26/4/24

احسان سیوانی کو یاد کرتے ہوئے، مضمون نگار: اشتیاق سعید

 

اردو دنیا، فروری 2024


ممبئی میں رہنے بسنے والے زیادہ تر افراد رات گئے تک جاگنے اور صبح دیر تک سوئے پڑے رہنے کے عادی ہوتے ہیں، بالخصوص فنونِ لطیفہ نیز ادب سے وابستگی رکھنے والی شخصیات زیادہ تر رات کے آخری پہرہی بستر کی آغوش میں پناہ لیتی ہیں۔ خاکسار کا شمار بھی اسی قبیل کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ رات بھر الوؤں کی طرح جاگنا اور دِن چڑھے تک سوتے رہنا۔

 ایک دوپہر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ خلافِ توقع موبائل کی گھنٹی گھنگھنائی۔ میں چونک کر اٹھ بیٹھا،موبائل اٹھا کے دیکھا تو احسان سیوانی کا نام فلیش ہورہا تھا۔ میں نے فوراً کال ریسیو کی۔ ’السلام علیکم‘ مخاطب کی آواز سرسرائی۔ ’’میں احسان سیوانی کاچھوٹا داماد بول رہا ہوں۔آج صبح دس بجے ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘ اتنا سنتے ہی کب موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر بستر پر گِرا مجھے ہوش نہیں۔ ذہن سوچنے لگا ابھی پرسوں ہی تو میں ان سے مِل کر آیا تھا۔ گھنٹے بھر میں ہم نے جانے کتنے سارے منصوبے بنائے تھے۔ وہ اپنی کتاب ’یادوں کے سائے‘ کی رسمِ رونمائی کرانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے بہتر ٹھکانہ چاہتے تھے۔ پہلی کتاب ’مٹی کی مہک‘ کی اجرائی تقریب ان کی بڑی بیٹی کے اسکول کے ہال میں بڑی نفاست کے ساتھ منعقد ہوئی تھی۔وہ ویسا ہی پروگرام چاہ رہے تھے۔ مگر بیٹی کا اسکول اب اس مقام سے تقریباً تین کلو میٹر دور چلا گیا تھا۔ کرائے کی جگہوں کا عالم یہی ہوتا ہے۔ دوسرے دو تین ہال جو آسانی سے دستیاب ہوسکتے ہیں وہ ریلوے لائن سے ملحق ہیں لہٰذا ہر دو تین منٹ کے بعد آنے جانے والی لوکل اور میل ٹرینوں کی گڑ گڑاہٹ سامعین کی سماعت پر بار بن سکتی ہے۔میں نے انہیں میراروڈ میں واقع اندرا گاندھی میونسپل ہاسپٹل کے پچھلے حصے میں پہلی منزل پر قائم کلچرل ہال کے تعلق سے بتایا۔ وہ خوش ہوئے اور کہا وہ ہال میرا دیکھا بھالا ہے چھ آٹھ مہینے قبل میں ایک ہندی کے پروگرام میں وہاں شریک تھا۔ وہ ہال بہتر ہے وہاں اردو والوں کے علاوہ ہندی والے بھی شریک ہوجائیں گے۔ بس میری صحت ٹھیک ہوتے ہی وہ ہال بک کرلو۔ اِن شاء اللہ میں دس پندرہ روز میں چلنے پھرنے کے قابل ہوجاؤں گا۔

 انھوں نے سیوان کے شعرائے کرام پر ہندی میں مرتب کی ہوئی سمیع بہواروی کی کتاب دِکھائی۔میں کتاب کی ورق گردانی کررہا تھا اور وہ اس کتاب پر زبانی تبصرہ فرما رہے تھے۔میں ان کی قوتِ گفتار اور رفتار پر حیران تھاکہ یہ کم گو آدمی آج کس قدر گفتگو کر رہا ہے۔ اسی دوران انھوں نے پورے یقین واعتماد کے ساتھ کہا تھا۔ ’’اشتیاق صاحب میں تمھیں سیوان لے چلنا چاہتا ہوں، وہاں کے تمام شعرا و ادبا تمھیں جانتے ہیں، سبھوںسے مِل کر تمھیں انتہائی خوشی ہوگی، بالخصوص ڈاکٹر ارشاد احمد اور سمیع بہواروی سے تمھیں ملوانا چاہتا ہوں‘‘۔افسوس ! کہ ان کی یہ خواہش دِل میں ہی رہ گئی۔

احسان سیوانی کی ولادت 11جولائی 1951 کو موضع بہوارہ، تھانہ بڑہریا ضلع سیوان کے ایک متوسط مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ جن کا آبائی پیشہ کاشتکاری تھا۔والدِ محترم مولوی اقبال حسین اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس انعام و احسان سے خوش ہوکر نومولود کا نام احسان احمد تجویز فرمایا۔ والدہ حدیث النساء کچھ اردو کی شد بد رکھتی تھیں چنانچہ وہ انھیں کم عمری سے ہی الف سے اللہ پڑھانے لگی تھیں۔ یوں بھی آغوشِ مادر اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔بہر حال! احسان احمد کی پرورش گاؤں کے پرفضا ماحول میں ہوتی رہی۔ وہ بھی اسی ماحول میں گِرتے پڑتے،کھیلتے کودتے مدرسہ جانے کی عمر کو پہنچے تو والدِ محترم نے گاؤں ہی کے مدرسے میں داخل کرادیا۔اس لحاظ سے ابتدائی تعلیم کا سہرا گاؤں کے مکتب کے سر بندھتا ہے۔ پھر گاؤں سے تقریباً تین کلو میٹر پر واقع بڑہریا کے جی ایم ہائی اسکول سے 1968 میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ ہائی اسکول کے زمانے میں اسکول میں جب بھی کوئی جلسہ منعقد ہوتا تو احسان کو نعت ِ پاک پڑھنے کی دعوت دی جاتی چونکہ اِن کی آواز کافی مترنم تھی۔ یہیں سے انھیں شعر گوئی کا بھی چسکا پڑا اور ٹوٹے پھوٹے مصرعے موزوں کرنے لگے تھے۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کی خاطرڈی اے وی پی جی کالج سیوان میں داخلہ لے لیا۔ حالانکہ والدہ سیوان جانے دینا نہیں چاہتی تھیں۔لیکن ان کے پڑھنے کے ذوق و شوق نے انھیں اجازت دینے پر مجبور کردیا۔ ان دنوں معروف ادیب ڈاکٹر انور سیوانی صدر شعبۂ اردو اور فارسی تھے۔ اسی سبب کالج کا ماحول خالص ادبی تھا۔ انھیں دنوں کالج میں کل ہند مشاعرے کا انعقاد ہوا جس میں ترنم اچھا ہونے کی بنا پر احسان کو بھی موقع دیا گیا۔انھوں نے اپنی مترنم آواز کا وہ جادو جگایا کہ سارے کالج میں جانے پہچانے جانے لگے۔  ڈاکٹر انور سیوانی اپنے دولت کدے پر ماہانہ نشست کا اہتمام کیا کرتے تھے جس میں شہر کے سبھی شعرا کی شرکت ہوا کرتی تھی۔ احسان سیوانی بھی اِس نشست میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔

احسان سیوانی کی ذہنی پرداخت میں سیوان کا قدرے حصہ ہے۔ سیوان کے اسی کالج سے بی ایس سی کی سند حاصل کرکے برائے ملازمت بمبئی کے مضافاتی علاقہ باندرہ آگئے۔ کیونکہ باندرہ میں اِن کے برادرِ کلاں کی رہائش تھی۔ آپ سائنس کے طالب علم تھے اس لیے جلد ہی انجمن خیرالاسلام کے ادارے میں بحیثیت سائنس اور میتھ ٹیچر ملازم ہوگئے۔ ان دنوں تنخواہ قلیل تھی جیسے تیسے گزارا ہونے لگا۔ قریب چھ ماہ بعد جب ملازمت مستقل ہوئی تو کچھ روپئے بھی بڑھے۔وہ اخراجات کی گاڑی پرانی تنخواہ سے ہی کھینچتے رہے اور بڑھی ہوئی رقم پس انداز کرتے رہے۔دوسال بعد یہ رقم خاصی ہوگئی،پھر انھوں نے کرلا (مشرق) میں واقع قریش نگر کی پہاڑی پر ایک کمرہ خرید لیا اور باندرہ سے کرلا منتقل ہوگئے۔ 

میری ملاقات اِن سے 1995 میں عارف اعظمی کے توسط سے ہوئی۔ واقعہ یوں ہے کہ میرے ایک بزرگ دوست شعبان اعظمی جو سینٹرل ریلوے کے ماٹونگا ورک شاپ میں بطور الیکٹریشین ملازم تھے، سائڈ بزنس کے طور پر منڈپ ڈیکوریٹر کا بھی کام پھیلا رکھا تھا۔آپ ڈرامے اور مشاعرے کے بے حد شوقین تھے۔ایک روز ہم یوں ہی بیٹھے باتیں کر رہے تھے،جانے کیسے باتوں کے دوران مشاعرے کا ذکر چل پڑا۔ شعبان صاحب کہنے لگے۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب مل جل کر سال میں ایک مشاعرہ تو کرہی سکتے ہیں‘‘۔ سارے لوگوں نے اِن کی بات پر کان دھرا اور باہمی اتفاق سے طے پایا کہ ہم سال میں ایک مشاعرہ کیا کریں گے اور ادارہ سب رنگ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اب مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ آخر مشاعرہ کریں گے کب؟ کسی نے تجویز رکھی 15 اگست جشنِ آزادی کے موقع پر کیا جائے۔ دوسرے نے یہ کہہ کے بات خارج کردی کہ اگست میں برسات کا موسم ہوتا ہے۔ پھر بات 26 جنوری یومِ جمہوریہ پر آٹکی۔شعبان صاحب نے کہا یومِ جمہوریہ تو مناسب ہے لیکن اس کے لیے ابھی کئی مہینے باقی ہیں۔اس پر خاکسار نے عرض کیا بھئی تین چار روز بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے کو ہے۔کیوں نہ ہم ’عید ملن مشاعرہ ‘ منعقد کریں۔اس پر سبھی عش عش کر اٹھے اور طے پا گیا کہ عید کے فوراً بعد ’عید ملن مشاعرہ‘ منعقد کیا جائے گا۔ کرلا مشرق میں واقع قریش نگر سے عارف اعظمی اور راشد کانپوری جوکہ میرے عزیز دوستوں میں سے تھے، ہر روز پابندی کے ساتھ کرلا مغرب مجھ سے ملنے آیا کرتے تھے۔اگرچہ کبھی کبھار عیش کنول بھی آجاتے تھے۔ ’عید ملن مشاعرے ‘ کی خبر اِن احباب کی سماعت تک بھی پہنچی، انھوں نے خیر مقدم کیااور بھر پور تعاون کا وعدہ بھی کیا۔ اس تعلق سے علاقے کی چند بارسوخ شخصیات سے بھی گفتگو کی گئی۔انہوں نے بھی دامے درمے سخنے ساتھ رہنے کی ہامی بھری۔ پھر ہم نے اپنے میونسپل کاؤنسلر عبداللطیف لالہ سے مشورہ کیا انھوں نے اخراجات کا بڑا حصہ اپنے ذمے لے لیا،پھر کیا تھا،شاندار مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں شہر و اطراف کے تمام بڑے شعرا نے شرکت کی اور مشاعرہ پوری آن بان اور شان کے ساتھ صبح فجر تک چلتا رہا، بڑی واہ واہ ہوئی جس کا نشہ غالباً چھ ماہ تک ہم سب پر طاری رہا۔

آئندہ سال رمضان کا مہینہ آتے ہی ’عید ملن مشاعرہ‘ کی تیاری شروع ہو گئی، شاعروں کی فہرست مرتب ہونے لگی۔ چند احباب نے مشورہ دیا کہ فہرست میں دو ایک ترنم سے پڑھنے والے شعرا کو بھی شامل کیا جائے، عارف اعظمی نے فوراً احسان سیوانی کا نام لکھوا دیا۔ مشاعرہ ہوا،سیوانی صاحب کو نعت ِ پاک پڑھنے کے لیے بلایا گیا۔انھوں نے اپنی مترنم آواز کا وہ جادو جگایا کہ سامعین جھوم جھوم اٹھے۔پھر چند نوخیز شاعروں کے بعد دوبارہ انھیں دعوتِ سخن دی گئی۔ خاموشی سے اٹھے اور انتہائی سادگی سے مائک پر تشریف لائے اور بغیر سلام کلام کیے اِس دِل پذیر انداز میں تان چھیڑا کہ نوجوان کیا، ضعیف العمرسامعین کے بھی دِل عشق و محبت کے سرور سے سرشار بلیوں اچھلنے لگے اور مجمع پر وہ سماں بندھا کہ الاماں! احسان صاحب کو محض ایک غزل پڑھنے کا موقع عنایت کیا گیا تھا مگر سامعین کے اصرار نے اِن سے تین غزلیں سن لیں باوجود اس کے ان کی تشنہ لبی بجائے سیراب ہونے کے تشنگی کے صحرا میں ریت پھانکتی معلوم ہوتی تھی۔مکرر مکرر اور ونس مور کا شور تھا کہ ستاروں سے ٹکرا کر بھیگتی رات کے سناٹے میں اِرتعاش پیدا کررہا تھا۔ ناظمِ مشاعرہ نے سامعین سے خطاب کیا اور احسان سیوانی کی توانائی سلب ہوجانے کی دہائی دی۔ وعدہ کیا کہ آئندہ تین چار شعرائے کرام کے بعد پھر انھیں دعوتِ کلام دیا جائے گا۔تب کہیں جاکر شور تھما اور مشاعرہ آگے بڑھا۔جی ہاں ! کہنے کو مشاعرہ آگے بڑھا،بظاہر احسان سیوانی نے جہاں چھوڑا تھا وہیں تھما رہا۔کئی ایک شعرائے کرام آئے اور گئے لیکن پھر وہ گرماہٹ وہ تپش لوٹ نہ سکی۔ حتیٰ کہ شاعرات کے لٹکے جھٹکے اور عشوہ طرازیوں کا بھی جادو نہ چل سکا۔ آخرکار مشاعرے کے صدر محترم رویندر جین نے مداخلت کی اور وہ بغیر دعوتِ سخن کے اٹھ کر مائک پر آئے اور نبی اکرم ؐ  کی شان میں نعتِ پاک کا نذرانہ پیش کیا اِن کے ایک ایک شعر پر لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگے اور مجمع تہہ و بالا ہوگیا۔ خیر صبح پانچ بجے مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔اس کے بعد مسلسل دس برس تک ’عید ملن مشاعرہ ‘ ہوتا رہا اور ہر مشاعرے میں احسان سیوانی کی شرکت یقینی ہوتی تھی۔ بعد کو قانونی پیچیدگیوں نے مشاعروں کی ڈور کاٹ دی مگر تعلق کی ڈور میرے اور احسان سیوانی کے درمیان ان کی آخری سانس تک مربوط اور مضبوط رہی۔

احسان سیوانی انتہائی ملنسار، سادہ مزاج اور صاف ذہن کے آدمی تھے۔ بناوٹ اور تصنع ان کے مزاج کا حصہ قطعی نہیں رہا۔ انانیت،غرور و تکبر تو شاید انھیں چھو کے بھی نہیں گزرے تھے۔ آپ لگ بھگ چالیس سال انجمن خیرالاسلام،مدنپورہ میں پوری تن دہی اور ایمانداری کے ساتھ تدریسی فرائض انجام دیتے ہوئے ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔ آپ کا نصب العین قوم کے بچوں میں تعلیم کو عام کرنااور انھیں تعلیم یافتہ بناناتھا۔ اس لیے آپ مدن پورہ،ممبئی ہی کے ایک میونسپل نائٹ اسکول میں بھی اپنی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ بعد کو اس اسکول کے پرنسپل بھی ہوئے۔علاوہ ازیں سہ پہر کے اوقات میں ایک تنظیم کے توسط سے جاری کوچنگ کلاسیس میں بھی معمولی اجرت پر اپنی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔غرض کہ صبح چھ بجے گھر سے نکلتے اور رات 11بجے گھر لوٹتے۔ یہ سلسلہ کرلا سے میرا روڈ کی رہائش کے دوران بھی بدستور رہا۔ یاد رہے کہ کرلا سے مدن پورہ کا فاصلہ محض 12کلو میٹر  تھا جبکہ میرا روڈ کا فاصلہ 50 کلو میٹر ہے اور یہ تعلیم کا دیوانہ روز انہ سو کلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے اپنی دیوانگی کو تسکین کے پہلو میں پناہ دیتا رہا۔ اب ایسا بھی نہیں تھا کہ انھیں روپئے پیسوں کا لالچ تھا اور وہ اپنی آمدنی میں اِضافے کی خاطر اتنی مشقت اٹھایا کرتے تھے۔اس بابت عرض ہے کہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہے،اولادوں میں محض تین بیٹیاں ہیں،تینوں ہی تعلیم یافتہ ہیں اور تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب اپنے گھر بار کی بھی ہو چکی ہیں۔

احسان سیوانی نے گزشتہ برس حج بیت اللہ کا سفر بھی کرلیا تھا۔اب وہ اپنے تمام تر فرائض سے سبک دوش ہو چکے تھے،سرکاری وظیفے پر گزر بسر ہوتی تھی۔ آپ طبیعت سے کم آمیز اور کم گو رہے ہیں اس لیے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا نہ کے برابر تھا۔وہ اپنے تعلق سے برملا کہتے بھی ہیں  ؎

ہوں میں خاموش تو حیرت کیا ہے

بہت پہلے سے میں کم گو رہا ہوں

میں جہاں تک سمجھتا ہوں کم گوئی بری بات یا کوئی عیب نہیں ہے، یہ تو انسان کی طبعی صفات میں سے ایک ہے، یوں بھی لفاظ یا زیادہ بولنے والا شرفا میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، لوگ باگ ایسے شخص کو دروغ گو تصور کرتے ہیں، ہوتا بھی ہے کہ زیادہ بولنے والا بولتے بولتے کچھ ایسے نازیبا جملے بھی ادا کر بیٹھے جو سننے والے کو ناگوار گزرے۔

لاک ڈاؤن کے زمانے میں احسان سیوانی کورونا سے ایسے خائف ہوئے کہ لوگوں سے فاصلہ بنائے رکھنے کے لیے دو برس تک گھر کے قیدی بنے رہے۔ اِن کا فلیٹ عمارت کی پانچویں منزل پر واقع ہے، یہ کبھی نیچے نہیں اترے۔ ممکن ہے اسی سبب انھیں سانس کا عارضہ ہوگیا۔ رہ رہ کے سانسیں پھولنے لگیں۔ لیکن انھوں نے ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا۔ اور جب مرض حد سے بڑھ گیا تب تک دیر ہو چکی تھی۔جانچ سے معلوم ہوا آپ کے پھیپھڑے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ دو ماہ ہسپتال میں آکسیجن پر رہنے کے بعد بھی افاقہ نہیں ہوا۔آخرش ڈاکٹروں نے انھیں گھر پر ہی رہنے کی صلاح دی اور آکسیجن کا سیٹ اَپ اِن کے کمرے میں اِنسٹال کردیا۔دوچار دِن میں جب کبھی اِن کا ادبی گفتگو کا دِل چاہتا مجھے فون کرلیتے اور دس پندرہ منٹ مسلسل بولتے رہتے۔جب سانس پھولنے لگتی اور دم اکھڑنے لگتا تو خدا حافظ کہہ کے فون بند کردیتے۔

بہرحال! سیوانی صاحب کا زیادہ تر وقت گھر کی چاردیواریوں کے درمیان لکھنے پڑھنے میں گزرتا رہا۔ شاعری آپ کی سرشت میں شامل تھی۔ آپ دورانِ طالب علمی ہی شعر کہنے لگے تھے۔ مقامی اخبارات میں چھپنے کے ساتھ ساتھ خوش گلو ہونے کے سبب مشاعرے بھی پڑھنے کے مواقع ملتے رہے۔مشاعروں نے انھیں بطور شاعر ایک شناخت عطا کی،نتیجتاً لوگ باگ انھیں پہچاننے لگے۔

نیوز ٹاؤن پبلشرز کے توسط سے آپ کے دو مجموعے جنوری 2017 میں ’مٹی کی مہک‘ اور نومبر 2022 میں ’یادوں کے سائے‘ شائع ہوکر مقبول عام ہوئے۔ دونوں مجموعوں کو بالترتیب بہار اردو اکادمی اور اتر پردیش اردو اکادمی نے انعام سے نوازا۔ آپ ہمارے ادارے سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ ’ادب گاؤں ‘ کی مجلس ادارت میں بھی شامل تھے اور گاہے گاہے کفالت بھی کیا کرتے تھے۔ ابھی حال ہی میں ہم نے ’ادب گاؤں ‘ میں احسان سیوانی پر ایک مبسوط گوشہ شائع کیا ہے۔ 

احسان سیوانی نے انسانی زندگی کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہے،  انسان کے روزمرہ کو شاعری کے سانچے میں کچھ اس انداز سے ڈھالا ہے کہ انسان کا باطن تمام عیوب اور خوبیوں کے ساتھ شفاف شیشے کی مانند عیاں ہوجاتا ہے۔شعر ملاحظہ کریں ؎

محبت اور اخوت سب تو رخصت ہوگئے گھر سے 

بس اِک مضبوط رشتہ رہ گیا انسان کا زرسے

اِک مختصر دیوان ہے ستر صفحات کا

ہے آخری صفحہ یہ کتابِ حیات کا

احسان سیوانی پہلے شعر میں فرما رہے ہیں کہ محبت اور اخوت کا رشتہ جو ہمارے درمیان سرمایۂ حیات کی مانند اٹل تھا وہ اب جاتا رہا۔ہم نے اب اپنا اصل اور مضبوط رشتہ زر کو تسلیم کر لیا ہے۔یہ ایک برہنہ حقیقت ہے جو ہمارے معاشرے کو کمزور کر رہا ہے۔اسی کے چلتے معاشرے میں برائیاں پنپ رہی ہیں، بھائی بھائی کا دشمن ہوا جاتا ہے،بیٹے باپ کا قتل کیے دے رہے ہیں،بیوی شوہر سے دغا کر رہی ہے،بیٹیاں،بہنیں خود فریبی میں مبتلا ہیں۔

دوسرے شعر میں احسان سیوانی نے زندگی کا احاطہ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں انسانی زندگی کی بساط کیا ہے ؟ ستر سال ؟؟یعنی انسان کی زندگی ستر صفحات کا محض ایک مختصر دیوان ہے اور جو بھی سال گزر رہا ہے وہ آپ کی کتابِ حیات یعنی آپ کی زندگی کا آخری صفحہ ہے۔موت کا کوئی دن معین نہیں ہے۔وہ کبھی بھی،کسی بھی وقت تمھارے ہمارے درِ زیست پر دستک دے سکتی ہے۔آخر کار 12جون 2023 کی صبح دس بجے موت نے احسان سیوانی کے درِ زیست پر دستک دے ہی دی، دستک کیا دیا ساتھ ہی لے گئی،اب ان کا یہ شعر بار بار ذہن میں گردش کرتا ہے اور دماغ کے خلیوں سے ٹکراتا رہتا ہے  ؎

اپنا پتہ بتایا نہ کوئی خبرکبھی

ایسا گیا کہ پھر نہیں آیا ادھر کبھی


Mr.  Ishtiyaque Saeed

B-01, New Mira Paradise

Geeta Nagar, Phase

Mira Road-401107 (Thane), Mumbai

Cell. : 9930211461

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں