6/2/23

دکنی کی ایک شاہکار مثنوی : قصہ بے نظیر:حکیم رئیس فاطمہ

تلخیص

دبستان بیجاپور کا ایک قادرالکلام شاعر صنعتی کی مثنوی ’قصہ بے نظیر‘‘ (1055ھ؍ 1645) دکنی کی ایک اہم مثنوی ہے۔ اسے پروفیسر عبدالقادر سروری نے 1357ھ میںمرتب کر کے شائع کیا۔ اس میں ایک صحابی حضرت تمیم انصاریؓ سے متعلق ایک داستان نظم کی گئی ہے۔مثنوی بارہ مقامات پر مشتمل ہے۔ ہر مقام سے ایک نئی مہم کی داستان شروع ہوتی ہے۔صنعتی نے ایک عجیب و غریب روایت کو نظم کرتے ہوئے قصے میں تجسس اور دلچسپی کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔اس نے قصے کی ترتیب، جذبات و احساسات کی ترجمانی، خارجی مناظر کی تصویر کشی اور رزم و بزم کے نقشے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ اس نے مثنوی میں سخن کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اپنے عمیق ادبی و تنقیدی شعور کا ثبوت دیا ہے۔اس میں فارسی اثر اور نیا طرز احساس ابھرنے لگتا ہے اور سنسکرتی و ہندوی روایت کا رنگ ہلکا ہونے لگتا ہے۔حسن ادا اور انداز بیان کے لحاظ سے بھی صنعتی کی یہ مثنوی واقعی ایک ایسا کارنامہ ہے جس سے اس کا نام تاریخ ادب میں زندہ جاوید رہے گا۔

کلیدی الفاظ

بیجاپور،صنعتی، ابراہیم عادل شاہ، مرتضیٰ قادری، قصہ بے نظیر، گلدستہ، بساتین السلاطین، قصہ تمیم انصاری، عادل شاہی سلطنت، سلطان محمد عادل شاہ، خلفائے راشدین، حضرت محی الدین، علی عادل شاہ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، مثنوی، بارہ مقامات، سخن، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، رزم اور بزم،جشن خسروی،طلسماتی فضاء۔

————

صنعتی بیجاپور کا ایک سربرآوردہ اور اپنے عہد کا جلیل القدر شاعر تھا۔ اس شاعر کے حالاتِ زندگی پر خارجی ذرائع سے کچھ زیادہ مواد دستیاب نہیںہوتا۔ صنعتی کی سنہ پیدائش اور تاریخ وفات بھی پردہ خفا میں ہے۔ اس کے واقعات زندگی پر کسی ادبی تاریخ یا تذکرے سے سیر حاصل معلومات نہیں ملتیں۔ محمدقاسم فرشتہ نے اپنی مشہور تاریخ، محمد کے پیش رو، ابراہیم عادل شاہ ثانی (988-1037 ھ) کے عہد میں لکھی ہے۔1؎فرشتہ فارسی سے لگاؤکی بنا پر اس زبان کے شعرا کا تذکرہ تو کرتا ہے لیکن اردو شاعروں کا ذکر اس نے خال خال کیا ہے۔ بجز اس کے کہ وہ دربار میں خاص اہمیت رکھتے ہوں۔ ابراہیم کے حالات میں اس نے اس کے فرزند علاء الدولہ کی ولادت کے جشن کے سلسلے میں اکثر شعرا کا ذکر کیا ہے۔ وہاں صنعتی کا نام نظر نہیں آتا، جس سے ہم یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ غالباً ابراہیم کے عہد میں بہت کم عمر تھا اور اس کو شہرت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ صنعتی کے احوال و کوائف کے بارے میں ابھی تک تحقیق کی زبان خاموش ہے۔ بقول افسر صدیقی صنعتی کے والد کا نام شیخ حیدر تھا۔ 2؎  اس کے کلام کی داخلی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا نام سید حسن شاہ محی الدین تھا اور اس کے والد مرتضی قادری عرف ’ شاہ حضرت ‘ تھے۔ جو کچھ اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے وہ سب خود اسی کی زبانی اس کے کلام سے معلوم ہوسکا ہے۔ مثنوی ’ گلدستہ ‘ میں شاعر نے اپنے اور اپنے والد کے نام کی صراحت اس طرح کی ہے      ؎

اپس فضل سوں کر میرا نیک نام

سدا قدر و  عزت سوں رکھ توں مدام

یہی آس دھر تجہ دھریا عین ہے

مسمی حسن شاہ محی الدین ہے

خلف مرتضیٰ قادری نامور

بھی تس نام عرفی شاہ حضرت ککر

میرے من کو پروردہ کیتا سودے

خبر تیری تحقیق دیتا سو وے

صنعتی کے دادا کا نام شرف الدین شاہ ابوالحسن حسینی تھا۔3؎  مرتضیٰ قادری کے متعلق ’ تذکرہ اولیائے دکن‘  میں عبدالجبار ملکاپوری خامہ فرسا ہیں کہ ’’ آپ حضرت شاہ شرف الدین قادری کے صاحبزادے ہیں۔‘‘4؎  ان کا وطن احمدآباد گجرات تھا۔ عبدالجبار ملکاپوری رقمطراز ہیں کہ شرف الدین کی طبیعت ابتدا ہی سے زہد و تقویٰ کی طرف مائل تھی۔ ایک دن اتفاقاً ایک مجذوب سے ملاقات ہوئی اور ان پر بھی جذب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ شاہ وجہہ الدین علوی کے خلف رشید شا ہ عبداللہ گجراتی نے سلوک کی منزلوں میں ان کی دستگیری کی، جس کی وجہ سے قلیل عرصے میں وہ ’ کامل‘ ہوگئے۔ انھوں نے گجرات سے بیجاپور کا سفر کیا اور جگت گرو ابراہیم عادل شاہ کے عہد میں دارالسرور بیجاپور پہنچے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کی۔5؎  وہ ابراہیم عادل شاہ کے مرشد اور سکھ انجن کے شاعر ابو شاہ ابوالحسن کے ہمعصر تھے۔ صنعتی کے دادا نے 30جمادی الثانی1022ھ/1613 میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ان کا مزار ابراہیم پور کے دروازے کے باہر واقع ہے۔ عبدالغفور خاں رام  پوری نے ’تاریخ دکن ‘ جلد سوم میں ان کے حالات و واقعات زندگی پر زورقلم صرف کیا ہے۔ شاہ حضرت کا نسل نامہ خواجہ بندہ نواز ؒ سے جا ملتا ہے۔ بیجاپور کا شاعر مختار ان کا معتقد و مرید تھا۔ چنانچہ وہ شاہ حضرت کے متعلق کہتا ہے   ؎

ہے محمد حسینی ککر اس کا نانوں

میرے سر پر اس کی ہمیشہ ہے چھانوں

کہ او شاہ حضرت سو ہشور ہے

کہ فیض اس کا دوجگ میں معمور ہے

رہے بحث بے مثل پایا ہوں پیر

کہ اوہے دو جگ میں مجے دستگیر

ایک اور جگہ مختار کہتا ہے      ؎

میرے پیر کا جد ہے او سرفراز

محمد حسینی سو گیسو دراز

مثنوی ’ گلدستہ ‘ میں صنعتی اپنے والد کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ بڑی روحانی قوت کے مالک، عالم و فاضل اور صالح شخص ہیں۔ میں نے ’ ادب‘ اور ’ تمیز ‘ ان ہی سے سیکھی ہے۔ یہ ان ہی کی تربیت و فیض کا طفیل ہے کہ میری ’ طبع ‘ کا ’ چمن تازہ ‘ ہوا ہے، جس شخص کو بھی ان کی صحبت نصیب ہوئی ہے وہ دنیا میں عزیز بن جاتا ہے   ؎

پدر منجہ کمالت سوں ہو نامدار

اتھا علم کے فن میں سب کام گار

خصوصاً یو پا میں ادب ہور تمیز

رہی فیض سکی ہو جگ میں عزیز

مثنوی میں راجی خاں کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ صنعتی کے والد کو ادب سے بھی گہرا شغف تھا اور ممکن ہے وہ شاعر بھی رہے ہوں جس کے بارے میںوثوق کے ساتھ کچھ خامہ فرسائی نہیں کی جاسکتی۔ راجی خاں صنعتی سے ان کے والد کے ادبی ذوق و شوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں        ؎

پدر تجہ بنا معجزے سروری

ہوا نز ہستی شرف  پا بہتری

توں ویسے کا فرزند ہو کر ایتال

سبب کیا نہ آتا ہے اس فن کے نال

حکیم شمس اللہ قادری نے صنعتی کے نام کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ حالانکہ ان کی نظر سے صنعتی کی مثنوی ’گلدستہ‘ گزر چکی تھی۔ جس میں شاعر نے اپنے نام کی واضح صراحت کی ہے۔ اگر شمس اللہ قادری کی نظر سے وہ شعر گذرتا جس میں شاعر نے اپنا نام درج کیا ہے اور انھوں نے اس کی وضاحت کردی ہوتی تو بعد کے محققین کو شاعر کے نام کی نشاندہی میں تسامح نہ ہوتا، عبدالقادر سروری کو بھی سعی بسیار کے باوجود صنعتی کے حالات و واقعات دستیاب نہیں ہوسکے تھے۔ چنانچہ ’قصہ بے نظیر ‘ کے مقدمہ میں انھوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ صنعتی کی مثنوی ’گلدستہ ‘ عبدالقادر سروری کی نظر سے نہیں گزری اور صنعتی کے حالات کسی تذکرے میں درج نہیں تھے۔ اس لیے عبدالقادر سروری نے ’بساتین السلاطین ‘ مصنفہ ابراہیم زبیری کے بیان پر اپنی معلومات کی اساس رکھی تھی۔ ابراہیم زبیری نے ایک شاعر صبعی کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’ ابراہیم خان صبعی است۔ کہ مجموعہ علم عقلی فراہم آوردہ ‘‘ 6؎ عبدالقادر سروری نے سہو کاتب تصور کرکے صبعی کو صنعتی تسلیم کرلیا۔ صبعی اور صنعتی کی لفظی مشابہت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔ ’’ صبعی اور صنعتی میں جو مشابہت ہے وہ ظاہر ہے۔ ممکن ہے کہ اسی تجنیس خطی نے، صنعتی کو صبعی بنادیا ہو۔‘‘7 ؎  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم خاں صبعی اور حسن شاہ محی الدین صنعتی دو مختلف شاعر ہیں۔ صنعتی کا نام محمد ابراہیم خاں نہیں تھا۔ اس ضمن میں خود صنعتی کے کلام کے مذکورہ اشعار کی داخلی شہادت قولِ فیصل ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ صرف عبدالقادر سروری کا قیاس تھا، جس کے متعلق وہ خود آگے چل کر لکھتے ہیں۔ ’’ بہرحال، اس وقت سوائے قیاس کے، ان دونوں کو ایک سمجھنے کے ہمارے پاس کافی دلائل موجود نہیں ہیں۔ ‘‘ 8؎

’ بساتین السلاطین ‘ میں ابراہیم زبیری نے ابن ظہوری کے حوالے سے ابراہیم خاں کو بحیثیت قصیدہ نگار پیش کیا ہے اور اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’ قصیدہ و غزل، معنی پیچیدہ و معانی رنگین برخجستہ چنداں سربستہ کہ ازپار تحسین آن، زبانِ حرف گیراں چون رنگ روے نشانِ درہم شکستہ‘‘9؎لیکن زبیری کے اس بیان کے برخلاف صنعتی بحیثیت مثنوی نگار شہرت و مقبولیت رکھتا ہے۔ ابراہیم زبیری کے مذکورہ بالا بیان میں صرف قصیدہ اور غزل کا ذکر ہے مثنوی کا نہیں۔ حالانکہ صنعتی کی مشہور مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ 1055ھ/1645 میں منظرعام پر آ کر مقبول و معروف ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’تاریخ ادب اردو ‘ 10؎  اور افسر صدیقی نے مخطوطات انجمن ترقی اردو پاکستان 1 1؎  میں صنعتی کا نام شیخ داؤ بتایا ہے۔ لیکن صنعتی کے کلام کی داخلی شہادت سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ عبدالقادر سروری 12 ؎، ڈاکٹر زور13؎، نصیرالدین ہاشمی 14؎، ڈاکٹر جمیل جالبی15؎  اور سخاوت مرزا 16؎  نے صنعتی کا پورا نام محمد ابراہیم خاں لکھتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’ بساتین السلاطین ‘ میں جس شاعر صبعی کا ذکر کیا گیا ہے وہ صنعتی ہے، لیکن یہ بیان غلط فہمی پر مبنی ہے، مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ اور مثنوی ’ گلدستہ ‘ میں شاعر نے متعدد مقامات پر اپنا تخلص استعمال کیا ہے، وہاں صنعتی ہی درج ہے کہیں صبعی تحریر کیا ہوا نہیں ملتا۔ صنعتی کہتا ہے   ؎

ترا رحم کر صنعتی پر مدام

کرینگے یو گر کر خرامکا تمام

ایتا صنعتی کوں بھی طاقت کہاں

تیرا وصف کہنے فصاحت کہاں

توں چل صنعتی بول اس مدح کوں

نڈر ہو کہ دھر ہات اپس فرح کوں

فی الحقیقت صبعی اور صنعتی دو مختلف شخصیتیں ہیں اور ڈاکٹر جمیل جالبی کے اس قول سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ ’’ جب تک کوئی اور بات سامنے نہ آئے صنعتی اور ابراہیم خاں صبعی کو ایک مان لینے کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے۔ ‘‘ 17؎

نذیر احمد اپنے ایک مضمون ’ اردو کی ابتدائی نشوونما میں علما و فضلا کی خدمات ‘ میں خامہ فرسا ہیں کہ ’’ابراہیم خاں صنعتی بھی فارسی کابڑے درجے کا شاعر تھا اس دور کے ایک اور شاعر نے تمیم انصاری کے قصے کو ’ قصہ بے نظیر‘ کے عنوان سے نظم کیا ہے۔ ڈاکٹر زور اور نصیرالدین ہاشمی وغیرہ نے اس مؤلف اور ابراہیم صنعتی کو ایک قرار دیا ہے۔ اس مصنف کی ایک اور کتاب مثنوی گلدستہ پر سید نجیب اشرف ندوی نے رسالہ سب رس میں روشنی ڈالی ہے۔‘‘ 18؎  نذیراحمد نے ابراہیم خان کا تخلص صنعتی بتایا ہے جب کہ یہاں صبعی ہونا چاہیے تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ ’ قصہ بے نظیر‘ کے جس شاعر کا ذکر کرتے ہیں وہ حسن شاہ محی الدین صنعتی ہے۔ حکیم شمس اللہ قادری نے اس مثنوی کا نام ’ گلدستہ عشق ‘ لکھا ہے اور صنعتی تخلص کے دوسرے شاعر (یعنی حسن شاہ محی الدین) سے اس کو منسوب کرتے ہیں اور سخاوت مرزا  19؎ بھی ان کے ہم خیال ہیں۔

’ بساتین السلاطین ‘ میں ابراہیم زبیری نے صبعی نامی شاعر کا ذکر کرتے ہوئے اس کا نام ابراہیم خاں تحریر کیا ہے۔ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ابراہیم خاں صبعی پٹھان تھا اس کے برخلاف حسن شاہ محی الدین صنعتی مثنوی ’ گلدستہ ‘ میں کہتا ہے کہ میں ’ حسنین کی آل ‘ سے ہوں۔ 

’بساتین السلاطین ‘ میں ابراہیم زبیری تحریر کرتے ہیں کہ جب وزیرسلطنت خاں محمد کو جو خان خاناں کہلاتے تھے قتل کردیا گیا تو ’ یہ عہدہ فضائل و کمالات مرتبت ‘ ابراہیم خاں سنبھالا، محمد عادل شاہ کی ملکہ خدیجہ سلطان نے جو عبداللہ قطب شاہ کی بہن تھی، حج کا ارادہ کیا تو ابراہیم خان بھی ان کے ہمراہ ہوگئے اور اپنے فرزند کو جس کا نام عبدالحمد  تھا، اپنی جگہ انتظام سلطنت پر مامور کیا۔20؎  مذکورہ بالا بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابراہیم خان ایک جلیل القدر عہدے پر فائز تھا اور عادل شاہی سلطنت کا وزیر مقرر ہوا تھا۔ وہ بقول ابراہیم زبیری ’وزیر ‘ اور ’ ازمجلسیاں حضوراعلیٰ ‘ تھا۔ اس کی زندگی فراغت وخوش حالی اور عیش و آرام میں بسر ہوتی ہوگی۔ وہ کتنی ہی عاجزی و انکساری سے کام کیوں نہ لے خود کو ایک ’غریب سپاہی ‘ اور ’ گرانی ‘ سے دوچار انسان نہیں کہہ سکتا۔ صنعتی اپنے متعلق کہتا ہے وہ ایک غریب سپاہی اور مفلوک الحال شخص ہے اور پھر اپنی زبوں حالی اور گوشہ نشینی کا اس طرح اظہار کرتا ہے      ؎

اتھا اصل میں ایک سپاہی غریب

سپاہاں کی سب گرد میں تھا قریب

ولے چرخ آفات تے ہوتے حزین

خموشی پکڑ کر تھا گوشہ نشین

میر دل پہ کچہ شادمانی نہ تھی

شب و روز فکر گرانی تھی

اپنی آفات کا ذ کر کرتے ہوئے صنعتی کہتا ہے کہ میری بدحالی اور فلاکت نے میری ’طبع ‘ کو ’ کند ‘ کردیا ہے اور اپنی بدقسمتی پر ’ تند ‘ ہوں       ؎

مکدر ہو اوستے طبع کند ہو

اپس بخت پر میں اتھا تند ہو

بہرکیف عادل شاہی سلطنت کا وزیر تنگ دستی، عسرت، خستہ حالی اور فلاکت کی شکایت نہیں کرسکتا۔ قرین قیاس ہے کہ صنعتی کی ابتدائی زندگی عسرت و پریشانی میں گذری ہو، لیکن بعد میں اس نے دربار میں رسائی حاصل کرلی ہو۔ ابراہیم زبیری نے محمد عادل شاہ کا سنہ وفات 1067ھ بتایا ہے اور اس کے بعد اس کی ملکہ کے سفر حج کا ذکر کیا ہے، جس مثنوی میں وہ خود کو بادشاہ کا مقرب نہیں بلکہ ایک غریب سپاہی کہتا ہے۔ یعنی مثنوی ’ گلدستہ ‘1077ھ میں تحریر کی گئی تھی۔ اس لیے ہم صنعتی کو ایسا شخص تصور نہیں کرسکتے، جو عادل شاہی حکومت میں کسی اعلیٰ عہدے پر مامور ہو۔ صنعتی اس مثنوی کے آخر میں قارئین سے استدعا کرتا ہے۔ اگر میری یہ مثنوی پسند آئے تو میرے حق میں دعائے خیر کریں تاکہ مجھے کلفت و پریشانی سے نجات ملے      ؎

کہ جس دل میں آئے شفقت کا پیار

میرے حق میں کرنا دعا بے شمار

کہتا ہے کہ میری زندگی پریشانی او رآلام و مصائب سے دوچار ہوئی ہے۔ وہ تخلیق کار جنھیں فارغ البالی اور عیش و عشرت نصیب ہوئی ہے وہ پوری دل جوئی کے ساتھ شعرگوئی کی طرف راغب ہوسکتے ہیں۔ مجھے یہ نعمت غیرمترقبہ ’ میسر‘ نہیں     ؎

گئے باغباں جو اول ہو کے سب

میسر اتھا ان کوں عیش و طرب

اوسی نے خوشی سوں جگ افروز کر

سنوارے اپس باغ  شایاں مگر

حکیم شمس اللہ قادری نے صنعتی کا وطن ساگر بتایا ہے۔21 ؎  مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ کی داخلی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ صنعتی عادل شاہی خاندان کے چھٹے حکمران محمد عادل شاہ (1037-1067ھ)کے عہد کا شاعر ہے۔ صنعتی نے اس مثنوی میں سلطان محمد عادل شاہ کی مدح میں ایک باب قائم کیا ہے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ محمد عادل شاہ کے دربار سے تعلق رکھتا ہے۔ ’قصہ بے نظیر ‘ میں بادشاہ کی مدح اس طرح کی ہے   ؎

محمد شہ داد گر دیں پناہ

کہ ہر دم محمد جسے دست گاہ

براہیم کے بعد از ہوا نامدار

جگت میں محمد شہ کا مگار

 بیجاپور کے شاعر مختار کے بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ صنعتی خواجہ بندہ نواز کے خاندا ن سے تعلق رکھتا تھا اور سید تھا۔ صنعتی خود کو مخدوم حسینی کے فرزند کا مرید بتاتا ہے گلدستہ میں اپنے شیخ طریقت کے بارے میں کہتا ہے   ؎

کہ او پیر کامل حقائق پناہ

معارف کا جس کوں اچھے دستگاہ

او مخدوم حسینی کا نامی خلف

کروں جگ میں شہرت مرا چوطرف

شاعر اپنے عقائد کے بارے میں کہتا ہے کہ اس نے حنبلی مسلک اختیار کیا ہے۔ 22؎

شہیداں میں افضل حسین و حسن

بدل دیں لیے کربلا کا وطن

انن آل میں ہو کے یہ نامدار

کیے مذہب حنبلی استوار

صنعتی کے سنہ وفات کا پتہ نہیں چلتا۔ ظن غالب ہے کہ وہ 1077ھ۔ 1666ء تک بقید حیات تھا کیونکہ مثنوی گلدستہ کی تاریخ تصنیف یہی ہے۔ بقول نصیرالدین ہاشمی ’’ عادل شاہی دور کے اختتام سے پہلے اس کا انتقال ہوچکا تھا۔ محمد عادل شاہ اور علی عادل شاہ کے دور میں رہنے کا ثبوت ملتا ہے۔‘‘23؎  ا س کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مثنوی ’قصہ بے نظیر ‘ میں محمد عادل شاہ کی مدح میں اس نے ایک مستقل باب قائم کیا ہے اور محمد عادل شاہ کے شعری ذوق کی تعریف بھی کرتا ہے۔ بقول حمیدالدین شاہد صنعتی کی نشوونما اگرچہ عہد ابراہیم عادل شاہ میں ہوئی تھی، مگر اس نے محمد عادل شاہ کے عہد میں شہرت پائی۔ 24؎

صنعتی کی دو مثنویاں دستیاب ہوئی ہیں۔ ایک ’قصہ بے نظیر‘ (1055ھ) اور دوسری مثنوی ’گلدستہ‘  (1077ھ) جو پہلی مثنوی کے اکیس بائیس برس بعد لکھی گئی۔ مثنوی ’گلدستہ ‘ کی اندرونی شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ مثنوی گلدستہ پیش کرنے سے پہلے صنعتی عزلت گزین ہوچکا تھا او ریہ کہ بحیثیت شاعر اُسے شہرت نصیب ہوچکی تھی اور اسے عادل شاہی دور کا ایک عظیم المرتبت شاعر تسلیم کیا جاتا تھا۔

مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ صنعتی کی پہلی تخلیقی کاوش ہے۔ نصیرالدین ہاشمی نے ’قصہ بے نظیر‘ کا نام ’ قصہ تمیم انصاری ‘ بھی تحریر کیا ہے۔25 ؎  صنعتی نے اپنی مثنوی میں اس کے نام کی وضاحت کردی ہے۔ وہ اس ضمن میں کہتا ہے   ؎

یو قصہ عجب پاک ہے دل پذیر

جوپاکاں کہے ہیں جسے بے نظیر

قلم اب توں اے ’ قصۂ بے نظیر‘

شتابی سوں لک مختصر دل پذیر

’ قصہ بے نظیر‘ کا سنہ تصنیف 1055ھ۔1645ء ہے۔ صنعتی نے مثنوی میں اس کی صراحت اس طرح کی ہے وہ کہتا ہے    ؎

ہزار ایک پر سال پنجاہ و پنج

ہوئے تب ہوا پُر جواہر یو گنج

اس مثنوی کے سبب تصنیف کے بارے میں صنعتی کہتا ہے کہ ایک مبارک رات وہ اسی خیال میں غلطاں و پیچاں تھا اور خیالات امڈ چلے آرہے تھے، مجھ پر مسرت کی کیفیت طاری تھی۔ معنی کے گل چراغ کی مانند کھلے تھے کہ یہ بات دل میں آئی کہ دنیا میں جینا نا پائیدار ہے۔ یہاں دایم حیات کسی کو نہیں ہے۔ مگر وہ شخص زندہ رہتا ہے جس نے کوئی اچھی یادگار چھوڑی ہو۔ نام باقی رہنا بڑی چیز ہے اور اس کا سب سے بہترین ذریعہ’ سخن ‘ ہے جو ایک اچھے فرزند سے بھی زیادہ قیمتی شئی ہے، جس شخص سے کوئی یادگار باقی نہ رہے۔ اس کا جینا اور نہ جینا دونوں برابر ہیں       ؎

نہیں جگ میں جینا کسے پایہ دار

مگر او کہ جس تے رہے یادگار

رہنا نانوں باقی بڑا کام ہے

جو یاں ہیں جو کئی جگ میں گمنام ہے

جو بولے ہیں یوں عارفان سلف

کہ ہے شعر بہتر سوں بہتر خلف

اگر تجہ تے کچ نار ہے یادگار

تو جینا نہ جینا ترا ایک سار

… اپس فکر کے جلوہ گر کر رتن

امر لک رتن سو سخن ہے سخن

صنعتی کہتا ہے کہ اس بات کے دل میں آتے ہی اس کی طبعیت میں جوش پیدا ہوا اور وہ سوچنے لگا کہ کیا لکھوں ؟ کس من موہن کی حکایت بیان کرے؟ یا کسی گلبدن کا قصہ شروع کرے ؟ کس بادشاہ کی جنگ کی داستان سنائے ؟ اسی فکر میں تھا کہ ملہم نے کہا کہ تمیم انصاری کی سرگزشت بیان کرو۔ عشقیہ واردات یا رزمیہ بیانات نظم کرنے کے بجائے صحابی رسول تمیم انصاری کا قصہ نظم کرو اور اس میں اپنے فن کا کمال اور انفرادیت کے جوہر دکھاؤ۔

جب یہ الہام اس پر ’ آشکار ‘ ہوا تو صنعتی نے اسے فارسی میں لکھنے کا ارادہ کیا، لیکن عزیزوں اور دوستوں کا اصرار یہ تھا کہ     ؎

اسے فارسی بولنا شوق تھا

ولے کے عزیزاں کوں یوں ذوق تھا

کہ دکھنی زباں سوں اسے بولنا

جو سیپی تے موتی نمن رولنا

مذکورہ بالا ابیات سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ صنعتی کو فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی اور وہ اس دور میں فارسی زبان کے عالم و شاعر کی حیثیت سے مقبول و مشہور تھا۔ فارسی کے بجائے دکنی میں لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو دوست و احباب کا اصرار تھا اور دوسرے دکنی کا عام رواج بھی اس بات کا متقاضی تھا کہ اسی زبان کو اظہار کا وسیلہ بنایا جائے تاکہ ہر فرد اس سے محظوظ ہوسکے۔ اس طرح صنعتی کا وہ مقصد بھی کہ کوئی ایساکارنامہ انجام دیا جائے جو یادگار رہے، پورا ہوسکتا تھا۔ مہمات تمیم انصاری سے متعلق کئی قصے مقبول و مشہور تھے اور لوگ ان سے دلچسپی لیتے تھے۔ یہ قصے نظم اور نثر دونوں پر مشتمل ہیں۔ کبیر نے 1090ھ میں ایک مثنوی ’قصۂ تمیم انصاری ‘ کے نام سے لکھی تھی جس کے دو نسخے کتب خانہ سالارجنگ میں محفوظ ہیں۔ بقول عبدالقادر سروری ’قصۂ بے نظیر‘ میں اور اس قصے میں بعض جزئی واقعات میں اختلاف ہے۔‘‘26 ؎  سید محی الدین قادری جعفری ابن سید شاہ شمس الدین قادری گنگوہی نے یہ قصہ نثر میں بیان کیا تھا۔ اس کا ایک مخطوطہ کتب خانہ سالارجنگ کا مخزونہ ہے۔ غلام رسول غلامی ساکن کھمبابت نے بھی قصہ تمیم انصاری کو نظم میں پیش کیا تھا۔ اس کا سنہ تصنیف1218ھ۔ 1803ء ہے۔

حضرت تمیم انصاری کا قصہ اور شعرا نے بھی نظم کیا ہے، لیکن اس سلسلہ میں صنعتی نے جو مقبولیت حاصل کی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکی۔ اس کا سبب اس کی فنی دسترس ہے۔ عبدالقادر سروری ’’ قصہ بے نظیر ‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس قصے کا مآخذ جیسا کہ مصنف نے بتایا ہے، کوئی خاص فارسی قصہ نہیں‘‘27 ؎لیکن مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ کی اندرونی شہادت سے صنعتی کے بیانات کی تردید ہوتی ہے۔ صنعتی کے پیش نظر ضرور کوئی فارسی قصہ تھا اس میں وہ کہتا ہے کہ میں نے فارسی کے بجائے دکنی میں قصہ نظم کیا ہے تاکہ وہ لوگ بھی جو اس زبان سے واقف نہیں مستفید ہوسکیں       ؎

جسے فارسی کا نہ کچہ گیان ہے

سو دکھنی زباں ان کوں آسان ہے

کیا اوس تے دکھنی میں آسان کر

جو ظاہر دسیں اس میں کئی کئی ہنر

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صنعتی کے پیش نظر جو نسخہ (فارسی قصہ) تھا وہ اس میں پیش کیے ہوئے بعض بیانات سے متفق نہیں تھا اور بعض واقعات اور روایات کو غیر مستند تصور کرتا تھا اس لیے کہتا ہے کہ اس قصے میں ’اختلاف ‘ تھا، میں نے اس کی تصحیح کی ہے   ؎

اتھا گرچہ قصہ میں اس اختلاف

صحی کر کو بولیا ہوں میں بے خلاف

دیا اس رسالے کوں میں سعی کر

سو ترتیب بارا مقامات پر

ہیئت کے اعتبار سے زیرنظر مثنوی کا انداز دوسری تمام مثنویوں جیسا ہی ہے۔ یہ مثنوی کئی تمہیدی ابواب کے علاوہ بارہ مقامات پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے حمدیہ اشعار ہیں جن کی تعداد 90ہے۔ نعت کی  76ابیات ہیں۔ پھر منقبت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی  ؒ میں39  اشعار ہیں۔ عبدالقادر سروری نے ’قصہ بے نظیر‘ کے مقدمہ میں منقبت کے اشعار کی تعداد49 بتائی ہے جو درست نہیں ہے،28 ؎ بعدازاں تعریف ’سخن‘ یعنی شعر کی تعریف میں 58 ابیات درج ہیں اور پھر مدح محمد عادل شاہ میں 57  اشعار تحریر کیے گئے ہیں اور آخر میں وجہ تالیف سے متعلق 36    اشعار ہیں اور پھر آغاز داستان سے قبل قصہ تمیم انصاری کو نظم کرنے کا عزم، قصہ کو دکنی زبان میں لکھنے کا سبب، پیش نظر نسخے کے اختلافات کی تصحیح کرکے بارہ مقامات پر ترتیب دینا کے بارے میں، سنہ تصنیف، خدا سے اپنی التجا اور اس منظوم داستان کا نام وغیرہ پر مشتمل 49  ابیات ہیں یعنی تقریباً  405  اشعار کے بعد داستان شروع ہوتی ہے۔ یہ مثنوی 1615 ابیات پر مشتمل ہے۔

صنعتی مثنوی میں شامل بارہ مقامات کے ہر ’ مقام ‘ میں تمیم انصاری کی ایک نئی مہم کی داستان نظم کی ہے۔ اس مثنوی کا قصہ چونکہ مذہبی نوعیت کا حامل ہے اور تمیم انصاری کی مہمات پر مبنی ہے، اس لیے صنعتی نے اسے ’پاک قصے‘ سے موسوم کیا ہے    ؎

یو قصہ عجب پاک ہے دل پذیر

جو پاکاں کہے ہیں جسے بے نظیر

دوسرے مثنوی نگاروں کی طرح مختلف عنوانات سے اپنی منظوم داستان کو مزین کرنے کے بجائے صنعتی نے ہر حصے کے لیے ’مقام ‘ کی اصطلاح رائج کی ہے تاکہ صوفیانہ اصطلاح کا اثر پوری داستان میں حاوی رہے۔ مقام کا استعمال فصل، باب یا بیان کی جگہ کیا گیا ہے   ؎

دیا اس رسالے کوں میں سعی کر

سو ترتیب بارا مقامات پر

’ قطب مشتری ‘ میں وجہی نے جس طرح شاعری کے متعلق اپنے ادبی و تنقیدی تصورات و خیالات کی ترجمانی کی ہے اسی طرح صنعتی کی مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں شاعر کے ادبی اور تنقیدی تصوارت و خیالات کی وضاحت کی گئی ہے۔ وہ تخیل کی بلند پروازی، ترسیل کی جاذبیت، بیان کی حلاوت و شیرینی، اختصار و دلپذیری اور لطافت و شگفتگی کو اچھے شعر کی پہچان تصور کرتا ہے۔ شاعر کو شاعری کی فسوں سازی و ساحری کا پورا اندازہ تھا۔ اس مثنوی میں مسلسل  41 اشعار میں شاعری کی عظمت و افادیت، شاعری کی اہمیت اور اس میں پوشیدہ غیرمعمولی قوتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ اس خیال کا حامل ہے کہ شاعر کائنات کے اسرار کا احاطہ کرسکتا ہے اور اس کے رموز و نکات سمجھ سکتا ہے۔ شاعری کی ہمہ گیری اور اس بے پناہ اثر آفرینی کے بارے میں صنعتی کہتا ہے   ؎

سخن گنج ہے عالم الغیب کا

سخن موج زن ملک لاریب کا

سخن بادشاہ جہاں گیر ہے

سخن مس کے عالم کوں اکسیر ہے

سخن کا عجب ہے گگن تے حساب

جو یک پل میں لیا تا ہے کیے آفتاب

سخن کا عجب کچہ قوی باز ہے

ازل تا ابد جس کوں پرواز ہے

عجب ہے سخن کا شجر سربلند

عجب ہے سخن کا سمند ارجمند

سخن کا عجب مرد ہے بالیقیں

سدا دار دیدار اوس ہے لعیں

سخن گر نہوتا تو اے نیک ذات

نہوتا کدہی شش جہت شش جہات

سخن فیض ہے عالم الغیب کا

سخن نقش ہے جیب کے جیب کا

خزانہ ہے حق کا سخن کا بیاں

کہ ہے جس خزانے کوں کیلی زباں

سخن کا سدا سبز گلزار ہے

سخن کا سدا گرم بازار ہے

جو کچھ ہے شہادت میں ہو رغیب میں

سخن کے سماتا ہے آجیب میں

جہاں کالبد ہور سخن جیو ہے

سخن جئیو ہور جئیو میں پیو ہے

سخن کی یہ قوت ہے کہ وہ ایک پل میں آسمان سے کئی آفتاب لے آتا ہے۔ سخن بیان حق کا خزانہ ہے۔ یہ عالم الغیب کا گنج ہے۔ اسی کا گلزار سدا سرسبز رہتا ہے۔ سخن ایک ایسا انمول موتی ہے جو ہر شخص کے ہاتھ نہیں آتا۔ جیسے ہر صدف موتی نہیں ہوتا، ہر نافہ خوشبودار نہیں ہوتا، سب چیتل شیر نَر نہیں ہوتے، سارے پرندے خوش ادا نہیں ہوتے، سارے ستارے آفتاب نہیں ہوتے اسی طرح ’شعر سلیم ‘ بھی ہر شخص کے بس کا روگ نہیں ہے۔ سخن میں ’حق کے بیان ‘ اور ’محنت ‘ سے نمک پیدا ہوتا ہے۔ ’حق کا بیان‘  جذبات و احساسات کا سچائی اور خلوص کے ساتھ اظہار ہے۔ اسی معیار کو صنعتی ’شعر سلیم‘ کا معیار بتاتا ہے۔ تخلیق شعر و ادب کا یہی وہ معیار ہے جو آج تک قائم ہے۔

صنعتی کہتا ہے کہ شاعری ہر کس و ناکس کے بس کا کام نہیں۔ ’ ہر قطرہ لو لوئے شہوار ‘ نہیں بنتا اور نہ ہر ’ کھن‘ سے ’ صاف جوہر ‘ نکلتا ہے۔ شعر فہمی کا مرتبہ بھی شعر گوئی سے کم نہیں کیونکہ ’گوہر ‘ کو ’ گوہری ‘ ہی سمجھ سکتا ہے۔ یعنی تنقیدی شعور کا حامل شخص ہی شاعری کے محاسن و معائب کو پرکھ اور جانچ سکتا ہے   ؎

سخن میں کا بھی کوئی کاڑے رتن

سخن داں سمجتے ہیں قدر سخن

زیادہ ہے نزدیک اہلِ قیاس

سخن بولنے تے سخن کا قیاس

نہ گوہر کوں پوچھے بجز گوہری

نہ جوہر کوں سمجے بجز جوہری

صنعتی کا خیال ہے کہ شاعری ایک غیرمعمولی اہمیت رکھنے والا فن ہے اور اس میں کمال حاصل کرنا آسان نہیں۔ شاعری کا فن زہرہ گدازی و جگر کاوی اور ریاضت کا مقتضی ہوتا ہے۔ شاعری کو صنعتی عقل و خرد کا طرۂ امتیاز قرار دیتے ہوئے کہتا ہے      ؎

نہ محنت بغیر یو گہر ہات آئے

نہ چھیدے بغیر کان میں دُر سہائے

کدہی کوی قیمت سخن کا نہ پائے

جو یوبے بہا، بے بہا ہات آئے

جسے عقل کا بل قوی تر اچھے

سخن میں وہی سب پو سرور اچھے

اہے عقل گرچہ کسوٹی سخن

خرد کا ہے صورت خردمند کن

یہ ادبی و نتقیدی تصورات و خیالات صنعتی کے طرزفکر، اس کی تخلیقی صلاحیت اور فن شعور کے مظہر ہیں۔ صنعتی نے اپنے فن سخن میں تخلیق شعر و ادب کے اسی معیار کو برتا ہے اور اپنی مثنوی قصہ بے نظیر کو اپنی سچی یادگار بنایا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر جمیل جالبی رقمطراز ہیں۔ ’’ شعور کی سطح پر اتنے گہرے اور واضح فنی احساس کا اظہار اتنی تفصیل و باقاعدگی سے پہلے کسی شاعر نے نہیں کیا ہے ‘‘  آگے چل کر ڈاکٹر جمیل جالبی رقمطراز ہیں کہ یہاں ’سخن ‘ کا ایک نیا معیار اپنے نقش و نگار بناتا ہے جو پہلے معیار سے ممتاز بھی ہے اور آئندہ دور کی روایت سے براہِ راست پیوست بھی۔‘‘29 ؎  اردو ادب میں ادبی و تنقیدی تصورات و خیالات کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے وجہی  اور صنعتی  کے شاعری کی اہمیت و افادیت کے بارے میں جو بیانات اور محاکمات ہیں اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

اس مثنوی کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے۔

 مثنوی’قصہ بے نظیر‘ میں ایک صحابی تمیم انصاری سے متعلق ایک داستان نظم کی گئی ہے۔

حضرت عمر ؓ کے پاس ایک خاتون نے آ کرفریاد کی۔اس کے شوہرتمیم انصاری چار سال سے غائب ہوگئے ہیں۔ اس کی بھی خبر نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مرگئے۔ میرے پاس خوردونوش کا کچھ انتظام نہیں ہے۔ اگر اجازت ہو تو عقدثانی کرلوں۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے تین سال اور صبر و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ اس کو تین سال کے نان و نفقہ کا انتظام کردیا گیا۔ تین سال گزرنے کے بعد وہ خاتون پھر حضرت عمر ؓ کے سامنے حاضر ہوئی اور اپنا مدعا پیش کیا کہ تین سال کا عرصہ ختم ہوگیا۔ اب کیا حکم ہوتا ہے ؟ اس پر آپ نے اسے مزید چار ماہ کا خرچ عطا کیا اور اتنی مدت اور انتظار کرنے کا حکم دیا۔ جب چار ماہ بھی گزر گئے تو، وہ پھر حاضر ہوئی۔ بعدازاں حضرت عمر ؓ نے اس کو نکاح ثانی کرنے کی اجازت دے دی۔ عقد ہوگیا۔ دونوں تمیم انصاری کے گھر گئے۔ اتفاق سے وہ جمعہ کی شب تھی اس لیے دونوں میاں بیوی نے رات عبادت میں گذارنے کا ارادہ کیا۔ جب وہ خاتون وضو کرنے کے لیے آنگن میں آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک اجنبی شخص وہاں ٹھہراہواتھا۔ خاتون نے خوف کے مارے لاحول پڑھی۔ اور پوچھا ’’ تم کون ہو ؟ ‘‘ یہاں کس لیے آئے ہو ؟ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’ یہ مکان میرا ہے اور میرا نام تمیم انصاری ہے۔ میری یہ نشانیاں ہیں اور میری زوجہ کا نام یہ ہے ‘‘۔خاتون نے کہا ’’ مجھے یقین نہیں ہوتا۔ وہ اسے کوئی جن سمجھی، جنات بھی ایسی باتیں بتلا سکتے ہیں۔ تجھ میں انسان کی کچھ علامتیں نہیں۔ تمیم انصاری کو غائب ہوئے سات سال چار ماہ بیت گئے تھے۔ پتہ نہیں زندہ ہے یا مر گئے۔ اس نے کہا ’’ میں ہی تمیم انصاری ہوں‘‘۔

اس دوران محلہ میں کچھ اشخاص بھی وہاں اکٹھا ہوگئے۔ اور سب نے مل کر اس کو سمجھایا کہ ’’یہ نصف شب کو کیا اودھم ہے۔ تم کو حضرت عمرؓ کی سیاست کا پتہ نہیں جو اس طرح کادعویٰ کرتا ہے۔ ‘‘ لیکن جب وہ نہ گیا تو سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ رات بھر کے لیے وہ شخص وہاں رہے، صبح کو حضرت عمر ؓ کے پاس اس کا تصفیہ ہو۔رات جوں توں گزری، علی الصبح حضرت عمرؓ کی خدمت میں پہنچے اور رات کی روداد پیش کی۔ حضرت علیؓ بھی وہیں موجود تھے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت علی ؓکو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا کہ ’’ یہ درست ہے۔ آنحضرتؐ نے اس کی بشارت دی تھی ‘‘۔ حضرت علیؓ نے تمیم انصاری کو تعظیم سے اپنے قریب بٹھایا اور فرمایا ’’ تم پر جو قصہ گزرا ہے۔ اس کو شروع سے بیان کرو۔ ‘‘

تمیم انصاری نے اپنا قصہ یوں بیان کیا ایک شب ایک مہیب دیومجھے اٹھا لے گیا تھا اور طلسمات کا حال بیان کیا کہ کس طرح پرستان میں قیام کیا،کس طرح پہلے دیوئوں، جنوں اور شیطانوں کے ملک میں پہنچے اور پھر کس طرح پرستان میں قیام کیا تھا۔بعد ازاں بھیانک جنگلوں، صحرائوں، پہاڑوں اور طلسماتی محلوں میں مجھے بڑے حیرت انگیز اور محیرالعقل واقعات پیش آئے،عجیب و غریب مصیبتیںجھیلیں اور بالآخر تمام مہمات کو سر کرنے کے بعد میںحضرت خضر کی مدد سے مدینہ منورہ واپس پہنچا ہوں۔ سب اصحاب یہ ماجرا سن کر ششدر رہ گئے۔ حضرت علی ؓ نے اس امر کی گواہی دی کہ نبی ؐ نے اس کی خبر دی تھی۔اس کے بعد تمیم انصاری کو غسل کرایا گیا۔ تمام اصحاب ان کو پہچان کر عزت و احترام سے ملے۔ حضرت علی ؓ نے اس خاتون کو تمیم انصاری کے سپرد کردیا۔

 یہ ایک مہماتی طرز کا قصہ ہے۔ جسے صنعتی نے دلچسپ پیرائے میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیا ہے، جس میں صحابی رسول ؐ تمیم انصاری کے عجیب و غریب روایات، مافوق الفطرت عناصر، حیرت ناک واقعات، خطرناک وادیاں اور خوف و دہشت کی سرگزشت سے اس داستان کو صحت روایت کے ساتھ،دلچسپ مربوط و متوازن قصے کی شکل میں، فنی شعور کے ساتھ قلمبند کرنے کی سعی کی ہے اور تمیم انصاری کو اس طرح قصہ کا ہیرو بنادیا ہے اور اس کی تصدیق حضرت علی ؓ کی زبانی نبی ؐ کے حوالے سے کرائی گئی ہے تاکہ قاری قصہ کی صداقت اور صحت پر یقین کرلے۔ یہاں تک کہ وہ دعا بھی جس کو پڑھ کر تمیم انصاری بلاؤں کا مقابلہ کا میابی سے کرتے ہیں۔ مقام دوم سے قبل دی گئی ہے تاکہ قاری اس قصے کے پیچ و خم اور حیرت انگیز عناصر کو مذہبی عقیدت مندی کے ساتھ قبول کرلے۔ صنعتی شروع قصہ سے ہی شعوری طور پر یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ یہ قصے سچے اور حقیقی واقعات پر مبنی ہیں اور ان میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ قصہ طویل ہونے کے باوجود مربوط، متوازن اور محوکن ہے۔ مثنوی میں دلچسپی کو شروع سے آخر تک برقرار رکھا گیا ہے اور واقعات میں ربط و تسلسل موجود ہے اور کہیں الجھاؤ، بے ربطی، تسلسل کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ اس لیے قصے کے درمیان خلاء کا احساس نہیں ہونے پاتا اور واقعات مربوط شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہماری توجہ منتشر ہونے نہیں دیتے۔ صنعتی کی یہ منظوم داستان قدیم طرز کے مافوق الفطرت اور مہماتی قصوں سے مختلف نہیں ہے۔ مزاج اور مافوق الفطرت عناصر سے بھی مدد لی گئی ہے۔ شاعر نے مثنوی کی تکمیل میں پوری توجہ و انہماک سے کام لیا ہے۔ اس وجہ سے بھی دلچسپی کے عنصر نے اس طویل قصے کو قابل توجہ بنادیا ہے اور ہم انجام کے مشتاق و متمنی رہتے ہیں۔

تمیم انصاری کی یہ منظوم داستان ’الف لیلہ‘ کے مشہور قصے ’ سند باد‘ کی مہمات کی یاد دلاتی ہے۔ لیکن ’سند باد‘ کی مہمات کے پس منظر میں مادی محبت جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’سند باد‘ کے ہر قصے میں خالص اخلاقی عنصر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، لیکن قصہ تمیم انصاری مذہبی نوعیت کا حامل ہے اور اس سے جداگانہ ہے۔ صنعتی نے اپنے شاعرانہ تخیل کے بل بوتے پر اس مسلسل داستان میں ندرت، تحیر اور انفرادیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مسلمہ مذہبی روایات و تصورات کی کہیں نفی نہیں ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ ’دابتہ الارض ‘ اور ’دجال ‘ کے کردار کو پیش کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔ صنعتی نے ’ قصہ بے نظیر‘ کے پیرایۂ بیان میں مذہبی احکام، روایات اور عقائد کی توضیح کرکے انھیں ذہن نشین کروانے کی بھی کوشش کی ہے، لیکن یہ شاعر کا کمال ہے کہ کہیں بے مزہ نہیں ہونے دیتا۔

’قصہ بے نظیر‘ کی ایک انفرادیت جو کم دکنی داستانوں میں نظر آتی ہے، اس کا ڈرامائی انداز ہے۔ مثنوی کو صنعتی ایک ڈرامائی انداز سے شروع کرتا ہے اور اسی انداز سے قصے کی نشوونما بھی ہوتی ہے اور پوری داستان میں ڈرامائی واقعات قصے کو نیا موڑ دیتے ہیں اور اس کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً وہ پہلے ہی سے یہ نہیں بتلاتے بلکہ آخر تک بھی کہیں اپنی طرف سے یہ واضح کرنے کی سعی نہیں کرتے کہ حضرت عمر کے دربار میں آنے والی عورت کون تھی۔ یہ راز خود واقعات بتلاتے ہیں۔ اسی طرح عقد کی شب، ایک عجیب و غریب شکل کے انسان کا گھر میں گُھس آنا ایک ڈرامائی واقعہ ہے۔ بعد کے واقعات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہی تمیم انصاری تھے۔ تمیم انصاری سات سال چار ماہ غائب رہنے اور کئی طرح کی ابتلا و آلام سے گذرنے کے بعد آخر کار اپنی شریکِ حیات سے آ ملتے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی ڈرامائی مواقع ہیں جن سے قصے کی دلچسپی میں دوبالا ہوگئی ہے۔ من جملہ ’’ قصہ بے نظیر‘‘ میں ڈرامائی کیفیت حاوی ہے۔ اپنے ڈرامائی اسلوب کی بناء پر انفرادیت کی متحمل ہے۔

صنعتی نے ’قصہ بے نظیر‘ میں کردار و واقعات کے ایسے مرقع پیش کیے ہیں جن سے قاری کو شاعر کی قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ صنعتی میں رزم و بزم کی مرقع کشی کی عمدہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ سراپا نگاری، باغ و گلزار کی مرقع کشی اور مناظر فطرت کی ترجمانی میں صنعتی نے تخلیقی صلاحیتوں کے خوبصورت نمونے پیش کیے ہیں۔

صنعتی نے دیو، جن، پری، جنگل، میدان، دشت، صحرا، دن، رات، باغ، چمن وغیرہ کے نقشے جس طرح کھینچے ہیں ان سے زندگی کا احساس ہوتا ہے اور ایک متحرک تصویر نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔

زیربحث مثنوی میں جہاں بیاباں اور باغ کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہیں ایک ہیبت ناک صحرا کی منظرکشی بھی کی گئی  ہے۔ اس صحرا میں سایہ دار درخت کا نام و نشان بھی نہیں ہر طرف ببول ہی ببول تھے ایک روز محشر کی تصویر عیاں ہوتی ہے۔ مقام سوم میں صحرا کا یہ مرقع قابل دید ہے   ؎

جوتھا سر بسر جس کوں جوں خشک سال

نہ پنکھی کوں پنکھ مارنے واں مجال

نہ واں قوت کوں جھاڑیک سایہ دار

نہ واں آب شیریں نہ واں مرغزار

اتھا سربسر سخت دور و  دراز

قیامت کے میدان ساجاں گداز

دو رستہ درخت مغیلاں کھڑے

سو کئی لک نھنے ہور کئی لک بڑے

اگر کئی دھرے پانوں اس چھانوں پر

چبے خار تے چھانوں او تیز تر

سکل دشت جوں دشت الماس تھا

جھڑیا پک تے میرے رکت ماس تھا

اتھا دشت بے آب ایسا عجب

جو خضر آئے تو واں اچھے خشک لب

سمندر میں طوفان کا منظر بھی دکھائی دیتا ہے   ؎

یکایک اوٹھیا باد طوفان کا

جو غالب ہے تقدیر سبحان کا

ہوا باد طوفاں سمندر کوں جوش

یو دیکھت گیا اہل کشتی سوں ہوش

بزاں باد کشتی کوں اس کوہ پر

لجا کر پچھاڑیا عجب سخت تر

ٹٹے بند کشتی کے لگ اور خام

تفرقہ ہوے اہل کشتی تمام

قضا کا ہے سیلاب بیحد کبل

کہ تدبیر تقدیر سوں نیں ہے چل

صنعتی اس مثنوی میں باغ کا ایک اور منظر بیان کرتا ہے جو انتہائی سرسبز اور خوش وضع ہے۔ اس باغ میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور شوروغل کو بڑے حسین پیرائے میں پیش کیا ہے اور پرندوں کے ساتھ پھلوں کا ذکر بھی ملتا ہے   ؎

کتک رات دن یوں کیے جب گذر

دیسا باغ صحرا میں یک سبز تر

ہریک جھاڑ سو سبز جوں نوں بہار

ہریک شاخ طوبیٰ نمن باردار

درختاں جو پاتاں سوں باندے نقاب

نہ دیکھی زمیں او کدی آفتاب

سورگ بن جو تھی دھوپ کوں باٹ

اتھا عرش تے فرش لگ سبز رنگ

سو لالے کے یاقوت جیسے چمن

سو نیلم نمن سب یو نقشے کے بن

دسیں نرگس اس یوں چمن خوب کے

جو جھلکے نین خوب محبوب کے

لٹک سنبل یوں تھے گل لال پر

کہ جوں زلف محبوب کے گال پر

پیالے سو لالے کے بھرتے مدن

ڈولیں باو سو شاخ بستاں نمن

کنول کھل کو اس دھات نکلے

کہ عود سوزتے عود کا جوں دھنور

چمن میں رہے کھل کو سارے گلاں

خوش آواز تھیاں اس اپر بلبلاں

پکارے کتے فاختے سرسری

ہنسے کس طرف خوش ہو کبک دری

اتھے خوش نما اس میں شمشاد و سرو

سو قمری یو دراج کبک و تذرو

اناراں جو تھے بے بدل قوت کے

سو حقیٰ اتھے لعل یاقوت کے

پکیاں خمر کاں یوں دسیں تاب دار

سو کنچن کے جوں ہیکلاں تاب دار

دھریں خوشے انگور کے سبز بیل

گگن سبز میں جوں ثریا کی چھیل

سو میوے تھے اس بہانتی ہر رخن

نہ کاناں سنے کوی نہ دیکھے نین

درختاں ہزاراں جنس کے تھے بار

سو میوے تھے یو شاخ پر کئی ہزار

سکل کالوی جو رواں تھے سو واں

سو پیارے لگے جونکہ عمر رواں

دسے سبز سبزی میں یوں صاف جل

رُپے کے زمرد کے تختے پو حل

دسیں جھاڑ چشمیاں پوں یوں سربسر

کہ جوں خضر امرت کے چشمے اپر

عجب خوشنما سبز او باغ تھا

ارم دل میں، جس باغ کا داغ تھا

’ قصہ بے نظیر‘ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نصرتی کی طرح صنعتی میں بھی رزمیہ بیانات اور معرکہ آرائی کے مناظر قلمبند کرنے کی اچھی صلاحیت موجود تھی۔ صنعتی رزم اور بزم دونوں کی مرقع کشی پر قدرت رکھتا ہے۔ اس مثنوی میں جو رزمیہ مناظر پیش کیے گئے ہیں وہ قاری کو متاثر کرتے اور اُسے اُسی ماحول میں پہنچا دیتے ہیں۔ دیوؤں اور پریوں کی لڑائی اور ان کا تصادم صنعتی نے مسلسل کئی اشعار میں نظم کیا ہے۔

صنعتی اس مثنوی میں پریوں اور پھر دیوؤں سے تمیم انصاری کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس سے عادل شاہی دور کے ہتھیاروں کا پتہ چلتا ہے۔ خنجر، کمند، نیزہ، تیغ، گرز، کدال، تیشہ، کماں، تیر اور دیگر اسلحہ جنگ کے نام ملتے ہیں۔

مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ میں تاریخی حقیقت پسندی کا عنصر اس کے کرداروں کے خدوخال کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت خضرؑ، حضرت عمر ؓ، حضرت الیاس، حضرت علیؓ اور تمیم انصاریؓ کی سیرت عام روایات سے پوری مطابقت رکھتی ہے۔ غیرمعمولی واقعات بھی روایت کے سہارے قابل اعتماد بن جاتے ہیں۔ صنعتی نے روایات، جذبہ عقیدت اور مافوق الفطرت عناصر کو ’قصہ بے نظیر ‘ میں بڑے سلجھے سلیقے اور ادبی پختہ کاری کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ مثنوی میں حیرت و استعجاب، ڈرامائی انداز اور مافوق الفطرت عوامل کو اس طرح حقیقی انداز میں بیان کرنا کہ اس کی صحت پر یقین آ جائے۔ یہ وہ تمام محاسن ہیں جو اس مثنوی کا خاصہ ہیں  جو دیگر داستانوں میں ناپید ہیں۔

لسانی اعتبار سے بھی صنعتی کی مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ قابل ذکر ہے۔ اور اردو زبان کے لسانیاتی ارتقا کی تاریخ پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ مثنوی بقول عبدالقادر سروری ’’تین سو سال پہلے کی اردو کا نمونہ ہے۔ ‘‘ 30؎

اس کا اسلوب بیان بیجاپوری طرز ادا کے برخلاف جدید پیرائے، انداز ترسیل اور اسلوب کی ایک نئی جہت کی طرف گامزن نظر آتا ہے۔ اس مثنوی میں فارسی اثر اور طرز نو کا احساس ابھرنے لگتا ہے اور سنسکرت و ہندوی روایت کا رنگ پھیکا پڑنے لگتا ہے۔ صنعتی اپنی زبان اور اسلوب بیان پر بھی اظہار خیال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس نے سنسکرت الفاظ اس مثنوی میں بہت کم استعمال کیے ہیں اور ایک ایسی عام فہم زبان میں قصہ بیان کیا ہے جسے عام قاری بھی باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اپنی زبان اور پیرایۂ بیان کے بارے میں صنعتی کہتا ہے   ؎

رکھیا کم سہنسکرت کے اس میں بول

ادک بولنے تے رکھیا ہوں امول

جسے فارسی کا نہ کچہ گیان ہے

سو دکھنی زبان ان کوں آسان ہے

سو اس میں سہنسکرت کا ہے مراد

کیا استے آسان گی کا سواد

کیا اوس تے دکھنی میں آسان کر

جو ظاہر دسیں اس میں کئی کئی ہنر

ہنرمندگی اس میں ہے بے حساب

کہ تاپند گیر ان کوں ہووے ثواب

سری رام شرما لکھتے ہیں کہ ’’ صنعتی نے قصداً سنسکرت سے دوری اختیار کرکے فارسی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔‘‘31؎

 زور بیان کے نقطہ نظر سے بھی مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ اس عہد میں ممتاز انفرادیت کی حامل ہے۔ اس مثنوی کا مزاج، اس کے اسلوب و آہنگ، ذخیرہ الفاظ اور تراکیب فارسی طرز ادا کے زیراثر ہے، جس سے ایک نادر اسلوب اور نیا رنگ و آہنگ اور نیا معیار سخن ابھر کر تخلیق کی راہوں کو وسیع کررہا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اس ضمن میں خامہ فرسا ہیں کہ ’نورس ‘ کے بعد جب ہم عبدل کے ’ابراہیم نامہ‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں انداز فکر اور طرزادا میں ایک تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ مقیمی کے ہاں یہ اور کھل کر سامنے آتا ہے۔ محمد بن عاجز کی دونوں مثنویوں میں اس کے خدوخال اور اجاگر ہوتے ہیں۔ ملک خوشنود کے ہاں اس کی ایک دبی دبی سی شکل بنتی ہے، لیکن صنعتی کے ہاں یہ رنگِ سخن ایک باقاعدہ شکل میں سامنے آجاتا ہے۔ ‘‘ 32؎

فنی لحاظ سے بھی مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ اعلیٰ و ارفع مقام کو پالیتی ہے۔ صنعتی نے اس مثنوی میں اکثر و بیشتر عربی اور فارسی الفاظ صحیح تلفظ کے ساتھ ابیات میں استعمال کیے ہیں       ؎

اتا دمبدم ساقی لیا او نبید

کہ ہل من مزیدیم ہل من مزید

دیا جاب میں ان کوں یوں سربسر

کہ واللہ اعلم مجے نیں خبر

سو کئی منزلاں لگ نہ تھا مجکوں قوت

بجز ذکر حي الذي لایموت

یہ مثنوی فن اور اسلوب کی رو سے فارسی کی کسی بھی معیاری داستان کی ہم پلہ ہے۔ اس مثنوی میں جو روانی، سادگی، شگفتگی، بے ساختگی، برجستگی اور لطافت ہے۔ وہ بہت کم مثنویوں میں نظر آتی ہے۔ صنعتی کی مثنوی میں وہی انداز بیان ہے جو فارسی شاعری میں نظر آتا ہے۔ پوری مثنوی کے زبان و بیان پر یہی طرز، یہی لہجہ اور یہی انداز بیان حاوی ہے۔

’ قصہ بے نظیر‘ سے جہاں اس کی فارسی دانی کا علم ہوتا ہے۔ وہاں اس کا تفکر، اس کا شعور، علمی گہری و گیرائی، فنی چابکدستی پر اس کی نظر اس امر کی مزید شہادت دیتی ہے کہ کم درجے کا کوئی شاعر تخلیقی مسائل کے متعلق اس ناہیہ پر غور و تدبر نہیں کرسکتا تھا۔

صنعتی نے مثنوی میں تشبیہات، محاوروں اور صنائع و بدایع کا استعمال بڑی پرکاری سے کیا ہے    ؎

مجے لے چڑیا دور ہوا میں او یوں

کہ ڈونگر دسے بیضۂ مرغ جوں

(تشبیہ)

پریاں یوں چلیاں دیو میں ہر رخن

کہ ٹک ابر میں جلد بجلیاں نمن

(تشبیہ

جب اُس دل میں روشن ہوا یو چراغ

دل اس کا خوشی سوں ہوا باغ باغ

(محاورہ)

جو تھا سربسر جس کوں جوں خشک سال

نہ پنکھی کوں پنکھ مارنے واں مجال

(محاورہ)

اگر بیگ جانے کا ہم آپڑے

وہم سات کشتی او کشتی کرے

(تجنیس)

جو خوش شکل تھا ہور خوش آواز تھا

سو کوہ طور ساجگ میں کم یاب تھا

(تلمیح)

او ناریاں اگر نور میں نار تھیاں

ولیکن براہیم کا گلذار تھیاں

(تلمیح)

دو جگ میں دو ہی منزلاں حق تے دیک

بوریاں کوں بُرا ہورنیکاں کوں نیک

(تضاد)

ولے اس کی دہشت تے بے اختیار

چلیا وانتے میں دیس ہور رات چار

(تضاد)

سو کرنے کوں دیواں اوپر مار مار

چلیا دل پریاں کا ہزاراں ہزار

(تکرار)

ہوا جب میں سورج کی گرمی سوں گرم

چلیا اوٹھ کتک باٹ میں نرم نرم

(تکرار)

ناقدین نے صنعتی کی مثنوی کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کیا ہے اور صنعتی کی شاعری کو سراہا ہے۔ صنعتی کی مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ کے بارے میں محمد حسن لکھتے ہیں۔ ’’ یہ مثنوی طلسماتی فضاء اور داستانوں کے طرز کی پہلی اردو مثنوی کہی جاسکتی ہے۔ جس کی بنیاد عشقیہ قصے کے بجائے مہمات اور حیرت انگیز واقعات پر ہے اور ان مہمات و مصائب پر ابوتمیم محض قوت ِ ایمانی کے بل بوتے پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ گہری مذہبیت کے باوجود اس میں کھلے طور پر واعظانہ پیرایہ اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ واقعہ نگاری اور محاکات میںمقیمی [کذا]نے اعلیٰ فنکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘33؎

پروفیسر سیدہ جعفر کے بقول اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صنعتی میں قصے کی پیش کشی کی عمدہ صلاحیت موجود ہے۔ اس کے ادبی سلیقے اور شاعرانہ ذکاوت کا مثنوی کے مطالعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ فکر کے عنصر کو ادبیت میں ڈھالنے کی کوشش ایک بالغ نظر شاعر اور پختہ ادبی ذوق کے حامل تخلیق کار ہی سے ممکن ہے۔ صنعتی  ترسیل کے تقاضوں اور اسے مؤثر بنانے کے گُر سے بخوبی آشنا ہے۔ ‘‘ 34؎

الغرض صنعتی کی مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ اپنے بیشتر خصوصیات و خوبیوں کی بنا پر دکنی ادب میں ایک الگ مقام و مرتبت کی حامل ہے۔

حوالہ جات

1       نصیر الدین ہاشمی، دکن میں اردو، ص 179

2       افسر صدیقی امروہوی، مخطوطات انجمن ترقی اردو (جلد چہارم)، ص236

3       نصیر الدین ہاشمی، دکن میں اردو، ص259

4       عبدالجبار صوفی ملکاپوری، تذکرہ اولیائے دکن، ص271

5       ایضاً      ص271

6       ابراہیم زبیری، بساتین السلاطین، بستان ششم، ص334

7       عبدالقادر سروری، مقدمہ قصہ بے نظیر، ص  د

8       ایضاً

9       ابراہیم زبیری، بساتین السلاطین، بستان ششم، ص334

10     ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ص 275

11     افسر صدیقی امروہوی، مخطوطات انجمن ترقی اردو (جلد چہارم)، ص 236

12     عبدالقادر سروری، مقدمہ قصہ بے نظیر، ص   ب

13     ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور، اردو شہ پارے، ص44

14     نصیر الدین ہاشمی، دکن میں اردو، ص 194۔ و نیز کتب خانہ سالار جنگ کے اردو مخطوطات کی وضاحتی فہرست، ص 594

15     ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو (جلد اول) 275

16     عبدالقیوم، تاریخ ادب اردو، ص391

17     ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو، (جلد اول)، ص275

18     نذیر احمد، اردو کی ابتدائی نشوونما میں علماء و فضلاء کی خدمات، ( مضمون) مشمولہ رسالہ نوائے ادب، جولائی 1959ء، ص21 اور یہی مضمون رسالہ سب رس فروری 1945ء میں بھی شائع ہوا تھا۔

19     عبدالقیوم، تاریخ ادب اردو، ص391

20     ایضاً، بستان ہفتم، ص 364

21     حکیم شمس اللہ قادری، اردوئے قدیم، ص 105

22     پروفیسر سیدہ جعفر، مقدمہ مثنوی گلدستہ، ص 75

23     نصیر الدین ہاشمی، دکن میں اردو، ص194

24     تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند(چھٹی جلد)، نواں باب، ص462

25     نصیر الدین ہاشمی، دکن میں اردو، ص 194

26     عبدالقادر سروری، مقدمہ مثنوی قصہ بے نظیر، ص104     

27     ایضاً،  ص  اھ

28     ایضاً،  ص  ح

29     ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو، (جلد اول)، ص 274

30     عبدالقادر سروری، مقدمہ مثنوی قصہ بے نظیر، ص 1

31     سری رام شرما، دکنی ہندی کا ساہتیہ، ص  330

32     ڈاکٹر جمیل جالبی، تاریخ ادب اردو (جلد اول)، ص 277

33     محمد حسن، قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، (پانچواں باب)، ص 100

34     پروفیسر سیدہ جعفر، مقدمہ مثنوی گلدستہ، ص 22 


Dr. Hakeem Rayees Fathima

Flat No: 201, Plot No.: 121, Alind Employees Colony

Phase 3, Opp. Serilingampally, Mandal Office

Hyderabad - 500019 (Telangana)

Mob.: 9948125832

Email.: vadighani@gmail.com

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں