27/6/25

جمیل مظہری کی شاعرانہ خصوصیات، مضمون نگار: اسلم رحمانی

اردو دنیا، مارچ 2025

جمیل مظہری (2ستمبر1904، 23جولائی 1979) کا نام اردوشاعری میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ باکمال شاعر تھے۔ان کی شاعری معنی آفرینی،جدت طرازی اورمتنوع مضامین کا احاطہ کرتی ہے۔ جمیل مظہری ان کم یاب و کامیاب شاعروں میں ہیں جن کی مقبولیت کا سبب فن کی سچائی اور تخلیقیت کی وہ سطح ہے جہاں تخلیق اور تخلیق کار اس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں کہ تخلیق اپنے خالق کا آئینہ اور تخلیق کار اپنی تخلیق کا عکس بن جاتا ہے۔

جمیل مظہری کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں انسانی جذبات کی گہرائی اور سچائی ہوتی ہے، جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔مظہری نے اپنی شاعری میں نئے اور منفرد موضوعات کو چھیڑا ہے، جیسے محبت، زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات۔ ان کی شاعری میں خوبصورت تصویریں اور تشبیہیں ہوتی ہیں، جو قاری کو ایک نئے تجربے میں لے جاتی ہیں۔ ان کا رومانی انداز اور محبت کی خوبصورت تعبیرات انھیں خاص مقام عطا کرتی ہیں۔یہ عوامل مل کر جمیل مظہری کی شاعری کو مقبول بناتے ہیں، اور اردو ادب میں ایک اہم مقام عطا کرتے ہیں۔

جمیل مظہری کا ایک نمایاں وصف ان کی بہت سی غزلوں کا بے حد ذاتی ہوتے ہوئے بھی غیر ذاتی ہونا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا وہ اکثر ان کے اپنے ذاتی در د و داغ کی داستان ہے، اس لیے اس میں تجربے کی سچائی اور جذبے کی وہ گرمی موجود ہے جو فرد کے نجی اوصاف کی مرہون منت ہوتی ہے۔ فنکاری یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی تجربے میں قاری و سامع کو اس طرح شریک رکھتے ہیں کہ وہ درد اس کو اپنا سا محسوس ہوتا ہے۔ شاعرانہ فنکاری کا مطلب ہے شاعری میں تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال۔ اس میں چند اہم عناصر شامل ہیں:

(الف )  زبان اور الفاظ کا انتخاب: شاعر کو الفاظ کا ایسا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو جذبات اور خیالات کو بہتر انداز میں پیش کرے۔

(ب)  تخیل: شاعر اپنے خیالات کو منفرد اور جاذب نظر انداز میں پیش کرنے کے لیے تخیل کا استعمال کرتا ہے۔

(ج)  غنائیت اور موسیقیت:   شاعری میں ایک خاص ردم اور قافیہ کی اہمیت ہوتی ہے جو اسے موسیقی کی طرح جاذب بناتی ہے۔

(د)  پیکر تراشی:  شاعری میں الفاظ کے ذریعے بصری، سمعی یا حسی تجربات کو زندہ کرنا، تاکہ پڑھنے والا احساسات میں ڈوب جائے۔

(ہ)  مضامین اور موضوعات:شاعری میں مختلف موضوعات جیسے محبت، فطرت، زندگی، موت وغیرہ کو پیش کیا جاتا ہے۔

یہ عناصر مل کر شاعری کو ایک منفرد اور دلکش شکل دیتے ہیں، جو پڑھنے والوں کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ جب ہم جمیل مظہری کی شاعری بالخصوص غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی شاعری فنکارانہ معیار پر کھری اترتی ہے۔عام طور پر شاعری میں اور خاص طور پر غزل اور نظم میں فکر کی صلابت اور جذبے کی حلاوت کا متناسب امتزاج قائم رکھنا آسان نہیں ہے۔ صلابت کا مطلب ہے مضبوطی اور ثابت قدمی، جبکہ توانائی زندگی کی شدت اور جوش و خروش کی علامت ہے۔غزل میں یہ عناصر عشق، جدوجہد، اور استقامت کے ساتھ مل کر گہرائی اور اثر پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عشق میں صلابت کا اظہار وفاداری اور عزم کے ذریعے ہوتا ہے، جبکہ توانائی اس عشق کی شدت اور خلوص کو اجاگر کرتی ہے۔یہ دونوں کیفیتیں شاعر کی تخلیق میں ایک خاص چاشنی اور اثر پیدا کرتی ہیں، جو قاری کو متاثر کرتی ہیں اور زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے کی ہمت دیتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جمیل مظہری نے یہ مراحل شخصی تہہ داریوں اور تخلیقی باریکیوں کے ساتھ کامیابی سے طے کیے ہیں۔ ورنہ غزل اور نظم میں  دانشوری  کے اتنے سراب زدہ مواقع آتے ہیں کہ اگر دل دردمند، ظرف تربیت یافتہ، جذبہ سچا، زبان، متعلقات زبان پر عبور اور آنکھوں میں خواب نہ ہوں تو نہ  شعر کے  کلام موزوں بننے میں دیر لگتی ہے اور نہ آدمی کے نام نہاد نقاد بننے میں۔ مسائل و مقاصد کو ذات میں جذب کرکے جس شعری سطح پر جمیل مظہری نے غزلوں اور نظموں میں نبھایا ہے اس کی مثال شاعری کے موجودہ منظر نامے میں خال خال ہی ہے بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں        ؎

بس ایک احساس نارسائی نہ جوش اس میں نہ ہوش اس کو

جنوں پہ حالت ربودگی کی خرد پہ عالم غنودگی کا

ہے روح تاریکیوں میں حیراں بجھا ہوا ہے چراغ منزل

کہیں سر راہ یہ مسافر پٹک نہ دے بوجھ زندگی کا

خدا کی رحمت پہ بھول بیٹھوں یہی نہ معنی ہے اس کے واعظ

وہ ابر کا منتظر کھڑا ہو مکان جلتا ہو جب کسی کا

وہ لاکھ جھکوا لے سر کو میرے مگر یہ دل اب نہیں جھکے گا

کہ کبریائی سے بھی زیادہ مزاج نازک ہے بندگی کا

جمیل حیرت میں ہے زمانہ مرے تغزل کی مفلسی پر

نہ جذبۂ اجتبائے رضوی نہ کیف پرویز شاہدی کا

جمیل مظہری کے شعری فن پاروں میں معاشرتی بحران کا انعکاس بخوبی ہوا ہے۔ انھوں نے موجودہ دور کا انتشار، اضطراب، تجسس، ہیجان اور پیچیدگیاں شعوری اور لا شعوری طور پربرتا ہے۔ جمیل مظہری نہ صرف ادبی حسن رکھتے ہیں بلکہ معاشرتی مسائل کی گہرائی میں جا کر ان کی تشریح کرتے ہیں، جو کہ معاشرتی بحران کی صورت حال کی عکاسی ہے۔ ان نظموں میں بیان کی خطابت نہیں بلکہ اظہار کی صلابت ہے۔کیونکہ ان کی شاعری چکاچوندھ سے پاک ہے۔چکا چوندھ سے پاک شاعری کا مطلب ہے ایسی شاعری جو سادگی،  شفافیت اور خلوص پر مبنی ہو۔ اس میں الفاظ کی بھاری بھرکم استعمال سے گریز کیا جاتا ہے، اور خیال کی وضاحت اور صفائی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس طرح کی شاعری میں انسانی جذبات، تجربات اور حقیقتوں کی عکاسی کی جاتی ہے، جس میں گہرائی ہوتی ہے لیکن پیچیدگی نہیں۔

جمیل مظہری نے اپنی شاعری میں عمیق احساسات کو سادہ اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل کے روایتی مضامین اور خاص کر معاملہ بندی اور وادیِ عشق کے عامیانہ موضوعات ان کے یہاں نہیں ہیں۔  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں            ؎

خلاف رسم تغزل غزل سرا ہوں میں

رباب وقت کی بگڑی ہوئی صدا ہوں میں

فضائیں دیں نہ جگہ میری بے قراری کو

ہوائیں مجھ کو سلا دیں کہ جاگتا ہوں میں

جمیل خنکیِ مرہم کا میں نہیں قائل

جراحتوں کو نمک داں دکھا رہا ہوں میں

جمیل مظہری کی شاعری میں ان کا اندازعموما قدرے انفرادی ہوتا ہے اوران کے تخلیقی وجدان میں حقیقت پسندی کی جو فکری سر شاری ہوتی ہے وہ ان کی شاعری میں بالکل نئی اور عجیب و غریب اہمیت کی حامل بنتی محسوس ہوتی ہے۔اور اسی سے ان کی شاعری میں زندگی کی حرارت اور توانائی بھی پیدا ہوتی ہے۔

مظہری کی شاعری میں بھی حرارت اور توانائی ہے، ان کی نظم نگاری ہو یا غزل گوئی ان کے یہاں صرف الفاظ کی اداکارانہ ترتیب اور قافیہ پیمائی کا نام شاعری نہیں ہے بلکہ فکر و تخیل،تجربات و مشاہدات اور احساسات وجذبات کے تخلیقی حسن کے ساتھ فنی اظہار کا نام شاعری ہے اور ہر اچھی اور قابل قدر شاعری میں ان خصوصیات کا ہونا ناگریز بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فکری ریاضت اور فنی مزاولت بھی شاعر کے لیے درکار ہوتی ہے،کیونکہ شاعری لفظوں میں زندگی کی حرارت اور اندرونی سوز کی آنچ لفظی پیکروں میں ڈھال دینے سے وجود میں آتی ہے اور یہ وہ اوصاف ہیں جو فکری اور فنی زرخیزی کے ساتھ تہذیب اور تمدنی روایات و اقدار اور عرفان کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ہیں۔یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ماضی کے عرفان،حال کی معرفت اور مستقبل کے امکان سے شاعری میں حیرت انگیزی، کشش،جاذبیت،اور تاثیر در آتی ہے اور شاعری کے ان تمام اسرار و رموز سے جمیل مظہری پورے طور پر واقف نظر آتے ہیں۔ان کے لفظوں میں، خیالات کے ارتقا میں جو ربط و تسلسل ہوتا ہے وہ دراصل زندگی کے ماضی حال اور مستقبل کے ربط و تسلسل سے عبارت ہوتا ہے۔اس لیے ان کی غزلوں کی معنویت میں بھی ایک مخصوص قسم کی ضابطگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی غزل کو روایتی لہجے اور لفظیات سے الگ رکھا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

بہت مشکل ہے پاس لذت درد جگر کرنا

کسی سے عشق کرنا اور وہ بھی عمر بھر کرنا

سر محفل ترا وہ پرسش زخم جگر کرنا

مری جانب بمشکل اک نظر کرنا مگر کرنا

مسلّم ہو گئی ہے بے اختیاری جذب باطن کی

محبت اس سے کرنا جس سے نفرت اس قدر کرنا

بڑھا کر ہاتھ تارے آسماں سے کون توڑے گا

جمیل اک کار ناممکن ہے تقلید قمر کرنا

جہاں تک بات جمیل مظہری کی شاعری کے فنی اوصاف کی ہے تو ان کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کلام میں تراکیب، مغلق الفاظ اور اضافت کی کثر ت سے گزرتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات کا نظام بھی بہت ہی فطری ہے۔ الفاظ نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ الفاظ کی نشست میں فنکاری ملتی ہے۔ کلام میں روانی اور سوز وگداز بہت ہے۔یہاں تک کہ اکثر اشعاراپنی بے ساختگی اور روانی کی وجہ سے ضرب المثل بن چکے ہیں۔ سہل ممتنع کی بیشتر مثالیں ان کے کلام میں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حالانکہ سادگی کے باوجود معنی کی بلندی اور تاثیر کلام ہاتھ سے نہیں جاتی، زبان کی سلاست، کلام کی پختگی اور مضامین کی بہتات نے بجا طو رپر انھیں استاد کا مرتبہ عطا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں مختلف شعری فنون کا خوبصورت استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔ان کی غزلوں کی فنی خصوصیات میں کئی اہم عناصر شامل ہیں:

.1            موضوعات کی وسعت: ان کی غزلیں انسانی جذبات، عشق، وطن، فلسفہ اور خودی جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان کی شاعری میں روحانی اور معاشرتی پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔

.2            تشبیہات و استعارات:  ان کی شاعری میں تشبیہات اور استعارے کی خوبصورتی نمایاں ہے۔ وہ قدرتی مناظر، تاریخی شخصیات اور فلسفیانہ تصورات کو استعمال کرتے ہیں۔

.3            موسیقیت: ان کی غزلوں میں ایک خاص قسم کی موسیقیت ہے، جو پڑھنے یا سننے میں دلکش لگتی ہے۔ اس کے لیے وہ مخصوص بحر اور قافیہ بندی کا خیال رکھتے ہیں۔

.4            خودی کا تصور: ان کی شاعری میں اقبال کی طرح ’خودی‘کا  فلسفہ بھی نمایاں ہے، جو خود اعتمادی اور خود شناسی کی ترغیب دیتا ہے۔

.5              زبان و بیان: ان کی زبان میں سادگی اور پیچیدگی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کا اسلوب بامحاورہ اور عمیق ہوتا ہے، جس میں فلسفیانہ نکتہ چینی کی جھلک ملتی ہے۔

.6            نئے تجربات: انھوں نے روایتی غزل کی حدود کو توڑ کر نئے تجربات کیے، جیسے جدید خیالات اور متنوع شکلوں کا استعمال۔

یہ فنی خصوصیات جمیل مظہری کی شاعری بالخصوص غزلوں کو منفرد بناتی ہیں اور ان کے شاعری کے عالمی معیار کو بلند کرتی ہیں۔ اشعار دیکھیں         ؎

کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے

ڈرا دیا ہے پتنگوں نے روشنی سے مجھے

سفینہ شوق کا اب کے جو ڈوب کر ابھرا

نکال لے گیا دریائے بے خودی سے مجھے

ہے میری آنکھ میں اب تک وہی سفر کا غبار

ملا جو راہ میں صحرائے آگہی سے مجھے

خرد انہی سے بناتی ہے رہبری کا مزاج

یہ تجربے جو میسر ہیں گمرہی سے مجھے

شاعری میں اضطراب ایک معیاری موضوع ہے، جو شاعر کے ذہنی اور جذباتی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔

ادب کی تنقید میں اضطراب کی کیفیت کو اکثر اہمیت دی جاتی ہے، کیونکہ یہ انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے۔شاعری میں اضطراب انسانی تجربات کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ ایک ایسا عنصر ہے جو قاری کو شاعر کی داخلی دنیا میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔کچھ مشہور شعرا جیسے غالب، اقبال، اور فیض احمد فیض نے اضطراب کو اپنے کلام میں باریک بینی سے بیان کیا ہے، جو انسانی تجربات کی پیچیدگیوں کو واضح کرتا ہے۔اسی طرح جمیل مظہری کی شاعری میں بھی اضطراب ایک مرکزی موضوع ہے جو ان کی اندرونی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کی نظموں میں زندگی کی بے یقینی، عشق کی ناکامی، اور وجود کی تلاش کے عناصر ملتے ہیں۔ پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ:

’’جمیل مظہری کی نظموں میں اضطراب اور الجھن کی کیفیت نمایاں ہے۔ یہ اضطراب ان کی تشکیک کا نتیجہ ہے۔‘‘

(ذکر جمیل،ناشر خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، ص 45)

مظہری کی غزلوں میں اکثر ایسے لمحات پیش کیے جاتے ہیں جہاں انسان اپنے احساسات کی گہرائیوں میں غرق ہوتا ہے، اور یہ اضطراب اس کی شناخت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور یہ اضطراب ان کی تشکیک کا نتیجہ ہے۔ اشرفی مزید لکھتے ہیں کہ:

’’جمیل مظہری کی تشکیک انھیں خون کی آنسو رلاتی ہے۔وہ مسلسل کرب اور کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ان کا ہیجان انھیں کوئی منزل عطا نہیں کرتا بلکہ بیچ راستے میں ایک کھوئے ہوئے مسافر کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ وہ نتیجتا تشکیک ہی کے نہیں بلکہ تضادات کے بھی پیکر بن جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا تعارف خود اس طرح کرایا ہے   ؎

دو جمیل اک جمیل کے اندر

یہ تضاد اور یہ دوئی کیوں ہے

یعنی جب وہ ہے منکر ادیان

ذہن پھر اس کا مذہبی کیوں ہے

جمیل مظہری کی شاعری میں یہ اضطراب ایک ایسی قوت کے طور پر بھی نظر آتا ہے جو تخلیق کا باعث بنتا ہے، جہاں درد اور خوشی کی باریکیوں کو ایک ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ اس طرح، جمیل مظہری کی شاعری میں اضطراب صرف ایک احساس نہیں بلکہ فن کا ایک حصہ بھی ہے۔ جمیل مظہری کے تعلق سے یہ نظریہ بھی مشہور ہے کہ وہ تشکیک کے شاعر ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری کے متعلق قاری اپنے ذہن میں منفی رائے قائم کر لیتا ہے۔ جب کہ شاعری میں تشکیک ایک اہم موضوع ہے جو فلسفیانہ اور وجودی سوالات پر مبنی ہے۔

تشکیک شاعری میں گہرائی اور بصیرت کا ایک عنصر ہے، جو قاری کو نہ صرف متن کے بارے میں بلکہ زندگی کے بارے میں بھی غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے سفر کی مانند ہے جہاں قاری نئے خیالات اور تجربات کی تلاش میں نکلتا ہے۔ جمیل مظہری کی شاعری میں تشکیکی رویے پر غور کرنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انہوں نے تشکیک کے موضوعات کو اپنے کلام میں بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں الجھن کا عنصر بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ سوالات، وجودی مشکلات اور انسانی تجربات کی پیچیدگیاں واضح ہوتی ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں مختلف جذبات اور خیالات کو پیش کرتے ہیں، جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مظہری کی شاعری میں الفاظ کا انتخاب اور تشبیہات کا استعمال اس الجھن کو مزید گہرا کرتا ہے، جس سے قاری کو ایک نئی بصیرت ملتی ہے۔ ان کے خیالات کی کثرت اور گہرائی ان کی تخلیقات کو خاص بنا دیتی ہے، جہاں کبھی زندگی کی سادگی اور کبھی اس کی پیچیدگیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

 

Aslam Rahmani

P.O.:Ramna, Mohammadpur Kazi Musahri, Muzaffarpur-  842002 (Bihar)

Mob: 6201742128

Email: rahmaniaslam9@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ہوش صاحب، مضمون نگار: عبد اللہ خالد

  اردو دنیا، مارچ 2025 میانہ قد،گندمی رنگت، باوقار چہرہ اور پرعزم وتابناک آنکھوں والے ہوش نعمانی صاحب کی پیدائش 22 مارچ1933کو رامپورکے محلہ...