31/1/23

1857 کی جنگ اور صادق الاخبار، دہلی : مخمور صدری

 

تلخیص

ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میںاردوصحافت کاکردارہندوستان کی قومی تاریخ کا ایک ولولہ انگیزباب ہے۔اردوصحافیوں نے آزادی کی جدوجہد میں کافی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔قوم وملک میں بیداری،انقلاب وتغیروتبدیلی لانے میں بڑاہاتھ اخبارات کا ہے۔ان اخبارات کے اوراق میں وہ معلوماتی خزانے پوشیدہ ہیں جوکسی شاعر کے کلام اور ادیبوں کی تصنیفات میں نہیں ہیں۔

1857کی جنگ آزادی میں جن اخبارات نے سرفروشانہ اندازاختیارکیاان میں مولوی محمد باقر کا ’دہلی اردواخبار‘(فروری1837) سیدمحمدکا ’سیدالاخبار‘ (1837)،سیدجمیل الدین کا ’صادق الاخبار‘ (1845 )، مولوی کریم الدین کا’کریم الاخبار‘ (1845) منشی ہرسکھ رائے کا ’کوہ نور‘ (1850) محمد یعقوب انصاری کا ’طلسم لکھنؤ‘ (1854) اور ’سحرسامری،لکھنؤ‘ ہیں۔ یہ اپنے عہد کے سب سے بہتر، بااثر اور دلیر اخبارات تھے۔ ان اخبارات نے1857 کی جنگ آزادی کی فضا تیار کی۔ بالخصوص سیدجمیل الدین خاں ہجرکے اخبار ’صادق الاخبار‘نے نمایاں کرداراداکیا، جس نے بغا وت کے جذبات کی تخم ریزی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا،جنگ کے دوران مجاہدین کے جذبات واحساسات کی بھرپور ترجمانی  بھی کی۔

          کلیدی الفاظ

صادق الاخبار، سید جمیل الدین خاں ہجر، امداد صابری، نیشنل آرکائیوز آف انڈیا، خواجہ حسن نظامی، جنگ آزادی، مئی 1857، بہادر شاہ ظفر، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، شاہ ایران، برٹش حکومت، دہلی، بغاوت۔

—————

ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میںجس اخبارنے نمایاںحصہ لیاوہ سیدجمیل الدین خاں ہجرکا اخبار ’صادق الاخبار‘ ہے۔یہ ہفتہ واراخبار1854کوجمیل پورہ عرف چوڑی والان دہلی سے جاری ہوا۔1؎   جو ہر دوشنبہ کوطبع ہوکرشائع ہوتا تھا، ماہانہ ایک روپیہ،پیشگی ششماہی پانچ روپے اورسالانہ پندرہ روپے تھا۔ محصول ڈاک خریدارکے ذمے تھا۔اخبار کاسرورق بیل بوٹوں سے آراستہ ہوتاتھا۔ لوح کے اوپری سرے پر چاند کا نشان تھا،اس کے نیچے ’اللّٰہ جمیل یُحِبُّ الجمال‘لکھا ہوتا تھا۔یہ اخبار لیتھوپریس میں چھپتا تھا اور اس کی اشاعت دو سو تھی۔ جب کوئی اہم خبرآتی، اس کاضمیمہ نکل آتا تھا۔ اگرکوئی مضمون یا خبر چھپوانے کا خواہش مند ہوتاتورفاہِ خاص کے لیے فی سطردوآنہ مقررتھا۔ رفاہِ عام کے لیے ہوتاتو مفت چھپتا تھا ساتھ ہی تاکیدبھی کی جاتی تھی کہ مضمون پرصفائی کے ساتھ دستخط کرکے مالک ومہتمم صادق الاخبار دہلی کوبہ ذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ یہ اخبارنہ صرف دہلی میں پڑھاجاتاتھا بلکہ باہربھی جاتاتھا۔ اس کے خریداروں اور مداحوں میں ہندو اور مسلمان سبھی شامل تھے۔

’صادق الاخبار‘کے نام سے دہلی سے چاراخبارجاری ہوئے تھے۔اول وہ اخبارجوپہلے فارسی میں تھا اور پھر اردومیں نکلنے لگا۔بقول احسن الاخبار،بمبئی

’’صادق الاخبارکے ایڈیٹرصاحب نے رفتہ رفتہ اپنے اخبارکو اردو زبان کا اخبار بنا دیا ہے، سمجھ میں نہیںآتاہے کہ انھوں نے فارسی زبان سے کیوں رابطہ الفت منقطع کردیا۔ شایداخبار کے خریداروں نے تقاضاکیا ہوگاکہ فارسی زبان کردو اور اردو میں اخبار جاری کرواس کے علاوہ تواورکوئی وجہ خیال میں نہیں آتی۔‘‘2؎

امداد صابری کے والدصاحب کے کتب خانہ میں مذکورہ صادق الاخبار7؍لغایت 25جنوری 1845 کا ایک پرچہ موجودہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ یہ اخبار1844میں ضرورجاری ہواہوگا۔3؎  نیشنل آرکائیوز کے سرکاری کاغذات میں 24اپریل1847کی تاریخ میں ایک صادق الاخبارکااندراج ملتا ہے جو غالباً یہی صادق الاخباررہاہوگا اورایڈیٹرکانام شیخ امدادحسین تھا۔4؎غالباً یہ اخبار1850 سے پہلے بند ہو چکا تھا۔5؎

دوسرا صادق الاخبار1853کودہلی سے جاری ہوا،مہتمم مصطفی خاں تھے۔6؎بقول گارساںدتاسی

’’صادق الاخبارجسے مصطفی خاںمصطفائی پریس کے منیجرنکالتے تھے۔یہ پریس پہلے لکھنؤ میں تھا، لیکن چندخاص وجوہ کی بناپرکارخانہ وہاں بندکردیاگیا۔اس کے بعدمصطفی خاں نے اس کی دونئی شاخیں ایک کانپوراوردوسری دہلی میں قائم کیں۔ یہ پرچہ دہلی سے شائع ہوتا ہے ....‘‘7؎

یہ اخبارایک سال سے بھی کم عرصہ جاری رہا۔8؎

تیسر اصادق الاخبارجنوری1856 میں نکلا۔اس کے اڈیٹرشیخ خدابخش تھے۔جس کاصرف ایک نمبرنیشنل آرکائیوز آف انڈیامیں محفوظ ہے۔9؎

چوتھااخبارجنوری1854 میں جاری ہوا۔ اس کے مالک ومہتمم سیدجمیل الدین خاں ہجرتھے۔ جو 1857 کے انقلاب میں بے حد مقبول تھا۔باقی دونوں اخبار ایک ہی نام سے ایک دوسرے کے دوش بدوش 1857کے انقلاب کے آخر تک نکلتے رہے۔ لیکن مقبول عام ’صادق الاخبار‘وہی تھا جسے سیدجمیل الدین خاں نکالتے تھے۔ 10؎

1857میں بغاوت کے سلسلے کی جودستاویزیں محفوظ ہیں،اس میں’’24جون1857جوبہادرشاہ ظفرنے ایک شخص جمیل الدین کواجازت دی کہ وہ ایک اخبار جاری کرے۔ لیکن ساتھ ہی ہدایت صادر کی کہ اس میںنہ جھوٹی خبریںچھاپی جائیں اور نہ ایسے بیانات درج کیے جائیں جن میں معززافراد کے اخلاق پربالواسطہ یابلاواسطہ حملہ کیا گیاہو۔‘‘ 11؎  بقول عتیق صدیقی خدا جانے وہ اخبارجاری ہوا یا نہیں اوراگرجاری ہواتوکس نام سے۔

صادق الاخبار،دہلی اپنے عہد کادوسرا بڑااخبارتھا۔اس میںبیرونی خبروںکے علاوہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی خبروںکے ساتھ ایک اشتہاربھی شائع ہوتاتھا۔غزلیں،مثنویاں،قطعات،مسدس اور مرثیے ہوتے تھے۔اس میںاچھے اچھے مضمون اور مسلمانوں کی دلچسپی کا مواد انگریزی اخباروں سے بھی ترجمہ کرکے چھاپاجاتاتھا۔ اس کی اشاعت اپنے تمام ہم عصروںسے زیادہ تھی اور خریداروں کے حلقے سے قارئین کاحلقہ بہت زیادہ بڑاتھاکیونکہ ایک ایک اخبار کئی کئی لوگ پڑھتے تھے۔اس میں ایران اور روس کے بارے میں جتنے مضامین چھپتے تھے ان کااندازتحریراورلہجہ انگریزوں کے خلاف ہی نہیںبلکہ تلخ بھی تھا۔ 12؎

’صادق الاخبار‘کاشمار اپنے دورکے نمائندہ اخباروںمیںہوتاتھا۔ اس کاایڈیٹرومالک خوددار انسان تھا۔ملک اور قوم سے اس کومحبت تھی،ظلم وناانصافی برداشت نہیں کرتاتھا۔ اس اخبارنے اوراس کے ایڈیٹرنے جنگ آزادی 1857 کو کامیاب کرنے کی سعی کی اورقلم کے جوہردکھائے۔جس کی پاداش میں اس کو اسیرفرنگ بھی بننا پڑا۔13؎

جنگ کی ناکامی کے بعد بہادرشاہ پر مقدمہ قائم کیاگیاتو’صادق الاخبار‘کے چند مضامین کو سرکاری وکیل نے بطورشہادت استغاثہ فراہم کیاتھا۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب ’بہادرشاہ کامقدمہ‘ میں سرکاری حوالوںسے ’صادق الاخبار‘ پرروشنی ڈالی ہے اورلکھاہے کہ بہادرشاہ ظفرکے مقدمہ میں’صادق الاخبار‘ کوبہت گرم اورمنہ زوراخباربیان کیاگیاتھا۔ دہلی کا چنی لال نامی ایک شخص قلمی اخبار نکالتا تھا۔ اس نے بیان دیا ہے کہ ’’مجھے یاد ہے، بعض مواقع پر میں نے کارتوسوں کے مسئلے اور اس پر فوج کے باغیانہ جذبے کی طرف بھی اشارے کیے تھے..... اس نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ ایران و روس کے بارے میںجتنے مضامین چھپتے تھے ان کا انداز تحریر اور لہجہ انگریزوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ تلخ بھی تھا۔جب حکیم احسن اللہ خاںسے ’صادق الاخبار‘کے بارے میں دریافت کیاگیا توکہاکہ بہادرشاہ ظفر ’صادق الاخبار‘ کا باقاعدہ مطالعہ نہیں کرتا تھا۔ البتہ یہ ممکن ہے وقتاًفوقتاًاس کے بعض اقتباسات اس تک پہنچادیے جاتے ہوں۔ میںنے خودیہ اخبارکبھی نہیں پڑھا۔ لیکن سناہے کہ اس اخبارمیں عام طورپر یہی بتایا جاتا تھاکہ ایرانی انگریزوں کو شکست دے رہے ہیں۔شہزادے اس کی خبروں کو اہمیت دیتے تھے اوران کی صحت پریقین رکھتے تھے۔ ‘14؎

مقدمے کے گیار ہویں دن (یعنی9فروری1858)کی کارروائی میں قلمی اخبارکے رپورٹر چنی لال پر وکیل سرکارنے جرح کی جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے

سوالکیادہلی سے کوئی ایسے اخبارنکلتے تھے جن کامنشاء گورنمنٹ برطانیہ کی مخالفت ہو؟

جوابایساایک پرچہ تھاجمیل الدین کی طرف سے ہفتہ وارشائع ہوتاتھا۔اس کے مضامین گورنمنٹ سے عداوت ظاہرکرتے تھے اوراس کو’صادق الاخبار‘کہتے ہیں۔

سوالکیایہ پرچہ کثرت سے شائع ہوتاتھااورچھپاہواہوتاتھا۔

جواباس کی تعداداشاعت شہرمیں اورشہرکے باہردوسوتھی اورلیتھوپریس میں طبع ہوتاتھا۔

سوال  کیایہ پرچہ اپنی ہفتہ واراشاعت پراکتفاکرتاتھایاخبریں بہم پہنچنے پرـضمیمے بھی نکالاکرتاتھا؟

جوابجی ہاں،غیرمعمولی خبریں آنے پرضمیمہ جات بھی شائع کرتا تھا۔

سوال  کون اورکس طبقے کے افرادمیں اس کی اشاعت زیادہ ہوتی تھی؟

جوابہرطبقے میں بلاتخصیص مذہب کے یہ مقبول تھا۔

سوال  اتنے بڑے شہردہلی کے لیے مقبول عام اخبارکی دوسوکاپیاںتوبہت کم ہیں۔کیایہ ہندوستانیوں کے مزاج میں ہے کہ ایک اخبارکئی لوگوںکوسنانے کے لیے خریدلیاجائے۔ ایک پرچہ کس طرح میںمروج ہے کئی خاندانوں کے لیے کافی ہوتاہوگا؟

جوابجی ہاں خریدارپڑھ کراپنے اپنے پرچے دوستوںاورعزیزوںکوپڑھنے کے لیے دے دیتے ہیں۔

سوال  کیادہلی میں ’صادق الاخبار‘مقتدرآرگن ماناجاتاتھااورتعداداشاعت میںدوسرے پرچوں سے بڑھ کرتھا؟

جوابجی ہاںیہ مقتدرآرگن خیال کیاجاتاتھا۔اس کے مضامین نہایت عمدہ اورانگریزی اخبارات کے اقتباس ہوتے تھے۔یہ مسلمانوںمیں بہت منظورنظرتھا۔دیگراخبارات سے اس کی کثرت اشاعت میں توازن تومیں نہیں کر سکتا البتہ وہ بہ نسبت کسی ہندوستانی ہم عصرکے زیادہ طبع ہوتاتھا۔

سوال  تم نے بیان کیاکہ وہ گورنمنٹ برطانیہ سے عداوت رکھتاتھا۔کیاتمہیں کوئی خاص مضمون یادہے جس میں ایسے جذبات کوظاہرکیاگیاہو؟

جوابمیں ایساکوئی خاص مضمون یادنہیں رکھ سکاجس میںایسے جذبات کوزیادہ وضاحت سے ظاہرکیا گیا ہو۔ لیکن ایران وروس کے متعلق جوکچھ لکھتاتھااس میںانگریزوں کے لیے الفاظ سخت برتتاتھا۔15؎

سرکاری وکیل نے مقدمہ بہادرشاہ ظفرمیں بحث کے دوران’صادق الاخبار‘کے اقتباسات نقل کرتے ہوئے کہاکہ:

’’حضرات آپ کویادہوگاصادق الاخبارکی کاپیاںمحل میںجایاکرتی تھیںاورہرشخص ان خوشیوں کا اندازہ لگاسکتاہے جوایسی خبریںپڑھ کر ہو سکتی ہیں خصوصاًاس قسم کی خبریں کہ زار روس چار لاکھ جرار لے کر آرہا ہے نیزتسخیرہندکے لیے ایرانیوں کی مدد پہنچنے والی ہے وغیرہ اور صرف اہل قلعہ یا شہزادوں ہی کوان خبروںکوسننے سے خوشی نہیں ہوتی تھی بلکہ تمام آبادی ایسی خبروںکوسنتی تھی اورمارے خوشی کے پھولے نہیں سماتی تھی۔16؎

سرکاری وکیل میجرایف جی ہیرئیٹ نے فوجی عدالت میںجوطویل بیان دیااس میں 1857 کے انقلاب کی وجوہ پرروشنی ڈالتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کی کہ یہ انقلاب جن وجوہ کی بنا پربرپا ہوا،اسے شہ ملی، اس میں قلعہ معلی اورصحافت کے درمیان سازش کارفرماتھی۔ 1857 سے قبل کے اخباری تراشوںکاحوالہ دیتے ہوئے وکیل استغاثہ نے دلیل دی کہ اخبارات نے جنوری کے مہینے میں یہ خبردرج کی کہ روس اورترکی انگریزوں کے خلاف جنگ میں ایران کی مددکریں گے اورشہنشاہ روس نے چار لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فوج اس مہم کے لیے تیارکی ہے۔ اسی اخبارنے بتایا کہ شاہ ایران نے فیصلہ کرلیاہے کہ کون کون سے درباری کوممبئی،کولکتہ اورپونہ کی گورنری سونپی جائے اوراس نے وعدہ کیا ہے کہ بادشاہ ہندوستان بھر کابادشاہ ہو گا۔17؎

بادشاہ اور شہزادے اس اخبارکوبہت شوق سے پڑھتے تھے اورعوام میں بھی اس کی ازحدمقبولیت تھی.... اور اسباب غدرمیں ایک سبب یہ اخبار اور اس کی پرجوش خبریں اور تحریریں بھی سمجھی گئی تھیں۔18؎

جنگ آزادی کے بعد اس پر بغاوت کامقدمہ چلایاگیا کمپنی اوران کے مخبروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لوگوںکوبھڑکانے اوربغاوت پرآمادہ کرنے میں سب سے زیادہ اسی اخبارنے حصہ لیاہے۔

نیشنل آرکائیوزآف انڈیا،نئی دہلی میں ’’صادق الاخبار‘‘کے تقریباً بارہ شمارے موجودہیں۔ان میں محمدعتیق صدیقی نے جلدچہارم کے ابتدائی چھ شماروں( 6جولائی، 20جولائی، 27جولائی، 3اگست، 10اگست اور17اگست)  کا مکمل متن اپنی کتاب ’اٹھارہ سوستاون اخباراوردستاویز‘ میںمحفوظ کردیا ہے۔  البتہ دیگر شمارے دستیاب نہیں ہوئے ہیں۔ایک مختصر کتاب خواجہ حسن نظامی نے ’غدردہلی کے اخبار‘ کے نام سے مرتب کی ہے۔19؎یہ کتاب مع مقدمہ 26 صفحات پر مشتمل ہے۔اس مجموعے میںکل تیرہ اقتباسات ہیں۔ یہ تمام اقتباسات بہادرشاہ بادشاہ دہلی کے مقدمہ میںپیش کیے گئے تھے جو 1857 میں بعدخاتمۂ غدر دہلی کے بادشاہ پرانگریزوںکی طرف سے قائم کیاگیا تھا۔20؎ اس میں جنوری1857 سے لے کرستمبر1857 کے اقتباسات جمع کیے گئے ہیں۔ گویاجنگ کے چارمہینہ پہلے کے مضامین بھی اس میں ہیں اور عین جنگ کے دن کے اقتباس بھی ہیںاور پھر جنگ کے بعدچارمہینے تک کے اقتباسات ہیں۔

 بہادرشاہ کے خلاف مقدمے کی رودادمیںاخبارات دہلی سے چودہ اقتباسات دیے گئے ہیں۔ اصل اردو اور فارسی کے اقتباسات کاریکارڈموجودنہیں،صرف انگریزی تراجم موجودہیں۔خواجہ حسن نظامی مرحوم نے انہی کو دوبارہ ترجمہ کراکے ’غدردہلی کے اخبار‘کے نام سے چھاپ دیاتھا۔ترجمے میںجابہ جاسقم ہے،بلکہ بعض جگہ تلخیص بھی کر دی گئی ہے۔ یہ اقتباس خاصے طویل ہیں۔زیادہ تر ’صادق الاخبار‘ سے ہیں۔باقی ’اردواخبار‘ اور ’خلاصۃ الاخبار‘ سے لیے گئے ہیں۔ چودہ میں سے سات اقتباس جنگ سے پہلے کے ہیں،سات دوران جنگ کے۔21 ؎تمام اقتباسات جنھیںسرکاری وکیل نے بہادرشاہ ظفر کے مقدمے میںبطورثبوت پیش کیاتھا۔ جو ایک ضخیم کتاب ’ٹرائل آف بہادرشاہ‘کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئی تھی اوردہلی کی سرکاری لائبریری   میں بھی اس کی اصل انگریزی کاپی موجود ہے۔22؎لیکن اس کا نہ ترجمہ درست ہے،نہ ایڈٹنگ صحیح ہے۔23؎ ان اقتباسات کے متعلق خواجہ حسن نظامی کاکہنا ہے کہ

’’سمجھ میںآسکتاہے کہ کئی کئی دفعہ کی الٹ پھیر میں’صادق الاخبار‘کی اصلی طرز تحریر کا رنگ بالکل بدل گیاہوگا اوروہ کیفیت ترجمہ کے اس تیسرے قالب میںنہیںآسکتی جو ’صادق الاخبار‘کی اصل اردومیں ہوگی۔‘‘24؎

خواجہ حسن نظامی نے اس کتاب میںیہ ثابت کرنے کی شش کی ہے کہ مدیرسیدجمیل الدین خاں ہجر انگریز دشمن نہ تھے یا انہوں نے اپنے اخبارکے ذریعے 1857 کی جنگ میںانگریزوں کے خلاف نفرت و عداوت پیداکرنے کوشش کی ہو۔خواجہ حسن نظامی نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے

’’اس اردوپرچے ’صادق الاخبار‘کااڈیٹربرطانوی گورنمنٹ کادشمن نہ تھا۔ایساکوئی مضمون یاکوئی خبر شہادت میں پیش نہیںہوئی جس میں اڈیٹرنے برطانیہ کے خلاف کچھ لکھا ہویا انگریزوںکے خلاف نفرت و عداوت پیدا کرنے کی کوشش اس سے پائی جاتی ہو۔ ’صادق الاخبار‘نے صرف ایران وکابل وروس کی خبریںلکھی ہیں اور ان پررائے زنی کرنے میں ایک سچے اورصاف گو اخبار نویس کی طرح لکھ دیاہے کہ برطانوی قوت بہت بڑی ہے اوراس کوخطرے میں سمجھناغلطی ہے۔اس اخبارنے اپنے ناظرین کوخوش کرنے کے واسطے بے عقلی کی کوئی بات نہیں لکھی اورجس چیز میں خلاف عقل مبالغہ معلوم ہوا۔اس کی پرزور تردیدکردی اوربرطانوی حکومت کازوراوراس کی خوبیاں ناظرین کوصاف بتادیں تاکہ ان خبروںسے مغالطے پیدانہ ہوں۔25؎

خواجہ حسن نظامی نے اپنے مقدمہ میں ’صادق الاخبار‘کو ایک مصلحت پسنداخبار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور کئی دلائل بھی پیش کیے ہیں جوبہادرشاہ ظفرکے مقدمے میںاس اخبارکے اقتباسات کو استغاثے کی تائیدکے خلاف عقل قراردیاہے کیونکہ ان کے اس اخبار نے افواہوں کی اعلانیہ تکذیب کی ہے اوران کے خلافِ عقل بتایاہے۔خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب میں عین جنگ کے دن کے اقتباسات کے حوالے دے کریہ ثابت کیاہے کہ اس میںحکومت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیںہے

’’بہت تعجب خیزنکتہ ان اقتباسات میںیہ ہے کہ’ صادق الاخبار‘کے وہ مضامین بھی منتخب کیے گئے ہیں جوعین غدرکے دن اورغدرکے چارمہینہ بعدشائع ہوئے مگران مضامین میںبھی برٹش گورنمنٹ کے خلاف ایک لفظ نہیں ہے۔ حالانکہ اخبارنویس کوغدرکے بعدجبکہ انگریزوں کا نشان بھی باقی نہ رہا تھااورتمام ملک میںبرٹش سلطنت ایک امیدوبیم بلکہ نابود ہونے کے خطرے میں پڑی ہوئی تھی اور جبکہ ہندومسلمان دونوںانگریزوںکے خلاف مضامین چھپنے سے خوش ہوسکتے تھے اورجبکہ ایڈیٹر کو بظاہراسباب انگریزوں کا کچھ خوف باقی نہ رہاتھا۔پھربھی ’صادق الاخبار‘ میںبرٹش گورنمنٹ کے خلاف کوئی مضمون نہیں چھپا۔اگرچھپتاتوسرکاری وکیل اس کواستغاثہ کی شہادت میںضرورشریک کرتا۔‘‘26؎

یہی نہیںبلکہ خواجہ حسن نظامی نے’صادق الاخبار‘کے ایڈیٹرکودوراندیش،گہری نظروالااورنہایت تجربہ کارشخص قراردیا ہے۔ ان میںجوش اورجذباتیت برائے نام بھی نہیںتھا۔جنگ کے حالات کوبہت محتاط ہوکراورعقل کی کسوٹی پر پرکھ کردیکھ رہے تھے۔خواجہ حسن نظامی ایڈیٹرکوایک بلند اخلاقی قوت کامالک قراردیتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں

’’صادق الاخبارکی اس خاموشی واحتیاط سے اس امرپربھی روشنی پڑتی ہے کہ اس کے اڈیٹر کی نظر بہت گہری تھی اور وہ نہایت تجربہ کار اورفوجی وملکی حالات کابہت اچھا مبصر تھا اوراس نے سمجھ لیا تھاکہ موجودہ غدر برٹش سلطنت کاکچھ نہیں بگاڑسکتا اور ہندوستان کی فوج وسیاسی تدابیر انگریزوںکے فوجی اورسیاسی توڑجوڑ پرفتح نہیں پاسکتیں۔ اس واسطے اس نے کوئی مــضـمون غدر کرنے والوں اور ان کے حامیوںکی تائید میں نہیںلکھا۔یہ بات بھی ہندوستانی اخبارنویسوںکے لیے باعث فخرہوسکتی ہے کہ ان میں اس دل ودماغ کے اڈیٹرہوسکتے ہیں جیساکہ ’صادق الاخبار‘ کا اڈیٹر تھا۔‘‘27؎

 لیکن ’بغاوت ہند‘کے بیان سے’صادق الاخبار‘کے متعلق کچھ دوسراہی رخ سامنے آتاہے

’’صادق الاخبار،دہلی میںایک اخبارنکلتاتھا۔جس کامہتمم جمیل الدین تھاجس کواس جرم میںکہ وہ سرکارکی بدخواہی کی خبریںجھوٹی گڑھ کرلکھاکرتاتھا۔تین برس کی قید ہوئی۔ اس کے پرچوں اور دہلی سے اردو اخبار کے پرچوں سے بہت سی خبریں دستیاب ہوئیں۔ اخباروں نے دلیلوںکی پیشین گوئی بھی برٹش گورنمنٹ کے ختم ہونے کی چھاپی تھیں۔ اخباروںمیں سید نعمت اللہ شاہ متخلص ولی ہانسوی کے قصیدے کے اشعار لکھے جاتے تھے یہ قصیدے بھی عجیب ہیں کہ جوواقعات ہوتے جاتے ہیںوہ قصیدے کے دم چھلابنائے جاتے ہیں۔اورولی کی پیشین گوئیاںیقین کی جاتی ہیں۔‘‘28؎

مولوی ذکاء اللہ نے بھی اپنی کتاب ’تاریخ  عروج انگلیشیہ‘میں لکھاہے کہ صادق الاخباردہلی میں ایک اخبار نکلتا تھا جس کامہتمم جمیل الدین تھا۔جس کواس جرم میں کہ وہ سرکارکی بدخواہی کی خبریں جھوٹی جھوٹی گڑھ کر لکھتا تھا تین برس قید ہوئی۔اس کے پرچوںمیں سے اور’دہلی اردواخبار‘کے پرچوںمیں سے بہت سی خبریںانتخاب ہوئیں اور ان کاترجمہ کورٹ میں بروقت تحقیقات پیش ہوا۔ 29؎

لیکن ’صادق الاخبار‘کے دیگرشماروںسے یہ واضح ہوتاہے کہ’صادق الاخبار‘ نہایت جری، بیباک، جنگ ِآزادی کا علمبرداراورانگریزدشمن اخبار تھا۔ 1857کی جنگ آزادی کے چھڑتے ہی اس اخبارکی حمایت وہمدردی مغل فرماروا بہادرشاہ ظفر سے وابستہ ہوگئی تھی اوراس نے اعلانیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی فتح یابی کی نوید دینی شروع کردی تھی۔ یہ اخبارہرممکن کوشش کرتاتھاکہ یہ آزادی کی جنگ کامیاب ہو اورہندوستان سے انگریزوں کے اقتدارکاخاتمہ ہو۔30؎

1857میںجنگ آزادی کے شعلے بلندہوئے تو’صادق الاخبار‘(دہلی) نمایاںطور پر سرگرم ہوگیا۔ جنگ کی ابتداہی سے ان میں غم وغصے کے دبے ہوئے طوفان دیکھے جاسکتے ہیں۔جیسے جیسے بغاوت رونماہوئی صادق الاخبارنے فرنگیوں کے خلاف باغیانہ تیوردکھاناشروع کردیا۔اخبارنے اپنے صفحات کوجنگ کی خبروںکے لیے وقف کردیا تھا۔یہ ایک ایسااخبارتھاجس نے کھل کرباغیوںکی حمایت کی۔ ہندوستانیوں پر ہو رہے مظالم اورسرکارکمپنی کی بدانتظامی کاپردہ فاش کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ یہ اخباربہت بے باکی سے اپنی رائے کا اظہارکیاکرتاتھا۔ مجاہدین میںآزادی کا جذبہ بیدارکیا۔مجاہدین کی ہمت بڑھانے کے لیے خبریں اوراپیلیںشائع کیں۔ غیرملکی فوجوں کی آمدکی اطلاع چھاپی جاتی تھی۔ دہلی کی جنگ آزادی میںمجاہدین دشمنوںکاقلع قمع کرتے، ایسی خبروں سے بھی اخبار کو مزین کیا جاتا تھا۔

مئی 1857کے قبل سے ہی ہندوستان میںبے چینی اوراضطراب کے اسباب ومحرکات پورے زوروشورسے کارفرما تھے کہ کارتوس کاواقعہ رونماہوا۔انگریزی سرکار نے دیسی فوجیوںکوسوراورگائے کی چربی لگی ہوئی کارتوس استعمال کے لیے دی تھی۔چونکہ نئے کارتوسوںکواستعمال کرتے وقت دانتوں سے کاٹناپڑتاتھا۔لہٰذاافواہ پھیلی کہ اس طرح انگریز ہندوؤںاورمسلمانوںکے مذہب میںخلل ڈالنا چاہتے ہیں۔جس کی وجہ سے سپاہیوںمیں کافی ناراضگی اوربے چینی پیدا ہوگئی تھی اورپورے ملک میں بغاوت کی شکل لے لی تھی۔ 20 اپریل1857 کے’صادق الاخبار‘میں انبالہ اورسیالکوٹ کے کارتوس کے ضمن میں انحراف اور آگ زنی کے متعلق ایک خبرملتی ہے۔ کیونکہ انبالہ میںبھی کارتوسوںکی ٹریننگ کا مرکزقائم کیا گیا تھا اور کمانڈرانچیف جنرل آنسن یہیںمقیم تھا،یہاںدیسی سپاہ کے افسروںنے کارتوسوں پر بے چینی کا اظہارکیا اور کارتوس کاٹنے والوںکو عیسائی ہوجانے کے طعنے دیے۔ مسٹر کے۔ سی۔ یادونے اپنی انگریزی کتاب ’ہریانہ میں1857‘میںتفصیل سے کارتوسوں کے واقعات سرکاری ریکارڈ کے حوالوںسے بیان کیے ہیں۔ چنانچہ 20اپریل 1857 کے ’صادق الاخبار‘ کے شمارے میں فرینڈآف انڈیاکے حوالے سے لکھا ہے کہ تمام سپاہ نے نئے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس وجہ سے وہاںفسادہوگیاہے نیز کچھ پلٹنیںجوبنگال گئی تھیں،ان میں سے ایک توموقوف ہوگئی ہے اوراس کے افسروںکوپھانسی دے دی گئی۔صادق الاخبارکی خبریوںہے

’’سرکشی افواج انبالہ صاحب فرینڈآف انڈیاتحریرکرتے ہیںکہ ان دنوں تمام سپاہ انگریز نے نئے کارتوسوںسے سرتابی کرناشروع کردی ہے چنانچہ چندروزہوئے کہ علاقہ بنگال میں کچھ پلٹنیں پھر گئی تھیں۔ ایک تو ان میںسے موقوف ہوئی اوراس کے افسران کوبھی پھانسی کا حکم ہواتھا— پلٹن گورکھانمبر16مقیم انبالہ نے بروقت قواعدعمل درآمد کاکارتوسوں سے انکار کیا۔افسرشاہی نے ایک ہندوستانی توپ کوحکم زیرکرنے سرکش پلٹن کادیااوران پر فیر کرنے شروع کردیے۔کہتے ہیںکہ اس طوفان بے تمیزی میںایک بارک گوروںکی پچھلی رات جل کر خاک ہوگئی اورایک ہندوستانی پیادوں کا ڈیرہ جوکہ فاصلہ میل بھرکارکھتاتھاپھنک گیا۔ ازروئے ایک چٹھی سیالکوٹ کے ظاہر ہوا کہ یہاں کے سپاہی بھی نئے کارتوسوںکی قواعدسے بگڑتے ہیںاوربجائے دانتوں کے ہاتھوںسے کارتوس توڑتے ہیں۔لوگوںکے دل کاشک ابھی رفع نہیں ہوا۔‘‘ 31؎

ہندوستان کی آزادی کے لیے ملک میںپیہم کوششیںکی گئیںاوراعلانات اوراشتہارات شائع کیے گئے۔بعض مؤرخوںنے ایک اشتہارکاذکر کیاہے جوکسی ایرانی شہزادے کے خیمے سے جنگ ایران کے زمانے میںبرآمدہواجس میںایران اورافغانستان کے حالات بتاتے ہوئے انگریزوںکے خلاف جہادکی دعوت دی گئی تھی۔یہ ضرورسچ ہوسکتاہے کہ جنگ ایران کے دوران شاہ ایران نے بہادرشاہ سے خط و کتابت کی اورایک نمائندہ دہلی سے ایران بھیجاگیا۔ اسی زمانے میںکچھ اشتہارات دہلی میں چسپاں کیے گئے۔ جامع مسجدکے دروازے پر ایک اشتہارپایاگیاجس میںڈھال اور تلوارکی شکل بنی ہوئی تھی۔ اس میں کہا گیاتھاکہ شاہ ایران عنقریب آنے والے ہیں اور مسلمانوں کوچاہیے کہ انگریزوں سے جہاد کے لیے تیار ہو جائیں۔مٹکاف نے بہادرشاہ کے مقدمے میںبیان دیتے ہوئے کہاہے کہ اس پرپانچ سو مسلمانوںنے جہادپرآمادگی ظاہرکی تھی۔ کہا جاتاہے کہ بغاوت سے چند روز پہلے بھی ایک اشتہار جامع مسجد میں چسپاں کیا گیاجس میںبغاوت کی جانب اشارہ تھا۔ دہلی میںدوسری جگہوںپربھی اشتہارات لگائے گئے۔32؎ساور کرنے بھی اپنی کتاب میں دہلی کے عوام کے جذبات اوراشتہارات کا ذکر کیا ہے۔33؎ یہ اشتہارتین گھنٹے تک چپکارہا،لیکن جب مجسٹریٹ کواطلاع ملی تواس نے فوراً ہی اکھڑوا ڈالا۔34؎ ان کاذکراس دور کے بیشتراخبارات میںبھی ملتا ہے۔صادق الاخبارمیںبھی کئی اشتہاروں کا ذکر ملتا ہے۔ 16 مارچ 1857،جلد3 ’صادق الاخبار‘ کے شمارے میںایک اشتہار شائع ہوا تھاجس میں ہے کہ شاہ ایران نے ہراتی کے چند سرداروںاورکئی اراکین سلطنت کودربارمیںبلاکرجنگ کے سلسلے میں صلاح ومشورہ کیاتھا ہرایک وزرا نے یہ صلاح دی کہ اب انگریزوںسے جنگ کریںان شاء اللہ فتحیاب ہوں گے۔ یہ سن کرشاہ ایران نے کہاکہ اگرمجھے ہندوستان پرفتح نصیب ہوئی تومیںتم لوگوں کو وہاںکاصوبے داربناؤںگا۔وہ خبر اس طرح درج ہے

’’تازہ بمبئی پیرمصدورہ دفترصادق الاخبارسے منکشف ہواکہ ایک روز شاہ ایران نے سرداران ہراتی اورکئی اراکین سلطنت کودربارمیںطلب کرکے دربارجنگ ایران مشورت کی اوربعدغو رو تامل ہرایک نے یہی صلاح دی کہ آپ گورنمنٹ سے لڑیے۔ ان شاء اللہ فتح پائے گا۔کس لیے کہ ہرات آپ نے نہیںتسخیر کی بلکہ دروازہ ٔ ہند پر جاپہنچے علاوہ بریں مرضی شاہ روس کی بھی یہی ہے کہ انگریزوںسے آپ لڑیںاور ہندوستان پر قبضہ کریں۔شاہ نے یہ کلام ان کا سن کرقسمیہ کہاکہ میںتم سے بہت خوش ہوںکہ برخلاف وزیرنمک حرام کے صلاح دیتے ہواوروعدہ کیاکہ جس وقت میں ہندستان میں پہنچا توتم کوضرورصوبیداربناؤںگا اورشاہ دہلی کوتاج بخشی کروںگا۔‘‘35؎

دراصل شہرمیںجب بہادرشاہ ظفر کے شیعہ مذہب قبول کرنے کی خبرگرم ہوئی لہٰذا شیعہ ہونے کے ناطے شاہ ایران،بادشاہ کی مدد کوآئیںگے اورانہیںانگریزوںکے چنگل سے آزادکریںگے۔ چنانچہ غدرکے زمانے میںان اخبارات میںبھی اس قسم کی خبریں شائع ہوتی رہتی تھیں۔مارچ1857 میں شاہ ایران کی طرف سے جاری کیے گئے ایک اعلان کی کاپیاںگلیوںاورسڑکوں پرچسپاںکی گئی تھیں۔ چنانچہ ان کااندازاسلوب اورلہجہ انگریزوںکے خلاف ہی نہیں بلکہ تلخ بھی تھا۔دوسرااشتہاربہ نام نہادشاہ ایران کاجامع مسجددہلی کی دیوارپرچسپاںکیاگیاتھا کہ اہل اسلام و ہندو، عیسائیوںکی مدد معاونت سے باز رہیں۔ان شاء اللہ بہت جلدمیںسریرہندپرجلوہ گرہوںگا۔وہاںکے بادشاہ اوررعیت کو شادمان کروں گا۔ مجھے کسی کے مذہب سے کوئی غرض نہیں۔سب اپنے اپنے مذہب کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، ہتھیار اٹھالیں،اورجہادکریں۔خبرملاحظہ ہو

’’ایک اشتہار نام نہاد شاہ ایران دہلی میں گزرگاہوں پر آویزاں کیا گیا ہے..... خلاصہ مضمون اس کا یہ ہے کہ اہل اسلام کو نصارا کی مدد و معاونت سے پرہیز کرنا واجب ہے اور مناسب ہے کہ حتی المقدور مسلمانوں کی نیک خواہی میں مساعی اور عرق ریز رہیں۔  ان شاء اللہ تعالیٰ قریب ہے کہ میں سریر ہند پر جلوہ کر ہوتا ہوں اور وہاں کے بادشاہ و رعیت کو خردمند و شادماں کرتا ہوں جیسا کہ انگریزوں نے ان کو نان شبینہ سے محتاج کیا ہے۔ مجھ کو کسی کے مذہب سے کوئی غرض نہیں۔ پس واجب ہے کہ بوڑھے جوان، ادنیٰ، اعلیٰ، عقل مند، کم فہم، کسان اور سپاہی سب کے سب بے پس و پیش اپنے ہم مذہبوں کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، ہتھیار باندھ لیں علم اسلام بلند کریں۔ اور اپنے ہم قوموں کو بھی راہ خدا میں جہاد کرنے کی دعوت پہنچائیں۔‘‘36؎

شاہ ایران کے اس اعلان کے متعلق یہی مـضمون کسی حدتک تبدیلی کے ساتھ دہلی کے دوسرے نامور اخبار ’خلاصتہ الاخبار‘کی اشاعت مورخہ13 اپریل 1857 میں شائع ہواتھا۔خلاصتہ الاخبار کا اعلان  یوں تھا

’’ایرانچندروزہوئے کہ جامع مسجدکی دیوارپرایک اعلان چسپاں کیا گیاتھا۔ اس پہ ایک تلواراور ڈھال کی شکل بنی ہوئی تھی۔اوریہ اعلان شاہ ایران کے پاس سے آیا ہوا بتاتے تھے۔اس کاخلاصہ یہ تھا’’تمام سچے مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے کہ کمربستہ ہوکر شاہ ایران کی اعانت کریںاوروفاداری سے اس کی حکومت و اختیارکوملحوظ رکھیں اور انگریزوں سے جہاد کریںتاکہ انہیں تباہ وبربادکرکے اس کی عنایت کے مورد ہوں اور انعامات وخطابات حاصل کریںجوشاہ ایران فراخ دلی سے عطا کریں گا۔‘‘ پھر اعلان میں یہ بیان کیاگیاتھاکہ شاہ ایران یاجمشیدثانی بہت جلدہندوستان آئے گااوراس ملک کو خود مختاربنادے گااورایران میں عوام الناس جمع ہوکرحسب ذیل فقرہ بار بار تکرار کرتے ہیں ’’خدایاخاک ایران کو بدبختیوں کی ہواسے بچائیو۔جب کہ خاک وہوا باقی رہیں۔‘‘

مجسٹریٹ کی عدالت میںبیشمارگمنام درخواستیںوصول ہوئیںہیںاوران میںیہ بیان کیا گیا ہے کہ آج کی تاریخ سے ایک ماہ بعدکشمیرپرحملہ کیاجائے گا،جس کی فرحت افزائی اور خوبصورتی کاایک شاعرنے یوںخاکہ کھینچا ہے ’’اگرایک بلبل بصورت کباب کشمیرمیںلایا جائے توکشمیرکی ہواسے اس کے بھی بال وپرپیدا ہو جائیںگے۔‘‘

محرراخباران تمام باتوںکومزخرفات اورحمق پرمبنی سمجھتاہے کیونکہ اگرممالک حکومتوں کے ہاتھ سے یوںہی نکل جایاکریںتوفوجوںکا کیا فائدہ؟‘‘ 37؎

اس زمانے میںآئے دن یہ خبرعام ہوتی جارہی تھی کہ شاہ ایران ہندوستان فتح کرنے آرہے ہیں اور ان کی فوجیںہندستان کی سرحدمیں پہنچ چکی ہیں۔19مارچ1857کے صادق الاخبارکے مطابق دہلی کی جامع مسجدسمیت شہر کے کئی اہم مقامات پرمحمدصادق خان کے نام سے شاہ ایران کی جانب سے ایک اعلان چسپاںکیا گیا تھا۔ جس کے مطابق سالم ایمان کے مالک افرادکوغیرملکی عیسائیوںکی مدد کرنے سے گریزکرناچاہیے اوراپنی تمام ترصلاحیتیں مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لیے استعمال کرنی چاہیے اور خدا نے چاہاتوہم بادشاہ ایران ہندوستان کے تخت پرجلوہ افروزہوں گے اور یہاںکی عوام اوربادشاہ کوخوش و خرم بنادیںگے۔ہندوستان کے باشندوںکوتمام تروسائل کے باوجود انگریزوں نے مفلوک الحال بنا دیا ہے، ہم انہیںخوشحال بنادیںگے۔ 19مارچ1857کے صادق الاخبارمیںاس اعلان کا خلاصہ اس طرح شائع ہواتھا۔

’’اعلان شاہ ایراناعلان شاہ ایران کی کئی کاپیاںگلیوںاورسڑکوں کے نکڑ پرچسپاں ہیں، میرے ایک دوست نے اس اعلان کی بعینہٖ ایک نقل کرلی ہے جوجامع کی پشت پر چسپاں ہے۔اس اعلان کومتعددآدمیوں نے دیکھاہے، مختصراً اس کاماحصل یہ ہے کہ جو لوگ مذہب حق کادعوی کرتے ہیں ان کافرض ہے کہ عیسائیوںکومددنہ دیںاورحق و راست پرہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ترقی میں اپنی تمام طاقت صرف کردیں اوروہ وقت قریب، آرہاہے کہ جب مابدولت (شاہ ایران)تخت ہند پرمتمکن ہوں گے اور رعایا کو اتنا ہی خوش حال بنادیں گے جتناکہ انگریزوں نے مفلوک الحال کرکے ذریعہ معاش سے محروم کردیاہے۔ ہم کسی کے مذہب  میں دخل نہیںدیاکرتے ہیںاورنہ وہاں دیں گے۔‘‘38؎

صادق الاخبارکاایڈیٹرآگے لکھتاہے 

’’یہ ایک شخص محمدصادق نامی جس کے ذریعہ سے یہ اعلان کیاگیاتھاکہ 6تاریخ تک انیس ہزار ایرانی سپاہی مع چند معززافسران کے ہندوستان میں داخل ہوچکے ہیں اور خاص دہلی میں پانچ ہزارسپاہی تبدیل لباس میں مختلف صورتوں میں موجودہیں، وہ اپنی نسبت کہتاہے کہ 4؍ مارچ کو میں دہلی پہنچاجہاںاعلان چسپاں کردیے گئے ہیں۔ اس کابیان ہے کہ ہرحصۂ ملک سے اس کے پاس خبریں آتی رہتی ہیںاوروہ ہرشہرکی باقاعدہ اطلاع شاہ ایران کے پاس روانہ کرتارہتا ہے۔ آئندہ وہ ایرانی فوج کی نقل وحرکت بذریعۂ اعلان ہرفردوبشر پر ظاہر کر دیا کرے گا۔‘‘

لوگ کہتے ہیں کہ اعلان چندبے فکروںکاگھڑاہواہے اورمیںبھی ان کاہم خیال ہوں کہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ محمد صادق کے آخر دہلی آنے کا مدعا کیا ہے؟ اگر اس کا مقصد جنگ ہے تو اس طریقے سے اس کاآنابے سود ہے۔ اگر وہ جاسوس کی حیثیت سے آیا تو اپنے آنے کو مشتہر کرنابالکل بے عقلی اورمشن کے اخراجات میں بے کار روپیا ضائع کرناہے۔‘ ‘ 39؎

اس کے بعد22مارچ 1857کے صادق الاخبارمیںاس خبرکاذکرکرتے ہوئے اخبارکا ایڈیٹر لکھتا ہے کہ یہ اشتہار محمد صادق کے نام سے مرقوم ہے۔اس خبرکے ذریعے لوگوںکومطلع کیاگیاہے کہ جو کوئی اس جعل سازاورجھوٹے کوپکڑے گا اسے خاطرخواہ انعام دیاجائے گا

’’سابق میںچندمفسدین نے دہلی میں ہنگامہ برپاکرنے کے لیے یہ سمجھ کرکہ شہرت ہوگی، جامع مسجد کی پشت پرایک اعلان شاہ ایران کی طرف سے منسوب کرکے پبلک کومغالطے میں ڈالنے کے لیے چسپاںکردیاتھا۔ جس شخص نے یہ اعلان مشتہرکیاہے اپنانام محمدصادق بتایاہے۔یہ کہا جاتاہے کہ اس لغوولایعنی بات سے حکام دہلی بہت خفاہیں۔مجھے یقین ہے جوشخص اس جعل سازکاذب کوگرفتارکرے گاخاطرخواہ انعام پائے گا لیکن خدامعلوم وہ اب ہاتھ بھی آئے گایا نہیں۔‘‘ 40؎

پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے اپنے ایک مضمون ’اب سے آدھی صدی پہلے کے اردواخبار‘میں صادق الاخبارکے مذکورہ اشتہارکے متعلق تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔انھوںنے صادق الاخبارکے حوالے سے لکھاہے کہ ’’ایک شخص محمدصادق نامی جس کے ذریعے سے یہ اعلان کیاگیاکہ کہتاہے کہ 16تاریخ تک 900ایرانی سپاہی مع چندمعزز افسران کے ہندوستان میںداخل ہوچکے ہیں اورخاص دہلی میں 500  سپاہی تبدیل لباس میں مختلف صورتوںمیں موجودہیں۔ وہ اپنی نسبت کہتاہے کہ14مارچ کو میں دہلی پہنچا،جہاںاعلان چسپاںکردیے گئے ہیں۔‘‘

’’اخبارمذکورکاحاشیہ اس اعلان اورمحمدصادق کے بیان پرعجیب لیکن معنی خیز ہے، شروع میںیہ کہہ کر ’’لوگ کہتے ہیںیہ اعلان چندبے فکروں کاگھڑاہواہے۔‘‘صاحب صادق الاخباراس طرح رقمطراز ہے

’’ہندوستانی اسی وقت خوش ہوں گے کہ اگرشاہ ایران عباس شاہ صفی کی طرح ہمارے خاص بادشاہ کوسلطنت دیدے اور تعجب بھی نہیں جو وہ ایساکریں کیوں کہ خودتیمورنے ایرانیوں کو سلطنت بخشی تھی اورنظرغائرڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسی احسان کے بدلے عباس شاہ صفی نے ہمارے ہمایوں کو مدددی تھی۔‘‘ 41؎

پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی آگے لکھتے ہیں:

’’اگلی اشاعت مورخہ23 مارچ سنہ1857میںیہی اخبارمحمدصادق کوجعلسازبتاتاہے اور لکھتاہے کہ’’ اگر گورنمنٹ کے ہاتھ لگ جائے توایک دو تلے کاجوتہ سرکہ میں تر کیا ہوا اس کی ٹانٹ پرپڑے گا۔‘‘مگر صادق الاخبار کا یہ فرمانا اور سرکہ میں جوتاترکرنے کا نسخہ تجویزکرنااس مشورہ کے مقابلہ میں جو انہوں نے شاہ ایران کوحضرت بہادرشاہ کے ہاتھوںمیںہندوستان کی سلطنت بخشنے کے بارے میں دیاہے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ ’غدر‘کوابھی قریب تین مہینے ہیںاوردہلی میںیہ شغلے اٹھائے جارہے ہیں۔ پھراگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہالیاںبست و کشادکویہ شک ہواکہ بہادرشاہ کمپنی کے خلاف ایران کے ساتھ سازش کر رہے تھے توذرابھی تعجب کی بات نہیں۔پہلے سنہ 1841 میں دہلی کاریذیڈنٹ بادشاہ سے شکایت کرچکاتھا کہ وہ امیردوست محمد خاں سے براہ راست خط کتابت کرتے ہیںجونہیںہونا چاہیے۔ اب غدرسے دوتین مہینے پہلے یہ ایران کاقضیہ اٹھایاگیا۔چنانچہ ایک شاہزادہ بنارس میں گرفتاربھی کیا گیاجس پریہ الزام تھاکہ بادشاہ کامراسلہ لے کرایران جارہاتھا۔ اشتہارمذکورخواہ کسی کا طبعزاد ہو اخبارکی پہلی اشاعت کانوٹ یقینانامناسب اورفتنہ انگیزہے۔‘‘42؎

مولوی محمدذکاء اللہ کی کتاب ’تاریخ عروج انگلیشیہ‘ میں بھی اس کاذکرکیاہے

’’ایک شخص نے اپنافرضی نام محمدصادق رکھ کے جامع مسجدکے اندردیواروںپرایک اشتہار چسپاں کیا جس کے اوپرتلوار وسپرکی تصویربھدی سی بنی ہوئی تھی اوراس کے مضمون کاخلاصہ یہ تھاکہ ایران کی سپاہ انگریزوںکے پنجہ سے ہندوستان کوچھٹانے آتی ہے۔سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ جہادکے لیے مستعدہوںاپنانام بھی اشتہار میں لکھ دیا۔جب مجسٹریٹ دہلی کو اس اشتہارکی اطلاع ہوئی تواس نے اشتہار کو اکھڑوا ڈالا۔ اشتہارتین گھنٹے چسپاںرہا ہوگا۔‘‘ 43؎

شاہ ایران کے اعلان تسخیرہندکواس زمانے کے سیاسی ماحول میںبے حداہمیت حاصل تھی۔ 10 مئی 1857 کو میرٹھ سے جنگ آزادی کی ابتداہوچکی تھی۔فوجیں دہلی آگئی تھیں۔تمام شہرمیںآزادی حاصل کرنے کی جدوجہداورکشمکش جاری تھی۔

صادق الاخبارنے ایک انگریزی اخبار’پنجابی‘کے حوالے سے لکھاہے کہ اس کے نامہ نگار کو شہزادے کے خیمے سے ایک اعلان دستیاب ہوا جس کاخلاصہ نامہ نگارمذکورہ نے بذریعہ تاربرقی ایڈیٹرکو روانہ کیاہے اورجسے اب ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔جس میںابوشہر، کراچی، سندھ اور دیگر علاقے کے سرداران کوایران کے ساتھ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف آمادہ پیکارہونے کے لیے کہاگیاہے اور مسلمانوںکوانگریزوں کے خلاف جہادکرنے پرابھاراگیا ہے۔

بہرحال جیسا کہ گذشتہ اوراق پرذکرآچکاہے کہ جنگ آزادی کے چھڑتے ہی اس اخبارکی حمایت وہمدردی بہادرشاہ ظفرسے وابستہ ہوگئی تھی اوراس نے اعلانیہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی فتح یابی کی نویددینی شروع کردی تھی۔یہ اخبار ہرممکن کوشش کرتاتھاکہ یہ آزادی کی جنگ کامیاب ہواورہندوستان سے انگریزوںکے اقتدارکاخاتمہ ہو۔جب کہ بہادرشاہ ظفر کی شخصیت امدادغیبی کی حامی تھی۔اس قسم کے خواب لوگوں کو نظرآتے تھے جس کو صادق الاخباربھی شائع کرتاتھا۔چنانچہ ایک ایساخواب ’صادق الاخبار‘ کے 14ذی الحجہ1273ھ بمطابق 6جولائی1857کے شمارے میں ’خواب ‘کے عنوان سے ہمیں پہلی خبرملتی ہے۔ اس میں کسی صاحب کے خواب کاذکرہے۔وہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھاکہ ایک بزرگ فرماتے ہیںکہ تم لوگ کیوںخوف زدہ ہوتے ہو،اللہ تعالیٰ نے بادشاہت بہادرشاہ ظفرکے نام عطا کی ہے

’’ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ان دنوںمیں نے یہ خواب دیکھاکہ ایک بزرگ متبرک صورت میرے پاس آئے اورگویاہوئے کہ تم لوگ کس لیے اتناڈرتے ہو۔ قادر الاطلاق نے توبادشاہ ہندکی ابوظفر محمد سراج الدین بہادرشاہ بادشاہ غازی کے نام عطا کردی۔ میںیہ سن کر شکرخداوندی کا بجا لایا اوراستفسارکیاکہ حضرت یہ توفرمائیے کہ آپ کے ہاتھ سیاہ کیوں ہو گئے؟یہ جواب سن کرخضرصورت ملایک سیرت بولے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خدمت دی ہے کہ تمھارے دشمن تم پرگولہ برساتے ہیں تو میں ہاتھوں میں روکتا ہوں اور یہی باعث ہے کہ رعایادہلی میں سے کم لوگ ضائع ہوتے ہیں۔‘‘44؎

برٹش حکومت کے مخالفت میں صرف ہندوستان کی ہی عوام نہیں تھی بلکہ دوسرے ممالک ایران اور روس کی سلطنتیں بھی انگریزوں کی حکومت کے خاتمہ کے منصوبے بناتی تھیں۔ چنانچہ پشاور میں انگریزوں کی قتل وغارت گری اور پٹھانوںکاہندوستان میں انگریزی حکومت پرحملہ کرنے اوردہلی میں آنے کی خبر6جولائی 1857کے صادق الاخبار کے شمارے میںشائع ہوئی تھی۔

خبرپشاور: ایک دوست کی زبانی ایک قاصدآنے والے خاص پشاورکے راوی ہیں کہ کئی ہزار سپاہ نے بہت سے انگریزوںکوقتل کیااوریہاںسیدمحمداکبروالی سوات کوکہ بڑے دیندارہیں تخت شاہی پر بٹھایااوراس کاانتظام بخوبی کراکرلاہورکوآن گھیرا۔اب اہل لاہورمحصورہیں یقین کہ سپاہ منصورہ ازراہ شجاعت ذاتی فتح حاصل کرے اور جو تھوڑے بہت گورے لب ِگور ہیںدرگورہوں کہتے ہیں کہ سپاہ اہل اسلام جابجاتھانہ بادشاہی تابہ لاہوربٹھائی چلی آئی ہے اور ارادہ رکھتی ہے کہ بعدفتح لاہور مقام پٹیالہ و دیگر مقامات دشمنان شاہی کو زیر و زبرکرکے قدم بوسی حضورانورحاصل کرے۔سناگیاکہ اب گورے اورانگریزتمام پنجاب میں باقی نہیں رہے۔اگرقدرے قلیل ہیں تو کرنال وعلی پور میں۔ سواب ان کابھی محاصرہ ہواجاتاہے ہمارے اہل شہرخاطرجمع رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر مہربان ہے اورجووہ کرے گا،کوئی فعل بے جاحکمت سے نہ ہوگا۔‘‘ 45؎ 

طاہرمسعودنے اس خبرکے متعلق لکھاہے کہ خبروںکی ترسیل کامعتبرومناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے افواہیںبھی’صادق الاخبار‘ کے صفحات میںجگہ پاجاتی تھیں۔خصوصاً ایسی افواہیں جن میں انگریزوں کی ہزیمت کی خوش خبری ہوتی تھی۔دوردرازسے آنے والے ایڈیٹرکوجواطلاع یاافواہ سنادیتے تھے ان کی تصدیق کیے بغیرہی شائع کر دیا جاتاتھا۔ایسی ہی ایک خبرمیں پشاورسے آنے والے راوی نے اطلاع دی کہ کئی ہزارسپاہیوں نے بہت سے انگریزوں کو قتل کرکے سیدمحمداکبروالی سوات کوتخت شاہی پر بٹھا دیاہے اور پھر لاہور پہنچ کر شہر کا محاصرہ کرلیاہے۔سپاہ اہل اسلام نے لاہورتک بادشاہی تھانے بھی قائم کر دیے ہیں اورارادہ ہے کہ لاہور،پٹیالہ اورپنجاب کے دیگرشہروں کوفتح کر کے ’قدم بوسیِ حضور انور حاصل کرے‘۔اخبارنے لکھاہے کہ’’سناگیاکہ اب گورے اورانگریزتمام پنجاب میں باقی نہیں رہے۔‘‘ ظاہر بات ہے کہ یہ اطلاع درست نہیں تھی۔ 46؎

دہلی میں انگریزوں کے ساتھ انقلابیوںکی متعددلڑائیاں ہوئیں۔11مئی سے3جون تک دہلی انگریزوں سے خالی ہوگئی۔اس دوران اطراف واکناف سے بے شمارآزادفوجی دستے جمناکاپل پار کر کے دہلی میںداخل ہوتے رہے۔ مرزا خضر، مرزا ابوبکر، مرزاسیدو، مرزاعبداللہ کومختلف انقلابی فوجی دستوں کے سردار مقررتھے۔مرزامغل کمانڈران چیف بنائے گئے اورجنرل صمدخاں فوج کی رہنمائی کرتے رہے تھے۔ 2جولائی کو صوبے دارجنرل بخت خاںاپنے چودہ ہزارلشکراورخزانے کے ساتھ دہلی میں داخل ہوئے۔ان کے ساتھ ناناصاحب کے بھائی بالاصاحب اورمولانافضل حق خیرآبادی بھی دہلی آئے۔ان کے ہمراہ کفن بردوش مجاہدین کی فوج بھی تھی جن کی رہنمائی مولانا سرفرازعلی کررہے تھے۔ جنرل بخت خاںکے دہلی میں داخل ہوتے ہی انگریزوںکویقین ہوگیاکہ ہندوستان ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔47؎  ابتدا میںفوج کی قیادت مغل شہزادے کر رہے تھے۔لیکن جولائی کے شروع   میں جب بخت خاںبریلی سے دہلی آگئے تواعلیٰ کمان ا ن کے سپردکردی گئی۔48؎    بہادرشاہ نے لارڈگورنرکاخطاب دیااور مرزامغل کی جگہ باغی فوجیوں کا کمانڈر انچیف مقررکیا۔بادشاہ نے بخت خاں سے کہاتھاکہ وہ شہر میں نظم وضبط برقرارکھنے کے لیے ہرمناسب تدبیرکریں۔49؎  سب سے پہلے بخت خاں نے شہرکاانتظام درست کیا، کوتوال کو حکم بھیجاکہ اگرشہرمیں بدنظمی ہوئی توتمھاری خیریت نہیں۔نمک اور شکرسے ٹیکس ہٹایا، عوام کومسلح کیااور دوسری اصلاحات جاری کی گئیں۔بخت خاںاپنی اسکیموں کو بروئے کا لانا شروع کیا، 4جولائی کوپیچھے سے حملہ کیے۔50؎ اس جنگ میں انگریزوں کا بہت نقصان ہوا۔کئی انگریز افسران مارے گئے۔’اس جنگ کی ایک خبرصادق الاخبار6جولائی1857کے شمارے میںشائع ہوئی تھی

’’خبردہلی آج کل دہلی میں جوسالہائے سال سے اجڑے دیارکہلاتی تھی سپاہ کی بہت رونق اور کثرت ہے۔ اور بباعث بارش گولہ باری غنیم (جان) کی طرف سے جوخوف ضائع ہونے کاتھا خدائے تعالیٰ کی عنایت ہے یعنی ہرکو چہ وبازار میں صبح وشام ہزاروںآدمی پھرتاہے اوردشمنوں کے گولہ سے بال بال بچتاہے۔واقعی یہ قول سچاہے۔

دشمن  چہ کند  چو  مہرباں  باشد  دوست

دیکھواس کی عنایت کوسولہویںرمضان المبارک1273ھ کوپانچ ترک سواروںفرشتہ منش نے انگریزوںکاراج پاٹ ہندسے اٹھا دیا گویاتختہ حکومت الٹ دیااورحضـرت قضاوقدرت بہ باوری طالع ازسرنوتخت شاہی پربیٹھے ازاآن جاکہ آسائش رعایا ئے ہند منظور خداہے اس لیے منتظم دوران جناب محمدبخت صاحب بہادرجنرل کہ نصفت اور عدالت اور مدبری و انتظام میں اپناثانی نہیں رکھتے ہماراحاکم شفیق بنایااورجناب موصوف نے حضورسے خلعت فاخرہ سپردشمشیرپاتے ہی شہرکاانتظام بخوبی کردیااب کوئی کسی پر زیادتی نہیں کرتاہے بلکہ الٹاسرکش غریب کے ہاتھ میں ہتھیاردیکھ کرڈرتا ہے اورتمام سپاہ کابندوبست بھی بخوبی ہوگیا۔ جمیع تھانہ دارشہر اور سید مبارک شاہ خاںصاحب کوتوال گشت میں مصروف ہیں دکاندار دکان کھولنے جاتے ہیںباہرسے غلہ بافراط چلا آتا ہے اورحال لڑائی کایہ ہے کہ پرسوں کے روزجناب جنرل صاحب نے براہ علی پور گوروںکامحاصرہ کیا تھاسوطرفین سے مقابلہ ہوادیرتک سپاہ شاہی داد شجاعت دیتی رہی آخرکارگورے بھاگ نکلے اورلشکرمظفرنے جب کوئی حریف مقابل نہ پایاتوتین سو گھوڑے اور کچھ چھکڑے رسدوغیرہ اپنے قبضے میں کر کر قصد بازگشت کیا۔سناگیاکہ گورے اس لڑائی میں بہت مارے گئے اورکچھ گورے کل کے دن مقبرہ منصورکی جانب اوترآئے تھے۔سوان کے دفعیہ کے لیے فوج تھوڑی سی کہ بہت سوںپربھاری ہے مع اتواپ روزانہ ہوئی۔‘‘ 51؎

’انڈین میوٹنی‘کی ایک تحریرسے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے

’’...اس دن کی ہارپرانگریزی سپاہی اتناشرمندہ اورناراض ہوئے کہ انھوںنے اپنے کیمپ میں جاکراپنے بے قصوربھشیتوں اوربہ سے کالے نوکروں کومارڈالا۔اپنے ان ہندوستانی نوکروںکی وفاداری اورخدمتوں کاانہوں نے کچھ بھی خیال نہیںکیاکیونکہ ’’ان گورے سپاہیوں کے دلوں میں سب کالے ایشیاوالوںکی طرف سے سخت نفرت کی آگ بھڑک رہی تھی۔‘‘ 52؎

انقلابیوںکی طرف سے اگلے حملے میں14جولائی کوجنر ل ریڈبھی گھبراگیا۔بیماری کے بہانے استعفیٰ دیااور فوج چھوڑکر چلا گیا۔اب چوتھاکمانڈرانچیف جنرل ولسن مقررہوا۔اس وقت کے کچھ حالات ہم کو’صادق الاخبار‘ میں ملتے ہیں۔ ’صادق الاخبار‘نے اپنے ایک ایک حرف کوصرف جنگ آزادی کی خبروں کے لیے وقف کردیاتھا۔ 20جولائی 1857کوصادق الاخبار نے لکھاتھا:

’’حاصل کلام،جوشخص اپنے خداسے سچاہے ا س کاکام سب سے اچھاہے۔اس ہفتے میں یہاں کئی لڑائیاں ہوئیں، سواران وتلنگان ِ شاہی نے ان معرکوںمیں وہ وہ دادِ شجاعتیں دیں کہ زیرزمین جگر رستم کانپ اٹھا یعنی گراپ کھاکھا کرتوپ کے منہ پرجاجاپڑے اور تیغ دلاوری سے ایک کودواور دو کو چارکیا۔آخرکار گورے منہ پھیر پھیر گئے -مگرچونکہ کل امرمنحصر وقت پر ہیںتوان شاء اللہ صبح وشام میں اس باوٹہ کوفتح کرلیں گے ....کہتے ہیں کہ من جملہ اس سپاہ مرد میدان کے سواران جالندھرسے شیخ امیرعلی صاحب دفعدار اور شیخ سبحان علی وکرامت علی وقطب علی صاحبان وغیرہ اور ٹوپ سرسہ میں سے سید فدا علی دفعداراورسیدغلام سروراور مرزا مغل بیگ صاحب نے ایسی ایسی دادشجاعت دی کہ فلک گفت احسن ملک گفت زرہ ِنفس الامر میںمردانگی انھیں کے لیے ہے،کیونکہ اس زمرہ سواران میں اکثرشریف ہوتے ہیں۔خدانے چاہاتوان لوگوں کو بڑے بڑے عہدے اورمنصب پیش گاہ شاہی سے ملیں گے۔

’’تحقیق سناگیاکہ رجمنٹ جھانسی بھی ایسی لڑی کہ جولڑنے کاحق تھااور پیدلوںنے بھی اپنی بساط سے زیادہ کام دیااور جنرل بخت خاں ہمہ تن اس میں مصروف ہیں۔

ایک عورت جہادیوںکے ساتھ لڑائی میں خوب مردانہ کام کرتی ہے،بلکہ حضورسے اس کو ایک گھوڑا سواری کے لیے ملاہے۔ایک تلنگہ ہندوسیدرفائی کی مسجدکے پاس اذان پراڑپڑا تھا سو کئی ہنودلوگوں اورمسلمان مجاہدین نے اس کے کان کھڑے کردیے۔‘‘ 53؎ 

1857میں دیگر سیاسی، سماجی اورمذہبی عوامل کے ساتھ ساتھ انگریزی اقتدارکے خلاف ملک گیر ماحول بنانے اورمسلمانوں میں جوش وجذبات برانگیختہ کرنے میں علما کے فتوؤں نے کلیدی کردارادا کیا ہے۔ حکومت وقت کے خلاف دیے گئے فتوؤںکے اثرات اوراہمیت کے تعلق سے ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کا بیان ہے.

’’جب کبھی کوئی ایسافتوی حکومت کے خلاف شائع ہواتواس کانتیجہ دنیاکی سخت ترین اورنہایت خوں ریزبغاوتوں کی صورت میں ظاہرہوا۔‘‘54؎ 

تاریخ کی مستندکتابوںکے ذریعے انقلاب اٹھارہ سو ستاون میں علماکے ایسے چندفتوؤںکی نشاندہی ہوتی ہے،جن میں انگریزوں  کے خلاف جہاد کو جائز و واجب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو حرکت وعمل کی ترغیب دی گئی تھی۔  لیکن ’صادق الاخبار‘، دہلی (27جولائی1857)میں شائع ایک فتوے کے علاوہ کسی بھی فتوے کامتن دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔تاریخ میں انگریز مخالف ایسے تین فتوؤں کا ذکرملتاہے جوانقلاب اٹھارہ سوستاون میں دیے گئے۔

1857کے دوران علمائے کرام کایہ فتوی جس کی نقلیںدہلی کی جامع مسجدکی دیواروں اور مختلف مقامات پرچسپاںکی گئی تھیں۔ سیدجمیل الدین ہجرنے اس فتوے کاسوال اورعلمائے کرام کاجواب دونوں۔ ’ صادق الاخبار‘ میں شائع کیے تھے۔ جس میں انگریزوں کے خلاف انقلابی سپاہیوں کی جنگ کو جہادسے تشبیہ دی گئی تھی۔چنانچہ بخت خاں نے اپنے اختیارات اوراثرورسوخ کے ذریعے اس وقت کے علما سے ایک جہادکافتویٰ مرتب کروایا۔فتویٰ کے اجرا کے بعد مسلمانوںمیں جنگ آزادی کے لیے مذہبی جوش اور ولولے کاپیداہونافطری امرتھا۔

میرٹھ سے آئی باغی فوجوںکی قیادت تسلیم کرنے کے بعدبہادرشاہ ظفرنے علامہ فضل حق خیرآبادی اورجنرل بخت خاں سے مشورہ کیا اور ’کنگ کونسل‘ نامی ایک تنظیم کی تشکیل دی اورعلامہ کواس تنظیم کاایک بڑا اہم رکن بنایاگیا۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کا بگل بجانے کے لیے بہادرشاہ نے بخت خاں سے مشورہ کیا اورطے پایاکہ یہ ذمے داری ـ ضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کودی جائے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی اس تاریخی کارنامے کوانجام دینے کے لیے دہلی کی جامع مسجدمیں جمعے کوخطبے کے دوران انگریزی ظلم وستم کے خلاف خوب جم کرتقریرکی اورانگریزوں کے خلاف فتوی جہاد اکابرعلمااکرام کی موجودگی میں پیش کردیا۔جس پرمفتی صدرالدین آزردہ، صدالصدوردہلی، مولوی عبدالقادر، فیض اللہ دہلی، مولوی فیض احمدبدایونی، ڈاکٹرمولوی وزیرخاں اکبر آبادی،سیدمبارک شاہ رامپوری نے اس فتوی جہادپردستخط کیے۔55؎   غلام رسول مہرنے لکھاہے کہ:

’’مولانافضل حق خیرآبادی کے دہلی پہنچنے سے پیشتربھی لوگوں نے جہادکاپرچم بلندکر رکھا تھا۔ مولاناپہنچے تو مسلمانوں کو جنگ آزادی پرآمادہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ ایک فتوی مرتب ہواجس پردہلی کے دستخط کے لیے میراخیال ہے کہ یہ فتوی مولانا فضل حق ہی کے مشورے سے تیارہوا تھا اور انھوں نے علماکے نام تجویزکیے جن پر دستخط لیے گئے۔‘‘ 56؎ 

اس فتوے پرمذکوہ28علمائے کرام کے دستخط اورمہریںشائع ہوئی تھیں۔ ’صادق الاخبار‘کی ان خبروں اور سرگرمیوں سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ اس نے 1857کی جنگ آزادی میں کھل کرمجاہدین کا ساتھ دیا۔ جس نے جنگ آزادی کے لیے مذہبی جوش و ولولہ پیدا کیا اور بہت سے لوگ اس کی وجہ سے جنگ آزادی میں شامل ہوئے۔

دہلی میں بغاوت کے جوشعلے بھڑکے تھے انہوں نے پورے ملک کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔پہلے وہ دہلی کے آس پاس کے ضلعوںمیں پھیلی۔سردھنہ اورباغپت میں 11اور12مئی کوبغاوتیں ہوئیں۔ رڑکی 13مئی کوآزاد کرا لیا گیااور26مئی کوبلند شہر میں ایک مغل گورنرمقررکیاگیا۔مظفرنگرمیں14مئی کو علی گڑھ میں20مئی کواورسہارن پور میں 30جون کوبغاوتیں پھوٹ پڑیں۔ اس طرح صوبے کی زیادہ ترمغربی کمشنریوںمیں شورش پھیل گئی۔روہیل کھنڈ میں بغاوت مئی میں شروع ہوئی اورخان بہادرنے 31مئی کو انتظام سنبھال لیا۔بریلی کے بعدرام پور، مرادآباد، امروہہ، بجنور،بدایوں اورشاہجہاںپور میں بغاوتیں ہوئیں۔فرخ آباد میں سپاہیوں نے نواب تفضل حسین خاںکی اطاعت قبول کرلی اورفتح گڈھ اور سیتاپور بھی ان کے زیرنگیں آگئے۔57؎  مذکورہ اخبارنے ’اخبارمقامات مختلفہ‘ کے عنوان سے لکھنؤاوراس کے نواح میںرونماہونے والے جنگی واقعات کانقشہ یوںکھینچاہے

زبانی معتبرآنے والوںپورب کے منکشف ہواکہ بنارس میںوہاںکے راجہ کاانتظام دوربہ خوبی ہو گیا اور کانپور میں نواب محمد علی خاں بہادر عرف ننھے نواب نے دو پلٹنوں تلنگان سے اپنا بندوبست کرلیا اور سپاہ سے وعدہ کیاہے کہ ہم بعدنظم دہلی کوبرائے شرف ملازمت حضوراقدس چلیں گے۔اورالہ آبادمیںجب سے انگریزمارے گئے کوئی حاکم مقررنہیں ہوا کہتے ہیں کہ مقامات مذکورہ بالا میں کیا بلکہ تمام پورب میں دین دار لوگوں نے فرنگیوںاوراون کے زن وبچہ کو چن چن کرقتل کیا۔ اورایک انگریزنام کوباقی نہیں رکھا۔لکھنؤمیں مچھی بھون کے انگریزوںنے یہ بہانہ سنانے مژدہ لندن جمیع مدعیان سلطنت اوراعیان ریاست کوبلاکر مقید کرلیااورآپ بھی اسی میں قید ہیں۔ باہر گوروں کا پہرہ ہے۔کوئی شہرکاکالاآدمی اندرجانے نہیں پاتالیکن باشندے اودھ کوبادشاہ یہاںکا بنادیجیے۔ میرٹھ  میں کل تین سوگورہ مع چند افسران انگریزی بہ مقام دمدمہ محصورہیںکوئی متنفس شہر میں نہیں نکلتا اورکچہری دربارکاتو کیا ذکر ہے... سناگیاہے کہ اس اثنامیںدوسوگورے بہ معاونت قوم جٹ (جاٹ؟)نواب صاحب بہادر (ولی دادخاںوالیِ مالاگڈھ)سے برسرمقابلہ آئے تھے مگراقبال شاہی سے محمداسماعیل خاںبہادرسپہ سالار فوج نے ان کوشکست دی۔کہتے ہیںکہ بروقت مفروری گوروں منہ زدن میں...کئی گاؤں پھونک دیے کہ اس سے لوگوںکوبڑی تکلیف ہوئی۔ آگرہ میں گورہ اورفرنگی اورکرسٹان قلعہ کے اندرگھرے ہوئے ہیں... پلول اور ہوڈل اور کوسی میں راجہ جے پور اور راجہ جیندہ اور دیگر راجہ ونوابوںکی سپاہ زیرحکم چندافسران انگلشیہ پڑی ہوئی ہے۔مگراون لوگوں کا قوم ہے کہ ملک کاہم بندوست بہ خوبی کردیں گے لیک لڑائی میںدین کا ساتھ دیں گے اور یہی کلام اورارادہ تمام افواج کا اور تمام امرا ورؤساکاہے۔‘‘58؎ 

1857کی جنگ آزادی صرف دہلی ہی میں نہیں بلکہ ہندوستان کے ہرگوشے میں لڑی گئی۔ آگرہ میں مجاہدوں نے جس بہادری اورجواںمری کاثبوت دیااورغلامی کی لعنت کے خلاف جدوجہدکی اس کا ذکر صادق الاخبار میں ملتا ہے۔اس وقت آگرہ کمشنری آگرہ،متھرا، مین پوری اور اٹاوہ کے اضلاع پر مشتمل تھی۔ آگرہ صوبے کاصدرمقام تھااور لفٹنٹ گورنروہاںرہتاتھا۔یہ علاقے عیسائی پادریوں کے مرکز تھے۔ یہاںکے اسکول ہندوستانی بچوں کو عیسائیت کے سانچے میں ڈھالنے کافریضـ آہستہ آہستہ انجام دیے جا رہے تھے۔ اس کے ردعمل میں ہندوستانی اورخصوصاً مسلمان علما پادریوں سے مناظرے اور عیسائیت کا ردعمل کرنے میں ہمہ تن منہک تھے۔ مولانااحمداللہ شاہ نے یہاں دورے کیے اور تقریریں کیںجس سے نہ صرف مذہبی رجحان پیداہوابلکہ غلامی کااحساس بھی بیدارہوا۔ مولاناکی آمد کی بدولت کچھ عر صہ پہلے ایک ہنگامہ بھی ہوچکاتھاجسے بغاوت کاپیش خیمہ سمجھناچاہیے۔ 59؎

دہلی سے بغاوت کی خبرآنے کے فوراًبعدآگرہ میں بھی طوفان کے آثارنظرآنے لگے۔ علی گڑھ اور بلند شہر کے واقعات نے 23مئی کومین پوری میں اور20مئی کواٹاوہ میں بغاوت شروع کردی اور جلدہی باغیوںکاآگرے پر قبضہ ہوگیا۔بھرت پورکی فوج نے جولائی کے شروع میں بغاوت کردی۔ باغیوں نے آگرے کے قریب ساسیاہ کے مقام پر انگریزی فوجوںکوشکست دی اورلفٹنٹ گورنراورآگرے میں رہنے والے قلعے میں پناہ لی۔60؎   5جولائی کونیمچ اورنصیرآباد کے باغی دستے آگرہ پہنچے، موضع شاہ گنج پر انگریزی فوج سے مقابلہ ہوا۔ ایک طرف الورکی سپاہ اور دوسری طرف انقلابی دستے نے اچانک حملے کیے جس سے انگریزی فوج کے پاؤں اکھڑگئے۔انقلابیوں نے پیچھا گھیرا اورگورے بمشکل تمام بھاگ کر قلعے میںواپس پہنچے۔عوام نے یہ خبرپاتے ہی انگریزوں کے بنگلوں اورسرکاری دفتروں میںآگ لگادی، باغی فوجیںایک دودن ٹھہرکرمتھرا کے راستے سے دہلی روانہ ہوگئیں۔ متھراپرسیٹھ لکھمی چندنے کل فوج کی دعوت کی اورتین لاکھ روپیہ دیا۔61؎  صادق الاخبار میں ’خبرآگرہ ‘عنوان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے

’’خبرآگرہزبانی ایک معتبرقاصدآگرہ کے مدرک ہواکہ کمبونیمچہ کاکوچ کرتاہوامقام پہرے میں گوروںسے مقابل ہوا،دیرتک لڑائی ہوتی رہی۔انجام کاربعدمقاتلہ بسیار انگریز شکست کھاکر آگرہ میں جاچھپے اور کمپونے ان کاتعاقب کیا۔ یہاںتک کہ قتل کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا۔چھاؤنی اور تمام کوٹھیاں انگریزی پھونک دیں، ہزاروں روپے کامال اوراسباب لوٹااورسامنے سے جو انگریز نظرپڑامارڈالااور محبس خانہ میں قیدی آزادکردیے یہ حال دیکھ کرانگریز اور کچھ گورے اورکرسٹان قلعہ میں پھاٹک بند کرکے محصور ہوگئے اور جو باہر رہا اس کو رعایانے سنگوالیا۔ اس وقت کمپو مذکور نے کوتوالی اورتھانہ شاہی بٹھادیا اور دکانداروں میں سے کسی کولٹنے نہ دیا اورچونکہ اس کمپوکے پاس خزانہ اوررسدواتواپ قلعہ شکن نہ تھیں اس لیے متھرا میں آکر قیام کیا اور لکھمی چندسیٹھ سے پانچ لاکھ روپے کاپیغام ڈالا۔کہتے ہیں سیٹھ نے بعدمعذرت بسیار سوالاکھ روپیہ فوج کے حوالہ کردیا۔اب کمپو مذکور وہیں پڑا ہواراہ جواب عرضی دیکھ رہاہے۔غالب ہے کہ چندروز میں وہ لشکرداخل دہلی ہو،کیونکہ پیشی گاہ حضرت ظل سبحانی سے شقہ درباب طلب ان کے جاری ہواہے۔

آگرہ میں اب انگریزوں نے بہ مخبری رعایااکثرلوگوںکوپھانسی دینی اورگولی مارنا شروع کر دی ہے گویا میرٹھ کاساحال ہورہاہے اورمسجدجامع آگرہ کوغضب میں آکر شہیدکر ڈالا، اور چاہا تھاکہ روضہ تاج بی بی کوبھی توڑ پھوڑ ڈالیں لیکن رعایاکواس کے عوض مستعدجنگ پاکرخاموش ہورہے اور تجاران دہلی سے انھوں نے کہہ دیاکہ یہاں سے نکل جاؤچنانچہ کئی سوداگریہاں چلے آئے ہیں۔‘‘ 62؎ 

الٰہ آبادمیں8جون کی رات کوسپاہیوںاورعوام نے مل کرانگریزی فوج پرحملہ کردیا۔ انگریزوں نے قلعے میں پناہ لیاجہاںسکھ سپاہی ان کی حفاظت کررہے تھے۔انقلابیوںنے جن کی رہنمائی رام چندر کر رہے تھے۔مولوی لیاقت علی کواپنالیڈرچن لیا۔ ہندو اور مسلمان متحد ہوکر مولوی لیاقت علی کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔مولوی صاحب نے سپاہیوں کومنظم کرنے کے فوری بعد قلعے پرحملہ کردیا۔ انگریزوں نے قلعہ سے باہرنکل کرمقابلہ کیااورشکست کھاکرواپس قلعے میںچلے گئے۔اس دوران جنرل نیل بنارس کوتباہ کر کے الہ آباد کی طرف بڑھ رہاتھا۔یہ سن کرساراشہرخالی ہوگیا۔17 جون کوجنرل نیل کی فوجیں شہر میں داخل ہوگئیں۔ مولوی صاحب نے سخت مقابلہ کیا۔لیکن شہرخالی کرنے پرمجبورہوگئے اور اپنے مجاہدین کو لے کر گنگا پارکیااورناناصاحب کے پاس کانپور چلے گئے۔ انقلابیوں کے چلے جانے کے بعد جنرل نیل نے الہ آباد کو دوسرا بنارس بنادیا۔

الہ آبادپرقبضے کے بعدانگریزوںنے اسے اپنافوجی ہیڈکوارٹربنالیا۔لارڈکننگ بھی کلکتہ سے وسط ہندکی بغاوت کودبانے کے لیے یہیں آگیا۔انگریزوںنے الہ آبادمیں بے شمار انسانوںکوپھانسی دی۔ بے شماردیہات نذرآتش کردیے گئے۔ایک اندازے کے مطابق تقریباًچھ ہزارانسانوںکوقتل کیاگیااور سیکڑوں عورتیں،بچے،جوان اوربوڑھے زندہ جلائے گئے۔63؎  صادق الاخبارمیںمذکورہ بالا واقعات کی طرف اشارے ملتے ہیں

’’خبرالہ آبادزبانی آئندپورب کے ایک اوس کے ہم وطن کودریافت ہواکہ الہ آباد میں کچھ گورے پرے سے اتر آئے اور انھوں نے میدان خالی دیکھ کرالہ آباداوراس کے قرب وجوارکوبارہ بارہ کوس تک پھونک دیااوررعایاکے ننگ وناموس پربڑی دست درازی کی اب سکنائے پورب ان کے ہاتھ سے تنک ہوکرراہ آنے بادشاہی فوج کے دیکھ رہے ہیںکہ ان کے ہمراہ ہوکرگوروںسے بدلہ اتاریں۔اور راجہ بنارس مثل راجہ پٹیالہ ان کی مددزور زور سے کرتاہے۔‘‘ 64؎ 

لکھنؤمیں’’30تاریخ کوسپاہیوںکی بغاوت شروع ہوگئی۔شعلوں نے لکھنؤکواپنی لپیٹ میں لے لیااور جلد ہی سیتاپور (30 جون) محمدی(4جون)لکھیم پور کھیری(4جون)فیض آباد (5جون) بہرائچ (9جون)سلطان پور (9جون) گونڈا (10جون) تک پھیل گئے۔چنانچہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے اودھ میں ایک ضلع بھی ایسا نہیں تھا جو باغیوں کے قبضے میںنہ آگیاہو۔ 65؎ 

گوکہ ’صادق الاخبار‘نے ایک طرف ملک کے اندرپھیلنے والی بے چینی،شورش اورتحریک آزادی کی جرأت مندانہ تصویرکشی کی تودوسری طرف انگریزوں کے خلاف ایران وروس کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مرعوب کن نقشہ کھینچاجس کامقصدیہاں کے لوگوںمیںاعتمادپیداکرناتھاگوکہ ’صادق الاخبار‘نے ایک طرف ملک کے اندرپھیلتی بے چینی،شورش اورتحریک آزادی کی جرأت مندانہ تصویرکشی کی تودوسری طرف انگریزوں کے خلاف ایران،روس اورچین کی ابھرتی طاقت کامرعوب کن نقشہ کھینچا  اورساتھ ہی ایسی خبروںکی اشاعت کو ترجیح دی،جن سے عوام الناس کے اندر انگریزوں کے خلاف لڑنے کاجذبہ بیدار ہواوراسے ایک مذہبی فریضہ سمجھیں۔

حواشی
  1.        امدادصابری،تاریخ صحافت اردو(جلداول)،چوڑی والان،دہلی،1953،ص470
  2.        احسن الاخبار،ممبئی،22اکتوبر1847
  3.         امدادصابری،تاریخ صحافت اردو(جلداول)،چوڑی والان،دہلی،1953،ص245
  4.        عتیق احمدصدیقی،ہندستانی اخبارنویسی کمپنی کے عہد میں، انجمن ترقی اردوہند،علی گڑھ، 1957، ص284
  5.        خورشید،عبدالسلام،صحافت پاکستان وہندمیں،مجلس ترقی ادب،لاہور،1963،ص110
  6.         امدادصابری،تاریخ صحافت اردو(جلداول)،چوڑی والان،دہلی،1953، ص469
  7.        گارساں دتاسی،خطبات،جلداول(1850-69)انجمن ترقی اردو،دکن، 1953،ص185
  8.        خورشید،عبدالسلام،صحافت پاکستان وہندمیں،مجلس ترقی ادب،لاہور،1963،ص110
  9.        عتیق احمدصدیقی،ہندستانی اخبارنویسی کمپنی کے عہد میں، انجمن ترقی اردوہند،علی گڑھ، 1957،ص285
  10.      خورشید،عبدالسلام،صحافت پاکستان وہندمیں،مجلس ترقی ادب،لاہور،1963،ص110
  11.      خواجہ حسن نظامی،بہادرشاہ کامقدمہ،1937،ص71
  12.      خواجہ حسن نظامی،غدردہلی کے اخبار،لالہ ٹھاکرداس اینڈسنز،دہلی1920، ص128-31
  13.      امدادصابری،تاریخ صحافت اردو(جلداول)،چوڑی والان،دہلی،1953،ص471
  14.      خواجہ حسن نظامی،بہادرشاہ کامقدمہ،1937،ص71
  15.      ایضاً،ص56-57          16
  16.      ایضاً،ص58
  17.      خورشید،عبدالسلام،صحافت پاکستان وہندمیں،مجلس ترقی ادب،لاہور،1963،ص169-70
  18.      خواجہ حسن نظامی،غدردہلی کے اخبار،لالہ ٹھاکرداس اینڈسنز،دہلی1920،ص1
  19.      ایضا
  20.                     ایضاً
  21.      خورشید،عبدالسلام،صحافت پاکستان وہندمیں،مجلس ترقی ادب،لاہور،1963، ص167
  22.      خواجہ حسن نظامی،غدردہلی کے اخبار،لالہ ٹھاکرداس اینڈسنز،دہلی1920،ص6
  23.      خورشید،عبدالسلام،صحافت پاکستان وہندمیں،مجلس ترقی ادب،لاہور،1963، ص164
  24.      خواجہ حسن نظامی،غدردہلی کے اخبار،لالہ ٹھاکرداس اینڈسنز،دہلی1920،ص1
  25.      ایضاً،ص2                  26    
  26. ایضاً،ص3-4               27    
  27. ایضاً،ص4
  28.      پنڈت کنہیالال،تاریخ بغاوت ہند1857 محاربۂ عظیم،عفیف آفسیٹ پریس شاہدرہ، دہلی 2008، ص385
  29.      خان بہادرشمس العلمامحمد ذکاء اللہ،تاریخ عروج عہدسلطنت انگلشیہ،حصہ پنجم،باب اول،شمس المطابع، دہلی 1904،شمس المطابع،دہلی1904،،ص384-85
  30.        امدادصابری،اردوکے اخبارنویس،جلداول،صابری اکیڈمی،محلہ چوڑی والان،دہلی1973،ص86
  31.      صادق الاخبار7؍اپریل1857،بحوالہ امدادصابری،تاریخ صحافت اردو،جلداول،ص472-73
  32.      خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص200-201
  33.      ساورکر،ونائک دامودر، 1857 کاسوتنترسمر،پربھات پرکاشن،دہلی2000، ص78-80
  34.      پنڈت کنہیا لال، تاریخ بغاوت ہند1857 محاربۂ عظیم، عفیف آفسیٹ پریس شاہدرہ، دہلی 2008، ص253
  35.      صادق الاخبار16مارچ1857،موافق 19رجب1273ھ نمبر11،جلد3
  36.      صادق الاخبار26جنوری،1857،جلد3،بحوالہ معین الدین عقیل،تحریک آزادی میںاردوکاحصہ،انجمن ترقی اردو، پاکستان،1976،ص 725
  37. 37     صادق الاخبار،13اپریل 1857،جلد1،نمبر8،ص46-47، بحوالہ1857کوائف وصحائفادارہ مطبوعات پاکستان،کراچی،مئی1957، غدردہلی کے اخبار،ص13-14
  38. 38     صادق الاخبار،19مارچ،1857،جلد2
  39. 39     خواجہ حسن نظامی،غدردہلی کے اخبار،لالہ ٹھاکرداس اینڈسنز،دہلی1920، ص10
  40.  40    صادق الاخبار،22ماررچ 1857،نمبر2،جلد3،بحوالہ غدردہلی کے اخبار،ص11
  41. 41     پنڈت برج موہن دتاتریا،اب سے آدھی صدی پہلے کے اردواخبار،رسالہ اردو،اپریل1925،جلد15، حصہ 58، ص210-13
  42. 42     ایضاً
  43. 43     خان بہادرشمس العلمامحمد ذکاء اللہ،تاریخ عروج عہدسلطنت انگلشیہ ہند،شمس المطابع، دہلی1904،ص 385
  44. 44     صادق الاخبار، 14 ذی الحجہ 1273ھ بمطابق 6 جولائی 1857، بحوالہ عتیق صدیقی، اٹھارہ سو ستاون کے اخبار اور دستاویزیں، مکتبہ شاہراہ، اردو بازار، دہلی، 1955، ص 153
  45. 45     صادق الاخبار 14 ذی لحجہ 1273ھ، جلد 4، نمبر1، مطابق 6 جولائی 1857، بحوالہ عتیق صدیقی، اٹھارہ سو ستاون کے اخبار اور دستاویزیں، مکتبہ شاہراہ، اردو بازار، دہلی، 1966، ص 155
  46. 46     طاہر مسعود،اردوصحافت،انیسویں صدی میں،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،2009،ص380
  47. 47     مظفرالدین فاروقی، ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ، اصیلہ آفسیٹ پرنٹرز دہلی 2008، ص99
  48. 48     تاراچند،تاریخ تحریک آزادی ہند،جلددوم،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،دہلی2001،ص78
  49. 49     سریندرناتھ سین،اٹھارہ سوستاون،مترجم،خورشیدہ پروین،پبلی کیشنزڈویژن،نئی دہلی2001،ص74
  50. 50     خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص280-89
  51. 51     صادق الاخبار6جولائی1857،بحوالہ عتیق صدیقی،اٹھارہ سوستاون کے اخبار اور دستاویزیں،مکتبہ شاہراہ، اردو بازار، دہلی، 1966،ص159
  52. 52     بحوالہ آزادی کی کہانی انگریزوںاور اخبار کی زبانی،ص86
  53. 53     صادق الاخبار،20جولائی1857،مطبوعہ27ماہ ذی قعدہ1273ہجری، بحوالہ عتیق صدیقی،اٹھارہ سوستاون کے اخبار اور دستاویزیں،مکتبہ شاہراہ،اردو بازار،دہلی،1966،ص188-89
  54. 54     ڈبلیو، ڈبلیوہنٹر، ہمارے ہندوستانی مسلمان، مترجم، ڈاکٹرصادق حسین، الکتاب انٹرنیشنل، نئی دہلی 2002، ص121
  55. 55     بحوالہ فضل حق خیرآبادی،باغی ہندوستان،(مترجم)عبدالشاہدشیروانی،مدینہ بک ڈپو، بجنور1947، ص215
  56. 56     1857کے مجاہد،غلام رسول مہر،علمی پرنٹنگ پریس،لاہور1960، ص204
  57. 57     تاراچند،تاریخ تحریک آزادی ہند،جلددوم،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،دہلی2001،ص79
  58. 58     صادق الاخبار،6جولائی1857، بحوالہ عتیق صدیقی، اٹھارہ سوستاون کے اخبار اور دستاویزیں،مکتبہ شاہراہ، اردو بازار،دہلی،1966،ص158-59
  59. 59     خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص373
  60. 60     تاراچند،تاریخ تحریک آزادی ہند،جلددوم،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،دہلی2001،ص79
  61. 61     خورشیدمصطفی رضوی،تاریخ جنگ آزادی ہند1857،یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007،ص377-79
  62. 62     صادق الاخبار20جولائی1857،نمبر3،جلد4،مطابق27ذی قعدہ1273ھ،بحوالہ عتیق صدیقی،اٹھارہ سو ستاون کے اخبار اور دستاویزیں،مکتبہ شاہراہ،اردو بازار،دہلی،1966،ص185-86
  63. 63     مظفرالدین فاروقی،ہندوستان کی جنگ آزادی میںمسلمانوںکاحصہ،اصیلہ آفسیٹ پرنٹرزدہلی 2008، ص 103
  64. 64     عتیق صدیقی، اٹھارہ سوستاون کے اخبار اور دستاویزیں،مکتبہ شاہراہ، اردو بازار، دہلی،1966، ص185-86
  65. 65     تاراچند،تاریخ تحریک آزادی ہند،جلددوم،قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان،دہلی2001،ص79-81


Dr. Md Makhmoor Sadri

(Research Associate)

Department of Urdu, Faculty of Arts

Delhi University-110007

Mob.: 9911685615

Email.: sadrijnu@gmail.com

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں