اردو دنیا، مارچ 2025
اردو میں حاشیائی ادب سے عام طورپر ہمارا ذہن افسانوی
ادب کی طرف جاتا ہے۔یہ غلط بھی نہیں کیونکہ افسانوں میں اس طبقے کوبطور خاص موضوع
بناکر بہت سی کہانیاں لکھی گئی ہیں۔حاشیائی ادب کے بہت سے کردار ان افسانوں کی وجہ
سے بھی زبان زد خاص و عام ہوگئے ہیں۔ نثر میں افسانوں کے علاوہ خاکہ ایک ایسی صنف
ہے جس میں بہت سے شخصی خاکے نہایت معمولی لوگوں پر لکھے گئے۔ان میں سے بیشتر کا
تعلق محنت کش طبقے سے رہا ہے۔خاکہ جس پر لکھا جاتا ہے وہ اپنے عہد کا ایک حوالہ بن
جاتا ہے اور اس تناظر میں بہت سی چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ایک
اکیلا شخص اپنے معمولی کاموں اوربعض خوبیوں کے سبب لوگوں کی توجہ اور کشش کا مرکز
بن جاتا ہے۔ایک شخص سے بسااوقات بہت سے چہرے اور اس زمانے کے بعض دوسرے کردار بھی
زندہ ہوجاتے ہیں۔ ہماری ادبی تاریخ میں بعض بہت ہی معمولی لوگ محض خاکوں کی وجہ سے
جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
خاکہ کسی شخص سے متعلق نہ معلومات کی کھتونی ہے اور نہ
محض اپنے تعلق کا اظہار یہ۔دراصل یہ ایک نوع کی قلمی تصویر کشی ہے،جسے چلتی پھرتی
مجسمہ سازی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے،جس میں مہارت کے ساتھ کم لفظوں میں بہت کچھ بیان
کردینا ہی خاکہ ہے،مطالعہ، مشاہدہ اور فہم وادراک کی بہت سی پرتیں اس بیانیے کا
حصہ بنتی ہیں۔یہ آمیزش بہت سے تجربوں کا نچوڑ اور کسی شخص کے جوہر کو ایک دوجملوں
میں بیان کردینے کا نام ہے۔خاکوں کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ جس کا خاکہ لکھا
جاتاہے اس سے ہمدردی اور تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے تاثراتی خاکے زیادہ پسند کیے
جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ صنف ایک بے جان عبارت بن کر رہ جائے۔خاکوں میں تجریدی
آرٹ یا بہت زیادہ فلسفیانہ انداز واسلوب کی گنجائش نہیں ہوتی۔ دراصل اس کا بھی بیانیہ
لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح آغاز کرتا ہے اور واقعات و حادثات کو کس طرح
پیش کرتا ہے کہ ایک چلتی پھرتی تصویر آنکھوں میں رقص کرنے لگے اور اس شخصیت سے ایک
نوع کا تعلق پیدا ہوجائے۔اس سے ہمدردی اور غم گساری کے جذبات ابھرنے لگیں اور یہی
خاکہ نگار کی کامیابی ہے۔
اردو خاکوں کی دنیا اس لحاظ سے ثروت مند کہی جاسکتی ہے
کہ وہ افراد جن کی عام شہرت اس صنف کے حوالے سے رہی ہے انھوں نے حاشیے پر رہنے
والوں کا خاکہ لکھ کر انھیں شہرت دوام عطا کردی ہے۔ مولوی عبدالحق کا’ نام دیو مالی‘
اور رشید احمد صدیقی کا ’کندن‘ کون بھول سکتا ہے۔ڈاکٹر اسلم پرویز کا خاکہ چچی اور
روشن دان والے جاوید صدیقی کا لکھا ہوا خاکہ حجیانی بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔امیری
اور بدھو بھیاکے نام سے جو خاکہ لکھے گئے انھیں بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔آخر
الذکر دونوں ایک تعلیمی ادارے میں ملازم تھے اور وہیں انھوں نے آخری سانس لی۔سماج
نے کبھی انھیں وہ اہمیت نہ دی مگر ان تحریروں کے سبب ان کی خدمات اور ان کے کاموں
کا ذکر دیر تک ہوتا رہے گا۔
مولوی عبدالحق کی عام شہرت تو ان کی مقدمہ نگاری ہے مگر
وہ ایک خاکہ نگار کے طورپربھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے جس کا خاکہ لکھا ،
اسے ایک نئی زندگی دے دی۔ان کے مشہور ترین خاکوں میں ایک خاکہ ’نام دیو مالی‘ کا
بھی ہے۔مولوی عبدالحق نے نام دیو مالی کے تعارف میں لکھا ہے کہ وہ ایک نیچ قوم سے
تعلق رکھتا تھا مگر اچھے اچھے شریفوں سے زیادہ شریف تھا‘۔اس خاکے میں نام دیو کی
محنت،لگن اور کام سے غیر معمولی شوق کو دکھا یا گیا ہے۔انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ
فن باغبانی کی اس نے کہیں تعلیم نہیں پائی تھی مگر اسے اپنے کام سے حددرجہ لگاؤ
تھا۔خدمت ہی اس کی پہچان تھی چاہے وہ انسان ہو یا جانور یا پیڑ پودے۔نام دیومالی
کے کام کے بارے میں مولوی عبدالحق نے لکھا کہ
:
وہ خود بھی بہت صاف ستھرا رہتا تھا اور ایسا ہی اپنے
چمن کو بھی رکھتا۔ اس قدر پاک صاف جیسے رسوئی کا چوکا۔کیا مجال جوکہیں گھاس پھوس یا
کنکر پتھر پڑا رہے، روشیں باقاعدہ،تھانولے درست،سینچا ئی اور شاخوں کی کاٹ چھانٹ
وقت پر جھاڑنا بہارناصبح شام روزانہ۔ غرض سارے چمن کو آئینہ بنا رکھا تھا۔
(چند
ہم عصر، مولوی عبدالحق،1959)
یہ بات قابل غور ہے کہ
نام دیو مالی گرچہ شاہی باغ کا مالی تھا اور اسے بڑی مہارت بھی حاصل تھی مگر مولوی
عبدالحق کے ایک خاکے کی بدولت وہ آج تک زندہ ہے اور اس کی خوبیاں لوگوں کو مہمیز
کرتی ہیں۔
وہ بہت سادہ مزاج بھولا بھالا منکسر مزاج تھا۔ اس کے
چہرے پر بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔چھوٹے بڑے ہر ایک سے جھک کر
ملتا تھا۔ غریب تھا اور تنخواہ بھی کم تھی اس پر بھی اپنے غریب بھائیوں کی بساط سے
زیادہ مدد کرتا رہتا تھا۔کام سے عشق تھا اور آخر کام کرتے کرتے ہی اس دنیا سے
رخصت ہوگیا۔
(ایضاً،
ص 230)
رشید احمد صدیقی نے اپنی تحریروں میں علی گڑھ کے بہت سے
کردار کو زندہ کررکھا ہے۔انھیں میں ایک کندن بھی ہے۔رشید احمد صدیقی کا یہ خاکہ
بہت زیادہ مشہور ہے۔یہ خاکہ علی گڑھ کی سماجی زندگی کا استعارہ کہا جاسکتا ہے کہ
وہاں پر کام کی بدولت کیسے کیسے لوگوں کو اعتبار حاصل تھا۔وہ پڑھا لکھا نہیں تھا
ہندی رسم خط سے معمولی آشنائی تھی۔ قوت حافظہ بھی غیر معمولی پایا تھا۔ یونیورسٹی
کے ایک معمولی ملازم کی حیثیت سے اسے جو وقار اور مرتبہ حاصل تھا وہ اس خاکے سے
خوب عیاں ہے۔ اب نہ رشید صاحب ہیں اور نہ کندن مگر اس خاکے کی بدولت دونوں ہی یونیورسٹی
کے ایک متحرک کردار کی صورت ادب میں زندہ ہیں ۔کندن علی گڑھ مسلم یونیو رسٹی میں
گھنٹہ بجاتا تھا اور گھنٹہ بجاتے بجاتے وہ دنیا سے چلا گیا۔کندن کی ایمانداری،
محنت اور کام کے تئیں لگن ہی اس کی پہچان تھی۔رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ اس کا حلیہ
اور نقشہ اتنی خوب صورتی سے کھینچا ہے کہ کندن کی شخصیت پوری طرح عیاں ہوگئی ہے۔
درمیانہ قد، گندمی رنگ، پتلا نقشہ، معمولی جثہ، مضبوط
جسم، گھنٹے ہی کی طرح بجتی ہوئی پاٹ دار آواز، چہرہ بشرہ شریفانہ اور مردانہ۔کس
بلا کا مستعد اور محنتی شخص تھا۔ نہ دن دیکھتا نہ رات،نہ سردی نہ گرمی نہ بارش۔
کبھی کوئی کہتا کندن بوڑھے ہو اتنی محنت نہ کیا کر تو وہی کلمہ دہرا دیتا جو اس کا
تکیہ کلام سا بن گیا تھا یعنی ہجور کالج کا نمک کھایا ہے۔ پرمیشرنباہ دے۔
(ہم
نفسان رفتہ، رشید احمد صدیقی: انڈین بک ہاؤس 1966، ص 169)
غزل کے عشقیہ اشعار میں بالعموم محبوب کی طرف ہی جھکاؤ
رہتا ہے اسی طرح خاکوں میں بھی خاکہ نگار جس کا خاکہ کھینچتا یا لکھتا ہے اس کی
شخصیت کو اس طرح پیش کردیتا ہے کہ اس کی بعض کمیوں اور کوتاہیوں سے ایک نوع کی
ہمدردی اور محبت کا جذبہ پیدا ہونے لگتا ہے۔رشید احمد صدیقی ایک جگہ کندن کے بارے
میں لکھتے ہیں :
’’کندن
کی ایمان داری اور راست بازی ہر شخص کے نزدیک اتنی مسلم اور مستحکم تھی کہ امتحان
کے دفتر ہی کا نہیں دوسرے سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ کام بے تکلف سپر د کردیے
جاتے تھے۔کندن کے بیان پر کوئی جرح نہیں کرتا تھا۔وہ جو کہہ دیتا لوگ مان لیتے۔‘‘
(ایضاً،
1965)
اس کے لیے یہی سب سے بڑا انعام تھا۔
ڈاکٹر اسلم پرویز دلی والے تھے۔ان کے خاکوں کا ایک
مجموعہ’ گھنے سائے‘ کے نام سے ہے۔’میں اور شیطان‘ کے نام سے ڈاکٹر خلیق انجم پر ان
کا لکھا ہوا خاکہ زیادہ مشہور ہوا۔ان کا ایک خاکہ چچی کے نام سے ہے جو کافی دلچسپ
ہے۔ ان کا اصل نام تو محمد النسا تھا مگر چچی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ اپنے اصل
نام کو وہ ٹھہر کر یا روانی کے ساتھ کبھی درست نہیں پڑھ سکیں۔اسلم پرویز کے بقول
انھیں سوائے نماز کے اور کچھ پڑھنا نہیں آتا تھا۔پرانے رسم و رواج، تعویذ، گنڈے،
ٹونے ٹوٹکے، توہمات،جنوں اور پریوں کے قصوں کی فضا میں وہ پیدا ہوئی تھیں اور
تاعمر اسی میں سانس لیتی رہیں۔ان کے پاس نہ تعلیم تھی اور نہ دولت چندگھروں اور
پاس پڑوس میں کرو فر کے ساتھ کام کرکے زندگی گزار دی۔ ان کی سب سے بڑی دولت وہ عقیدہ
اور یقین تھا جس کے سہارے اس طرح کے لوگ سخت سے سخت مراحل طے کرلیتے ہیں یعنی جو
لکھا ہے وہ پورا ہونا ہے۔ اسلم پرویز کے بقول
:
چچی شاید لوح محفوظ کی حقیقت سے واقف تو نہیں تھیں لیکن
یہ فقرہ البتہ ان کی گفتگو میں تکیہ کلام کا سا درجہ رکھتا تھا کہ’ بوا لکھے کو
کوئی نہیں مٹا سکتا‘چچی نے بھی لکھے کو مٹانے کی کوشش نہیں کی انھوں نے لکھے کے
آگے سرجھکا کر ہی اپنی ساری زندگی گزار ی۔
(گھنے
سائے: اسلم پرویز، دلی کتاب گھر نئی دہلی 2010 ، ص63)
خدمت خلق کا جذبہ چچی کے یہاں بہت تھا۔دکھ سکھ میں وہ
اپنے پرائے سب کے یہاں شریک رہتیں۔ چچی کو ہر بات جاننے یاسن گن لینے میں ملکہ
حاصل تھا۔ آپ کوئی بات بتائیں یا نہ بتائیں لیکن کوئی بات ان سے پوشیدہ نہیں رہ
سکتی۔جس کے گھر جاتی ایک نظر میں سب حال معلوم کرلیتی۔بڑی بوڑھیوں والے نسخے اور
علاج تو ان کے پاس بے شمار تھے۔وقت بے وقت کسی کی بھی طبیعت خراب ہوتی چچی حاضر
رہتیں اگر کسی کو ڈاکٹر کے یہاں جانا یا دوا لانا ہوتو یہ خدمت بھی وہ بجا لاتیں۔
گھر کے قریب ایک ڈاکٹر کی نئی نئی دکان کھلی تو اس کو فوراً آزمالیا اور پھر یہ
تبصرہ کیا کہ ’’بوا ہے تو ٹٹ پونجیامگر دوا اچھی دیتا ہے ۔‘‘
چچی کو سینے پرونے میں کمال حاصل تھا۔ ’’اپنی سوئی کی
نوک سے وہ کپڑے پر خط گلزار کے وہ نمونے پیش کردیا کرتی تھیں کہ جو بڑے بڑے خطاط
اور خوش نویس قلم کے قط سے نہیں کرسکتے۔جب تک وہ سہاگن تھیں طرح طرح کے جوڑے اپنے
ہاتھ سے بناتی تھیں۔ یہی مہار ت اب ان کی
زندگی کی امید اور سہارا ہے۔ خاکے کی یہ
سطریں ملاحظہ کریں :
’’ہاتھ
کی ترپائی کے مقابلے میں اس موئی سنگر مشین کی حیثیت چچی کے نزدیک وہی تھی جو اکبر
بادشاہ کے نزدیک خطاطی کے مقابلے میں چھاپہ خانے کی تھی۔ چچی اگرچہ انسان کے چاند
پر پہنچنے کے بھی دس برس بعد اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن سلائی مشین کے ہینڈل کو ان
کا ہاتھ مرتے دم تک چھو کر نہیں گزرا۔وہ سلائی کا باریک سے باریک کام بڑی مہارت سے
کرتی تھیں۔ان کے کام میں لاگت برائے نام اور محنت اور کاریگری پوری ہوتی تھی....وہ
سلائی کے کرتوں،ساڑیوں اور دوپٹوں پر کیکری کے کٹاؤ کا بہترین کام بنا دیا کرتی
تھیں....چچی
کے پاس کام کی کمی نہیں تھی مگر اس کام سے ان کا بمشکل ہی گزارا ہوتا تھا۔‘‘(ایضاً،
ص63)
سائنسی ایجادات سے چچی کو الجھن تھی۔ بس اور موٹر سے
انھیں چکر آتے تھے۔ بائیسکوپ پسند نہیں تھا۔ ریڈیو سے طبیعت اکتاتی تھی۔ٹیلی ویژن
کھلتے ہی وہ برقع اٹھا کر اس گھر کی راہ لیتیں جہاں ٹی وی نہیں ہوتا۔ بیوگی اور دقیانوسی
خیالات کے باوجود انھیں جینے کا ڈھب آتا تھا۔وہ سیدانی تھیں مگر اس کی پروا کیے
بغیر کوشش کی کہ بیٹیاں جس قدر جلد ممکن ہو اپنے گھرکی ہوجائیں تو اچھا ہے۔چچی نے
ایک بھرے پرے سماج میں اپنی موجودگی کا احساس درج کرایا۔عورت ہونے کے باوجود گھر کی
تمام ذمے داریوں کوخندہ پیشانی کے ساتھ ادا کیا۔شکوہ اور شکایت کے بجائے شکر گزاری
کا جذبہ ہی ان کا رہنما بن گیا۔دلی دروازے کے باہر نئے قبرستان میں بہت سی گمنام
قبروں میں ایک قبر ان کی بھی ہے۔
جاوید صدیقی کے خاکوں کا مجموعہ’ روشن دان ‘ کے نام سے
ہے۔اس کے بعض خاکے تو شہ پارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کا ایک خاکہ حجیانی کے نام سے
ہے۔یہ دراصل ایک حویلی کی کہانی ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شان و شوکت سے
محروم ہوتی چلی گئی اور یہاں تک کہ اس کے مکینوں کو فاقوں تک کی نوبت آگئی۔جب حویلی
میں غربت کادور شروع ہوا تو ملازموں کاحساب کتاب صاف کرکے انھیں رخصت کردیا گیا وہ
دعائیں دیتے چلے۔ مگر حجیانی نے جانے سے انکار کردیا۔تھیں تو وہ نوکرانی مگر حویلی
میں حکم ان کا ہی چلتا تھا۔حجیانی حویلی میں بہت کم عمری میں آئی تھیں یہیں وہ
جوان ہوئیں۔ شادی کی خوشی اور جوانی میں بیوگی کا دکھ اسی حویلی میں کاٹ دیا۔حجیانی
نے حویلی کی شان وشوکت کا دوربہت قریب سے دیکھا تھا مگر اب دور زوال تھا۔چیزیں بک
رہی تھیں۔ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گلو بند تو بہت پہلے بک چکا تھا۔فصلیں،پھل یہاں تک کہ مرغیاں
بھی بیچ دی گئیں۔اب گھر کے سامان کی باری تھی۔ ان کی فہرست دیکھنے سے تعلق رکھتی
ہے :
’’اونچی
اونچی الماریاںجن میں جرمن کانچ لگے ہوئے تھے۔ٹی سٹ اور ڈ نر سٹ جن کے اوپر جارج
پنجم اور ملکہ میری کی تصویر یں بنی ہوئی تھیں۔ہاتھ کے بنے ہوئے کانچ کے گلاس جن
کے اوپر سنہری کام کیاہواتھا،ہاتھی دانت کے پایوں والی مسہری،تانبے پیتل کے برتن
اور نہ جانے کیا کیا۔‘‘
(روشن
دان،جاوید صدیقی، 2012)
رفتہ رفتہ وہ وقت بھی آگیا جب پانچ ہزار گز والی اس حویلی
میں کوئی ایسی چیز نہیں بچی تھی جسے بیچ کر پاؤبھر آٹا منگایا جاسکتا۔ رات کچے
پکے امرود کھاکر گزاری گئی۔صبح حجیانی غائب تھی۔دوپہر تک تلاش ہوتی رہی۔جب وہ آئی
تواپنے ساتھ دو تھیلے میں کھانے پینے کا سامان اپنے بیٹے کے یہاں سے لائی جو نواب
صاحب کے یہاں ’خاص باغ پیلس‘ میں پہریداری کرتا تھا۔ کھانا جب تیار ہوگیا تو
دسترخوان لگا دیا گیا۔ اس کے بعد جاوید علی صدیقی لکھتے ہیں
:
’’اور
پھر جب مدارالمہام،سردار ڈ یوڑھی، افسر ذات خاص حافظ احمد علی خاں بہادر کی بہو
اور تحصیل دار اشرف علی خاں صاحب بہادر کی بیوہ نے چار وقت کے فاقے کے بعد روٹی کا
ٹکڑا توڑا تو اچانک رک گئیں انھوںنے حجیانی کی طرف دیکھا جو پاس ہی کھڑی تھیں۔تو
بھی بیٹھ جاحجیانی تونے بھی تو کچھ نہیں کھایا ہوگا۔‘‘ (ایضاًص39)
کرب والم کی یہ ایک غیر معمولی تصویر ہے۔ کیونکہ بڑی بیگم
نے نوالہ منہ میں رکھنے سے پہلے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا تھا کہ’
اس نمک کا حق کیسے ادا ہوگا مولا‘۔
کسی بھی معاشرے کا نشیب و فراز بہت کچھ سوچنے اور غور
کرنے پر مجبو رکرتا ہے۔زوال کے اس لمحے میں ایک معمولی نوکر کا کردار کس طرح نمایاں
ہوتا ہے جس سے محض اس کی عزت و توقیر میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ
سماج کی اکائی میں بہت سے کردار ہوتے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر کام آتے ہیں۔کچھ یہی
حال حجیانی کا بھی تھا۔
حاشیائی ادب کی خاکہ بندی میں اردوادب کے لازوال خاکے
اپنی کیفیت اور کمیت میں کسی بھی زبان کے ادب کے مدمقابل رکھے جانے کے لائق ہیں۔
معمولی انسان کے گردیہ خاکے کچھ اس خوبی سے قدروں کی شمع روشن کرتے ہیں کہ انسانیت
کا سربلند ہوجاتا ہے اورخالقِ کائنات کے منشا کی درست تعبیربھی سامنے آجاتی ہے۔
قدریں اگر آفاقی ہوتی ہیں تو کہنے دیجیے کہ اردوادب کے دامن میں آبادحاشیائی
زمرے کے ان خاکوں کا آفاق ہمیشہ روشن رہے گا۔
Dr. Omair Manzar
Assistant Professor, Dept of Urdu
Maulana Azad National University
(Lucknow Campus)
Lucknow- 226020 (UP)
oomairmanzar@manuu.edu.in
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں