2/2/23

اودھی کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو: زہیر احمد

 

اودھی کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو

 

تلخیص

علمائے عمرانیات(Anthropologists)کسی بھی ملک کی کہاوتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ کہاوتیں قدیم سماجی فکر، معاشرتی روابط اور سماج میں رہنے والے اشخاص کے سماجی اقدار کی مظہر ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بقول:

’’ضرب الامثال اور کہاوتیں کسی بھی زبان کے لسانی سرمائے میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان سے کلام میں نہ صرف حسن بلکہ معنیاتی گہرائی اور تہداری پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘

مضمون ہذا میں مشرقی ہندی کی مشہور بولی) Dialect) اودھی کی کہاوتوں کا سماجی اور لسانی پہلوکے حوالے سے ایک توضیحی  (Descriptive) اورتجزیاتی مطالعہ (Analytical Study)  پیش کیا گیاہے۔  سماجی پہلو کے تعلق سے اودھی کی کہاوتوں میںموجود ذات پات کا نظام (Castism)پیشہ (Occupation)زرعی معیشت(Cultivation) نباتیہ وحیوانیہ(Flora and Fauna)اشیاء خوردونوش کا جائزہ لیا گیا ہے جبکہ  لسانی اعتبار سے یہ مضمون ان کہاوتوں میں موجود ہم وزن،قافیہ، تُک بندیRhyming)) ، استعارہ (Metaphor)، اختصار اور جامعیت (Brevity) صفت تضاد(Paradox)،متوازیت(Parallelism) اور تلمیح (Allusion) کا تجزیہ پیش کرتا ہے ۔ جہاں تک اس مضمون کے ڈاٹا (Data)کا تعلق ہے ۔ یہ اودھی سماج سے براہ راست لیا گیا ہے ۔

کلیدی الفاظ

کہاوت ، سماجیات، لسانیات ،تکرار ، استعارہ، تلمیح، تضاد، متوازیت، اختصار

——————

 کہاوتیں کیا ہیں؟

کوئی فقرہ،جملہ، شعر یا مصرعہ جو زندگی کے بارے میں کسی خاص اصول،حقیقت یا رویے کی ترجمانی کرے نیز مدعا اور مفہوم کو جامع اور بلیغ طورپر بیان کرے کہاوت کہلاتا ہے۔ عربی زبان وادب میں یہ ضرب المثل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کہاوتیں یا ضرب الامثال کسی معاشرے کے مخصوص تمدن اور ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں۔اور عموماً نہایت دانشمندانہ، فلسفیانہ اور حکیمانہ نکات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں کسی قوم کی کہاوت اپنے اندر علم وحکمت کا گنجینۂ گرامایہ سموئے ہوتی ہے۔ اس طور سے کہ ان سے متعلّقہ اقوام کے رویّوں، لوک دانش، بودوش،نباتیہ و حیوانیہ کے بارے میں خاص معلومات اخذ کی جاسکتی ہیں۔

علمائے عمرانیات(Anthropologists)کسی ملک کی کہاوتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ کہاوتیں قدیم سماجی فکر،معاشرتی روابط اور کسی سماج میں رہنے والے اشخاص کے سماجی اقدار کی مظہر ہوتی ہیں۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ

’’کہاوت کی بنیاد مسلمہ تمثیل یا تلمیح ہواکرتی ہے، اسے ضرب المثل کہتے ہیں‘‘۔ (صلاح الدین،ثقلین بھٹّی)

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ضرب الامثال اور کہاوتوں کے ضمن میں رقمطراز ہیں

’’ضرب الامثال اور کہاوتیں کسی بھی ز بان کے لسانی سرمایے میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔یہ زبان کا وہ حصّہ ہے جو اس کی عوامی جڑوں کو اس کے ادبی اظہار سے ملاتاہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ جس طرح اصطلاحات وضع کی جاتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں،کہاوتیں یا ضرب الامثال گڑھی یابنائی نہیں جاتیں۔ کوئی فردِ واحد،ادارہ یا انجمن ان کے وضع کرنے پر مامور نہیں ہوتی۔ یہ ان خود رو پھولوں کی طرح ہیں جو نہ صرف دشت وبیابان میںبلکہ چٹانوں کاسینہ چیر کر بھی نکل آتے ہیں اور اپنے حسن وکشش سے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں۔ زبان کی زمینی تہوں سے نکلنے والی کہاوتیں کئی صدیوں کے عمل میں رواج اور چلن کے اس مرتبے پر پہنچی ہیں،جہاں وہ تراشیدہ ہیروں کی طرح چمکنے لگتی ہیں اوران سے کلام میں نہ صرف حسن اور زور بلکہ معنیاتی گہرائی اور تہہ داری بھی پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘   (اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو، ص13)

مندرجہ بالا سطور سے یہ بات عیاں ہے کہ کہاوتیں عوام کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔  جو (دراصل )بیان اور ترسیل میں معاون اور مددگار ہوتی ہیں۔ یہ عوام کے ہاتھوں وضع کردہ / تراشیدہ وہ جواہرات ہیں جو عوام کی گفتگو کی زینت بن کر اس میں چارچاند لگاتے ہیں۔

ہر کہاوت اپنے پیچھے کسی نہ کسی سماجی واقفیت کولیے ہوتی ہے نیزکسی نہ کسی تہذیبی، تاریخی، سماجی یالسانی پس منظر کی حامل ہوتی ہے،جو عام طور پر بولنے والے کی نظروں سے اوجھل ہوتاہے۔لہٰذا یہ بات طے پائی کہ کہاوتیں انسانی سماج کا عکاس ہیں

’’یوں تو زبان کاہر مظہر سماجی مظہر ہے۔ لیکن سماج کے نشیب وفراز، اس کے نظامِ ترکیبی، ثقافتی سطحوں، تہذیبی لین دین، رہن سہن، تیج وتہوار اور طرزِ معاشرت اور اس کی گنگا جمنی بوقلمونی کیفیتوں کو جس طرح کہاوتیں اور مثلیں ظاہر کرتی ہیں کوئی دوسری چیز نہیں ظاہر کرتی ہیں۔‘‘(اگاسکر1988،ص13)

کہاوت کی تعریف لسانی نقطہ نظر سے:

مذکورہ بالا سطور سے یہ بات مترشّح ہوتی ہے کہ کہاوتوں اور ضرب الامثال کی سماجی حیثیت کیا ہے؟ سوسائٹی کے اندر ان کا وجود کیسے ہوتاہے؟نیز یہ لوگوں کی گفتگو اور بات کی زینت کیسے بنتی ہیں ؟ لیکن لسانی نقطے سے کیا ہربات کہاوت بن سکتی ہے ؟ہر مقولہ ضرب المثل کے زمرے میں سما سکتا ہے ؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ لسانی اعتبار سے صرف ہم انھیں چیزوں (فقروں /جملوں /مقولوں) کو کہاوت اور ضرب المثل گردان سکتے ہیںجن میں مندرجہ ذیل صفات موجود ہوں۔ تمام وضع کردہ تعریفات کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ بات رسوخ کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کہاوتوں یا ضرب الامثال کے چند ممیز خواص ہیں۔

(1)  اختصار (2) معنوی زور/غیر معمولی طرزِ بیان  (3) کثرتِ استعمال یا قبولِ عام  (4) دانشمندی کا نچوڑ

اس ضمن میں ارسطو کی وضع کردہ تعریف کافی اہمیت کی حامل ہے۔ نیز اس کی معنویت آج بھی مسلم ہے۔وہ لکھتا ہے :

A proverb is the remnant of the ancient philosophy preserved amidst very many destruction on account of its brevity and fitness for use.

 ترجمہ کہاوتیں قدیم ترین فلسفہ کے وہ آثار قدیمہ کھنڈر ہیں جن کو تباہی اور بربادی کے ہاتھ ان کے اختصار اوراستعمال کی موزونیت کی وجہ سے برباد نہ کرسکے۔

ڈاکٹر یونس اگاسکر کہاوتوںکے تمام لسانی اور سماجی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد رقم طراز ہیں :

’’کہاوت قدما کے طویل تجربات و مشاہدات کا نچوڑ وہ دانشمندانہ قول ہے جس میں کسی کی ذہانت نے زورِ بیان پیدا کیا ہو اور جسے قبول عام نے روز مرّہ کی زندگی کا کلّیہ بنادیا ہو‘‘۔(اگاسکر1988،ص30-31)     

A dictionary of American Proverbs and Proverbial Phrasesکے مصنف پروفیسر آرچرنے کہاوتوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :

          (1)     ملفوظات پر مبنی (بزرگوں کے اقوال پر مبنی) (2)     کسی واقعہ کارمز یاتی یا استعاراتی اظہار

          (3)     کسی حکایت کاجامع ترین اختصار      (4)     مذہبی کتب سے ماخوذ

          (5)     بے اختیار منھ سے نکلا ہوا ٹکڑا      (6)     شعری ٹکڑوں پر مبنی

اردو کے عالموںمیں علّامہ برج موہن دتاتریہ کیفی نے اپنی تصنیف کیفیہ میں محاوروں کو مختلف خانوں میں بانٹا ہے۔ ان کی یہ تقسیم ظاہری شکل یا موضوع کوشامل ہے :

’’حیوانی محاورے، اعضائی محاورے، نباتاتی محاورے،خورد نوشی محاورے، پوشاکی محاورے، موسمی محاورے، عددی محاورے، نفسیاتی محاورے وغیرہ‘‘۔

اودھی بولی (زبان )  ایک تعارف:

اودھی(Awadhi)، ایک مشرقی ہندی (Western Hindi)،زبان کی ایک بولی ہے جس کی جڑیں ہندآریائی زبان میں پیوست ہیں اور جس کا لسانی خاندان ہند یوروپی زبانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بولی  ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے مختلف اضلاع میںبولی اور سمجھی جاتی تھی۔ چونکہ اس زبان کا دائرہ کافی وسیع و عریض ہے لہٰذا اس کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

مغربی اودھی بولی یہ بولی ضلع لکھیم پور، کھیری،سیتا پور، اناؤ، فتح پور، کو شامل ہے۔

وسطی اودھی بولی اس میں ضلع بہرائچ، بارہ بنکی اور رائے بریلی شامل ہے۔

مشرقی اودھی بولی        یہ بولی ضلع گونڈہ، بلرام پور، فیض آباد، سلطان پور، پرتاب گڑھ، الٰہ آباد، جون پور اور مرزا پور کو محیط ہے۔

درپیش مضمون مشرقی اودھی بولی کے سیاق و سباق میں لکھا گیا ہے۔

اودھی کہاوتوں کے سماجی پہلو:

اودھی کہاوتیں دیہی زندگی کی شب وروز کی عکّاسی کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کی تہذیب وثقافت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ اودھی کہاوتیں تکلّفات اور تصنّعات سے عاری ہیں۔ وہ ان تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کو واسطہ پڑتا ہے۔مثلاً چولہا چکّی، گھر گرہستی، ہل بیل، کھیت کھلیان، شادی بیاہ، جھگڑے فساد،اونچ نیچ، بھید بھائو، ذات پات، دین دھرم، نباتیہ وحیوانیہ،کوسوں پیدل چلنا، سیروں کھانا، منوں بوجھ اٹھانا، گھنٹوں محنت کرنا، اپنے اور پرائے میں فرق کرنا دیہات میں محاسن میںشمار ہوتاہے۔ عورتوں پر رعب جمانا، ان پر حکم چلانا احسن اور جورو کا غلام ہونابدتر خیال کیا جاتا ہے۔منافقت اور عیاری پر جم کر فقرے بازی کرنا یہاں کی معاشرت میں شامل تھا۔ علاوہ ازیں اودھی کہاوتوں میں پندو نصائح اور تجربات کا ایک حظّ عظیم موجود ہے۔

 زرعی معیشت: نباتیہ وحیوانیہ

ملک کا سماجی ڈھانچہ اس کی معاشیات پر منحصر ہوتاہے۔ہندوستان بنیادی اعتبار سے زرعی معیشت سے متصف ملک ہے۔ یہاں کی تقریباً ستّر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔ جس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ ہزاروں سال سے کھیتی باڑی سے جڑے رہنے والے سماج کو نہ صرف کھیت جوتنے بونے اور فصل کاٹنے کے بارے میں گہرے مشاہدات اور تجربات کی دولت حاصل ہوگی بلکہ مذکورہ بالا تمام مظاہر (Phenomena)سے متعلق قابلِ رشک معلومات (Information)  سے یہ سماج مالا مال ہوگا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی ہر ز بان میں زراعت اور اس سے متعلقہ پہلوئوں کے بارے میں کہاوتوں کا اچھا خاصا ذخیرہ موجو دہے۔اودھی سماج پوری طرح سے زراعت پر منحصر ہے۔ اس کی کہاوتوں میں زراعت کا کافی حصہ شامل ہے۔

بہت مشہور اودھی مثل ہے جو کھیتی باڑی اور موسم کے تعلق سے لوگوں کے حیرت انگیز مشاہدے پر دال ہے      ؎

[ماگھ پوس کے بادری اور کنورا گھام

ای تینوں پر تیز کے تب اٹھائیوپرایا کام]

مطلب:  ہندی مہینہ ’ماگھ اور پوس ’جو غالباً نومبر سے لے کر دسمبر تک پھیلا ہوتاہے ‘میں کافی بدلی ہوتی ہے۔ جبکہ کنوار کا مہینہ جو کہ اگست کا ہوتاہے چلچلاتی ہوئی دھوپ کے ساتھ کافی نمی والا ہوتاہے۔ اسی لیے یہ بات کہی جارہی ہے کہ کسی کاکام سرپر اٹھانے سے پہلے ان تینوں مہینوں کا خاص خیال رہے ورنہ بیچ سے ہی کام چھوڑ نا پڑ سکتا ہے۔

اردو کا ایک مشہور مقولہ ہے کہـ’’سر منڈواتے ہی اولے پڑنا‘‘ اسی مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے اودھی کی مشہور کہاوت

[دھنوک بلیا پاکے تب سُگوک تھوڑووپاکے]۔

مطلب : جب دھان کی بالی پکے اسی دم طوطے کی چونچ بھی پھوڑے پھنسی کی وجہ سے پک جائے۔

یہ مشہور ہے کہ طوطے دھان کے موسم میںغول درغول کھیتوں میں اترتے ہیں اور کھیتوں کا صفایا کردیتے ہیں۔ لیکن اس طوطے کی حالت زار پر رحم ہی آئے گا کہ جب دھان کی فصل پک کر بالکل تیار ہو اور وہ اس قابل نہ ہو کہ اسے کھاسکے۔

اسی طرح سے جب انسان کو اپنے کام سے کام رکھنا ہو تو بولتے ہیں کہ

[نہ کھیتی کرب نہ بدرے اورتاکب]

مطلب: نہ کھیتی کرو ں گا نہ بادل کی طرف دیکھوںگا۔

کھیتی اور بادل کا چونکہ چولی دامن کاتعلق ہوتاہے۔ ایک کسان کے لیے دونوں کی اہمیت بالکل یکساں ہے۔ وہ ہل جوتتے وقت آسمان میں نظریں گاڑے باراں کا منتظر ہوتاہے۔لیکن اگر وہ کھیتی نہ کرے توبادل وباراں سے اس کو کیا سروکار۔

اسی طرح سے جب کسی گھر میں کوئی بوڑھا انسان ہوتاہے اور اس کی بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو یک وتنہا محسوس کرتاہے تو بے ساختہ بول پڑتا ہے کہ میری تو کوئی وقعت ہی نہیں رہی اب میں[تین میں سے تیرہ دھان میں سے لمیرا ] کی طرح ہوں۔

مطلب : یہ مثل لسانی ضرورت کی خاطر الٹ دیا گیا ہے۔اصلاً یوں ہے تیرہ میں سے تین یعنی جو اہمیت تیرہ کی گنتی میں تین کی ہے (جو کہ اکائی کی اہمیت رکھتی ہے ) اور دھان میں لمیرا (ایک قسم کا جنگلی پودا/ گھاس جس کو نرائی کرتے وقت اس کو اکھاڑ ک پھینک دیتے ہیں ) میری حالت بھی کچھ اسی طرح سے ہے۔

اردو کی بہت مشہو رمثل ہے ’’بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ‘‘ جو اپنے پیچھے ایک سیاق وسباق لیے ہوئے۔ کچھ اسی طرح کی ایک مثل اودھی کہاوت میں رائج ہے۔[کے ہاتھی ماری کے دانت نکاری]۔

مطلب:کون ہاتھی مارے گا پھر اس کے بعد کون اس کادانت نکالنے کی ذمّے داری لے گا۔

یہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی بے حد مشکل کام درپیش ہوتاہے۔ جانوروں میں ہاتھی چونکہ سب سے بھاری بھرکم اور عظیم الجثّہ جانور ہے۔لہٰذ ااس کے نام پریہ مثل طے پائی۔

کتاانسانی سماج کا جزء لاینفک ہے۔ اودھی کہاوتوں نے اس کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔اردو کی مشہو رمثل [کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی] تھوڑی بہت لفظی تبدیلی کے ساتھ اودھی مثل میں رواں دواں ہے [کوکرک پوچھ کتنوسمجھائو ٹیڑھے رہی]۔

مطلب: کتے کی دم کتنی بھی سیدھی کرلو رہے گی وہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔

خوردو نوشاشیاء خوردنی جن کا ذکر کہاوتوں میں عموماً دیہی معیشت کا حصہ ہے جو اس بات پر دال ہیں کہ کہاوتوں کا جنم خاص طور سے دیہی سماج میں ہوا ہے۔ دودھ، چنا،ماس، بھات، دال، پان مسالہ،کدّو (کہڑا/ کاشی پھل/ سیتاپھل/ گنگاپھل)، بھیلی،آم، میوہ،اکری(پھلی) وغیرہ کا تذکرہ اودھی کہاوتوں میں ملتاہے۔

الف۔ دودھ: دودھ کے بارے میں یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اس کو آگ پرجتنی دیر رکھا جائے اس کا ذائقہ اتنا ہی عمدہ ہوتا جاتاہے۔

 اودھی کہاوت میں ہے کہ:

[دودھ،پوت جارے مٹھات ہیں ]

مطلب:دودھ او راولاد کو جتنا جلائیں گے اتنے ہی دونوں میٹھے ہوں گے۔ اولاد کو جلانے سے مراد یہاں اس سے محنت و مشقت کرانا ہے۔

یہ کہاوت ایک حقیقت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ،بین السطور یہ بات بھی کہہ رہی ہے کہ دیہی سماج محنت ومشقت اور جانفشانی میں یقین رکھتا ہے۔ اس کے یہاں کام چوری اور کاہلی کا کوئی گزر نہیں ہے۔اسی بات کی تائید مندرجہ مثل سے ہورہی ہے۔ جس میں پان(مسالہ) ذکر ہے۔

ب۔ مسالہ(پان) [کروکسالہ تو کھائومسالہ]

مطلب: محنت کرو پھر آرام سے پان مسالہ کھاؤ۔

پان مسالہ کھانے والا طبقہ نسبتا دوسرے لوگوں سے زیادہ خوشحال ہوتا تھا۔ یہی بات کہاوت میں بتائی گئی ہے کہ جب محبت و مشقت کروگے تو دولت ہاتھ لگے گی۔ خوشحالی ہوگی پھر خوب پان مسالہ کھاؤ۔

ج-گیہوں : برے لوگوں کی صحبت ہمیشہ سے گھاٹے کا سودا رہی ہے۔ چاہے آپ بذات خود کسی برے کام میں شامل نہ رہیں لیکن ان کی معیت ہی آپ کی بدنامی کے لیے کافی ہے۔ اودھی کی مشہور کہاوت ہے کہ

(گوہنک ساتھ گھنوں پیس جات ہے)

مطلب: گھن (ایک چھوٹا سا کیڑا جو عموماً گیہوں میں پایا جاتا ہے) کو گیہوں کے ساتھ پیس دیا جاتا ہے۔ یہ کہاوت معیاری اردو میں اس طرح رائج ہے کہ (گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے)

گیہوں کے ساتھ گھن کا رشتہ بڑا مضبوط ہوا کرتا ہے گیہوں کو دھوپ میںسکھانے کے لیے ڈالتے ہیں تب بھی گھن اس کے ساتھ چپک کر رہتا ہے بالآخر اس کا انجام تباہی اور بربادی ہوتا ہے اسی طرح  برے انسانوں کی صحبت ایک دن لے ڈوبتی ہے۔ مشہور فارسی  ضرب المثل  ہے۔

(صحبت صالح ترا صالح کند- صحبت  طالع ترا طالع کند)

مفہوم نیک لوگوں کی صحبت نیک اوربرے لوگوں کی صحبت برا بنادیتی ہے

اودھی مثل کی تائید خود ایک دوسری اودھی مثل سے ہورہی ہے اس طور سے کہ اس میں بھی یہ مفہوم اور مدعا بتایا گیا ہے

(بھلا سنگھری بیٹھو تب کھوا دے بیرا پان

اور برے سنگھری بیٹھو تب کٹاؤ دونو کان)

مطلب: اگر بھلے آدمی کی صحبت اختیار کروگے تو وہ آپ کو پان کھلائے گا لیکن اگر برے کے ساتھ بیٹھو گے تو آپ کے دونوں کان کٹوا دے گا۔

د-مولی -کھاجا مولی سے تو ہر خاص و عام واقف ہے کیونکہ سستی ہونے کے سبب یہ سب کو میسر ہوا کرتی ہے لیکن کھاجا (ایک قسم کی مٹھائی) صرف کسی خاص موقع سے بنتا تھا اور وہ بھی مالی اعتبار سے مضبوط آدمی کے گھر اس  لیے اس کی اپنی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اودھی کہاوتوں میں دونوں کا موازنہ ایک دوسرے سے کیا گیا ہے اور ایک دوسرے کے متضاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثل یوں ہے

(آنھر نگری دھن دھوسٹر راجا - ٹکا سیر مرئی ٹکا سیر کھاجا)

مطلب:  جب اندھیر نگری ہوتی ہے تو کوئی ایسا نااہل حکمراں آجاتا ہے/ لوگوں پر مسلط ہوجاتا ہے پھر اس  کے یہاں مولی اور کھاجا ایک ہی قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔یعنی اس دور میں اچھی اور بری چیزیں ایک ہوجاتی ہیں اچھائی کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے اور برائی کی کوئی مذمت نہیں کرتا ہے۔

والدین: (ماں باپ)  کہاوتوں میں عموماً والدین کو اپنی اولاد کا خیرخواہ ہی دکھایا جاتا ہے اور یہ سچ بھی ہے اس وسیع و عریض دنیا میں ان سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں۔ اودھی کہاوتوں میںماں باپ کا تذکرہ جابہ جا ملتا ہے۔ جوان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ ماں باپ کا اولاد کے تئیں شفقت و محبت اور اولاد کی ماں باپ کے تئیں سنگ دلی کی وضاحت اس کہاوت سے ہوتی ہے۔

مییک جی را گییک، پت وک جی را کسییک

مطلب: ماں کا دل گائے کی طرح اور اولاد کا دل قصائی کی طرح ہوتا ہے۔

یہ حقیت ہے جس کا ہم شب و روز اس کائنات میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ماں باپ کتنی حسین تمناؤں کے ساتھ اپنے لخت جگر کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ ان کی خاطر اپنا آرام و سکون تج دیتے ہیں لیکن اولاد ہے کہ ایک آن میں ان کی تمناؤں کا خون کردیتی ہے یہ بالکل ایسے ہے جیسے قصائی کے دل میں گائے کے تئیں کوئی شفقت و رحمت نہیں جھلکتی ہے۔ماں باپ سے متعلق ایک تلمیحی کہاوت بہت معنی خیز ہے وہ یوں ہے

(سیمر سے اک سگا پچھتانا -مارس تھوڑ بھوا ادھیانا)

مفہوم اس کہاوت کی وضاحت مندرجہ ذیل تلمیح سے ہی ممکن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ

سیمر(1)  کے درخت پر طوطا رہتا تھا۔ اس نے درخت کے پھل کی خوب دیکھ بھال کی اس کو پال پوس کر بڑا کیا جب پکنے کا وقت آیا تو بڑا مگن تھا کہ اب میں اسے کھاؤں گا لیکن اس کی ساری امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب اس کے اندر سے روئی کا ایک ٹکڑا نکلا۔ اس کی ساری محنت اکارت چلی گئی۔ لیل و نہار کی ساری کاوشیں ضائع ہوتی نظر آئیں۔ چنانچہ اودھی کہاوت نے اس پورے واقعے کو ایک جملے میں بیان کردیا ہے ماں باپ کی صورتِ حال بھی کچھ اسی طرح ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں ان سے لاکھوں امیدیں وابستہ رکھتے ہیں لیکن جب وہی اولاد ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور ان کے لیے بے سود ثابت ہوتی تو ان کا کلیجہ پھٹ کے رہ جاتا ہے۔

عورت: صنف نازک کا ذکر اودھی کہاوتیں میں بہت زیادہ ملتا ہے جس میں عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اودھی کہاوتیں عورت کے تئیں یکسر و بیشتر منفی دکھائی دیتی ہیں۔ نیز ان سے دقیانوسیت (Stereotype) کی بو آتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ہندوستانی سماج اور سوسائٹی ہے جو کہ مرد کارکن (Patriarchal) کے ذریعے چلائی جاتی تھی، جس میں کوئی مرد ہی گھر کا مالک بن سکتا تھا اسی کی رائے کو فوقیت حاصل تھی(اسی کی رائے کو شرف قبولیت حاصل ہوتی) عورتوں کا اس میں دور دور تک گزرنہ تھا۔ لہٰذا لوگوں کی ذہنیت بھی اس سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ جنس مخالف میں انھیں خامیاں اور کمیاں ہی نظر آتی تھیں۔ کسی غلط بات کا یا بزدلانہ کام کا استعارہ لوگ عورت کے وجود سے اخذ کرتے تھے بہت سے محاورے بھی ان کی ناموں سے وجود میں آئے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے یہاںمختصراً ایسی کہاوتوں کا تذکرہ ہے جو جنس مخالف کے تئیں معاندانہ اور متعصبانہ ہیں۔

(مائی نہارے پٹوا، مہری نہارے ٹٹوا)

مطلب: ماں اپنی اولاد کا ہمیشہ شکم / پیٹ دیکھتی  ہے کہ آیا اس نے کھایا یا نہیں جب کہ بیوی کو ہمیشہ پیسے کی سوجھتی ہے اس کی نظر شوہر کی جیب پر ہوتی ہے۔

چند ایک مثالوں کی بنیاد پر کسی چیز کو عمومیت کا درجہ قطعاً نہیں دیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ بالا مثال سے بیوی جیسی شخصیت داغدار ہوتی ہے نیز اس کی نیت پر بھی شکوک و شبہات کی نظر پڑتی ہے۔ اسی سے ملتی جلتی مثال یوربا کی کہاوتوں میں رائج ہے۔

)AWife look for your money and Mother takes care of your belly(

اسی طرح  یہ مثال جس میں یہ بات عیاں ہے کہ نئی نویلی دلہن سے یہ امید کرنا کہ وہ آپ کے گھر کی دیکھ بھال کرے گی عبث ہے۔

(ناٹن سے کھیتی، بہورین سے گھر، نائی ہوپاوت )

مطلب: ناٹن(جو بیل پہلی بار جب کھیتی میں استعمال جائے) جس طرح سے کھیتی میں کام نہیں کرسکتے ٹھیک اسی طرح نئی نویلی دلہن سے گھر گرہستی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔

انھیں چیزوں کو ادبی تنقید میں دقیانوسیت اور قدامت (Stereotype) کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کسی چیز کے بارے میں پہلے سے کوئی نظریہ یا رائے قائم کرلینا جو کہ اصولاً غلط ہے۔

 لسانی پہلو: مندرجہ ذیل میں اودھی کہاوتوں کے لسانی پہلوؤں کا تجزیہ کیا گیا ہے یہ زبان کے وہ پہلو ہیں جن کا خالص زبان و بیان سے رشتہ ہے سماج اور سوسائٹی سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اودھی کہاوتوں کے لسانی پہلو درج ذیل ہیں

:1وزن،قافیہ اور تک بندی(Rhyming)  وزن اور قافیہ کہاوتوں کی تخلیق،ان کی ترویج واشاعت میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے کہاوتوں کی مقبولیت اور زبان زدگی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس کی معنویت بھی بڑھ جاتی ہے نتیجتاً ہر کس وناکس کی زبان پر جاری و ساری ہوجاتی ہے۔

جہاں تک اودھی کہاوتوں کا تعلق ہے ان میںقافیہ اور ردیف کی مثالیں بے شمار ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ سریع الحفظ ہونے کے ساتھ ساتھ آسانی سے زبان پر آجاتی ہیں اورموقع بہ موقع لوگوں کی گفتگو کی زینت بنتی ہیں مثلاً:

(سیمر    سیک     سگا       پچھتانے          :سگا (قافیہ)       پچھتانے (ردیف)

مارے             ٹھوڑ               بھوا      ادھیا     :بھوا (قافیہ)       ادھیا(ردیف)

مندرجہ بالا مثال میں جیرا اور جیرا، آگاہ اور سدا، سگا  اور بھوا ہم قافیہ جب کہ گیک اورکسیک،سوچی اور سکھی، پچھتانے اور ادھیانے ہم ردیف الفاظ کی مثالیں ہیں۔

کبھی کبھار کہاوتوں کا دوسرا مصرعہ طوالت کی وجہ سے حذف کردیا جاتا ہے اور پہلے ہی مصرعے سے مطلب واضح ہوجاتا ہے۔ مثلا ( آگے ناتھ نہ پیچھے پگہا  کہہ کارن ناچے گدھا)   

اس کا دوسرا مصرعہ عموماً نہیں بولا جاتا ہے۔ پہلے ہی مصرعے سے مفہوم ادا ہوجاتا ہے۔ یہ کہاوت عموماً اس وقت بولتے ہیں جب کسی کی کوئی اولاد نہیںہوتی ہے اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا ہے۔

:2تکرار (Repetition)  وزن، قافیہ اور تک بندی کی طرح تکرار لفظی اور صوتی بھی کہاوتوں کی زبان زدگی میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ تکرار لفظی اور صوتی دونوں کی الگ الگ معنویت ہوتی ہے، کہاوتوں میں بعض مخصوص الفاظ کی تکرار سے ایک سریلا پن پیدا کرنے کی کوشش صاف جھلکتی ہے مثلاً اردو کی اس کہاوت کو لے لیجیے ’آم کے آم گھٹلیوں کے دام‘ جہاں دولبی صوت (Bilabial sound) ’م‘ کی تکرار سے ایک خاص قسم کا صوتیاتی اثر دکھائی دیتا ہے۔

اسی طرح سے تکرار لفظی کا بھی کہاوتوں میں خاص تفاعل ہوتا ہے۔ مثلاً  کلام میں زور اور تاکید پیدا کرنا، کسی عمل (Process)کو دکھانا، کسی کام کی نفی کے لیے۔

اودھی کہاوتوں میں دونوں قسم کی تکرار پائی جاتی ہے۔ جہاں تک تکرار لفظی کا تعلق  ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں۔ (1)مکمل تکرار لفظی (2) جزوی تکرار لفظی

1       کرے /کوٹھ کرے نہ کراوے کوٹھ کاٹھ، براوے

2       بونیں (بوند) بونیں بون پیو کنویک پانی

3       ناؤ (نائی) ناؤ بھائی ناؤبھائی ہمرے موڑم کتنا بار

4       پھوک (پھونک) دودھک جری بلریا مٹھوا پھوک پھوک کھائے

5       سیر/ دوئی (دو) (رانڈھ رووے سیر سیر اہباتی رو وے دوئی  دوئی سیر)

6       چور چورے چور، موسیاوت بھائی

اودھی کہاوتوں میں نفی کے لیے لفظ ’نہ‘ کا خاص استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے متوازیت (Parallelism) کے زمرے میں آتا ہے اس طور سے ’’جملے کی شروعات میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے مثلاً       ؎ 

7       نہ کھیتی کرب نہ بدرک اور تاکب

          نہ کھیتی کروں گا نہ بادل کی طرف دیکھوں گا

8       نہ بیڑی بڑہیں، نہ جمن ہری ہیں

          نہ بیری پانی میں ڈوبے گی اور نہ ہی جمن نامی شخص کی ہار ہوگی

:3 استعارہ (Metaphor) کہاوتوں میں تشبیہ و استعارے کا استعمال ایک عام چلن ہے۔ اگر کہاوتوں کو محض لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ ایک قول یا بات سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں ڈاکٹر یونس اگاسکرکے بقول ’’یہ کہاوتوں میں عموماً  لغوی معنی سے زیادہ اصلاحی یا مجازی(Metaphorical) معنی مقصود ہوتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے لغوی معنیٰ کے اعتبار سے کہاوتیں محض ایک قول یا بیان ہوتی ہیں جن کی تاریخی یا تجربی اہمیت تو مسلم ہوتی ہے مگر کہاوتی استعمال مقبول عام نہیں ہوسکتا‘‘

اودھی کہاوتوں میں تشبیہ کا استعمال برائے نام ہے جب کہ استعارے کا بھر پور استعمال ملتا ہے جن کہاوتوں میں استعارے کی مثالیں ملتی ہیں ان پر استعارے کو لوازم کے پیش نظر غور کریں توپتہ چلتا ہے کہ ان میں بھی شعر کی طرح اجزائے استعارہ مثلاً مستعار لہ، مستعارمنہ، وجہ جامع صاف نظر آتے ہیں۔ اودھی کہاوتوں میں جب ہم استعارے کا استعمال دیکھتے ہیں تو اس کے مذکورہ بالا لوازمات میں سے مستعارلہ،کو اکثر محذوف پاتے ہیں۔

مثلاً ’’کوا سے چتر کلہٹا‘‘

اس کہاوت کے اندر جو استعارہ استعمال کیا گیا ہے اس میںمستعار لہ اور وجہ جامع دونوں ہی محذوف ہیں۔ یہاں کوا مستعار منہ ہیں جب کہ وجہ جامع چالاکی اور ہوشیاری ہے۔

اسی طرح اس کہاوت کو لے لیجیے

’’آنھرنگری دھند وسٹر راجا ٹکا سیر مرئی ٹکا سیر کھاجا‘‘

اس کہاوت میں بھی مستعار لہ اور وجہ جامع کو حذف کردیا گیا ہے۔ آنھرنگری اور دھندوسٹر راجا کے درمیان وجہ جامع ظلم و زیادتی اور بے ایمانی ہے۔  

اس طرح کی دوسری اور مثالیں درج ذیل ہیں:

  •       آم پا کے میوہ آدمی پا کے بنیوا۔         
  •  سیمر سیک سگا پچھتانے      مارے تھوڑ بھوا ادھیانے
  •       گوہوں کے ساتھ گنہوں پیس جات ہیں                                                                                                                                                                                                               
  •                                                                                                                                                                کے ہاتھی ماری کے دانت نکاری
  •       نہ کھیتی کرب نہ بدرک اور تاکب      
  •   اونٹ چر اوتب ہنورے ہنورے
  •       بھینس  کے آگے بین بجاؤ بھینس کھڑی پگھورائے

مندرجہ بالا کہاوتوں میں آم، میوہ، آدمی، بنیوا، سیمر، سگا، بھوا گوہوں، گہنوں،ہاتھی، دانت، کھیتی، بدرک، اونٹ، وغیرہ، بطور مستعار منہ استعمال ہوئے ہیں ان کی صفت اور خاصیت کو بطور استعارہ استعمال کیاگیا ہے، جب کہ مستعار لہ مخذوف کردیاگیا ہے جس کو کہ قاری یا سامع وقت ضرورت بآسانی سمجھ سکتا ہے۔

:4 صنعت تضاد(Paradox) زبان و ادب میں صنعت تضاد کا استعمال ایک عام بات ہے۔صفت تضاد کوتطبیق، طباق اور تکاخو بھی کہتے ہیں۔ صنعت تضاد وہ صنعت ہے جس میں دو ایسے کلمے لائے جاتے ہیں جو معنوی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہوں مثلاً شبنم و گل، آگ و پانی وغیرہ۔یہ تضاد لفظی طور پر بھی ہوسکتا ہے اور معنوی طور پر بھی۔ جملوں میں اس کے استعمال کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں مثلا کسی بات کو واضح کرنا، کوئی چھپا ہوا معنی پیدا کرنا وغیرہ۔ عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے‘‘ الاشیاء تعرف باضدادھا‘‘ یعنی چیزیں اپنی اضداد (Opposites) سے پہنچانی جاتی ہیں۔ اس قسم کے تقابل میں بعض اوقات دو چیزوں کے یکساں اثرات یا نتائج کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ اودھی کہاوتوں میں تقابل اور تضاد کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں یہ اوپر مذکورہ دونوں قسموں (لفظی۔ معنوی) کو شامل ہیںدرج ذیل اودھی کہاوتوں میں تضاد اور تقابل کی واضح مثالیں موجود ہیں:

  •        رانڈھ رو وے سیر سیر   اہباتی رووے دوئی دوئی سیر
  •       چاروز کے چاندنی تیکے اندھیرا رات
  •        آگے ناتھ نہ پیچھے پگہا
  •       لٹھیو مارے سپوو جیاوے 
  •        نوا نو دن پران سب دن
  •        اپنے کہے سمچ آن کیسے آدھا         
  •        انھروک کھبوا اجروم دکھائی

مندرجہ بالا کہاوتوں میں خط کشیدہ الفاظ ایک دوسرے کے متضاد اور مقابل ہیں۔ ان کہاوتوں میں زیادہ تر دو متضاد چیزوں کی خاصیت کو بطور تقابل پیش کیا گیا ہے۔ بعض دفعہ دونوں کی افادیت، نقصانات ضرورت اور ناکارگی کو بھی ابھارا گیا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ کہاوتیں ایسی بھی ہیں جن میں مستعمل متضاد الفاظ کے مابین کوئی فطری یا خلقی تضاد یا تصادم نہیں ہے بلکہ کہاوت کاروں نے ان کے مابین مخالفت یا مماثلت کے پہلو ڈھونڈ نکالے ہیں۔مثلاً

(میک جیرا گیک پتوک جیرا کسیک)

اوپر مذکور کہاوت میں لفظ ’’میک،( ماں) اور پتوک،( بیٹا)‘‘ بطور متضاد استعمال ہوئے ہیں اس طرح، گیک، (گائے)  اور کسیک،( قصائی) دونوں مخالف معنی میں مستعمل ہیں۔ اس قبیل کی دوسری کہاوتیں درج ذیل ہیں:

  •        بڑے بڑے بہا جائیں گدھوا سدھاوے کتنا پانی
  •       آہنر نگری دھندو سٹر راجا ٹکا سیر مرئی ٹکا سیر کھاجا
  •        ہیرت رہیں اکری پائے گئیں چنا
  •       آم پا کے میوا آدمی پا کے بینوا
  •        مائی نہارے پٹوا مہری نہارے ٹٹوا
  •       اکھارے بار نائے ناؤ بریارا
  •        پیرا سے ڈا بھی نائے ہوبو
  •       گیہو کے ساتھ گھنو پیس جات ہے
  •        سو سنار کے یک لوہار کے
  •        رہے جھوپڑک خواب دیکھے مکک

مندرجہ بالا مثالوں میں خط کشیدہ الفاظ ایک دوسرے کے متضاد کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔

:5 اختصار و جامعیت (Brevity)کسی بھی قول یا جملے کا کہاوت کے درجے پر فائز ہونے کے لیے اس کا اختصار اور جامعیت بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ غیر ضروری الفاظ، بوجھل تراکیب کا کہاوتوں میں دور دور تک گزر نہیں ہوتا۔ یہ اختصار جامعیت ہی کا ثمرہ ہے کہ کہاوتیں زبان زد اور مقبول عام ہوجاتی ہیں۔ یونس اگاسکر کے بقول

’’در حقیقت کہاوت کی اولین شرط قبولیت عامہ کی تکمیل، اختصار و جامعیت کے بغیر ناممکن ہے، یہاں اختصار و جامعیت سے مراد محض کم سے کم الفاظ کا استعمال نہیں ہے بلکہ کہاوت میں الفاظ کا ایسا دروبست ہے کہ اس میںکسی قسم کی ترمیم و تخفیف یا کوئی اضافہ جائز نہ سمجھا جائے اور اگر کیا جائے تو اس کے مفہوم یا تاثر کو مجروح کرنے کا باعث ہو‘‘

اودھی کہاوتوں میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو اختصار اور جامعیت میںاپنی مثال آپ ہیں۔ایسا لگتا ہے گویا چھوٹے چھوٹے پیرائے میں علم و حکمت کا گنجینہ گراں مایہ پوشیدہ ہے۔ انھیں خصوصیات کی بنا پر اگر ان کو ’دریا بکوزہ‘ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ذیل میں اس قبیل کی کہاوتوں کو مختصر تشریح کے ساتھ نقل کیا جارہا ہے۔

(مڑوپ پرے  بجرو ہلک)

مطلب: جب (اپنے) انسان پر کوئی مصیبت پڑ جائے تو پھر وہ پہاڑ کی طرح بھاری بھرکم کیوں نہ ہلکی ہی معلوم ہوتی ہے۔

(کے ہاتھی ماری کے دانت نکاری)

مطلب: کون ہاتھی مارے گا پھر کون اس کے دانت نکالے گا۔ یہ کہاوت کسی حد تک اردو میں رائج کہاوت ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا‘ یہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی مشکل ترین کام سامنے آجاتا ہے اور انسان اس سے بچنا چاہتا ہے۔

(کرو کسالہ تو کھاؤ مسالہ)

مطلب: محنت کا پھل ضرور ایک نہ ایک دن ملتا ہے اسی لیے پہلے انسان کو محنت کرنی چاہیے پھر اچھے نتائج کی توقع رکھنی چاہیے۔

(نوانودن پران سب دن)

مطلب : اس کہاوت کی تشریح کہیں نہ کہیں انگریزی کی مشہور مثل (Old is gold) سے ملتی جلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرانی چیزیں انسان کا ساتھ دیتی ہیں جب کہ نئی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ہے۔

:6 تلمیح: اکثر کہاوتوں کے پس منظر میں کوئی تاریخی، مذہبی، خیالی یا حکایتی عناصر کار فرما ہوتے ہیں جس سے یہ کہاوتیں وجود میں آتی ہیں۔ تلمیح کے استعمال سے کلام میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور کلام اختصار کی وادیوں سے نکل کر ایجاز کی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس قبیل کی کہاوتوں کو جوں ہی استعمال کیا جاتا ہے قاری یا سامع کے ذہن میں پورا پس منظر گھوم جاتا ہے۔ کہاوتوں کی یہ خصوصیت انھیںادبی استعمال کے لیے خصوصی کشش بخشتی  ہے ساتھ ہی ساتھ اس کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اگر قاری یا سامع کہاوت کے پس پردہ واقعات سے ناواقف ہے تو پھر اس تلمیح کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اودھی کہاوتوں کا ایک خاصہ حصا صفت تلمیح پر قائم ہے۔ مثلاً

  •  ’’آب آب کر پوتا مرگے کھٹیک ترے دھرا ہے پانی‘‘

مطلب: بیٹا آب آب کرکے مرگیا جب کہ پانی کھاٹ کے نیچے ہی رکھا تھا۔

اس پوری کہاوت کے پیچھے ایک واقعہ کار فرما ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی آدمی کا ایک لڑکا کسب معاش کے لیے پردیس گیا وہاں جاکر اس نے کوئی نئی زبان سیکھی پھر جب وہ ایک مدت کے بعد گھر لوٹا تو مادری زبان یا مقامی زبان بولنے کے بجائے پردیس کی زبان کو ہی بولنا شروع کردیا۔ ایک دن جب وہ بیمار پڑا اوراسے شدید پیاس لگی تو اس نے گھر والوں سے پانی کی بجائے (آب آب) کہہ کر آواز لگانی شروع کی (چونکہ یہ ایک نئی زبان (فارسی) تھی اس لیے لوگوں کو اس کی بات سمجھ میں نہ آئی پھر نتیجتاً وہ پیاسا مرگیا۔

(کوا سے چتر کلٹا)

مطلب کوا سے چالاک کوے کا بیٹا۔ ایک مرتبہ کوا اپنے بچے کو نصیحت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ دیکھو بچو اگر کوئی انسان تمھارے گھونسلے کے پاس آکر جھکے تو سمجھ لینا کہ وہ تمہیں مارنے کے لیے کچھ اٹھا رہا ہے اس لیے تم اس کے جھکتے ہی اڑ جانا۔ اس پر کوے کے بیٹے نے کہا کہ اباجان اگر وہ گھر ہی سے پتھر لے کر نکلے تو۔ اس پر کوے نے کہا کہ جاؤ بیٹے! اب تمہیں کوئی نہیں مار سکتا۔

اودھی کہاوتیں بعض دفعہ سماجی اور لسانی اعتبار سے کافی پرمغز اور مالدار نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھار ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک سے زائد مثل ملتی ہیں۔ اودھی کہاتوں کا ایک تاریک  پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے اندر جنس مخالف کے تٔییں منفی پہلوؤں کو ابھارا گیا ہے  جو کہ اودھی کہا وتوں سے عیاں ہے۔

خلاصے کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اودھی کہاوتیں ان تمام خصوصیات کی حامل ہیں جن کی موجودگی ایک کلام کو کہاوت کے درجے میں لاکھڑا کرتی ہے۔دوران تحقیق یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ اودھی کہاوتوں کی تشکیل میں دیہی زندگی کے سامان، کھیت کھلیان،زرعی معیشت  نباتیہ و حیوانیہ کارفرما نظر آتے ہیں۔ ان کہاوتوں پر معیاری اردو زبان کی کہاوتوں کا اثر بھی صاف دکھائی پڑتا ہے۔ اس طور سے کہ بے شمار اودھی کہاوتیں اردو میں رائج ضرب المثل سے لفظی اور معنوی دونوں سطحوں پر مشابہ ہیں۔ 

کتابیات

  1.        اردو کہاوتیں؛ ڈاکٹر شریف احمد قریشی، زاہد بشیر پرنٹر، لاہور،فروری،2016
  2.        فرہنگ تلمیحات؛ ثوبان سعید، نیو انڈیا آفسیٹ پرنٹر نئی دہلی،2010
  3.        ضرب الامثال اور محاورات؛ مرتبہ ڈاکٹر صلاح الدین۔ محمد ثقلین، اظہر پبلشر اردو بازار، لاہور
  4.        اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو؛ڈاکٹر یونس اگاسکر، اے ون آفسیٹ پریس،نئی دہلی 1988
  5.        جامع الامثال؛ (مرتبہ) ڈاکٹر سعید الرحمان بن نور حبیب مرحوم، اسلامک میڈیا اینڈ ریسرچ فورم
  6. People of India by sir Herbert Hope Risley (ed) by W.Crooks, Oriental Books Reprint Corporation, Delhi:(1969)
  7. Seven Hundred Chinese Proverbs by Henery H.Hart Standard University Press, California;(1937)

Zuhair Ahmad

Dept of Linguistic & Punjabi Lexicography

Punjabi University

Patiala- 147002 (Punjab)

Mob.: 7906301197

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں