور  پروفیسر عبدالحق وغیرہ نے بھی اہم تدوینی کارنامے انجام دیے ہیں۔

تدوین متن کے مسائل

تدوین متن کے مختلف مسائل ہیں معیاری،غیر محرف اور تصحیح شدہ متن کی تدوین کے لیے مدون کا مصنف کے نظریات و خیالات سے اچھی واقفیت ضروری ہے،صحیح قرأت ضروری ہے اگر مدون صحیح سے نہیں پڑھ پائے گا تو متن کی بھی صحیح تدوین نہیں ہو سکتی،رموز املا سے اچھی وقفیت ضروری ہے،رسم الخط کی تبدیلیوں سے واقفیت ضروری ہے،رسم الخط کی وجہ سے بہت سے لوگ متون کی قرأت نہیں کر پاتے،صحیح تفہیم کے لیے صحیح قرأت بھی ضروری ہے اور جب اچھی طرح نہیں سمجھ پائے گا تو مصنف کی منشا کا فوت ہونا لازم ہے۔قدیم اور جدید املا کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت سی خامیاں سامنے آتی ہیں۔اعراب بالحروف پر بھی گرفت ہونی چاہیے پہلے اس کا چلن بہت زیادہ تھا اکثر متون میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔روشنائی اور کاغذ وغیرہ کا بھی علم ہونا چاہیے تاکہ اس سے متون کی قدامت وغیرہ کا اندازہ لگایا جاسکے۔تذکیر و تانیث،واحد جمع،صرف و نحو،مصادر و مآخذ اور جملوں کی ساخت و ترکیب وغیرہ کا بھی علم ہونا چاہیے۔

تاریخ گوئی کے فن سے بھی مناسبت ہونی چاہیے عام طور پر قدیم متون میں مصنف کا کوئی جملہ، مصرع، یا لفظ ہوتا ہے جس سے تاریخ تصنیف وغیرہ کا علم ہوتا ہے تو مدون اس کی مدد سے صحیح تاریخ تصنیف تک پہنچ سکتا ہے۔

مدون میں تخریج کی صلاحیت بھی ضروری ہے تاکہ وہ اس کی مدد سے متن میں موجود شعر، قول، حدیث،یا قرآن کی آیت وغیرہ کی نشاندہی کرسکے اور اس کے ماخذ تک پہنچ سکے۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں۔آج لوگ چند صفحے کا مقدمہ یا پیش لفظ لکھ کر کوئی بھی قدیم شائع شدہ کتاب منظر عام پر لے آتے ہیں اوراسے تدوین کا نام دے دیتے  ہیں حالانکہ تدوین متن بہت باریک فن ہے، رشید حسن خان نے تو اسے تحقیق سے آگے کی چیز کہا ہے۔


حوالہ جات

  1.        مصباح اللغات، مولانا عبدالحفیظ بلیاوی، مکتبہ بر ہان، اردو بازار جامع مسجد دہلی، 2002،ص257
  2.        نوراللغات، مولوی نور الحسن، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،1998،ص 237/2
  3.        تحقیق و تدوین،سیدمحمد ہاشم، مکتبہ جامع لمیٹڈ، جامعہ نگر نئی دہلی،1978 ص14
  4.        فرہنگ آصفیہ، خان صاحب،مولوی سید احمد دہلوی،ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،1990ص2037
  5.        اصول تحقیق وتر تیب متن، ڈاکٹر تنویر احمد علوی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2013، ص23
  6.        متنی تنقید،ڈاکٹر خلیق انجم، انجمن ترقی اردو ہند، دہلی،2006،ص 20
  7.        ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ، رشید حسن خاں، اتر پردیش اردواکادمی لکھنؤ،1990،ص 121
  8.        مضمون عربی متن کی تدوین،اصول و مسائل،مشمولہ رضا لائبریری جنرل،شمارہ 20-21،2010، ص 46
  9.        مضمون قدیم فارسی متن کی تدوین مسائل و حل،مشمولہ رضا لائبریری جرنل،رامپور،شمارہ 20-21،2010، ص 33
  10.      تذکرہ گلشن ہند اور علامہ شبلی نعمانی،ڈاکٹر الیاس اعظمی،مشمولہ مضمون ہماری زبان،انجمن ترقی اردو ہند،نئی دہلی 22 تا 28جنوری 2005
  11.      مجموعہ نغز مرتبہ حافظ شیرانی،نیشنل اکادمی دریاگنج،دہلی،صیو
  12.      ایضا،صیو
  13.      شعرائے اردو کے تذکے،حنیف نقوی،نسیم بکڈپو لکھنؤ،1976،ص 780
  14.       دیباچہ مجموعہ نغز،محمود شیرانی،ترقی اردو بورڈ دہلی،1973،صلذا
  15.       تدوین تحقیق روایت،رشید حسن خاں،ایس اے پبلی کیشنز،دہلی،1999،ص179
  16.      تاریخ ادب اردو،جلد سوم سیدہ جعفر،ہاشم نگر،حیدرآباد،2002،ص166
  17.      تدوین تحقیق روایت،رشید حسن خاں،ایس اے پبلی کیشنز،دہلی،199،ص182
  18.      مضمون مالک رام کی تصنیفات و تالیفات،ضیاء الدین اصلاحی،ماہنامہ آجکل مالک رام نمبر،اپریل 1994,، ص12
  19.      ماہ نامہ کتاب نمانئی دہلی،رشید حسن خان نمبر،2002،ص74
  20.      تدوین متن کی روایت آزادی کے بعد،ڈاکٹر صابر علی سیوانی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی،2021،ص697
  21.      مضمون خطوط غالب مرتبہ خلیق انجم کی روشنی میں،کمال احمد صدیقی،کتاب نما خصوصی شمارہ،ڈاکٹر خلیق انجم شخصیت اور ادبی خدمات،مکتبہ جامعہ،نئی دہلی،1991,ص27


Abdul Bari

C-145/1, Ground Floor

Tayyab Lanne, Shaheen Bagh

New Delhi - 110025

Mob.: 9871523432


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

علم طب، ماخوذ ازہمارا قدیم سماج، مصنف: سید سخی حسن نقوی

  ماہنامہ اردو دنیا، جولائی 2024 علم طب کی ابتدا بھی ویدک دور ہی میں ہوگئی تھی۔ اتھرووید میں بہت سی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر موجود ہ...