7/2/23

فن خودنوشت سوانح نگاری: لوازمات، دشواریاں اور امکانات: سید وجاہت مظہر

 تلخیص

خودنوشت سوانح میں مصنف انکشاف ذات کی سعی کرتاہے۔ اپنی زندگی کے مختلف ادوار کی خود احتسابی کا عمل ہی آپ بیتی کی تخلیق کا محرک بنتا ہے۔ اس میں مصنف ان تمام عوامل کو بھی پیش کرتا ہے جو اس کی شخصیت سازی کے عمل میں ممد و معاون رہے ہوں۔

          خودنوشت نگاری کے فن،تکنیک ا ور ہیئت پر مغربی زبانوںمیں کافی مواد موجود ہے۔ جدید مغربی ناولوں اور افسانوںمیں فکشن کے پیرائے میں اپنی رودادِ حیات رقم کرنے کا چلن ہے۔قاری خودنوشت سوانح حیات کو سچی داستان مانتا ہے۔ اس لیے مصنف کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی حقیقت سے قریب تر مناظر، تجربات، مشاہدات و تجزیات پر مبنی حقائق پیش کرے، حقیقت سے عظیم تر مصوری کی سعی نہ کرے۔ لہٰذا، ایک اچھی خودنوشت کی تخلیق کے مقصد سے مصنف کو مندرجہ ذیل پانچ لوازمات کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ (1)  دیانت داری (2)  خود شناسی (3)  اظہار کی صلاحیت (4)  عصری آگہی (5)  انتخاب ِواقعات۔

           زیر مطالعہ مقالے میں ان لوازمات پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

کلیدی الفاظ

خود احتسابی، حقیقت نگاری،  میزان،  ترجیحات،  طبقاتی کشمکش، روزنامچہ،   نشیب و فراز،   بازیافت و باز دید،  دستاویز، دیانت داری،  خود شناسی، اظہار کی صلاحیت،  عصری آگہی،  انتخابِ واقعات ، عقائدی تضادات،  نفسیاتی خلفشار، گونج ،  ذاتی حوادث، علم و عرفان،مطمحِ نظر ، شخصیت سازی ،  صدائے احتجاج،  پیکرتراشی۔

——————

خودنوشت سوانح نگاری ایک باقاعدہ صنفِ ادب ہے جس میں مصنف بنیادی طور پر انکشافِ ذات کی سعی کرتا ہے۔اس کے تخلیقی عمل کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب مصنف میں اپنی زندگی کے ادوار کی خود احتسابی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔خودنوشت کے دائرے میں مصنف کی زندگی کی ہر وہ شے شامل ہو سکتی ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر اس کی شخصیت سازی کے عمل میں ممد و معاون رہی ہو۔گھر کا ماحول،آبا و اجداد،تعلیم و تربیت، ادارے وسماج،عزیز و احباب اپنے عہد کے افکار و خیالات اوراقدار و ترجیحات سبھی کچھ خودنوشت میں سما سکتا ہے۔مغربی زبانوں میں خودنوشت نگاری کے فنی اور تکنیکی مواد پر بہت سی کتابیں موجود ہیں۔جدید مغربی ناولوں اور افسانوں میں بھی مصنف کے فکشن کے پیرائے میں اپنے احوال و کوائف پیش کرتے ہوئے خود اپنی بازیافت و باز دید کے عمل سے گزرنے کا چلن پایا جاتا ہے۔ایسے ناول خودنوشت سوانح نگاری کی راہ ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں،کیونکہ جب کوئی مصنف اپنی زندگی کے احوال قلمبند کرتا ہے تو وہ در اصل خودنوشت نگاری ہی کے تجربے سے دوچار ہورہا ہوتا ہے۔قاری خودنوشت کامطالعہ کرکے مصنف کی زندگی کے تمام ظاہر اور گمنام گوشوں سے واقف ہونے کا متمنی ہوتا ہے۔قاری خودنوشت سوانح حیات کو مصنف کی سچی داستان مانتا ہے اور وہ اس سے امید رکھتا ہے کہ اپنی عمرِ عزیز کی کم و بیش نصف صدی کے احوال کو لفظوں کے قالب میں ڈھالے۔اسی لیے مصنف اپنی زندگی کی حقیقت سے قریب تر،تجربات،مشاہدات و تجزیات اور منظر نامے پر مبنی حقائق کو پیش کرے نا کہ حقیقت سے عظیم تر زندگی کی مصوری کرنے لگے۔ لہٰذا ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک اچھی خود نوشت سوانح عمری میں مصنف کے لیے کون کون سے لوازمات ناگزیر ہیں۔ خودنوشت سوانح نگاری کے لوازمات میں بنیادی طور پر مندرجہ ذیل پانچ چیزیں ہوتی ہیں دیانت داری، خود شناسی، اظہار کی صلاحیت ، عصری آگہی اور انتخابِ واقعات۔

خودنوشت سوانح حیات تحریر کرنے میںہئیت اور تاثیرکے نقطۂ نظر سے ان ناگزیر لوازمات کا ادراک مصنف کے لیے کتنا ضروری ہے اس بات پر تفصیل سے بحث ضروری ہے اور ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ خودنوشت سوانح حیات لکھتے وقت مصنف کن دشواریوں سے گزرتا ہے۔اسے اول تو سب سے زیادہ دشواری خود اپنی انا کے احساس یا اپنے آپ سے محبت کے جذبے کے سبب پیش آتی ہے۔دوسری بڑی رکاوٹ خوفِ خلق ہے۔اس خوف کے باعث وہ کئی ایسے واقعات و حالات کو تحریر کرنے سے گریز کرتا ہے جن کو پڑھنے کے بعد قارئین اسے طنز و ملامت کا نشانہ بنانے لگیں۔لہٰذا مصنف کے سامنے اپنے افکار و افعال کا اعتراف کرتے وقت یہی امر سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔اس نکتے کو پیش کرنے کے لیے جوش ملیح آبادی اور عبدالماجد دریابادی کی خودنوشت سوانح عمریوں کا تقابلی مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی جنسی زندگی سے متعلق واقعات بیان کرتے وقت شائستگی اور اعتدال پسندی کی ضرورت اور گمرہی سے بچنے کو کہا جاسکتا ہے۔خودنوشت سوانح حیات لکھنے کے اسباب پر بھی خصوصی طور پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔یہاں یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ اپنا غم اوروں سے کہہ دینے سے ہلکا ہو جاتا ہے۔خودنوشت سوانح نگاری کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ مصنف اپنے تجربات اور احساسات کو دوسروں کے سامنے پیش کرکے اپنے ذہنی تنائو کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ہر انسان میں اپنی زندگی کے برے بھلے واقعات اور تجربات دوسروں کے سامنے پیش کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے اور کسی قلمکار کے پاس یہی جذبہ جب شدت پکڑتا ہے تو اسے خود نوشت سوانح حیات تحریرکرنے کے لیے اکساتا ہے۔آپ بیتی لکھتے وقت مصنف خود اپنی ذات کا محاسبہ کرتا ہے اور اس طرح وہ خود اپنی از سرِ نو دریافت کر رہا ہوتا ہے۔اس باب میں خود نوشت سوانح حیات لکھنے کے اسباب،اور اس کے لوازمات کا تفصیلی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ صنفِ ادب کے طور پراس کے سامنے در پیش مسائل اور امکانات پر بھی سیر حاصل بحث کی ضرورت ہے۔

دیانت داری

دیانت داری کا عنصر خودنوشت سوانح نگاری میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔اس فن کا تخیل سے نہیں بلکہ زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔لہٰذا سچائی کے ساتھ بیان کیے گئے حالاتِ زندگی اس صنفِ ادب کی جان ہوتے ہیں۔سچے واقعات کا بیان خودنوشت سوانح کو اعتبار بخشتا ہے۔ خودنوشت سوانح نگاری کو سچائی کے ترازو میں ہی تولا جاتا ہے۔کیونکہ خودنوشت سوانح میں مصنف خود ہی ہیرو بھی ہوتا ہے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی بھی خوش فہمی یا عقیدت و حسد یا لا علمی کی غلط بیانی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ پس ایک اچھے خودنوشت سوانح نگار کے لیے دیانتدار ہونا لازمی ہے۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حقیقت کو جانے،پرکھے اور سچائی کے اظہار پر قدرت حاصل کرے۔ وہ نہ صرف اپنی ذات کے اظہار میں صداقت سے کام لے بلکہ اپنے حلقۂ احباب اور اپنے ماحول و معاشرے کی تصویر کشی میں بھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔ خود نوشت لکھتے وقت مصنف نہ صرف اپنی زندگی کی ظاہری صداقتوں کو پیش کرتا ہے بلکہ اپنی داخلی زندگی بلکہ روح کی گہرائیوں تک کی ترجمانی کرسکتا  ہے۔ خودنوشت سوانح عمری میں داخلیت کا یہ گہرا رنگ ایک خاص وسعت پیدا کر دیتا ہے۔

اگر کسی خود نوشت میں سچائی کا عنصر موجود نہیں ہو تو وہ ایک بے وقعت اور غیر معتبر شے بن کر رہ جائے گی۔ جب مصنف ’میں‘کے صیغے کے استعمال کے ساتھ زندگی کے جن واقعات،تجربات و مشاہدات کے حوالے سے اپنی زندگی کے پس منظر،ابتدأ اور دیگر نشیب و فراز پر گفتگو کرتا ہے تو اس میں سچائی کا عنصر ہی ہے جس سے تحریر میں جان پیدا ہوتی ہے۔اس سے بڑی بد دیانتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے وہ زندگی کے ٹھوس حقائق اور صداقتوں کی جگہ تخیل کی پرواز اور مبالغہ آرائی سے کام لینے لگے اور ایک من گھڑت کردار کی شخصیت سازی کے گناہ کا مرتکب بن جائے۔ پس خود نوشت سوانح نگاری کا بنیادی عنصر صداقت پسندی اور دیانت داری کے علاوہ کوئی اور وصف نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر عمر رضا نے اپنی تحقیقی کتاب ’اردو میں سوانحی ادب فن اور روایت‘ میں اسی نکتے کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے

’’خود نوشت سوانح عمری کی تعمیر اگرچہ خود مصنف اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن محض یادداشت کی بنیاد پر خو دنوشت سوانح مرتب کرنا درست نہیں،بلکہ مصنف کو اپنے حالات و واقعات کی صحت مندی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ اپنے متعلق کوئی بھی غلط بات یا غلط حقائق قارئین کی نذر  نہ کر دے۔‘‘

(اردو میں سوانحی ادب فن اور روایت، ڈاکٹر عمر رضا، کتابی دنیا، نئی دہلی، 2011، ص22)

سوانحی ادب میں اصطلاح خود نوشت سوانح عمری کا استعمال 1809میںشروع ہوا۔ فرہنگِ آصفیہ میں خود نوشت سوانح کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے

’’سوانح عمری، اسم مذکر، سر گزشت کسی شخص کی زندگی کا حال،تذکرہ،کسی عالِم خواہ فاضل خواہ بڑے بڑے کام کرنے والے یا بہادر یا حاکم کے وہ واقعات جو اس کی عمر میں گزرے ہیں۔‘‘

 ہر خودنوشت نگار خود نوشت سوانح عمری تحریر کرنے سے پہلے ہی سے اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ اسے اس فن کے تقاضے کے تحت صداقت و دیانتداری سے کام لینا چاہیے، کیونکہ وہ خود ہی تصنیف کا ہیرو بھی ہوتا ہے اور راوی بھی تو اپنے آپ سے محبت اور سماج کا خوف اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ بعض سچائیوں پر نقاب ڈال دے اور بعض حقائق کی ہو بہو تصویر کشی کے بجائے ایک متوازی تخیلی، تخلیقی پیکر تراشی کا مرتکب بنے جو دلچسپ بھی ہو اور اس کے خیالات و افکار کی توضیح و ترجمانی بھی کرتی ہو۔ یہ متوازی پیکر تراشی یقینا اصل زندگی سے کسی حد تک جدا ہوتی ہے اور آپ بیتی کو صداقت و دیانتداری کے میزان پر کھرا نہیں اترنے دیتی ہے۔اکثر خود نوشت نگار اپنے ظاہر ی و باطنی حقائق کو پیش کرتے وقت سچائی و صداقت پر مبنی اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔شہرت طلبی کا جذبہ معمولی صلاحیت کے ادیبوں اور مصنفوں کو خود نوشت نگاری کی طرف مائل کر دیتا ہے۔نتیجتاً ہر کوئی ادیب و شاعر ایک  عدد خود نوشت لکھ کر اپنی شخصیت سازی کی تگ و دَو میں مبتلا ہو جاتا ہے اور صنفِ ادب کو اپنا تختۂ مشق بنانے پر آمادہ ہو نے لگتا ہے۔ اسی صورتِ حال نے شورش کاشمیری کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ’’بین الاقوامی ادب سے قطع نظر اردو میں جس قدر خود نوشت سوانح عمریاں ہیں، ان میں شاعری زیادہ اور اصلیت کم ہے۔ ‘‘  شورش کاشمیری سے پہلے گوئٹے نے اپنی زندگی کی روداد کو ’شاعری اور سچائی کا مرکب‘قرار دیا تھا۔ غالباً لفظ ’شاعری‘کا استعمال شورش کاشمیری اور گوئٹے دونوں نے اندازِ بیان کے معنوں میں کیا ہے۔اسلوبِ بیان اور طرزِ نگارش میں دونوں میں تخلیقیت اور کشش تو مصنف حسبِ توفیق اور حسبِ صلاحیت فطرتاََ شامل کرے گا ہی، طرزِ نگارش کی انفرادیت کا کوئی بھی اہلِ نظر معترض کیوں کر ہو سکتا ہے۔ خود نوشت نگاری میں حقیقت نگاری کی میزان یہی ہو تو بہتر ہے کہ جو سید رضا علی نے اپنی خودنوشت کے دیباچے میں ان الفاظ میں بیان کی ہے

 ’’.....میرے نزدیک اپنے لکھے ہوئے سوانح حیات کی سب سے بڑی وصف یہ ہونی چاہیے کہ ایک مرتبہ کراماًکاتبین بھی سامنے آکر بہ آوازِ بلند پڑھ لیں تو پڑھنے والے کو آنکھ نیچی نہ کرنی پڑے... ‘‘

   (اعمال نامہ،سر سید رضا علی،(ماخوذ از دیباچہ)،مطبوعہ ہندوستانی پبلشرز، دہلی، 1943)

دیباچے میں پہلے سر سید رضا علی اپنی زندگی کے واقعات،تجربات اور مشاہدات پیش کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر اور خود نوشت نگاری کے بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہیں

’’حقیقت نگاری بڑا مشکل کام ہے۔ با لخصوص جب انسان اپنی کہانی لکھنے خود بیٹھے۔ میری تمام تر کوششیں یہ رہی ہیں کہ انصاف سے کام لوں،کسی تصویر کا رنگ پھیکا پڑے نہ زیادہ گہرا ہونے پائے،انسان خود ہی بے ڈول ہو اور نِک سک سے ٹھیک نہ ہو تو میرا قصور نہیں ہے۔اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ بادِلِ ناخواستہ مجھے ایسے واقعات بھی لکھنے پڑے جن کے ظاہر نہ کرنے سے میں اخفائے حق کے الزام کا ملزم قرار پاتا۔ اپنی زندگی یا اپنے زمانے کے واقعات لکھنے پر کوئی شخص مجبور نہیں ہے۔البتہ ہر شخص کو اپنی کہانی لکھتے وقت دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ایک یہ کہ سچے واقعات پورے طور سے بیان کر دیے جائیں۔اخفائے حق نہ کیا جائے نہ کوئی بات ادھوری چھوڑی جائے،دنیا میں وہ سچی بات بڑی مخدوش ہے جو آدھی ظاہر کی جائے اور آدھی چھپا ڈالی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مشہور انگریزی مثل گو کہ خواہش تخیل کی ماں ہے اپنے اوپر صادق نہ ہونے دے۔ اگر خواہش نے تخیل پر غلبہ حاصل کر لیا اور لکھنے والے نے واقعات کی صورت مسخ کرنی شروع کر دی تو آپ بیتی سچا نامۂ اعمال ہونے کے بجائے فسانہ یا ناول بن جائے گی۔ ‘‘   (اعمال نامہ،سرسید رضا علی،ہندوستانی پبلی شرز، دلی،1943،صفحہ ح)

آل احمد سرور نے اپنی خود نوشت ’خواب باقی ہیں‘کے دیباچے میں اس صنفِ ادب کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے

’’خود نوشت سوانح عمری کا فن چونکہ محض نظارے نہیں،نظر کا بھی فن ہے۔اس لیے سائنسی صحت اور واقعیت کے بجائے ایک مخصوص زاویۂ نگاہ کی اہمیت شاید یہاں زیادہ ہے۔ خو دنوشت تاریخ نہیں ہے مگر اس میں تاریخی حقائق ضروری ہیں۔ یہ واقعات کا خشک بیان بھی نہیں ہے۔ ان واقعات کے ساتھ جو کیفیات وابستہ ہیں ان کی داستان بھی ہے۔‘‘                        (خواب باقی ہیں،آل احمد سرور،فکشن ہائوس،لاہور،1994،ص3)

 ماہنامہ ’ نقوش‘  کے مدیر سید طفیل احمد نے اپنے مضمون ’اردو میں سوانحی ادب فن اور روایت ‘ میں اس صنف ِ ادب کے تمام فنی اور ارتقائی پہلوئوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔وہ خودنوشت سوانح عمری کی قدرو قیمت کا تعین کرنے میں سچائی کے عنصر ہی کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں

’’آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات،مشاہدات،محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے،جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلمبند کر دی ہو،جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔اس کے نہاں خانوں کے پردے اٹھ جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کی روشنی میں پرکھ سکیں۔‘‘

(  نقوش، آپ بیتی نمبر لاہور،  جلد اول،  ماخوذ  از مضمون ’اردو میں سوانحی ادب فن اور  روایت ‘  از سید طفیل احمد،  1964ص( 302 

یہ امر درست ہے کہ قاری کو ’’سچائی کو خودنوشت سوانح عمری میں تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ایک اچھے خودنوشت نگار کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ سچائی کے اظہار پر قدرت حاصل کرے اسے چاہیے کہ ہر حال میں سچ بولنے کا حوصلہ پیدا کرے۔وہ نہ صرف اپنی ذات سے متعلق حق گوئی سے کام لے بلکہ اپنے احباب اور عزیز و اقارب کے ذکر میں بھی صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔زندگی کے کئی ناخوشگوار اور ناپسندیدہ حالات اور واقعات کے بیان کے وقت خودنوشت نگار پس و پیش میں پڑ جاتا ہے اور اکثر و بیشتر ان تلخ حقیقتوں کے بیان سے وہ کترانے کی سعی کرتا ہے۔لیکن اس کے اسی عمل سے اس کی آپ بیتی اپنا اعتبار کھو دیتی ہے۔لیکن ایک اچھا خود نوشت نگار نا خوش گوار و ناپسندیدہ واقعات کو بھی اس انداز میں زیرِ تحریر لا سکتا ہے کہ اس کی امیج دیانت دار آدمی کا بنے جو حقائق کو جوں کا توں بیان کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو اور ایسے بیانات سے قاری کو درس بھی ملے۔

ایسی خودنوشت سوانح عمریاں بھی لکھی گئی ہیں جو نہ صرف مصنف کی زندگی کے خارجی عوامل کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ ان میںمصنف کی روح کی گہرائیوں کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔جن خودنوشت سوانح عمریوں میں داخلیت کا رنگ گہرا ہوتا ہے تو وہاں سچائی اپنے وسیع تناظر میں عیاں ہوتی ہے۔ مصنف اپنے مخصوص سیاق و سباق میں کوئی سچائی پیش کرتا ہے تو ہمیں اسے جوں کی توں قبول کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنی داخلی صداقتوں کے ساتھ اسے قلمبند کیا ہے۔ داخلی صداقتوں کا تعلق مصنف کے مزاج،علم و عرفان،تجربے اور مطمحِ نظر کی گہرائی و گیرائی سے بھی ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت احتشام حسین ان الفاظ میں کرتے ہیں

’’ضروری نہیں کہ ایک واقعہ،ایک شخص یا ایک خیال کو مختلف لوگ ایک ہی طرح دیکھیں۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوگا کہ اپنے مزاج،نقطۂ نظر،علم اور تجربے کی نوعیت کی وجہ سے ایک ہی شخص اور ایک ہی واقعے سے متعلق لوگوں کے ردِ عمل مختلف ہی نہیں متضاد بھی ہوں گے۔ ہر خودنوشت کا مطالعہ کرتے وقت کسی نہ کسی شکل میں اس حقیقت کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے۔‘‘

(میری دنیا،ڈاکٹراعجاز حسین،کارواں پبلشرز الہ آباد، اگست1965،(ماخوذ از’ حرفِ آخر‘ ) از احتشام حسین،ص 1)

منجملہ یہ کہ دیانت داری صنفِ خود نوشت سوانح نگاری کی بنیادی شرط ہے۔اس کا پاس رکھے بغیر کوئی غیر معمولی خود نوشت سوانح عمری کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

خود شناسی

کیونکہ خودنوشت سوانح نگاری اپنی شخصیت اور افکار کو سچائی کے ساتھ پیش کرنے کا فن مانا جاتا ہے۔ لہٰذا اس صنفِ ادب میں مصنف کے سامنے اولین سوال یہ ہوتا ہے کہ آیا وہ خود اپنے آپ سے کما حقہ واقف ہے یا نہیں اگر اس میں خود شناسی کا جوہر موجود ہوتا ہے تو اس کی تحریر سے بھی یہی بات عیاں ہو گی۔خود شناسی اپنے آپ میں ایک انتہائی مشکل مر حلہ ہے۔اسے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی سعی کرنا ہوتی ہے۔خودشناسی کی صفت اتنی مشکل ہوتی ہے کہ اس عمل کو تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔لہٰذا اپنی زندگی کی داستان بیان کرنے سے پہلے مصنف کو بڑے منصفانہ انداز میں اپنے آپ کی چھان پھٹک کر لینا چاہیے۔

خودنوشت کا محور مصنف کی شخصیت ہوتی ہے۔لہٰذا مصنف کے مزاج،میلانات و رجحانات ہی سے تصنیف کا رنگ و آہنگ متعین ہوتا ہے۔یہ بشری فطرت کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر شخص اپنے آپ سے محبت کرے۔لہٰذاخود نوشت نگار کا کردار اس مقام پر تمام تر سادگی اور معصومیت کے ساتھ اس کے قلم کی روشنائی سے پھوٹنے لگتا ہے۔زندگی کا تنوع،  رنگا رنگی،نشیب و فراز اور طوالت کو پوری طرح پیش کرنا بڑا دشوار عمل ہوتا ہے۔اچھا مصنف اپنے واقعات، انکشافات اور تجربات تحریر کرتے وقت اس بات سے شعوری طور پر آگاہ ہوتا ہے کہ اس کی تحریر لوگوں کے لیے گراںبار نہ بن جائے۔اس میں یہ شعور بھی ہوتا ہے کہ ضروری باتیں لکھنے سے رہ نہ جائیں۔حسب و نسب اور آبا و اجداد کا ذکر اتنا طویل نہ ہو کہ خود نوشت سوانحی تذکرہ بن کر رہ جائے اور آپ بیتی کا اپنا حسن برقرار نہ رہے۔

عام طور سے خود نوشت مصنف کی عمر کے آخری دور کی تخلیق ہوتی ہے۔اس وقت تک مصنف کی شخصیت سازی کا عمل کم و بیش پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔اس کے قلم میں پختگی اور مزاج میں خود شناسی کا جوہر پیدا کر چکا ہوتا ہے۔ اسے پیچھے مڑ کر زندگی کے نشیب و فراز پر طائرانہ نظر ڈالنے اور اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے کا شعور پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔وہ ان افراد اور اداروں کے لیے اظہارِ تشکر بھی کرنا چاہتا ہے جنھوں نے اس کی ذہنی نشو ونما میں بنیادی کردار ادا کیا ہو۔لہٰذا خود نوشت نگاری کے دوران اس کے خود شناسی و قدر شناسی کے جوہر عیاں ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کی معنویت اور افادیت، عالم پر ظاہر کرنے کے لیے بے تاب ہو رہاہوتا ہے۔ خود نوشت سوانح حیات کاموردِ وجود میں آنا ہی اس بات کی غمازی ہے کہ اب مصنف اس اسٹیج تک پہنچ چکا ہے کہ لوگ اسے بالآخر تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کریں اور اس کے پیغامِ حیات کوسمجھیں۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ خود بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر سمجھ بھی سکا ہے یا نہیں۔ انسانی زندگی کے اتنے سارے باطنی اور خارجی عوامل ہوتے ہیں کہ اس کی نفسیاتی کشمکش اور تحت الشعور کی انگنت پیچیدگیاں ناقابلِ حل ہی رہ جاتی ہیں۔

خود نوشت نگار کو شخصیت کے تمام مثبت و منفی پہلوئوں اور زندگی کے تمام نشیب و فراز کی سچی سچی تصویر کشی کرنا چاہیے۔بہ الفاظِ دگر یہ کہ اسے اپنے آپ کا بڑی غیر جانبداری  کے ساتھ محاسبہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کو صفحۂ قرطاس پر اتارنے کے فن سے واقف ہونا چاہیے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب خودنوشت سوانح نگار اپنی تحریر میں خود شناسی کا واضح ثبوت پیش کرے۔                                             

اظہار کی صلاحیت

چاہے مصنف صداقت سے کا م لے اور خود شناسی کا ثبوت دے تب بھی اس کی تحریر بے اثر رہے گی اگر اسے اپنی بات کہنے پر قدرت حاصل نہ ہو۔لہٰذا اوپر بیان کی گئیں دونوں صفات یعنی صداقت اور خودشناسی کے با وصف ایک خودنوشت سوانح نگار کے لیے اظہار اور ابلاغ پر بھی مکمل قدرت حاصل ہونا ضروری ہے۔در اصل اظہارِ ذات ہی خودنوشت سوانح حیات کا حاصل ہے اور یہ ایک فن ہے اور اس پر فنکارانہ صلاحیت کے بغیر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔خودنوشت نگار کو اس حقیقت سے واقف ہونا چاہیے کہ محض حقائق کے یکجا کر دینے سے آپ بیتی تخلیق نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے تخلیقی عمل کے دوران بہت سے ادبی و فنی لوازمات کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔اسی پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیسلس انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر میں خودنوشت نگاری سے متعلق بڑی اہم بات کہی گئی ہے

’’آپ بیتی لکھنے والا اگر اپنی کہانی کو فن پارہ سمجھنے کا خواہش مند ہے تو جمالیاتی اسباب کی بنا پر کئی حقائق کو حذف کر دینے پر خودکو مجبور پاتا ہے۔ خودنوشت کے مصنف کے لیے یہ بات لازم ہے کہ اپنی روز مرہ کی روکھی پھیکی باتوں کو ضرورتاً ہی دہرائے اور اپنی توجہ اہمیت رکھنے والے قصوں،کاموں اور خصوصیات پر مرکوز رکھے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کئی کئی جلدوں والے وسیع سلسلے پڑھنے کے لائق نہ رہ جائیں گے۔ ‘‘

                                                   (ترجمہ،کیسلس انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر،جلد 1،ص63)

انگریزی کے معروف نقاد پروفیسر البرٹ ای اسٹون نے بجا طور پر لکھا ہے کہ فنکارانہ تخیل حقیقت سے بھی زیادہ حقیقی ہوتا ہے۔آپ بیتی میں پیش کی گئی سچائیوں کو فنی اقدار کی آمیزش کے ساتھ پیش کرنے ہی سے اس میں حسن اور تاثیر پیدا ہوتی ہے۔اگر چہ کہ سچائی اور خودشناسی انتہائی اہم لوازمات ہیں مگر ان کی پیش کش میں جذبات کی رنگ آمیزی اور خیالات کی پیکر تراشی شامل نہ ہو تو خود نوشت میں قاری کو تخلیقی تسکین کیسے ملے گی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خود نوشت سوانح نگار کے لیے اسلوب کی دلکشی بھی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔

خود نوشت محض داستانِ حیات نہیں بلکہ ایک ادبی کارنامہ بھی ہوتی ہے۔یہ اپنی رودادِ حیات کو بے باکی اور جرأت ِ رندانہ کے ساتھ پیش کرنے کا عمل ہے۔ داخلی جذبات کا ظہار دراصل فن کی اعلیٰ اقدار میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ زندگی کی کوتاہیوں کا ایسا اعتراف ہے جو مصنف کی روح کی تطہیر کرتا ہے اور ان معنوں میں یہ عرفان کا عمل ہے۔یہ اعتراف اور عرفان کی کیفیت تب ہی مصنف پر طاری ہوتی ہے جب وہ زندگی کے کسی شعبے میں نمایاں کارکردگی کر چکا ہو۔زندگی کے کسی فن یا سائنس میں اس نے امتیازی مقام حاصل کر لیا ہو۔ اس صورتِ حال میں اظہارِ ذات ایک فن کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اور خود نوشت نگار اپنے مخصوص و منفرد تناظر کے ساتھ فن اور ادب کا حصہ بن جاتا ہے۔چنانچہ ڈاکٹر صبیحہ انور اپنی کتاب ’اردو میں خود نوشت سوانح حیات‘ میں آپ بیتی کے فن کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں

’’در اصل ہر تخلیق، خالق کی شخصیت،اس کے مزاج،عادات، افکار اور عقائد کا نچوڑ ہوتی ہے۔ اس کے بغیر وہ بے روح اور کھوکھلی ہوتی ہے۔فنی اعتبار سے ایک خود نوشت تاریخی ہی نہیں ادبی کارنامہ بھی ہوتی ہے۔افسانے میںافسانے کو حقیقت کے قریب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور خود نوشت سوانح حیات میں حقیقت خوبصورت الفاظ میں سامنے آتی ہے۔ آپ بیتی میں بے باک سچائی اور خلوص کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔اس کی غرض، شخصیت کو پیش کرنا ہے اور لازمی یہ ہے کہ تصنیف شخصیت کو واضح کر دے اور فن کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جو کچھ کہا جائے صفائی اور سچائی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ ‘‘

           (اردو میں خود نوشت سوانح حیات،ڈاکٹر صبیحہ انور، نامی پریس،لکھنؤ، 1982،ص41) 

چنانچہ مندرجہ بالا حقائق کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ایک خود نوشت نگار کے لیے سچائیوں کا بیان کرنا اور خود شناسی کا مادہ ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس فن کا بنیادی تقاضا اظہار کی صلاحیت بھی ہے۔یہاں مصنف کا قادر الکلام ہونا بھی لازمی ہے۔اس صنف میں زبان و بیان کا فنکارانہ استعمال ناگزیر ہے۔

عصری آگہی

 خودنوشت سوانح نگار کے یہاںاپنے معاشرے کے مسائل سے واقفیت بھی لازمی خصوصیات میں شامل ہے۔اپنے معاشرے اور سماج سے مصنف کی گہری وابستگی اور اپنے ماحو ل اور زمانے سے اس کی آگہی اس کے قلم میں جھلکتی ہے اور وہ اپنے دور کے تہذیب و تمدن کی تصویر کشی کے ذریعے اپنی عصری آگہی کا ثبوت دیتا ہے کیونکہ مصنف اپنے عہد کے حالات و واقعات سے پوری طرح واقف ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی تحریر کے توسط سے اس کا جابجااظہار کرتا ہے۔ایک اچھا خود نوشت نگار اپنے عہد اور معاشرے سے لا تعلق نہیں رہ سکتا۔اگرچہ کہ یہ ضروری نہیں کہ اپنے ماحول کو خود نوشت نگار مرکزی اہمیت کا حامل تصور کرے۔وہ اسے ضمنی طور پر بھی پیش کر سکتا ہے۔لیکن اس کے بغیر مصنف کی غیر واضح شبیہ تعمیر ہوگی اور یہ پتہ نہیں چل سکے گا کہ اس کی زندگی کا تماشہ کس منچ پر کھیلا گیا۔لہٰذا  معاشرے کا گہرا شعور خود نوشت نگاری کا بنیادی وصف مانا جاتا ہے۔

اردو میں ابتدا ہی سے خود نوشت نگاروں نے اس ضمن میں گہرے عصری شعور کا ثبوت دیا اور یہ سلسلہ عصرِ حاضر میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔عصری آگہی کے تحت لکھی گئی اردو خود نوشتوں کی بہترین مثالیں مولانا جعفر تھانیسری کی خود نوشت’کالا پانی‘، سید ظہیر الدین دہلوی کی خودنوشت ’داستانِ غدر‘، نواب سلطان جہاں بیگم کی خودنوشت ’تزکِ سلطانی‘ خواجہ حسن نظامی کی خودنوشت ’آپ بیتی‘، سر سید رضا علی کی خود نوشت ’اعمال نامہ‘ سردار دیوان سنگھ مفتون کی خود نوشت ’ناقابلِ فراموش‘، ملا واحدی کی خود نوشت ’میرے زمانے کی دلی‘، عبد الماجد دریا بادی کی خود نوشت ’آپ بیتی‘، زہرا دائودی کی خود نوشت ’گرداب کی شناوری‘، قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت ’شہاب نامہ‘، گوپال متل کی خودنوشت ’لاہور کا جو ذکر کیا‘،پروفیسر کلیم الدین احمد کی خود نوشت ’اپنی تلاش میں‘، مشتاق احمد یوسفی کی خودنوشت ’زر گزشت‘، وارث کرمانی کی خود نوشت ’گھومتی ندی‘، کشور ناہید کی خود نوشت ’بری عورت کی کتھا‘رام لعل کی خود نوشت’کوچۂ قاتل‘، رفعت سروش کی خود نوشت ’بمبئی کی بزم آرائیاں‘ وغیرہ ہیں۔

انتخابِ واقعات

 واقعات کے انتخاب ہی سے کسی خودنوشت سوانح نگار کی بنیادی شناخت بنتی ہے۔ مثلااسے اپنے بچپن کے واقعات کا بیان ابتدا ہی میں کرنا ہوتا ہے جنھیں  یاد کرنا کسی بھی شخص کے لیے بڑا مشکل امر ہوتا ہے۔ اکثر باتیں اسے بزرگوں ہی کے ذریعے پتہ چلتی ہیں۔ لہٰذامصنف ان بزرگوں کے حوالے ہی سے ان معلومات کو قارئین کے سامنے پیش کرے تو بہتر ہے۔مصنف واقعات کا انتخاب کرتے وقت اپنے سلیقے کا ثبوت دیتا ہے بعض دفعہ چھوٹے اور معمولی واقعات بھی بڑے موثر انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ 

کوئی شخص خودنوشت سوانح عمری کیوں لکھتا ہے کیا انسان کو اپنے تجربات،مشاہدات اور واقعات کو بیان کرنے سے ایک خاص قسم کا سکون ملتا ہے۔اپنے جذبات و احساسات کو پیش کرنے سے اس کا ذہنی تنائو دور ہوتا ہے۔ایک عمر گزار دینے کے بعد اپنے تجربات مشترک کرکے کیا وہ اوروں کی رہنمائی کرنا چاہتا ہے۔کیا وہ محض داد خواہی کے لیے ایسا کرتا ہے کیا اس طرح مصنف  خو داپنے آپ کی از سرِ نو دریافت کرنا چاہتا ہے وہ اپنا محاسبہ کرکے زندگی کے ایک خاص موڑ پر ان تمام سوالات کا حل نکالنے کی سعی کرتا ہے ہاں یہی باتیں خود نوشت سوانح عمری لکھنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس بات کا بھی جائزہ لینا ناگزیر ہے کہ خود نوشت سوانح عمری کیوں پڑھی جائے ؟ایک انسان کو دوسرے انسان کی زندگی میں جھانکنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔تجسس کا یہ مادہ کم و بیش سبھی میں پایا جاتا ہے۔آپ بیتی پڑھنے کی بنیادی وجہ انسان کا یہی جذبہ ہے۔اس کے علاوہ ہر دور اپنی مخصوص تہذیب اور اقدار کا پاسدار ہوتا ہے۔آپ بیتیوں میں ہر دور کے تمدن اور تہذیب کی داستانیں شامل ہوتی ہیں لہٰذا کسی دور کی تہذیبی قدروں کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیںاس دور میںقلمبند کی گئی آپ بیتیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

اس حقیقت سے بھلا کون منھ موڑ سکتا ہے کہ آپ بیتی کے مصنف کے لیے سب سے اہم مرحلہ واقعات کے  انتخاب کا ہی ہے۔ اپنے طویل سلسلۂ روز و شب میں وہ مشاہدات و انکشافات کے عمل سے گزرتا ہے۔واقعات کے اس مسلسل عمل کی ترتیب و تدوین کے بغیر آپ بیتی کے خد و خال کیسے تشکیل پا سکتے ہیں۔جو باتیں مصنف کی زندگی میں پیش آرہی ہیں اور جو قول و فعل زندگی میں کہہ اور کر رہا ہوتا ہے،کارنامہ نہیں ہوتا۔لہٰذا مصنف کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی ذکاوت و مہارت کی بنیاد پر اہم واقعات کا انتخاب کرے  اور انھیں ایک مربوط کڑی میں باندھ کر پیش کرے۔جو واقعہ مصنف کو بڑی اہمیت کا حامل محسوس ہو رہا ہو،قاری کے لیے غیر اہم اور غیر دلچسپ بھی ہو سکتا ہے۔اسی لیے رائے پاسکل نے اپنی تحقیقی کاوش  ’ڈیزائن اینڈ ٹروتھ ان آٹو بائیو گرافی‘  میں وضاحت کی ہے

’’ایک کامیاب خودنوشت سوانح حیات کے لیے زندگی کے لیے پیچ در پیچ حالات سے واقعات کا صحیح انتخاب، ان کے درمیان حسنِ تناسب اور حفظِ مراتب کا لحاظ رکھنا اور ذہانت کے ساتھ رد و قبول کے بعد خوش سلیقگی سے پیش کرنا نہ صرف اہم بلکہ لازمی ہے۔ ‘‘

(Design and truth in autobiography,Ray Pascal,Reprint 1960,Page Bros.Norwish Ltd.(Great.Britain))

اسی لیے پاسکل کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ’  آپ بیتی پھولوں کی خود رَو جھاڑی نہیں بلکہ یہ پھولوں کے صحیح انتخاب کے ساتھ باندھا ہوا گلدستہ ہونا چاہیے۔‘  یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ واقعات کا صحیح انتخاب ہی آپ بیتی کے لیے کافی نہیں بلکہ موضوعات کا مناسب استعمال بھی ناگزیر ہے۔بعض اہلِ نظر کی رائے ہے کہ خود نوشت نگار صرف اپنی شخصیت کے منظر نامے اور اپنے فن سے متعلق گفتگو کرے۔ وہ دوسروں کے کرداروں کی تفصیلات بیان کرنے میں نہ الجھے۔لیکن بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ مصنف محض صیغۂ ’میں‘تک محدود نہ رہے بلکہ زندگی کے کارواں میں ان تمام ادارات و افراد،اعمال اور مشاہدات و انکشافات کا ذکر ضرور کرے جن سے اس کی زندگی عبارت ہے۔وہ ان تمام ارباب ِ حل و عقد اور مشاہیر کا تذکرہ ضرور کرے اور ان کے کردار،افعال و تکلم کی نوعیت بیان کرے جن سے مصنف کا سابقہ پڑا ہے۔قارئین مصنف سے اس بات کی توقع بھی رکھ سکتے ہیں کہ وہ محض واقعات ِ زیست ہی بیان نہ کرے بلکہ اپنے باطن کو بھی پیش کردے اور اس کے خیالات و افکار کی گہرائی و گیرائی بھی واضح ہو اور تحریر میں اس کی روح متحرک نظر آئے۔

اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں میں یہ بات عموماًمحسوس کی جاتی ہے کہ واقعات کی توضیح و تشریح کے دوران مصنفین اکثر و بیشتر اصل موضوع سے تجاوز کر جاتے ہیں۔موضوع سے دور ہوجانے کی یہ روش خود نوشت کی سمت و رفتار کو متاثر کرتی ہے۔اس بے راہ روی کی خامی کے باعث غیر متعلق سماجی، سیاسی، ادبی واقعات کے بیان،اپنے موروثی پس منظر،آبا و اجداد اور حسب و نسب کی تفصیلات میں خود نوشت کو بوجھل بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا ایک اچھے خودنوشت نگار کے لیے لازمی ہے کہ ان باتوں کا تذکرہ محض اتنا ہی کرے جتنا اس کی شخصیت و شبیہ ابھارنے میں ناگزیر ہو۔ہر بات تحریر کرنے سے پہلے اصول و ضابطۂ تحریر پر دھیان دے۔ہر واقعہ اور ہر بات ناپ تول کر ہی شاملِ سرگزشت کرے۔ واقعات کے انتخاب و پیشکش  اور موضوعات کے معاملے میں خود نوشت نگار اکثر و بیشتر خود پسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ خود پسندی اسے مبالغہ آرائی کی حد تک جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔نتیجتاً اپنی روداد ِ حیات بیان کرتے وقت وہ اکثر آدرش شبیہ کی مجسمہ سازی کرنے لگتا ہے۔وہ اپنی تصویر پیش کرنے کے بجائے اپنے آئیڈیل کی تصویر بنانے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ بات قاری بھی محسوس کر لیتا ہے۔ لہٰذا مصنف کو خود پسندانہ جذبے سے اجتناب کرنا چاہیے۔البتہ فنکارانہ اندازِ نگارش اہلِ اردو میں پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا ہے۔’یادوں کی برات‘ کو مصنف کے بے باکانہ موضوعات کے علاوہ  اندازِ نگارش ہی کی بدولت شہرت ملی۔ آپ بیتی سائنس یا ریاضی کی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک فنکارانہ کا وش کہی جا سکتی ہے۔ بے شک خود نوشت سوانح حیات کی بنیاد شخصیت کی تفصیلات پر رکھی جاتی ہے لیکن اس میں زبان و بیان کے اوصاف سے آرائش و زیبائش کی جا سکتی ہے۔مصنف کے اسلوبِ نگارش کی بنیاد پر جو خود نوشتیں اہلِ اردو میں مقبولِ عام ہوئیں ان میں جوش ملیح آبادی کی ’یادوں کی برات‘،سر سید رضا علی کی ’اعمال نامہ‘،اختر الایمان کی ’اس آباد خرابے میں‘، مولانا عبد الماجد دریابادی کی ’آپ بیتی‘، رام لعل کی ’کوچۂ قاتل‘،قرۃ العین حیدر کی’کارِ جہاں دراز ہے‘کے نام سرِ فہرست ہیں۔ ان تمام تجزیات کے باوصف خود نوشت نگاری کے فطری بہائو کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اس صنف کے لیے بندھی ٹکی ہیئت اختیار نہیں کی جا سکتی۔اس میں مصنف اپنی ذات پر گزرنے والے تجربات،احساسات اور کیفیات کے اظہار کے لیے جو بھی طرزِ تحریر مناسب معلوم ہو،اختیار کر سکتا ہے اور جن واقعات کو بھی وہ چاہے شامل کر سکتا ہے یہی امر خو دنوشت نگاری کو ادبی اور فنی وسعت عطا کرتا ہے۔

دشواریاں اور امکانات    خو دشناسی کا جذبہ بنی نوعِ انسان کی فطری جبلت ہے۔اپنی ذات اور کائنات کی افہام و تفہیم سے متعلق بنیادی سوالات اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی نشانی ہیں۔اپنی ذات کی گہرائیوں کے انکشاف کی راہ اسے معرفتِ  ذات و کائنات کی جانب لے جاتی ہے۔لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معارفتِ ذات محض صوفیا ہی کے افکار و انکشافات و خیالات تک محدود نہیں بلکہ ان جذبات و احساسات کا ادراک ہر شخص کے حصے میں آتاہے۔

اعترافیہ کے جذبے کے تحت ظہور پذیر ہونے والی تحریر میں عیسائیت کے عقائد نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ لہٰذا مذہبی عقائد کے تحت اعترافات کی شکل میں تحریر کردہ آپ بیتیوں میں روحانی اور مذہبی اقدار نمایاں ہیں۔ اردو زبان و اد ب میں زیادہ تر خودنوشت نگار شات سیکولر روایات کی علمبردار ہیں۔ ابتدا ہی سے اردو میں ہر شعبۂ حیات سے متعلق اشخاص نے اپنی زندگی کے حالات صفحۂ قرطاس پر اتارے ہیں۔

نامور مصنف کویسٹلر نے خود نوشت نگار ی کے عمل میں در پیش دشواریوں کا بڑا حقیقی تناظر پیش کیا ہے

’’پچاس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اپنی یادوں کا احاطہ تحریر میں لانا قبل از وقت اور کسی قدر بے باکانہ کوشش ہوگی تاہم اگر کسی کا ماضی اس لائق ہے کہ اس کا حال سپردِ قلم کیا جائے تو یہ کام اس کا رنگ پھیکا پڑ جانے اور اس کی خوشبو اڑ جانے سے پہلے کر لینا چاہیے۔ فاصلے اور ظاہری۔ہونے والی یافت اور دوسری طرف جذباتی تازگی میں ہو نے والے خسارے کے درمیان توازن لازماََ برقرار رکھنا چاہیے۔کیونکہ احساسات کے مقابلے میں حقائق کو آسانی کے ساتھ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔حقائق کو فائلوں اور اخبارات کے رکارڈ کا سہارا مل سکتا ہے،جذبات کے لیے یہ ممکن نہیں۔‘‘

یہاںآرتھر کویسٹلر نے یہ بات واضح کرنی چاہی ہے کہ ماضی کے دریچے سے یادوں کے سلسلے کو ظہور میں لانا ایسا ہی ہے گویا راکھ کا تجزیہ کریں۔شعلے کو دوبارہ فروزاں نہیں کیا جا سکتا۔علاوہ ازیں خود نوشت سوانح عمری لکھنے والے کے سامنے حافظے کا مسئلہ بھی در پیش آتا ہے۔یاد داشت مصنف کے ذاتی مسائل اور ان سے نبرد آزما ہونے کی قوت اور شعور پر منحصر ہوتی ہے۔بعض وقت بڑی اہمیت کی حامل باتیں ذہن سے محو ہو جاتی ہیں اور بے شمار غیر اہم باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔نا پسندیدہ واقعات اور احساسات طبع سلیم فراموش کر دیتی ہے لیکن بعض حساس طبیعتیں ان ناگوار باتوں کے مختلف پہلوئوں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔زندگی کے نشیب و فراز مسائل و حالات اور پریشانیاں یاد رہ جاتی ہیں۔بعض دفعہ پرانے حالات و کوائف کی یادیں بزرگوں کے سہارے از سرِ نو تازہ ہو جاتی ہیں۔

خودنوشت سوانح حیات تحریر کرنے کے کوئی رہنما اصول آج تک مرتب نہیں ہو سکے ہیں۔ اِنہی دشواریوں کے سبب،دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں اس صنفِ ادب پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔

مغربی زبانوں میں اکثر مصنفین نے روز نامچے بھی لکھے جو ان کی خود نوشت سوانح عمریاں تحریر کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئے۔برِ صغیرِ ہندو پاک میں عوام الناس ہی میں نہیں بلکہ اہلِ قلم حضرات میں بھی زندگی کی بے ترتیبی کے سبب پابندی سے روزنامچہ یا ڈائریاں لکھنے کی قوی روایت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ بیتی کا کل دارو مدار حافظے کی قوت اور یادداشت کے بل بوتے پر ہو کر رہ جاتا ہے۔یہ بھی ایک عملی دشواری ہے جو خود نوشت نگار کو در پیش آتی ہے۔

اردو زبان میں مختلف اصنافِ ادب میں بڑی تعداد میں تخلیقی،تحقیقی اور تنقیدی کام ہوا ہے۔ نظم، غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، داستان، ناول،افسانہ سبھی موضوعات پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔اس لحاظ سے خود نوشت سوانح عمریوں پر اب تک محدود کام ہوا ہے۔اس کی ایک وجہ تو خود اس صنف کا وسیع کینوس ہے جو فنکار کی پوری زندگی پر محیط ہوتا ہے۔اوریہ عمل عموماً مصنف کی زندگی کے کم و بیش آخری دور میں شروع ہوتاہے۔آپ بیتی لکھنے کے وقت تک مصنف کا پختہ عمر اور پختہ قلم ہونا لازمی ہے۔یہ ناول اور افسانے کی طرح تصوراتی کردار پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ اس کے کردار معاشرے کے جیتے جاگتے افراد اور اس کی بنیاد ٹھوس زمین اور زمان و مکان پررکھی جاتی ہے۔لہٰذا ان حقائق کی پیش کش مصنف کا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے لیے درکار وقت اور مالی اسباب کا بھی اہل ِ اردو میں فقدان ہوتا ہے۔ ان تمام دشواریوں کے باوجود گزشتہ صدی میں قابلِ ذکر تعداد میں اردو زبان میں خودنوشت سوانح عمریاں لکھی گئیں۔اشاعت و طباعت کی سہولتوں کے ساتھ اور دورِ جدید کی زندگی کے وسیع منظر نامہ اور شعبۂ حیات کے تنوع کے ساتھ اہلِ قلم حضرات و خواتین نے گزشتہ تین چار دہائیوں میں بڑی تعداد میں خود نوشت سوانح عمریاں تصنیف کیں۔سوانحی کتب کا سلسلہ برِ صغیر ہند و پاک میں جاری و ساری ہے بلکہ تعداد و تنوع کے لحاظ سے خود نوشت سوانح عمریوں کی باڑ سی آگئی ہے۔

برصغیرہندو پاک میں منظر عام پر آنے والی خود نوشت سوانح عمریوں کا سرسری جائزہ لیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے آخری دہے سے لے کر اکیسویں صدی کے ابتدائی دو دہوں تک اردو ادبیات میں سیکڑوں خود نوشت سوانحی کتب کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کتابوں میں نہ صرف مصنفین کی زندگی کے نشیب و فراز،ان کے آبا و اجداد اورتعلیم وتربیت سے متعلق معلومات، پیشہ ورانہ تجربات  اور معاشرے میں نِت نئی تبدیلیوں کا پرتَو نظر آتا ہے بلکہ سماج کی طبقاتی کشمکش، ذات پات، عقائد کے تضادات، سماجی نا برابری اورمرد اساس سماج میں اپنے حقو ق کے تئیں خواتین کی صدائے احتجاج کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ خواتین اپنی زندگی کے نشیب و فراز کی روداد اپنی خودنوشتوں میںکس حد تک بیان کرسکی ہیں، یہ تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے۔ مذہب اورر مرد اساس معاشرے کے خوف کے باوجود خواتین نے اپنی اندرونی سچائیاں اپنی آپ بیتیوں میں پیش کرنے کی سعی ہے۔ پوری دنیا میںخواتین کے بنیادی دکھ درد ایک جیسے ہی ہیں۔ وہ سب صنفی مساوات اور اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اعلیٰ، متوسط اور نچلے سبھی طبقوں سے منسلک خواتین نے اپنی جہد زندگانی کو بخوبی صفحہ ٔ قرطاس پر اتارنے کی سعی کی ہے۔ ان خواتین نے کہیں شعلہ افگن اسلوب نگارش اختیار کیا ہے تو کہیں ممنوعہ موضوعات اور جسارت آمیز چبھتا ہوا لب ولہجہ۔انداز نگارش کے معاملے میں انھوں نے منظوم ہئیت میںبھی طبع آزمائی کی، جس کی مثال رشیدہ عیاں کی خود نوشت ’میری کہانی‘ ہے۔اس طرح عصری آگہی کے احساس سے بھری ہوئی ان آپ بیتیوں کو پڑھ کر قاری ایک مختلف دنیا سے روشناس ہوتا ہے۔ معروف قلمکار حقانی القاسمی  اپنے ادبی جریدے ’ اندازِ بیاں‘ میں خواتین کی خود نوشتوں کے جائزے پر محیط خصوصی شمارے میں اپنے ابتدائی مضمون میںعہدِحاضرکے ماحول و معاشرے کی نمائندہ خود نوشتوں کو نسائی کرب و احتجاج کے حوالے سے متعارف کرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’’عورتوں کی آپ بیتیاں پڑھتے ہوئے بالکل ایک نئی دنیا روبرو ہوتی ہے جس میں حزن ہے، کسک ہے، درد ہے، دکھ ہے، تنہائی ہے، اداسی ہے، اضطراب ہے، افسردگی ہے، احتجاج ہے، مزاحمت ہے۔ امرتا پریتم کی ’ رسیدی ٹکٹ ‘ آج بھی ذہن کو مشتعل کرتی ہے۔ پدما سچدیو کی ’ بوند باؤڑی ‘ پڑھتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔ کشور ناہید کی ’ بری عورت کی کتھا ‘ پیاری لگتی ہے۔ سعیدہ احمد کی ’ ڈگر سے ہٹ کر ‘ بھی اچھا تاثر پیدا کرتی ہے۔ ادا جعفری کی ’ جو رہی سو بے خبری رہی ‘ بھی آدھی دنیا کے درد سے باخبر کرتی ہے۔ اجیت کور کی ’ خانہ بدوش ‘، کسم انسل کی ’ جو کہا نہیں گیا ‘ ا، کرشنا اگنی ہوتری کی ’ لگتا نہیں ہے دل مرا ‘  اور  رمنکا گیتا کی ’ حادثے ‘ ایسی خودنوشتیں ہیں جن میںان خواتین نے نسائی، تخلیقی اظہارات اور لمحات ِ گزراں کے لیے نئے تجربے پیش کیے۔ تسلیمہ نسرین اور تہمینہ درانی بھی اچھے مونتاژ تیار کرتی ہیں۔ لیکن ان دونوں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مشرقی معاشرے میں ان کی تحریریں مضر سمجھی جاتی ہیں۔  ‘‘

                              (انداز بیاں، یک موضوعی مجلہ، مدحقانی القاسمی،نئی دہلی، 2016، ص16) 

الغرض یہ کہ ان خودنوشت سوانح عمریوںمیں زندگی کے تمام مسائل اور تحریکوں کی شبیہ جھلکتی ہے اور عصری آگہی کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ یہ نفسیاتی خلفشار،سیاسی منظر نامہ،وارداتِ قلب اور ذاتی حوادث کی بہترین ترجمان ہیں۔ اہل اردو بجا طور پرفخر کرسکتے ہیں کہ ان دنوں،زبان و بیان کے نئے تجربات اور اسلوبِ نگارش کی جدت و ندرت سے آراستہ و پیراستہ،سوانحی ادب کی مسلسل تخلیق ہوئی ہے اور دور حاضر میں اس صنفِ ادب پر محیط اشاعتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت کی رفتار کے ساتھ مستقبل میں یہ صنفِ ادب مزید ترقی کی منازل طے کرے گی۔یقینا مستقبل میں بھی خود نوشت سوانح عمریاں آئندہ زمانے کے تہذیب و تمدن کی عکاس اور نمائندہ اشخاص کی زندگیوں اور ان کے نصب العین کی مؤثرترجمان ثابت ہوں گی۔

کتابیات

  1.        اردو میں خود نوشت سوانح حیات،ڈاکٹر صبیحہ انور،نامی پریس،لکھنؤ،1982
  2.        نقوش، آپ بیتی نمبر، لاہور،  جلد اول،  1964
  3.        اردو میں سوانحی ادب فن اور روایت،ڈاکٹر عمر رضا،کتابی دنیا،نئی دہلی،2011
  4.        کیسلس انسائیکلو پیڈیا آف لٹریچر،جلد 1
  5.        رائے پاسکل،  ’’ڈیزائن اینڈ ٹروتھ ان آٹو بائیو گرافی‘‘  1960
  6. {Design and Truth in Autobiography,Ray Pascal,Reprint 1960,Page Bros.Norwish Ltd.(Great.Britain)}           
  7.        اعمال نامہ،سرسید رضا علی،ہندوستانی پبلی شرز، دلی،1943
  8.        میری دنیا،ڈاکٹراعجاز حسین،کارواں پبلشرز الہ آباد، اگست1965
  9.        خواب باقی ہیں،آل احمد سرور،فکشن ہائوس،لاہور،1994
  10.        اردو میں خود نوشت سوانح فن و تجزیہ، وہاج الدین علوی، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، نئی دہلی، 1989
  11.      اندازِ بیاں، یک موضوعی مجلہ، مدیر حقانی القاسمی، امکانات پبلیکیشنز، دہلی، 2016
  12.      دستاویز، عزیز نبیل،عالمی اردو ادب کاکتابی سلسلہ، اردو کی اہم آپ بیتیاں، دوحہ۔دہلی۔ 2016


Dr. Syed Wajahat Mazhar

T116/1, 2nd Floor, Okhla Village

New Delhi - 110025

Mob.: 7217718943

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں