10/2/23

شمس الرحمن فاروقی کی روایت پسندی: محمد اسلم پرویز


 

فاروقی اور جدیدیت کے موضوع پر اتنا زیادہ لکھا گیا ہے کہ فاروقی اور جدیدیت لازم وملزوم ہو گئے ہیں۔ میرے خیال میں جدیدیت روایت سے بغاوت کا نام نہیں ہے بلکہ جدیدیت کا نظریہ ترقی پسندی کی تردید کرتا ہے ، اور فرد کی انفرادیت پر زور دیتا ہے۔فاروقی نے بھی روایت سے بغاوت نہیں کی ہے بلکہ بے سرپیر کی بات کرنے کے بجائے انھوں نے جب بھی کوئی دعویٰ کیا تو ہماری پرانی روایت کے مطابق اساتذہ شعرا کے کلام سے اپنے دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ثبوت بھی پیش کیے۔ان کی کتاب ’عروض آہنگ اور بیان‘ اور ’لغات روزمرہ ‘کا سرسری جائزہ ہی میرے اس خیال کی تائید کے لیے کافی ہو گا۔اس لیے میں اس مضمون  میں فاروقی کی متذکرہ دونوں کتابوں کے حوالے سے اردو شاعری کی چند عام لیکن اہم اصطلاحات اور اس سلسلے میں شاعروں کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو جس خوبصورتی سے فاروقی نے دور کیا ہے، کی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے امید ہے اس کے مطالعے کے بعد قارئین کو اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ فاروقی کی فکرکا مرکز ومحور کلاسیکی ادب ہی تھا۔

ہمارے بیشتر شاعروں کے نزدیک ’نہ‘کو بروزن ’فع ‘یا ایک سبب خفیف کے برابر شمار کرنا درست نہیں ہے۔ اس لیے ایسا کرنے والے شاعروں پر سخت اعتراض کیا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔فاروقی کی کتاب عروض آہنگ اور بیان کے صفحہ نمبر 54 پر اس مسئلے پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔اور ’نہ‘ کی تطویل کے سلسلے میں اساتذہ شعرا کے کئی اشعار حوالے کے طور پر پیش کیے گئے ہیں            ؎

نہ وہ سرور و سوز نہ جوش و خروش ہے

——

گر اس طرف بڑھا کسی بیدادگر کا ہاتھ

بالائے تن رہا نہ ادھر نہ ادھر کا ہاتھ

مرزا غالب کے مصرعے اور میر انیس کے درج بالا شعر میں ’نہ‘ کی تطویل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ فاروقی نے روایت کے سہارے ہی ہماری اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں ’نہ‘ کی تطویل کا پختہ ثبوت مل جانے کے بعد ’کہ‘ کی تطویل پر بحث کرنا محض زیادتی ہے۔ ’نہ‘ اور ’کہ‘ دونوں میں ہائے مختفی ہی ہے۔ اس لیے ’نہ‘ کی تطویل کی مثال ’کہ‘ کی تطویل کے لیے مضبوط دلیل ہے۔ضرورت شعری کے تحت ’نہ‘ اور’کہ‘ دونوں کو ایک سبب خفیف کے برابر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 ایک مسئلہ علامت اضافت کا/ کے/ کی کے مذکر یا مونث استعمال کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی ہماری رہنمائی کے لیے شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’لغات روزمرہ ‘کافی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی لغات روزمرہ کے صفحہ نمبر 71 پر رقمطراز ہیں’’اگر اضافت کی علامت (کا/کے/کی) اپنے مضاف سے دور پڑ جائے تو اردو میں بہتر یہ ہے کہ علامت اضافت مذکر استعمال ہو،چاہے مضاف مونث ہی کیوں نہ ہو۔‘‘شمس الرحمن فاروقی نے سند کے طور پر خواجہ حیدر علی آتش، میر انیس اور میر تقی میر کے اشعار بھی نقل کیے ہیں۔ جنھیں میں متذکرہ شعرا کے کے نام کی ترتیب کے مطابق یکے بعد دیگرے پیش کر رہا ہوں        ؎

معرفت میں اس خدائے پاک کے

ہوش اڑتے ہیں یہاں ادراک کے

 

کٹ کٹ گئے سب نیزے بھی اقبال سے اس کے

میدان میں تھا حشر بپا چال سے اس کے

 

کیا جانوں لذت درد اس کی جراحتوں کے

یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے

اوپر کی مثالوں سے یہ مسئلہ پوری طرح حل ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر علامتِ اضافت اپنے مضاف سے دور ہو جائے تب بھی علامتِ اضافت مذکر ہی استعمال ہوگا۔

 فاروقی کی روایت پسندی کی ایک دو مثالیں اور دیکھیے۔ لفظ ’بقر عید‘کے تلفظ اور املا کے بارے میں لغات روزمرہ کے صفحہ 103، 109، 110، 111 پر کارآمد معلومات فراہم کی گئی ہیں۔دلچسپ یہ ہے کہ بقول فاروقی"غالب نے مکتوب بنام نبی بخش حقیر،مورخہ ہفتم نومبر 1853 میں لکھا ہے بکرید کو کچھ کہا ہی نہیں،ایک رباعی پڑھی تھی۔‘‘ فاروقی آگے لکھتے ہیں کہ اردو لغت تاریخی اصول پر میں اسے یعنی لفظ ’بکرید‘ کو عوامی تلفظ کہا ہے، اور کوئی سند نہیں دی ہے۔غالب کی سند پر اسے عوامی نہیں کہہ سکتے۔

لغات روزمرہ کے صفحہ 82 پر درج ہے کہ’’کچھ عرصے سے پاکستان میں ’خدا حافظ‘ کی جگہ’اللہ حافظ‘ بولا اور لکھا جانے لگا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی بعض اہل ہند بھی اس راہ پر چل نکلے ہیں۔اس تبدیلی کی مصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔الوداعی سلام کے معنی میں ’اللہ حافظ‘ اردو کا روز مرہ نہیں،’خدا حافظ‘ اردو کا روزمرہ ہے،بہادر شاہ ظفر        ؎

ہم تو چلتے ہیں لو خدا حافظ

بت کدہ کے بتو خدا حافظ

درج بالا اقتباس سے اس بات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ فاروقی کس حد تک روایت پسند تھے، اور روایت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کا جذبہ بھی ان میں موجود تھا۔ اسی لیے وہ پاکستانیوں کی اختراع اللہ حافظ کی جگہ خدا حافظ کو روایتی طریقے سے بہادر شاہ ظفر کے شعر کے حوالے کے ذریعے ثابت کرتے ہیں۔ وہ یہ بتانے میں کامیاب ہیں کہ خدا حافظ اردو کا روز مرہ ہے۔الوداعی سلام کے معنی میں اللہ حافظ اردو کا روزمرہ نہیں ہے۔وہ اللہ حافظ کو غلط نہیں البتہ غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس لیے کہ اردو میں اللہ حافظ عام طور پر برے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔مثلاً ’’آپ کا کچھ نہیں ہوسکتا،اب آپ کا اللہ حافظ ہے۔‘‘ وغیرہ جیسے جملے اردو میں عام ہیں۔ اس سے پوری طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ اللہ حافظ، خدا حافظ کے معنی میں اردو میں استعمال نہیں ہوتا ہے۔

فاروقی تو اس حد تک روایت پسند تھے کہ انھوں نے کمال احمد صدیقی کی پانچ ہشت حرفی بحور جمیل، خلیل،شمیم،کشیر اور نہال جو کمال احمد صدیقی کی کتاب ’آہنگ اور عروض‘کی خوبصورت دریافت ہے،کو تسلیم نہیں کیا۔ اس لیے کہ کمال احمد صدیقی کی ان بحروں کا روایتی عروض سے تعلق نہیں ہے۔لیکن یہ اعتراف کیے بغیر چارہ بھی نہیں کہ کمال احمد صدیقی کے ہشت حرفی افاعیل نے اردو کے کئی ناقابل تقطیع اشعار کو تقطیع کے قابل بنا دیا۔ کمال صاحب کی یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دلی سے پہلی بار 1989 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کی تیسری ترمیم شدہ اشاعت جنوری 2008 میں عمل میں آئی۔اس کے ساتھ ہی علامہ سحر عشق آبادی نے ’مفاعلن‘ کو حشو دوم میں رکھ کر رباعی کے چوبیس روایتی اوزان میں 12 نئے اوزان کا اضافہ کیا۔ فاروقی نے سحر عشق آبادی کے بارہ نئے اوزان کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس لیے کہ یہ اوزان رباعی کے روایتی اوزان نہیں ہیں۔ان بارہ اوزان کو میں بھی تسلیم نہیں کرتا ہوں۔ اس لیے کہ علامہ سحر عشق آبادی نے رباعی کے بارہ نئے اوزان بنانے کے لیے رباعی کے بنیادی اوزان میں تبدیلی کی ہے۔میرا ماننا ہے کہ کسی بھی چیز کی بنیاد تبدیل کرنے کا حق صرف بنیاد گزار کو ہے۔تاہم کمال احمد صدیقی کے سبھی پانچوں ہشت حرفی افاعیل کے متعلق فاروقی صاحب کو اظہار خیال کرنا چاہیے۔

 ہمارے شاعروں کے نزدیک شتر گربہ کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اور نہ ہی شتر گربہ سے متعلق مولانا حسرت موہانی کے خیالات سے شمس الرحمان فاروقی کو کوئی اختلاف ہے۔بجز اس کے کہ ’آپ‘ اور ’تم‘ کا اجتماع ہر جگہ شتر گربہ کا اثر نہیں رکھتا۔

اس مسئلے پر شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی معرکہ آرا کتاب عروض، آہنگ اور بیان کے صفحہ نمبر 173 پر اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے’’شتر گربہ کے بارے میں مولانا کے خیالات سے مجھے کوئی اختلاف نہیں،سواے اس کے کہ ’آپ‘ اور ’تم‘کا اجتماع ہر جگہ شتر گربہ کا اثر نہیں رکھتا۔ بعض حالات میں ’آپ‘ طنزیہ معنی رکھتا ہے۔ علاوہ بریں، دہلی کی زبان میں ’آپ جاؤ‘ ’آپ بیٹھو‘ وغیرہ محاورے میں شامل ہے، لہٰذا اسے بھی عیب نہیں کہہ سکتے۔بعض اوقات صیغۂ جمع حاضر کا مخاطب وہی شخص نہیں ہوتا جس کو ’تم‘ کہہ کر بھی اس شعر میں مخاطب کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں بھی شتر گربہ کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔چنانچہ مولانا کی درج کردہ مثالوں میں مندرجہ ذیل میں شتر گربہ نہیں ہے۔‘‘

مت یہ گھبرا کر کہو اب یاں سے بندہ جائے گا

کوئی مر جائے گا صاحب آپ کا کیا جائے گا

 

آپ تو زہر میں شکر کا مزہ چاہتے ہو

گالیاں دیتے ہو اور ہم سے دعا چاہتے ہو

 

وعدہ آنے کا وفا کیجے یہ کیا انداز ہے

تم نے کیوں سونپی ہے اپنے گھر کی دربانی مجھے

 

فصل بہار آئی پیو صوفیو شراب

بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے

محولہ بالا اشعار اوپر سے ترتیب وار جرأت، شاہ نصیر، غالب اور آتش کے ہیں۔

ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی شعر میں ’آپ‘ طنزیہ اور ’تم‘ بے تکلفی یا ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے ایک ساتھ استعمال ہوتا ہے۔

مولانا حسرت موہانی نے فارسی مرکبات میں نون کے اعلان کو غلط قرار دیا ہے۔ آج تک شاعروں پر یہ سوچ حاوی ہے۔جب کہ نہ تو اس کی کوئی معقول وجہ پیش کی گئی ہے اور نہ ہی ایسا کرنا ہمارے اساتذہ کے نزدیک ناجائز یا حرام تھا۔عروض آہنگ اور بیان کے صفحہ نمبر 161 پر فاروقی کا قول حسرت موہانی اور ان کے ہم نوا حضرات کے دعوے کی پول کھولتا ہے؛ ’’اعلان نون مع عطف و اضافت کے بارے میں میری رائے متقدمین کے عمل کے عین مطابق ہے کہ یہ عیب نہیں،جہاں ضرورت سمجھیں وہاں کر لیا جائے۔ نہ اس کو قبول کرنے میں اصرار ہو نہ اس کو رد کرنے پر ضد۔‘‘اضافت کے ساتھ اعلان نون کی تائید میں غالب کے دو مصرعے درج ذیل ہیں         ؎

فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے

——

نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

 مزید تفصیل کے لیے ’عروض آہنگ اور بیان‘کا مطالعہ ضروری ہے۔صفحہ نمبر 162 پر فاروقی لکھتے ہیں’’بہرحال غالب کے زمانے تک اعلان نون مع عطف و اضافت میں کوئی عیب نہ تھا۔بیخود موہانی کی یہی رائے ہے‘‘۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غالب کے زمانے تک ہماری شاعری پر اس طرح کی فکر کا تسلط کم تھا۔وقت کے ساتھ جیسے جیسے اردو شاعری اس سوچ کے زیر اثر آتی گئی اسے غیر ضروری قواعد و ضوابط کی کھوکھلی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔اس کے نتیجے میں ہمارے بہت سے اچھے شعر ا شاید اپنی بہترین تخلیقات نہیں پیش کر سکے۔ میرے خیال میں یہ اردو شاعری کا نا قابل تلافی نقصان ہے۔

فارسی و اردو اور عربی و اردو الفاظ کے مابین عطف و اضافت کا مسئلہ آج تک موضوع بحث ہے۔اس سلسلے میں بھی فاروقی نے ہماری مناسب رہنمائی کرنے کی کوشش کی ہے۔میں بنا کسی تمہید کے فاروقی کی درج کردہ مثال نقل کر رہا ہوں، جو ان کی کتاب عروض آہنگ اور بیان کے صفحہ نمبر 166 پر ہے۔بقول غالب ع

گرم بازارِ فوجداری ہے

اس موضوع پر انھوں نے’لغات روزمرہ‘ میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔اس کتاب کے صفحہ نمبر 70 پر وہ لکھتے ہیں کہ ’’انیسویں صدی میں بھی دیسی اور فارسی الفاظ کے درمیان عطف واضافت لگانے کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ضامن علی جلال کہتے ہیں۔‘‘

ہمیشہ مستعد کارزار ہیں پلکیں

کبھی چھری کبھی تیر و کٹار ہیں پلکیں

 وہ آگے لکھتے ہیں کہ انگریزی کے ساتھ اضافت کی ایک مثال دیکھیے۔ مردان علی خاں رعنا شاگرد غالب کا شعر ہے       ؎

مشتعل رہتی ہے آہ آتشیں مثلِ گیاس

سینۂ عشاق میں جلتا ہے بے روغن چراغ

فاروقی نے لکھا ہے کہ رعنا مرادآبادی نے درج بالا شعر میں ’گیاس‘ بمعنی Gas استعمال کیا ہے۔

حالیہ کچھ دنوں سے میرے ذاتی تجربے میں ایک بات بار بار آ رہی ہے۔بہت سے شعرا کہاں، ہاں،نہاں، بیاباں اور جہاں جیسے الفاظ میں الف کی تخفیف کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے الفاظ الف کی تخفیف ہرگز قبول نہیں کرتے۔ البتہ بیسواں، ساتواں، کشتیاں اور آندھیاں جیسے الفاظ الف مع نون غنہ تخفیف قبول کر لیتے ہیں۔اس کی تفصیل کے لیے عروض آہنگ اور بیان کا صفحہ نمبر 59 ملاحظہ ہو۔

’اے‘کو ایک حرف کے برابر شمار کرنے کے سلسلے میں فاروقی عروض آہنگ اور بیان کے صفحہ نمبر 87 پر رقمطراز ہیں’’اے کی تخفیف کو اگرچہ اساتذہ غلط کہتے ہیں، لیکن قدیم و جدید دونوں شعرا نے اسے مخفف باندھا ہے اور قطعی برا نہیں لگتا۔ایک نمونہ قدیم اور ایک جدید ملاحظہ ہو۔‘‘

قائم چاند پوری           ؎

عرض کی یوں کہ اے استاد زماں سنتے ہو

ن م راشد         ؎

اے غزال شب تری پیاس کیسے بجھاؤں میں

’اے‘کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق میں شاعروں پر چھوڑتا ہوں۔

 شعر کی خامیوں میں ایک خامی حشو بھی ہے۔ حشو کی تعریف یہ ہے کہ جو لفظ شعر کے معنی میں کوئی اضافہ نہ کرے وہ حشو ہے۔ممکن حد تک شاعروں کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔البتہ بہت مجبوری کی حالت میں اگر کبھی کوئی بے معنی لفظ استعمال کرنا پڑے تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ لفظ مصرعے کے درمیان میں ہو۔اس لیے کہ بے معنی یا بھرتی کا لفظ مصرعے کے بیچ میں ہونے سے قاری یا سامع کو اس کا احساس کم ہوتا ہے اور اس طرح یہ کمی ایک حد تک پوشیدہ ہو جاتی ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے عروض آہنگ اور بیان میں کئی مقامات پر شعر کی خوبی اور خامی پر سیر حاصل بحث کی ہے اور قابلِ قدر نتائج برآمد کیے ہیں۔مثلاً تکرار، تنافر،عجز بیان ، تعقید اور اشکال وغیرہ سے متعلق انتہائی کارآمد موادان کتابوں میں موجود ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بقول فاروقی ’’قواعد یا زبان کے اغلاط، شعر کے ظاہری ڈھانچے پر جو اصول منطبق ہوتے ہیں ان کی پابندی نہ کرنا، یہ سب کمزوریاں اپنی جگہ پر مسلم ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ میں انہیں ہنسی خوشی قبول کرتا ہوں یا انہیں پسند کرتا ہوں۔معاملہ صرف یہ ہے کہ یہ غلطیاں نفس شعر کو خراب نہیں کرتیں۔یہ کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہوں،ان کے باوجود شعر اچھا ہو سکتا ہے۔عیب وہ چیز ہے جو نفس شعر کو داغدار کر دیتی ہے اور عیب کا زیادہ تر تعلق اس سوال سے ہے کہ شعر کے الفاظ کو کس حد تک با معنی یا معنی خیز بنایا گیا ہے؟‘‘

ان بحثوں سے یہ بات کم از کم ثابت ہو جاتی ہے کہ فاروقی یقیناً روایت پسند تھے لیکن کسی بات کی اندھی تقلید کرنا ان کے نزدیک گناہ کبیرہ جیسا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ نظریہ درست تھا۔ ہر شاعر و ادیب کو ان کے اس نظریے کی پیروی کرنی چاہیے۔ یقینا انھوں نے اپنی لازوال تحریروں سے اردو ادب کو اندھیری اور تنگ گلیوں سے نکال کر روشنی کی وسیع دنیا میں لا کھڑا کیا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ فاروقی کے کارنامے بے مثال اور لازوال ہیں۔ان کی رحلت سے اردو آبادی یقینا بے سہارا اور یتیم ہو گئی ہے۔اگر وہ چند سال اور ہمارے بیچ ہوتے تو اردو شعر وادب کا دامن مزید وسیع تر ہو جاتا۔

Dr. Md Aslam Parwez Aslam

Mohalla: Rajpur

Dak Khana: Suboor

Distt.: Bhagalpur - 813210

Mob.: 6205628961

Email.: drmdaslamparwez@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں