اردو دنیا، مارچ 2025
کسی بھی زبان کی شاعری میں تلمیحات کی کثیر تعداد پائی
جاتی ہے۔ خاص کر انگریزی ادب میں جس قدر تلمیحات ملتی ہیں اتنی کسی بھی ادب میں نہیں۔
محمود نیازی نے ’تلمیحات غالب‘ میں اس بات پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ اردو میں تلمیحات
کی تعداد بہت کم ہے۔ اردو شاعری کی بہت سی تلمیحات عربی اور فارسی زبان سے مستعار
ہیں۔یہ تلمیحات فارسی اور عربی شاعری میں عشق و عاشقی، تصوفانہ، سرشاری و سرمستی،
سیاسی، سماجی اورمعاشرتی معاملات کو بیان کرتی ہیں۔ یہی تلمیحات اردو شاعری کا حصہ
بھی بنتی ہیں۔ کسی بھی شاعری میں تلمیحات برتنے کی روایت بہت قدیم ہے۔ ان تلمیحات
سے ہم کسی بھی معاشرے کے سیاسی اور سماجی پس منظرکو بہت ہی آسانی سے سمجھ پاتے ہیں۔
تلمیحات فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ درجہ رکھتی ہیں۔ شمس قیس رازی نے تلمیح کو بلاغتِ
کلام کا اعلیٰ مقام شمار کیا ہے۔اس نے اپنی کتاب ’المعجم فی معائر اشعار العجم‘ میں
تلمیح پر اچھی بحث کی ہے۔ تلمیح فصیح کیوں ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تلمیح ایک
مختصر لفظ ہے جو ایک طویل واقعے یا حادثے کو خود میں لیے ہوتا ہے۔مزید یہ کہ ابھی
تک کسی بھی شاعری میں تلمیح کے علاوہ کوئی بھی ایسا لفظ دیکھنے میں نہیں آیاکہ جو
بہ ذات خود مختصر ہو اور خود میں اتنا زیادہ جامع ہو کہ کسی بھی واقعے یا قصے
کواختصار کے ساتھ بیان کر دے۔ فصاحت جس طرح سیدھے سادے لفظوں میں ہوتی ہے اسی طرح
تلمیح کی بنیاد بھی ایسے ہی ایک مشہور و معروف واقعے پر ہوتی ہے۔ جیسے اردو شاعری میں اگر ’جنگ آزادی‘ کا لفظ
تلمیحاََ استعمال کیاجائے تو ہندوستان کی جد و جہد آزادی میں 1857 کی جنگ سے لے
کر 1947 تک کی لڑائی کا ایک نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے ا ٓجاتا ہے اور پورا طویل
پس منظر صرف اس ایک لفظ سے سامنے آجاتا ہے۔ اسی لیے تلمیح کی اہمیت اپنی جگہ مسلم
ہے۔ تلمیحات کا وجود عہدِ عتیق سے انسانی وجود کے ساتھ مزید سنورتا چلا گیا اور
ساتھ ہی ان الفاظ کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ تلمیحات کے متعلق شمیم انہونوی کی یہ
رائے بڑی اہم معلوم ہوتی ہے :
’’علم
کلام اور معنی و بیان کی مملکت میں تلمیح کا سکہ انسانی تہذیب و ترقی اور علم و فن
کی ایجاد سے ہزارہا سال پیش تر سے رائج ہے۔تلمیح سے ایام جاہلیت کی زندگی کا نمونہ
معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح تاریخی حالات و واقعات کو محفوظ رکھنے کی آرزو کلام شعرا
کے پردے میں چھپاکر پوری کر دی گئی تھی۔ تاریخ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو تلمیح
کی صفت حروف و الفاظ کے وجود میں آنے سے ہزارہا سال پہلے بھی موجود تھی اور
بلاخوفِ تردید دنیائے ادب میں یہ قدیم اور پہلی صفت کہی جا سکتی ہے۔‘‘1
اردو شاعری میں تلمیحات کی روایت کافی پرانی ہے۔کلاسیکی
شاعری یعنی دکنی و شمالی ہند کے شعرا کے
کلام کا کچھ نہ کچھ حصہ اِنھیں تلمیحات پر مشتمل ہے۔ اردو شاعری میں مرثیہ ہی محض تنہا ایسی صنف ہے جس کی بنیاد تلمیحاتی الفاظ کے استعمال پر ہے۔ لہٰذا مرثیہ میں ان تلمیحات
کا استعمال کئی طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ اولاً مرثیے میں یہ تلمیحات تعلّی پسندی کے
اظہار کا ایک بڑا ذریعہ بنتی ہیں۔ ثانیاًیہ تلمیحی الفاظ مناسبات و مراعاتِ کلام کی
نشاندہی کرکے کلام کے تناسب میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ثالثاً کلام میں سوز و
گدازکے علاوہ مبالغے کی ایک قسم غلو کا استعمال کرکے چاشنیِ کلام مقصود ہوتی ہے۔اس
طرح تلمیحات کے استعمال سے مرثیے کی خوب صورتی نکھر جاتی ہے۔ مثلاً اگر کربلا میں
جنگ کا بیان مقصودہوتا ہے تو حضرت حسین یا حضرت علی کی شجاعت کی پیکر تراشی بڑے ہی
عمدہ طریقے سے انجام دی جاتی ہے۔اہل بیت کی تلمیح سے آپسی کلام، درد و غم کا
اظہار اور اس غم کی تسکین و تسلی ایک ڈرامائی انداز میں خوب صورتی سے پیش کی جاتی
ہے۔ اس طرح مرثیہ تمام اصناف شاعری میں ایک بہترین مرقع بن کر سامنے آتا ہے۔ اردو شاعری میں مرثیہ ہی وہ صنف ہے جس میں بیک
وقت تعلّی، ڈرامائی انداز بیان، مراعات کلام ا ور مناسبات الفاظ اور درد و غم کی کیفیات
کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
اردو مرثیے میں انیس و دبیر کی تلمیحات نے ایک الگ رنگ ڈھنگ عطا کیا ہے جس سے مرثیے کا
اصل کمال سامنے آیا۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مراثی کا اوجِ کمال انیس و دیبر پر
ختم ہو گیا۔ وہ ایک عہد اپنے ساتھ لے گئے جس عہد کی بازآفرینیاں آج تک اسی لب و
لہجے میں سنائی دیتی ہیں کہ جس طرح پہلے سنائی دیتی تھیں۔ اس طرح مراثی کا عہدِ زریں،
عہدِ انیس و دبیر کہا جا سکتا ہے۔ اردو شاعری میں مرثیہ صرف ایک صنف کے طور پر
شعرا کا مطمح نظر رہی ہے۔ لیکن انیس نے
مرثیے میں سلیس اور سادہ الفاظ استعمال کیا اور اس کو فصاحت و بلاغت کے بازو و پر
عطا کیے۔ وہیں دبیر نے مرثیے میں ابہام وایہام اورثقیل الفاظ کا زیادہ استعمال کیا ہے، لیکن اس کو انھوں نے مرثیے
میں اتنی خوبی اور خوبصورتی سے برتا کہ مرثیے کا حسن دوبالا ہوگیا، یعنی انیس نے
جس خوبی کے ساتھ بدائع لفظی کا استعمال کیا تو دبیرنے صنائع لفظی کا بھرپور
استعمال کرکے قاری کو سحر زدہ کر دیا۔دبیر کی حیثیت انیس سے الگ اس لیے ہے کہ اگر
دبیر بھی انیس کی طرح الفاظ کا بہاؤ،روانی اور سلاست کا استعمال کرتے تو پھر دبیر
کی اپنی ذاتی حیثیت کچھ بھی باقی نہیں رہتی۔
مراثیِ انیس منظر نگاری کے عمدہ نمونے ہیں۔ ان کے یہاں
کربلائی تناظر میں جس طرح کی منظرکشی کی گئی ہے، وہ بڑی وقعت کی حامل ہے۔ کربلا کا
میدان، وہاں کی ایک عجیب و غریب شام و سحر، دوپہر، دن، کرداروں کی آپسی گفت و شنید،
درد کی احساس کن کیفیتیں، مد مقابل کی جرأت، ذہنی الجھن و کشمکش وغیرہ کیفیات اس
منظر نگاری کی عمدہ غمازی کرتی ہیں۔اس طرح یہ کیفیات انیس کے کلام کو منظر نگاری
کابھی ایک حسین مرقع بنا دیتی ہیں۔ رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
’’انیس
کے یہاں منظر نگاری، جذبات نگاری، واقعہ نگاری اور کردار نگاری کا کمال نظر آتا
ہے۔ انیس کے یہاں جزئیات نگاری اور تصویرکشی کا جو غالب رجحان ہے،اس کے اثر سے ان
کی زبان اور طرزادا میں صفائی کا عنصرغالب رہا کہ اس کے بغیر ،ان امور کا حق ادا ہی
نہیں ہو سکتااور یہ گویا ان کا خاندانی جوہر ہے۔ موقع محل کی مناسبت سے فصیح تر
الفاظ کا انتخاب اور ان کی ترتیب اور اْسی نسبت سے اسلوب ِ بیان کے انتخاب کی جو
بے مثال صلاحیت اور قدرت میر انیس کو حاصل تھی، ان عناصر نے ان کی شاعرانہ زبان کو
فصاحت و روانی کی دل کشی اور تاثیر کی گرمی سے معمور کر دیا ہے۔‘‘2
انیس کے کلام میں اضافاتِ کلام (فارسِ میدانِ تہوّر،
گوہرِتاجِ عرش ،صورتِ برگِ خزاں،کثرتِ جوہرِ ذاتی) عطف ومناسباتِ کلام ( دست و پا
صدرو کمر، گردن وسر) کنیت (سخی ابن سخی، ابن ید اللہ، سبط حسن، ابن مظہر،بو تراب) اشتقاق(فتح، مفتاح، قبضے،
قابض، اسفل، سفلہ) اور ایسے ہی مترادف
المعنی (جنگ و جدال، فتح و ظفر) وغیرہ الفاظ کا بھی کثرت سے استعمال کیا ہے۔ ان کا
مرثیہ ’بخدا فارسِ میدانِ تہوّر تھا حر‘ میں حر کے متعلق بیان کرتے ہوئے کس قدر
محترم الفاظ لاتے ہیں اور ساتھ ہی تلمیح کا بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں۔یہ
بند ملاحظہ کریں ؎
واہ رے طالع ِ بیدار،رہے عزت و جاہ!
حُر پہ کیا فضل ِ خدا ہو گیا اللہ اللہ!
پیشوائی کو گئے آپ شہِ عرش پناہ
خضرِ قسمت نے بتادی اسے فردوس کی راہ
مدتوں دور رہے جو وہ قریب ایسا ہو
بخت ایسے ہوں،اگر ہو تو نصیب ایسا ہو
انیس نے کمالِ مہارت سے تلمیحی الفاظ کو کلام میں برتا
ہے اور اس کے ذریعے انھوں نے اپنے کلام میں سحرآفرینی سے کام لیا ہے۔ انیس کے
کلام کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہمیں الفاظ کا باہمی تناسب دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ
انھیں الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں کہ جتنے الفاظ سے معانی ادا ہو جائیں۔ اسی لیے
فصاحت و بلاغت جس قدر انیس کے یہاں ہے، وہ نہ بعد والوں کے یہاں ہے اور نہ ہی پہلے
والے مرثیہ گو شعرا کے یہاں ملتی ہے۔انیس کے یہاں ہر شعر بعد والے شعر کے لیے ایک
نئی راہ نکالتا ہے۔ہر بند دوسرے بند کے لیے ایک دل کش کیفیت کا باعث بنتا ہے۔ انیس
کے کلام میں جاہ و جلال کی تابناکی ،غم و درد کی اندوہ بیانی، خاندانی آپسی کلام
کی سحر انگیزی بڑی معنی خیزہے۔ ان کے کلام میں جن تلمیحات کا استعمال ہواہے، ان میں
انبیائی و رْسْلی، مکانی، قرآنی، سلاطینی و عسکری، یوسف، داؤد، یونس، ابراہیم، ایوب،موسیٰ،سلیمان،یعقوب
اور محمدؐ اور اہل بیت وغیرہ ہیں۔ انھیں تلمیحی الفاظ کو تاریخی واقعات بیان کرنے
کے لیے بھی استعمال کر لیا گیا ہے۔ کسی ایک نبی کی تلمیح سے ان کے زمانے کی معاشرتی،
سماجی اور سیاسی حالات تک کاپتہ چل جاتا ہے۔جیسے نوح کی تلمیح سے ان کے عہد کے ان
تمام معاملات کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے جن کی وجہ سے طوفان نوح آیااور اس کے
بعد کے معاملات کی گرہیں بھی کھلتی جاتی ہیں۔ ایسے ہی یوسف کی تلمیح سے مصر اپنی
پوری آب و تاب کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے اور شاعری میں ایسی
سحر انگیزی پیداکر دیتا ہے کہ معلوم ہوتاہے کہ ہم اسی زمانے کی سیر کر رہے ہوں۔
شاعری کو معجزۂ فن صرف اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ چند الفاظ سے ہمارے سامنے ایک
پوری تہذیب کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ محمد کی تلمیح سے ایمان و عرفان اور
وجدانیات و روحانیات کی کیفیات کا جو احساس ہوتا ہے وہ ایسا ہے کہ کسی نے بے جان
جسم میں روح پھونک دی ہو۔
انیس نے انبیائی تلمیحات کا جس قدر استعمال کیا ہے وہ
اپنی مثال آپ ہے۔ ان کامرثیہ ’یا رب چمنِ نظم کو گلزار ارم کر‘ میں بہت سی تلمیحات
مل جاتی ہیں۔لیکن کلیم الدین احمد نے اس مرثیے کے بیش تر اشعار کو بھرتی کا بتایا
ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس مرثیے میں رعایت
لفظی کا درست استعمال نہیں ہوا ہے۔ وہ اس مرثیے کے پہلے مصرعے میں استعمال ہوئے
الفاظ ’چمنِ نظم اور گلزارِارم‘ اوردوسرے مصرعے میں استعمال ہوئے ’خشک زراعت‘ پر
اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
ارم ایک باغ تھا جسے شدّاد نے بنایا تھا جو اس کے خیال
میں جنت سے کم حسین نہ تھا۔مجازاً جنت کو بھی ارم کہتے ہیں اور یہ معنی عام ہے لیکن
وہSubmerged Meaning بھی
ہے اور اس کی واقفیت انیس کو بھی ہوگی۔پھر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ خدا سے یہ
دعا کی جائے کہ وہ چمن نظم کو باغ شداد بنادے۔یا پھر شاید یہ بات ہوکہ اگر چمنِ
نظم کو گلزارِ جنت بنانے کی مانگ کی جائے تو وہ بھی شداد کے تکبر کے مرتکب ہوں
گے،پھر چمن کو گلزار کیوں بنایا جائے ،کیا چمن میں پھول نہیں ہوتے۔جو چمن تھا اور
شاید پھلا پھولا چمن تھاوہ اب خشک زراعت ہے۔لیکن چمن نظم کہاں اور کہاں خشک زراعت۔
اور چار مصرعوں کے بجائے صرف دو مصرعے ہوتے تو کوئی کمی محسوس نہ ہوتی۔‘‘3
کلیم الدین احمد کی بات کسی قدر درست بھی ہے اورساتھ ہی
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انیس کے یہاں خالص اسلامی رنگ بھی نہیں ہے بلکہ ہندوستانی
مناظر کا غلبہ ہے اور یہی بات مسعود حسن رضوی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انیس کے یہاں
کربلائی مناظر کی عکاسی میں ہندوستانی مناظر کا رنگ ملتا ہے اور یہ خالص اسلامی
رنگ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی انیس نے جس قدر ڈرامائی کیفیات سے واقعات کی ترتیب بنائی
ہے اور اس میں جس قدرمتناسب الفاظ سے کام لیا ہے وہ کسی بھی شاعر کے یہاں نظر نہیں
آتا۔ اسی لیے کلیم الدین احمدبھی ان کو لفظوں کا شہسوارتسلیم کرتے ہیں۔ انیس نے
اس مرثیے کے ایک بند میں حضرت سلیمان کی تلمیح کو کس قدرکمال مہارت سے استعمال کیاہے۔ملاحظہ
کریں ؎
گر بزم کی جانب ہو توجہ دم تحریر
کھنچ جائے ابھی گلشن فردوس کی تصویر
دیکھے نہ کبھی صحبتِ انجم ، فلکِ پیر
ہو جائے ہوا،بزمِ سلیماں کی بھی توقیر
یوں تختِ حسینانِ معانی اْتر آئے
ہر چشم کو پریوں کا اکھاڑا نظر آئے
ان مصرعوں کی تعلّی دیکھیے کس قدر اعلیٰ درجے کی ہے۔ یہاں
لفظ‘ہوا’ختم ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا کہ انیس ایک
ہی لفظ کو متضاد معانی میں استعمال کرتے ہیں۔ رثائی شاعری میں تعلّی اور مبالغے کی
قسم غلو کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ مبالغہ بجا طور پر شاعری کو پر اثر
بناتا ہے۔ مشابہتی الفاظ، رعایتی جملے، مناسبات وغیرہ کو خوب صورت انداز میں لایا
جاتا ہے۔تعلی پسندی کا اظہار توانیس نے بہت سی جگہ کیا ہے۔مثلا ان کا یہ بند دیکھیں ؎
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جودوں آب تو گو ہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منوّر سے ملا دوں
خاروں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملادوں
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
کلیم الدین احمد نے انیس کے اس ایک بند کو پیش کرکے اس
میں تعلّی کے حوالے سے بڑی خوب صورت بات کہی ہے۔ تعلّی پسندی کا اظہار شعر میں صرف
چاشنی پیدا نہیں کرتا بلکہ الفاظ کا تناسب ،تکرار الفاظ اور جملوں کے باہمی ربط سے
کلام کو پر لطف بنایا جاتا ہے۔کلیم الدین احمد نے کہا ہے کہ صرف تعلّی سے کلام کی
چاشنی ایسے ہی نہیں بڑھ جاتی ہے بلکہ اس کے لیے ذہنی ہم مزاجی، نواسنجی کی بازیافت
ضروری ہے۔ ان کی یہ بات کسی حد تک درست ثابت ہوتی ہے،وہ لکھتے ہیں:
’’انیس
کی شاعری کا اصل الاصول ہے: مبالغہ۔ چسٹرئن نے کہا ہے کہ مبالغہ فن کی روح ہے Exanggeration is the Soul of Art لیکن
آرٹ صرف مبالغہ نہیں کچھ اور بھی ہے بہت کچھ اور ہے۔‘‘4
ایک بند میں انیس نے یوسف و یعقوب کی تلمیح استعمال
کرکے ایک پیاربھری اور درد بھری کیفیت اور پرکشش احوال کا ذکر کیا ہے۔ انیس نے انبیا
کی تلمیحات معرکۂ کربلا میں رونما ہونے
والے واقعات کی رعایت سے استعمال کی ہیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ کسی کربلائی
واقعے کو بیان کر رہے ہوتے ہیں تو بیچ میں تشبیہاً ان تلمیحات کو بھی لے کر آجاتے
ہیں۔یہ ہنر انیس کے علاوہ نظر نہیں آتا، ایک واقعے کے لیے الفاظ اور نازک خیالی
کا جتنا استعمال ا ن کے یہاں پایا جاتا ہے کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔مثلا یہ
بند دیکھیں ؎
اے یثرب و بطحا ،ترے والی کی ہے آمد
اے رتبۂ اعلیٰ،شۂ عالی کی ہے آمد
عالم کی تغیری پہ بحالی کی ہے آمد
کہتے ہیں چمن،ماہ جلالی کی ہے آمد
یہ خانۂ کعبہ کے مباہات کے دن ہیں
یعقوب سے یوسف کی ملاقات کے دن میں
اس بند میں ایک واقعے کو دوسرے واقعے سے جوڑ کر وہی درد
و غم کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے جوحضرت یعقوب کو یوسف کے کھو جانے اور ان کے فراق
میں آنسو بہا بہا کر اپنی آنکھیں کھو دینے پر پیدا ہوئی تھی۔ اہل بیت کے اسی درد
کا اظہار انیس نے کربلا میں کیا۔ اوپر والا بند اور نیچے والا بند اس بند سے درد و
غم والی کیفیت کے مشابہہ ہے کہ جب یعقوب ،یوسف کی خبر پاتے ہیں تو کس قدر خوش ہوتے
ہیں۔ اسی طرح میدان کربلا میں بھی عون و محمد کی خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ایسی
نزاکت ِبیان اور نزاکتِ کلام انیس نے جس طرح سے پیش کی ہے وہ بالکل منفرد چیز ہے۔
مسعود حسن رضوی ادیب ’روح انیس ‘کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’جو
نازک سے نازک خیال دل میں پیدا ہو اور لطیف سے لطیف کیفیت طبیعت پر طاری ہو،اسے
لفظوں میں بیان کر دیں۔وہ جیسا خیال ظاہر کرنا چاہتے ہیں اس کی مناسبت سے ایسے
الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں جو اپنی آواز، اپنے ربط باہمی اور اپنے متعلقات معنوی
سے اس خیال کی کامل ترجمانی کرتے ہیں اور سامع کے دل میں وہی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں
جو شاعر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مختلف طبقوں اور مختلف طبیعتوں کے لوگوں کے طرز کلام
میں جو فرق ہوتا ہے، انیس اس کو ملحوظ رکھتے ہیں ایک ہی بات کو مختلف طریقوں سے
ادا کرسکتے ہیں۔اختصار اور طول پر بھی ان کو پورا اختیار ہے۔ان کے پاس لفظوں کا
اتنا بڑا خزانہ موجود ہے جس سے زائد شاید ہی کسی اور شاعر کو نصیب ہوا ہو۔‘‘5
انیس تشبیہاً جو الفاظ لے کر آتے ہیں، ان میں معنوی
ربط بڑا ہی لطیف ہوتا ہے۔ اس بند میں حسین کو قرآن سے تشبیہ دی پھر مماثلت کے
طورپر سر کو رحل کی مناسبت سے استعمال کیا۔یہی وہ کمالِ مہارتِ فن ہے کہ جہاں
الفاظ تخیل کی وادی سے نکل کر حقیقت کی شکل اختیار کرکے ایک معنی خیز رنگ میں ڈھل
جاتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور بند ملاحظہ ہو
؎
جاں آگئی یعقوب نے یوسف کو جو پایا
قرآں کی طرح رحلِ دوزانو پہ بٹھایا
منہ ملنے لگے منہ سے بہت پیار جو آیا
بوسے لیے اور ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا
دل دہل گیا جب کی نظر سینہ و سر پر
چوما جو گلا، چل گئی تلوار جگر پر
انیس کے یہاں قرآنی تلمیحات میں مصحف قرآن، خضر، جبریل،
میکائیل، اسرافیل، کشتیِ نوح، شبِ معراج، ابلیس، سورۂ عادیات،آیۃ الکرسی، و
الشمس، و الضحیٰ وغیرہ تلمیحی الفاظ ملتے ہیں۔
ایک بند میں میکائیل اور جبریل کا ذکر بڑی عمدگی سے کیا ہے ؎
وہ نورِ قمر اور درِ افشانیِ انجم
تھے جس کے سبب روشنی ِ دیدۂ مردم
وہ چہچہے رضواں کے وہ حوروں کا تبسم
آپس میں وہ ہنس ہنس کے فرشتوں کا تکلم
میکال شگفتہ ہوئے جاتے تھے خوشی سے
جبریل تو پھولوں نہ سماتے تھے خوشی سے
ایک بند میں جبرئیل کی تلمیح سے کیا خوب منظر کشی کرتے
ہیں۔یہ بند ملاحظہ کریں ؎
فرمایا محمد نے کہ اے فاطمہ زہرا
کیا مرضیِ معبود سے بندے کا ہے چارہ
خالق نے دیا ہے اسے وہ رتبۂ اعلیٰ
جبریل سوا کوئی نہیں جاننے والا
میں بھی ہوں فدا اس پہ کہ یہ فدیۂ رب ہے
یہ لال ترا بخشش ِ امت کا سبب ہے
مکانی تلمیحات میں خانۂ کعبہ، مدینہ ،ارم، کوہ صفا،
سنگ حرم، رکن یمانی، بیت مقدس، دریائے فرات، عرب و روم، مصر، شام، کربلا وغیرہ
الفاظ قابل ذکر ہیں۔جن میں بہت سی تلمیحات کا اوپر کے بندوں میں ذکر ہوچکا ہے۔
مکانی تلمیحات کسی خطے کی کیفیت اور وہاں ہونے والے واقعات کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔
مثلاً مدنیہ یا یثرب،کعبہ اور بیت مقدس یہ تلمیحی الفاظ ان جگہوں کے اندر رونما
ہوئے سارے احوال کی منظر کشی کر دیتے ہیں۔ اب شعر میں ان کا استعمال جس طریقے سے کیا
جائے گا تو اس کا اثر قاری پر ویسا ہی ہوگا۔ شاعرجس منظر کی عکاسی کرنا چاہتا ہے
تو وہ اس کے لیے اسی طرح کے الفاظ استعمال کرے گا۔ ایک مثال ملاحظہ کریں ؎
اے کعبۂ ایماں تری حرمت کے دن آئے
اے رکن ِ یمانی، تری شوکت کے دن آئے
اے بیت ِ مقدس، تری عزت کے دن آئے
اے چشمۂ زمزم ،تری چاہت کے دن آئے
اے سنگ ِ حرم ، جلوہ نمائی ہوئی تجھ میں
اے کوہ ِ صفا ، اور صفائی ہوئی تجھ میں
حضرت علی کی مدح اور ان کی شجاعت کو بیان کرنے میں انیس
کا یہ بند کیا ہی خوبصورت ہے۔لیکن علی کا اسد سے استعارہ اور آہو سے مدمقابل کا
استعارہ شعری طور پر درست معلوم نہیں ہوتا۔جب کہ شعر میں حضرت علی کی صرف شجاعت
دکھانا مقصود ہے مگر شیر کی ایک خاصیت بے رحمانہ رویہ بھی ہوتی ہے اور آہو کی خاصیت
کمزوری اور معصومیت ہے۔ یعنی علی بے رحم ہیں جو اپنے معصوم دشمنوں کو قتل کرتے ہیں۔لیکن
ایسا نہیں ہے یہاں ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوتا ہے بلکہ صفتِ شجاعت اور صفتِ بزدلی
دکھانے کے لیے انیس نے اسد اور آہو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس بند میں شعری
لوازمات کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔بند ملاحظہ کریں ؎
خندق کی دغا،عمرو سیہ کار کی وہ دھوم
تھراتا تھا تلوار سے جس کی عرب و روم
رد کرکے جو حربوں کو بڑھا خاصۂ قیوم
جھپٹااسد آہوپہ،یہ سب کو ہوا معلوم
اک ضرب میں نہ گرز ،نہ مغفر تھا،نہ سر تھا
خندق کے ادھر لاش، سرِ نحس اُدھر تھا
عسکری تلمیحات میں، کربلا، بدر و حنین، غزوۂ احزاب،جنگ
احد، معرکۂ صفین،فتح خیبر وغیرہ الفاظ مستعمل ہوئے ہیں۔یہ الفاظ لڑائی اور اس کے
اطراف و جوانب کے احوال کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔عسکری تلمیحی الفاظ میں ایک
بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمارے جذبات اور جسمانی اعصاب پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔
قبائل عرب کی آپسی لڑائی یا جنگ کے میدان میں جب دونوں جانب سے زرمیہ اشعار پڑھے
جاتے تھے تو اس وقت ان کے جذبات کی شدت بہت بڑھ جاتی تھی ۔
انیس کی شاعری میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں وہ مراثی
کے حوالے سے بہت ہی جامع ہیں۔ الفاظ کی رعایت کو مناسبات کے ذریعے پیش کرکے کمال
مہارت فن کی اعلیٰ مثا ل پیش ہے۔ صالحہ
عابد حسین اس حوالے سے لکھتی ہیں:
’’انیس
کے پاس محاوروں، کہاوتوں،تشبیہوں، استعاروں، کنایوں اور بے تکلف بولے جانے والے
الفاظ کا بے کراں خزانہ تھا۔ ان کا کلام پڑھتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ لاکھوں
جواہر پارے اس کلام کے جوہری کے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔جس وقت جس کی ضرورت ہوتی ہے
وہ اسے اٹھاکر صحیح جگہ پر بٹھا دیتا ہے۔ایساکہ جیسے انگوٹھی پر ہیرا جڑ دیا گیا
ہو۔ خیال اور لفظ کا حسین امتزاج بھی انیس کے کمال شاعری کا ایک بڑا اہم جزہے۔ وہ
نازک سے نازک اور مشکل سے مشکل مقام کی تصویر کشی اس خوبی اور چابک دستی سے کرتے ہیں
کہ پڑھنے والے کے سامنے منظر کھچ جاتا ہے۔‘‘6
انیس کے یہاں الفاظ و معانی کے ذخیرے جس قدر اپنی تراشیدہ
شکل میں ملتے ہیں وہ کسی اور شاعر کا کمال نہ بن سکا۔شعری وجدان،شعری کیفیت اور
شعری احساس کی دوسروں تک ترسیل، اس طرح کہ جس طرح شاعر چاہتا ہے کہ دوسرے ویسا ہی
سمجھیں، انیس کے سوا کم شعرا اس نہج پر گامزن رہ پائے۔ انیس کی شعری تکمیل ان کے
شعوری حصہ کی وہ سطح ہے کہ جس کا استعمال بھی شعرا کم کرتے ہیں۔طبیعت کی افق تابی
،نواسنجی ِوجدانیات اور عرفان ذات کی کشش کو شعری جامہ پہنانا خداداد صلاحیت سے ہی
ممکن ہوسکتا ہے۔ انیس کے کلام میں معانی تہہ در تہہ پیوست نظر آتے ہیں۔ ایک لفظ
کو جیسے ہی دوسرے سے مناسبت حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے اصل معانی کے علاوہ دیگر معانی
بھی دینے لگتا ہے۔ بے جان الفاظ میں روحِ معانی پھونک دینابھی شعرا کے کمالِ مہارت
کی آماجگاہ ہوتا ہے جہاں شاعر اپنی قوتِ ادراک اور قوتِ ارادی سے الفاظ کے ان
گہرے معانی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ انیس کا اس اعتبار سے کوئی ثانی نہیں
ہے۔بے بدل شاعری ہی شاعر کی ابدی پہچان ہوتی ہے۔
حواشی
.1 محمود
نیاز، تلمیحات، مقدمہ، شمیم انہونوی، نسیم بکڈپو، لاٹوش روڈ، لکھنؤ، 1964،ص11-12
.2 رشید
حسن خاں، انتخاب مراثیِ انیس و دبیر،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی،2011،ص 8
.3 کلیم
الدین احمد، میر انیس، بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ، 1988،ص 11-12
.4 ایضاً،
ص 15
.5 مسعود
حسن رضوی ادیب،مقدمہ، روح انیس،کتاب نگر،دین دیال روڈ،لکھنؤ،طبع اول، 1931،ص 30
.6 صالحہ
عابد حسین، انیس کے مرثیے، جلد اول، ترقی اردو
بیورو،نئی دہلی، دوسرا ایڈیشن،1990،ص57
Dr. Naseeb Ali Choudhry
Asst. Professor, JNU
New Delhi- 110067
Mob.: 9622069794
nasibali546@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں