3/2/23

نئی اردو نظم میں تانیثی مزاحمت اور احتجاج: شہزاد انجم برہانی

 


تلخیص

1960کی دہائی کے بعد سے اردو میں جدید شاعری اور جدیدیت کے رجحان کے زیر اثر مواد، موضوعات،اور شعری اظہار کے سابقہ تمام پیمانوں سے انحراف کا سلسلہ شروع ہوا۔انسان کے نئے مسائل اور نئی پیچیدگیوں کے سبب اس کے اظہار میں بھی سپاٹ اور اکہرے اسلوب کے مقابلے علامتی اور استعاراتی اندازِ بیان کی اہمیت بڑھی۔جہاں جدیدیت کے رجحان نے روایت اور ماضی کو نا قابلِ اعتنا سمجھ کر رد کرنے کا سلسلہ شروع کیا وہیں روایت کی بازیافت اور اس کے اظہار کی نئی جہتوں کو تلاش کرنے کا ہنر بھی بخشا۔اب شاعری میں ایسے موضوعات بھی زیر بحث آنا شروع ہوئے جو اس سے قبل ادبی سطح پر احتیاط اور ادبیت کا تقاضا کرتے تھے۔

ادھر آزادی کے بعد خاص طورسے  1960 کی دہائی کے عرصے میں شاعرات کی جانب سے جو ادب تخلیق ہونا شروع ہوا اس میں نسائی احساسات کا برملا اظہار اور تانیثیت کی تحریک نے بہت مؤثر نتائج پیش کیے۔تانیثی ڈسکورس کو اردو ادب میں جن شاعرات نے پورے فنی لوازمات کے ساتھ برتا ہے انھیںاردو ادب اور شاعری میں ایک نئے ذائقے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ تانیثیت کا آغاز مغرب میں ہوا،جس میں وہاں کی شاعرات اور ادیبوں نے عورت کو پدر مرکوز معاشرے میں اس کا جائز حق دلانے اور مرد مساوی تمام اختیارات دیے جانے پر زور دیا۔عورت کو کمتر سمجھے جانے کے خلاف اس تحریک کے بانیوں نے آواز اٹھائی۔سماج اور معاشرے میں وہ تمام بنیادی حقوق جو مردوں کو عطا کیے گئے تھے اور عورتوں کو ان سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا،اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔خاص طور پاکستان میں مذہب اور سیاست کے زیر اثر رجعت پرستی کا رجحان پیدا ہوا اور عورتوں سے ان کی آزادی چھین لی گئی۔

چونکہ تانیثی تحریک مرد اساس معاشرے کے جبر کے خلاف شروع ہوئی تاہم عورتوں کے مسائل مثلاً ان کے سماجی، معاشی، معاشرتی، ذہنی اور جنسی مسائل کے ساتھ ان کے تحفظ اور عزت نفس کے مسائل بھی زیر بحث آئے۔خاص طور سے مشرقی معاشرے میں عورتوں کی شادی بیاہ کے معاملات میں جس طرح عورتوں کی پسند اور نا پسند کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کی زندگی کا فیصلہ اس کی مرضی کے خلاف کیا جاتا ہے۔یہ ایسے موضوعات تھے جن پر شاعرات نے بھرپور احتجاج درج کیا ہے۔اور اب یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تانیثیت کے زیرِ اثر اردو میں بھی شاعرات نے قابل قدر کام انجام دیے ہیں۔اپنے احتجاج اور مزاحمت کے ذریعے سماج اور معاشرے کے فرسودہ نظام کو بدلنے اور اپنے  حقوق کی بازیافت کے لیے جارحانہ رویہ بھی برتا ہے۔ عورت کی زندگی کے نجی تجربات اور اس کے جنسی مسائل کا اظہار بھی ہوا ہے،جو دراصل پدر مرکوز معاشرے میں ان کے احتجاج کی ہی ایک شکل ہے۔

 کلیدی الفاظ

تانیثیت، احتجاج، مزاحمت،پدر مرکوز معاشرہ، پدری نظام، مغربی تہذیب، جنسی مسائل، آزادیِ نسواں، مشرقی تہذیب، نسوانی احساسات و جذبات، مرد اساس سماجی نظام، بنیادی حقوق، مساوات، قید، تنہائی، نجی تجربات

——————

تانیثی تحریک مرد اساس معاشرے کے جبر کے خلاف شروع ہوئی، جس میں عورتوں کے مسائل مثلاً ان کے سماجی، معاشی، معاشرتی، نفسیاتی، ذہنی اور جنسی مسائل کے ساتھ ان کے تحفظ اور عزت نفس کے مسائل بھی زیربحث آئے۔ اس کے علاوہ کچھ بنیادی مسائل اور حقوق کے لیے اس تحریک کے ذریعے آواز بلند کی گئی، جن میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کا حق، تجارت کرنے کا حق اور ووٹ ڈالنے کا حق شامل تھا۔ یعنی مرد اساس معاشرے کے خودساختہ قانون اور اس کے استحصالی رویوں کے بڑھتے ہوئے جبر کے خلاف آزادیِ نسواں کی یا تانیثی تحریک وجود میں آئی۔ اس تحریک کا آغاز مردوں کی بالادستی اور ان کے ظلم و جبر، عورتوں کے استحصال اور حق تلفیوں کے خلاف ایک شدید ردعمل کے طور پر مغربی ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں ہوا۔ لیکن عصرحاضر میں رفتہ رفتہ تانیثیت کی تحریک کی جڑیں مشرقی ممالک میں پھیلنے کا سلسلہ بھی عرصے سے روز افزوں ہے۔

ویسے اس موقع پر مناسب ہوگا کہ تانیثیت کے رجحان کی مبادیات کو ڈاکٹر شہناز نبی کے ایک اقتباس کی صورت میں پہلے واضح کرلیا جائے۔ وہ اس موضوع پر اپنی ایک اہم کتاب میں رقم طراز ہیں

’’تانیثیت انگریزی لفظ (Feminism) کی اردو اصطلاح ہے۔ لاطینی زبان میں Feminaکے معنی عورت کے ہیں۔ فیمینزم اسی لاطینی لفظ سے وجود میں آیا ہے۔ فیمینزم یا تانیثیت کی مختلف دور میں مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، عام طور سے اس کے معنی ہیں، عورت، عورتوں کا وغیرہ اور Ismسے مراد ’نظریہ‘ ہے گویافیمینزم کے معنی ہوئے ’تانیثی نظریہ یا تانیثیت‘۔‘‘1؎

تانیثیت دراصل خواتین کا مردوں کے خلاف ایک طرح کا احتجاج ہے۔ اس تحریک کے علمبرداروں نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی تمام مواقع اور اختیارات دیے جانے کا مطالبہ کیا۔ تانیثی تحریک کے آغاز یا اس کی پہلی کوشش کے متعلق عتیق اللہ رقم طراز ہیں

’’تانیثی تحریک اپنی پیش تر صورتوں میں صنفی مساوات کی دعویدار ہے۔ صنفی مساوات کے علمبرداروں میں میری وال سٹون کرافٹ (1759-1797) جو کہ میری شیلی کی ماں تھی، کا نام سرفہرست ہے۔ وال سٹون کرافٹ کی تصنیف "A Vindication of the Rights of women 1792ـ اس معنی میں پہلی تانیثی کتاب سمجھی جاتی ہے کہ مصنفہ نے اسے ایڈمنڈبرک کی تصنیف "A Vindication of the Rights of men"ـکے جواب میںقلمبند کی تھی۔ برک نے مردوں کے حقوق پر اصرار کیا تھا اور عورتوں پر اپنی بالادستی کے چلن کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ وال سٹون کرافٹ نے نہ صرف یہ کہ عورتوں کو محض سامانِ عیش ماننے سے انکار کیا، بلکہ جنسی اور صنفی تصور کے تفوق کو سختی کے ساتھ غیرفطری اور غیرمنطقی نیز ایک سماجی دین ٹھہرایا حقوق کے ضمن میں اس کا اصرار مساوات کے اس ڈھانچے پر تھا جسے مرد و عورت پر بغیر از تخصیص بلند و پست منطبق کیا جاسکے۔ مرد اساس ادارہ بندی پر یہ پہلی ضرب تھی۔‘‘2؎

ظاہر ہے کہ تانیثیت کی تحریک کا آغاز مردوں کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کی شکل میں ہوا، جس کے تحت عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی کے مواقع فراہم نہیں کیے جانے، انھیںسماج اور سوسائٹی میں پس پشت رکھے جانے کا رویہ شامل تھا۔ اس لیے مرداساس معاشرے کے بارے میں عورت یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ وہ جن حقوق کی مستحق ہے وہ اسے حاصل ہیں یا نہیں؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس کے پیچھے کون سے محرکات کارفرما ہیں؟ تانیثیت کے زیراثر مردغالب معاشرہ اور پدری نظام کے علاوہ تمام سماجی، سیاسی، معاشرتی معاملات میں جنسی تفریق کو موضوع بناکر احتجاج کیا گیا تاہم تانیثیت کے اس وسیع تناظر کے پیش نظر اس کی کوئی حتمی تعریف کرنا بھی مشکل ہے۔

مشرقی ادب یا برصغیر میں تانیثیت کے رجحان سے قبل بیسویں صدی کے آغاز میں فرانس، امریکہ اور برطانیہ وغیرہ میںتانیثیت کے موضوعات و نظریات شدت کے ساتھ ادب میں برتے جارہے تھے۔ ورجینا وولف نے A Room of ones own لکھ کر اس کی اہمیت کا احساس دلایا، جو مغرب میں رائج پدری نظام کی بنیادوں پر قائم سماج کی عکاسی کرتی ہے۔ سیمون دی بوائر نے The Second Sex لکھ کرعورتوں کی حالتِ زار کو پیش کیا ساتھ ہی پدر مرکوز معاشرے میں مرد کی مرکزیت او رعورت کی ثانوی حیثیت کو بھی اجاگر کیا۔مغرب میں مرد کے تصور کا غلبہ اتنا زیادہ رہا کہ خود بہ خود عورت کی حیثیت ثانوی ہوگئی اور وہ محکوم گردانی جانے لگی۔ مغرب میں تانیثی تحریک کے زیراثر نسائی تخلیقات میں جوبات کھل کر سامنے آئی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تخلیق کار صدیوں سے رائج پدری نظام کومٹاکر ایسی دنیا آباد کرنے کی خواہاں ہیں، جہاں عورت اور مرد کی تخلیقات کو یکساں اہمیت حاصل ہو، نیز عورتیں اپنے جذبات کو کھل کر بیان کرسکیں اور عورتوں کو کسی بھی نہج سے کم ترتصور نہ کیا جائے بلکہ سماج اور سوسائٹی میں اسے ایک اکائی کا درجہ حاصل ہوسکے۔ مغربی معاشرہ مرد اساس معاشرہ رہا ہے، اسی لیے ادبی تخلیقات میں بھی مردوں کی بالادستی کا رجحان حاوی رہا اور عورتوں کو معمولی اہمیت کے لائق بھی نہیں سمجھا گیا۔ اس تفریق نے بھی تانیثی تحریک کے لیے بنیاد فراہم کی۔ ابوالکلام قاسمی کا خیال ہے کہ

’’مغرب مرد کی مرکزیت کے تصور کا ایسا عادی ہے کہ اس میں عورت اپنے آپ  محکوم یا غیربن کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ بیشتر ادبی تحریروں میں اس تفریق کا عکس اس طرح منتقل ہوا ہے کہ مرد کرداروں کے مقابلے عورت کا کردار نصف بہتر کے بجائے نصف کہتر کے نمونے پیش کرتا ہے۔ اس صورت حال میں مردانہ رویوں کی بالادستی کے سبب مرد ادیبوں کی تحریریں صرف مردوں کے لیے لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔اس لیے اس رویے کی مزاحمت کی خاطر ایک زاویۂ نظر کی شدید ضرورت محسوس کی گئی جو جنسی عدم توازن اور افراط و تفریط کو نشان زد کرسکے اورقدیم و جدید ادب کی قرأت ثانی یا قرأت مختلف پر اصرار کرسکے۔ اس طرز مطالعہ کو مزاحمتی قرأت کا بھی نام دیا جاسکتا ہے۔‘‘3؎

معاشرے میں جنسی عدم توازن اور افراط و تفریط کی فضا میں تانیثیت کے نمائندہ ادیبوں نے زندگی اور سماج کے مختلف پہلوؤں پر نظرثانی کرنے پر زور دیا۔ جہاں مردوں کے بنائے ہوئے اصولوں کو رد کرنے اور عورتوں کو مساوی حقوق دیے جانے کا مطالبہ شامل تھا۔ ادب میں بھی مردوں کے ذریعے بنائے گئے اصولوں اور نظریات کی مخالفت میں نئے شعری رجحانات اور شاعری میں تانیثی ڈسکورس کے نئے اصول و ضوابط تیار کیے گئے۔ مغربی ادب میں تانیثیت کی تحریک کا جواز فراہم کرتے ہوئے سید محمدعقیل رقم طراز ہیں

’’.....عورت کی تخلیقات کو نہ صرف یہ کہ اہمیت کم دی جاتی ہے بلکہ ان تخلیقات کی تفہیم یا تعبیر یہ مرد سوسائٹی اپنے رویے سے کرتی رہی ہے جس میں عورتوں کی نفسیات، برتاؤ (Behaviour) اور ان کے اپنے سوچنے کے طریقوں کو کسی مطالعے میں شامل نہ کرکے سب کچھ مرد حاوی سوسائٹی اپنی طرح سے پیش کرتی رہی ہے، جس کے باعث زندگی اور ادب دونوں کے اظہار، مطالعے اور پیش کش سب میں عورت ایک مسخ شدہ جنس (Commodity) بنتی ہے۔‘‘4؎

اس کے علاوہ معاشرے میں عورت کو نصف بہتر کے طور پر دیکھنے کا رویہ اور صنفی بنیادوں پر قائم معاشرے میں عدم مساوات کے زیراثر عورتوں نے مساوی حقوق کی بازیافت کے لیے جارحانہ رویہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہ مسئلہ سیاسی صورت حال کے تحت نہیں بلکہ سماجی نابرابری اور صنفی بنیادوں پر قائم تفریق کی بنیاد پرزور پکڑرہا تھا۔ جان اسٹوراٹ مل کے حوالے سے عتیق اللہ لکھتے ہیں کہ

’’معاشرے میں مردجہاں سرگرم اور اپنے وجود کی تصدیق ہے خودگر ہے، خودنگر ہے عورت محض ایک دست نگر ہے۔ جسے نہ تو اپنی شخصیت کو خود بنانے کا حق ہے او رنہ انفرادیت کی تشکیل اور تکمیل میں وہ آزاد ہے تاہم مل سیاسی سطح پر عورتوں کے لیے آواز بلند نہیں کرسکا کیونکہ سیاسی صورت حال عورتوں کے حق میں نہیں تھی۔‘‘5؎

عورتوں نے جنسی تفریق و تخصیص کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے خود کو محض انسان سمجھے جانے کا مطالبہ کیا۔ جس طرح سماج میں ایک عام فرد اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں آزاد ہے اسی طرح عورتوں کو جنسی تفریق اور صنفی بنیاد پر کمتر سمجھے جانے کے بجائے انھیں بھی اپنی شخصیت کو بنانے کی آزادی ہونی چاہیے۔

ہندوستانی سماج کی بات کی جائے تو یہاں صدیوں سے عورت کہنہ رسم و رواج کی زنجیروں میں قید رہی ہے اور اسے مردوں کے مقابلے میں ہمیشہ کم تر شے سمجھا گیا ہے۔ عورت پر عائد پابندیوں کا یہ عالم تھا کہ اس کا اونچی آواز میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، زور سے ہنسنے کی ممانعت تھی۔ شروع سے ہی عورتوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا، جن گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت دی گئی وہاں بھی صرف پڑھنے کی اجازت تھی، لکھنے کی آزادی بالکل نہیں تھی۔ جہاں تک عورتوں کے تخلیقی سفر کا سوال ہے اس کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ تذکروں سے حاصل شدہ معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورتوں نے 18ویں صدی سے اردو میں شعر و شاعری شروع کردی تھی اور انیسویں صدی کے اواخر میں مضامین اور فکشن لکھنے کی طرف راغب ہوئیں۔

 اٹھارہویں صدی میں یا انیسویں صدی کے اواخر میں جو شعری و نثری تخلیقات عورتوں کی جانب سے سامنے آئیں ان میں کسی تحریک یا تانیثی رجحان کا سراغ لگانا بے سود ہے۔ جہاں تک مشرق میں تانیثی تحریک یا نسائی جذبات و احساسات کے اظہار کا سوال ہے اس کے لیے مشرق میں موجود Sterio type نظریات کے سبب دقتیں پیدا ہوتی رہی ہیں مگر موجودہ زمانے میں تعلیم کے نتیجے کے سبب روایتی قدروں سے بیزاری او رنئی فکری و شعوری بیداریوں کے باعث یہاں بھی تانیثیت کی تحریک کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

بیسویں صدی کی نصف آخر کی دہائیوں میں عورتوں کا تعلیم کی طرف راغب ہونا اور تخلیقات میں باقاعدہ طور سے صیغۂ تانیث کا استعمال پدرمرکوز معاشرہ اور مرد مرکوز ہم عصر ادبی ماحول میں نسائی امیج پیش کرنے کی پہلی کوشش کہی جاسکتی ہے۔ یہ رجحان خاص طور سے بیسویں صدی میں ہی پروان چڑھا، جس میں عورتوں کے ذریعے پیش کی جانے والی ادبی تخلیقات میں تشخص کو برقرار رکھنے کا جذبہ نمایاں ہوا۔

پدرمرکوز نظام نے عورتوں کی اصل صورت کو اتنا مسخ کردیاتھا کہ جب عورتوں نے لکھنا شروع کیا تو ان کی تخلیقات میں باقاعدہ تعلیم کے سبب پید اہونے والی روشن خیالی نے سب سے پہلے پدرانہ نظام کے خلاف لکھنے کی ترغیب دی۔ باپ، شوہر، بھائی کے رشتوں کے سبب ہمیشہ اسے کم تر سمجھا گیا۔ گھر، سماج میں اسے ان تمام حقوق سے محروم رکھا گیا جو مردوں کے لیے جائزتھے۔مردوں کے ان ہی استحصالی ضابطوں کو عورتوں نے توڑنا شروع کیا، جس نے انھیںگھر کی چہاردیواری میں قید کردیا تھا۔ شاعرات نے مردوں کے حاکم اور عورت کے محکوم ہونے کے احساس کو شاعری میں پیش کرنا شروع کیا

ادامیں نکہت گل بھی نہ تھی، صبا بھی نہ تھی

کہ میہماں سی رہوں، اور اپنے گھرمیں رہوں

 

(اداجعفری)

مردوں کو سب روا ہے پہ عورت کو ناروا

شرم و حیا کا شہر میں چرچا بھی ہے عجب

فاختہ بن کے اڑنے کو جی چاہتا ہے

پر آجائیں تو گھر میں چھپ جاتی ہوں

 

(کشورناہید)

فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت

اختیار اپنا بس اتنا کہ خبر میں رہنا

آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی

پر تجھ سے قبل اتنی پریشان بھی نہ تھی

 

  (پروین شاکر)

پتھروں سے وصال مانگتی ہوں

میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں

 

(فہمیدہ ریاض)

ان شعروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح عورت اور مرد کے رشتے میں عورت مجبور و محکوم کے روپ میں اور مرد حاکم وجابر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ عورت مرد کی قربت میں زندگی کی خوبصورتیوں سے آشنا ہونے کے بجائے پریشانیوں میں گھرجاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ پرانے قیود و بندشوں کو توڑنے میں بھی مبتلا ہے۔ آزادی کے بعد عورتوں کی جانب سے کی جانے والی جو شاعری تانیثی رویوں کی نمائندگی کرتی ہے ان کا اظہار نظمیہ شاعری میں بھرپور انداز میں سامنے آتا ہے۔ ہندوستان میں کم لیکن پاکستان میں شاعرات کی تعداد زیادہ ہے، جن کے یہاں سماج اور معاشرے میں برسوں سے رائج نظام کے خلاف سخت رویہ برتا گیا اور ان تمام زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کی گئی، جنھوں نے عورتوں کو زندگی میں آگے بڑھنے سے روکا تھا اور ان کی ذہنی و فکری آرزوؤں کو جکڑ رکھا تھا۔ ان شاعرات کی تخلیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب عورت کھلی فضا میں سانس لینے کی خواہاں بھی ہے اور ان تمام اصولوں کو ہدف بناتی نظر آتی ہے جو اس کی آزادی کے حق میں مضر ہیں      ؎

کلموہی او رنصیبوں جلی/  سنتے سنتے گھر میں پلی/ ڈر ڈر دیکھا بدن کو/ گندا سمجھا لگن کو/ بن بَر دیکھے بیاہی گئی/ میں سوچوں میں چاہی گئی/ چمڑی چیخ بنے چاہت/ لوگ کہیں ہیں دسراہت/ گھر کا یا دیواروں سے/ بات کروں انگاروں سے       (کشور ناہید)

کشور ناہیدکی نظم کا یہ حصہ پدری جبر میں مقید عورت کی داستان بیان کرتا ہے، جو ہمیشہ سے رائج نظام معاشرے کا عکاس بھی ہے اور عورت کے شدید کرب کی غمازی بھی کرتا ہے، جہاں اس کی آرزو کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ جہاں پدری نظام ہی اہم ہے۔

فہمیدہ ریاض نے شاعری میں نسائی امیج کو برقرار رکھنے کے لیے بسا اوقات جارحانہ رویہ بھی اختیار کیا۔ ان کی تخلیقات کی روشنی میں ان کے اندر کی جھنجھلاہٹ، غصہ اور بے چینی کو محسوس کیا جاسکتا ہے، اسی لیے وہ ہر مخالفت کے باوجود بھی اپنے ذہنی و فکری اضطراب کو بیان کرنے سے خود کو نہیں روک پاتیں۔ شاعری میں احتجاج کی آواز بلند کرنے سے متعلق لکھتی ہیں

’’ادیب، شاعر، فلسفی اور آرٹسٹ بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہوتے ہیں مگر ان کا زندگی بسر کرنے کاطریقہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ وہ ایک جوش و خروش سے احتجاج کی صدا بلند کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے احتجاج کانعرہ نہ لگایا ہو وہ کبھی نہیں جان سکتے کہ یہ کیسی جگر خراش صدا ہوتی ہے۔‘‘6؎

فہمیدہ ریاض کی ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں پیش آنے والی نامساعد صورت حال کے خلاف سوچنے، محسوس کرنے کا طریقہ اور پھر ان کے خلا ف پورے جوش و خروش سے آواز بلند کرنے کی صلاحیت حقیقی فن کار میں ہوتی ہے۔ جن اقدار، رسومیات اور نظام کا برسہا برس سے معاشرہ پیروکار رہا ہو اس کے خلاف جاکر احتجاج اور بغاوت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے مگر آزادی کے بعد مغربی تعلیم و تہذیب اور نظریات کے فروغ کے سبب تانیثی تحریک کے زیراثر خواتین کے حقوق کی آواز بلند کی گئی اور اس آواز کے ساتھ ان تمام نظریات اور اصولوں کو نشان زد کیا گیا، جن سے عورتوں کا استحصال ہوتا آرہا تھا۔ مرد کے ظلم و جبر کے سامنے بے بس عورت اب نئی توانائی اور سوچ و فکر کے ساتھ بیدار ہوئی اور اس نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ پدری نظام نے شادی بیاہ کے معاملات میںعورتوں کی مرضی کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی اور اسے اپنی پسند کو قربان کرنے کے ساتھ گھر، خاندان کے افراد کے فیصلوں کو ماننا پڑتا تھا۔ خاندان او رمعاشرے کے اس جبر نے عورتوں کی حالت کو مسخ کیا، ساتھ ہی ازدواجی زندگی میں عورت کی محبت بھی تقسیم ہوتی رہی، جس کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ آج کی عورت مرد کی محکوم اور غلام نہیں بلکہ وہ پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے حق اور برابری کے لیے احتجاج اور مزاحمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جدید شاعرات کے یہاں نہ صرف پدری نظام کے تحت ازدواجی زندگی میں پیش آنے والی مصیبتوں کا بیان ملتا ہے بلکہ وہ پورے System کے خلاف صف آرا بھی نظر آتی ہیں      ؎

میرے منھ پر تمانچے مار کر/ تمھارے ہاتھوں کی انگلیوں کے نشاں/ پھولی ہوئی روٹی کی طرح/ میرے منھ پر صدرنگ غبارے چھوڑے جاتے ہیں/ تم حق والے لوگ ہو/ تم نے مہر کے عوض حق والی بولی جیتی ہے                                    (نیلام گھر- کشور ناہید)

 مہر کی ادائیگی کے بعد مرد، عورت کو غلام سمجھتا ہے اور پھر اس کے ساتھ غلام اور مالک کے فرق کے مطابق ظالمانہ سلوک برتا جاتا ہے، جہاں عورت بے بس اور مجبور نظر آتی ہے۔ مرد کے اس رویہ کے خلاف طنز اور احتجاج اس نظم کا خاصہ ہے      ؎

شامیانے کے پرلی طرف/ وقت کے جبر کے سامنے/ چپ کھڑی مامتا/ جس کے چاروں طرف/ تشنہ ہونٹوں، گرسنہ نگاہوں، لٹکتی زبانوں، بدن گیر غراہٹوں کا عجب غول ہے/ اور اسی غول سے/ اپنی نازوں کی پالی کی خاطر/ بڑے جبر سے/ ایک مجبور ہرنی کی صورت وہ چن لائی ہے/ اک ذرا کم ضرر بھیڑیا                       (کنیادان- پروین شاکر)

پروین شاکر کی اس نظم میں وہی کرب موجود ہے، جو عورتوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم کا احساس دلاتا ہے۔ جہاں بیٹی کی شادی پر ماں کے سامنے منڈلانے والے اس خوف کو بیان کیا گیا ہے جومردانہ مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں شادی کے بعد ایک لڑکی بہو، بیٹی اور ماں بن کر ظلم اور استحصال کا شکار ہوتی رہتی ہے۔

 کچھ او رنظمیں اسی پس منظر میں دیکھی جاسکتی ہیں      ؎

بہت سے رنگ ہیں میرے/……………/ جنھیں تم چھونہیں سکتے/ بہت سی بارشیں ہوتی ہیں مجھ میں/ جن کی آوازیں/ کبھی تم سن نہیں سکتے/ …………/ بہت سے غم ہیں/ جو کروٹ بدلتی رات کے/ پہلو سے لگ کر مسکراتے ہیں/ مگر اس مسکراہٹ کی خبر تم کو نہیں ہوتی/ یہ دوری ہے/ ہمیشہ کی/جسے شاید/ مسلسل مجھ کو سہنا ہے/ مگر پھر بھی تمھارے ساتھ رہنا ہے       (تمھارے ساتھ رہنا ہے- شاہدہ حسن)

——

عورت اپنی ذات کو دانہ دانہ/ ایک ہی ہستی کے دھاگے میں گوندھے/ گوندھ کے سمجھے/ اس کی ذات کی سب بکھری کڑیاں زنجیر ہوئیں/ دھاگے کی بس ایک گرہ کے بل پر/ اپنی ہستی کی تکمیل کے امکانات پرودے/ کچے دھاگے/ گرہ لگانے سے کب مضبوط ہوئے/ جب چاہیں/جس طرح چاہیں/ پھر سے اس تسبیح کو توڑ کے/ ذات کو دانہ دانہ کردیں

                                                                                                (کچے دھاگے- نسیم سید)

ان نظموں کے مختلف بند کے مطالعے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ایک ٹوٹی ہوئی عورت کے دکھ کا اظہار ہے۔ ازدواجی زندگی میں مرد کی وقتی محبت او رجذباتی لمحات کے علاوہ عورت ہر مرحلے میں تنہا اور مرد کی قربت کے باوجود فاصلے کے احساس میں خود کو مبتلا پاتی ہے۔ شاہدہ حسن کی نظم میں عورت کی تنہائی موضوع بنتی ہے، جس کا سبب شوہر کے ہوتے ہوئے بھی احساس بیگانگی کا ہر وقت ساتھ رہنا ہے۔ پدرانہ معاشرے کے ذریعے بنایا گیا رشتہ جسے نبھانے کے لیے عورت مجبور ہے، شوہر کی تمام تربے اعتنائیوں کے باوجود بھی وہ وفاشعار ہے او رہر دکھ کو خامشی سے برداشت کرتی ہے ’’مگر پھر بھی، تمہارے ساتھ رہنا ہے‘‘ عورت کے کرب اورلاچاری کی نمایاں مثال ہے۔

کم و بیش یہی رویہ نسیم سید کی نظم ’کچے دھاگے‘ میں سامنے آتا ہے، جہاں وفا کرنے کے بعد بھی عورت مرد کی دائمی محبت اور خلوص سے محروم ہے۔ مرد جب چاہتا ہے عورت کی تمام وفاؤں کے باوجود اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے     ؎

سنا ہے یہ/ تمھارے دل کے خوش منظر جزیرے میں/ نیا موسم پھر آیا ہے/ …… …/ ہمیشہ کی طرح تم پھر/شکستہ دل/شکستہ جاں/ پلٹ آؤگے گھبراکر/ اسی ویران بوسیدہ حویلی میں/ جو صدیوں سے/ تمھارے اس تھکے ہارے بدن کو/ اپنی بانہوں میں سمیٹے/ جی رہی ہے/ تمھاری بے وفائی/ جرعہ جرعہ پی رہی ہے            (معمول، رفیعہ شبنم عابدی)

مرد(شوہر) کی بے وفائی کی ایک تصویر رفیعہ شبنم عابدی کے یہاں بھی استعاراتی انداز میں نظر آتی ہے، جہاں عورت مرد کی تمام ترکج رویوں کے بعد بھی اس سے محبت کرتی ہے اور تعلق کو نبھانے کی کوشش کرتی ہے۔ پدرمرکوز معاشرے میں شاعرات کے ذریعے اس طرح کے موضوعات کو قلمبند کرنا جس میں عورت کو وفا او رمحبت کی دیوی کہا گیا ہے اورمرد کو جفاشعار، ظالم کے روپ میں دیکھنے کا رویہ ملتا ہے مگر پھر بھی مرد کی ہر غلطی، ناروا سلوک پرصبر و رضا کا رویہ ہمارا ذہن معاشرے اور سماج کے اس مرد حاوی رجحان کی طرف منتقل کردیتا ہے جس میں عورت محض مرد کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنی رہتی ہے اور اسے اپنی تباہی اور زندگی کرنے کے دوہرے رویے پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے مگر ان نظموں سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں ایک عورت مرد مرکوز معاشرے کے جابرانہ رویوں سے باخبر ہے وہیں اب نئی عورت کا شعور و آگہی اسے ان فرسودہ اصولوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں، جو تانیثی فکر اور تحریک کااہم ترین جزو تصور کیا جاتا ہے۔

جدید شاعرات کے یہاں ازدواجی رشتوں کے متعلق پیش آنے والے تجربات دراصل پدری نظام کا نتیجہ ہیں، جس میں عورت کو ہمیشہ کمترتصور کیا گیا او رمرد کی بالادستی اور حاکمیت عورتوں کے مقابلے میں مسلم چلی آرہی تھی۔ لہٰذا تانیثی رویوں کے پیش نظر یہ شاعرات تمام اصولوں اور ضابطوں کو کھلا چیلنج کرتی ہیں۔ بقول ناصر عباس نیر

’’عورت کا تصور ایک ایسی آئیڈیالوجی کی رو سے کیا گیا ہے جو پدرشاہی نظام کی زائیدہ ہے، جس میں مرد اور مردانہ اوصاف عمومی انسانی قدر (Norm) کا پیمانہ ہیں اور اس پیمانے کی رو سے عورت اہم انسانی اوصاف سے تہی…… کمترمخلوق ہے۔ تانیثیت اس صورت حال کے خلاف شدید احتجاج کرتی ہے اور ان تمام صورتوں اور حکمت عملیوں کو طشت ازبام کرتی ہے، جو پدرشاہی نظام نے عورت کو محکوم بنانے کی خاطر اختیار کیں جن کی بنا پر عورت کو حاشیے پر رکھا گیا یا اس کی امیج کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔‘‘7؎

تانیثی تحریک سے قبل مغرب میںسماجی،سیاسی، تاریخی اور ادبی سطح پر عورتوں کے ساتھ جو غیرمساویانہ رویہ برتا گیا وہ پدری نظام کا غماز تھا، ان ہی تمام رجحانات کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کی شکل میں تانیثی تحریک کا آغاز ہوا۔ مشرقی تہذیب وثقافت جو ہمیشہ سے مرد غالب معاشرے کی رہین منت رہی ہے یہاں تو عورتوں کو کسی طرح کی آزادی قطعی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ تاریخ و تہذیب کے ہردور میں عورتوں کو نظرانداز کیا جاتا رہا، جس سے عورت کاتشخص لایعنی ہوکر رہ گیا۔ اس کا اپنا نام اور شناخت باقی نہ رہی۔ آزادی کے بعد عورتوں کے ذریعے ان امتیازات کو مٹانا شروع کیا گیا جو عورت اور مرد دونوں کو دو خانوں میں تقسیم کرتے رہے۔

موجودہ زمانے کی عورت مرد کے شانہ بہ شانہ زندگی او رسماج کے ہر شعبے میں کھڑی نظر آتی ہے لیکن مرد کی مرکزیت او ربالادستی کے باعث اسے Ignoreکرنے کا رویہ ہنوز برقرار ہے۔ اس کے باوجود آج کی عورت اپنی Identityبرقرار رکھنے کے لیے احتجاج او رمزاحمت کا رویہ اپنارہی ہے او روہ تمام خانوں کو توڑدینے کے لیے کوشاں ہے۔ مردانہ سماج کے غیرمساویانہ سلوک کے خلاف اور اپنی امیج کو برقرار رکھنے کے لیے عورت کے ردعمل کو جدید اردو شاعرات نے اپنی تخلیقات میں بحسن وخوبی جگہ دی ہے۔ آزادی کے بعد جن شاعرات کو اعتبار حاصل ہوا ان کی تخلیقات عورت کی حالت زار کا بیان ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ وہ سماج میں عورت کو اس کا صحیح مقام دلانے اوراس کے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے مستعد نظر آتی ہیں۔ ان شاعرات کے یہاں اپنے وجود کا اثبات کرانے کا رویہ بھی دراصل پدرانہ سماج کے خلاف بھرپور احتجاج  اور مزاحمت کا غماز ہے      ؎

بہن، بیوی اور ماں کے رشتوں/ کی خاطرجینے والی/ تم اپنے لیے بھی تو جیو/ دیکھو کنول کاپھول کیسے عالم/ اور کیسے ماحول میں اپنی انا/اور اپنے وجود کا اعلان کرتا ہے

                                                                                      (جاروب کش-کشور ناہید)

کشورناہید اس نظم میں عورت کو اس کے وجود کی شناخت کا احساس کراتی ہیں۔ عام طور سے متوسط گھرانوں میں ایک لڑکی یا عورت، بھائی، شوہر یا باپ کے زیراثر اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کو ترک کرکے جیتی ہے، جہاں اس کی پسند اور چاہت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اورمحض گھر کے ان افراد کے تحکم آمیز برتاؤ سے دبی سہمی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ کشورناہید عورتوں کی حالت زار پر انھیںبہتر زندگی جینے اوراپنے وجود اور انا کا احساس دلاتی ہوئی نظر آتی ہیں     ؎

گھاس بھی مجھ جیسی ہے/ ذرا سر اٹھانے کے قابل ہو/ تو کاٹنے والی شین/ اسے مخمل بنانے کا سودا لیے/ ہموار کرتی رہتی ہے/ عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے/ تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو/ نہ زمین کی نمو کی خواہش مرتی ہے/ نہ عورت کی

                                                                                 (گھاس تو مجھ جیسی ہے- کشور ناہید)

اس نظم میں ایک عورت کے اندر اپنے وجود کے احساس کا جذبہ نمایاں ہے وہیں دوسری طرف کشورناہید عورت کو زمین سے مماثل قرار دیتے ہوئے دونوں میں زندگی او رنمو اور وجود کا احساس کراتی ہیں۔ کیوں کہ ہر دور میں مردانہ مزاج کے جبر کے تحت عورتوں کو دبایا جاتا رہا ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنی ذات کی شناخت کے لیے مسلسل اصرار کرتی نظر آتی ہے    ؎

تمھاری طرح میں بھی چاہتوں اور نفرتوں سے… رو زملتی ہوں/ تمھاری طرح ایک انسان میں بھی ہوں/ (تمھاری پالتو بلی نہیں میں/ جسے تم اپنے بستر میں سلاکر/ اس کی خرخر سے بہت محظوظ ہوتے ہو)/ تمھاری طرح مجھ کو بھی خدانے… اک وجود اپنادیا ہے/ کسی کمتر خدا کی خلق کردہ کیوں سمجھتے ہو/ تمھارا جو خدا ہے وہی میرا بھی خدا ہے/ تمھاری وضع کردہ زندگی جیتی رہوں میں/ یہ تم کیوں چاہتے ہو؟/ مجھے محفوظ رکھنے کا بہانا مت تراشو…شکریہ/ تمھاری طرح اپنی زندگی میں آپ جینا چاہتی ہوں/ مجھے جینے کاحق اتنا ہے…جتنا تمھیں ہے                                    (بلقیس ظفیرالحسن)

میں وعدوں کی زنجیروں میں اپنی زندگی کی پہلی/ صبح سے بندھی ہوئی ہوں/ اس کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے/ میرے ہاتھ کھول دیے جائیں/ تو میں اس دنیا کی دیواروں کو اپنے خوابوں/ کی لکیروں سے سیاہ کردوں/ اور آسمان کی چھت گرادوں/ قہر کی بارش برساؤں/ اور اس دنیا کو اپنی ہتھیلی پر بٹھاکر مسل دوں

                                                                      (مری زنجیر کھول دی جائے- عذرا عباس)

کہو/ تم کو انکار ہے/ مٹی کی طرح/ ہر لمحہ روندے جانے سے/ کٹنے سے فصلوں کی طرح/انکار ہے آدم کی کھیتی بننے سے/ میسر بوند بھر راحت/ نہ اک مٹھی رفاقت ہے/ نہ اک چٹکی محبت ہی پئے فرط عنایت ہے/ یہ کیسی چھت ہے/ جس کے نیچے ہر دم آگ جلتی ہے                                                                                 (تقیہ- شہناز نبی)

یہاں پہنچ کراپنی ذات او روجود کے لیے عورت کے اصرار میں خود اعتمادی پید اہوگئی ہے اور اس اعتماد کے سہارے عورت اپنی زندگی کو مرد کی طرح آزاد ہوکر جینا چاہتی ہے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔ چاہے اس کے لیے اسے جارحانہ رویہ اپنانا پڑے، وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہرشدت کواختیار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔

جدید شاعرات کے یہاں اپنی ذات کا تصور اور وجود کے احساس کو سمجھنے اور اس پر اظہارخیال کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ناصر عباس نیر رقم طراز ہیں

’’احتجاج،مزاحمت اور بغاوت کے مضمون کوزیادہ تر شاعرات نے پیش کیا ہے کہ ان کے لیے یہ مضمون شاعرانہ نہیں، حقیقی مسئلہ ہے جو ان کے نسائی وجود کو صدیوں سے لاحق ہے، چنانچہ انھوںنے اپنی شاعری میں یہ مضمون پیش کرکے گویا خود کو لکھا ہے۔‘‘

گفتگو کوآگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں

’’جدید نسائی امیج کے اظہار کی دوسری صورت وہ ہے جہاں عورت خود اظہار کرتی ہے وہ سماجی تصورات پر سوال قائم کرتی ہے۔ ایک آزاد انا کے طور پر سماجی نظام کامطالعہ کرتی اور اس کی کجیوں کو منظرعام پر لاتی ہے۔ ہر چند عورت یہاں بھی احتجاج کرتی ہے مگر احتجاج کی طرز غیرشخصی ہے۔ پہلی صورت میں احتجاج کی صورت شخصی اور صنفی ہے۔ وہاں جینڈرمسئلہ ہے مگر یہاں وہ انسانی وجود کے طور پر سماج سے مکالمہ کرتی ہے۔‘‘8؎

زنابالجبر جیسے انسانیت سوز عمل کے خلا ف بھی شاعرات نے خامہ فرسائی کی ہے۔ گھر سے لے کر بازاروں تک ہر جگہ عورت کے غیرمحفوظ ہونے کے کرب اور مردوں کے وحشیانہ رویے اور ہوس کا شکار بننے والی عورت کے غموں کا اظہار شاعرات کے یہاں ملتا ہے۔ اس ضمن میں عذرا عباس کی نظم ’ایک نظم‘ ہے۔ اس کے علاوہ نسیم سید کی نظم ’کچی بستی‘ اور ’آدھی گواہی‘ اہم نظمیں ہیں، جن میں عورت کی عصمت دری کے متعلق کرب آمیز لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔ ان نظموں میں بیان ہوئے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ گھر سے لے کر سماج اور عدلیہ تک عورت انصاف کے لیے پریشان ہے لیکن جب اسے انصاف نہیں ملتا تو یہ غیرمساویانہ اور یک طرفہ رویہ بھی احتجاج اور مزاحمت کی وجہ بنتا ہے۔ نظم ’آدھی گواہی‘ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں      ؎

عظیم منصف/ہماری قسمت کی ہر عدالت کا فیصلہ ہے / کہ ہم/ جب اپنے بدن کی بے حرمتی کی فریاد لے کے جائیں/ تو اپنا کوئی گواہ لائیں/ گواہ…… ایسی گھڑی کا/ جب وحشتوں سے وحشت پناہ مانگے/ گواہ…… ایسے گناہ کا/ جس کے تذکرے سے گناہ کانپے/ عظیم منصف/ہمیں کوئی ایسا معجزہ دے/ کہ گونگی اندھی سیاہ شب کو گواہیوں کا ہنر سکھادیں/ بصیر ہے تو… خبیر ہے تو/ تجھے خبر ہے/ کہ آج تک موت کے علاوہ کوئی نہ اپنا گواہ پایا/ ہمیں پہ ٹوٹی قیامتیں بھی/  ہمیں نے ذلت کا بار اٹھایا    

                                                                                           (آدھی گواہی- نسیم سید)

نسیم سید کی اس نظم میں جہاں عورتوں پر ہونے والی زیادتی کا احساس ہے، وہیں انصاف کے لیے اس بدترین عمل کا گواہ مانگے جانے پر عدلیہ کا چہرہ او رانصاف کی کارکردگی کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خدا سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ نظم التجائی گفتگو میں آگے بڑھتی ہے تو اس میں طنز کے نشتر تیز تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہاں شاعرہ نے خدا کے منصف ہونے سے متعلق بعض سوالات قائم کیے ہیں۔ خدا کے وجود اور اس کے قادر المطلق ہونے پر تشکیک کا انداز جدید شاعری میں پروان چڑھا ہے جس کی اہم وجہ ظلم و تشدد کی فضا میں انسان کے وجود کی بے وقعتی او رلایعنیت کا پیدا ہونا ہے اور نتیجتاً انسان نے ہر چیز کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھا۔ نسیم سید کا خدا سے سوال کرنا اسی بے مائیگی اور بے معنی ہونے کی وجہ سے ہے۔ ناموافق حالات کے ردعمل کے طور پر جدید شاعرات نے جو اظہار خیال کیا ہے، اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس بارے میں پروفیسر عتیق اللہ رقم طراز ہیںکہ

’’جدید شاعرات کے یہاں اس صورت حال کا ردعمل تو یکساں ہے مگر اظہار کے پیرایوں اور شدتوں میں امتیاز کی شکلیں مختلف ہیں۔ بعض شاعرات کی آواز بے حد بلند ہے اور انھوں نے پوری قوت کے ساتھ اپنے لحن کو پرِپرواز عطا کی ہے۔‘‘9؎

حواشی

1       فیمینزم تاریخ و تنقید، شہناز نبی، رہروان ادب پبلی کیشنز کلکتہ2012،ص17

2       تانیثی تنقید اور اس کا تناظر،بیسویں صدی میں خواتین کا ادب، موڈرن پبلی کیشنز، دہلی،عتیق اللہ، ص437

3       تانیثی ادب کی شناخت اور تعین قدر، ابوالکلام قاسمی، شاعری کی تنقید، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ 2001، ص274

4       تانیثیت ایک تنقیدی تھیوری، اصول تنقید اور رد عمل، سیدمحمدعقیل، انجمن تہذیب نو پبلی کیشنز الہ آباد 2004،ص55

5       بیسویں صدی میں خواتین کااردو ادب، عتیق اللہ، موڈرن پبلی کیشنز دہلی 2002،ص87

 6      میری نظمیں، فہمیدہ ریاض،ص14-15

7       مزاحمت اور پاکستانی اردو شاعری، ڈاکٹر آغا ظفر حسین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 2006،ص307

8       تانیثیت اور جدید اردو نظم ناصر عباس نیر،سہ ماہی مباحثہ وہاب اشرفی، جنوری تا مارچ 2007،ص54

9       خواتین کی نظموں میں فکر کے اسالیب،عتیق اللہ، بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب، موڈرن پبلی کیشنز دہلی 2002، ص170

v

Dr. Shehzad Anjum Burhani

Jagjiwan College

New Police Line Chandwan Ara

Bhojpur - 802312 (Bihar)

Mob.: 8770786313

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں