8/2/23

انور عظیم کا ناول دھواں دھواں سویرا: فیضان الحق


 تلخیص

انو ر عظیم(1924-2000)چھٹی دہائی کے ایک اہم فکشن نگار ہیں۔ انھوں نے افسانے، ڈرامے اور ناول لکھنے کے ساتھ ساتھ متعدد روسی فن پاروں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ صحافت اور ادارت سے بھی ان کا گہرا رشتہ رہا۔ انور عظیم پر گفتگو کرتے ہوئے عام طور پر ان کے افسانوں کا تو ذکر آتا ہے لیکن ان کے ناولوں کا نام نہیں لیا جاتا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انور عظیم نے دو اہم ناول (دھواں دھواں سویرا،پرچھائیوں کی وادی) تخلیق کیے ہیں اور یہ دونوں ناول اپنے موضوع اور فن کے لحاظ سے اردو ناولوں کے سرمایے میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مضمون میں انور عظیم کے پہلے ناول ’دھواں دھواں سویرا‘ کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

یہ مضمون محض ناول کے تجزیے پر مبنی نہیں ہے،بلکہ ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ بھی کرتا ہے۔ غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ ’دھواں دھواں سویرا‘ کے عنوان سے پاکستان سے شائع ہونے والا یہی ناول ہندوستان میں ’جھلستے جنگل‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اور کسی طرح کی وضاحت نہ ہونے کے سبب یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ یہ دونوں الگ الگ ناول ہیں۔ لیکن اس ناول کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے ناول کا ہندوستانی اور پاکستانی دونوں نسخہ سامنے رکھا۔ تاریخ اشاعت کے ساتھ ساتھ ناول کے متن کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ در اصل یہ دونوں ناول ایک ہی ہیں۔

انور عظیم کا یہ ناول اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں آزادی سے قبل ہندوستان کی سیاسی اورسماجی صورت حال کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ناول نگار کے مطابق اس نے یہ ناول اپنی یادوں کے سہارے تیار کیا ہے۔ انور عظیم کا بچپن بہار کی دیہی زندگی میں گزرا تھا اور انھوں نے جاگیر دارانہ نظام کو قریب سے دیکھا تھا۔اس لیے یہ ناول زمین دارانہ نظام کے ظلم و ستم کی داستان بھی بیان کرتا ہے۔ ناول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں شروع سے آخر تک ایک کشمکش کی صورت بنی رہتی ہے۔ یہ کشمکش کبھی ناول میں موجود کرداروں کی اپنی ذات سے ہوتی ہے اور کبھی اپنی مخالف طاقتوں سے۔فطرتی مناظر کی عکاسی،موسموں کی تبدیلی اور مکالموں کی خوبی اس ناول کو قاری کے لیے دلچسپ بنا دیتے ہیں۔

کلیدی الفاظ

انور عظیم،  دھواں دھواں سویرا، ناول، پلاٹ، تھیم، کردار، منظرنگاری، زبان و اسلوب، ڈاکٹر، جاوید، عبد الجبار،  ہسپتال،  حویلی، گھوڑا، سکینہ، کرن سنگھ، ڈاک بابو، کرارخاں، فخر الدین، درگاپرشاد،  گلبیا، ہوڑہ، کلکتہ،شکرمل،جنگل،شکار وغیرہ

پانچویں دہائی کے بعد کے فکشن نگاروں میں انور عظیم ایک اہم نام ہے۔ انور عظیم ابتدا میں بحیثیت ایک افسانہ نگار کے ادبی حلقے میں مشہور ہوئے۔ کچھ سالوں بعد انھوں نے ناول نگاری کی جانب بھی توجہ دی اور دو ناول تخلیق کیے۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1946 میں ہی ہو گیا تھا،جب ان کا پہلا افسانہ ’چکرائے ہوئے‘ ماہنامہ’ افکار‘ (بھوپال) میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد مسلسل ان کی کہانیاں متعدد رسائل و جرائد کا حصہ بنتی رہیں،  لیکن کتابی شکل میںشائع ہو کر منظر عام پر آنے والا ان کا پہلا کارنامہ افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ ایک ناول تھا۔ یہ ناول ’دھواں دھواں سویرا‘ کے نام سے 1964 میں مکتبۂ افکار،کراچی سے شائع ہو ا۔ ناول کی تخلیق اور اشاعت میں ایک بڑا وقفہ حائل ہے۔ اس ناول کو انور عظیم نے 1958 میں ماسکو میں قیام کے دوران ہی مکمل کر لیا تھا،لیکن اس کے منظر عام پر آتے آتے قریب چھ سال گزر گئے۔ ناول کا انتساب دیکھیے

’’اس حسین معصوم،شکست نا آشنا دل کے نام جسے میں نے زندگی کے برفانی طوفانوں سے ہنس ہنس کر لڑتے اور ڈوب ڈوب کر ابھرتے دیکھا اور آج بھی منوں مٹی کے بوجھ تلے دھڑک رہا ہے اور مر کر بھی جینے والوں کو طوفانوں میں جینے کا سلیقہ سکھا رہا ہے۔ اس دل کا نام ہے مجّی۔‘‘1؎

بعد میں یہی ناول ایک طویل عرصے کے بعدہندوستان میں بھی شائع ہوا۔ اس بار ’تخلیق کار پبلشرز (لکشمی نگر، دہلی) نے اس ناول کو1999 میں ’جھلستے جنگل‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس وقت انور عظیم با حیات تھے،  لیکن اس ناول کا نام ’دھواں دھواں سویرا‘ سے بدل کر ’جھلستے جنگل‘ کس نے رکھا؟ اس کی وضاحت کہیں موجود نہیں ہے۔  ناشر یا مصنف کا کوئی وضاحتی نوٹ بھی اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ناول کے شروع میں مصنف کی تصنیفات کی جو فہرست دی گئی ہے اس میں بھی ’دھواں دھواں سویرا‘ کا ذکر مفقود ہے۔ اس فہرست کی شروعات’پرچھائیوں کی وادی‘‘ (1970) سے ہوتی ہے، جب کہ اس سے چھ سال قبل 1964 میںہی انور عظیم کا ناول شائع ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ ’’جھلستے جنگل‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے ناول کا انتساب بھی ’دھواں دھواں سویرا‘ سے مختلف ہے۔ ’دھواں دھواں سویرا ‘ میں انتسابی کلمات کے بعد مصنف کادستخط بھی شامل ہے،جب کہ ’جھلستے جنگل‘ اس سے خالی ہے۔انتساب ملاحظہ کیجیے

’’ان ان گنت کرداروں کے نام  …جنھوں نے زندگی کے جنگل کو/ اپنے غم، سوز و درد/ نارسائیوں/ اور ناسوروں کے شعلوں سے/ روشن کیا/ اور جو آگ کے کانٹوں پر/ چل کر/ اپنے سفر ناتمام/ کے قصے سلگنے اور جلنے کے لیے/ وقت کے سیل میں چھوڑ گئے‘‘ 2؎

طرز تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جملے انور عظیم کے ہی ہیں۔کیوں کہ اخیر عمر میں ان کی کالم نگاری کا انداز بالکل ایسا ہی، نثری نظم کا حامل ہو گیا تھا۔ لیکن یہ سوال بہرحال قائم رہتا ہے کہ مصنف یا ناشر نے اس کی وضاحت کیوں نہیں کی؟ ’جھلستے جنگل‘ میں کہیں اس طرف اشارہ بھی نہیں ملتا کہ یہ ناول پہلے کسی اور نام سے شائع ہو چکا ہے۔ جہاں تک اس ناول پر ’نظر ثانی اور کسی قدر تراش و خراش ‘ کا مسئلہ ہے، وہ بہت ہی معمولی اور خال خال نظر آتے ہیں۔ اس سے محض کچھ جملوں کی ساخت میں فرق واقع ہوا ہے،باقی نہ تو ناول کے کسی حصے میں تبدیلی کی گئی ہے اور نہ ہی کچھ اضافہ کیا گیا ہے۔ یہاں دونوں ایڈیشن کے چند جملے ملاحظہ کیجیے

’’اس نے آہستہ سے لگام کو جنبش دی۔گھوڑا فورا منزل کی طرف مڑ گیا۔ لیکن سوار نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور گھوڑے کا رخ(جو برق پارے سے کم نہ تھا) ندی کی طرف پھیر دیا۔‘‘3؎

یہی عبارت معمولی تبدیلی کے ساتھ ’جھلستے جنگل‘ میں کچھ اس طرح نظر آتی ہے

اس نے آہستہ سے لگام کو جنبش دی، ایک ٹھنڈی سانس لی اور برق رفتار گھوڑے کا رخ ندی کی طرف پھیر دیا۔‘‘ 4؎

ایک مثال اور دیکھیے

’’اس نے ہسپتال کے زینے پر قدم رکھنے سے پہلے اپنی دائیں بائیںطرف مریضوں کی گھیرا ڈالتی ہوئی تجسس بھری نظریں دیکھیں۔ ‘‘ 5؎

’’اس نے ہسپتا ل کے زینے پر قدم رکھنے سے پہلے ہی اپنی دائیں بائیں طرف مریضوں کی منتظر اور تجسس بھری نظریں دیکھیں۔‘‘ 6؎

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانا ناول ہی ہندوستان میںنظر ثانی کے بعد نئے نام سے شائع کیا گیا۔ لیکن پرانے ایڈیشن کی طرف کوئی اشارہ نہ ہونے کے سبب ایک غلط فہمی یہ پیدا ہو گئی کہ انور عظیم نے تین مکمل ناول تخلیق کیے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے مکمل ناول صرف دو ہیں۔ ایک ’دھواں دھواں سویرا‘یا’جھلستے جنگل‘ اور دوسرا ’پرچھائیوں کی وادی‘۔ یہاں ناول کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے پہلے ایڈیشن ’دھواں دھواں سویرا‘ کو ہی سامنے رکھاہے۔ اس لیے بطور حوالہ پیش کی جانے والی تمام عبارتیں اسی ایڈیشن کے مطابق ہیں۔

’دھواں دھواں سویرا‘ پچیس ابواب پر مشتمل ایک طویل ناول ہے، جو 512صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہی ناول جب ’جھلستے جنگل‘ کے نام سے شائع ہوا تو جدیدتکنیکی طباعت کے سبب محض272 صفحات میں سمٹ گیا۔ البتہ ابواب کی تعداد اس میں بھی پچیس ہی ہے۔ اور دونوں ایڈیشنوں میں ’ناول کے بعد‘ کے عنوان سے انور عظیم کی ایک تحریر اخیر میں شامل ہے، جس میں انھوں نے اس ناول کو تخلیق کرنے کے اسباب و محرکات کے ساتھ ساتھ اپنے فن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد ناول کو تخلیق کرنے کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں

’’ہوا کچھ یوں کہ میں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور ایک اجنبی دیار میں اچانک دل کا مریض بن بیٹھا۔ یہ دل کی بیماری تھی،عشق و عاشقی نہیں۔ جب ذرا جان میں جان آئی اور ڈاکٹروں سے اٹھنے بیٹھنے کی اجازت مل گئی تو میں سکون اور تنہائی سے بڑا اکتایا.....سمندر کی سانس اور منڈلاتے ہوئے سمندری بگلوں کی پرواز میری روح کو وہاں سے اڑا کر، ہزاروں میل دور، برسوں ادھر لے جاتی،یادیں،یادیں، یادیں...  وقت کے پیچ و خم اور حالات کے گردوغبار میں کھوئے کھوئے رنگ، آوازیں، خوشبوئیں، چہرے،دھندلے دھندلے خطوط ابھرتے، ہنستے ہوئے ہونٹ اور لہو روتی ہوئی آنکھیں..... یہ سارے خطوط جھلملاتے اور مجھے دور سے پکار کر صبح کے اجالے میں گھل جاتے یا شام کے دھندلکے میں کھو جاتے اور میرا جی چاہتا، میں بھی انھیں دھندلکوں اور روشنیوں میں کھو جاؤ ں۔

کبھی کبھی میرا دل کہتا ان یادوں میں کیا رکھا ہے؟ بہت جی تڑپا کہ ایسے سناٹے اور تنہائی میں اپنا ناول ’خزاں کی موت‘ جو برسوں سے ادھورا پڑا تھا مکمل کر لوں، لیکن مسودہ کہاں تھا کہ اور چھور کا پتا پاتا۔ ڈائری لکھنے لگا جو ایک بیمار اور مایوس انسان کی جذباتی اور رومانی خودکلامی بن گئی۔ اس دھندے سے بھی جی اکتا گیا۔ اس جنجال سے نکلا تو پھر یادوں کے سوتے پھوٹے اور میںیادوں کے منھ زور ریلوں میں بہہ گیا۔

گنّے کے کھیتوں، دھان کی پکی ہوئی سنہری فصلوں، چھوٹے چھوٹے نالوں اور ندیوں، مسجد کے گنبدوں اور میناروں، کائی بھرے تالابوں،حویلیوںاور درباروں کی پرچھائیوں سے انسان ابھرنے لگے۔دوسری عالمگیر جنگ سے پہلے کے انسان، جن کو میں نے لڑکپن میں دیکھا تھا، جن کے درمیان پلا تھا، ایسے دیہاتوں، جنگلوں اور پہاڑی علاقوں میں، جہاں دور سے ریل کی پٹریاں تلوار کی طرح چمکتی نظر آتی تھیں اور ڈاک بابو بہت بڑا افسر معلوم ہوتا تھا۔ وہاں رات کو شیروں کی گرج اور گیدڑوں کی چیخیں سنائی دیتی تھیںاور کھڑکیوں سے دور، اور اندھیرے پہاڑوں پر جنگل جلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔جہاں گاؤں کا زمیندار اڑتے ہوئے کبوتروں پر بندوق کا نشانہ آزمایا کرتا تھا۔ جہاں ایک امرود یا شریفہ چرانے کے جرم میں کمیروں کی کھال جوتوں سے ادھیڑ دی جاتی تھی۔جہاں،جہاں...یہ پرچھائیاں زندہ ہوگئیں،پر چھائیاں جو لڑکپن میں محض پرچھائیاں تھیں۔ اب زندگی اور سماج کے بہت سے راز لے کر سامنے آگئیں اور میں ان کی افسانوی دنیا میں کھو گیا۔ اس طرح میں نے یہ ناول لکھنا شروع کیا جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘7؎

انور عظیم کی درج بالا باتوں پر غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انھوں نے اپنے بچپن اور گائوں دیہات کی یادوں کو اس ناول کے ذریعے کہانی کی شکل دینے اور تحت الشعور میں محفوظ کچھ شخصیتوں کے دھندلے نقوش سے کردار ابھارنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ناول کی فضا گائوں دیہات کی علاقائی طرز معاشرت ہے اور وہیں کی مٹی کی خوشبو اس میں بسی ہوئی ہے۔

ہماری تنقید میں یادداشت پر مبنی شاعری، افسانہ نگاری اور ناول نگاری کا کافی ذکر موجود ہے۔ خاص طور پر تقسیم ہند کے بعد تخلیق کیے جانے والے ادب میں اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ انور عظیم کا اپنے ناول کے متعلق یہ کہنا کہ ’’میںیادوں کے منھ زور ریلوں میں بہہ گیا‘‘ اپنے آپ میں بڑی معنویت رکھتا ہے۔ یادداشت پر مبنی ادب پارے کی تخلیق ایک ہنر ہے اور یادداشت کو تخلیقی واردات کے طور بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔لیکن اصل چیز یہ ہے کہ ان یادوں کو کس حد تک دوسروں کے لیے بھی اہم بنایا جا سکتا ہے۔ یادیں کئی طرح کی ہوتی ہیں،ان میں سے بعض یادیں صرف اپنی ذات تک محدود رہتی ہیں اور بعض یکساں طور پر سب کے لیے اہم ہوجاتی ہیں۔ یہیں سے تاریخ اور یادداشت میں بھی ایک رشتہ بنتا نظر آتا ہے۔ ناول میں تاریخ کے ساتھ یادداشت بھی آ جاتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم یادداشت کو تاریخ سے الگ نہیں کر پاتے۔البتہ جن ناولوں کو تاریخی کہا جاتا ہے یاتاریخ سے ان کا کوئی رشتہ قائم ہوتا ہے،یہ ضروری نہیں کہ ان میں یادیں بھی ہوں۔ جیسا کہ وہ تاریخی ناول جن کا تعلق ناول نگار کے عہد یا اس کے ماضی قریب سے نہیں ہے۔ یادداشت تاریخ کے ساتھ وہاں آ جاتی ہے جہاں فکشن نگار اپنے زمانے یا قریب تر زمانے کے کسی مسئلے کو موضوع بناتا ہے۔

یہاں یہ بات تو واضح ہے کہ انور عظیم نے اس ناول میں اپنے عہد اور بچپن کے زمانے کو موضوع بنایا ہے،اس لیے اس میں یادوں کا شامل ہوجا نا کوئی تعجب کی بات نہیں۔اور چوں کہ اس کا موضوع بھی تاریخی نہیں ہے اس لیے تاریخ کے ساتھ یادداشت کے گھال میل کا بھی شائبہ نہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مصنف اپنی یادداشت کو ناول کے پیرائے میں ڈھالنے میں کتنا کامیاب ہوا ہے اور ان یادوں کو وہ دوسروں کے لیے کتنا مفید بنا سکا ہے۔

ناول کا تھیم

اس ناول کو لکھنے کا بنیادی مقصد جیسا کہ انور عظیم نے خود لکھا ہے،اپنے بچپن کے ماحول، شخصیات ا ور واقعات کو یاد کرنا ہے۔ یہاں جب انور عظیم اپنے بچپن کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اس سے وہ پورا عہد جاگ اٹھتا ہے جس میں ان کا بچپن گزرا۔ ان کی پیدائش(1924)سے لے کر قریب انیس، بیس سال آگے یعنی 1944  تک کے زمانے کو ہم ان کے بچپن کا عہد کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جو نہ صرف اردو ادب کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے،بلکہ ہندوستانی اور عالمی تاریخ میں بھی اسے تبدیلیوں کا دور کہا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کے کردار دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے کردار ہیں۔ ہندوستان میں نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آ چکا تھا اور تحریک آزادی کی سرگرمیاں تیز ہو چکی تھیں۔ انگریزوں کی ظلم و زیادتی کی کھلے عام مخالفت کی جا رہی تھی اور ہر طریقے سے ان سے مقابلہ کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ یہ لڑائی جہاں ایک طرف جابر و ظالم انگریز حکمرانوں سے تھی وہیں اس وقت کے جاگیرداروں اور زمین داروں سے بھی تھی۔ ترقی پسند تحریک کے وجود میں آنے کے بعد جاگیردارانہ نظام کی خباثتوں کو بے نقاب کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ عہد جاگیرداری کی انتہاپسندیوں سے واقف ہونے لگا تھا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت بھی پیدا ہو گئی تھی۔

’دھواں دھواں سویرا‘ کا اصل موضوع جاگیردارانہ نظام کی کھوکھلی دیواروں کو ڈھانے اور اس کی برائیوں کو بے نقاب کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ناول اس عہد کے فرد اور معاشرے کے تعلق کو بھی بیان کرتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جاگیرداری کا زیادہ چلن گائوں ہی میںرہا،اور انور عظیم کا بچپن بھی بہار کے دیہی علاقے میں گزرا تھا۔ انھوں نے ظلم و زیادتی پر مبنی اس نظام کا بہت قریب سے مشاہدہ اور تجربہ کیا تھا۔ ناول کی پوری فضا دیہی طرز زندگی اورعلاقائی طرزمعاشرت پر مبنی ہے اور اس ماحول کو پیش کرتی ہے جس میں جاگیردارانہ نظام سانس لیتا ہے۔ ہر نظام کی کچھ اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، اسی طرح یہ نظام بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ اس کی حویلی سے لے کر حویلی کے مالک تک ایک الگ شان میں نظر آتے ہیں۔ ان کی رہائش گاہ عام لوگوں سے کافی مختلف اور پر تکلف ہوتی ہے۔ جسے بعض لوگ’ دربار‘ اور بعض’ سرکار کی حویلی‘  کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہاں ایک الگ دنیا آباد کی جاتی ہے جو باہر کی دنیا سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ انور عظیم نے اس نزاکت کواچھی طرح محسوس کیا ہے اور اسے اپنے ناول کا حصہ بنایا ہے۔

اسی طرح سرکار عبد الجبار کی تصویر کشی میں بھی انور عظیم نے باریک بینی سے کام لیاہے۔ اس سے ایک جاگیردار کی ایسی تصویر ابھرتی ہے جواپنی جسامت اور قد و قامت کے ساتھ نگاہوں میں ناچنے لگتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’’آرام کرسی میں گوشت کا ایک پہاڑ دھرا تھا۔ اس کا رنگ آبنوسی تھا۔ آنکھیں اس کے بالوں سے بھی زیادہ کالی تھیں۔ چہرہ بالکل گول تھااور اس پر ناک بالکل اوپر سے رکھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی مونچھیںبہت چھوٹی چھوٹی تھیں مگر اوپر کے لب پر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پھیلی ہوئیں تھیں اور ان کی چمک اس کے چہرے کی سیاہی پر حاوی تھی۔ اس کے بندھے ہوئے ہاتھ موٹر کے کٹے ہوئے ٹائروں کی طرح معلوم ہوتے تھے وہ ملینے کا ایک پستئی کرتا اور پاجامہ پہنے ہوئے تھا۔’’یہ آدمی کھڑا کیسے ہوتا ہوگا؟‘‘ یہ عجیب اور دلچسپ خیال جاوید کے ذہن میں گونج گیا۔‘‘ 8؎

سرکار عبدالجبار اور اس کی حویلی کے علاوہ اس ناول میں ان تمام چیزوں کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو جاگیردارانہ نظام کو تقویت بخشتی ہیں۔ حویلی کی طرز معاشرت،سرکار کے کارندے اور کمیرے، اس کی چاپلوسی کرنے والا داروغہ اور اس سے تجارتی منفعت کی غرض سے وابستہ افراد بھی اس ناول میں موجود ہیں،جو سرکار عبدالجبار کی شان و شوکت بڑھانے میں برابر کے شریک نظر آتے ہیں۔ اس کے ایک ایک اشارے پر کانپ اٹھتے ہیں اور اس کا حکم سر آنکھوں پر رکھے سرپٹ ادھر ادھر دوڑتے نظر آتے ہیں۔

یہ ناول عبدالجبار کی جاگیرداری سے بڑھ کر اس کی خودغرضی،لالچ اور حب جاہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ عبدالجبار ایک انا پرست، حریص،ہوس کا پجاری اور مفاد کو پیش نظر رکھنے والے زمین دار کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کالے دھندے کو فروغ دینے اور شکر مل لگانے کی خاطر اپنی معصوم بہن سکینہ کی شادی ایک ایسے لڑکے سے طے کرتا ہے جو کسی بھی طرح سکینہ کا خاوند بننے کے لائق نہیں۔سکینہ سے عبد الجبار کا رشتہ بھی ایک جاگیرادارانہ اور تجارتی ذہنیت کا معلوم ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت صرف ایک جملے سے سمجھی جا سکتی ہے

’’اس نے بہن کے سر پر ہاتھ پھیرا سکینہ کے پورے جسم میں ایک جھرجھری دوڑ گئی، جس طرح قصائی کے ہاتھ کے لمس سے بکری کانپ جاتی ہے۔‘‘ 9؎

 عبدالجبار کی انانیت اس حد تک بڑھی ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر جاوید کی ایمانداری اور انصاف پسندی سے بھی پریشان رہتا ہے اور اس کی خودداری کو اپنے خلاف بغاوت تصور کرتا ہے۔

ناول میں ضمنی طور پر ایسے بہت سے واقعات اور مناظر پیش کیے گئے ہیں جو دیہی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں گھوڑے کی سواری، مدرسے کی تعلیم، مولوی،ماسٹر،ڈاک بابو اورمزدوروں کی عورتیں، ہولی کا منظر، مزار پر سالانہ عرس،دعا تعویذ کے ذریعے بھوت پریت بھگانے کی کوشش، مچھلی اور جانوروں کا شکار، شادی کی رسومات وغیرہ کودلچسپ طریقے سے بیان کیاگیا ہے۔ خاص طور پر ہولی اور عرس کا ذکر کافی تفصیل سے کیا گیا ہے جس میں تخلیق کار کے گہرے مشاہدے کا عکس نظر آتا ہے۔

پلاٹ پر ایک نظر

 ناول کا پلاٹ غیر روایتی ہوتے ہوئے بھی کسی حد تک سپاٹ نظر آتا ہے۔ ممکن ہے اس میں غیر منطقیت کو برتنے کی انور عظیم نے شعوری کوشش کی ہو۔ ناول پڑھتے ہوئے قاری کی دلچسپی تجسس میں بہت کم تبدیل ہوتی ہے۔ اس لیے اگر قاری میں تحمل نہ ہو اور کردار کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے دلچسپی نہ لے ہو رہا ہو تو اکتاہٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ جاوید اس ناول کا مرکزی کردار ہے اور کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے۔لیکن مرکزی کردار کی شخصیت سے متعلق واقعات میں کوئی نمایاں تبدیلی یا غیر یقینی بدلائو نظر نہیں آتا۔تمام واقعات فطری انداز میں واقع ہوتے ہیں۔ کہانی کی شروعات جاوید کی گھڑسواری سے ہوتی ہے،جہاں وہ نئے ہسپتال کی سمت جا رہاہوتا ہے۔یہاں ایک تجسس یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جاوید کون ہے؟کہاں سے آیا ہے؟اور اسے اتنی اجنبیت کیوں محسوس ہورہی ہے؟ ہسپتال پہنچنے پر مولوی صاحب،ماسٹر شاہ عالم،کمپونڈر درگا پرشاد اور ڈاک بابو نریش کی صحبت اور ان کی خوشگوار باتیں ناول میں ظرافت کا پہلو پیش کرتی ہیں۔یہاں سے پلاٹ ماضی کی طرف رخ کرتاہے اور پرانے خطوط اور ڈائری کے ذریعے جاوید اور اس کی پچھلی زندگی سے قارئین کو واقف کراتا ہے۔ یہیں پرجاوید کے والد کی جفا کشی اور قربانی کا پوراقصہ بیان کیا جاتاہے کہ انھوں نے کس طرح جاوید کو پڑھا لکھا کر ایک ڈاکٹر بنایا۔ جاوید کے ماضی کی صورت حال سامنے آنے کے بعد قاری اپنے آپ کو جاوید سے قریب محسوس کرنے لگتا ہے اور پھر جاوید اور سرکار عبدالجبار کے درمیان کشمکش کی کہانی شروع ہوجاتی ہے۔

پلاٹ کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ ناول اپنے عروج پر پہنچتے ہی ختم ہو جاتاہے۔ کہانی Climax پر پہنچ کر بھی  قاری کے توقعات سے کم دلچسپی پیدا کرتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اخیر میں سلسلہ وقوعات اتنا تیز ہے کہ ناول نگار عجلت کا شکار نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ناول نگار اب کہانی کو جلد سے جلد سمیٹنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ کوشش ناول کے شروعاتی بیانیے کو کافی مجروح کرتی ہے،کیوں کہ ابتدا میں انور عظیم نے جو تفصیلی اور وضاحتی بیانیہ اپنایا ہے،وہ آخر میں  اشاریت اور اختصار میں بدل جاتا ہے۔ مثلا سکینہ کی بیماری سے لے کر اس کی شادی کی تمام رسومات تک جس ٹھہرائو اور جزئیات نگاری سے کام لیا گیا ہے وہ آگے چل کر بالکل اخباری بن جاتا ہے۔ شادی کے بعد اچانک سکینہ کہانی سے غائب ہو جاتی ہے اور اس کی محض خبر کچھ اس طرح سنائی جاتی ہے کہ اس پر سسرال والوں نے بہت ظلم کیا اور واپس گھر بھیج دیا۔جہاں اس کا ایک بچہ بھی انتقال کر گیا۔ اور وہ پھر تنہااسی حویلی میں محصور ہو گئی۔یہ سانحہ اتنا دردناک تھا کہ اسے تھوڑی تفصیل سے بیان کرنے پر سکینہ کی زندگی کو پوری طرح اجاگر کیا جا سکتا تھا۔اسی طرح عبدالجبار کی پشیمانی، کرن سنگھ سے اس کا تصادم اورسمدھی ڈپٹی نصیرالدین سے قطع تعلقی وغیرہ کی محض ایک دو صفحے میں خبر دی جاتی ہے۔یہ کب اور کیسے واقع ہوئے؟ کیا اسباب بنے؟ اور اس کا رد عمل کس طرح سامنے آیا؟یہ سارے سوالات کہیں نہ کہیں ذہن کے دریچوں میںالجھے رہ جاتے ہیں اور قاری اپنے اعتبار سے ان کی تاویلیں کرتا رہتا ہے۔

 جاوید جب کلکتے کا سفر کرکے روز سے ملنے پہنچتا ہے تو پردے کے پیچھے سے روز اوراس کے دوستوں کے درمیان گولی... بم...  وغیرہ جیسے الفاظ سن کر کسی سازش کو محسوس کرتا ہے۔لیکن ناول میں اس سازش کا پردہ فاش نہیں ہوپاتا۔ اور نہ ہی یہ معلوم ہوپاتاہے کہ جاوید کے ایک پرانے دوست رگھوناتھ نے جیوتی/سلیم کا خفیہ طریقے سے علاج کیوں کرایا؟ سلیم کی شخصیت پوری کہانی میں مشکوک رہتی ہے اور پھر روز کے ساتھ اس کے تعلقات روز کی زندگی کو بھی مشکوک بنا دیتے ہیں۔ناول نگار نے اس ابہام کو دور کرنے کی کو شش نہیں کی ہے اور اس کی تعبیر قاری پر چھوڑ دی ہے۔

 کہانی میں ٹکرائو کے کئی امکانات پیدا ہوتے ہیں،لیکن ایسا نہ ہو کر کہانی اشاراتی اور کنایتی انداز میں آگے بڑھ جاتی ہے۔ ایک موقعے پر ایسا لگتا ہے کہ عبد الجبار اور پرمیشور سنگھ کے بیچ زبردست ٹکرائو ہوگا اور وہیں سے عبد الجبار کی قلعی کھلتی نظر آئے گی،لیکن صحت یاب ہونے کے بعد وہ کہانی سے تقریبا غائب سا ہو جاتا ہے اور موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ ایک دن اچانک کچہری میں آگ لگنے کی خبر آتی ہے، اور پتا چلتا ہے یہ پرپمیشور سنگھ کی انتقامی کارروائی ہے۔پرمیشور سنگھ نے بدلہ تو لے لیا لیکن کھلے عام اس کی وہ ہمت اور بہادری ظاہر نہیں ہوتی جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ داروغہ کرن سنگھ، جاوید کی انصاف پسندی کا قائل ہو کر عبد الجبار کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا،لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے اور وہ اب کسی دوسرے کی چوکھٹ پر سر جھکائے کھڑا ہے۔

ناول پڑھتے ہوئے ایک لمحے کوایسا لگتا ہے کہ کہانی کا اختتام’ روز اور جاوید‘ یا ’سکینہ اور جاوید‘ کے ملن پر ہوگا۔ لیکن یہاں بھی قاری کی تمام قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ روز کے تعلقات جیوتی سے ہو جاتے ہیں اور سکینہ کی شادی فخر الدین سے ہو جاتی ہے۔اخیر میں روز اور سکینہ دونوں کی زندگی اجڑ جانے کے بعد پھر ایک بار یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ جاوید سکینہ کو اپنا لے گا اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرے گا۔لیکن جاوید ایسا نہیں کرتا اور وہ جنگل کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔

جاوید کو کسی خاص منزل تک نہ پہنچانے میں بھی ناول نگار کی دانشمندی نظر آتی ہے۔کیوں کہ ناول نگار کا  مقصد زندگی کے مسائل کا حل پیش کرنا نہیں،بلکہ مسائل کی طرف توجہ دلاناہے۔ اگر جاوید کسی کے ساتھ اپنی دنیا بسا لیتا تو کہانی وہیں پر ختم ہو جاتی، لیکن اس نے ایسا نہ کرکے کہانی کو اور آگے بڑھا دیا ہے اور زندگی میں کچھ اور ہونے کے امکانات پیدا کر دیے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کی لڑائی ایک جاگیردار سے تھی،جسے اس نے کسی حد تک شکست دے دی تھی،گرچہ پوری طرح اسے بدل نہیں سکا تھا۔ اس طرح جاوید کے اندر ظاہری اور باطنی کشمکش برقرار رہتی ہے اور وہ اسی کشمکش کے ساتھ جنگل کی طرف نکل جاتا ہے۔

کرداروں کا مطالعہ

اس ناول میں متعدد کردار موجود ہیں،لیکن ان میں سے کچھ کردار ایسے ہیں جن کی شخصیت ظاہر و باطن کی پیچیدگیوں کے ساتھ سامنے آ ئی ہے۔ زیادہ تر کردار کچھ دیر کے لیے کہانی میں داخل ہوتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ کردار علاقائی تہذیب و معاشرت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انور عظیم اپنے  کرداروں کے متعلق بیان کرتے ہوئے ناول کے اخیر میںلکھتے ہیں

’’میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں نے کردار اور واقعات زندگی کے تجربوں سے لیے ہیں اور ایک خاص ماحول میں، ان کے آپسی رشتوں، ان کے باہمی عمل اور ردعمل کی مدد سے ان کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ انسان نہ تو بالکل ’سفید‘ ہیں اور نہ بالکل ’سیاہ‘، لیکن انسان کو پرکھنے میں میرے اس رجحان کا اس ناول میں محض آغاز ہوا ہے۔ ‘‘ 10؎

زندگی کے تجربوں سے واقعات اور کرداروں کا انتخاب جتنا سہل ہے اتنا ہی مشکل بھی۔ یہ کردار ہماری زندگی کے آس پاس بکھرے ضرور ہوتے ہیں،لیکن ان کا انتخاب اور پھر ایک فنی کاریگری سے ان کی پیکر تراشی نہایت مشکل عمل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ فنکار پریہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ کہانی میں ان کرداروں کو فٹ کر سکے یا کہانی ان کرداروں کے ذریعے فطری طور پر آگے بڑھ سکے۔

اس ناول کا مرکزی کردار ’جاوید‘ ہے۔ جاوید جاگیردارانہ سماج کا ایک ایسا نوجوان ہے جو نئی فکر کا حامل ہے۔ اس کے بچپن سے ہی اس کی ذات میں ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے، جس کی شروعات ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہوتی ہے۔ جہاں گائوں کے کچھ شریر اسے بہکاتے ہیں اور اسے والد کی غربت کا احساس دلا کر  حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ لیکن جب جاوید کے والد اپنی بیوی کے انتقال کا دلدوز واقعہ سناتے ہیں تو جاوید ایک ڈاکٹر بننے کا عزم مصمم کر لیتا ہے۔ اس طرح اس کی پہلی لڑائی اس نظام سے شروع ہوتی ہے جہاں علاج و معالجے کا حق صرف طبقۂ اشرافیہ کو حاصل تھا اور ڈاکٹر وحکیم امرا کی غلامی کررہے تھے۔ جاوید کے والد سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں

’’میں چاہتا ہوں جب تم کسی سے بیاہ کرو اور جب تمہارے باپ بننے کا وقت آئے تو ایسا نہ ہو کہ تم ڈاکٹر کے پیروں پر گر کر فریاد کرتے رہو اور وہ اپنے پیر کھینچ کر ڈولی میں بیٹھ جائے،کہار تمھاری آنکھوں کے سامنے ہاتھی والے راجہ بہادر کے زکام کا علاج کرنے کے لیے اسے لے کر غائب ہو جائیں اور جب تم گھر آئو تو.....‘‘ 11؎

’’جب تم گھر آئو تو۔۔‘‘یہ وہ جملہ تھا جس کے آگے بولنے کی نہ اس میں تاب تھی اور نہ ہی جاوید اسے سننا چاہتا تھا۔ اس کے ارادوں کو مضبوط کرنے کے لیے بس اس کے آگے کے منظر کا خوف ہی کافی تھا۔ بالآخر جاوید نے اس خوف کو شکست دی اور کلکتہ شہر سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر لی۔

جاوید کی زندگی میں آزمائش کا دور تب شروع ہوتا ہے جب وہ ایک گائوں میں بحیثیت ڈاکٹر مقرر ہوتا ہے۔ جاوید ایک زمینی شخص ہے،جس نے زندگی کی دھوپ چھائوں دیکھ رکھی ہے۔ اسے اپنی زندگی کا مقصد بھی اچھی طرح معلوم ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ ایک جاگیرداری والے علاقے میں پہنچتا ہے تو سرکار عبد الجبار سے ایک ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ٹکرائو محض جاوید کی نہیں بلکہ ایک اونچے طبقے کی نچلے طبقے سے ٹکرائوہے۔ سرکار عبد الجبار کو جس چیز نے جاوید کا ضرورت مند بنا دیا ہے وہ اس کی علمی لیاقت اور اس کا ہنر ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ طبقۂ اشرافیہ نچلے طبقے کی ترقی دیکھنا نہیں چاہتا،اور اگر کہیں کیچڑ میں کنول اگ بھی آئے تو اسے اپنے قبضے میں کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔  یہی صورت حال یہاں جاوید اور سرکار عبد الجبار کے درمیان پیدا ہوتی ہے۔ سرکار عبد الجبار پہلے تو جاوید کو  کچھ اس طرح لبھانے کی کوشش کرتا ہے

’’خیر چھوڑیے،میں تو کہہ رہا تھا یہاں آپ کو بڑا آرام ملے گا۔ دربار سے پچاس روپئے ماہوار تو بندھا ہوا ہے ہی اور بھی راستے ہیں،دلچسپی کا سامان بھی ہے۔ یہ چھوٹی سی جنت ہے،یہاں سب کچھ ہے۔ضرورت مستعدی اور سوجھ بوجھ کی ہے۔جس کی آپ میں کمی نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ 12؎

لیکن جاوید نے بھی بغیر کسی لالچ میں آئے اپنا خوددارانہ جواب دے دیا

’’بات یہ ہے کہ میں پہلی بار کسی ہسپتال کا کام سنبھال رہا ہوں۔ میں نے کام کرنے کا ایک خاص تصور قائم کیا ہے۔چاہتا ہوں کہ اپنے خواب پورے کروں۔میں اچھا ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں۔‘‘ 13؎

یہیں سے فرد اور معاشرے کے بیچ ایک کشمکش پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔ ناول نگارکا بنیادی مقصد معاشرے میں فرد کی صورت حال کو واضح کرنا ہے،اور یہاں ناول نگار نے ایک جاگیردارانہ ماحول میں جاوید کی زندگی گزارنے کی آزمائش کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔

جاوید سرکار عبد الجبار کی نظروں میں کئی وجوہات سے کھٹکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ دربار پر ہر روز حاضری دینے نہیں پہنچتا۔ دوسرے یہ کہ عبدالجبار کے سامنے عاجزی اور بے بسی نہیں دکھاتا۔ عجیب بے غرضی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتا ہے،جس سے خوشامدپرست عبد الجبار کو پریشانی ہوتی ہے۔ جاوید، عبد الجبار کی خباثت کو سکینہ کے تعلق سے ہی جان چکا تھا۔ اس کے علاوہ ایک دن جب پرمیشور سنگھ پر جان لیوا حملہ ہوااور جاوید نے اس کے علاج کی ذمے داری لی تب وہ عبد الجبار کی نگاہوں میں اور کھٹکنے لگا۔ کیونکہ پرمیشور سنگھ سے عبدالجبار کی ذاتی دشمنی تھی۔ لیکن جاوید نے وہی کیا جو اسے ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے کرنا چاہیے تھا۔یہاں جاوید اور عبد الجبار کی سخت لہجے میں گفتگو سنیے

’’چھوٹتے ہی عبد الجبار نے آنکھیں میچتے ہوئے جاوید سے کہا۔

’’ڈاکٹر میں نے تمہاری بڑی شکایت سنی ہے۔‘‘

’’شکایت؟‘‘

’’ہاں!‘‘ اس ہاں میں اس نے چھپی ہوئی دھمکی محسوس کر لی۔

’’کیسی شکایت؟‘‘ جاوید نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے پوچھا۔ اس کا نچلا ہونٹ اور بھی لٹک آیا اور ہونٹ جلنے لگے۔

’’میں تو سمجھتا تھا کہ تم ایمانداری سے کام کروگے۔جوان آدمی ہو…‘‘

’’عبدالجبار صاحب میں ایمانداری سے کام کرتا ہوں اور میں خود اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہوں۔‘‘ اس نے رک کرتھوڑی دیر سوچا۔عبد الجبار اس کے لہجے سے چونک گیا تھا اور اسے زہریلی اور بپھری ہوئی نظروں سے گھور رہا تھا۔

دونوں نگاہوں نگاہوں میں ایک دوسرے کو تولتے رہے۔

’’اچھا تم نے پرمیشور سنگھ کے بارے میں غلط رپورٹ کیوں لکھی؟‘‘ سرکار نے غرا کر پوچھا۔ جاوید کو لگا کہ سرکار کے جسم میں ہزاروں نیزے اگ آئے ہیں اور اس کی طرف نشانہ باندھ رہے ہیں۔ اس نے دانت پیس کر جواب دیا۔

’’میں نے پرمیشور سنگھ کے بارے میں جو ٹھیک سمجھا لکھا۔‘‘

’’یہ میرا علاقہ ہے ڈاکٹر……سیکڑوں یہاں میرے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں کرتے۔ یہاں میرے اشارے پر کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’عبد الجبار صاحب آپ چٹان پر گولیاں چٹخا رہے ہیں۔‘‘

’’کیا مطلب! تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو۔میں خاموش رہا۔سوچتا رہا تم خود ہی راستے پر آ جائوگے۔لیکن تمہاری خودسری بڑھتی جا رہی ہے۔تم کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے جس سے دربار پر چوٹ پڑتی ہو۔یہ ہسپتال میرا ہے۔‘‘

’’ہسپتال کسی کا ہو مجھے مطلب نہیں۔ڈاکٹر لوگوں کا خادم ہوتا ہے۔کسی دربار کا… ن… اس نے اپنا جملہ بھی ختم نہیں کیا تھا کہ عبد الجبار نے اپنا بھاری ہاتھ میز پر دے مارا۔ پان کی طشتری فرش پر گری اور گلوریاں بکھر گئیں۔جاوید ایک منٹ کو رکا اور بولا۔’’ میں کسی سے نہیںڈرتا عبد الجبار صاحب آپ بھی کان کھول کر سن لیجیے۔ میں موم کی ناک نہیں ہوں۔ میں بھیڑ نہیں ہوں جو ہمیشہ گلّے میں چلتی ہے۔میں اپنا راستہ آپ بنا سکتا ہوں…اور…یہ دھمکی…‘‘

’’جائو تو بنا لو اپنا راستہ……میں تو تمہارے بھلے کو کہتا تھا۔میاں یہ پہلا ہسپتال ہے۔یہاں نام پیدا کرو اپنا مقدر بنائو…‘‘ اس کی آواز نرم پڑنے لگی۔

’’مقدر کے نام پر کوئی مجھے خرید نہیں سکتا……‘‘ جاوید نے اٹھتے ہوئے کہا

’’سوچ لو…اس کا انجام برا ہوگا۔‘‘

’’انجام…دیکھا جائے گا…جاوید نے ایک ڈرامائی بے پروائی سے کہا اور عبد الجبار کو بڑی نفرت سے گھورتا ہوا باہر نکل گیا۔‘‘ 14؎

’’مقدر کے نام پر کوئی مجھے خرید نہیں سکتا‘‘یہی وہ انا اور خودداری تھی جو جاوید کی طاقت بن گئی تھی۔ جاوید اپنے جسم سے نہیں،بلکہ اپنی ایمانداری سے عبدالجبار کا مقابلہ کر رہا تھا۔ اس کے ہتھیاروں میں لاٹھی بندوق نہیں،بلکہ مقابلے کی ایک ایسی طاقت ہے جو ہر مغرور کا سر نیچا کر دیتی ہے۔یہاں جاوید اور پرمیشور سنگھ کے کردار میں ایک مناسبت کی راہ بھی نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ اور وہ نقطۂ اتصال یہ ہے کہ دونوں عبد الجبار کی نگاہوں میں کھٹک رہے ہوتے ہیں۔ پرمیشور سنگھ اسی علاقے کا باشندہ ہے جب کہ جاوید اس بستی میں نیا ہے۔ لیکن دونوں کا کام ایک جیسا دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ایک ظالم اور جاگیردار سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ پرمیشور سنگھ اس علاقے میں اپنی قوت بازو کے سہارے زندہ ہے۔ ورنہ عبد الجبار اس کو کب کا نگل گیا ہوتا۔ اسے عبدالجبار ایک ڈاکو بنا کر پیش کرنے پر تلا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ ایک نیک دل اور بہادر انسان ہے،جو کسی کے آگے سر نہیں جھکاتا۔ پرمیشور سنگھ جس نظام سے پہلے سے لڑ رہا ہوتا ہے جاوید کی اسی نظام سے اب لڑائی شروع ہوتی ہے۔ اور عبدالجبار ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ اس کے دو مخالف ایک ہو جائیں۔ اسی لیے پرمیشور سنگھ کو بدنام کرنے کے لیے وہ کرن سنگھ کا بھی سہارا لیتا ہے اور اسے ایک لٹیرا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جاوید پر اس حقیقت سے پردہ اس وقت اٹھ جاتا ہے جب اس کا دوست نریش اسے پرمیشور سنگھ کے بارے میں حقیقت حال کا پتہ دیتے ہوئے کہتا ہے

’’لوگ پرمیشور سنگھ کو مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ وہ بہادر ہے، شیر ہے۔  سر نہیں جھکاتا۔ سر کے بدلے سر کاٹ لیتا ہے یہی اس کا قصور ہے۔‘‘ 15؎

پرمیشور سنگھ کے متعلق اس سچائی کو جاننے کے بعد جاوید کو اس سے ایک خاص ہمدردی بھی ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے مریض کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے سرکار عبدالجبار سے لڑائی مول لے لی تھی۔ یہ دو موافق افکار کا اتصال تھا جو پرمیشور سنگھ کو جاوید کے قریب لے آیا۔جاوید کی ہمت و حوصلہ افزائی کا یہ ایک بڑا سبب بھی معلوم ہوتا ہے، جس نے عبدالجبار سے مقابلہ کرنے کی مزید قوت عطا کی۔ وہ اخیر دم تک کوئی سمجھوتا کرنے پر راضی نہیں ہوا،گرچہ اسے اپنا ہسپتال اور وہ بستی چھوڑ کر جنگل کی راہ لینی پڑی۔ جاوید کا بستی چھوڑ کر جانا بھی پرمیشور سنگھ کے مشورے کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک بار اس نے جاوید سے بڑے دوستانہ انداز میں درخواست کی تھی

’’میں کہتا ہوں ڈاکٹر تم کو گھن لگا گیا ہے چلے جائو!‘‘

میں تمھارے بھلے کو کہتا ہوں۔اب اس جنگل میں آگ لگ چکی ہے۔ میں تمہیںایک بات بتائوں،جنگل میں جب آگ لگتی ہے تو پھیلتی چلی جاتی ہے۔ جنگل کی آگ سب کچھ جلا دیتی ہے۔شیشم بھی جلتا ہے اور ببول بھی۔ کچھ بھی نہیں بچتا۔ کچھ بھی نہیں۔ تم دیکھتے نہیں یہاں شکر مل بن رہی ہے۔عبدالجبار پاگل ہو رہا ہے…‘‘ 16؎

پرمیشورسنگھ کے اس مشورے میں خلوص بھی ہے اور ایک سچی ہم دردی بھی۔ اس کا بستی چھوڑ دینے کا مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آنے والے حالات کو اچھی طرح بھانپ چکا تھا اور جاوید کو اب اس میں جھونکنا نہیں چاہتا تھا۔ اور اس کا نتیجہ جلد ہی کچھ اس شکل میں سامنے آتا ہے کہ سرکاری کچہری پھونک دی جاتی ہے۔ یہاں جنگل، آگ، شیشم،ببول سب اپنے حقیقی معنوں سے الگ ایک مختلف معنی پیش کر رہے ہیں۔ اور جاوید ان سب استعاروں کو اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔ اس طرح جاوید کی شخصیت ہمارے سامنے ایک ایسے انکار کی صورت میں سامنے آتی ہے جو پژمردہ ہو کر بھی مرنے والے کے ہونٹوں پر زندہ رہتا ہے۔

جاوید سسٹم سے لڑنے کے ساتھ ساتھ دل کی لڑائی لڑتا ہوا بھی محسوس ہوتا ہے، جسے انسان کی زندگی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ عبدالجبار کے مقابلے میں جتنا طاقتور دکھائی دیتا ہے،دل کے معاملے میں اتنا ہی کمزور بھی۔ وہ اپنے جذبات کے مطابق کام کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ شہر کلکتہ کی اپنی دوست’روز‘ کے عشق میں گرفتار ہے اور گائوں آکر بھی اسے بھول نہیں پا رہا۔لیکن یہاں سرکار عبدالجبار کی بہن سکینہ کی قابل رحم حالت پر جب سے اس کی نظر پڑی ہے وہ اس کے جوان مگر پژمردہ حسن کا بھی اسیر ہو بیٹھا ہے۔ وہ اپنے آپ کو روز اور سکینہ کے درمیان تقسیم ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے اور کوئی حتمی فیصلہ لینے کی طاقت اس میںنظر نہیں آتی۔جاوید’روز ‘کی دوستی اور محبت میں فرق کرنے سے قاصر ہے اور وہ زندگی کاایک بڑا وقفہ محض فریب میں گزار دیتا ہے۔ لیکن اس کے بالمقابل ظلم و زیادتی پر مبنی نظام سے لڑتے ہوئے وہ کبھی دھوکا نہیں کھاتا،اور عبد الجبار کے تمام دائو پیچ سمجھتا ہے۔ ایسے موقعے پر، جب کہ دل اور دنیا کی دو متضاد صورتیں جاوید کے سامنے تھیں،اس کے فیصلوں کو محض بزدلی پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کچھ مصلحت پسندی اور دوراندیشی بھی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سکینہ کی محبت پر بھی آنکھ بند کرکے اعتبار نہیں کرتا۔ وہ سوچتا ہے

 ’’ہو سکتا ہے یہ لڑکی مجھ سے عشق…لیکن یہ کیا بکواس ہے… یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ نہیں یہ ناممکن ہے۔ دربار کا سارا خواب… اور میں ایک ڈاکٹر… اور یہ پرمیشور سنگھ… ارے نہیں۔ دربار سے تو میری ٹکر ہوگی۔ اور میں جانتا ہوں میں پاش پاش ہو جائوں گا۔لیکن میں ہتھیار نہیں ڈالوںگا…‘‘ 17؎

’’میں جانتا ہوں کہ دربار سے میری ٹکر ہوگی‘‘ یہ جاوید کی دور اندیشی تھی۔ اس نے بہت پہلے ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس کے سامنے جذبات میں بہہ جانے کا راستہ مسدود ہے۔ وہ اپنا انجام جانتا تھا اور آنے والے وقت میں اپنا کام بھی طے کر چکا تھا۔ وہ پاش پاش ہونے کے لیے تیار تھا۔ اور ایسے میں سکینہ کو اپنے ساتھ ایک محفوظ مقام پر لے جانے کا خیال اس کے لیے بے معنی تھا۔ یہی وجہ تھی سکینہ کی فرمائش کے باوجود وہ اسے بھگا کر لے جانے سے انکار کر دیتا ہے۔سکینہ کہتی ہے

’’کیا تم مجھے لے کر کہیں بھاگ نہیں سکتے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تو پھر تم کیوں آئے ڈرپوک! ‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

جاوید غصے سے کانپ رہا تھا۔

’’بھولی ہو سکینہ…‘‘

’’ہاں بھولی ہوں۔جبھی تو تم آئے۔تم نے مجھے…تم نے مجھے…‘‘

سکینہ میں پاگل ہو جائوں گا……بھاگنا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے سکینہ کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔ سکینہ نے آہستہ سے سر ہلایا۔‘‘ 18؎

سکینہ کے ساتھ بھاگنے سے انکار کی ایک وجہ تو دربار سے لڑائی تھی۔ لیکن اس کا ایک دوسرا خفیہ سبب بھی نظر آتا ہے۔ اور وہ ہے ’روز‘ کا خط۔ ٹھیک انھیں دنوں جب جاوید سکینہ کو لے کر بے قرار رہتا ہے اسے کلکتہ سے ’روز‘ کا ایک خط موصول ہوتا ہے۔یہ خط اس کے ارادوں کے بدلنے یا نیا منصوبہ بنانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔اس میں بہت ساری باتوں کے ساتھ یہ بھی درج ہے

’’بڑا جی چاہتا ہے کہ تم یہاں آتے۔ذرا گپ شپ ہوتی، ذرا دھوپ چھائوں میں آوارہ پھرتے…ان ہی جگہوں میں……

جب بھی فرصت ملے ضرور آئو۔اپنے اس شہر کو مت بھولنا جس نے تمھیں نبض پر انگلیاں رکھنا،زخم پر نشتر چلانا اور ڈوبتی ہوئی کشتیوں کو بچانا سکھایا ہے……‘‘ 19؎

اس مقام پر جاوید ایک کشمکش کا شکار نظر آتا ہے۔ وہ ایک اندرونی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔ جاوید کو ’روز‘ سے عشق ہے اور سکینہ کو جاوید سے۔جاوید بیک وقت دو کشتیوں پر پیر رکھے ہوئے ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اسے کدھر جانا  چاہیے۔ وہ سکینہ کے ساتھ بھاگ بھی نہیں سکتا اور روز کو بھول بھی نہیں پا رہا۔ سکینہ اس کی ایسی مریضہ ہے جس نے خود اسے اپنا مریض بنا دیا ہے، اور ’روز‘ اس کی کلکتہ کی وہ دوست ہے جس کے ساتھ اس نے زندگی کی کئی خوبصورت شامیں گزاری ہیں۔ یہ کشمکش پوری کہانی میں اخیر تک برقرار رہتی ہے۔اور قاری کے لیے ایک تجسس برقرار رکھتی ہے۔

کہانی کا دوسرا اہم کردار ’عبد الجبار‘ ہے۔ اس کردار میں جاگیردارانہ نظام کے مالک کی تمام صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ عبد الجباروقفے وقفے سے اپنے کمیروں،نوکروں اور ماتحتوں کو ڈانٹ پھٹکار کراورانھیں مار کر اپنے رعب کا مظاہرہ بھی کرتا رہتا ہے۔ عام جاگیرداروں کی طرح اس کے اندر بھی اخلاقی کجی اور جنسی اشتعال پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہی نوکر کرار خاں کی بیٹی ’گلبیا‘ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ عبد الجبار اپنی ملکیت برقرار رکھنے کے لیے طرح طرح کے گر اپنانا بھی جانتا ہے۔ داروغہ کرن سنگھ کو اس نے اپنا غلام بنا رکھاہے۔ اسے لوگوںکو خریدنے کا ہنر آتا ہے۔وہ اس کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کرتا ہے اورپرتکلف دعوتیں کرتا ہے۔ لیکن جب جاوید جیسے خوددار انسان پر اس کا یہ فسوں چلتا دکھائی نہیں دیتا تو وہ جز بز ہو جاتا ہے۔یہاں تک کہ جاوید پرجان لیوا حملہ بھی کروا دیتا ہے۔ لیکن جاوید بچ جاتا ہے۔ آخر کار جب عبد الجبار کو اپنی شکست نظر آنے لگتی ہے تو وہ تصوف کا لبادہ اوڑھ لیتاہے۔ اسے اپنے باپ کو زہر دے کر مار ڈالنے کا خوف ستانے لگتا ہے۔ وہ باپ کے مزار پر عرس کرواتا ہے، اس کے نام سے اسکول اور ہسپتال قائم کرتا ہے اور خود کو علاقے کا ایک ولی اور پیر ثابت کرنے میں لگ جا تا ہے۔ یہ عبدالجبار کی اندرونی شکست کا المیہ ہے۔ وہ نہ تو شکر مل لگا سکا اور نہ ہی جاوید کو اپنا غلام بنا سکا۔ ساتھ ہی جوان بہن کا گھر میں واپس لوٹ آنا اس کی شرمندگی کاسب سے بڑا سبب بن گیا تھا۔عبد الجبار کی طبیعت میں ایک طرح کی ہوس،ہٹ دھرمی اور لالچ کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے کا ہنر بھی پایا جاتا ہے۔ اگر اس مقام پر پہنچ کر عبدالجبار تصوف کا لبادہ نہ اوڑھتا تو یا تو وہ خود کشی کر لیتا یا اپنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل کر دیا جاتا۔یہ اس کی ہوشیاری ہی تھی کہ اس نے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا اور ایک ایسا چولہ زیب تن کیا جس سے لوگوں کو عقیدت ہوجائے اور عوام اس کی خدمت گزار بنی رہے۔

عبد الجبار کے کردار میں ایک تقلیب اور تبدیلی پائی جاتی ہے۔ وہ جمود کا شکار نظر نہیں آتا۔ وہ معاملات کو اپنے مطابق سلجھانے کے لیے کئی دائو پیچ اپناتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے لیے مسیحا بھی ہے۔ اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دولت کے سہارے اپنے مخالفین کو زیر کر لیا جائے۔ اگر وہ اس میں ناکام ہوتا ہے تو پھر ڈرانے اور دھمکانے پر آ جاتا ہے۔ اور جب اسے یہاں بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا تو وہ خون کا پیاسا بن جاتا ہے اور یہ اس کا آخری حربہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ناول میں عبد الجبار کا آخری حربہ بھی جاوید اور پرمیشور سنگھ کی مستعدی سے ناکام ہو جاتا ہے۔ اور یہ ناکامی عبدالجبار کی سب سے بڑی شکست اور ہراسانی پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس وقت تک اس کا مشیر خاص اور قانونی چارہ ساز ’کرن سنگھ‘ بھی اس سے منھ موڑ چکا ہوتا ہے۔ لہذا اب وہ ایک ایسا حربہ اپناتا ہے جس سے جان کی امان بھی مل جائے اورعلاقے میں عزت بھی بنی رہے۔ لہذا وہ تصوف کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے۔ ناول نگار کے مطابق

’’وہ دیکھتے ہی دیکھتے کہاں پہنچ گیا تھا۔ اس نے اپنے روزہ نماز،اللہ پیر اور دین دنیا کی باتوں سے اپنے چاروں طرف ایک پاک فضاکا جالا سا بن دیا تھا۔ ‘‘ 20؎

 عبد الجبارکو اس لبادے میں بھی کوئی راحت محسوس نہیں ہوتی اور وہ اندر ہی اندر عجیب پریشانی میں مبتلا رہتا ہے۔

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

 اس کی یہ پریشانی ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی عبادت اور دین داری محض ایک ڈھونگ تھا۔ اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ وہ خود ہی کمرے میں بڑبڑاتا رہتا ہے اوراس کاذہنی توازن بگڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے موقعے پر اس کے منھ سے بہت ہی عبرت آموز جملے نکلتے ہیں

’’لوگو مجھے دیکھو اور عبرت پکڑو۔ سارے پاپ کرو مگر اپنے باپ کو زہر نہ دو۔ جتنی چاہو مچھلیاں پیٹ میں اتار لو مگر یاد رہے مچھلی پھنسانے والی بنسی خود نہ نگل جائو… … بس یہی زندگی کا راز ہے۔ یہی ہے عزت کا مقام!‘‘ 21؎

عبد الجبار کا تصوف محض ایک دکھاوا تھا،ورنہ وہ اپنی حرکتو ں سے اب بھی باز نہیں آیا تھا۔ جس کا ثبوت اس وقت ملتا ہے جب اس کا منشی اس کے آدمیوں کے مارے جانے کی خبر اسے سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ ’’درخت تو سرکار چیرمین کے آدمی کاٹ لے گئے‘‘ اور عبد الجبار یہ سن کر اپنی تسبیح فرش پر دے مارتا ہے۔جو اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں لٹکی ہوئی تھی۔ کہانی سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عبد الجبار کی للہی اور خدا ترسی محض اس لیے تھی کہ وہ دوسروں کو اس کے ذریعے ڈرا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کے سوتیلے بھائی اپنا حصہ مانگنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں تو وہ انھیں ان کی بد اعمالیوں سے ڈراتا ہے اور کہتا ہے

’’ابّا نے تمھارے لیے جو چھوڑا تھا وہ تم کو مل گیا اور کیا چاہتے ہو؟ آخر تم لوگوں نے چار چار محل کیوں بسائے۔یہی نہیں تم لوگوں نے اپنے یہاں کی مامائوں کے حرامی بچوں سے حویلی کو بھر دیا ہے آخر یہ کیا اندھیر ہے…خدا کو کیا منھ دکھائوگے…شرم آنی چاہیے۔‘‘22؎

لیکن عبد الجبار کی یہ ساری نصیحت اس وقت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور اس پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے جب اس کا بھائی مخدوم پلٹ کر اس سے کہتا ہے

’’سرکار آپ کیا فرما رہے ہیں۔ گلبیا کو مرے ایک سال بھی نہیں ہوا ہے۔اس کو کہتے ہیں سو چوہے کھا کے بلّی حج کو چلی۔‘‘ 23؎

عبد الجبار کے لیے یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا،بلکہ اس کی پوری زندگی پر لعنت تھی۔ یہ اس کے بڑکپن کی توہین، اور اس کی دکھاوے کی خدا ترسی کا بھانڈا پھوڑ تھا۔ پہلی بار کسی اپنے کے سامنے وہ اتنا شرم سار اور ذلیل نظر آیا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ ’’اس اچانک حملے سے بالکل چت پٹ ہو کر رہ گیا‘‘۔اسی ریاکاری کے سبب عبد الجبار کی زندگی کا آخری وقت بہت ہی عبرت ناک ہوتا ہے۔ وہ خود اپنے انجام کو محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے

’’یاد ہے یاد ہے ابا۔ اپنا ایک ایک گناہ یاد ہے۔ یہ جہاز ڈوبے گا۔ اس میں ایک ایک ہیرے کے ساتھ سوسو گناہ لدے ہوئے ہیں۔ گناہوں کے اس جہاز کو ڈوبنے سے کون بچائے گا۔ کوئی نہیں!‘‘ 24؎

ناول میں’سکینہ‘ کا کردار ایک موقع کے علاوہ پوری کہانی میں منفعل نظر آتا ہے۔ وہ ہسٹیریا کی شکار اور محبت کی پیاسی ہے۔لیکن وہ نہ تو اپنے بھائی سے بغاوت کی ہمت رکھتی ہے اور نہ ہی اپنے اوپر ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکتی ہے۔ اسے جب جاوید کا ساتھ ملتا ہے تب تھوڑی سی ہمت کا مظاہرہ کرکے بھاگ چلنے کا مشورہ دیتی ہے۔البتہ وہ زندگی کے مصائب و آلام سے بخوبی واقف ہے اور کانٹوں میں زندگی گزارنے کی اذیت سمجھ چکی ہوتی ہے۔ اس کی باتیں بعض دفع نہایت فلسفیانہ اور فکر انگیز ہوتی ہیں۔مثلااس حویلی میں رہ کر اپنی ذات اور زندگی کے متعلق اس نے جو نتیجہ اخذ کیا تھا وہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے

’’میری تکلیف یہ ہے ڈاکٹر کہ میں ہوا نہیں ہوں‘‘ 

’’ہاں تم ابھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے نا۔ جنگل میں تمھیں کچھ نظر نہ آیا۔ جنگل میں مجھے بہت کچھ نظر آتا ہے۔‘‘

تم درخت سے پھل نوچ سکتے ہو۔اس کی شاخیں توڑ سکتے ہو اور جی میں آئے تو……‘‘

’’اور جی میں آئے تو کاٹ کر گرا سکتے ہو۔‘‘

ڈاکٹر ان درختوں میں جو ہوا چیخ رہی ہے کیا تم اس کو اپنی مٹھی میں پکڑ سکتے ہو؟  اس کو تلوار سے کاٹ سکتے ہو……؟‘‘

’’تکلیف، تکلیف، تکلیف… …میں درخت ہوں۔  ہوا بننا چاہتی ہوں۔  درباری باغ کے درختوں میں ہر سال پھل آتے ہیں۔  کچھ پھل کھائے جاتے ہیں۔  کچھ بک جاتے ہیں…… درخت بھی بکتے ہیں … لیکن لوگ ہوا کو نہ بیچ سکتے ہیں نہ خرید سکتے ہیں…‘‘25؎

 سکینہ کا یہ شعور کہ ’ہوا‘درخت کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے اور پھر درخت اور ہوا کے تعلق سے زندگی کو اس طرح جوڑ کر دیکھنے کی کوشش، اس کے اندر چھپی ہوئی ایک تفکرانہ صلاحیت کا پتا دیتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان الفاظ میں اس کا درد نہاں بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سکینہ کے ان الفاظ کے پیچھے کہانی کا ایک نیا منظرنامہ چھپا ہواہے، جسے علامات واستعارات کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں سکینہ کا اپنا درد  بیان نہ کر پانے کی کسک بھی دکھائی دیتی ہے۔ جب جاوید کا ساتھ ملنے کی امید ٹوٹ جاتی ہے تو سکینہ خودکلامی کرتی ہے، اس خودکلامی میںآنے والے بیشترالفاظ گہرے معانی لیے ہوئے ہیں۔وہ کہتی ہے

’’لو یہ کھیل بھی ختم ہوا۔ کون کس سے کھیل رہا تھا۔ میں کھیل رہی تھی یا ڈاکٹر۔ نہیں میں کھیل رہی تھی۔ میرے دل میں تو چاند توڑ لینے کی تمنا ابھری۔بیوقوفی چکور اڑتا ہے، گاتا رہتا ہے اور اڑتا رہتا ہے اور چاند کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا۔ صبح ہو جاتی ہے اور چاند روشنی کے سمندر میںڈوب جاتا ہے چکور تمھارے پر کترے گئے! لیکن یہ پر تو کب کے کترے جا چکے تھے۔ ان دیواروں اور پنجرے میں فرق بھی کیا ہے۔ تیلیاں نہ ہوئیں دیواریں ہوئیں۔ تیلیوں سے ہوائیں اور روشنی تو چھن کر آتی ہے۔ اور دیواروں سے ہوائیں اور روشنی دونوں سر ٹکرا ٹکرا کر لوٹ جاتی ہیں۔ اب میں دیکھ رہی ہوں… یہ سپنے ہیں یا حقیقت… میں نہیں جانتی۔ کوئی مجھے بتائے۔ میں ساحل ہوں۔ میں کہیں شروع نہیں ہوتی۔ میں کہیں ختم نہیں ہوتی۔ اور یہ خواب یہ بے چین سمندر آتے ہیں مجھ سے ٹکراتے ہیں اور لوٹ جاتے ہیں، ٹکراتے ہیں اور پاش پاش ہو جاتے ہیں… ہائے میرے سہانے خواب! اور اب میںدیکھ رہی ہوں یہ لہریں دور ہوتی جا رہی ہیں، خواب تھک گئے..... یہ لہریں جس افق سے پھوٹی تھیں اسی افق میں کھو گئیں۔ اندھیرا چھا رہا ہے۔ کسی ان دیکھے مچھیرے نے روشنی کا جال پھینکا اور جب شام ہوئی اپنا جال کھینچ لیا۔ جال خالی ہے۔ ہوا تیز ہے اور اندھیرا گھپ…  میں ایسے میں کیا کروں؟‘‘ 26؎

اس اقتباس میں استعمال ہونے والے الفاظ مثلا کھیل، چاند، چکور، کترے ہوئے پر، پنجرہ، دیوار، تیلیاں، روشنی، ہوائیں،ساحل، خواب، بے چین سمندر، لہریں، مچھیرااورجال وغیرہ ایسے الفاظ ہیںجو اپنے حقیقی معنوں سے بہت آگے نکل کر مفہوم بیان کرتے ہیں۔ یہ’ کھیل‘ کوئی معمولی کھیل نہیں بلکہ زندگی کا رزم نامہ ہے۔ ان الفاظ میں زندگی کے مشکل حالات کو علامتی اور استعاراتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک فلسفیانہ فکر بھی ہے جو سکینہ کی فہم وفراست کا پتا دیتی ہے۔

 سکینہ اپنی ان تمام خوبیوں کے باوجود،جاوید کے منع کرنے کے بعدمحض ایک Object کی طرح استعمال کی جاتی ہے۔اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کر دی جاتی ہے اورمزاحمت و انکار کا کوئی جذبہ اس کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ وہ داستان کی کتابوں سے شغف رکھتی ہے اور بہادری کے قصے بھی پڑھتی آئی ہے۔ لیکن شاید ان داستانوں سے اس نے شہزادوں کی بہادری کے سبق ہی سیکھے تھے، شہزادیوںکے آہنی فیصلوںکے نہیں۔یہی وجہ ہے کہ سکینہ اپنی تمام تر ذہانت و فراست کے باوجود ایک مظلوم ہی رہ جاتی ہے۔ اور فخرالدین کے گھر سے واپس بھیج دیے جانے کے بعد پھر اسی حویلی کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھتی ہے۔

’گلبیا‘ جو کہ درباری نوکر کرارخاں کی بیٹی ہے، اس کی کہانی بھی’ سکینہ‘ کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ بحیثیت عورت دونوں کا درد قریب قریب یکساں نظر آتا ہے۔ گلبیا ایک کھلتی ہوئی کلی تھی جس پر سرکار کی نظر پڑ گئی اور اس نے اسے دھیرے دھیرے پوری طرح مسل ڈالا۔ لیکن بحیثیت انجام ان دونوں کرداروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ایک جاگیردار کی بہن اور محل کی پروردہ ہے، تو دوسری ایک درباری نوکر کی بیٹی اور جھوپڑی میںپلنے والی غریب لڑکی۔ گلبیا اپنی عصمت لٹا کر بھی زندہ نہ رہ سکی۔ اور سکینہ اپنا سب کچھ لٹا کر اور ایک بچے کو بھی گنوا کر زندہ ہے۔ کیوں کہ سکینہ جس خاندان سے تعلق رکھتی تھی وہاں عزت سے زیادہ زندگی عزیز تھی اور دولت ان سب کا سہارا بن جاتی تھی۔لیکن گلبیا کا باپ خود اس کا دشمن بن بیٹھا تھا اور اتنی بے عزتی کے ساتھ جینے کی اس میں ہمت نہ تھی۔ اس لیے اس نے زہر کی شیشی اپنے ہونٹوں سے لگا کر ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کر لی۔ گلبیاکا کردار عبد الجبار کے استحصال اور ظلم کی سب سے دردناک مثال ہے۔ جو عبد الجبار کی ہوس اور مردہ انسانیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

’کرن سنگھ‘ نے ایک چاپلوس داروغہ کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ وہ پوری زندگی سرکار کو خوش کرنے اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے میں گزار دیتا ہے۔وہ عبد الجبار کا مشیر خاص بھی ہے اور شریک جرائم بھی۔ ایک موقع پر ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ عبد الجبار اپنی تمام تردولت و ثروت کے باوجود کرن سنگھ کا محتاج ہے۔ کرن سنگھ اور عبد الجبار کا رشتہ،دولت و سطوت کا رشتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حالات بے قابو ہونے لگتے ہیں تو عبد الجبارکرن سنگھ پر برس پڑتا ہے

’’یہ سب کیا ہو رہا ہے کرن سنگھ……کیا تمھارا دماغ خراب ہو گیاہے۔‘‘

’’یہ سب کس کی کارستانی ہے بولتے کیوں نہیں۔سانپ سونگھ گیا ہے۔‘‘

’’تمھیں توہر وقت اپنی پڑی رہتی ہے…سوچویہ دربار کا سوال ہے…‘‘27؎

عبد الجبار کی یہ بوکھلاہٹ صاف اشارہ کرتی ہے کہ اس کی دولت ایک عہدے کے سامنے کم تر درجے کی چیز ہے اور وہ کرن سنگھ کی مدد کا محتاج بھی ہے۔ گرچہ اس کی یہ محتاجگی فقیروں والی نہیں۔ کیوں کہ اس نے کرن سنگھ پر بے دریغ مال خرچ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج اس پر رعب جما رہا ہے۔ کرن سنگھ کی خاموشی ہمیں ایک اور نقطے کی طرف لے جاتی ہے اور وہ یہ کہ دولت مندوں کا احسان لینے کے بعد صاحب منصب کی بھی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ یہاں کرن سنگھ بھی اپنے رسوخ کے باوجود ذلیل ہو تا دکھائی دیتا ہے۔

کرن سنگھ عبد الجبار کا مشیر خاص اور منصوبہ ساز بھی ہے۔ ناول میں تمام بڑے واقعات اسی کی سازش کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ عبد الجبار کو مشورہ دیتا ہے اور عبد الجبار کے پالتو کارندے اسے انجام دیتے ہیں۔ ایسے ہی واقعات میں پرمیشور سنگھ کو حالت علالت میں زہر دینا اور پھر ڈاکٹر جاوید پر جان لیوا حملہ کروانا بھی شامل ہے۔ عبد الجبار کو مشورہ دیتے ہوئے وہ کہتا ہے

’’ہوتا سوتا……کیا کیا جا سکتا ہے۔ سوچو بتائو۔‘‘ سرکار نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔

’’سرکار‘‘ کرن سنگھ کی آواز گلے میں پھنس گئی۔سرکار… اگر پرمیشور سنگھ…… اس نے ہاتھ اٹھایا اور اشارہ کیا۔ جس کا مطلب تھا قصہ پاک!

’’اس کے بعد…ہاں اس کے بعد……میں جاوید کا قصہ پاک……‘‘ 28؎

کرن سنگھ کی اسی سازش کے مطابق آگے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ کرن سنگھ ہسپتا ل کے کمپونڈر درگاپرشاد کو پیسوں کی لالچ دیتا ہے اور سرکار کی دھمکی سناتا ہے جس سے خوف زدہ ہو کر وہ پرمیشور سنگھ کو زہر کاانجکشن لگا دیتا ہے۔ لیکن جلد ہی اسے اپنے گناہ کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ دوڑ کر جاوید کے قدموں میں گر کر روتے ہوئے کہتا ہے

’’ میں لوبھ میں آ گیا ڈاکٹر صاحب……مجھے بہت ڈرایا تھا کرن سنگھ نے… اور سرکار نے کہا تھا…‘‘  29؎

لیکن آخر میںکرن سنگھ کی ہوشیاری اسے سرکار کی نظروں سے گرا دیتی ہے اور عبدالجبار اس سے ان بن کر بیٹھتا ہے۔ کرن سنگھ کا کردار کہانی میں واضح نہیں ہوتا۔البتہ اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے عبدالجبار کے مخالفین سے ہاتھ ملا لیا ہے اور اب انھیں لوگوں کی چینی مل بھی لگ گئی ہے۔ ناول میں کرن سنگھ کے عادات و اطوار اور گفتگو سے ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے جو تادیر ذہن میں محفوظ رہتی ہے۔

حاشیائی کرداروں میں ’جاوید کے والد‘ کی جفاکشی اور قربانی بھی قابل تعریف ہے۔وہ اپنے بیٹے کو اعلی تعلیم دلانے کے لیے اپنا کھیت تک بیچ دیتا ہے۔ ایک مرتبہ جب اس کے گائوں کے مولوی نے بیٹے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہی تو اس کا باپ شیر کی طرح بپھر گیا اور اس نے مولوی پر حملہ کر دیا۔ اس کا یہ حملہ دفاعی تھا، کیوں کہ وہ کبھی کسی سے نہیں الجھتا تھا۔ اور نہ ہی کسی سے بلا وجہ کوئی امید رکھتا تھا۔ اس موقعے پر اس کی زبان سے نکلا ایک ایک لفظ قیمتی معلوم ہوتا ہے

’’میں کہتا ہوں جب میں کیچڑ میں ڈھیلا نہیں پھینکتا توکیچڑ میرے پیروں سے کیوں چپکتا ہے۔ میں کہے دیتا ہوں پھر کسی نے حرامی پن کیا تو خون پی جائوں گا، مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ تمھارے قاضی کا بھی نہیں اور تمہارے باپ انگریز بہادر کا بھی نہیں۔‘‘ 30؎

یہ جرأت اور جواں مردی جاوید کے والد میں کہاں سے آئی تھی؟ اس کے پیچھے بھی ایک راز ہے۔ جاوید کے والد کی آنکھوں میں لپکتے ہوئے شعلوں کا دیدار جاوید بہت دنوں سے کرتا آیا تھا، لیکن اس نے اس شعلگی کی وجہ کبھی نہیں جانی تھی۔ یہ شعلہ بھڑکایا ہوا ہے اس نظام کا،جہاں غریب کی بیوی درد زہ سے کراہ رہی ہوتی ہے اور ڈاکٹر، جاگیردار کی آنکھ کامعمولی سا علاج کرنے کے لیے، ڈولی میں بیٹھ کر روانہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ غریب کی بیٹی پچھاڑیں کھا کھا کر مر جاتی ہے۔ایسی صورت میں اس کا یہ عہد کرنا کہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنائوں گا،ایک نظام کے خلاف بغاوت کی چنگاری کا روشن ہو جانا ہے۔ اس کی آنکھوں کے یہ شعلے بہت کچھ بیان کر رہے ہوتے ہیں اور جہاں بھی اس شعلے کا ذکر آیا ہے ایک عجیب سی علامتی اور استعاراتی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر یہ چند جملے دیکھیے

’’ایک بار جب اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے جاوید کے سر پر ہاتھ پھیر کر اس کی ذہانت اور پڑھنے لکھنے کی تعریف کی، تو اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کی انگلیاں کانپ رہی ہیں۔مونچھیں پھڑک رہی ہیں اور آنکھوں میں وہی شعلہ کوند گیا ہے جس پر وہ جان دیتا تھا۔ جب ہی تو اس نے اپنے اسکول کے بہت سے ہم عمر لڑکوں کو یہ خبر سنا کر بھونچکا کر دیا تھا کہ ’’ میرے ابّا جادوگر ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آگ جلتی ہے۔ ان کو غصہ کبھی نہیں آتا۔وہ جتنا زیادہ پیار کرتے ہیں یہ آگ اتنی ہی چمکتی ہے.....‘‘ 31؎

’’جاوید نے لالٹین کی زرد روشنی میں اپنے باپ کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شعلہ جل اور بجھ رہا تھا۔‘‘ 32؎

’’ایک گرم ہاتھ نے اس کی پیشانی کو چھوا اور اس کے بال سے کھیلنے لگا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ایک سنہرا شعلہ اندھیرے میں کوند گیا۔’’ ابّا.....‘‘ جاوید اپنے باپ سے لپٹ گیا اور رونے لگا۔ ‘‘33؎

یہ شعلہ آخر کیسا شعلہ ہے۔ جس سے خوف تو آتا ہے مگر یہ غصے کی علامت نہیں۔ یہ آگ اس وقت اور چمکتی ہے جب جاوید کا باپ پیار کر رہا ہوتا ہے۔ پیار کے سبب سلگنے والا یہ شعلہ کسی فوری غیظ و غضب کے سبب پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس کا رنگ سنہرا ہے اور یہ جاوید کولبھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید اپنے ابا کو بہت بڑا جادوگر سمجھتا ہے۔جاوید کے والد کی آنکھوں کا یہ شعلہ در اصل اس آگ کی طرف اشارہ کر رہا تھا،جو ان کے دل میں لگی ہوئی تھی۔ اس آگ کو روشن کرنے میں ایک ایسا دلدوز حادثہ شامل ہے جس میں اس کی بیوی علاج کے لیے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ شعلے میں حرارت ہوتی ہے،جو کہ بغاوت اور زندگی کی علامت ہے۔ یہاںعلّامہ اقبال کی شاعری سے شرر اور شعلے کی وسیع معنویت کا اندازہ  لگایاجا سکتا ہے۔چند اشعار پر نظر ڈالیے      ؎

محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے

ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے

تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر

کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری

یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں

شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا

مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ

کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک

اقبال نے جس قسم کی شعلگی کا مطالبہ کیا ہے، ویسی ہی شعلگی جاوید کے والد کی آنکھوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس میں ظالم کے آشیانے کو پھونکنے کی طاقت بھی ہے اور وہ سوز دروں بھی جو غلامی کی زنجیروں سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے۔ شاید اسی شعلگی کا نتیجہ تھا کہ ڈاکٹر جاوید کے مزاج میں ہمیں باغیانہ تیور دکھائی دیتے ہیں۔

جا وید کے والد کی شخصیت کا ایک اورپہلو قابل ذکر ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کے اندر ایک انسانی  ہمدردی اور بلند فکری پائی جاتی ہے۔ وہ تدبر کرنے والا اور رسم و رواج سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بیوہ بہن کو اپنے گھر میں عزت کے ساتھ رکھتا ہے بلکہ قریب کے ایک رشتے دار کی جوان بیوہ سے شادی بھی کر لیتا ہے۔ اور اس طرح وہ دو دو بیوہ عورتوں کی کفالت کی ذمے داری اپنے سر لے لیتا ہے، بغیر اس فکر کے کہ معاشرہ اسے کیا کہے گا۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے

’’یہ الّو کے پٹھے سمجھتے ہیں اگر میں ان کی لڑکیوں سے شادی کر لوں تو وہ کبھی بیوہ ہو ہی نہیں سکتیں۔‘‘34؎

اسی طرح ایک اور موقع پر اس کی فراست دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس دن وہ مولوی کی پٹائی کے بعد اپنے آنگن میں لیٹا بیڑی پی رہا ہوتا ہے اسے نیلے آسمان پر بہت سی چیلیں اڑتی ہوئی اور گوشت کا ٹکڑا جھپٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اور پھر وہ ایک نہایت با معنی جملہ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے۔ کہتا ہے

’’آدمی اور چیل میں زیادہ فرق نہیں ہے۔‘‘ 35؎

یہ جملہ بہت ہی غور و فکر کے بعد ہی کہا جا سکتا تھا۔ اس سے جاوید کے والد کے اندر موجود اس صلاحیت کا اندازہ ہوتاہے جو اپنے گرد و نواح کے حالات اور قدرتی مناظر دیکھ کر، معاشرہ اور فرد کے بیچ رشتے کا کوئی نتیجہ اخذکرتی ہے۔

 ان کرداروں کے علاوہ ہسپتال میں جاوید کے دوستوں میں،کمپونڈر درگاپرساد، کلیا، جنگلی، چماری، نریش بابو وغیرہ وفادار اور جاں نثار ساتھیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، جو ہمہ وقت جاوید کی مدد کو تیار رہتے ہیں اور اس کے اشاروں پر جان چھڑکتے ہیں۔ ’’پرمیشور سنگھ‘‘ جہاں سرکار عبد الجبار کا دشمن نظر آتا ہے وہیں جاوید کی ایمان داری اور اس کی خدمت گزاری کا قائل بھی ہے۔ اس کی باتوں سے ایک معصومیت ظاہر ہوتی ہے جو اسے ایک بہادر اور نڈر نوجوان ثابت کرتی ہے۔ بحیثیت ایک ماں،بہن اور عورت کے،جاوید کی ’بوا ‘کا کردار قابل تعریف ہے۔ جو خودبیوہ ہوتے ہوئے جاوید کی پرورش کرتی ہے اور اسے ایک ماں کی طرح اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ اس کی سچائی، خدا ترسی اور خلوص کا یہ عالم ہے کہ اس کی روح جا نماز پر نماز پڑھتے ہوئے پرواز کرتی ہے۔

انور عظیم اپنے اسی ناول کے کرداروں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں

’’جب ناول ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس ناول کے کردار میری زندگی کا حصہ ہیں۔ اس کی کہانی خود میری زندگی کی دیکھی ان دیکھی کڑیاں ہیں۔ یہ کڑیاں اکثر تحت الشعور میں کھو جاتی ہیں۔ یہی کڑیاںانسان کے سماجی اور نفسیاتی عمل اور ردعمل کی زنجیر بن جاتی ہیں، جن کی جھنکار شعور کے گنبد میں گونج اٹھتی ہے۔ یہ گونج مجھے اس وقت سنائی دی جب میں نے ناول کا مسوّدہ مکمل ہونے کے بعد دوبارہ پڑھا۔ اور ’بے معنی‘ کردار اور واقعات، جن کو میں نے بچپن اور لڑکپن میںکبھی حیرت سے اور کبھی ٹھنڈی بے نیازی سے دیکھا تھا، اب ایک نئی اور بھرپور معنویت کے ساتھ ابھر آئے تھے۔ ‘‘  36؎

انور عظیم کے اس قول سے ان کے ذریعے خلق کیے گئے متن میں نہ تو کوئی کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی قدر وقیمت میں اضافہ ہو تا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہم اس اقتباس کے تناظر میں بھی کرداروں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔انور عظیم کے مطابق انھوں نے ان کرداروں کو اپنی ’زندگی کا حصہ‘ تسلیم کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایک ناول نگار اپنے گرد و پیش کے ماحول سے ہی کردار تراشتا ہے۔ اس اعتبار سے انور عظیم نے بھی وہی کیا۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ مصنف ان کرداروں میں’ تحت الشعور کی کڑیاں ‘ اور’سماجی اور نفسیاتی عمل اور ردعمل کی زنجیریں‘ تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو انور عظیم اپنی کوشش میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں اور ان کے کرداروں میں، خواہ ڈاکٹر جاوید ہو یا سکینہ اور عبد الجبار، تینوں کے یہاں نفسیاتی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اور سماجی عمل اور رد عمل بھی دکھائی دیتا ہے۔ اگر عبد الجبار کی شخصیت کو’ عمل‘ اور جاوید کو’ رد عمل‘ کا نام دیاجائے تو شائد غلط نہ ہوگا۔ انور عظیم ایک ایسی بات بھی لکھتے ہیں جو جاوید کی شخصیت کی تفہیم کا راز پیش کر تی نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں

’’میں سمجھتا ہوں کہ انسان کے ظاہر اور باطن کے تاریک اور روشن گوشوں کو سمجھے بغیر اس کی کہانی بیان نہیں کی جاسکتی۔‘‘ 37؎

’انسان کے ظاہر اور باطن‘ گوشوں کی تفہیم کی جاوید سے بہتر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔جہاں پورا کا پورا ناول جاوید کو دو طرفہ کشمکش کا شکار ثابت کرتا ہے۔ ظاہری کشمکش کا سرا عبدالجبار ہے اور باطنی کشمکش جاوید کی اپنے دل سے ہے۔ اس میں سکینہ اور روزبھی شامل ہیں۔ شہر اور گائوں کی دو مخالف تہذیبیں بھی ہیں اور کچھ آدھی ادھوری اور کھوئی ہوئی یادوں کے سلسلے بھی۔ دراصل ہر انسان کا یہی المیہ ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت دو سطحوں پر زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ اس میں سے ظاہری سطح سب کو نظر آتی ہے جب کہ باطنی سطح پوشیدہ رہتی ہے۔ فن کار کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کے ظاہر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کا بھی سراغ لگائے۔ اس اعتبار سے جاوید کی زندگی کے دونوں پہلو ہمیں اس ناول میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

منظرنگاری کا جائزہ

انور عظیم کو فطرت کی تصویر کشی اور منظر نگاری پر عبور حاصل ہے۔اس ناول میں انھوں نے وقت کے ساتھ موسم کی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کو بھی بیان کیا ہے۔ ناول کی شروعات موسم سرما سے ہوتی ہے۔اور پھر کہانی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ موسم بھی بدلتا رہتا ہے۔ کبھی گرمی کا موسم آتا ہے، کبھی برسات کا موسم اورکبھی پھر سردی لوٹ آتی ہے۔ انور عظیم واقعات کے مزاج کے موافق موسم کی تصویر کشی کرکے اس کے تاثر میںاضافہ کر دیتے ہیں۔ جس سے ماحول کی عکاسی کے ساتھ ساتھ فضا سازی میں بھی مدد ملتی ہے۔ موسم سرما کی صبح کی منظر کشی وہ کچھ یوں کرتے ہیں

’’پو پھٹ چکی تھی۔فضا کی پر اسرار دھند پگھل رہی تھی، اور افق پر روشنیوں کے سرخ پھول کھلنے لگے تھے۔ ان کے رنگین عکس سے گھاس اور پودوں پر جمی ہوئی شبنم کے موتی بھی جھلملانے لگے۔مانگ سے افشاں جھڑ گئی اور ندی کے پیچ و خم میں بجلیاں کوندنے لگیں…‘‘ 38؎

موسم گرما کے بعد برسات کا سہانا موسم آتا ہے اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھوٹ پڑتی ہے۔ مصنف اس خوبصورت موسم کا باریکی سے جائزہ لیتے ہوئے کچھ یوں تذکرہ کرتا ہے

’’برکھا رت آئی۔امڈ کے گھٹائیں چھائیں۔ جنگلوں اور پہاڑوں پر نم نم سا خنکی بھرا سکون چھا گیا۔ شکری ندی میں بھی گہری نیند کے بعد توڑی ہوئی انگڑائی کا سحر پیدا ہو گیا۔ شیشم، گولر، پیپل، برگد،امرود اور آم کے درختوں پر ان دیکھے جھولے پڑ گئے اور ان میں ان دیکھی اپسرائوں کے آنچل سرسرانے اور ایک عجیب سی بھینی بھینی خوشبو بکھیرنے لگے۔ ‘‘ 39؎

 اس طرح انور عظیم نے اس ناول کو وقت اور زمانے کے اعتبار سے تبدیل ہوتے موسموں سے ہم آہنگ کرکے،فطرت اور زندگی سے قریب ایک فن پارہ بنا دیا ہے۔ ان کی یہ کاریگری ناول کے پس منظر کو اور تقویت فراہم کرتی ہے،جو کہ سراسر ایک علاقائی تہذیب اور دیہات کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے۔ انور عظیم کی فطرت نگاری ان کے گہرے مشاہدے اور گائوں سے قریبی رشتے کی گواہی دیتی ہے۔ جہاں موسموں کی تبدیلیوں کا اثر آس پاس کے ماحول،پیڑ پودوں،اور کام کاج پر بھی پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول میں لوگ رات کو مچھلی کا شکار کھیلنے جاتے ہیں، جہاں کوئی چراغ یا لالٹین روشن نہیں ہوتی بلکہ چاند کی فطری روشنی بکھری ہوتی ہے۔

زبان وا سلوب

’دھواں دھواں سویرا‘ کی زبان عام طور پر وہی ہے جو مصنف کے افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ یعنی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ علامتی،استعاراتی اور کنایتی الفاظ کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔ اس کی پہلی مثال ناول کانام ’دھواں دھواں سویرا‘ ہے۔ یہاں دو متضاد صورتوں کو ایک ساتھ جمع کر دیا گیا ہے۔ ’سویرا‘ اپنے آپ میں روشن اور چمک دار ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اسے ’دھواں دھواں‘ سے متصف کیا گیا ہے۔ فیض احمد فیض نے اسی قسم کا مفہوم ادا کرنے کے لیے ’ داغ داغ اجالا‘ کی ترکیب وضع کی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو ’دھواں دھواں سویرا‘ اور ’داغ داغ اجالا‘ کے ایک ہی معنی نکلتے ہیں،اور دونوں تخلیق کار صبح کی رنگت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ناول کی کہانی اور نام میں انطباق کی صورت کچھ یوں نظر آتی ہے کہ جاویدایک ایماندار ڈاکٹر ہونے کے باوجود اطمینان و سکون کی زندگی نہیں گزار پا تا۔ وہ نئے نئے مسائل و مشکلات سے دوچار رہتاہے۔ جاگیر دار کی بہن سکینہ کا بھی  یہی حال ہے۔ اوریہی المیہ ایک مخالف اور مشکل فضا میں جینے کی جد و جہد کرتے دوسرے کرداروں کا بھی ہے۔’دھواں دھواں سویرا ‘کی ترکیب ناول میں موجود جاں فشاں کرداروں کی علامت بن گئی ہے۔ناول کا دوسرا نام ’’جھلستے جنگل‘‘ بھی انھیں کرداروں کا استعارہ ہے۔ جنگل اپنے آپ میں شادابی اور اطمینان و سکون کی جگہ ہے اور نافعیت اس کی پہچان ہے۔لیکن جنگل کا سب سے بڑا دشمن آگ ہے۔یہی آگ جنگل کے لیے تمام قسم کی منفی طاقتوں کی علامت بھی ہے۔ ’جھلسنا‘ جلنے کی پہلی منزل ہے۔ لہٰذا ناول نگار نے ’جھلستے جنگل‘‘ کو اپنے کرداروں کا استعارہ بنا کر ان کی غیر محفوظ زندگیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ناول نگار نے علامت کی توضیع یا استعارہ سازی کو اپنا ہدف نہیں بنایا ہے۔کہانی کے تمام کردار اور واقعات حقیقی زندگی سے لیے گئے ہیں۔ البتہ بیانیہ کو دلچسپ بنانے کے لیے بعض مقامات پر شاعرانہ تخیل، ڈرامائی کیفیت اورعلامت و استعارہ کا سہارا لیا گیا ہے۔ زاہدہ زیدی نے بھی اس ناول کے اسلوب کے متعلق کچھ ایسا ہے نتیجہ اخذ کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں

’جھلستے جنگل‘ اسلوب کے اعتبار سے حقیقت نگاری،ڈرامائی طرز اظہار، اور تخیل آفریں شاعرانہ اندازکا ایک مناسب امتزاج ہے جس میںنادر پیکر تراشی سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اور اس کی فطرت نگاری اور شاعرانہ اور ڈرامائی اندازاکثر نفسیاتی بصیرتوں اور علامتی معنویت سے بھی گراں بار ہے۔ 40؎

یہاں انور عظیم کے علامتی و استعاراتی انداز نگارش کی صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔ عبد الجبار محسوس کرتا ہے

’’اس کو اپنی زندگی ایک بڑے سے جہاز کی طرح نظر آئی۔ سمندر میں طوفان آ گیا تھا۔کالی کالی موجیں منھ پھاڑے ہوئے اژدہوں کی طرح جھپٹ رہی تھیں۔ آسمان میں ایک ستارہ نہ تھا۔ یہ جہاز ہیرے جواہر اور نہ جانے دنیا کی کیسی کیسی دولتوں سے لدا ہوا تھا۔ جہاز ڈوب رہا تھا۔‘‘41؎

اس اقتباس میں جہاز، سمندر،طوفان،موجیں،اژدہے اورہیرے جواہر وغیرہ ایک علامت اور کنایے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ یہ الفاظ اپنے حقیقی معنوں سے بلند ہو کر عبدالجبار کی زندگی کی پوری کہانی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح جاوید کا ہسپتال چھوڑ کر اپنے گھوڑے کے ساتھ جنگل کی طرف نکل جانا بھی اس کے اصل کی طرف لوٹ جانے کی علامت ہے۔ ناول میں ’شکری ندی‘ کا کردار بھی علامتی نظر آتا ہے، جو وقت اور موسم کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ دریا کی روانی، اس کا ٹھہرائو، چاندنی رات میں اس کی سطح کا چاندی کی طرح چمکنا یا اس کا سوکھ جانااصل کہانی کے اتار چڑھائو کے مطابق معلوم ہوتاہے۔ جب جب ندی کی روانی و سرشاری کودکھایا گیاہے، کہانی میں بھی کوئی خوشگوار موقع رہا ہے۔اور جب ندی میں ٹھہرائو آیا ہے توکہانی بھی متاثر ہوگئی ہے۔ جاوید کا ’گھوڑا‘ بھی بہادری اور شجاعت کی علامت معلوم ہوتا ہے۔ زاہدہ زیدی نے ’گھوڑے‘ کو باقاعدہ ایک کردارتسلیم کیا ہے۔ اس سلسلے میںوہ لکھتی ہیں

’’یہاں مناظر فطرت، جاوید اور اس گلہ بان لڑکے کے علاوہ جو جاوید کو ایک اجنبی کی طرح دیکھتا ہے، ایک اور اہم کردار بھی موجود ہے جس کو نظر انداز کر دینا تنقیدی کم مائیگی بلکہ بے صبری کے مترادف ہوگا اور یہ اہم کردار ہے جاوید کا گھوڑاجو اس کے جنم مرن کا ساتھی ہے اور مختلف موقعوں پر مختلف رول ادا کرتا ہے۔‘‘42؎

انور عظیم نے اس ناول میں گائوں دیہات کی منظر کشی کے باوجود وہاں کی علاقائی زبان کا استعمال نہیں کیا ہے۔ گائوں کے تمام حالات اور مناظر کی تصویر کشی چھوٹے چھوٹے،رواں اور سبک جملوں سے کی گئی ہے۔ البتہ ایک دو مقامات پر چرواہے یا نشیڑی کی زبان سے ایسے جملے نکلتے ہیں جو سوقیانہ ہیں اورمغلظات کے درجے میں آتے ہیں،لیکن اس کے باوجود کرداروں کے حسب حال معلوم ہوتے ہیں۔

’دھواں دھواںسویرا‘ ایک ایسے ناول کی شکل میں ابھرتاہے جس کا پس منظر دیہات ہے۔یہ جاگیردارانہ نظام اور طبقاتی ناہمواری کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں فرد اور معاشرے کی کشمکش بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ ناول ایک ایسے ایماندارکی کہانی ہے جو روایتی غلامی سے نکلنے کے لیے مزاحمت کرتاہے اور اپنی خودداری سے اس کی زنجیروں کو پاش پاش کردیتا ہے۔ ا س ناول میں ہم کرداروں کی ظاہری اور باطنی صورت حال سے آگاہ ہوکر ان کے تحت الشعور تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید کے رد عمل کے پیچھے معاشرتی مسائل کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔ یہ ناول ہمیں جاگیرداری کے فرسودہ نظام کی قباحتوں،بدعنوانیوں اور ظلم سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی اور خود اعتمادی کا بھی سبق دیتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر انسان کو اپنے کام اور  پیشے کے تئیں ایمانداری کا جذبہ بیدار رکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔

حواشی

  1.        دھواں دھواں سویرا، ازانور عظیم،مکتبۂ افکار،کراچی، 1964،ص6
  2.        جھلستے جنگل،انور عظیم، تخلیق کار پبلشرز،دہلی،1999، ص 5
  3.        دھواں دھواں سویرا، ازانور عظیم،مکتبۂ افکار،کراچی، 1964،ص10
  4.         جھلستے جنگل،انور عظیم، تخلیق کار پبلشرز،دہلی،1999ص 9
  5.          دھواں دھواں سویرا، ازانور عظیم،مکتبۂ افکار،کراچی، 1964،ص 66
  6.         جھلستے جنگل،انور عظیم، تخلیق کار پبلشرز،دہلی،1999 ص41
  7.        (ناول کے بعد، مشمولہ دھواں دھواں سویرا،ص505-508
  8.        دھواں دھواں سویرا، ازانور عظیم،مکتبۂ افکار،کراچی، 1964،ص78-79
  9.        ایضاً،ص326
  10.      ایضاً،ص509    
  11.     ایضاً،ص58
  12.      ایضاً،ص82 
  13.      ایضاً،ص82-83 
  14.      ایضاً،ص341-342
  15.      ایضاً،ص299
  16.      ایضاً،ص489-490
  17.      ایضاً،ص310-311
  18.      ایضاً،ص318
  19.      ایضاً،ص337-338
  20.      ایضاً،ص482
  21.      ایضاً،ص483
  22.      ایضاً،ص485 
  23.      ایضاً،ص485
  24.      ایضاً،ص488
  25.      ایضاً،ص227-229 
  26.      ایضاً،ص322-323
  27.      ایضاً،ص287-288
  28.      ایضاً،ص289-290   
  29.      ایضاً،ص331
  30.      ایضاً،ص57 
  31.      ایضاً،ص50 
  32.      ایضاً،ص51
  33.      ایضاً،ص53
  34.      ایضاً،ص47-48 
  35.      ایضاً،ص57
  36.      ایضاً،ص508-509
  37.      ایضاً،ص509-510
  38.      ایضاً،ص11
  39.      ایضاً،ص415
  40.       ’جھلستے جنگل …ایک مطالعہ‘ از زاہدہ زیدی،مشمولہ ’بادبان‘کراچی، شمارہ 7، ’’، ص،205
  41.      دھواں دھواں سویرا، ازانور عظیم،مکتبۂ افکار،کراچی، 1964،ص487
  42.      ’جھلستے جنگل ‘…ایک مطالعہ‘ از زاہدہ زیدی،مشمولہ ’بادبان‘کراچی، شمارہ 7 7 ‘ ص،208


Faizanul Haque

Research Scholar, Dept. of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

Mob: 8800297878

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں