2/6/25

اردو ادب میں وقت کا تصور، مضمون نگار: اے رحمان

 اردو دنیا، مارچ 2025

یہ موضوع ایک بنیادی سوال پیدا کرتا ہے کہ وقت کے تصور سے وقت کا کون سا تصور مراد ہے۔ مختلف مذاہب، اساطیر،فلسفوں اور سائنس نے وقت پر غورو فکر اور مباحث کے بعد مختلف اور گو نا گوں نظریات قائم کیے ہیں،اور سائنس کے شعبے میں تو فکر و تحقیق مستقل جاری ہے۔معاملہ ادب کے وسیع و عریض میدان سے تعلق رکھتا ہے اور کسی صنف ادب کو مختص کیے بغیر ضروری ہو جاتا ہے کہ وقت کے تصور پر بنیادی گفتگو کر لی جائے۔

وقت آوارہ ہوا کی مانند‘۔ اگر حمایت علی شاعر کے اس مصرعے کو لغوی طور پر قبول کر لیا جائے تو وقت‘ ایک بے سمت حرکیاتی اکائی یا وجود ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔1966 کی ایک فلم’ وقت‘ میں ساحر لدھیانوی کا مشہورنغمہ تھا ’وقت سے دن اور رات… وقت سے کل اور آج…وقت کی ہر شے غلام… وقت کا ہر شے پہ راج۔ بنیادی طور پر وقت کے لیے عوامی محاورہ بھی یہی ہے اور عوام الناس کے ذہنوں میں وقت کا کم و بیش تصور بھی۔ فلم اور فلمی نغمے کا حوالہ میں نے بلا جھجھک دیا ہے کیونکہ برگساں کاقول ہے :

"There is nothing in philosophy which could not be said in everyday language."

فلسفے میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کو روز مرہ کی زبان میں بیان نہ کیا جا سکے۔ اپنے نغمے میں ساحر نے ان تمام اعتقادات کا ذکر کیا ہے جو عام طور پر وقت سے منسوب ہیں۔ وقت لاتا ہے بہاریں،وقت لاتا ہے خزاں۔ وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں۔ وقت ہے پھولوں کی سیج۔ وقت ہے کانٹوں کا تاج۔ لیکن یہ سب وقت کے خارجی اوصاف ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود وقت کیا ہے۔ عام وجودی اصطلاح میں اس کی تعریف یا شناخت کیونکر ہو۔ اب جاوید اختر کے یہ مصرعے دیکھیے:

یہ وقت کیا ہے/یہ کیا ہے آخر کہ جو مسلسل گزر رہا ہے/یہ جب نہ گزرا تھا/تب کہاں تھا/کہیں تو ہوگا/ گزر گیا ہے/تو اب کہاں ہے/کہیں تو ہوگا/کہاں سے آیا کدھر گیا ہے/یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے/ یہ وقت کیا ہے

اب ان مصرعوں میں شاعر نے اس سوال کو نظم کر دیا ہے جو آغاز تہذیب سے انسان کو در پیش رہا ہے۔ وقت کے عمومی تصور میں کیونکہ وقت کو گذران یعنی تحرک سے وابستہ کیا گیا ہے اس لیے بنیادی سوال ’ وقت کیا ہے‘ اور اگر یہ کوئی گزرنے والی شے ہے تو پھر یہ تعریف جس منطقی سوال کو جنم دیتی ہے اسے بھی جاوید اختر بڑے خوبصورت انداز میں پوچھتے ہیں          ؎

کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں /کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو/تو ایسا لگتا ہے/دوسری سمت جا رہے ہیں/ مگر حقیقت میں/ پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں/ تو کیا یہ ممکن ہے/ ساری صدیاں/ قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہوں/ یہ وقت ساکت ہو/ اور ہم ہی گزر رہے ہوں/ اس ایک لمحے میں/ سارے لمحے/ تمام صدیاں چھپی ہوئی ہوں/ نہ کوئی آئندہ/ نہ گذشتہ /جو ہو چکا ہے/ جو ہو رہا ہے/جو ہونے والا ہے/ہو رہا ہے/ میں سوچتا ہوں / کہ کیا یہ ممکن ہے/ سچ یہ ہو/کہ سفر میں ہم ہیں/ گزرتے ہم ہیں/ جسے سمجھتے ہیں ہم/ گزرتا ہے/ وہ تھما ہے/ گزرتا ہے یا تھما ہوا ہے/ اکائی ہے یا بٹا ہوا ہے/ ہے منجمد/یا پگھل رہا ہے/ کسے خبر ہے/ کسے پتا ہے/ کہ وقت کیا ہے

                اب یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ نظم کے اس بند میں شاعر نے جو سوالات قائم کیے ہیں آئن سٹائن نے انھیں سوالوں کا جواب اپنے نظریہ اضافت میں دیا جس کی اشاعت انھوں نے  1905 میں کی تھی۔ اس کا کچھ ذکر آگے آئے گا۔

جیسا کہ میں نے کہا تہذیب کے آغاز  سے ہی انسان کے سامنے وقت ایک بہت بڑے معمے کی صورت میں کھڑا ہوا ہے۔ فلسفہ، مذہب اور سائنس تینوں نے اپنے اپنے عقائد اور طریقوں سے  اسے سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کی لیکن ان تینوں کے ذریعے اخذ کیے گئے نتائج باہم متصادم ہیں۔ اس کے باوجود وقت ہمارے یعنی عوام الناس کے لیے کائنات اور زندگی کی ایسی تاریخی حقیقت معلومہ(Given) بن چکا ہے کہ اب یہ یقین کرنا دشوار ہے کہ ازمنہ قدیم کی تہذیبوں میں انسان وقت کا کوئی مختلف تصور رکھتا ہوگا۔ تہذیب انسانی کی توقیت کے تناظر میں دیکھا جائے تو مصر قدیم میں سب سے پہلے وقت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی اور حالانکہ اس وقت مصری لفظیات میں وقت کے لیے کوئی صریح اور واضح اصطلاح موجود نہیں تھی۔ اس کے باوجود قدیم مصریوں نے ہی وقت کو دنوں ، پہروں اور گھنٹوں کے Sections میں تقسیم کرکے وقت کا وہ عمومی تصور قائم کیا جو آج دنیا بھر میں مروج و مستعمل ہے اور قدیم مصریوں کے ذریعے کیے گئے اسی تقسیم ادوار اور تصور وقت کا جائزہ لینے سے وہ تناظر قائم ہوتا ہے جس میں وقت کی عصری تفہیم کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ مصری تہذیب کا مکمل انحصار دریائے نیل پر تھا۔ انھوں نے دریاکو گھٹتے بڑھتے اور پھر گھٹتے دیکھا، ماحول کو کبھی سرد کبھی گرم اور کبھی پھر سرد محسوس کیا، ہواؤں کے رخ بدلتے دیکھتے اور اس طرح ان مختلف وقفوں سے واقف ہوئے جو ایک تسلسل سے آتے جاتے رہے اور جن کو بعد میں موسم سے موسوم کیا گیا اور اس طرح وقت کے بنیادی تصور نے ان کے ذہن میں جگہ بنائی۔ لیکن وقت کا وہ بنیادی تصور ان کے ذہن میں ایک دائرے کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ موسم جاتے تھے اور پھر آجاتے تھے۔ قدیم ہندو فلسفے میں بھی وقت کا تصورCyclical یعنی دائرے کی صورت میں ہے جسے کال چکر کہا گیا۔

مصری تہذیب کے بعد وقت کے بارے میں اہم نظریات یونان میں قائم ہوئے۔ سقراط سے پہلے دنیائے موجودات کے سلسلے میں دو متضاد فلسفے تھے۔ ایک وہ جو اکتسابی علم پر مبنی تھا اور دوسرا وہ جو غیر عقلی عقائد اور علم مخالف نظریات پر۔ سقراط نے دانش اور دانشوری کا رخ فطری فلسفے اور کائناتی طبیعات کی جانب سے ہٹا کر مادی دنیا اور اخلاقیات کی جانب موڑ دیا۔ اس کے شاگرد افلاطون نے فلسفے کو مادہ پرستی اور سیاست پر فوقیت دیتے ہوئے387 قبل مسیح میں ’اکیڈمی‘ قائم کی اور مکالمات کے ذریعے فطرت انسانی، ریاست، اخلاقی اقدار،علم اور لسانیات وغیرہ پر منضبط نظریے تشکیل دیے۔ اس نے زمان و مکان کی فلسفیانہ تعبیر بھی کی جن کے نتیجے میں ثبات  Permanence اور تغیر یعنیChange کی اصطلاحات وجودمیں آئیں۔ فلسفے کو حسی تجربے یعنی سائنس کے دائرے میں لانے کی ابتدائی کوشش افلاطون کی فکر میں ہی نظر آتی ہے۔ شروع میں افلاطون کا عقیدہ تھا کہ خالق(Creator) نے کائنات کی تخلیق کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی تخلیق کی لیکن بعد میں اس نے حرکتِ سیار گان کے وقفوں سے وقت کی پیمائش کی۔ اس نے وقت کی اصطلاح کو ایسے وجود کے معنی میں استعمال کیا جو تبدیلی سے آزاد ہے یعنی جس کا کوئی ماضی، حال اور مستقبل نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ارسطو نے اس لفظ سے مرا د لی ایک ایسا وجود جو ہمیشہ قائم رہنے والا(Everlasting) ہو افلاطون اور ارسطو کے تصور وقت میں بنیادی فرق یہ تھا کہ افلاطون نے وقت کا ایک آغاز مقرر کیا تھا جبکہ ارسطو کانظریہ تھا کہ وقت کا آغاز اور انجام ایک دوسرے میں ضم ہو گئے ہیں یعنی نہ آغاز ہے نہ انجا م بلکہ ہمیشگی۔ یعنی ہمیشہ  سے اور ہمیشہ کے لیے۔ ارسطو نے وقت کی تعریف تعداد سے کی۔ یعنی وقت مسلسل حرکات کی تعداد ہے۔ یہ تبدیلی نہیں بلکہ ایک ایسی شے ہے جس کا تبدیلی پر انحصار ہے۔ ایسی تبدیلی جس کو ’ پہلے‘ اور بعد کے تعلق سے شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک آفاقی ترتیب ہے جس میں تمام تبدیلیاں ایک دوسرے سے متعلق ہو کر ایک سلسلہ بناتی ہیں۔ اس تشریح پر ارسطو کے دونہایت الجھن آمیز اور پیچیدہ دعوے استوار ہیں۔ ایک تو یہ کہ’ اب‘ یعنی لمحہ موجود ایک متحرک شے ہے اور دوسرے یہ کہ ’ وقت ‘ کا وجود ’ روح‘ پر مبنی ہے۔ چوتھی صدی عیسوی میں ارسطو کے اس نظریۂ وقت سےAugustine نے اختلاف کرتے ہوئے کہاکہ یہ نظریہ قابل قبول نہیں کیونکہ کائنات کا ایک آغاز ہے۔ ظاہر ہے اس کا اختلاف اس کے اعتقاد( (انجیل ) پر مبنی تھا۔ لیکن اب آغازِ کائنات سے ’ قبل‘ کا مسئلہ آیا جس کے جواب میں آگسٹین نے کہا کہ خدا نے کائنات کے ساتھ ہی’ وقت‘ کی تخلیق کی اس لیے آغاز کائنات سے قبل ’وقت‘ کا تصور بے کار ہے۔ لیکن یہ نظریہ مذہبی عقیدے پر مبنی تھا لہٰذا ارسطوئی فلسفہ بعد کے فلسفیوں کی رہنمائی کرتا رہا حتیٰ کہ سترہویں اور  اٹھارہویں صدی میں گلیلیو اور نیوٹن نے وقت کا ایک سائنسی تناظر قائم کیا جو مکمل طور سے ریاضیاتی فارمولوں پر مبنی ہے لہٰذا اس کا ذکربے محل ہوگا۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ زمان و مکاں کا رشتہ اور اس کا مضبوط ارتباط سمجھ میں آگیا۔ انیسویں صدی میں Thermodynamics کی دریافت نے نیوٹن کے نظریات کو تبدیل کر دیا اور اس کے بعد وقت کے تصور میں سب سے بڑا انقلاب بیسویں صدی میں آیا جب آئن سٹائن نے اپنا نظریہ اضافت شائع کیا۔

بہت سادہ الفاظ میں کہا جائے تو آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت کی رو سے زمان و مکان کے چار جہاتی ڈھانچے میں وقت ایک خلا ہے ان معنی میں کہ ہر واقعہ وقت کے اس خلا میں اپنا ایک مقام، ایک پتہ رکھتا ہے۔ وقت کے تمام پہلو حقیقی ہیں اور ماضی اور مستقبل اتنے ہی قابل ادراک ہیں جتنا کہ حال۔ آئن سٹائن نے اس مفروضے کو بھی باطل قرار دیا کہ وقت محض وہم ہے۔

2015 میں امریکی ٹیلی ویژن پر ایک سلسلہ وار پروگرام شروع ہوا جس کا عنوان تھا’ حقیقت سے قریب تر‘ Closer to Truth  اس کے تحت کائنات اور انسانی شعور کے عمیق ترین اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے ایکEpisode ’ وجود کے راز: اگر کوئی چیز ہے تو کیوں ہے‘  میں کیمبرج پروفیسر رابرٹ لارنس کون نے آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کے وقت سے متعلق نظریات کو بیان کرتے ہوئے آسان زبان میں وقت کی تشریح کرتے ہوئے کہا۔’ وقت متنازع کیوں ہے؟ وقت تو ’ہے‘۔ اس کا احساس ہوتا ہے وہ غیر محسوس طریقے سے آگے بھی بڑھتا ہے۔ اس میں دریا کا بہاؤ ہے، دورانیہ ہے ترتیب ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات ہوتے ہیں۔ واقعات کا درمیانی وقفہ قابل پیمائش ہے۔ سوال بس یہ ہے کہ کیا یہ تمام اوصاف حقیقی اور طبیعاتی دنیا کا حصہ ہیں یا ذہن انسانی کے مصنوعی پیکر۔ ہو سکتا ہے وقت وہ نہ ہو جو ہم سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک آفاقی پس منظر ہے۔ ایک ایسا ابدی اسٹیج جس پر تمام واقعات جو ہو رہے ہیں، ہو رہے ہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ نے وقت کی تعبیر کرتے ہوئے اس میںایک نئے زاویے کا اضافہ کیا۔ متصورہ وقت یعنی Imaginary Time  اپنی کتاب’ وقت کی ایک مختصر تاریخ ‘میں ہاکنگ نے یہ بنیادی نظریہ پیش کیا کہ تمام سائنسی شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات ہمیشہ سے نہیں تھی بلکہ آج سے تقریباً 15کھرب سال پہلے اس کا آغاز ہوا اور یہ کائناتی سائنس یعنی Cosmology کی بہت بڑی دریافت ہے۔ حالانکہ ابھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ کبھی کائنات ختم بھی ہوگی۔ لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں اگر کبھی ختم ہوئی بھی تو کم از کم بیس کھرب سال بعد ہوگی۔ہاکنگ کہتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی تک یہ بحث چلتی رہی کہ کائنات ہمیشہ سے تھی یا اس کا کبھی آغاز ہوا لیکن یہ بحث فلسفے اور مذہبیات پرہی مبنی رہی۔ قابل مشاہدہ ثبوت و شواہد نہیں دیکھے گئے۔ ماہر علم کائنات یعنیCosmologist سر آرتھر ایڈ نگٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر آپ کا نظریۂ کائنات مشاہدات کے موافق نہ ہو تو گھبرائیے مت ہو سکتا ہے مشاہدات غلط ہوں۔ لیکن اگر آپ کا نظریہThermodynamics کے دوسرے قانون سے ٹکراتا ہے تو پھر آپ کا نظریہ بڑی مشکل میں پڑجائے گا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ سائنس جس چیز کو تجربے سے ثابت کر دے اس کا ابطال ممکن نہیں۔

اب بات آتی ہے سٹیفن ہاکنگ کے متصورہ وقت کی۔وقت کو اور وقت کے بہاؤ کو  rectilinear  یعنی خطِ مستقیم کی صورت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ہاکنگ کہتا ہے کہ ایک افقی خطِ مستقیم تصور کیجیے۔اس کے مشرقی یعنی دائیں سرے پر ماضی ہے اور بائیں سرے پر مستقبل۔ لیکن متصورہ وقت یعنی Imaginary time ایک خطِ عمودی ہے۔حقیقی وقت میں آپ صرف آگے کی جانب سفر کر سکتے ہیں۔ماضی اور مستقبل کا سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ آپ ماضی کو یاد کر سکتے ہیں مستقبل کو نہیں۔

 متصورہ  وقت(عمودی) میں آگے اور پیچھے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ شمال سے جنوب چلیں تو جب واپس لوٹیں گے تو جنوب سے شمال ہوگا۔ یہ آگے اور پیچھے کا واضح تصور ہے۔ متصورہ وقت میں آگے اور پیچھے جا سکتے ہیں۔ حقیقی وقت میں نہیں۔

مختلف سائنسی نظریات... جوباہم متضاد بھی ہیں... کے تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سائنس بھی ابھی تک وقت کی کوئی حتمی تعریف متعین نہیں کر سکی۔آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت میں زماں قید ہے مکاں میں تو اسٹیفن ہاکنگ کی ’مختصر‘ تاریخ اربوں کھربوں سال کی بات کرتی ہے اور ظاہر ہے جب کوئی ’دورانیہ ‘مذکور ہو تو اس کا آغاز اور انجام بھی فرض کیا جائے گا۔وقت کا ایک دیو مالائی یعنی اسطوری تصور بھی زیرِ بحث آتا ہے لیکن میکس ملر کی تشریح کے مطابق وہ نظریہ لسانیاتی ہے کیونکہ ہر دیو مالا بنیادی طور پر کسی زبان سے پیدا ہوئی اور نہ صرف لسانی تبدیلیوں بلکہ گذرتے ’وقت‘ کے ساتھ ساتھ دیومالائی عقائد بدلتے گئے حتیٰ کہ مذاہب (جنھیں اصلاً دیومالائی عقائد کی ترقی یافتہ شکل بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ تمام آسمانی کتابوں میں ’ماضی ‘کی کہانیوں کو ہی مثال یا عبرت کے لیے بیان کیا گیا ہے) نے وقت کو  اپنے اپنے بنیادی عقیدے کے تناظر میں پیش کیا۔زرتشت نے ساتویں صدی قبل مسیح میں جس مذہب کو متعارف کیا اس میں نہ صرف نیکی بدی کی باہم متصادم قوتوں بلکہ اچھے برے اعمال کا عاقبت (دوسری زندگی) میں نتیجہ بھگتنے کا ذکر تھا۔’ڑنداوستا‘ میں یہ یقین بھی دلایا گیا کہ انسان مرنے کے بعد ایک ’نجات دہندہ‘ کے ذریعے دنیا میں واپس لایا جائے گا۔ دنیا کی ’عمر‘ زرتشت نے بارہ ہزار سال مقرر کی تھی جو تین تین ہزار سال کے چار دورانیوں پر مشتمل تھی۔ان چار ادوار کے بعد نیکی کے بدی پر غالب آنے کا دعویٰ کیا گیالیکن اس کے بعد ’وقت‘ کے حوالے سے صورتِ حال کیا ہوگی یہ واضح نہیں ہوتا۔زرتشتی مذہب میں ’خالق‘ خدا یا اللہ کے وجود کا بیان مبہم ہونے کے باعث اسے آسمانی مذہب تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام اہم ترین آسمانی مذاہب ہیںاور تینوں میں کائنات اور دنیا کی ’ابتدا‘ اور ’انتہا‘ یا اختتام کا واضح تصور موجود ہے۔یہودیت میں ’تاریخ‘ (ماضی) کو بہت اہمیت دی گئی ہے ،یہاں تک کہ خالق (تورات میں یہو دا)  کو’ رب التاریخ ‘ کا لقب دیا گیا ہے۔تخلیقِ کائنات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اسے ایک عظیم تاریخی واقعہ قرار  دیا گیا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہودا اس دنیا کو فنا کر کے ایک دن نئی دنیا تخلیق کرے گا جس میں نیک یہودی (اسرائیلی) ایک پر مسرت ابدی زندگی گذاریں گے۔ عیسائیت اور اسلام دونوں میں تخلیقِ عالم اور فنائے عالم کے عقائد تقریباً یکساں ہیں لیکن زماں کے تعلق سے اسلام میں مسئلہ ذرا الجھا ہوا ہے کیونکہ ایک حدیثِ قدسی ہے ’’ زمانے کو برا مت کہو کیونکہ زمانہ میں خود ہوں ‘‘۔ قرآن میں ’عصر‘ کی قسم کھائی گئی ہے اور کئی مفسرین نے  عصر سے زمانہ مراد لیا ہے۔بخاری میں حدیث ہے ’’ابنِ آدم زمانے کو کوستا ہے اور زمانے کا مالک میں ہوں رات دن میرے ہاتھ میں ہے‘‘ ایک اور دلچسپ حدیث ہے ’’ انگور کو کرم نہ کہو اور نہ یوں کہو ہائے رے خراب زمانہ کیونکہ زمانہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس طور دیکھا جائے تو زمانہ خالقِ مطلق کی ذات سے الگ کوئی شے نہیں جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔علامہ اقبال نے برگساں کے اعتراض کے جواب میں یہی کہا تھا ’نہ ہے زماں نہ مکاں لا الٰہ الا للہ‘۔ 

لیکن وقت اگر کوئی متحرک اکائی یا phenomenon  ہے تو وہ سفر تو کر رہا ہے،بہہ رہا ہے،گذر رہا ہے جس کے نتیجے میں تغیر رونما ہوتا نظر آتا ہے۔ابتدا اور انتہا کی خبر تو نہیں معلوم لیکن اپنے ’ہونے‘ کا وہم تو ہے۔اس وہم کا ادراک  تو ہے۔

میں وقت کے فلسفیانہ تصور کے ذکر سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ تقریباً تمام فلسفوں میں وقت اور کائنات کے باہمی تعلق کی جس طور تشریح کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سے محض فلسفیوں کی ژولیدہ خیالی کا تاثر ملتا ہے اور معمہ سلجھنے کے بجائے زیادہ الجھ جاتا ہے۔لیکن  انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا میں وقت کی جو تعریف درج ہے اسے نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا اس واسطے کہ وہاں سائنس اور فلسفے دونوں سے استفادہ صاف نظر آتا ہے:

 ’’ انسانی تجربے کی رو سے وقت ایک ایسا بہاؤ ہے جس کی رفتار ناقابلِ فہم ہے۔ اس پہلو سے زمان کا تصور مکان کے تصور سے کہیں زیادہ پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ وقت ’کتنا‘ فی سیکنڈ کی رفتار سے گذرتا ہے   یا ہم اس میں گذرتے ہیںکیونکہ (اس پیمائش  کے لیے) تغیر کا کوئی مختلف پیمانہ درکار ہے جسے آپ ہائپر ٹائم  (hyper- time) کہہ سکتے ہیں۔لیکن یہ ہائپر ٹائم اگر خود بھی بہہ رہا ہو تو پھر کسی ہائپر ٹائم کی ضرورت ہوگی جس سے وقت کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکے اور یہ سلسلہ لا متناہی ہو جائے گا۔ساتھ ہی اس سوال میں ایک اور سوال پوشیدہ ہے کہ اگر دنیا زمان و مکان پر مشتمل ہے تو انسانی ذہن بھی دنیاوی رخ پر ہی بہہ رہا ہے۔ اگر ہاں تو اس کی رفتار کیا ہے۔کیا مستقبل میں پیش آنے والے واقعات اس وقت اچانک عدم سے وجود میں آتے ہیں جب حالیہ لمحہ (بہتے ہوئے)  ان تک پہنچتا ہے یا اس کے برعکس ہوتا ہے اور یہ کہ زمان و مکان میں مستقل ہونے والی تبدیلیوں کا کیا جواز ہے۔ اس کے علاوہ نشے اور جنونی کیفیت کی حالت میں ہونے والے وقت کے مسخ شدہ تجربے کو دیکھا جائے تو یہ چیز بھی سامنے آتی ہے کہ کسی شدید ہیجانی کیفیت میں  انسان وقت کی رفتار اور گذران کا درست طریقے سے ادراک نہیں کر پاتا۔اس نوعیت کے حقائق وقت کی ماہیت کو واضح کرنے کے بجائے اسے مزید الجھا دیتے ہیں اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ انسانی حافظہ یک سمتی (unidirectional)   کیوں ہے۔‘‘

اب بات آتی ہے  اردو  ’ادب‘  میں وقت کے تصور کی تو میں نے اس کے لیے فکشن،خصوصاً ناولِ کا انتخاب کیا ہے۔ وجہ یہ کہ اول تو شاعری  خاص طور پر غزلیہ شاعری میں کسی ایک فکر یا فلسفے کا منطقی تواتر (consistency) نہیں پایا جاتا، دوم یہ کہ غزل عموماً مسلسل بیانیہ نہیں ہوتی لہٰذا ایک ہی غزل کے مختلف اشعار میں مختلف اور متضاد فلسفیانہ نکات یا نظریات کی موجودگی عجب نہیں سمجھی جاتی، مگر یہ فیصلہ تو کیا نہیں جا سکتا کہ شاعر کس نظریے یا فلسفے کی حمایت کر رہا ہے۔ نظم کا معاملہ جدا ہے۔ زیادہ تر تاثراتی یا موضوعاتی ہونے کی بنا پر نظم کسی مخصوص نظریے یا فلسفے کا منطقی تواتر سے اظہار کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ میں نے مضمون کا آغاز ہی جاوید اختر کی نظم سے کیا تھا لیکن اس میں وقت کے تعلق سے سوال اٹھائے گئے ہیں ،کوئی ایسا نظریہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جو کسی سوال کا جواب دیتا نظر آئے۔ اس کے برعکس اوپر بیان کی گئی ایک حدیثِ قدسی کو عنوان بنا کر ن۔م۔ راشد نے جو نظم کہی اس میں تصورِ وقت کے حوالے سے تخلیقی واردات کا اظہار کیا گیا ہے           ؎

زمانہ خدا ہے

زمانہ خدا ہے

اسے تم برا مت کہو

مگر تم نہیں دیکھتے،زمانہ فقط ریسمانِ خیال

سبک مایہ، نازک، طویل

جدائی کی ارزاں سبیل

وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں

وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی

انھیں تم نہیں دیکھتے،دیکھ سکتے نہیں

کہ موجود ہیں،اب بھی، موجود ہیں وہ کہیں

مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے

یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں

ہو پیدا یہ راہِ وصال

ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اپنی ایک نظم میں وقت کا تجزیہ یوں کیا ہے          ؎

وقت ٹھہرا ہوا ہے

زماں کی روانی فقط واہمہ ہے

زماں... گول منکوں کا اک ڈھیر جس کو

مری انگلیاں رات دن گن رہی ہیں

مری انگلیوں کو پتہ ہے کہ ہر گول منکا

جو بے حس پڑا ہے

فقط ایک پل ہے کہ جس کی

ازل بھی نہیں

اور ابد بھی نہیں ہے

مگر دیکھنے والے کہتے ہیں

منکے رواں ہیں

مری انگلیوں سے گذرتے چلے جا رہے ہیں

زماں کی روانی فقط واہمہ ہے

ہر اک شے

خود اپنی جگہ پر

حنوطی ہوئی لاش ہے

وقت کی منجمد قاش ہے

وقت ٹھہرا ہوا ہے

اختر الایمان جنھوں نے غزل کو درگذر کرتے ہوئے صرف نظم کو ذریعۂ اظہار بنایا تھااور وقت کی تمام جہات اور وصفی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے،اپنے مجموعے ’بنتِ لمحات ‘ کے پیش لفظ میں کہتے ہیں: ’’میری شاعری میں وقت کا تصور ایسے ہے جیسے وہ میری ذات کا حصہ ہو۔‘‘

زلزلہ اف یہ دھماکہ یہ مسلسل دستک

کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دروازے کو

——

کون آیا ہے ذرا ایک نظر دیکھ تو لو

کیا خبر وقت دبے پاؤں چلا آیا ہو

——

توڑ ڈالے گا یہ کمبخت مکاں کی دیوار

اور میں دب کے اسی ڈھیر میں رہ جاؤں گا

وقت یعنی زماں سے یہ خدشہ کہ وہ ’مکاں‘ کی دیوا رتوڑ ڈالے گا  اختر الایمان کے تصورِ وقت اور زمان و مکاں کے باہمی رشتے کے تئیں ان کے ادراک و احساس کی غمازی کرتا ہے۔

فکشن میں افسانہ اور ناول دونوں شامل ہیں لیکن پلاٹ اور کرداروں کی لا محدودیت کے اوصاف کی بنا پر ناول ا پنے وسیع تر کینوس میں فلسفوں اور نظریات کی ایک پوری کائنات لیے ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وقت کے تصور کو ناول کے تناظر میں تلاش کرنا افسانے کی نسبت کہیں زیادہ آسان اور نتیجہ خیز ہے۔اردو ناول کی تاریخ یوں تو پچھلے تقریباً ایک سو پچیس سال پر محیط ہے لیکن ترقی پسند تحریک کی ابتدا کے بعد بعض ادبی taboo  تو زائل ہوئے ہی،ادب زندگی سے قریب تر ہو کر معاشرتی،نفسیاتی اور سیاسی مسائل کی آئینہ داری پر مائل ہوا او ربحیثیت صنفِ ادب  ناول نے وہ جدید طرز اختیار کی جسے حقیقت نگاری کہا گیا۔اس دور کے اہم ناول نگاروں میں عصمت چغتائی اور کرشن چندر جیسے نام بھی شامل ہیں لیکن وقت کا شعوری احساس بہت واضح طور پر سب سے پہلے عزیز احمد کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ 1948 میں شائع ان کا ناول ’ ایسی بلندی ایسی پستی‘ خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہے جس میں انھوں نے نام نہاد ا’اونچے طبقے‘ کی انفرادی اور معاشرتی نفسیات کا بڑا خوبصورت تجزیہ کرتے ہوئے اخلاقی اقدار کے زوال اور اس کے نتیجے کے طور پر رو نما ہوئے تہذیبی المیے کو اپنے مرکزی کردار سلطان حسین کے ذریعے بڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے۔یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ سماجی ریا کاری تہذیبی زوال کا آغاز ہے اور ان کا یہ کردار اسی زوال پذیر معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے بھی حالات سے مکمل طور پر متفق نہیں اور وقت کے بے رحم تفوق سے نبرد آزما ہے۔ اس کی اندرونی کشمکش جو دراصل پورے معاشرے کے نفسیاتی ڈھانچے کی عکاسی کر رہی ہے اس خود کلامی سے عیاں ہوتی ہے۔ ’’بہتا ہوا پانی،دریا،سمندر،وقت۔لیکن تخیل زندگی کا غلام ہے اور زنددگی وقت کے دربار کی مسخری ہے اور وقت جو ساری دنیا کا احتساب کرتا ہے وہ بھی رک کر رہے گا۔یوں کہا شیکسپیئر اور بہت سے ماہرینِ طبیعات نے۔زندگی وقت کے دربار کی مسخری۔میں۔۔ سلطان حسین، میری ابتدا میں میری انتہا ہے۔ پیدائش، افزائشِ نسل اور موت۔میرے لیے سب کے سب بے معنی ہیں کیونکہ میں متوسط طبقے کا دہریہ بہتے ہوئے پانی، بپتسمہ کے چھینٹے، زنار کے دھاگے،تسبیح کے دانے پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘ 

اور یہ جملہ  Augustine  کے فلسفۂ وقت، خصوصاً زمان و مکاں کے باہمی رشتے کے بارے میں اس کے نظریے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’ سب کچھ تاریکی کی طرف جا رہا ہے۔ستاروں کے درمیان خلائے مکانی کی طرف۔

جدید اردو ناول کا کینوس وسیع تر کرنے اور اس صنف کو نئی جہات عطا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا قرۃ العین حیدر نے۔ان کا پہلا ناول ’ میرے بھی صنم خانے‘ تقسیمِ ہند کے بعد1948 میں شائع ہوا جس میں انہوں نے اودھ کے جاگیرداروں کی نفسیات،ملمع شدہ کردار اور معاشرتی رویوں کی مغربی طرزِ زندگی کے تناظر میں نہایت بھرپور عکاسی کی اور تقسیم کے المیے سے پیدا شدہ جذباتی انتشار اور نظریاتی بے سمتی کو بیان کرتے ہوئے وقت کو مکمل طور سے اس پورے انسانی حادثے کا ذمے دار ٹھہرایا ہے: ’’ ایک کارواں جو آگے بڑھتا ہے۔ماضی کا افسوس اور فردا کی فکر اس کی رفتار پر اثر انداز نہیں ہو سکے۔ نئے دن آتے ہیں اور نئی راتیں آتی ہیں۔ جھکڑ چلتا ہے ، آندھیاں اٹھتی ہیں، کسی کو موت آتی ہے کسی کو نہیں آتی...’’پھر وقت کی پرواز  کے ساتھ کوئی نیا معمہ بن جائے گا۔نیا حل تلاش کر لیا جائے گا۔ہم جہاں ہیں اس جگہ نہ ہوں گے۔یہ سمے آگے نکل جائے گا۔زندگی کی مقناطیسی رو وقت کے ریگستانوں میں کھو جائے گی‘‘...’’وقت بہت غلط موقعوں پر آگے بھاگ جاتا ہے اور ہم اسے واپس نہیں لا پاتے۔کتنی ہنسی کی بات ہے‘‘

’’وقت کی بات،یہ وقت کی بات۔جو لمحے گذر جاتے ہیں وہ واپس نہیں آ پاتے۔وہ اپنے ہونے کا شدید تکلیف دہ احساس چھوڑ جاتے ہیں۔‘‘ایک اور ناول جو تصورِ وقت کے سلسلے میں اہمیت کا حامل ہے وہ ہے ’ کارِ جہاں دراز ہے‘۔اس ناول میںوقت انسانی زندگی کے اہم ترین کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ’’اجی میں خود مستقبل سے نکل کر آیا ہوں... میں وقت ہوں... زندگی کا کاغذ کترنے والا۔‘‘

چودھری محمد نعیم اس ناول پر اپنے انگریزی مضمون میں لکھتے ہیں۔’’ قرۃالعین کا بنیادی مسئلہ وقت ہے۔وہ بے چہرہ قوت جو تمام چہروں کے رنگ بدل دیتی ہے۔ جو افقی بھی ہے اور عمودی بھی،جسے ہم صرف اپنی ذات کے زیاں کی قیمت پر نظر انداز کر سکتے ہیںاور جو بیک وقت ایک عام گھڑی کی طرح سہل الحصول بھی ہے اور کائنات کی مانند بے کنار بھی۔‘‘

لیکن ’ آگ کا دریا ‘ میں قرۃ العین کے ذریعے وقت کا جو tretment  نظر آتا ہے وہ منفرد بھی ہے اور عدیم النظیر بھی۔وقت اس ناول کا موضوع ہی نہیں بلکہ واقعات کا سبب اور کرداروں کی شناخت ہے۔ قرۃالعین کی کئی تحریریں اور آگ کا دریا خصوصی طور پر اس حقیقت کا غماز ہے کہ وہ بودھ فلسفے سے بہت متاثر رہی ہیں۔

’’ پچھلی صدی میں کپل وستو کے شہزادے نے بھی جنگل کا راستہ اختیار کر کے ملک کی اس روایت کو نبھایا تھا... ان کی آمد کے وقت باسٹھ مدرسہ ہائے فکر اپنی مختلف شاخوں سمیت پہلے سے موجود تھے... خیالات کی اس سلطنت میں انھوں نے بھی۔ جو شاکیہ منی سدھاوتے کہلائے۔ فلسفے کی ایک اور نو آبادی قائم کر دی تھی۔ باسٹھ مختلف نظریات... اور زندگی ایک ہے...انسان تنہا ہے...گوتم نے آنکھیں بند کر لیں‘‘

(آگ کا دریا )

فلسفے کی رو سے وقت سب سے بڑی طاقت ہے اور وقت کے بہاؤ یا گذران سے پیدا شدہ تغیر (جو وقت کے بہاؤ کا ثبوت بھی ہے) ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔یہ تغیر ہی انسان کے تمام دکھوں کا سبب ہے اور یہی اس کو آگہی تک پہنچاتا ہے۔اس تغیر کے سوا اور کہیں سے انسان روشنی (ہدایت) حاصل نہیں کر سکتا۔

’’ گوتم زندگی کا پھیلاؤ بہت عظیم ہے۔اس وسعت سے بچتے رہو...کائنات...اور اس کی وسعت کہاں سے پیدا ہوتی ہے۔؟ کہاں جاتی ہے ؟ ہم کہاں پیدا ہوئے؟ کس طرح اور کس وجہ سے زندہ ہیں؟ اور یہاں سے کہاں جائیں گے؟ تم جو برہما سے واقف ہو۔ ذرا بتلاؤ دکھ یا سکھ کس کے حکم سے یہاں رہ رہے ہیں؟ وقت یا فطرت...یا حادثے...یا عناصر کو سمجھا جائے اسے جو پر جوش کہلاتا ہے جو تمہارے نزدیک پرم آتما ہے؟  ہری شنکر نے بات ختم کی۔

 اپنشدوں میں لکھا ہے کہ کائنات آزادی میں پیدا ہوئی آزادی میں موجود رہتی ہے اور آزادی میں سمو جاتی ہے‘‘

’’ وہی ابدیت،ہری شنکر نے رنجیدہ آواز میں کہا،آزادی اور ابدیت ایک اور قید نہیں ؟‘‘

سوچتے سوچتے گوتم وقت کے اس نقطے پر لوٹ آیا جہاں وہ اس سمے موجود تھا۔’’ قید اس لیے ہوتی ہے‘‘ اس نے گھاس پر سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔’’ کہ خودی اپنے آپ کو ذہن سے مماثل کر لیتی ہے،اور لہٰذا دکھ اور گناہ اور ذہنی اور اخلاقی کمزوریوں کا شکار ہو جاتی ہے اور پراکرتی کا تجربہ کسی کو تو کرنا ہے۔یہ تجربہ خالص روح کرتی ہے۔یہ تجربہ میں بھی کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے سوچا۔’’ یہ تجربہ کرتے کرتے کدھر نکل جاؤں گا،لیکن کوئی پرواہ نہیں۔سوال حقیقت پسندی یا تصوریت کا نہیں،صحیح عمل اصل چیز ہے۔‘‘ وقت سنسناتا ہوا اس کے چاروں اور ڈول رہا تھا۔اب مذہب فلسفے کے آگے کمتر درجے کا علم ہو گیا تھا مگر جس مسئلے کو مذہب حل نہ کر سکا فلسفہ کیا حل کرتا۔کرشنا کا فلسفۂ عمل گیان مارگ بھی دکھاتا ہے اور بھکتی مارگ بھی، مگر مہاویر نے کہا... خداوند عالم کا کوئی وجود نہیں۔دنیا ابدی ہے اور اپنے وجود میں قائم اور مادے اور خلا اور دھرم اور ادھرم اور روحوں کی ترکیب سے بنی ہے۔صرف یہی ایک حقیقت ہے۔اور شاکیہ منی نے کہا۔خدا ہو نہ ہو۔حقیقت محض یہ ہے کہ دکھ موجود ہیں۔باسٹھ فلسفے اودیا کے اودیا کے باسٹھ گن ہیں۔محبت بیکار ہے۔فلسفہ بے کار ہے۔سب مہاموہ ہے۔سب مایا ہے۔سب دھوکا ہے۔شروع میں نہ وجود تھا نہ عدم وجود۔ہر شے خلائے غیر حقیقی ہے۔پھر یہاں خواہشوں کا گذر کہاں؟ کون تمنا کرے گا اور کس چیز کی؟ کسی چیز کا کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔ہر شے اپنا لمحاتی وجود خود ہے اور شاکیہ منی نے کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیںکہ ہم ہیں حالانکہ ہم اضافیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ہر شے تکلیف ہے۔سروم دکھم دکھم۔ہر شے فانی ہے۔جسم اور روح دونوں کی کوئی اہمیت نہیں۔روح لا زوال نہیں۔محض اس کی تشکیل دینے والے عناصرباقی رہتے ہیں۔روح کا آواگون نہیں۔انسان اس طرح دفعتاً بجھ جاتا ہے جیسے چراغ کو پھونک مار کر گل کر دیا جائے۔صرف واقعات اور احساسات کا دورِ تسلسل قائم ہے اور رہے گا۔‘‘

آگ کا دریا میں وقت کا افقی روپ بھی استعمال کیا گیا ہے اور عمودی بھی (جسے متصورہ وقت کہیے) بعض ناقدین اور مبصرین کا خیال ہے کہ ناول کے مرکزی کردار جو ہر دور میں ایک ہی نام کے ساتھ سامنے آتے ہیں وقت کے مختلف روپ ہیں لیکن میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا۔ناول کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن اس کے پیچھے تاریخیت اور تاریخ کی معتبریت برقرارکھنا مقصد تھا۔وقت وہ قوت ہے جو ان کرداروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ہر دور میں مختلف طریقے سے۔ہر دور کا گوتم پچھلے دور کے گوتم سے الگ  شناخت رکھتا ہے ،الگ عمل اور رد ِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے دور کے معاشرتی نظام کی آئینہ داری کرتا ہے۔ کرداروں کا باہمی عملinteraction  ہر دور میں مختلف اور اس تغیر کا عکاس ہے جو گذرتے وقت کا فطری نتیجہ ہے۔ مگر  کال چکر کے زیرِ اثر آخری دور میں گوتم  نئے زمانے کا ایک  ذہین ،جوشیلا اور تخیل پرست نوجوان ہے جو ایک کامیاب افسر بن کر بھی یہی سوچتا ہے کہ کاش نروان ممکن ہوتا۔

آگ کا دریا کا ایک اور کردار ابو المنصور کمال الدین بھی وقت کے معمے کو حل کرنے کی کوشش میں نظر آتا ہے:

’’ وقت کے متعلق اس نے پڑھا کہ زمان و مکان اضافی ہیں اور محض ایسا خلا نہیں جس میں حقیقت وقوع پذیر ہوتی ہے۔وقت کے مسئلے پر کمال بہت گڑبڑایا، یہ مسئلہ بھی سامی نظریۂ کائنات سے یکسر جدا گانہ تھا جس میں ابتدائے آفرینش سے روزِ قیامت تک ایک مخصوص با ضابطہ وقفہ تھا جس کے بعد ابدیت ہی ابدیت ہو گی لیکن یہاں تو ابتدائے آفرینش کے بعد پھر ابتدائے آفرینش تھی اور کوئی ایسا مخصوص نقطہ نہ تھا جہاں سے وقت شروع ہوا۔یہ حکما کہتے تھے کہ وقت کا لمحہ مختلف انسانوں کے لیے مختلف ہے۔ انسانی وقت  دیوتاؤں کے وقت کا سو واں اور برہما کے وقت کا دس لاکھواں حصہ ہے۔لہٰذا چھونے اور محسوس کرنے کی دنیا ہی  وجود کے سارے ممکنات  سلب نہیں کر لیتی۔ اس نے پڑھا : زمان و مکان حقیقت کی جہت ہیں اور حقیقت وجود میں آنے کی کیفیت کا دوسرا نام ہے اور ابدی ارتقا اور اشکال اور ہئیتوں کے پر پیچ نمود اور دنیاؤں کے تسلسل کا ایک ایسا چکر ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔‘‘

قرۃالعین کو وقت کے مختلف تصورات کا شدید احساس ہے لیکن ناول میں وقت کا استعمال انھوں نے افقی طور پر کیا ہے یعنی ماضی ،حال اور مستقبل  جن کا تواتر منطقی ہے، تاریخی ہے اور تمام واقعات سلسلے وار طور پر مربوط ہے حالانکہ کسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرۃالعین کے یہاں وقت زِگ زیگ zig zagہے لیکن اس احساس کا سبب واقعاتی تنوع اور مختلف النوع تسلسل ہے۔وقت زگ زیگ نہیں ہو سکتا۔’ آخرِ شب کے ہمسفر‘ پر اپنے مضمون میں شمیم حنفی نے قرۃالعین کے تصورِوقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ’’ نہ تو ان کا زماں کا تصور سیدھا سادا اور یک رخا ہے کہ وقت کے کسی ایک منطقے یا انسانی مقدر کے کسی ایک دائرے کی جزئیات کا سلسلہ ترتیب دے کر ایک کہانی بنا لیں۔نہ ہی وہ تاریخ کو سماجی حقیقت نگاری کے ترجمانوں کی صورت محض تاریخ تک رکھنے پر قانع ہیں۔ انھوں نے وقت کی حدوں کو توڑ کر تاریخ اور اساطیر کے ایک نئے رشتے کی دریافت کی ہے اور معلوم و مانوس واقعات و حوادث کو بھی ایک انوکھی اور پر اسرار اساطیری جہت سے ہمکنار کیا ہے، جبھی تو ان کے کردار ماضی اور حال کے خانوں میں ایک ہی سہولت اور آزادی کے ساتھ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں اور بظاہر گذری ہوئی صورتِ حال سے وابستہ مقدرات کی گونج موجود کے ساتھ آئندہ زمانوں کی طرف بھی رواں دواں نظر آتی ہے۔‘‘

آگ کا دریا کے کردار اپنے مکالموں نیز خود کلامی سے عینی کے تصورِ وقت کو واضح کرتے رہتے ہیں :

’’ مجھ سے پہلے اب تک جو کچھ ہوا اس کی ذمے داری مجھ پر ہے یا نھیں؟ بتاؤ میں کیا لکھوں...گوتم نے پوچھا۔ ’’ وقت کا تعین کرنے کی ضرورت نہیں...سب خواب کی طرح گذر رہا ہے...گذر جائے گا۔‘‘ ہری شنکر نے جواب دیا۔’’ گذر جائے گا یا گذرتا رہے گا۔؟ گوتم نے پوچھا۔۔

’’یہ تمھارا اپنا مسئلہ ہے‘‘...

’’وقت اپنے آپ سے منحرف نہیں ہوتا۔وقت سے تم بچ نہیں سکتے اور اپنی اصلی حالت کو پا کر کوئی چیز اپنے آپ سے انحراف نہیں کرتی۔‘‘

’’ وقت کے سامنے کوئی رشتے نہیں ہیں...  کوئی منطق... کوئی طاقت...وقت پر تمھارا قابو نہیں رہ سکتا...  جو آنکھیں رکھتا ہے وقت کے ارتقا کو پہچان لیتا ہے۔‘‘

قرۃ العین وقت کے’ ارتقا‘ کی بات کرتی ہیں لیکن وقت کے آگے بڑھنے کا یقین یا عقیدہ تو گھڑی والے وقت سے مشتق ہے جس کے تحت منٹ، گھنٹے ،دن اور دوسرے تمام دورانیے مقرر کیے گئے ہیں۔فرق یہ ہے کہ وقت کا ارتقا ان کے یہاں چکر دار بھی ہے لہٰذا انھوں نے فلمی تکنیک فلیش بیک کا استعمال بھی کیا ہے اور... خصوصاً آگ کا دریا میں... منتخب مرکزی کرداروں کو الگ الگ ٹائم کیپسول time capsules  میں رکھ کر  ان کا باہمی interaction  اس طور پیش کیا ہے کہ ہر ٹائم کیپسول کی اپنی شناخت ہے جو اس دور کے مطابق ہے لیکن ہر کردار بھی ہر دور یعنی ٹائم کیپسول کے تغیر کی عکاسی کرتا ہے اور اس طرح مسلسل ادوار کا تاریخی تواتر وقت کے ارتقا کو  بخوبی پیش کرتا ہے۔یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ مصنفہ وقت کے کون سے تصور یا نظریے کی حامی ہیں لیکن مختلف فلسفوں کوjuxtapose کرنے کی تکنیک سے وقت کے مختلف تصورات کو اپنے پلاٹ اور کرداروں سے نہایت چابکدستی کے ساتھ ہم آہنگ کر لیا ہے۔ قرۃالعین سے پہلے یا ان کے بعد وقت کے تصور یا تصورات کا استعمال کرتے ہوئے اس قسم کا تخلیقی تجربہ کسی نے نہیں کیا۔ ’سلسلے واری‘ یعنی chronology پیمانہ استعمال کیا جائے تو ’آگ کا دریا‘ میں ابتدائیں اور انتہائیں دونوں موجود ہیں لیکن عینی آپا نے ابتداؤں اور انتہاؤں کو یوں خلط ملط کیا ہے کہ ہر کردار کی اپنی ایک ابتدا ہے اور اپنی ہی انتہا، یا اختتام۔ وقت کے کسی بھی تصور سے ماورا۔بالفاظ دیگر ’آگ کا دریا‘ ہر گز یہ بتانے کی کوشش نہیں کرتا کہ وقت ’کیا‘ ہے،البتہ یہ توضیح ضرور کر دیتا ہے کہ وقت کیا’ نہیں‘ ہے         ؎

رہا یہ وہم کہ ہم ہیں ،سو وہ بھی کیا معلوم

 

A. Rehman

1/1, Kirti Apartments

Mayur Vihar, Phase-1

Delhi- 110091

rehmanbey@gmail.com

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

مظہر امام کی شاعری، مضمون نگار: نیر وہاب

  اردو دنیا، مارچ 2025 بیسوی   صدی سماجی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی، اقتصادی ہر لحاظ سے بہت اہم صدی رہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی صدی میں ک...