27/6/25

ہوش صاحب، مضمون نگار: عبد اللہ خالد

 اردو دنیا، مارچ 2025

میانہ قد،گندمی رنگت، باوقار چہرہ اور پرعزم وتابناک آنکھوں والے ہوش نعمانی صاحب کی پیدائش 22 مارچ1933کو رامپورکے محلہ ٹھوٹر میں ہوئی تھی۔ اُن کے والد سعادت یار خاں سلطانی ریاست رامپور میں کسی معمولی عہدے پر تھے۔ والیِ رامپور کی ناراضگی کے سبب ملازمت سے برطرف کردیے گئے تو گھر سے آسودگی بھی رخصت ہوگئی، تنگی کے اسی دور میں ہوش صاحب کی پیدائش ہوئی۔ شرافت یار خاں نام رکھا گیا،  ہوش سنبھالا تو تعلیم کی ابتدا ہوئی۔ چند درجات تک حصولِ تعلیم کے بعد حالات کی سختی مانع آئی اور اعلیٰ تعلیم کا خواب پورا نہ ہوسکا۔البتہ علم وادب سے ایسا شغف تھا کہ مطالعے اور علمی مجلس سے بہت کچھ سیکھا۔ نوعمری سے ہی شاعری کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد رامپور کے نامور استاد شاعر جلیل نعمانی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوگئے۔ جوانی کی عمر میں معاش کا مسئلہ درپیش آیا تو چند ملازمتیں کیں، مختلف اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے لیکن جب مشاعروں میں خوب شرکت کرنے لگے اور مشاعروں سے معاش کا مسئلہ بھی حل ہونے لگا تو ساری غیر ادبی نوکریاں چھوڑ کر مستقل ملازمتِ سخن ہی اختیار کرلی۔ رفتہ رفتہ وہ دن بھی آئے کہ ہوش صاحب مشاعروں کے مقبول اور کامیاب شاعروں میں شمار ہونے لگے۔ مشاعروں سے الگ انھوںنے نہ جانے کتنی شعری وادبی انجمنیںقائم کیں، بے شمار سخن دوست افراد اور نومشق شعرا کو ادبی سرگرمیوں میں شامل رکھا ۔۔۔۔اور نہ جانے کیا کیا۔میں 1996 میں جب ان کا شاگر دہوا تو اُن کی مذکورہ ادبی سرگرمیاں بڑی حد تک کم ہوچکی تھیں۔ کبھی وہ دور بھی تھا کہ مسلسل مشاعروں میں شرکت کے سبب اہلِ خانہ کئی کئی دن بعد ان کا دیدار کرتے تھے ‘ اب یہ حال کہ زیادہ تر گھر میں رہتے۔ لیکن ارادوں میں مضبوطی اور قوتِ عمل میں وہی تازگی تھی۔ ان کا زیادہ تر وقت مطالعے، شعر گوئی اور تلامذہ کی تربیت میں صرف ہوتاتھا اوران مشغولیات میں کچھ وقت وہ بھی تھا جب احباب، سخن دوست اصحاب اورمقامی شعرا کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا۔ لوگوں کی مسلسل آمد ورفت اور پیہم ربطِ خاص ہوش صاحب کی شخصیت کے سحر کا اثر تھا،  نہ جانے کب اور کن مراحل سے گزر کر انھوںنے اپنی انا کو اتنا دبا دیا تھا کہ وہ تقریباً معدوم ہوکر رہ گئی تھی۔ دل نوازی وانکساری سے آراستہ ان کی گفتگو مخاطب کو ایسا باندھ لیا کرتی تھی کہ پھر کبھی نہیں چھوٹتا تھا۔ انکساری محض شخصیت اور سماجی مراسم کا حصہ ہی نہ تھی بلکہ ان کی شاعری میں بھی اس کا نمونہ نظر آتا ہے۔ یہ انکسار کا مظہر ہی تو ہے کہ ایک شعر تمام زندگی میں انھوںنے ایسا نہیں کہا جس سے تعلّی کا رنگ جھلکتا ہو‘ پھر سب کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی خوبی بھی ان میں موجود تھی۔ تعریف اتنے بھرپور انداز میں، ایسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کرتے تھے کہ احمق تو احمق، باشعورآدمی کادماغ بھی گھنٹوں آسمان میں پرواز کرتا تھا۔ کوئی طنزیہ لہجہ اختیار کرے یا کسی معاملے میں اعتراض، ہوش صاحب انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتے اور اپنی شانِ دلنوازی میں کمی نہ آنے دیتے تھے۔مجھے خوب معلوم ہے کہ کبھی ان کی کسی سے معاصرانہ یا منافرانہ چشمک نہیں رہی۔ صلحِ کل کی پالیسی ‘منکسر المزاجی اور شخصی وقار ہمیشہ اس قسم کے مراحل سے ان کو بچالیتا۔ْ بنیادی طور پر وہ’چشمک دار‘ شاعر نہیں تھے۔

ہوش نعمانی صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔غزل سے ہی آغازِ سخن کیا تھا اور ان کی آخری کاوش بھی غزل ہی کی شکل میں یادگار ہے۔ بقول ہوش صاحب ان کا پہلا شعر یہ تھا         ؎

جب بھی ہم آشیاں بناتے ہیں

اک تغیر فضا   میں  پاتے  ہیں

ابتدا میں روایتی شاعری کا زور رہا، پھر مطالعے ومشاہدے نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ زمانے کے سردوگرم، زندگی کے تجرباتِ نو بہ نو اور حادثات و واقعات نے بھی غزل میں جگہ پانا شروع کی۔ اُن کا ذہن اپنے آس پاس کے ماحول،  سماجی صورت حال،  شہر،  وطن اور دنیا کے حالات کی جستجو سے لبریز تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مستقل خبریں سننا، پابندی سے اخبارکا مطالعہ کرنا ، گھر، باہر، محلہ، پڑوس ہر جگہ حالات وکیفیات اور ساکن ومتحرک رجحانات پر نظر رکھنا اور ان کو اپنے اشعار کا حصہ بنانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شاید اسی لیے رامپور کے شعرا میں شاد عارفی کے بعد سماج، حالات وواقعات اور نئے رجحانات پر مشتمل اشعار ہوش صاحب کے کلام میں سب سے زیادہ ہیں۔ روایت کے قدردان تھے لیکن جدت کے لیے بھی ان کا دروازۂ فکر کھلا ہوا تھا۔ نہ صرف موضوعات بلکہ لسانی حوالے سے بھی کشادہ ذہن تھے اسی لیے ان کی شاعری میں ٹھیٹھ ہندی اور انگریزی کے الفاظ بھی کثرت سے ملتے ہیں،  انھوںنے بے تکلفانہ طورپر ’تِلک، چندن، آرسی،  پجارن، سَمے، استھان، اسنان‘ اور خالص انگریزی الفاظ ’گٹر، کَوَر،بلب، سگریٹ، سُوئچ‘وغیرہ کا استعمال کیا ہے          ؎

تمھارا شہر بنارس نہیں کہ  بس  جائوں

تِلک لگاکے یہیں پر برہمنوں کی طرح

یہ لاش اصل میں ہے قاتلوں کی لاچاری

یہاں قریب میں کوئی  گَٹَر  نہیں  ہوگا

غزل کے علاوہ انھوںنے تقریباً سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی،  حمد ونعت ومناقب‘ منظومات،  قطعات، مدس، مخمس، مستزاد، تضمین، رباعی، مرثیہ، قصیدہ، چہار ابیات، ہائیکو، گیت، دوہے اور تاریخ گوئی کے نمونے ان کے مجموعہ ہائے کلام میں موجود ہیں۔

ہوش صاحب انتہائی قادرالکلام شاعر تھے، مسلسل مشق نے انھیں اس مرحلے تک پہنچا دیا تھا کہ ان کے لیے شاعری عام بول چال کی طرح ہوگئی تھی۔  تقریباً روزانہ ہی اُنھیں کچھ نہ کچھ اپنے یادوسروں کے لیے کہنا پڑتاتھا۔ جو یہ سب ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی تھے،  پھر تلامذہ اور استفادہ کرنے والوں کے کلام پر اصلاح ومشورہ وغیرہ۔ غرض ان کا سارا دن اسی طور سے بسر ہوتا، تلامذہ کے علاوہ اُن سے استفادہ کرنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کے اساتذہ کو گزرے ہوئے زمانہ ہوچکا تھا، مرحوم اساتذہ کے زندہ شاگردوں میں سے کچھ ہوش صاحب کاحقِ محنت ادا کرکے سبک دوش ہوجاتے اور کچھ اُن سے مشورۂ سخن کا اعتراف کرکے پیسے بچالیتے تھے۔ خفیہ استفادہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی بلکہ ان میں دو ایک تو ایسے بھی تھے کہ ہوش صاحب کی زود گوئی کے سہارے خود اپنے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہتے اور ہوش صاحب کا دم اُن کے لیے ایسا غنیمت تھا کہ شرمندگی سے بچے رہتے تھے۔

ہوش صاحب کے تلامذہ کی تعدا د بھی کثیر تھی، کچھ نے شاعری چھوڑ کر دنیا داری سے دل لگالیا اور کچھ ہوش صاحب کی بے پناہ ہمت افزائی اور تعریف سے پھول کر ’اپنی استادی‘ کے مدعی ہوگئے۔حسبِ عادت ہوش صاحب نومشقوں کی اتنی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ اکثر لوگ شکایت بھی کرتے ’آپ نومشقوں کا دماغ خراب کررہے ہیں ‘مگر وہ کسی کو کوئی صفائی دیے بغیر اپنی روش پر تاعمر قائم رہے۔ کتنے ہی نوواردانِ سخن اُن کی حوصلہ افزائی کے سبب پراعتماد ہوکر شعر کہنے لگے اور مشہور بھی ہوئے۔

ہوش صاحب کے مقامی وبیرونی تلامذہ کی صحیح تعداد لکھنا تو مشکل ہے مگر راقم الحروف کے علاوہ آزر نعمانی، طاہر کنول نعمانی،  عتیق جیلانی سالک، حسن اقبال، شارق نعمانی اور ہاشم نعمانی تادمِ حیات اُن کے رابطے میں رہے۔

ہوش نعمانی صاحب کی بارہ تصانیف ان کی حیات ہی میں منظرِ عام پر آگئی تھیں: ’اِندر دھنش (شاعری 1968)، میرا وطن (تذکرہ،  اردو نثر1974)، گھائوشبدوں کے (ہندی، منظومات وغزلیات اور گیت، 197)، زمزم وفرات (1987)، کائنات (1986)، شہادت نامہ (1994)، ادب گاہِ رامپور (1997)،  انجانی راہیں، ‘چھیڑ خوباں سے(2004)، آئینۂ مسدس(2006)، بیاں اپنا (غزلیات، (2008)،  اتمام(منظومات وغزلیات 2009)۔  قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اتمام یعنی آخری مجموعۂ کلام کی اشاعت کے بعد انھوںنے اپنے انتقال تک محض دو ایک غزلیں اور ایک نظم ہی کہی جن کی اشاعت روزنامہ رامپور کا اعلان میں ہوگئی تھی۔ اُن کی شخصیت وفن پر تین کتابیں ’’آج کا شاعر ہوش نعمانی از عتیق جیلانی سالک، 1986اور ’شناخت ( ہوش نعمانی اور ان کے چند تلامذہ کا کلام وتعارف) مرتبہ تبسم نشاط مرحوم، 1996 اور آزر نعمانی کی کتاب ’ہوش نامہ‘  1999میں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔ ہوش نعمانی شخص وشاعر کے عنوان سے ایک کتاب زیرِ تکمیل ہے جس کے مصنف رضوان لطیف خاں ہیں۔

ان کی زود گوئی کا اصل رنگ میں نے اس وقت دیکھا جب وہ ’ادب گاہِ رامپور‘ کی تکمیل کررہے تھے،  ایک ایک نشست میں ڈیڑھ سو، دوسو اشعار کہنا عام بات تھی یہاں تک کہ وہ بولتے جاتے اور میں لکھتے لکھتے تھک جاتا تو ہاتھ روکنے کے بہانے کہتا ’’ہوش صاحب! پان کھالیجیے کافی دیر سے نہیں کھایا آپ نے۔‘‘ ہوش صاحب اچھا کہہ کر اُٹھ جاتے اور اس طرح کچھ دیر مجھے آرام کا موقع مل جاتا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی زود گوئی نے انھیں کسی حد تک نقصان بھی پہنچایا،  ظاہر ہے کہ انھیں وقت ہی میسر نہ آسکا کہ اپنے کلام پر نظرِ ثانی یا ترمیم کرسکیں جس کی وجہ سے بہت سے ایسے اشعار بھی ان کی غزلیات ومنظومات میں در آئے جو اُن کے معیارِسخن سے کم تر تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے غزل کو کئی عمدہ اور یادگار اشعار دیے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے بالخصوص ذیل کے دو اشعار تو ادبی دنیا میں کافی مشہور ہیں           ؎

وہ تو بتا رہا تھا کئی روز کا سفر

زنجیر کھینچ کر جو مسافر اتر گیا

جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا

میں بہر حال کتابوں میں  ملوں  گا  تم کو

اول الذکر شعر صبا افغانی رامپوری کے اچانک انتقال پر کہا تھا اور دوسرا شعر ماہنامہ الحسنات رامپور کے’ مولانا مودودی نمبرؒ‘ کے ٹائٹل کے لیے فی البدیہہ کہا۔

ہوش صاحب کا بچپن کشمکش سے بھرا ہوا ضرور رہا ہوگا لیکن جوانی سے بڑھاپے تک کی عمر انھوںنے کسی قدر سکون وعافیت کے ساتھ گزاری۔ ان کی اہلیہ زیب النساء بیگم انتہائی خدمت گزار اور شوہر پرست خاتون تھیں۔ اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا بلاغت یار خاں المعروف بان نعمانی بھی ان سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے بڑے فخر سے کہتے تھے کہ :دنیا کچھ کہے، کچھ مانے، لیکن میرے لیے یہی بہت ہے کہ خود میرے گھر میں بہ حیثیت شاعر مجھے بہت عزت حاصل ہے۔‘‘حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ مقامی ادبی حلقوں میں اُنھیں بہت اعتبار اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا وہ ایسے شاعر تھے جن کا کلام بے شمار عام وخاص لوگوں کو یاد تھا۔ ایک بار ایک رکشہ والا بڑی مستی کے عالم میں رکشہ چلاتے ہوئے شعر گارہا تھا         ؎

چاندی کے چراغوں سے نہ جل جائے جوانی

ماٹی کے دیے چھوڑ کے گائوں  سے  نہ  جائو

میں نے کہا :’’شعر تو بہت اچھا ہے ،کس کا ہے؟‘‘ بولا:’’ مجھے کیا پتہ ؟ نمائش کے مشاعرے میں سنا تھا۔‘‘ میں نے بتایاکہ ہوش نعمانی صاحب کا شعر ہے تو بولا: ’’ارے وہ ، جو بجوڑیوں( محلہ باجوڑی ٹولہ رامپور) میں رہتے ہیں۔‘‘ میںنے کہا :’’ہاں وہی۔‘‘اسی طرح مزدور طبقہ‘ دوکاندار‘ چائے کے ہوٹل والے ‘ اور کئی پھیری والے ایسے تھے جن کو ہوش صاحب کے اشعار یا گیت یاد تھے۔

2013 کی بات ہے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے : ’اتنی لمبی زندگی یوں ہی شاعری میں برباد کردی،  سب لاحاصل۔۔۔۔نہ کوئی جانتا ہے،  نہ مانتا ہے ۔۔۔ہائے افسوس۔‘‘ یہ سن کر لمحہ بھر کو مجھے سکتہ سا ہوگیا۔ ہمت کرکے انھیں تسلی دینے کے لیے بہت کچھ کہا مگر ان کو مطمئن نہ کرسکا۔ البتہ اس روز مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہوش صاحب کو اپنی موت کا یقین ہوچلا ہے۔ واقعی اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ شکستگی سے دوچار ہوتے چلے گئے،  رامپور میں کئی ڈاکٹروں کو دکھایا پھر علی گڑھ میڈیکل کالج میں زیرِ علاج رہے جہاں ڈاکٹروں نے پیٹ میں آخری اسٹیج کا کینسر ہونے کی نشاندہی کردی۔ سعادت مند اکلوتے بیٹے نے اپنا کاروبار چھوڑ کر ان کا علاج اوربہت خدمت کی، وفا شعار اہلیہ ہمہ وقت سرہانے موجود رہیں۔ احباب مسلسل ان کو دیکھنے جاتے اور تسلیاں دیتے۔دعائیں ہوئیں ، ممکنہ دوائیں کی گئیں مگر کچھ کارگر نہ ہوسکا۔ پھر وہ دن (21 اگست 2014) بھی آیا کہ بولتی ہوئی آنکھیں بے جان، چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری اور مردِ سراپا سخن ہمہ تن خاموش تھا۔ واقعی اُن کی موت ہوگئی تھی۔

 

Abdullah Khalid

Ghair Kate Bazar Khan

Rampur - 244901 (UP)

Mob.: 9897496925

abdullahkhalidrmp@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ہوش صاحب، مضمون نگار: عبد اللہ خالد

  اردو دنیا، مارچ 2025 میانہ قد،گندمی رنگت، باوقار چہرہ اور پرعزم وتابناک آنکھوں والے ہوش نعمانی صاحب کی پیدائش 22 مارچ1933کو رامپورکے محلہ...