9/2/23

عابد سہیل کے ترجمے: موسی رضا

 

’مشکل زندگی‘ بھی خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ایسی زندگی کا Servival صرف سبق آموز واقعات ہی ذہن نشیں نہیں کراتا بلکہ بہت سے فن بھی سکھا دیتا ہے۔ جتنی مصیبت میں شدت بڑھتی ہے اتنی ہی جوہر کی تابانی میںاضافہ ہوتا ہے۔ جولوگ کارزار حیات کی جدو جہد میں کبھی ہار نہیں مانتے اور زندگی کی مشکل کا رونا رونے کے بجائے تکمیل زیست میں خوداعتمادی سے کام لیتے ہیں، وہ اپنی شخصیت میں خوابیدہ بہت سی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ عابدسہیل نے بھی زندگی کی مصیبت کو موقع کی صورت میںقبول کیا اور صحافی،  افسانہ نگار، تنقید نگار، مرتب، مترجم اور کتاب فروش کی حیثیت سے خود اپنی پہچان قائم کی۔ عابدسہیل نے پیش ورارنہ طور پر صحافت،شوقیہ افسانہ نویسی اور ضرورتاً ترجمہ نگاری کی۔ لیکن ان تینوں ہی میدان میں وہ یکتائے روزگار ثابت ہوئے۔ ان کی صحافت اور افسانہ نگاری کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن مترجم کی حیثیت سے ان کا ذکر کم ہوا ہے۔ اس مضمون میںمختصراً ان کی ترجمہ نگاری کے بارے میںگفتگو کی جائے گی۔

شروعاتی دور میں عابد سہیل نے اپنے نام کے بجائے اپنے شاگردوں کے نام سے تراجم کیے تھے۔ اپنی ترجمہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ:

’’ترجمے سے میرا پہلا معاملہ بنگالی کہانیوں کے ذریعے ہوا جو انگریزی میں تھیں۔ان میں سے ایک ترجمہ پاکستان کے ’ماہ نو‘ میں شائع ہوا تھا اور اس کا معاوضہ مجھے بذریعہ منی آرڈر ملا تھا۔‘‘

(افسانیات، عابد سہیل، مرتبہ انیس نصرت، ایم، آر پبلی کیشنز نئی دہلی، ص 17)

عابدسہیل کے ترجمے کے اس شوق نے اس وقت مزیدتیزی اختیار کر لی جب غیرملکی ناولوں کو ہندوستانی زبان میںمنتقل کیاجا رہا تھااور قارئین اسے بڑی دلچسپی سے پڑھ رہے تھے۔ لکھنؤ میں اس وقت اردوکتابوں کے اشاعتی اداروں میں کتابی دنیا کافی آگے تھااور یہ اچھے خاصے ناول چھاپ چکا تھا۔ دیگر زبانوں کے ترجموں کا کام بھی یہاں بڑی تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا۔ عابدسہیل نے بھی کئی ناولوں کے ترجمے کیے لیکن یہ سارے کے سارے فرضی نام سے شائع ہوئے۔ سب سے پہلا ترجمہ جو عابدسہیل کے نام سے منظر عام پر آیا وہ ایڈگر ویلیس کا ناول تھا جو 1957 میں ’سبز بھوت‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔یہ کتاب انھوں نے اپنے نام سے کیوں شائع کرائی اس بارے میں اپنی خودنوشت میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’کئی ماہ پہلے منظر بھائی نے ایک دن حلیم خاں کے یہاں میرے کمرے میں بید کی ایک الماری میں سلیقے سے سجی ہوئی دس بیس کتابیں اور بستر پر دو چار ادبی پرچے دیکھ کر کہا تھا، ’’آپ ادیبوں کی طرح رہنے سہنے لگے، مگر... ‘‘ اس کے بعد کے الفاظ یاد نہیں لیکن مطلب اس کا یہ تھا کہ ادیب نہ بن پائے۔ ان کی بات کا میں نے ذرا بھی برا نہ مانا تھا.....مگر دل پر ایک بوجھ سا ضرور بیٹھ گیا تھا۔ ممکن ہے کتاب اپنے نام سے چھپوانے کا محرک یہی بوجھ رہا ہو۔‘‘( جو یاد رہا، عابدسہیل، اردواکادمی 2012ص 326)

اس کی اشاعت کے بعد عابدسہیل کو ادیب بننے کا احساس ہونے لگا اور یہ ’فخریابی‘ انھیں ایک اور ناول کی اشاعت پر آمادہ کرنے لگی۔ جس کے نتیجے میں ’سرخ انگلیاں‘ نام کا ناول وجود میں آیا۔

اس طرح کے تراجم اتنے کم وقت میں شائع ہوتے کہ لفظ بہ لفظ ترجمہ ممکن نہیں تھا اس لیے فقط مفہوم کی ادائیگی پرہی توجہ دی جاتی۔ ’سرخ انگلیاں‘ کے ترجمے میں بھی اسی طریقہ کار سے کام لیاگیا۔ اس ناول کے اختتام پر ڈاکو پانی کے جہاز سے فرار ہوجاتے ہیں۔ جب عابد سہیل ترجمہ کرتے ہوئے اس مقام پرپہنچے کہ جہاں ڈاکوؤں کے جہاز کو سمندر میں چلانا تھا تو انھیں کوئی ترکیب نہیں سوجھی کیونکہ کہانی کا سارا تانابانا تو لکھنؤ شہر کی آب و ہوا  میں بنا گیا تھا۔ فی الحال کے لیے انھوں نے جہاز کو گومتی ندی میں فروکش کر دیا کہ بعد میں کوئی ترکیب نکال لی جائے گی۔ مگر جہاں پروف ریڈنگ کی گنجائش نہ ہو وہاں ’دوبارہ‘ کا وقت کہاں آتا ہے۔ لہٰذاناول چھپ گیا اور ڈاکو اسی گومتی ندی سے پانی کے جہاز کے ذریعے فرار ہو نے میں کامیاب ہوگئے۔ کئی مہینہ بعد کتابی دنیا جہاں سے یہ ناول شائع ہوا تھا ڈھاکہ سے ایک خط عابدسہیل کے نام آیا اس میں انھوں نے لکھاتھا:

’’میں بھی لکھنؤ کا رہنے والا ہوں۔ شہر کی ترقی کا حال معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی، میرے زمانے میں گومتی ایک چھوٹی ندی تھی جو اب ترقی کر کے ماشاء اللہ سمندر بن گئی ہے۔کبھی لکھنؤ جانا ہوا توضرور دیکھوں گا۔‘‘

عابدسہیل کے باقی سارے ترجموں کی طرح یہ کتاب بھی اب دستیاب نہیں۔ مصنف نے اپنی خود نوشت میں نشاندہی کی تھی کہ کچھ عرصے تک علی گڑھ کی مولانا آزاد لائبریری کی کیٹ لاگ میں اس کتاب کا نام دیکھاگیا تھا۔ ان کے علاوہ عابدسہیل کے دیگر دستیاب تراجم کا تعارفی ذکر مندرجہ ذیل ہے۔

غیر مرئی انسان

عابدسہیل نے ایچ جی ویلس کے ناول The Invisibel man کا ترجمہ غیر مرئی انسان کے نام سے کیاجس کو کافی شہرت ملی۔ اس ناول کا ترجمہ تقریباً نصف صدی میں مکمل ہوپایا۔ اس کی کہانی بھی عابدسہیل کی باقی ساری کہانیوں کی طرح ہی بڑی دلچسپ ہے۔

عابدسہیل سے پہلے اسی ناول کے دو ترجمے ہو چکے تھے جس میں ان کے دوست کا ترجمہ بھی شامل تھالیکن دونوں ہی ترجمے ناقص تھے۔ ایک بہتر ترجمے کومنصہ شہود پر لانے کی غرض سے عابدسہیل نے اس ناول کاترجمہ شروع کر دیا۔ لیکن مصنف کا وہ وقت نہایت سخت تھا جس میں ’فرصت‘ بہت کم تھی اور یہ تمام کام وقت اور سکون طلب ہوتے ہیں۔ لہٰذایہ کام بیس پچیس صفحات سے آگے نہ بڑھ سکا۔ یہ صفحات لفافے میںمحفوظ عابدسہیل کے ساتھ زندگی کے نشیب وفرازسے گزرتے رہے اور ایک گھر سے دوسرے گھرمنتقل ہوتے گئے۔ آخر کار وہ اپنے علی گنج والے مکان میںرہنے لگے۔ ایک دن اس ہمراہ لفافے کی موجودگی کے احساس سے انھیں نہال کر دیا اور عابد سہیل نے  اس کے دوبارہ ترجمہ کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن آنے والی مصیبتوں نے انھیں پریشان کر دیا کئی با رتو راہ فرار اختیار کرنے کا بھی خیال آیا مگر ’ہمت مرداں مددخدا‘ کے سہارے ڈٹے رہے۔ آخر کار 2016 میں ’غیر مرئی انسان‘ کے نام سے موسوم یہ ناول منظر عام پر آگیا۔  261 صفحات میں پھیلے اس ناول کو مترجم نے تتمہ سمیت 29 حصوں پر منقسم کیا ہے۔ عابدسہیل نے جب اس ناول کا ترجمہ شروع کیا تھا اس وقت سوائے دو ناولوں کے ترجموں کے اور کوئی کتاب ان کے نام سے شائع نہیں ہوئی تھی مگر جب انھوںنے اس کام کو مکمل کیا تو وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے، یہاںتک کہ ان کے تینوں افسانوی مجموعے شائع ہو چکے تھے۔ غرض یہ کہ وہ ایک مکمل ادیب بن چکے تھے جن کی تحریریں حوالوں کے طور پر پیش کی جانے لگی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ترجمے میں تخلیقیت کا رچاؤ دیکھنے کو ملتا ہے جو مترجم کی زبان پر قدرت اورفن کاری پر داد دینے کے لیے اکساتا ہے۔ کتاب کا یہ اقتباس دیکھیے جس میں تخلیقی فضا کتنی حاوی نظر آرہی ہے

’’اس وقت جب رات کا اندھیرا آنکھیں ملتا ہوا بیدار ہورہا تھا اور آئی پنگ نے بینک کی چھٹی کے دن کی تباہ حال چیزوں پر خوفزدہ انداز میں نظرڈالنا شروع ہی کیا تھا، ایک پستہ قد لیکن گٹھے ہوئے جسم کا شخص جو نچا کچھا ریشمی ہیٹ لگائے تھا خاکستری چھال والے درختوں کے پیچھے بلام بریہرسٹ جانے والی سڑک پر صبح کے دھندلکے میں قدم بڑھارہا تھا۔ اسے چلنے میں تکلیف ہورہی تھی۔ وہ تین کتابیں لیے تھا جو ایک طرح کی چمک دار سجاوٹی ڈوری سے ایک ساتھ باندھ دی گئی تھیں۔ اس کے پاس ایک اور بنڈل بھی تھا جو ایک نیلے رنگ کے میزپوش میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے سرخ تمتماتے ہوئے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ تھکا ہوا ہے، جلدی میں ہے اور پریشانی اور اضطراب کے عالم میں بھی۔ ‘‘

(غیر مرئی انسان، ایچ جی ویلس، مترجم عابدسہیل، ایم آر پبلی کیشن 2016، ص116)

عابدسہیل نے پیش لفظ میں اس ناول کے بارے میں چند صفحات میں گفتگوبھی کی ہے۔ اس کے کمزور پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ناول کا بیانیہ خوب ہے اور مکالمے وقت و ضرورت کے مطابق استعمال کیے گئے ہیں جس سے ناول قاری کو اپنے سے جداہونے نہیں دیتا۔ یہ بتا پانا بھلے ہی مشکل ہو کہ’غیر مرئی انسان‘ Tragedy ہے یا  Comedy   مگر اس ناول کی کامیابی اور مقبولیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

درد کا شجر

افسانہ اور ناول سے جب ’کہانی پن‘ رخصت ہوگیا تو ایسا فکشن سامنے آیا جس میں کرداروں کی سگبگاہٹ اور محبت کی سرگوشیاں تک سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ ظاہر ہے ان کہانیوں کی عمر بہت نہیں تھی لہٰذاپھر سے کہانی اپنی اصل راہ کی طرف پلٹی اور افسانوں وغیرہ میںپیار بھری باتیں حیرت و استعجاب کے ساتھ کی جانے لگیں۔ ان ہی دنوں عابدسہیل نے بہت سے ایسے افسانے لکھے تھے جنھیں ’محبت کے افسانے‘کہاگیا۔ یہ وہی دور تھا جس میں عابدسہیل طبع زاد افسانے لکھ بھی رہے تھے اور دوسری زبانوں کے تراجم بھی کر رہے تھے۔ ان کی ترجمہ کردہ روسی، برطانوی، بنگلہ ، فرانسیسی کہانیاں کئی رسالوں میں شائع بھی ہوچکی تھیںمگر ان سب کی کوئی نقل عابدسہیل کے پاس نہیں تھی اور جوتھیں وہ انتقال مکانی کی نذر ہو گئی تھیں بس موپاساں کا افسانہ ’ڈاکٹر‘ جسے ہندوستانی رنگ ڈھنگ میں لکھاگیا تھا محفوظ رہ گیا۔پھر آٹھ دس افسانے اور یاد آگئے جس میں کیتھرائن مینسفیلڈ کا ’سیب کا درخت‘، چیخف کا ’بوسہ‘ گورکی کا ’چھبیس مرد اور ایک لڑکی‘ شامل تھے۔

 ’پرانی محنت‘ کی بازیابی ہر شخص کو خوش و خرم اور تازہ دم بنا دیتی ہے۔ یہی حال عابدسہیل کا بھی تھا۔ اس چھوٹے سے روزن نے ان کو ماضی کی محنت ومشقت سے معطر جھونکے کا احساس دلادیا اور ایک بار پھر انھوں نے زمانہ رفتہ کو یاد کرتے ہوئے چیخف کے The Kissکا ترجمہ ’بوسہ‘ اور The Darlingکا ترجمہ ’جان من‘ کے نام سے کر ڈالا۔ اس طرح عابدسہیل نے چند مزیدتراجم جمع کر لیے اور اپنی ایک طبع زاد کہانی سمیت دیگر ادیبوں کے افسانے شامل کر کے ساڑھے تین سو سے زائد صفحات کی یہ کتاب شائع کر دی۔

یہ کتاب دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ طبع زاد کہانیوں کا ہے جس میں عابدسہیل کے پیش لفظ کے ساتھ، غلام عباس کا افسانہ ’اس کی بیوی‘، سریندرکمار مہرا کا ’چرن کور‘، ’کچھ قدم دل کے ساتھ ساتھ‘، سید محمداشرف کا ’تلاشِ رنگِ رائیگاں‘، علی باقر کا ’کھلاڑی‘، صادقہ نواب کا ’پہلی بیوی‘ اور عابدسہیل کا ’ایک محبت کی کہانی‘ شامل ہیں۔ کتاب کے دوسرے حصے میں ترجمہ کی ہوئی کہانیاں موجود ہیں۔ جن میں اسٹفن زویگ کی کہانی ’دل جو ٹوٹ گیا‘ کا ترجمہ سریندر کمار مہرا نے کیا ہے۔باقی کی تمام کہانیوں کے مترجم عابدسہیل ہیں۔ کہانیوں اور ان کے تخلیق کار کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

’کنول اور شہد کی مکھی‘ (سنسکرت کہانی)، جان من (چے خف)، بوسہ (چے خف)، مسرت (موپاساں)، میری انسیل (مارٹن آرم اسٹرانگ)، بہانہ (موپاساں)، موڑ موڑ ساتھ (ولیم کابیٹ)۔

عابدسہیل نے تمام کہانیوں کا ترجمہ نہایت سلیقے سے کیا ہے۔ وہ ایک زمانے تک نیشنل ہیرالڈ سے وابستہ تھے اور نیوز کی سبنگ سے لے کر خبر کا انٹرو تیار کرنے کا کام بھی بہتر انداز میں کرنا جانتے تھے۔وہ الفاظ کے محل استعمال سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے اس ہنر نے ترجمہ نگاری کو مزید نکھار دیا۔ عابدسہیل نے صرف انگریزی الفاظ کو اردو میں منتقل نہیں کیا بلکہ ایک اپنی تخلیقی فنکاری سے پوری فضا کو دلچسپ اور قابل رشک بنا دیا ہے۔ چیخف کے افسانہ ’جان من‘ کا اقتباس دیکھیے:

’’جولائی کے ایک دن میںجب خوب گرمی پڑ رہی تھی، شام کے وقت ، جب مویشی لوٹ کے آرہے تھے اور پوراحاطہ دھول کے مرغولوں سے بھر گیا تھا، یکا یک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اولینکاخوددروازہ کھولنے گئی اور سمرنوف کو دیکھ کر گنگ رہ گئی۔ اس کے بال سفید ہو گئے تھے اور وہ عام لوگوں کی پوشاک پہنے تھا۔ ساری پرانی یادیں اس کی روح میںسیلاب کی طرح داخل ہوگئیں، وہ خود پر قابو نہ پا سکی، پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی اور ایک بھی لفظ منہ سے نکالے بغیر اس نے اپنا سر اس کے سینے پر رکھ دیا۔‘‘

(درد کاشجر، عابدسہیل، عرشیہ پبلی کیشن 2012، ص 285)

اس ترجمہ میں عابدسہیل نے زبان کے استعمال سے کہانی کو خوبصورت بنا دیا ہے۔ لفظ ’مرغولوں‘ سے قاری کے سامنے ایک پورا منظر ابھار دیا جس میں مویشیوں کے آنے کی آہٹ بھی سنائی دیتی ہے اور ان قدموں سے اٹھتی ہوئی دھول سے بنتا ہوا دائرہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ انگریزی میں اس جگہ صرف Full of dust لکھاہے۔ یاپھر ’’ساری پرانی یادیں اس کی روح میں سیلاب کی طرح داخل ہوگئیں‘‘ جملے سے جس فطری اور جذباتی عمل کی عکاسی کی ہے وہ صرف  Suddenly remembered everything سے عیاں نہیں ہو پا رہی تھی۔عابدسہیل نے کہانی کے لفظوںکو پڑھنے کے بجائے اس ماحول اور فضا کو محسوس کیا ہے جس میں کہانی کار کا ذہن کہانی کو مکمل کرنے کے لیے گردش کرتا رہا۔ یہ عابد سہیل کا کمال ہے کہ وہ اپنے ترجموںمیں مقامی تہذیب کو اس طرح ڈھالتے ہیں کہ وہ قاری کو کہانی کاجزمعلوم ہوتی ہے کیونکہ پڑھنے والا اسے موقع و محل کے فطری تقاضوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ مثلاً چے خف کے ہی دوسرے افسانہ ’بوسہ‘ میں ایک جگہ اس طرح کا جملہ آتا ہے: I like your house immensely

ظاہرہے  اس کا سامنے کا ترجمہ یہی ہونا چاہیے کہ ’’مجھے آپ کا گھر بہت اچھا لگا یا پسندآیا‘‘۔ لیکن عابدسہیل یہاں اودھ کی تہذیب کی ذرا سی جھلک دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مجھے آپ کا دولت خانہ یقینا اچھا لگا‘‘

اردو ادب کے لیے یہ لفظ ایسے موقعوں کے لیے اتنا مانوس ہے کہ پڑھنے والے کے ذہن و دل کوگمان بھی نہیں رہتا کہ وہ اودھ کی نہیں بلکہ کسی اور دیس کی کہانی پڑھ رہا ہے۔یا اسی افسانے میں ایک اور جگہ ’Couettishly‘ کے لیے ’عشوہ گری‘ کا انتخاب کرنا عابدسہیل کی باریک بینی اور ماحول شناسی کا بین ثبوت ہے۔اس قبیل میں مارٹن آرم اسٹرانگ افسانہ کے ترجمے ’میری انسیل‘ کو بھی پیش کیاجا سکتا ہے۔غرض کہ اس کتاب میں شامل سارے ہی ترجمے عابدسہیل کی ترجمہ نگاری کی عمدہ مثال ہیں جسے پڑھ کر مترجم کی قدر ومنزلت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہنر بھی ان میں پوشیدہ تھا۔

حرف کائنات

اس کتاب میں دنیا بھر کے مختلف دانشور، عالم، سیاستداں، ادیب، قلمکار اور غیر معمولی حضرات کے کل ایک ہزار ایک سو گیارہ اقوال شامل ہیں۔ اتنے اقوال کی جمع آوری کا منصوبہ مصنف نے سالوں یا برسوں پہلے نہیں بنایاتھا بلکہ بچپن میں اس طرح کی بعض کتابیں انھوں نے پڑھی تھیں اور مختصر جملے میں فکر کی دنیا کو آباد دیکھ کر وہ ہمیشہ ہی اس میں کھوجاتے تھے۔ عمر کی پختگی میں ایک دن اقوال زریں کی وہ کتابیں یاد آگئیں جن میں یہ مقولے پڑھے تھے، لیکن تلاش بسیار کے بعد بھی کوئی کتاب ہاتھ نہ آئی سوائے اخبار کے ان کالم کے جہاں پابندی سے اس طرح کے اقوال شائع ہوتے رہتے تھے۔ بس پھر کیا تھا ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے عابدسہیل نے ایسی کتاب کی ترتیب کا عزم کر لیاجس کے نتیجہ میں ’حرف کائنات‘ ’عالم وجود‘ میں آئی۔ اس کتاب میں عابدسہیل نے ان اقوال کو جگہ دی ہے جن میں واقعی کوئی علمی یا فکری بات کہی گئی ہو۔ اسی لیے بعض اقوال کوصرف اس لیے ترک کردیا کہ ان میں معنویت طریق اظہار کی کرم فرمائی تھی۔

باغات

نیشنل بک ٹرسٹ کی گذارش پر لئیق فتح علی کی انگریزی کتاب Garden  (1978)کا ترجمہ عابد سہیل نے باغات کے نام سے کیا۔ یہ کتاب باغوں ، درختوں اور پودوں وغیرہ کے علم و فن سے متعلق تھی۔پیش لفظ میں لکھتی ہیں

’’کتاب لکھتے وقت چوں کہ یہ بات ذہن میں رکھنے سے مدد ملتی ہے کہ وہ کن لوگوں کے لیے لکھی جا رہی ہے اس لیے میں نے یہ سوچ کر قلم اٹھایا تھا کہ میں نوجوان ماہرین تعمیر اور سول انجینئروں کے لیے لکھ رہی ہوں۔ باغات لگانے اور عوامی استعمال کی جگہوں کے نقشے تیار کرنے کا زیادہ سے زیادہ کام ان ہی ماہرین کے سپرد کیا جائے گا اور مجھے پورا یقین ہے کہ انھیں اس کام کو اچھی طرح سے انجام دینے سے متعلق تمام معلومات بھی حاصل ہوں گی۔‘‘

(باغات، عابدسہیل(مترجم)، نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا 2004، ص 7)

عابد سہیل ناول، اخبار وغیرہ کی تحریروں کے تراجم تو کرتے رہتے تھے لیکن اس نوعیت کے ترجمے کا یہ ا ن کا پہلا تجربہ تھا۔ مترجم لکھتے ہیں:

میں نے اس طرح کی تصنیف کو اردو قالب میں ڈھالنے کی کوشش نہیں تھی۔ اس کے باوجود یہ تجویز قبول کرنے میں مجھے ایک لمحہ بھی نہیں لگا۔ ایک سبب اس کا یہ تھا کہ کتاب کا موضوع مجھے بہت دلچسپ معلوم ہوا تھا۔

(باغات، لئیق فتح علی اور مترجم، مشمولہ نیادور ، دسمبر 2004 )

عابدسہیل نے یہ کتاب تین چار دن میں مکمل پڑھ ڈالی۔ مطالعے کے بعد انھوں نے اس فن کو بہترین نثری ادب سے تعبیر کیا اور اپنے تاثرات بیانی میں یہ واضح کیا کہ فلائبر اوربالزاک کے ناول میں استعمال ہونے والی فکریں اور تشبیہیںجو دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور لطف وانبساط کا سامان فراہم کرتی ہیں، اس احساس و تجربوں سے ہمکنار نہیں کراسکتی جو اس کتاب کے بعد مجھے ہوا۔ بقول مصنف یہ مطالعہ:

’’...ایک ایسا تجربہ تھا جس کی نوعیت مطالعے کے سارے سابقہ تجربوں سے جدا تھی‘‘

 (باغات، لئیق فتح علی اور مترجم، مشمولہ نیادور ، دسمبر 2004 )

اس کتاب میں ہندوستان کے علاوہ ایران، فرانس ، جاپان وغیرہ کے باغوں اور بعض میں بڑی بڑی تعمیرات کا تذکرہ کیا ہے نیز باغوں کی حفاظت اور اس کی آرائش وغیرہ کے بیان اور مویشیوں سے اس کو محفوظ رکھنے کے طور طریقوں کا بھی اندراج ہے۔ کتاب چار حصوں میں منقسم ہیں۔ پہلا عنوان ’باغوں کی تشکیل کے اصول‘، دوسرا ’باغوں کی تشکیل کا سامان‘، تیسرا ’صنعتی باغ‘، چوتھا ’عوامی استعمال کے باغ‘۔

اس کتاب کا ترجمہ عابد سہیل کے لیے اگر مشکل نہیں تو آسان بھی نہ تھا۔ کیونکہ یہ کتاب ادبی فن کے بجائے ایک خاص علمی نوعیت کی تھی اورعابدسہیل باغبانی سے بہت زیادہ آشنا نہیں تھے۔ اس امر کے ذریعے مترجم نے اپنی ریاضت و صلاحیت کا ایک بار پھر امتحان لیا اور کتاب کا تخلیقی انداز میں ترجمہ پیش کر کے صلاحیتوں کی فتح کا اعلان کیا۔

ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے جس کا احساس عابدسہیل کو بخوبی تھا۔ وہ اس کی باریکیوں سے بھی پوری طرح واقف تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے ترجمے سطحی ترجموں سے مختلف ہوتے کیونکہ وہ زبان کے الفاظ کے بدلے دوسری زبان کے الفاظ کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ بین السطور پنہاں معانی و مطالب کی جلوہ گری کو دوسری زبان میں روشن کرنے کی کوشش کرتے۔ اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں:

’’ترجمے میں ان مسائل کے علاوہ جو کسی مضمون یا کتاب کی زبان سے اس طرح واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ایک بڑی مشکل یوں پیش آتی ہے کہ خیال کو ایک زبان کے کینڈے سے دوسری زبان کے کینڈے میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ یہ دقت اردو سے ہندی یا ہندی سے اردو میں ترجمہ کرتے وقت نہیں پیدا ہوتی کیونکہ دونوں زبانوں کے کینڈے بنیادی طور پر ایک ہی ہیں جب کہ مثلاً اردو اور انگریزی کے درمیان اس نقطہ نظر سے رشتے کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔

(باغات، لئیق فتح علی اور مترجم، مشمولہ نیادور ، دسمبر 2004 )

مذکورہ کتب کے مطالعے کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ عابدسہیل نے ترجمہ نگاری کے فن کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے ترجموں میں تہذیب کارنگ، ثقافت کا عکس، مصنف کی ذہنی کیفیت اور دم تحریر کے عہد کے ساتھ ساتھ تخلیقیت کی آنچ بھی نظر آتی ہے۔ اس معیار کے تراجم اردو ادب میں کم دیکھنے کو ملیں گے۔ اس لیے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ عابدسہیل نے ترجمہ نگاری میں ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔


Musi Raza

Research Scholar, Dept of Urdu

MANUU, Lucknow Campus

Lucknow - 226020 (UP)

Mob.: 9807694588

 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں