1/2/23

تخلیقی ادب کی مختصر تاریخ: افسانہ کے حوالے سے: مضمون نگار ارشد اقبال


   تلخیص

اردومیں مختصر افسانہ مغرب کے اثر کی دین ہے۔نثری ادب میں اردو افسانے کو انگریزی ادب کے ذریعے متعارف کرایا گیا اگرچہ اس کی عمر زیادہ نہیں لیکن پھر بھی مختصر عرصے میں نثری ادب کی طرح اس صنف نے دوسری اصناف کی طرح اپنی ایک الگ پہچان بنائی،  جس طرح کسی زمانے میں شاعری ادبی اظہار کا محبوب ذریعہ تھی۔اسی طرح مختصر افسانہ بھی ہے اور اسے اِس امتیاز کا فخر حاصل ہے۔ زیرنظر تحقیقی مقالہ مختصر افسانے کے وجود میں آنے،مغربی اور روسی ادیبوں کاتاریخی احاطہ کرتا ہوا، اور ان کی تحریروں کے اقتباسات کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے،جس سے یہ تحقیق بھی سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو افسانے پر مغرب اورروس کے کن تخلیق کاروں کے فن پاروں کا اثرپڑا۔

کلیدی الفاظ

مختصر افسانہ، داستان، ڈراما، ایڈگرایلن پو، ہڈسن، بیانیہ، صنف، ناول، موپاساں، چیخوف، پریم چند، ماقبل ترقی پسند افسانہ، دوسری جنگ عظیم، جدید اردو افسانہ، ترقی پسند تحریک، جدیدیت، داخلی حقیقت نگاری، علامت، تجریدیت، ترسیل۔

——————

انسان کی داخلی زندگی کی مختلف کیفیات،سماجی زندگی کے مختلف روپ،معاشرتی و ثقافتی زندگی کے مختلف رنگ،معاشی و طبقاتی اور سیاسی تحریکیں اور ان تحریکوں سے متاثر ہونے والی انسان کی مجموعی زندگی،مختلف اصناف ادب کا ہمیشہ موضوع بنی ہیں۔

نثر میں داستان سے افسانہ تک اور شاعری میں مسدس،نظم،مرثیہ اور غزل تک ہر جگہ فن کاروں کے ذریعے،ان کے حالات و کوائف،خیالات اور محرکات کا اندازہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔

جب نثر میں داستانوں نے جنم لیا ان کا مقصد قاری یا سامعین کا دل بہلاناہی کیوں نہ رہا ہو، اپنے دور کے حالات و کوائف،لوگوں کی خواہشات وجذبات کی عکاسی کا ذریعہ بنیں۔ناول وجود میں آیا تو فن کی کچھ باریکیوں اور پابندیوں کے ساتھ ناول نگار اپنے سماج کے کرداروں اور ان کرداروں کے اِرد گرد کے ماحول سے متاثر ہونے والے لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی۔

ناول کے بعد فنکاروں کا اگلا قدم مختصر افسانے کی سمت میں اٹھا۔ افسانے میں داستان کی طرح قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان،ناول کی طرح فن کی پابندیوں کے ساتھ ایک مقصد اور ڈرامے کی طرح قارئین کے دل میں آگے کے حالات جاننے اور سمجھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔افسانہ کا اختصار اس کی سب سے بڑی خصوصیت بن گیا،جس نے قاری کے لیے سوچنے اور غور وفکر کے مواقع فراہم کیے۔غرض یہ کہ مختصر افسانہ اس کی مختلف خصوصیات کے سبب دورِ حاضر کی سب سے اہم ادبی صنف تسلیم کیا گیا۔

اردو افسانے کا جنم بیسویں صدی میں ہوا اور اس طرح اس کی نشوونما میں بیسویں صدی میں تیزی سے رونما ہونے والے سیاسی،سماجی اور معاشی تغیرات کا اہم حصہ رہا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اردو افسانے نے سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کا ہر قدم ساتھ نبھایاتو غلط نہ ہوگا۔ افسانے کی اس خصوصیت نے کبھی شاعرانہ اور کبھی سیدھی سادی بول چال کی زبان میں ہمیں اپنے اِرد گرد کے ماحول سے روشناس کرایا اور مختلف مسائل کی جانب توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ افسانہ طراز کے مقصد سے آگاہ کیا اور دوسروں کے لیے سوچنے اور غور وفکر کرنے نیز مسائل کی طرف نشاندہی کی۔ افسانہ دیگر ادبی اصناف سے متاثر ہوا۔ناول سے اس نے فن حاصل کیا اور ضرورت کے مطابق اس کے فن میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ڈرامے سے اتحادِاثر،سادگی اور اختصار حاصل ہوا لیکن اِن خصوصیات کو اس طرح پیوست کیا کہ قاری پر ان کا اثر ڈرامے سے مختلف انداز میں ہو۔منظر کشی داستان سے ملی لیکن اس میں بھی اختصار نے اس کی اہمیت اور دلچسپی میں اضافہ کیا چنانچہ افسانے کی منطقی (Logical) تعریف دشوار کن ہے۔مشہور انگریزی ناقد بیٹس (Bates H.E) کا کہنا ہے

’’مختصر افسانہ کے وجود میں آنے سے قبل انگریزی،فرانسیسی اور عربی زبانوں کے ادب میں ایسی بہت سی چیزیں موجود تھیں جن میں اور مختصر افسانہ میں بعض حیثیتوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔‘‘1؎

افسانہ نثری ادب کاایک ایسا فارم ہے جو اختصار اور دلچسپ تاثر کے سبب ناول اور ناولٹ سے ممتاز ہے۔حالانکہ مختصر افسانہ اپنی ارتقائی منزلیں اور مراحل طے کرچکا ہے لیکن اس میں اب بھی نئے امکانات پیدا ہورہے ہیں لہٰذا اس کی کوئی حتمی اور جامع تعریف نہیں کی جاسکتی انسائیکلو پیڈیا میں افسانے کو ایک ایسا مربع کہا گیا ہے جس میں صرف ایک شاعرانہ انداز،نثری ڈرامہ اور مقام، سماج، تاریخ سب کچھ ساتھ مل گئے ہیں۔بعض افسانوں میں متذکرہ خصوصیات برابر ہوتی ہیں اور بعض ان سے کوئی ایک خصوصیت ممتاز شکل میں نظر آتی ہے۔اڈگرایلن پو (Edgar Allan Poe)کے خیال میں

’’مختصر افسانہ ایک ایسی صنف ہے جو اتنی مختصر ہو کہ ایک میٹنگ میں مکمل ہوجائے، قاری کو متاثر کرنے کے لیے تحریر کیا گیا ہو اور جس سے وہ تمام اجزا خارج کردیے گئے ہوں جو تاثر قائم نہیں رکھ سکتے۔‘‘ 2؎

ایک دوسری جگہ پو(Poe) نے افسانے کو ایک ایسی محدود طوالت کی بیانیہ نثر ی کہانی کہا ہے جس کے پڑھنے میں نصف گھنٹے سے دو گھنٹے کا وقت لگے۔مندر ج بالا سطور کی روشنی میں پو (Poe) نے اس تعریف میں مختصر افسانے کی فنی خصوصیات کو نظر انداز کردیا ہے جن کو جانے بغیر ہم  افسانے کو صحیح طورپر نہیں سمجھ سکتے۔پروفیسر وقار عظیم نے اس کمی و خامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاہے

’’مختصر افسانہ ایک ایسی نثری داستان ہے جسے بآسانی نصف گھنٹہ میں پڑھ سکیں اور جس میں اختصار اور سادگی کے علاوہ اتحادِ اثر،زمان و مکان اور اتحادِ کرداربدرجہ بہتر موجود ہوں۔‘‘ 3؎

پو (Poe)سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار ایچ  جی ویلز(H.G Wells) نے بھی کیا ہے۔اس کے مطابق افسانہ نصف گھنٹے میںختم ہوجانا چاہیے۔ اس نے مختصر افسانے کی مائیت کو بیان کرتے ہوئے کہاہے

’’یہ ہیبت ناک ہوسکتا ہے یا رحم انگیز یا مزاحیہ یا خوبصورت یا گہری معلومات افزا، محض انھیں خصوصیات کے ساتھ کہ بلند آواز سے پڑھنے میں پندرہ سے پچاس منٹ تک لگیں۔‘‘4؎

افسانے کے تعلق سے سر پول(Sir. Paul) نے اپنے خیالات اس طرح بیان کیے ہیں

’’افسانہ کو صرف افسانہ ہی ہونا چاہیے۔تفکر کا نقشہ،واقعات و حادثات سے معمور جو حرکت اور غیر متوقع ارتقا سے تشویش اور منتہا تک پہنچے اور یہ ارتقا  قاری کو مطمئن کرسکے۔‘‘5؎

جبکہ لنڈن (Lyndon) کا ماننا ہے

’’مختصر افسانہ کو ٹھوس،موضوع بیان سے متعلق،تیز اور رواں اور زندہ چٹخارے دار اور دلچسپ ہونا چاہیے۔‘‘6؎

ڈبلو ایچ ہڈسن (W.H Hudson) کا خیال ہے

’’مختصر افسانہ کو صاف صاف بالکل اسی طرح ہمیں متاثر کرنا چاہیے جو اچھی متناسب، اپنے مقصد میں بھرپور مگر بھیڑ بھاڑ کے معمولی اشارے سے بھی مبرااور اپنے آپ میں مکمل ہو۔ مقصد اور تاثیر کی وحدانیت دو بڑے اصول ہیں جن سے فن پارے کی حیثیت سے ہمیں افسانے کی قدرو قیمت سمجھنا چاہیے۔‘‘ 7؎

انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر میں افسانہ کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے

’’مختصر افسانہ سب سے زیادہ قدرتی صنف ادب ہے۔اس کی پہچان چاہے کسی بھی انداز سے کرائی جائے،یہ مختصر طور پر اظہار کا ذریعہ ہی رہتا ہے۔یہ سب سے آزاد طرز تحریر ہے۔کسی بھی قسم کی شاعری سے زیادہ آزاد اور شاید ناول سے بھی زیادہ آزاد طرز تحریر ہے۔ ایک افسانے میں وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو ایک نظم میں یا ایک ناول میں نہ ہو۔ایک افسانہ، ایک نظم ہوسکتا ہے اور بنیادی طور پر ایک ناول یا بیک وقت دونوں ہی ہوسکتا ہے لیکن کوئی بھی نظم مختصر افسانہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی ناول مختصر افسانہ ہوسکتا ہے۔‘‘8؎

مشہور و معروف ادیبہ الزبتھ باوین (Elizabeth Bowen) نے افسانے کو ایک الگ ہی انداز میں دیکھنے کی کوشش کی ہے

’’افسانہ کی سب سے اہم و لازمی شرط اس کی ضرورت ہے دوسرے لفظوں میں اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ مختصر افسانہ کو کسی ایسے تاثر یا جذبے سے جنم لینا چاہیے جو اتنا تیز اور گہرا ہو کہ افسانہ نگار کو اپنے اظہار کے لیے مجبور کردے۔‘‘9؎

مندرج بالا مغربی ادیبوں نے افسانے کی تعریف،صرف اس کے چند پہلوئوں کی بنیاد پر کی ہے۔ اس لیے اس کی واضح تعریف ابھی باقی رہ جاتی ہے،پھر بھی افسانے کی جو خصوصیات بیان کی گئیں ہیں، انھیں مختصر طورپر بیان کرسکتے ہیں۔

1                   یہ بیانیہ صنف ہے۔

2                   اس کو ایک ہی نشست میں پڑھا جائے۔

3                   اس کو رحم انگیز،ہیبت ناک،مزاحیہ،خوبصورت یا معلومات افزا ہونا چاہیے۔

4                   اس میں ایک کردار کا مطالعہ یا جذبات کا سلسلہ ہوناچاہیے۔

5                   واقعات و حادثات مکمل پلاٹ سے مطابقت رکھتے ہوں۔واقعات تیز رفتار یا حادثات سے معمور ہوں۔

6                   اس میں افسانوی رنگ ہونا چاہیے جو فکر انگیز واقعات سے معمور اور اپنے قاری کواطمینان بخش طریقے سے انجام تک لے جائے۔

7                   اس کا خاکہ مکمل،واضح،متوازن اور مقصد کے اعتبارسے مفصل ہو۔

8                   پُراثر ہونے کے لیے خیالات اور مقصد میں ہم آہنگی ہو۔

9                   ایک واقعہ یا ایک مسئلے کو لے کر مصنف اس کے گرد واقعات کا تانا بانا بنتا ہے۔

10             اختصار اور سادگی کے علاوہ اتحادِ اثر،اتحاد زمان و مکاں اور اتحادِ کردارہو۔

 ڈاکٹر عندلیب شادانی نے بھی افسانے کی تیرہ خصوصیات بیان کی ہیں:

1                   کسی ایک واقعے پر مبنی ہونا چاہیے۔

2                   پلاٹ پیچ دار نہ ہو۔

3                   کرداروں کے بمقابل پلاٹ کو ثانوی حیثیت دی جائے۔

4                   کرداروںکو حقیقی زندگی کی جیتی جاگتی اور منہ بولتی تصویر ہونا چاہیے۔

5                   کرداروں کو انفرادی خصوصیات اور ان کے اطوار و خصائل،مکالموں کے ذریعے بیان کیا جائے۔

6                   کرداروں کی تعدادحتی المقدور کم ہو۔

7                   ایسے اشاروں کا استعمال اور جزئیات کا انتخاب کرنا چاہیے کہ ان کی مدد سے بہت سی تفصیلات خود بخود دماغ کے سامنے آجائیں۔

8                   غیر ضروری باتوں کے ذکر سے یکسر اجتناب کرنا چاہیے اور افسانہ اس حد تک ضروری اجزا و عناصر سے مرکب ہونا چاہیے کہ اس میں چند جملوں کو حذف کرنا ممکن ہو۔

9                   نہایت معنی خیز جملوں کا استعمال کرنا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ مطالب،کم سے کم الفاظ میں بیان ہوسکیں۔

10             تمام کوائف کو حقیقت کے مطابق ہونا چاہیے۔

11             زندگی کی جزئیات کا مشاہدہ اور مطالعہ نہایت عمیق ہونا چاہیے۔

12             افسانہ نگار کو ایسی فضا پیدا کرنا چاہیے کہ پڑھنے والا مخصوص کرداروں سے ہمدردی یا نفرت کرنے پر مجبور ہوجائے۔10؎

ڈاکٹر مسیح الزما ں افسانے کو زندگی کی تفسیر کہتے ہیں

’’جس میں زندگی کا ایسا نقشہ پیش کیا جائے،جس پر حقیقت کا دھوکہ ہوسکے،وہ زندگی کی تعبیر بھی ہو اور تصویر بھی اور اس کے ساتھ اس میں مصنف کا نقطۂ نظر بھی ہونا ضروری ہے۔ زندگی پر مجموعی حیثیت سے یا اس کے بعض مسائل پر لکھنے والے کی جو رائے ہوتی ہے، وہ بھی افسانے میں ظاہر ہوتی ہے۔ایک واقعے یا ایک مسئلے کو لے کر مصنف اس کے اِرد گرد کے واقعات کا تانا بانا بنتا ہے اور اس طرح ایک افسانہ تیار ہوجاتا ہے۔‘‘11؎

اردو افسانے کے امام پریم چند کا خیال ہے کہ ’’افسانہ نفسیاتی تجزیہ اور زندگی کی حقیقت اور فطری تصویر کشی کو اپنا مقصد قرار دیتا ہے۔‘‘12؎

مختصر افسانے کے بارے میں گیری جے شپلے(Gary J. Shipley)کا ماننا ہے

’’مختصر افسانہ ناول کے مختلف عناصر میں سے کسی ایک کو اجاگر کرتا ہے۔اس میں کردار کو مکمل طور پر پیش کیا جاتاہے۔ناول کی طرح اس کی تصویر مختلف مدارج میں پوری نہیں کی جاتی ایک تصوراتی داستان،مختصر بیا نیہ کہانی ہوسکتی ہے لیکن اس میں توازن کی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہی حقیقت بلکہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو پریوں کے دیس میں یا چاند پر رونماہوسکتے ہیں اس طرح اسکیچ میں وہ گہرائی نہیں ہوتی جو مختصر افسانہ کا اہم عنصر ہے۔‘‘13؎

غرض یہ کہ شپلے افسانے کی تین اہم خصوصیات پر زور دیتا ہے۔ یہ اہم خصوصیات حقیقت پر مبنی کوئی ایک مکمل واقعہ اور کرداروںکا قاری پرگہرا تاثر کہے جاسکتے ہیں۔ افسانے کی تعریف اس طرح بیان کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں حقیقی ماحول اور کردار مکمل طور پر پلاٹ سے مطابقت رکھتے ہوں جس کی زبان عام فہم اور معنی خیز الفاظ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا گیا ہوجس سے طوالت پر قابورکھاجا سکے،جس میں اتحادِاثر برقرار رکھنے کے لیے خیالات سے بچنے کی کوشش کی گئی ہو نیز کرداروں کے تجزیے کے ساتھ زندگی کی جزئیات کا گہرا مشاہدہ،فنی چابکدستی اور مقصد کی بلندی ہولیکن فن اور مقصد کی بلندی قاری اور افسانہ نویس کے خیالات کی ہم آہنگی کے درمیان کوئی شگاف پیدا نہ کرے بلکہ یہ کوشش کرے کہ ہر قدم پر قاری کا تجسّس برقراررہے اور قاری افسانے کے فکرانگیز اختتام پر پہنچے تو کرداروں سے اس کی وابستگی پورے طور پر قائم ہوجائے اور پیش کیے گئے واقعات و حادثات سے وہ پوری طرح متاثر ہو چکا ہو۔

افسانہ کی تاریخ

اردو افسانے پر انگریزی ادب کا بہت گہرا اثر پڑا۔اردو افسانوی ادب پر جیمز جوائس  (James Joyce) اور مارسل پروست(Marcel Proust) کا پیش کردہ نظریہ شعور کی رو اور کردار نگاری کا نفسیاتی طریقہ، اپنے جذبے کی تسکین کے لیے سرگرداں لوگوں کے اِرد گرد کا ماحول پیش کرنے والے لارنس (Lawrence) ورجینیاوولف(Virginia Woolf) کی مادّی زندگی کے خلاف بغاوت، کرسٹن ڈائرہکے(Christine Dwyer Hickey) کا فلسفیانہ انداز بیان،چیخوف (Chekhov) کا انسانی محبت اور ہمدردی کا عالمگیرجذبہ،سگمنڈ فرائڈ(Sigmund Freud) کی جنسی نفسیات اور اس میں شعور کا عمل دخل،کارل مارکس (Karl Marx) کا معاشی نقطۂ نظر اوراِوان ترگنیف (Ivan Turgenev) کا فن کردار نگاری کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ان تمام خصوصیات نے مل کر اردو افسانوی ادب کو نہ صرف نئی راہیں عطا کیں اور تنوع کے مواقع فراہم کیے بلکہ فن کے رموز سے بھی روشناس کرایا۔

انیسویں صدی کے شروع میں افسانہ بحیثیت ایک علاحدہ صنف کے طور پر نمودار ہوئی جرمنی، امریکہ، روس اور فرانس میں اس کے مجموعے شائع ہوئے۔ جرمنی میں ہاف مین (Hoffmann) نے 1814-1821 کے درمیان اپنے، مختصرافسانے شائع کیے۔ امریکہ میں واشنگٹن اِرونگ (Washington Irving) کے مجموعے ’دی اسکیچ‘‘(The Skech Book) 1819-1820 میں شائع ہوئے اور مختصر افسانہ کی بنیاد بنے۔آخرمیں تین فرانسیسی ادیبوں مریلے،بالزاک اور گویٹر نے مختصر افسانے کو فنی اعتبار سے اتنا آگے بڑھایا کہ ان کی بنائی ہوئی راہیں پوری صدی کے زیادہ تر افسانہ نگاروں کے لیے مشعل راہ بنیں۔

1932میں پو (Poe) اور نتھانیل ہاتھرون کے مختصر افسانے منظرعام آنے لگے تقریباً اسی زمانے میں دو روسی ادیب الگزینڈرپوشکن اور نکولائی گوگول نے ڈرامے اور ناول لکھنا چھوڑکر مختصر افسانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔ان دونوں ادیبوں کی تخلیقات میں عام آدمی کی زندگی سے متعلق تفصیلات کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ خصوصیت اس دور کے جرمن اور امریکی فن کاروں سے انھیں ممتاز کرتی ہے۔یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ افسانہ تقریباً ایک ہی دور میں مختلف ممالک میں ایک اہم صنف ادب بن کر اُبھرا،اور مختلف زبانوں کے ادیبوں،مختلف تکنیک اور مختلف موضوعات پر لکھنے کے باجود اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مختصر افسانہ ایک اہم صنف ہے،جس کا دامن انتہائی وسیع ہے،جو فن کا اعلیٰ نمونہ ہے اور اس میں تجربوں کی بڑی گنجائش ہے۔

جرمن ادیب ٹیک اور ہاف مین کا تصوراتی رومان پر زور،امریکی ارونگ کا رومانی یا خوفناک واقعے پر زور پو(Poe)کا نفسیات اور ہاتھرون کا کردار یا Moral پر زور،ان کی تخلیقات کی اہم خصوصیات رہی ہیں۔ مریملے اور بالزاک حقیقی ماحول اور کردار، ژرف بینی و چابکدستی سے بیان کی گئی تفصیلات کو اہمیت دیتے ہیں۔

پو(Poe) کے طرز تحریر کو ترقی دینے والوں میں اہم نام موپاساں کا ہے اور روسی افسانہ نگاروں میں گوگول کے فن کو آگے بڑھانے میں سب سے اہم نام ترگنیف کا ہے۔جنھوں نے گوگول کی طرح عام کسانوں کی زندگی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا،جن کا مقصد اپنے کرداروں کی ایک ایک بات کو پیش کرنا تھا۔اس لیے وہ واقعہ کے بجائے کرداروں پر توجہ دیتے رہے۔ اس طرح پو(Poe)اور ترگنیف کے افسانوں میں دو بالکل مختلف باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ پو(Poe) واقعات کا اختتام تحریرپر کرتا ہے اور ترگنیف کرداروں کو پیش کرتا ہے جن کے ذریعے واقعات اور ان کی اپنی زندگی کے حادثات قاری کے سامنے آتے ہیں۔

بیسویں صدی کے افسانوی ادب پر دوفنکاروں کا اثرنمایاں طورپر رہا ہے۔ایک فرانسیسی ادیب موپاساں(Guy de Maupassant) اور روسی ادیب چیخوف کا۔

موپاساں، پو(Poe)کی پیروی کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ زندگی کی مایوسیوں، ناامیدیوں اور ناکامیوں کا حقیقی جائزہ اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری اختتام پر چونک جاتا ہے۔ چیخوف، ترگنیف کی طرح اپنے کرداروں کی زندگی کے واقعات بیان کرتا ہے۔اس کے افسانوں کا اختتامیہ چونکا دینے والا نہیں ہوتابلکہ قاری واقعات،ماحول اور کرداروں سے ہم آہنگی محسوس کرنے لگتا ہے۔

برطانوی ادب میں افسانہ دوسرے حلقوں کے مقابلے میں کافی تاخیر سے اپنی جگہ بناسکا حالانکہ معروف ناول نگار والٹراسکاٹ (Walter Scott)، دوسرے چارلس ڈکسن (Charles Dixon) اور تھامس ہارڈی(Thomas Hardy) نے اکثرو بیشتر افسانے تحریر کیے لیکن متذکرہ فنکاروں میں وسعت اور وہ فنی ہم آہنگی نہیں تھی جو روسی،فرانسیسی اور امریکی افسانوں میں نمایاں خوصوصیات تھیں۔

انیسویں صدی کے اواخر میں رابرٹ اسٹیونسن (Robert Louis Stevenson) آسکر وائلڈ (Oscar Wilde) اور دوسرے امریکی افسانہ نگاروں یعنی ارونگ اور پو(Poeوغیرہ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ پھر کپلنگ (Coupling) نے اسے ترقی کے مدارج عطا کیے۔

بیسویں صدی کے ابتدائی بیس پچیس برسوں میں افسانہ نگاروں پر کپلنگ کا اثر نظرآتا ہے لیکن انگلینڈ میں افسانہ حقیقت میں پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی ترقی کرسکا۔اس دور میں جیمس جوائس، ورجینیا وولف اور ڈی ایچ لارنس نے افسانہ کی جانب توجہ کی۔ سمرسٹ  (Somerset) نے اس دور میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ اس کے فن پاروں کی خصوصیات میں مقصدیت، انسانی کمزوریوں کا گہرا مطالعہ اور طنز بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ان خصوصیات نے بعد کے فنکاروں کی تخلیقات میں جگہ بنائی۔ ہنری گرین(Henry Green) بیٹس(Bates) اور الز بیتھ(Elizabeth Bowen) نے افسانے کو ترقی کی نئی نئی منازل سے ہمکنار کرایا۔

افسانے کی ترقی میں تین باتوں کا بڑا دخل رہا ہے،جن کا مختصر ذکر اس طرح کرسکتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر تک ناول اپنی فنی بلندیاں طے کرچکا تھااور اس میں مزید تجربوں کی گنجائش محدود ہوگئی تھی۔دوسرے یہ کہ انیسویں صدی کے شروع میں رومانی تحریک نے اس صنف میں نئے نئے تجربوں کی ترغیب دی۔تیسرے یہ کہ افسانہ مختصر ہونے کے سبب رسائل کی ترقی میں بڑا معاون ثابت ہوا۔ قارئین کو ایک ہی میگزین میں مختلف افسانوں کی قرأت کا موقع فراہم ہوا،جس سے رسائل کی مانگ بڑھی اور رسالوں نے بھی افسانے کی ترقی اور اسے عوام الناس تک پہنچانے میں کافی اہم رول ادا کیا۔

افسانہ ہرملک،ہر قوم اور ہر زبان کے ادب میں دوسری اصناف کے مقابل میں زیادہ مقبول ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ معاون ثابت ہوا اس میں فنون لطیفہ، ناول، ڈرامہ اور شاعری کی خصوصیات یکجاہوجاتی ہیں۔علاوہ ازیں افسانہ اختصار کے باوجود اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔اس پر روشنی ڈالتے ہوئے پریم چند نے لکھاہے

’’آج کل افسانہ کا مفہوم بہت وسیع ہوگیا ہے۔اس میں پریم کی کہانیاں،جاسوسی قصے،سفر نامے،حیرت انگیز واقعات سائنس کی باتیں،یہاں تک کہ دوستوںکی گپ شپ بھی شامل کردی جاتی ہے۔‘‘14؎

افسانے کی اہمیت کا احساس، بدلتی ہوئی سماجی اقدار، صنعتی ترقی اور ادبی مذاق میں تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا۔ ایک مختصر وقت میں کہانی پڑھنے کا جذبہ، صنعتی دور میں بڑھی ہوئی مصروفیات، اس کی وجہ سے ذہنی تکان دور کرنے کے لیے ادبی آسودگی کا جذبے افسانے کے ذریعہ پورا ہوتا ہے، جس میں شاعر کا انداز بھی مل جاتا ہے۔ایک دلچسپ قصے کا لطف بھی اور ڈرامے کے کردار بھی قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔ جس سے افسانہ قاری کو،اس کی الجھنوں سے کچھ وقت کے لیے دور کرکے،اسے افسانے کے پلاٹ،حادثات اور نفسیاتی پہلوئوں کے ذریعے تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے۔

افسانے کا مزاج ابتدا ہی سے ایسا تھاکہ گرد و پیش کی زندگی اور ماحول کا ترجمان اور مصور بنا۔یہ زمانہ ملک کی سیاسی و سماجی،معاشی اور ادبی حیثیت سے بہت اہم تھا۔جب ملک کی معیشت نئے انداز سے کروٹیں لے رہی تھی۔سیاست آزادی کے حصول کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور ادیب،ادب کے ذریعے ان حالات سے متاثر ہوکر وقت کا ساتھ دے رہا تھا۔

لہٰذاپریم چند کے دوسرے دور کے افسانے ملک کی معاشی اور سیاسی حالات کا آئینہ دار بن کر سامنے آئے۔ان کے افسانوں میں معاشرتی عناصر اور پس منظر کے ساتھ ملک کی سیاست کا رنگ اتنا گہرا ہے کہ ان کے اُس دور کے افسانوں کو ایک حد تک سیاسی افسانے کہا جاسکتا ہے۔

علاوہ ازیں دوسرے بہت سے افسانہ نگاروں کے یہاں بھی سیاسی حالات کی عکاسی ملتی ہے۔یہ دور سیاسی اعتبار سے اس لیے بھی اہم ہے کہ کسانوں اور مزدوروں کے مفاد کو سیاسی تحریک کا ایک اہم جز و سمجھاگیا۔ اُن کی اجتماعی افرادی قوت کو موثرطورپر سیاسی میدان میں بروئے کار لایاگیا اور سیاسی گروپوں نے مزدوروں اور کسانوں کی مانگوں کو اپنے پروگرام میں شامل کرلیا۔

1930 سے قبل اردو افسانہ مجموعی طور پر انیسویں صدی کے انگریزی افسانہ سے آگے نہیں بڑھا تھا۔1930کے آس پاس پروفیسر مجیب،جلیل احمد قدوائی اور خواجہ منظور حسن نے چیخوف،ٹالسٹائی اور ترگنیف جیسے ممتاز ادیبوں کے فن سے اردو افسانے کو روشناس کرانے کا کام شروع کیا۔اُس زمانے میں نوجوان، سیاسی زندگی اور آزادی کے لیے بے قرارہورہے تھے۔اب امریکہ کی آزادی،انقلاب فرانس اور انقلاب روس سے متعلق لٹریچراور کارل مارکس اور لینن کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کرنا،ان کے بارے میں جانکاری مہیا کرنا،ان کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔

سیاست،دیہی معیشت،سرمایہ اور مزدور اس دور کے افسانوں کا خاص موضوع رہے ہیں۔پریم چند نے اُس دور میں بھی قیادت اپنے ہاتھ میں رکھی اورمتعدد نوجوان افسانہ نگاروں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔

اردو افسانہ کے نمونے انیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے ملتے ہیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب کپڑے کی ملوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔اس کے ساتھ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروںکا ایک نیا طبقہ وجود پارہاتھا۔مذہبی اور معاشرتی اصلاح کی تحریک شباب پر تھی اور اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے اس نے سیاسی اور قومی تحریک کی شکل اختیار کرلی تھی۔بیسویں صدی کی ابتدا میں ان تحریکوں میں شدت پیدا ہو گئی۔سیاسی رہنما حکومت سے ایسی اصلاحات کی مانگ کر رہے تھے جن سے ملک کی معاشرتی اور تعلیمی زندگی بہتر ہوسکے جبکہ دوسری جانب مذہبی مفکر مغربی تہذیب کے سیلاب کو روکنے کی کوشش میں سرگرداں تھے۔

اردو افسانہ نے ایسے دور میں جنم لیا کہ جب ادیب و شاعر تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔یعنی ادب قومی زندگی میں ایک تعمیری رول ادا کرراہاتھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب بین الاقوامی نثری ادب پر پو،ارونگ ہاتھرون،چیخوف،گوگول اور ترگنیف جیسے عظیم فنکاروں کا بول بالا تھا۔

افسانہ انگریزی اور یوروپ کی دیگر زبانوں میں مقبول ہوچکا تھا۔فنی اعتبار سے مختلف تجربات ہوچکے تھے اور اس طرح یہ ادب میں اپنی جگہ بنا چکا تھا۔پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں

’’اردو ادب کے بعض مورخین کا خیال ہے کہ اردو میں پریم چند سے قبل افسانہ کا باقاعدہ رواج نہیں تھا۔اس لیے ان کے نزدیک افسانہ نگاری کی ابتدا کا سہرا پریم چند کے سرہے۔‘‘ 15؎

فنی اعتبار سے سجاد حیدریلدرم اور پریم چند دونوں کے ہی افسانے مالامال ہیں دونوں کے موضوعات اِسی معاشرتی اور سیاسی زندگی کا حصہ ہیں جو ان کے اِرد گرد بکھری ہوئی تھی۔یلدرم اور ان سے متاثر ہونے والے اپنے اِردگرد حقیقی زندگی پرایک خیالی اور جذباتی غلاف چڑھاکر واقعات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔پریم چند اور ان کی راہ چلنے والے حقائق کی ٹھوس زمین پر چلتے ہیں۔

پریم چند کا دائرہ خیال،سماجی اور قومی ہے،زندگی کے حقیقی واقعات ہیں۔جہاں عوام ہیں،ان کی زندگی کا حسن ہے،درد ہے،انسانیت اور انسانیت کا مذاق اڑانے والے ہیں۔غرض یہ کہ دونوں ہی رجحان کم و بیش متوازن چلتے نظر آتے ہیں۔کسی کے یہاں حقیقت پسندی کاعنصر نمایاں ہے، تو کسی کے یہاں رومانیت کا۔

1930کے بعد اردو افسانے کو روسی،فرانسیسی، انگریزی اور جاپانی زبانوں کے ترجموں سے بڑی وسعت حاصل ہوئی۔ان کے ترجمہ نگاروں میں خواجہ منظور حسین،پروفیسر مجیب،جلیل احمد قدوائی، منصوراحمد، محشرعابدی،ڈاکٹر محی الدین،عبدالقادر اور ظفر قریشی کے نام اہم ہیں۔حامد علی خاں نے عربی کی داستان ’الف لیلیٰ ‘سے اپنے افسانوں کے لیے مواد حاصل کیا۔بعد ازاں مترجمین کی ایک فہرست میں عزیز احمد،عبدالرحیم شبلی،قمر تسکین،طاہر قریشی،محمد یونس،نصیراحمداور راجہ مہدی علی خاں کے نام خاص طورپر سامنے آتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے بھی روسی افسانوں کے تراجم کا ایک مجموعہ شائع کیا۔

اِن ترجموں سے اردوافسانہ نگاربھی متاثر ہوئے، انھیں موضوع کے انتخاب،پلاٹ کی تعمیر، ڈرامائی اختتام،تکنیک کے تنوع اور مقصد کی جانب متوجہ کیا۔اس زمانے میں ایسے افسانے بھی منظرعام پر آئے جو بحث کا موضوع بنے۔ان افسانوں میں رومانی انقلاب پسندی،مذہبی و سیاسی تنقید،جدید نفسیاتی معنویت اور نئے ڈرامائی اسلوب کی،اِس طرح آمیزش کی گئی کہ عوام میں شدید ردعمل لازمی تھا۔  دراصل یہ افسانے خیال اور فن کی چابکدستی سے محروم تھے۔عام فہم اور سماجی اقدار سے بغاوت، ان کے ایک ایک لفظ سے ظاہر تھی۔ایسے افسانوں کے خالقین کی بغاوت بوسیدہ و بے جان قدروں، مصالحت پسندانہ،سیاسی تحریکوں،بے رحم سماجی قوانین اور استحصال کے خلاف تھی جبکہ احتشام حسین نے ایسے افسانہ نگاروں کو ایک تاریخی تقاضا پورا کرنا قراردیا ہے۔

اس میں دورائے نہیں کہ ترقی پسندتحریک نے اردو افسانے کو غیر معمولی رفتار دی،فنی تجربوں کے ساتھ ساتھ نئے موضوعات سے بھی واقف کرایا۔اس زمانے میں افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک سے متاثر ہوئی حالانکہ ابتدامیں اس تحریک سے متعلق بعض افسانہ نگاروں میں مقصدیت کا فقدان نظرآتا ہے اور کہیں کہیں بے راہ روی بھی کھٹکتی ہے۔چنانچہ اس لغزش کا ذکر کرتے ہوئے احتشام حسین لکھتے ہیں

’’یہ ایک حقیقت ہے کہ سماجی حقیقت نگاری کے پردے میں جنسی بے راہ روی، لذتیت اور عریانیت کو بھی جگہ مل گئی۔افسانہ نگاروں کے شعور میں جنسی اور ترقی پسندانہ تصورات گڈمڈ ہوئے اور پریم چند کی روایت سے رشتہ جوڑنے کے باوجود لذتیت اور رومانیت کے وہ عناصر،سماجی جبرو ظلم کا بھیس بدل کر افسانوں میں داخل ہوگئے جو شعور کی عدم پختگی پر دلالت کرتے تھے۔‘‘16؎

متذکرہ تحریک سے وابستہ افسانہ طرازوں نے اپنے اسلوب کے ساتھ، اپنے مشاہدے اور تجربوں کی بنیاد پر نئے موضوعات کا احاطہ کیا۔ملک کی غلامی، طبقاتی کشمکش، افلاس، سماجی انتشار، قومی اتحاد، امن کی خواہش، متوسط طبقے کی اخلاقی اقدار کا کھوکھلاپن، بیکاری، گھٹن، ایثاروقربانی کی لگن، خاندانی زندگی کی ابتری،فرقہ پرستی،رجعت پرستی،بین الاقوامی سیاسی رسہ کشی ایسے کتنے ہی موضوعات پر افسانے تخلیق کیے گئے۔

جن افسانہ نگاروں نے فن کی نزاکتوں کے ساتھ ساتھ افسانے کو معاشرے اور سماجی مسائل کا آئینہ دار اور الجھنوں میں گھرے ہوئے افراد کا ترجمان بنایا،ان میں خاص طور پر پریم چند کے علاوہ کرشن چندر، بیدی، حیات اللہ انصاری،احمد علی،عصمت چغتائی،احمد ندیم قاسمی،عزیزاحمد، حسن عسکری،اختر حسین رائے پوری، خواجہ احمد عباس،اختراورینوی،سہیل عظیم آبادی،ابراہیم جلیس، مہندرناتھ،شوکت صدیقی، منٹو، ہنس راج رہبر،ہاجرہ مسرور،خدیجہ مستور،سجاد ظہیر،انتظار حسین،بلونت سنگھ،مسیح الحسن وغیرہ بہت اہم ہیں۔

متذکرہ افسانہ طرازوں میں بعض نے اپنے فن پر بھرپور گرفت،مشاہدہ اور اسلوب کی وجہ سے قاری کو اپنی جانب متوجہ کیا۔بعض تخلیق کاروں نے زندگی کے ایسے مسائل کو موضوع بنایا جو متوازن زندگی سے غیر متعلق تھے۔بعض نے سیاسی و سماجی شعور کی جانب توجہ مرکوز کرائی اور بعض کے افسانے، ان کے کرداروں کے اعصابی تنائو کا مظہرہونے کی وجہ سے متوجہ کرتے ہیں۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد افسانہ نگاروں کی نئی نسل اس طرح ابھری کہ اس نے بہت کم وقت میں اپنے لیے ادبی دنیامیں اہم مقام بنالیا۔گوکہ یہ فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے البتہ چند نام قابل ذکر ہیں۔مثلاً قرۃ العین حیدر،ممتاز مفتی،اے حمید،رام لعل،جیلانی بانو،اقبال متین،شکیل الرحمن، ظفرپیامی، حامدی کاشمیری، عابد سہیل، رتن سنگھ، کوثر چاند پوری، اشفاق احمد جوگندر پال، قیصرتمکین، دیویندر اِسّر،کشمیری لال ذاکر اور شکیلہ اختروغیرہ۔

ماقبل ترقی پسند افسانہ

1936سے پہلے اردو افسانے کا جائزہ لینے سے قبل، اس دور کے معاشی، معاشرتی،سماجی اور سیاسی حالات کا مختصراً ہی سہی جائزہ لینا ہوگا تاکہ اُس دور کے افسانے جو سیاسی،سماجی اور معاشرتی تصویریں پیش کرتے ہیں،انھیں سمجھنا آسان ہو۔

پہلی عالمی جنگ اور 1914-18 سے تقریباً 1930تک کے ہندوستان کے بعض سیاسی اور سماجی حالات کاجائزہ مختصرطور پر اس طرح لیا جاسکتا ہے کہ عالمی جنگ کی وجہ سے ہندوستانی معاشرتی ڈھانچہ معاشی بنیادوں پر ٹکنے لگاتھا۔جہاں صنعتی مراکز تھے،وہاں کارخانوں کی تعداد بڑھ گئی۔ملک کی اہم ترین صنعت (سوتی کپڑے) کی پیداوار بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب بڑھناشروع ہوئی۔اس ترقی میں جہاں مختلف صنعتی پالیسیوں کا دخل رہا، وہیں عوام میں جذبہ حریت کی شدت کے سبب غیر ملکی اشیاکا ترک کرنا بھی بہت اہم رہا۔یہی وجہ تھی کہ ’لنکاشائر‘کپڑے کی صنعت بہت متاثر ہوئی۔ ہندوستان کی کپڑے کی صنعت نے دوسری کمپنیوں کے مقابلے،اس قدر ترقی کی کہ غیرملکی کپڑے کی کمپنیاں بے حد متاثر ہوئیں،یعنی پہلی عالمی جنگ سے قبل (1913-14) ملک میں لگ بھگ تین ارب دس کروڑ گز سے بھی زیادہ کپڑا منگوایا گیا تھا اور ہندوستان کی ملوں میں تیار کیا جا نے والا کپڑا تقریباً دو ارب گز سے کچھ زیادہ تھاجو 1936 تک بڑھ کر تین ارب پچاس کروڑ گز ہوگیااور غیر ملکی کپڑے کی کھپت گھٹ کر 80 کروڑ رہ گئی تھی۔

ہندوستان میں صنعتی ترقی سے سرمایہ اور مزدور کا مسئلہ بھی اہم ہوگیا جس سے صنعتی زندگی کے انداز نے دیہی معاشی سسٹم کو بھی متاثر کیا،سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔قابل کاشت زمین پر بڑھتی ہوئی آبادی کے انحصار،دیہی صنعتوں کے زوال اور معاشی مسائل نے سود خور سرمایہ دوروں کو گائوں کے سیدھے سادے غریب کسانوں اور ہاتھ کے کاریگروں کو اپنے شکنجے میں جکڑ نے کا موقع ملا۔

1935 کے ختم ہوتے ہوتے نئے افسانہ نگاری کے میدان میں نئے فنکاروں کا اضافہ ہواجو افسانہ 1929-1930سے قبل لکھ رہے تھے،انھوںنے اس سلسلے کو جاری رکھا ان میں پریم چند،علی عباس حسینی، نیاز فتح پوری،مجنوں گورکھپوری کے نام اہم ہیں۔چند افسانہ نگار ایسے بھی تھے جنھوں نے 1929-30کے درمیا ن لکھنا شروع کیا تھا،انھوں نے اس صنف میں اپنے لیے مزید بہتر مقام بنایا،ان میں حامداللہ افسر، سدرشن، عظیم بیگ چغتائی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اس دور کا افسانوی ادب پڑھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ افسانے میں حقیقی زندگی کی گہماگہمی اس کے اتار چڑھائو اور مختلف رنگوں، کامیابی، ناکامی، الجھنیں، مصائب، اعتقاد،رسم و رواج خواہشوں اور آرزوئوں کی عکاسی کی جو بنیاد 1929-30 میں پڑی تھی،وہ آئندہ پانچ چھ برسوں میں فن کے لیے لازمی حصہ بن گئی،افسانہ اور زندگی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوگئے۔ہر افسانہ نگار اب زندگی کے اُسی پہلو کے متعلق لکھتا جو اس کے مشاہدے اور تجربے میں آچکا ہے۔ وہ بین الاقوامی سیاست اور اس کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے کی کوشش نہ صرف تیز کرچکا تھابلکہ ایک حد تک وہ اپنی آزادرائے اور سوچ بھی رکھتا تھا۔ یعنی ان کا حال بھی برطانیہ میں اس زمانے کے دانشوروں ادیبوں، شاعروں اور اس طبقے کا تھا جو اپنے ملک برطانیہ میں لگ بھگ تیس ہزار سے بھی زائد بیکار مزدوروں کے مسائل کے علاوہ متوسط طبقے کی زندگی کو روز بروز الجھنوں میں پھنستادیکھ رہے تھے اور ان حالات سے پیدا شدہ احساسات نے انھیں سماجی بیداری کا دانشور،ادیب یا شاعر بنادیا تھا۔وہ سیاست سے دور نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے ایک طرف اپنے ملک میں سامراج کی مخالفت کی اور دوسری جانب بین اقوامی سطح پر اسپین میں فاشزم سے برسرپیکار جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔

1935کے ختم ہونے تک اردو مختصر افسانوں کے موضوعات میں حقیقت پسندی اور فن میں اصول و ضوابط کی پابندی ایک دوسرے سے مربوط و منضبط معلوم ہوتی ہیں۔

دوسری جنگ عظیم اور افسانہ

یکم ستمبر 1939کو جرمن فوجوں کے پولینڈ پر حملہ کرنے سے دوسری عالمی جنگ کی ابتدا ہوئی۔

جنگ کی تباہ کاریوں اور بربادیوں پر رنج و الم کے ساتھ ساتھ ادیبوں نے وہ پہلو بھی دیکھے جو تعمیر کے کام آسکتے تھے۔ادیبوں کا عام رجحان امن و امان اور آشتی کی جانب رہا چنانچہ انھوں نے جنگ سے نفرت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پائیدار امن کی خواہش کا اظہار بھی کیا،اسی کے ساتھ دوران جنگ اردو افسانے میں ہندوستانی سماج کے دو پہلو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔انگریز ی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کی اور ہندوستان کی معاشی و معاشرتی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش۔اس عالمی جنگ کے دوران یہ یقین ہونے لگا تھا کہ ملک کی آزادی کی جنگ اب کامیاب ہونے ہی کو ہے۔ عوام اور سیاست داں انگریزی حکومت سے آخری جنگ لڑ رہے تھے اور اردو ادیب بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے بلکہ وہ قوم کی رگوں میں بجلیاں بھر رہے تھے۔

جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں معاشی بد حالی پیدا ہوگئی،چونکہ ہندوستان انگریزی سامراج کے رحم و کرم پر تھالہٰذا جنگ کی تباہ کاریوں سے زیادہ متاثرہوا۔ ضروری چیزوں کی گرانی قحط، چوربازاری، اخلاقی زوال، محبت و مروت کے رشتوں کی شکست،عزت واحترام کے قدیم معیاروں کی پامالی،سرمایہ اور محنت کی کشمکش میں اضافہ،الائونس کے لیے محنت کشوں کی ہڑتالیں یہ تمام موضوعات نے دوران جنگ ہی اردوافسانوں میں جگہ پائی۔

بعد ازاں اردو افسانہ نگاروں نے نہ صرف جنگ کی تباہیوں کو اپنی نگارشات میں پیش کرکے عوام کے دلوں میں امن و امان قائم کرنے کی خواہش پیدا کی بلکہ مجاہدین کے دلوں میں جوش پیدا کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا۔

اس سیاق میں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس زمانے میں عالمی جنگ کے بادل مہیب ہوتے جارہے تھے،اس وقت ترقی پسند ادیبوں کا اپنارسالہ’نیاادب‘ لکھنؤ سے شائع ہوا ترقی پسند ادیبوں کے نقیب کا پہلا شمارہ اپریل 1939 میں منظرعام پر آیا جس کی مجلس ادارت میں سبط حسن،مجاز اور علی سردار جعفری تھے۔اس کا اداریہ بھی تاریخی حیثیت رکھتا ہے جس میں تحریک کے بعض پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

ترقی پسند ادب کی تحریک شروع ہونے کے بعد چار پانچ برسوںمیں بعض نئے اور نوجوان ادیبوں نے جس طرح کے افسانے تخلیق کیے،ان سے ادبی حلقوں میں ترقی پسند ادب سے متعلق مختلف غلط فہمیاں پیدا ہونے لگیں۔اس تحریک پر کچھ حربے تو سرکاری سطح سے ہوئے اس کی وجہ ترقی پسند ادیبوں کے سیاسی رجحانات تھے جو برطانوی سامراج کے سخت مخالف اور ایک نئے آزاد اور جمہوری ملک میں عزت و احترام کی زندگی کے مبلغ و خواہاں تھے۔

کلکتہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’اسٹیٹس مین (Statesman)نے اپنے اداریے میں اس تحریک کو خطرناک بتاتے ہوئے اس پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی اور یہ الزام لگایا کہ اس تحریک کے بانی یوروپ کے تعلیم یافتہ کمیونسٹ نوجوان ہیں جو سوویت یونین کے ایجنٹ ہیں اور اس تحریک میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کا ہاتھ ہے۔ تحریک کی مخالفت میں پہلا مضمون نواب جعفر علی خاں اثر کا بہ عنوان ’نیا ادب کدھر جارہا ہے‘  نیاادب جنوری،فروری 1941کے شمارے میں شائع ہوا۔انھوں نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھاتھا

’’نئے ادب میں ایسی نظموں کی افراط ہے جو نفرت و اشتعال انگیز ہیں۔وہ مزدورکی زندگی یا افلاس کا صرف تاریک رخ دکھاتی ہیں۔حالاں کہ درکار ایسی نظمیں ہیں جو اس کی زندگی کے ایسے پہلوئوں پر روشنی ڈالیں جو تابناک و دلکش ہوں۔‘‘17؎

اکتوبر 1945میں ترقی پسند مصنّفین کی ایک کانفرنس حیدرآباد میں منعقد ہوئی۔اس کانفرنس کا ایک اہم واقعہ فحاشی کے خلاف وہ قرارداد ہے جو ڈاکٹر عبدالعلیم نے ترقی پسند ادیبوں کے روبروپیش کی۔ اس قراردادمیں کہا گیا تھا کہ اردو ادب میں اس وقت جو فحاشی کے رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں،ان کا ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند ادب کے نظریات سے کوئی مطلب نہیں۔ترقی پسند ادیب فحاشی کے مخالف ہیں اور اس کے اظہار کو ادب کے لیے غیرصحت مند اور مضرسمجھتے ہیں مگر قاضی عبدالغفار اور مولانا حسرت موہانی نے اس قرارداد کی شدید مخالفت کی اور بالآخر یہ قرارداد منظورنہیں ہوسکی۔ترقی پسند تحریک کی دوسرے لوگوں نے بھی بہت مخالفت کی جس کی وجہ متعدد نوجوان افسانہ نگاروں کی ناتجربہ کاری تھی۔اس ضمن میں عزیز احمد لکھتے ہیں

’’ایسی حقیقت نگاری جو زندگی کو مرض میں تبدیل کردے کس کام کی ہے؟ اگر کوئی ادیب یہ کہے کہ یہ معاشرت کے ناسور ہیں جنہیں ہم دکھارہے ہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ ناسور کا کوئی علاج بھی آپ کے پاس ہو تو ایک بات بھی ہے۔ علاج بتایئے ناسور بتاکے کیا کیجیے۔‘‘18؎

غرض یہ کہ ان اختلافات یا اعتراضات کو دورکرنے کے لیے ترقی پسند ادیبوں نے مختلف انداز اور مختلف مواقع پر اپنے موقوف کی وضاحت کی جن میں فیض احمد فیض،علی جواد زیدی،حسن عسکری،ڈاکٹر عبدالعلیم اور احتشام حسین قابل ذکر ہیں۔

جدید اردو افسانہ

انیسویں صدی کے وسط سے تاریخی،سماجی اور ذہنی تبدیلیوں کا جو اثر سب سے زیادہ ظاہر ہوا اور جس نے اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں تبدیلیاں کیں،نثرنگاری کا عروج اور نثری ادب کا ارتقا تھا۔ موجودہ دور کو نثرکا دور کہاجاسکتا ہے،کیوں کہ نثر کے واسطے ہی زندگی کی ذہنی اور عملی کشمکش کا بہ وثوق اظہار بآسانی اور زیادہ سہولت سے ممکن ہے۔

ماضی کی چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادب میں جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں ترقی پسند تحریک کا زوال اور جدیدیت کا رجحان خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ان دو واقعات نے اردو افسانے کو بری طرح متاثر کیا۔ترقی پسند افسانے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں معاشرے کو ایک خاص نقطہ نظر سے برتا جاتا تھااور معروضی حقیقتوں کی انتہائی بے رحمی سے عکاسی کی جاتی تھی۔ افسانوں کا بیانیہ راست اور غیرمرصع ہوتاکہ وہ قاری کی فوراً گرفت میں آجائے اور ذہنوں پر بوجھ محسوس نہ ہو۔ترقی پسند افسانہ نگار زندگی کے منفی اور تاریک پہلوئو ں کو اجاگرکرتا تھا تاکہ قاری کے اندر اپنے ماحول اور معروضی حالات کو بدلنے کی خواہشات پیدا ہوں۔ ترقی پسند افسانے کے لیے ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کا مقصد سامنے رہتا کیونکہ وہ ادب برائے انقلاب کا قائل تھا۔یہی وجہ تھی کہ ترقی پسند افسانے میں فرد سے زیادہ معاشرے کو اہمیت حاصل تھی۔

تقسیم ہند کے بعد اردوافسانہ نے نئی کروٹ لی،موضوع کے اعتبار سے بھی،اسلوب اور رجحان کے نقطہ نظرسے بھی۔بیسویں صدی کی چھٹی دہائی ختم ہونے تک اردو ادب میںترقی پسند تحریک کا اثر تقریباً ختم سا ہوگیا۔اس تحریک کے ماند پڑتے ہی افسانہ نگار زندگی کی نئی جہت اور نئی معنویت کا متلاشی ہوگیا۔ ترقی پسند تحریک کا ردعمل خالص فن اور رومانیت کے طور پر ظاہر ہوا اور خلیل احمد،اے حمید اور مشتاق احمد کے رومانی افسانے خوب مقبول ہوئے لیکن یہ رجحان زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکا کیونکہ رومانی ادب کا زمانہ تقریباً ختم ہوچکا تھااور ترقی پسند تحریک کے بعد اردو افسانے میں رومانیت کا احیا کسی طرح ممکن نہیں تھا۔

لہٰذا جلد ہی ادیبوں کے ایک بڑے طبقے نے ’خالص ادب‘ اور ’ادب میں وابستگی‘ کا نعرہ بلند کیا، اس نعرے کی وجہ سے ہر قسم کے نظریے اور اظہار سے انکار کردیا گیا۔وہ اظہار خیال چاہے مذہب سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ جدید افسانہ نگاروں نے اعلان کیا کہ ادیب کا کوئی مقصدیاکمٹمنٹ (Commitment) نہیں ہوتا،اس لیے انھوںنے افسانے میں تخلیق کار کے نقطہ نظر اور نظریے کی خوب مخالفت کی۔

ترقی پسند تحریک سے بھروسہ اٹھ جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ افسانہ نگاروں نے زندگی کے مسلّم نظریات، عقیدوں اور اقدار پراز سرنوغورکرنا شروع کردیا اور عمومی طورپر فنکارزندگی کے معتقدات کو ذاتی اور انفرادی طورپر سمجھنے کی کوشش کرنے لگا چنانچہ ادب میں جسے جو بہتر لگا،اس نے اسی کو تسلیم کیا،اسی وجہ سے تقسیم ہند کے بعد اردو افسانوں اور افسانہ نویسوں میں ملے جلے رجحان ملتے ہیں۔اب کسی بھی ادیب کو خالص ترقی پسند ادیب کہنا مشکل تھا اور جدید افسانے نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا حلیہ بدل لیا۔

تقسیم ہند کے وقت کے افسانے اور آج کے دور میں لکھے جانے والے افسانوں میں جو فرق نمایاں ہے وہ یکدم پیدا نہیں ہوا۔بالخصوص اس میں جو کیفیاتی تغیرات ظاہر ہوئے،وہ اچانک نہیں ہوئے بلکہ دھیرے دھیرے،نہایت سست روی کے ساتھ ہوئے اور آخرکار اردو افسانے کے مزاج کو بدل کر رکھ دیا۔1947سے 1957اور اس کے بعد تین چار برس تک اردو افسانہ اپنی طے شدہ راہ پر گامزن رہا لیکن 1960کے عشرے میں اس نے اپنی راہ بدلنا شروع کی۔ویسے 1950کی نصف دہائی میں ہی یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اردو افسانہ سطحیت اور یکسانیت کا شکار ہوچکا ہے اور اس میں معیاری و کامیاب افسانہ تخلیق نہیں ہورہا لیکن اس دور کے ناقدین بھی غالباً یہی محسوس کرنے میں ہچکچائے کہ اردو ادب میں کیفیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔

ادب میں زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ نہ صرف موضوع میں بلکہ ہیئت اور اسلوب میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔بعض جدید ادیبوں نے اردو افسانے میںجس قسم کے تجربات کیے ہیں،ان کا روایت سے کوئی مطلب نہیں اور یہ صرف مغرب کی تقلید ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو افسانہ مغرب سے آیا لیکن باوجود اس کے کہ اردو افسانے کی نصف صدی کے دوران جو ترقی کی،اس کے نتیجے میں اس کی اپنی ایک الگ روایت مستحکم ہوچکی ہے جو مغرب کے کلاسیکی افسانے کی دین ہے۔ افسانے کی روایت کو قبول کیے بغیر یا اس سے تعلق رکھے بغیر اسلوب اور ہیئت کے کسی بھی تجربے کا کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔اردو افسانے میں تجریدیت کے عنوان سے جو تجربات کیے گئے ہیں،وہ اسی قسم کی ایک کاوش تصور کیے جاتے ہیں۔

افسانے میں تجریدیت کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر ضرورت تھی تو اس کا افسانہ کے فن سے کیا تعلق ہے؟۔ اس ضمن میں مختلف خیالات ہیں۔ ایک طبقہ تسلیم کرتا ہے کہ افسانے میں حد سے زیادہ روایت اور فارمولہ پسندی کے رد عمل میں جدید افسانے کا جنم ہوا۔مطلب یہ کہ اب روایتی افسانہ نے فن کاری کے مقابلے میں،کاریگری کی شکل اختیار کرلی ہے اور کلاسیکی انداز کے افسانے فرسودہ روایت کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔روایتی افسانہ لفظوں کی بازی گری کے سوا کچھ نہیں۔ افسانہ نگاری کا کلاسیکی انداز پرانا،گھساپٹا فارمولہ بن چکا ہے،جس کی وجہ سے روایتی افسانہ اسلوب کے اعتبار سے ایک دائرے کے اندر خودکو دہراتا ہے۔اب اس میں کوئی جدت اور کوئی نئی بات نہیں رہی اور پرانے روایتی افسانے کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے نئی بات کہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔اس لیے روایتی افسانے کے خلاف شدید ردعمل ظاہر ہوا اور جدید افسانہ نگاروں نے افسانے کی قدیم روایتوں سے بغاوت کرتے ہوئے افسانے کی ہیئت اور اسلوب میں نئے نئے تجربات شروع کردیے،روایتی افسانے کے ردعمل میں اینٹی اسٹوری کی تحریک وجود میں آئی۔

زمانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی قدریں بھی بدلتی ہیں۔اقدار کی تبدیلی فن کو سمجھنے کے معیار میں تبدیلی کی محرک ہوتی ہیں۔اس لیے جو معیار کل تھا،وہ آج نہیں ہوسکتااور جو آج ہے یقینا کل بدل جائے گا۔یہی اصول فن افسانہ نگاری پر واجب ہوتا ہے۔ آج کا زمانہ تجسس کا زمانہ ہے۔فن بھی تجرباتی اور تفتیشی مراحل سے گزررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ افسانے کے موضوعات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اسالیب میں بھی تبدیلی نظر آئی کیونکہ افسانہ نگار بھی تجرباتی دور سے گزرا۔

حالانکہ جدید افسانے کے متعلق مختلف افسانہ نگاروں اور ناقدین کی الگ الگ رائے ہے لیکن نئی کہانی،علامتی کہانی کے روپ میں علامتوں کے استعمال کا ایک پیرایہ اظہار بن گئی۔

اس وقت بھی افسانہ نگاری میں دو مختلف طرز کے افسانے نظرآتے ہیں۔ایک وہ جن کا رشتہ ماضی کی افسانہ نگاری سے قائم ہے اور جس میں سماجی معنویت ہے۔اس گروہ میں وہ افسانہ نگار شامل ہیں جو ترقی پسند تحریک یا ترقی پسند نظریے سے بلاواسطہ یا بالواسطہ متاثر ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ بہت سے افسانہ نگار مقلدین بھی ہیں جو ادب میں مقصدیت کے قائل ہیں۔

افسانہ نگاروں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو ان کے بالکل برعکس ہے۔علامتی اور تجریدی افسانہ تخلیق کرتا ہے اور ان کی تخلیقات کو جدید افسانہ کہا جاتاہے۔اس سے پہلے کہ جدید افسانے پر نظر ڈالی جائے،اس سوال کا جواب بھی تلاش کرلیا جائے کہ جدید کیا ہے؟۔ ادب میں جدیدیت کا مفہوم کیا ہے؟۔ شاید اس سوال کا جواب جدید افسانہ کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

گزرا ہوا کل،آج سے یا ماضی حال سے مختلف تھا۔کل کی بات ایسی روایت بن گئی جسے دہرانے کی ضرورت نہیں،کل کی قدریں آج کے حالات میں فرسودہ ہوگئیں۔اس لیے ان کی تقلید کی ضرورت نہیں ہے۔ کل کے موضوعات آج کے ماحول سے میل نہیں کھاتے،اس لیے داستانیں قصہ پارینہ بن گئیں،کل کا فن اور فنکار پرانے ہوچکے ہیں۔فن میں نئے تجربے آج کی ضرورت ہیں وغیرہ۔ خیالات قدیم اور جدید کے صرف اس تعلق کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو آج جدید ادب اور روایتی ادب کے درمیان حد فاصل کھینچ رہے ہیں۔جدید ادب کے ماننے والوں کے مطابق جدیدیت وقت کی رفتار سے ہم آہنگی کا نام ہے۔ ادب میں جدیدیت کو نظریاتی نظام سے روگردانی قراردیتے ہوئے آل احمد سرور کا کہنا ہے۔

’’جدیدیت آدمی کی تلاش کا نام ہے۔ادب ایک تخلیقی عمل ہے اور اس کے بہت سے نشیب و فراز ہیں۔ہردورمیں طرز احساس اور فکر،طرز بیان اور طریق کار کے کچھ مسائل سامنے آتے ہیں۔ان کا تعلق زمانہ کی تبدیلیوں سے ہوتا ہے۔ان کا مطالعہ کرنا اور ان کی گرہوں کو کھولنا ہی جدیدیت ہے۔‘‘19؎

جدیدیت کوئی مکمل اور جامد تصور نہیں بلکہ ایک مستقل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے اس لیے حال،ماضی کی تقلید کرتے ہوئے نہیں گزرتا بلکہ اس کا طرز احساس،طرز فکر اور طریق کار سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ اور تقاضوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔ یہی تقاضے اور معاصرانہ حقیقت ہیں جو نئے عمل کی تحریک کا سبب ہوتی ہے۔یہ عمل خواہ نئی بصیرت اور معنویت کی تلاش کے لیے ہو یا رہبری کے مقاصد کے تحت لیکن معاصر حقیقت بہت زیادہ پیچیدہ خیال ہے۔

جدید اردو افسانہ ترقی پسند ادب کے دور عروج میں ہی لکھا جانے لگا تھا۔اکثر ناقدین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ جدید افسانہ ترقی پسند ادب کے خلاف رد عمل تھا۔1953میں ماہنامہ ’’ہمایوں (لاہور) انتظار حسین کا ایک مضمون ’’پرانی نسل کے خلاف ردعمل‘‘بھی شائع ہوا جسے بعدمیں گوپال متل نے اپنی تصنیف ’آزادی کا ادب ‘میں شامل کرلیا۔مضمون میں ترقی پسند ادب کو صحافت کا نام دیا گیا۔اسی زمانے میں محمد حسن عسکری اور دوسرے ادیبوں نے یہ اعلان کیا کہ ادب میں جمود طاری ہوگیا ہے۔بعدازاں جمود کا مسئلہ عام ادبی گلیاروں میں بحث کا موضوع بن گیا۔

1965کے بعد افسانہ نگاروں نے ایک نیاانداز اختیار کیا جسے جدیدیت کا نام دیا گیا کہ اس قبیل کے افسانے،اس سے قبل بھی اکثر لکھے جاتے رہے ہیں لیکن عموماً جدید افسانہ نگاروں نے اسے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں اپنایا۔

ترقی پسند افسانوں اور جدید افسانوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟۔اِسے سمجھنا بھی ضروری ہے۔ دراصل موضوع کے اعتبار سے ترقی پسند ادیب فردکو معاشرے کے ذریعے دیکھتے ہیں جبکہ جدید یت کے طرفدار افسانہ نگار معاشرے کو فرد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔فرد کے باطن کی عکاسی نئے افسانے کی اہم خصوصیت ہے۔

غرض یہ کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں اور جدید افسانہ نگاروں کے طرز فکر میں فرق ہی ترقی پسند اور جدید افسانے کی حدود اور فرق کو متعین کرتے ہیں۔اول یہ کہ فرد کو سماج کی ایک اِکائی کے روپ میں دیکھتے ہیں اور اسی لیے افراد کے مسائل کو معاشرے کے دائرے میں دیکھتے ہوئے وہ ان مسائل کا ذمے دار معاشرے کو قراردیتے ہیں جبکہ جدید افسانہ نگاروں نے معاشرے کے مسائل کو انفرادی مسائل کا نتیجہ قرار دیا اور اسی لیے انھوں نے سماجی اور معاشرتی پس منظر کے مقابلے میں انسان کی داخلی شخصیت کو اہمیت دی۔اس لیے جدید افسانہ نگار اپنے قاری کے سامنے بکھرے ہوئے انسان کے وجود کے نمونے پیش کرتا ہے،جس سے قاری کو اپنے باطن میں جھانکنے کا موقع مل جائے۔

داخلی حقیقت نگاری کے لیے جدید افسانہ نگاروں نے وسیلوں کو اپنایا ہے۔انھیں بھی سمجھنا ضروری ہے کیونکہ ان مسائل سے نئے افسانے کا فرق بھی معلوم ہوجائے گا اور جدید افسانے کی خصوصیت بھی سامنے آجائے گی۔جدید افسانہ نگاروں سے قبل بعض ترقی پسند افسانہ نگاروں نے ایسے فن پارے تخلیق کیے جو علامت اور تجریدیت کی جانب مائل نظر آتے ہیں۔مثال کے طور پر کرشن چندر کا مشہورافسانہ ’دوفرلانگ لمبی سڑک‘ جو بغیر پلاٹ کے ایک عمدہ اور کامیاب افسانہ ہے یا مرزاادیب کا ’درون تیرگی‘ جو علامتی افسانے کی اولین صورت ہے۔

جدید افسانہ نگاروں نے ایسے افسانے تخلیق کیے جن کے تکنیکی تقاضے بالکل الگ ہیں علامتی افسانے کی اساس بالعموم کوئی تلمیح،قدیم داستان یا مذہبی قصہ ہوتا ہے۔افسانہ نگار زندگی پر روشنی ڈالنے کے لیے زندگی کے کینوس میں سے صرف کسی ایک چیز کا انتخاب کرتا ہے جو زندگی کی بڑی علامت بن سکے۔ انتظار حسین کا افسانہ ’’آخری آدمی‘‘ اس انداز کی بہترین مثال ہے۔

افسانوی ادب کے شعریت سے ہونے کی شہادت جدید نقطہ نظر کے طرفدار متعدد ناقدین نے دی ہے۔بعض نے تو اسے شعوری پیمانوں سے ناپنے کی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد اسے دوسرے درجے کی صنف تک قراردے دیا ہے،کیونکہ ان کے خیال میں زبان کے تخلیقی اظہار کے امکانات شاعری میں ملتے ہیں،وہ افسانہ یا افسانوی ادب بروئے کار نہیں لاسکتا لیکن یہ صورت حال ایک قول محال والی کیفیت کو نمایاں کرتی ہے۔ماجرۂ زندگی سے زندہ تعلق اور کردار سے تشکیل پاتا ہے،جس کے حصول کے لیے علامتی،تشبیہی اور استعاراتی زبان کے استعمال کی اتنی ہی ضرورت ہوتی جتنی شاعری اور خاص طور سے غزل میں ہوتی ہے۔اس کے بر خلاف نظم میں مقابلتاً زبان کا استعمال، افسانے میں اس کے استعمال سے قریب تر ہوتا ہے۔فیض،مجید امجد اور جوش کی نظمیں اس دعوے کی نمایاں دلیلیں ہیں۔جدید افسانے کے اسلوب سے متعلق پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں۔

’’نئے ادب میں جس اسلوبیاتی انداز نے سب سے زیادہ فروغ پایا، وہ رمزیہ ہے جس کو نئے ادب نے اس انداز سے اختیار کیا کہ پوری تخلیق،تمثیل بن گئی اور معانی و مفہوم کی لَے دونوں سطحوں پر کارفرماہے یعنی جو چاہے ظاہری معانی سے آسودہ ہولے اور جو چاہے اس سے گہری اور بھرپور معنویت مرادلے۔‘‘20؎

ان تمام باتوں کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اردو افسانے کی سب سے اہم روایت حقیقت نگاری ہی رہی ہے۔جدید افسانے میں علامتی اسلوب عام ہونے سے افسانہ واقعات کی کڑیوں سے بے خبرہوگیا تھا۔علامتوں کے استعمال نے واقعات کی صراحت سے گریز کیا اور اس بات کو قاری پرچھوڑدیا کہ وہ چاہے تو افسانے کے ظاہری معنی سے آسودگی حاصل کر لے اور چاہے تو اس سے بھرپور معنویت مرادلے۔زبان اور لہجے کے اعتبار سے جدید اردوافسانہ براہ راست بنانے کی کوشش کی گئی، اس لیے اعتراضات ہیں کہ انھیں اس کی افادیت پر شک ہے۔ وہ اسے سماجی تقاضوں سے فراموشی اور فنکار کی سماج کے تئیں ذمے داری سے پہلو تہی یا کوتاہی کے علاوہ فن سے فراربھی قراردیتے ہیں۔جدید افسانہ نگار اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ پیش کرتا ہے،قاری اسے خندہ پیشانی سے قبول کرلے اور اگر وہ اس بات کو سمجھنے میں قباحت محسوس کرتا ہے تو یہ خود اس کی لا علمی اور کم فہمی کا ثبوت ہے۔لیکن اس سیاق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قاری افسانہ اپنی دلچسپی کے لیے پڑھتا ہے۔اپنی علمی قابلیت بڑھانے کے لیے ہر گز نہیں پڑھتا۔وہ انھیں جانے پہچانے چہروں کے بارے میں پڑھنا چاہتا ہے اور اسی ماحول کومحسوس کرنا چاہتا ہے جو اس سے مطابقت رکھتے ہوں اور جن سے وہ بحسن خوبی واقف ہو نیز وہ افسانہ اسی زبان میں پڑھنا چاہے گا جسے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے۔

علامت یا تجریدیت خاص بالذات نہیں،وسیلہ اظہار نہیں،انھیں ترسیل کو زیادہ بھرپور بامعنی اور زرخیز بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس سے اظہار میں تازگی جنم لے سکتی ہے لیکن اگر اسے مقصود بالذات بنالیا گیا تو نتیجے کے طور پر ایسے افسانے ہی جنم لیں گے جنہیں مصنف کے نہاں خانوں کے باہر کی زندگی،تازگی اور روشنی نصیب نہیں ہوگی۔

حواشی

1                   بیٹس ایچ اِی’ ماڈرن شارٹ اسٹوری‘، 1954،  ص13

2                   انسائیکلو پیڈیا برٹینکا۔وولیم 2 ، 1971،  ص 448

3                   وقار عظیم ’افسانہ نگاری‘ ، 1935، ص 3

4                   بیٹس ایچ اِی’ماڈرن شارٹ اسٹوری‘، 1954، ص16

5                   ایضاً،ص 16

6                   ایضاً،ص16

7                   ڈبلو ایچ ہڈسن ’انٹروڈکشن دی سٹڈی آف لٹریچر‘ 1957، ص140

8                   بیٹس ایچ اِی’انسائیکلوپیڈیا آف لٹریچر‘، 1952، ص 405

9                   بیٹس ایچ اِی ’ماڈرن شارٹ اسٹوری‘، 1954، ص17

10             ایضاً،ص 17

11             ڈاکٹرعندلیب شادانی’فن و تنقید‘ (مرتبہ:انور کمال حسینی)، 1966،  ص 73

12             ڈاکٹر مسیح الزماں’معیار ومیزان‘، 1965، ص:94-95

13             پریم چند’ساہتیہ کا اُدیشیے‘، 1952، ص14

14             ایضاً،ص35

15             احتشام حسین رضوی’عکس اور آئینے‘، 1962، ص 97

16             ایضاً، ص102

17             نواب جعفر علی خاں ’نیا ادب کدھر جارہاہے، ‘مشمولہ نیاادب جنوری فروری 1941

18             عزیز احمد ’ترقی پسند ادب‘ (مشمولہ جدیدیت کے بنیادی تصورات) مرتب محمد حسن  1978

19             آل احمد سرور:جدیدیت کے بنیادی تصورات، مرتب:محمد حسن، 1978، ص 155

20             محمد حسن:جدید ادب کی قدروقیمت،1974

 Dr. Arshad Iqbal

4/F14- Kala Piyada, Sambhali Gate

Dist. Moradabad- 244001 (UP)

Mob.: 09412838013

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں