دانشورانِ ادب کا کہنا ہے کہ شعر موزوں کر لینا ہی کمالِ
فن نہیں،بلکہ کمالِ فن تو یہ ہے کہ شعر میں کوئی نیا زاویہ، کوئی اچھوتا خیال اور فکری
سطح پر جدت وندرت کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا جائے جو براہ راست دل میں اتر جانے کی
خاصیت رکھتا ہو۔کوئی اچھا اور فطری شاعر جب شاعری کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے اشعار
کا نزول ہو رہا ہے،الفاظ صف بستہ کھڑے ہیں،مفہوم ومعنی ایک طلسمی ترتیبِ اختیار کرتے
جا رہے ہیں اور بحورواوزان کے سانچے میں ڈھلتے جارہے ہیں۔ایسے شعرا کے اشعار قاری اور
سامع کے ذہن میں اتر کر اپنے دائرہ ٔ اثر کو کچھ اس طرح وسیع کرتے ہیں کہ رموزونکات،مفہوم
ومعنی کی پرتیں روشن ہوتی جاتی ہیں۔مغربی ادب میں شعر کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ
جو خیال ایک غیر معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذریعہ اس طرح ادا کیا جائے کہ قاری
اور سامع کا دل اس کو سن کر خوش اور متاثر ہو وہ شعر ہے خواہ نظم میں ہو یا نثر میں
مگر مشرقی شعروادب میں یہ تصور پیش کیا گیا ہے کہ وہ موزوں کلام جو بالارادہ کہا گیا
ہو اور انسانی جذبات کو برانگیختہ کرتا ہو وہ شعر ہے۔شاعری در اصل ایک خدا داد صلاحیت
ہے جو روح کو بالیدگی، افکارواحساسات کو وسعت اور پروازِ تخیل کو عروج بخشتی ہے اور
وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا جلوہ دکھاتی ہے۔یہ انسان کے دل میں وہ سوزوگداز
پیدا کرتی ہے جو اشعارکے قالب میں ڈھل کر باذوق سماعتوں کو اپنی گرفت سے نکلنے نہیں
دیتی۔شاعری کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے کہ ’’یہ ایک ایسا شعلہ ہے جو خودبخود بھڑک اٹھتا
ہے‘ ایک ایسا چشمہ ہے جو خودبخود ابل پڑتا ہے،ایک برق ہے جو خودبخود کوند جاتی ہے۔‘‘
کلاسیکی اردو شاعری اپنے اسرارورموز دھیرے دھیرے منکشف کرتی ہے اور اپنے ملکوتی حسن
کو ایک اندازِ دلبری سے بے نقاب کرتی ہے۔ وہ اشعار جن میں ایک دلفریب دیوانگی کا کیف
وسرور ہو، نشاط وکرب ہو وہ براہ راست دل میں اتر جاتے ہیں۔ ایک فطری شاعر کے اشعار
میں دھیما دھیما سا سلگتا سا نرم ونازک لہجہ اس کے احساسات کی تمازت کا پتہ دیتا ہے۔
پیرایہ ٔ اظہارمیں کلاسیکی رچاؤ اس کے اسلوب کووقار اور تمکنت عطا کرتا ہے اور کلام
میں استعارہ وعلامتوں کی فنکارانہ زرکاری اس کی فنی بصیرت اور تجربات کا اشاریہ بن
کر ابھرتی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سمندر کو قطرے میں سمیٹ لینا اور قطرے میں سمندر
کا جلوہ دکھا دینا ہی شاعری ہے۔
لب ولہجہ میں شائستگی،طرز بیان میں متانت اور واردات قلبی
میں اظہار کا سلیقہ رچ بس جاتا ہے تو اس کی چاشنی قاری اور سامع کو اپنی گرفت میں لے
لیتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ شاعری کا خمیر انسانی کردار کی داخلی تہذیب، عرفانِ ذات اور
وجدانی کیف وکم کے خمار سے اٹھتا ہے جو زندگی کے ردِ عمل کا خوبصورت اظہاریہ ہوتا ہے۔شاعر
کا حسِ ذائقہ اسے الہامی بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ ایک اچھا شعر بعض اوقات صدیوں
کو لمحوں میں سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے،ایسا شعر جہاں سے ختم ہوتا ہے وہیں سے فکرواحساس
کے سلسلے شروع ہوتے ہیں۔ایسی ہی شاعری ’عالمی سطح‘کے زمرے میں شامل ہونے کا امکان رکھتی
ہے۔بڑی یا عظیم شاعری لا زمانی اور لافانی ہوتی ہے۔وہ جیسے جیسے وقت کے دوش پر سفر
کرتی ہے، شرابِ کہنہ کی طرح اس کا نشہ تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے۔شاعری دراصل وہ سیماب
صفت فن ہے جسے اپنی گرفت میں لینے کے لیے ہر شاعر عمر بھر کوشاں رہتا ہے، مگر احساس
ِ نا رسائی کے باوجود اس لیلیٰ ٔسخن کے عشق سے دست بردار ہونا نہیں چاہتا۔معیاری شاعری
کے لیے لازم ہے کہ فکر میں گہرائی ہو، رموزِ فن پہ دسترس ہو اور شاعر میں قادرالکلامی
کی صفت موجود ہو‘تاکہ پامال مضامین میں بھی تازہ کاری پیدا کی جا سکے اور اس میں نئی
زندگی بخشی جا سکے۔فنکار کا شعر اتنا اثر انگیز ہو کہ سامع یا قاری یہ محسوس کرے
’’گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ تب ہی اسے اچھا شعر کہا جاسکتا ہے۔اسے اس طرح بھی کہا
جا سکتا ہے کہ جو خیال یا کلام انسانی جذبات کو بر انگیختہ کرے اور فنی لوازمات کے
ساتھ تحریک پیدا کرے وہ اچھا شعر ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ شعر سامعین یا قارئین کے جذبات
پر وہی اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جو صاحبِ کلام یا شاعر کے دل ودماغ پر طاری
ہوا ہو۔سچ تو یہ ہے کہ ایک با شعور شاعر کے وارداتِ قلبی،خواہ داخلی محرکات کا نتیجہ
ہوں یا خارجی محرکات کے ترجمان، ڈھلیں گے تو صرف ان سانچوں میں ہی جنھیں فنون ِ لطیفہ
کہا گیا ہے۔ ایک شاعر کسی خیال کو اپنے ذہن اور روح میں حل کرکے پیش کرنے کے ہنر سے
واقف ہوتا ہے،جس سے اشعار میں سحر آگیں کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اشعار کی تخلیق آسان نہیں،شاعر
اپنے تجربات ومشاہدات کو تحلیل نفسی کے عمل سے گزار کر فکرواحساس کے سانچے میں ڈھالتا
ہے اور پھر الفاظ بند کرکے اشعار کی صورت میںزمانے کو پیش کرتا ہے۔یہی اس کے تخلیقی
عمل کا ما حصل ہوتا ہے۔ شاعری کا بنیادی مقصد جمالیاتِ زیست کے شبنمی خدوخال تک رسائی ہے۔خواہ وہ فکر کی گہرائیوں میں پوشیدہ
ہو یا کیف وکم کے حوالوں میں روپوش ہو یا زندگی کے تلخ وشیریں تجربات کے ’کتھا رسس‘میں
محفوظ ہو۔مگر وہ شعری کاوش جو جمالیاتی شعور اور حسنِ بیان سے عاری ہو وہ ’کوہ کندن
وکاہ بر آوردن‘ کی مثال بن جاتی ہے۔
وزن، قافیہ، ردیف اور دیگر لوازمات شعر کے حسن اور اس کی
سحر کاری کو دوبالا کردیتے ہیں۔مثال کے طور پر قیمتی مشروب اگر جام سفال میں پیش کی
جائے تو گوارہ کرلی جاتی ہے،مگر وہی مشروب بلّوری آبگینوں میں پیش کی جائے تو چیزے
دیگر نظر آتی ہے۔یہی کیفیت ان اشعار کی ہے جو فنی لوازمات سے مرقع ہوکر تخلیقی کینوس
پر ابھرتے ہیں۔ ایک اچھا شاعر جب اپنے احساسات، خیالات اور تجربات کو جذبات کے نقرئی
پنوں میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے تو خیال وفکر کی یہی فنکاری ’شاعری‘ کہلاتی ہے۔بہ الفاظ
دگر ان محرکات کے مرکب سے الفاظ کی مرقع سازی کا فن ہی دراصل شاعری ہے۔ معیاری شاعری
میں ابہام بقدرِ نمک،اور موسیقی ریز الفاظ کا انتخاب اور ان کی فنکارانہ ترتیب شعر
کو’سحر کاری ‘کے زمرے میں لے جا سکتی ہے۔شعر گوئی صحیح معنوں میں ایک مشکل فن ہے اور
یہ شاعر سے محسوسات اور تصورات کی ایک دنیا آباد کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔شاعری صرف
خیالات سے نہیں بلکہ الفاظ کے خوشنما ڈھانچے کی تشکیل سے ہوتی ہے،جس میں احساسات اور
تصورات سے گوشت پوست کی ہئیت سازی کی جاتی ہے اور جذبات کی تمازت اس میں اثر انگیزی
کی روح پھونکتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ شاعری احساسات کا عکسِ مکرر اور فطری حقائق سے اعلیٰ
تر شے ہے۔مختصراًشاعری آفاقیت کا اظہار ہے،جزئیات کا نہیں۔عشق ِ حقیقی ہو یا عشق مجازی‘ غزل در اصل عشقیہ شاعری
ہے اور حسن وعشق انسانی جذبوں کا فطری چہرہ۔
شاعری اعلیٰ ترین شعوروآگہی کے سر چشمے سے پھوٹتی ہے،جس
کی ہم سری نہ سائنس کرسکتا ہے اور نہ ہی فلسفہ۔ایک فلسفی سوچ سکتا ہے مفکر اسرار ورموزِ
حیات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے مگر انہیں موزوں اظہار کا پیرہن صرف ایک شاعر عطا کر
سکتا ہے۔شاعر بظاہر حجرہ ٔ تنہائی میں پڑا رہتا ہے مگر اس کی فکرِ رسا سارے عالم کا
جائزہ لیتی رہتی ہے۔شاعر کا تخیل جس درجہ بلند ہوگا شاعری بھی ویسی ہی اعلیٰ درجہ کی
ہوگی۔تشبیہہ و استعارہ کا حسن شاعر کی جدت طرازی اور ندرتِ بیان میں پوشیدہ ہوتا ہے
اور یہی جدت اسلوب اور طرزِ ادا کہلاتی ہے۔ اسلوب اور اندازِ بیان کی تعمیر میں الفاظ
کا ہنر مندانہ استعمال بے حد اہم ہے،کیونکہ الفاظ کی خاصیت، نشست اور ترتیب کا حسن
ہی شاعری کو اثر آفرینی عطا کرتا ہے اور اسلوب میں دلکشی پیدا کرتا ہے۔افکاروخیالات
کے کسی جواہر پارے پر جب اس کی نظر پڑتی ہے تو وہ اسے اٹھا کر اپنے دستارِ فن کی فضیلت
بنا لیتا ہے۔کسی شاعر کا شعری اسلوب اور قوتِ اظہار پر اس کی دسترس اور رمزیت اس کی
شاعری کو ایک مکمل اکائی میں تبدیل کر دیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جذبہ ٔ جنون شاعری کی
روح اور شاعری اظہارِ ذات کا سب سے خوبصورت اور موثر وسیلہ ہے۔
ایک شاعر ذہن کی میکانیکی قوت کے دائرے سے نکل کر احساسات
کی لامحدود وسعتوں میں سفر کرتا ہوا عدم آگہی کے دبیز پردوں کے اس پار دیکھنے کی کوشش
کرتا ہے اور اس درونِ ذات سے کائنات تک کے سفر میں وہ وجدان کی کیفیت کے منازل سے گذرتا
ہے جہاں دوسروں کی رسائی ممکن نہیں۔اس مقام پر نہ شعور کی دسترس ہوتی ہے اور نہ لا
شعور کی پیچیدگیاں۔شاعر کی خداداد حس کائنات کے رموزواسرار سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور
وجودی نیز محرکاتی پس منظر تک پہنچ کر اس کا تجزیہ کرتی ہے،ہئیت کو ماہیت میں ڈھالتی
ہے اور فنی حس وذائقہ کے جمالیاتی تموج سے گذر کر انہیں الفاظ کا شعری پیکر عطا کرتی
ہے۔ ایک شاعر لفظوں کے بطون میں پوشیدہ مفہوم ومعنی میں روح پھونکتا ہے جس کی رمزیت
باذوق قاری اور سامع کے شعور وادراک کومتحرک کرتی ہے اور اسے سحر انگیز کیفیت سے ہمکنار
بھی کرتی ہے۔ایک سچا شاعر کرب واحساس کے بے آب وگیاہ صحرا میںایک مدت بھٹکتا ہے تب
کہیں جاکر لیلیٰ ٔ سخن اس پر مہربان ہوتی ہے
اور اپنے ملکوتی حسن کی جھلک دکھلاتی ہے۔کسے معلوم کہ ایک شعر کی تخلیق کے لیے شاعر
کن اذیتوں سے گذرتا ہے،اور زندگی کو شاعری اور شاعری کو زندگی بنانے کا سفر اسے کس
طرح آبلہ پائی کی سوغات سے نوازتا ہے۔ایک ناقص شاعر تھوڑی سی تگ ودو کے بعد کسی ایک
لفظ پر قناعت کر لیتا ہے جبکہ ایک کامل شاعر مناسب لفظ کی تلاش میں زبان کے بحرِ بے
کراں کو کھنگالتا ہے ‘تب جاکر کسی لفظ سے مطمئن ہوتا ہے۔ایک شاعر کو جب تک ذخیرہ ٔ
الفاظ پر دسترس حاصل نہ ہو اور اس میں فکروجستجو کا مادہ نہ ہو،اس کی فطرت میں تحمل
نہ ہو،یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسا فن تخلیق کرلے جو شائقین ِ ادب کے دلوں پر اپنی حکمرانی
ۡقائم کر سکے۔
شاعری میں اشارات وکنایات، تشبیہات واستعارات صنفِ شاعری
کی وہ ادائیں ہیں جوطبعِ موزوں کو اپنا دیوانہ بنا لیتی ہیں،وہیں فکرونظر کی بالیدگی،
تخیل کی بلند پروازی، دروں بینی اور معنوی تہہ داری وہ خصوصیات ہیںجو کسی باذوق قاری
یا سامع کو روا روی میں آگے بڑھنے نہیں دیتیں بلکہ روک کر کچھ سوچنے پر مجبور کرتی
ہیں۔اسی طرح فصاحتِ کلام اسلوب کا وہ بنیادی عنصر ہے جس کا تعلق شاعری کے لفظی پہلوؤں
سے جڑا ہوا ہے۔وضاحت‘ سہولت ِ اظہار، روانی، سلاست اور بر جستگی کا آمیزہ اس میں جزوِلازم
کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے بر خلاف بلاغت کا تعلق الفاظ سے کم مگر معنی سے زیادہ ہوتا
ہے۔ بلاغت کے اجزائے ترکیبی میں واقعیت، جذبات نگاری، مناظرِ فطرت کی مرقع کشی اور
واقعہ نگاری وغیرہ شامل ہیں۔شاعری میں تخیل اور محاکات بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے
ہیں اور ان ہی دونوں کے امتزاج سے اچھی شاعری وجود پذیر ہوتی ہے۔اچھی شاعری وہ ہے جو
بصیرت افروز ہو،کائنات کے رموزواسرار سے ذہن کو منور کر سکے اور دل کو وجدانی کیفیت
سے آشنا کر سکے۔دراصل شاعری میں ذوق ووجدان اس کی داخلی کیفیت کی غمازی کرتے ہیں۔
شاعری کے حوالے سے یہ بھی کہا گیاہے کہ خالقِ مطلق نے انسان
کو دو صلاحیتوں سے نوازا ہے،ایک ’ادراک ‘ دوسرا ’احساس ‘ اور ادراک کی تحریک پر شاعر
کے ذہن میں ایک خیال بن کر ابھرتا ہے اور اس کا اظہار اوزان کی پابندی اور دیگر لوازمات
کے ساتھ کیا جاتا ہے تو قارئین اور سامعین کا ذہن بھی شاعر کے احساسات سے ہم آہنگ
ہو جاتا ہے اور ایسا کلام’شعر‘کہلاتا ہے۔ سنگلاخ اور مشکل ردیفوں میں غزل کہنا قادرالکلامی
اور فنی گرفت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ ٔ فن نے ہنر مندی کے ساتھ انہیں برت کر
اپنی فنی مہارت کا ثبوت بھی دیا ہے۔دراصل ہر شاعر اپنی ایک انفرادی اکائی (Unit)کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا اپنا استعاراتی، محاکاتی اور
علامتی نظام ہوتا ہے اور اپنا پیرایۂ اظہار بھی۔تفہیم وترسیل اور رمزوکنایہ اس کے
اسلوب کی علامت بن کر ابھرتے ہیں اور شاعر کے لب ولہجے کی تراش خراش ہی اسے دوسرے شعرا
سے الگ اس کی اپنی انفرادی شناخت عطا کرتی ہے۔ ایک اچھے شاعر کے لیے لازمی ہے کہ اس
کی شاعری کا کینوس وسیع ہو جس میں وہ بنی نوع انسان کے احساسات کی ترجمانی کر سکے‘شاعری
کے رموزونکات، اوزان وبحوراور الفاظ کی نشست وبرخواست پر کامل ملکہ رکھتا ہو، شاعری
کلاسیکی روایات کی پروردہ ہو، ساتھ ہی عہدِ حاضر کے نت نئے مسائل سے رشتہ بھی قائم
کرنا چاہتی ہوتاکہ ایک آفاقی ماحول کی تشکیل ہو سکے۔لہٰذا ایک حساس شاعر کے لیے اپنے
عہد کے اجتماعی شعور سے ہم آہنگی لازمی ہے۔ شاعری کو قابلِ قبول اور مروجہ ہئیتوں
میں محفوظ رکھنا بھی ادبی ذمہ داری ہے۔
شاعر کا دل بربط صفت ہوتا ہے۔جب اس کے دل پر واقعات اور حادثات
کا مضراب ضربیں لگاتا ہے تو لا شعور کے پردوں پر ارتعاش سا پیدا ہوتا ہے اور کیف ومسرت،
سوزوگدازکی ترنگ موسیقی ریز ترتیب میں الفاظ کا جامہ پہن لیتی ہے۔اس طرح ’شاعری ‘وجود
میں آتی ہے۔ ایک سچا شاعر لفظوں کا بازی گر ہو نہ ہو مگر جذبات شناس اور رموز آشنا
ضرور ہوتا ہے۔کسی بڑے شاعر کی شناخت یہ بھی ہے کہ قاری اور سامع کے فہم وادراک کے مطابق
اس کی شعری شخصیت خود بخود سمٹتی اور پھیلتی رہتی ہے۔کبھی ایک شعر میں تو کبھی دیوان
میں۔ ہوتا دراصل یہ ہے کہ انسان کے دل میں محسوسات کی ترنگیں دائرہ در دائرہ پھیلتی
وسمٹتی رہتی ہیں۔ بقول عابد پشاوری’شعرا کے دو قبیلے ہیں ایک ’فطری ‘دوسرا ’مشقی‘۔مگر
یہ ضروری نہیں کہ فطری شاعر کو مشق کی ضرورت نہیں ہوتی،اسے بھی مشق کی ضرورت ہوتی ہے،مگر
ایک فطری شاعر جو کچھ کہتا ہے،دل سے کہتا ہے اور اس کے کلام میں ’’از دل خیزد،بر دل
ریزد‘‘والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ ایک مشقی شاعر اپنے دماغ سے کام لیتا ہے جس
کی وجہ سے اس کا کلام ’فکری شاعری‘کے دائرے میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے، جس سے تاثر
کا فقدان ہوتا ہے۔اس عمل کو شاعری کی لغت میں ’آمد‘ اور ’آورد‘کی شاعری سے موسوم
کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ شاعری کا فن اکتسابی نہیں بلکہ عطیہ ٔ الٰہی ہے۔کسی
شاعر کا وجدانی شعور جب بیدار ہوتا ہے تو ایسے اشعار کا نزول ہونے لگتا ہے جو ’الہامی
شاعری ‘کے وقار سے ہم کلام کرواتی ہے۔
انسان عموماً اپنے لاشعور میں مخفی جذبات واحساسات سے پوری
طرح با خبر نہیں ہوتا،محض ایک دھندلا دھندلا سا نقش ہوتا ہے جسے وہ واضح طور پر محسوس
نہیں کر سکتا۔اس کے بر عکس ایک شاعر ان لاشعوری محرکات کو واضح طور پر محسو س بھی کر
سکتا ہے اور انہیں الفاظ کے موزوں سانچے میں ڈھال بھی سکتا ہے اور ایسے نقوش خلق کرتا
ہے جنہیں دیکھ کر قاری اور سامع کے لاشعور میں مستوروہ دھندلا سا نقش جگمگا اٹھتا ہے
اور وہ ایک مسرت زا حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ جو کچھ اس کے دل میں تھا اسے شاعر نے کیسے
سمجھ لیا۔وہ شاعر کا دل اپنے سینے میں دھڑکتا محسوس کرتا ہے اور جذباتی زیروبم کے تحت
الشعور میں جذب ہوتا ہوا دیکھتا ہے۔شاعری کی تعریف کچھ یوں بھی کی گئی ہے کہ ’’یہ فکرواحساس
کا وہ سر چشمہ ہے جو وقت کے دھارے پر بہتے ہوئے ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کو سرسبز
وشاداب کرنے اور تشنگانِ فن کو سیراب کرنے کا اعلیٰ ترین وسیلہ ہے ‘‘۔ تاثر انگیز اشعار
اسی قبیل کے اشعار کو کہا جاتا ہے جو شاعری کی روحانی اور داخلی کیفیات کا اشاریہ ہوں
اور جو قاری یا سامع کو ایسے تجربات سے دوچار کریں جن کی کسک انہیں دیر تک اپنی گرفت
سے نکلنے نہ دے۔
’شعر‘ دراصل عربی نژاد لفظ ہے جس کا لغوی مفہوم ’زیرکی اور
دانائی‘ اور عقل کی باتیں ہے۔شعر سے مراد ہے ایک احساس،وہ احساس جس کے ذریعہ انسان
بنا دیکھے اور چھوئے سمجھ لینے کی قدرت رکھتا ہو۔اس لیے شاعری میں احساس کی لچک اور
شعور کی پختگی جزوِ لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔جس طرح دنیا کا کوئی بھی موضوع نیا نہیں
ہوتا، اسی طرح شاعری کے موضوعات بھی ہمیشہ نئے نہیں ہوتے،بس شاعر کے اندر کا چھپا ہوا
فنکار اپنے مخصوص لب ولہجہ، رنگ وآہنگ، برتنے کے انفرادی انداز اور طریقہ ٔ اظہار
کی صناعی اور فکر وجذبہ کے ذریعہ انہیں نیا پن عطا کرتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ دل کے زخم
اگر لَو نہ دیں تو الفاظ کے چراغ روشن نہیں ہوتے۔ ایک سچا شاعر وہ ہے جس کے واردات
قلبی اپنے ہوں، سرگذشت اپنی ہو اور پیرایۂ اظہار اپنا ہو اور الفاظ کی قدروقیمت احسن
طریقے سے معلوم ہو،اس کے خواب بھی ہوں اور شکستہ خوابوں کی تعبیر بھی ہو ‘پیش کش میں
تہہ داری کا حسن ہو اور طریقہ ٔ اظہار میں تازہ کاری بھی۔کہتے ہیں شاعری ’اشاروں کنایوں
‘ میں بات کہنے کا وسیلہ ہے۔غالباًاسی لیے ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ’’موزوں
شعر کہنے کے لیے خونِ جگر صرف کرنا پڑتا ہے ‘‘ اور مولانا الطاف حسین حالی نے بجا طور
پر فرمایا کہ ’’ایک شاعر کو ایک ایک لفظ کے لیے ستر ستر کنویں میں جھانکنا پڑتا ہے
‘‘۔ مولانا شبلی نعمانی کے خیال میں ’شاعری دراصل دو چیزوں کا نام ہے،’’محاکات اور
تخیل‘۔ ان میں سے اگر ایک بھی با ت پائی جائے تو ایک شعر،شعر کہلانے کا مستحق ہو گا،باقی
اوصاف یعنی سلاست، صفائی، حسنِ بندش وغیرہ اجزائے اصل نہیں بلکہ عوارض اور مستحسنات
ہیں۔ میر تقی میراور مرزا غالب نے ہمیشہ شاعری کے اصل مزاج کو سامنے رکھا اور ان دونوں
کا ماننا ہے کہ شاعری اور خطابت کے درمیان حدِ فاصل رکھنا ضروری ہے۔اُس دور میں اردو
شاعری کو ایک نیا مزاج ملا،خود داری اور انا کے تیور ملے اور لہو کے گھونٹ پی کر بھی
مسکرانے کی ادا ملی۔ایک بڑے شاعر کی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ جس صنفِ سخن میں طبع آزمائی
کرے اس کے ان امکانات کو روشن اور واضح کرے جو اس سے پہلے ناپید تھے یا ممکنات کی حد
سے باہر تصور کیے جاتے تھے۔اسی طرح کسی عہد ساز شاعر کوکسی مخصوص دائرے میں محدود نہیں
کیا جا سکتا کیونکہ اس کی شاعری میں حال سے زیادہ مستقبل جھلکتا ہے۔ صوفیوں اور مسلم
شعرا نے ہندوستانی طرزِ فکر اور فلسفہ، تہذیب وتمدن کے مقامی رنگ وآہنگ سے استفادہ
کرنے میں ہمیشہ فراخ دلی کا ثبوت دیا ہے جس کے نتیجے میں اردو شاعری کا گنگا جمنی رنگ
بے حد دلکش اور اثر انگیز ہوگیا ہے۔
رشید احمد صدیقی کہتے ہیں ’’شاعری دنیا کی مادری زبان ہے،اس
لیے شاعری میں مخصوص ذہن، زندگی اور زمانے کی ترجمانی اور تلاش بہت ضروری اور فطری
ہے۔ ہاں ایسی شاعری میں اعلیٰ لسانی اور فنّی قدروں کا ہونا بھی اسی قدر اہم اور ناگریز
ہے۔‘‘
مولانا الطاف حسین حالی ایک جانب شاعری کو فطرت کی طرف لے
جانے کی تلقین کرتے ہیں تو دوسری جانب یہ بھی فرماتے ہیں کہ صرف فطرت کا مطالعہ اور
معلومات کا ذخیرہ جمع کر لیناہی شاعر کا کام نہیں بلکہ ہر شے کی روح میں جو خاصیتیں
ہیں ان کا انتخاب کرنا اور ان کو شاعری کی طرف مائل کرنا بھی ایک شاعر کا فرض ہے۔پروفیسر
کرامت علی کرامت مرحوم فرماتے ہیں ’’کہ کسی شعر کے لیے جذبات ہی سب سے اہم ہیں،اور
اگر جذبات میں ندرت ہو تو فرسودہ الفاظ میں بھی نئی جان ڈالی جا سکتی ہے،مرحوم مزید
فرماتے ہیں کہ صنف غزل حسن وعشق کی داستان سے شروع ہو کر مختلف داخلی اور خارجی مدارج
طے کرتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں واردات قلبی کی اہمیت کو اکثر اربابِ
ذوق نے تسلیم کر لیا ہے،اس لیے اردو شاعری میں جا بجا نادر ذہنی پیکر Images)) بھی نظر آتے ہیں۔کرامت صاحب مرحوم نے ایذرا پاؤنڈکا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے
کہ کسی شاعر کے لیے زندگی بھر صرف ایک ذہنی پیکر کی تخلیق کرنا ایک ضخیم شعری مجموعہ
کی تخلیق سے بہتر ہے (شاخسار کے اداریے اور تبصرے)۔ شاعری کے حوالے سے انہوں نے ایک
مفید مشورہ بھی دیا ہے کہ’’ شاعر کو محض مشّاقی سے آگے بڑھ کر شعر میں خیال اور اسلوب
کے لحاظ سے کچھ نئی بات پیدا کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے‘‘۔ شاعر ہر ایک چیز اور واقعہ
سے صرف ’ذوقیات‘ لے لیتا ہے جو اس کے سوا کسی اور کا حصہ نہیں۔ایک با کمال شاعر کے
یہاں اس کا کلام ہموار اور اصول کے مطابق ہوتا ہے اور کہیں کہیں اس میں ایسا حیرت انگیز
جلوہ نظر آتا ہے جو ہر خاص وعام کے دلوں میں براہ راست اتر جاتا ہے۔ ایسے شعرا کے
ان اشعار میں جا بجا معنی و مفہوم کی بجلیاں کوندتی ہوئی نظر آتی ہیں۔شاعری کے رموزوعلائم
تغیر پذیراور سیماب صفت ہوتے ہیں،وہ خود مکتفی نہیں ہوتے بلکہ زمانی اور مکانی عناصر
کے سہارے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور اپنے وجودی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں۔
افلاطون نے شاعری کو ’الہامی ‘کیفیت سے تعبیر کیا ہے جبکہ
ارسطو کی نظر میں شاعری ایک شعوری کاوش کا نتیجہ ہے،مگر حقیقت افلاطون کے حق میں جاتی
ہے کہ شاعری کا فن یقیناًخدا داد ہوتا ہے۔ارسطو نے لگ بھگ دو ہزار برس قبل مسیح شاعری
کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ اس فن کا میدان اس قدر وسیع ہے کہ بت تراشی،مصوری اور ڈرامہ
وغیرہ کے فنون مل کر بھی اس کی وسعت کو نہیں پہنچ سکتے۔ شاعری کو ان تینوں فنون لطیفہ
پر اس حیثیت سے بھی فوقیت حاصل ہے کہ انسان کا بطون شاعری کی قلمرو ہے۔ شاعری دراصل
ایک سلطنت ہے جس کی قلمرو اس قدر وسیع ہے جتنی خود تصورات کی دنیا۔شاعری کے حوالے سے
افلاطون کا خیال ہے کہ شاعری ایوانِ مفروضات کی بنیاد پر قائم ہے،کیونکہ شاعری فطرت
کی نقاّلی ہے اور فطرت خود حقیقت کی نقّالی۔اس لیے صنفِ شاعری حقیقت سے تین قدم پیچھے
کھڑی نظر آتی ہے۔مگر جب وہ دیکھتا ہے کہ شاعری یونانی تہذیب وتمدن کی رگ وجاں میں
برقی رو کی طرح دوڑ رہی ہے اور اس کے اندر وہ بے پناہ صلاحیت موجود ہے جو عوام کے دلوں
کو جوش وجذبہ سے معمور کر سکتی ہے، تو افلاطون خود الجھ کر رہ جاتا ہے اور یہ اعتراف
کرتا ہے کہ شاعری نقل کی نقل ضرور ہے مگر یہ نقل اتنی خوبصورت ہے کہ اس کے آگے اصل
بھی ماند پڑ جاتی ہے۔،بالآخر وہ مشروط حدوں کے اندر شعرا کو آزادی ٔ اظہار کی رائے
دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔دانشورانِ عالم میں افلاطون نے ہی سب سے پہلے شاعری کے سماجی
مضمرات اور اخلاقی وافادی پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ اسے تطہیر ِقلب اور انسانی جذبات کے
فروغ کا آلہ قرار دیا اور ساتھ ہی یہ فرمان بھی جاری کیا کہ اگر شاعر وفنکار یہ فریضہ
انجام نہ دے سکیں تو انہیں مملکتِ شاعری میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔یہ افلاطون کے ’تصوراتی
ادبی دستور‘کی ایک اہم شق تھی۔
کسی مخصوص زمانے کی شاعری سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس
دور کے سماجی حالات کیا تھے،ثقافتی رجحانات کیا تھے، لوگوں کا مزاج کیسا تھا‘ تہذیب
وتمدن ارتقا کے کن مراحل تک پہنچے تھے، سیاسی اور معاشی ترقی کس زینے پر تھی۔غالباًاسی
لیے کہا گیا ہے کہ شعروادب تاریخ سے زیادہ سچا ہوتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر
خطے کی مٹی اور آب وہوا کا اثر وہاں کے لوگوں کے خیالات واحساسات پر پڑتا ہے اور اس
کے توسط سے شاعری اور انشا پردازی تک پہنچتا ہے۔دورِ جاہلیت میں عربوں کے کلام پر کوہ
و صحرا‘ جنگل و بیابان‘ ببولوں اور ریگزاروں‘ سراب و تشنگی‘کھنڈروں اور ویرانوں کا
تصور شاعری کا سرمایہ ہوا کرتے تھے۔مگر یہی
شاعری جب اپنا ادبی سفر طے کرتے ہوئے ایران پہنچی تو اس میں مٹی کی زرخیزی‘ آبِ رواں‘
سبزہ وشادابی‘بہار وخزاں‘ گل و بلبل‘بادِ سحر کے جھونکے‘خوشبو کی لپٹیں وغیرہ مرکزی
اہمیت اختیار کر گئیں۔شاعری اپنے سفر میں جب اور آگے بڑھی اور اس کے قدم ہندوستان
کی زرخیز اور سرسبز و شاداب زمین پر پڑے تو وادیٔ گنگ و جمن کے ہوش ربا حسن نے اسے
مبہوت کردیا۔ وسیع وعریض دریاؤں کا خرام‘سبز ہ پوش کوہستانی سلسلے‘ جھرنوں اور آبشاروں
کی موسیقی ریز ترنگ‘ سوہنی مہیوال اور ہیر رانجھا کی عشقیہ داستانیں‘رشی منیوں کی گاتھائیں‘میرا
کا بھکتی رس‘ولیوں اور صوفیوں کے تصوف میں پوشیدہ خود آگہی کا سیمابی احساس‘پنگھٹ
پر گوریوں کا جھرمٹ‘کرشن کی بانسری کا جادو‘ان سب کے امتزاج نے اردو شاعری کے آنچل
میں ایسی دھنک رنگ سحر کاری کی کیفیت پیدا کی جس کی نظیر کسی دوسری عالمی سطح کی شاعری
میں بھی نہیں ملتی۔
اردو شاعری کی ابتدا کا قصہ بھی بہت دل چسپ ہے۔وہ زبان جو
محمد شاہ کے زمانے میںہنوز تصنیف وتالیف کی دنیا سے بہت دور تھی اور کوچہ و بازار،
فوجی چھاؤنیوں، خانقاہوں اور دیہاتوں میں بڑے الہڑ پن سے جوان ہوئی تھی،اچانک زرق
برق لباس پہن کر مسندِ عروس پر آ بیٹھی اور کچھ ایسے نئے نئے عشوے اور غمزے دکھائے
کہ بڑے بڑے شعرا اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے،جن میں عبدالقادر بیدل، قزلباش‘
خاں امید، مرزا معز فطرت، آنند رام مخلص اور شاہ ولی اللہ اشتیاق اردو زبان میں شعر
کہنے لگے۔سراج الدین خاں آرزو نے ریختہ میں شعر کہنے کی ترغیب دی،شاہ مبارک آبرو،
غلام مصطفیٰ خاں یک رنگ،بے نوا اور آنند رام مخلص نے ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ایرانی
شعرا نے ابتدائی دور میں عربی زبان کے اشعار کا ترجمہ کرکے فارسی شعروادب کے سرمائے
میںاضافہ کیا۔مولانا عبدالسلام ندوی کی تصنیف ’شعرالہند ‘اردو شاعری کی پہلی کتاب ہے
جس میں اردو شاعری اور اس کی مختلف اصناف پر تاریخی اور ادبی بحث کی گئی ہے۔اردو کی
ابتدائی شاعری پر فارسی زبان کا غلبہ نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری کے صنائع
بدائع، علم بیان، استعارے اور تلمیحات کا رشتہ عموماً فارسی اساطیری روایات سے استوار
ہے۔اردو شاعری ہمیشہ قصۂ گل وبلبل اور حکایتِ
فرازودارکے متوازی خطوط کے
درمیان سفرکرتی رہی ہے۔یہ روایت اور عصری حسیت کو اپنے دامن
میں سمیٹے ارتقائی منزلوں کو گردِ راہ کرتی آئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شاعری دو طرح کی ہوتی ہے،ایک فکری اور دوسری
قوس ِقزح کے ست رنگی جذبات میں ڈوبی ہوئی شاعری‘ جو براہ راست دل میں اتر جاتی ہے۔
ایک اچھا شاعر اجالے کے پس منظر کی تاریکی اور اس تاریکی میں مستور روشنی کو دیکھنے
کی خدا داد صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ اس کی ’وہبی‘ بصارت کی علامت ہے۔شاعری انسان کی شخصیت
اور اس کے ذوق کو نکھارتی اور سنوارتی ہے۔یہ روح کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہے اور
فنی صلاحیتوں کو ابھارتی بھی ہے۔ اردو شاعری میں ایک صحت مند روش یہ پائی گئی ہے کہ
کلاسیکی دور کے شعرا اپنی شعریات خود وضع کرتے رہے ہیں اور ان کے لہجے میں احتیاط،
فکر میں توازن، پیرایۂ اظہار میں متانت اور سنجیدگی کے اوصاف نمایاں ہیںاور سب سے
اہم بات یہ ہے کہ کسی مخصوص دائرہ ٔ فکر سے فاصلہ بنائے رکھنے کی لاشعوری کوشش بھی
ان کی شناخت ہے۔ان کی شاعری کلاسیکی رچاؤ اور جدت پسندی کے خلاقانہ امتزاج اور سات
سروں کے سنگم کو مضراب ِ جذبات سے نغمہ زن کرنے کا ہنر پیش کرتی ہے۔ دراصل شاعری اپنے
عہد کی اجتماعی فکر و احساس کی ترجمان ہوتی ہے۔زمانے کا مزاج بدلتا ہے تو شاعری بھی
اپنا رنگ وآہنگ تبدیل کرتی ہے۔
آج کی برق رفتار زندگی میں شاعری ہمارے شعور کی ضرورت ہے
جو تھکے ماندے ذہن کو سکون کے کچھ لمحات فراہم کرتی ہے۔اسی لیے جہاں ارسطو نے کہا ہے
کہ’’شاعری بیمار روح کی دوا ہے‘‘ وہیں نیو مین کا کہنا ہے کہ’’شاعری روح کی غذا ہے
جو دماغ اور ذہن سے افکار کا بوجھ کم کرتی ہے‘‘۔یہ قول مبنی بر حقیقت ہے کہ شاعری اعلیٰ
ترین شعوروآگہی کے سر چشمے سے پھوٹتی ہے‘جس کی ہمسری نہ سائنس کرسکتی ہے اور نہ ہی
فلسفہ۔
Sayyed Nafees Dasnavi
Plot
No:1481/B,Sector-6.C.D.A
Bidanasi.Cuttack-753014(Odisha)
Mob-9437067585
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں