26/4/24

اردو ڈرامے کی ابتدا: مختلف نظریات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، مضمون نگار: شہباز ارشد


اردو دنیا، فروری 2024


اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق محققین کے یہاں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ اردو کا پہلا ڈراماکس کو قرار دیا جائے؟ یہ بات محققین کے درمیان ایک لمبی مدت تک موضوعِ بحث رہی ہے، اور اردو کے نامورمحققین نے اس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیںجودلائل سے مزین بھی ہیں۔تاہم دور مابعد کے محققین نے ان میں سے بعض نظریات کو اپنے دلائل سے ردبھی کیا ہے۔اس مختصر سے مقالے میں میری کوشش رہے گی کہ اپنے مطالعے کی روشنی میں ان تمام نظریات کو ترتیب وار آپ کے سامنے پیش کروں۔

پہلانظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا اور آغاز سے متعلق پہلا نظریہ یہ ہے کہ نوازکبیشر نامی شاعر نے فرخ سیر کے زمانے میں برج بھاشا میں ’شکنتلا‘کے نام سے ایک ڈراما لکھا تھاجس کا سنہ تصنیف بابائے اردو مولوی عبد الحق (1870-1961) کی تحقیق کے مطابق1716  عیسوی ہے۔یہی اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ اردو ادب کے بہت سے محققین جن میں پنڈت برج موہن، رام بابو سکسینہ، مولوی سید محمد، سید بادشاہ حسین، ڈاکٹر اعجاز حسین اور ڈاکٹر عبد العلیم نامی وغیرہ شامل ہیں، اس نظریے کے قائل ہیں۔ دراصل ان محققین کامانناہے کہ’نواز‘ نامی شاعر کی یہ تصنیف کالی داس کی کتاب ’شکنتلا ناٹک‘کا ترجمہ ہے یہ ڈراما پہلے برج بھاشا میں لکھا گیا تھا، پھرفورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد پروفیسر جان گل کرسٹ کی خواہش پر مرزا کاظم علی نے 1801 میں اس کا سلیس اردوزبان میں ترجمہ کیاتھا۔ چنانچہ اِس سلسلے میںڈاکٹر محمد اسلم قریشی لکھتے ہیں:

’’ایک زمانے میں نواز نامی ایک شاعر نے،جسے ملک الشعرا (کبیشریا کبیشور)کاخطاب ملاتھا،ایک کتاب ’سکنتلا ناٹک (بہ سین مہملہ)‘ تحریر کی اور پھرفورٹ ولیم کالج کے زمانے میں شعبہ اردو کے پروفیسر جان گل کرسٹ کے ایما سے مرزا کاظم علی جوان نے ’شکنتلا ناٹک‘ تالیف کیا۔بعض محققین نے شکنتلا ناٹک کو اردو کا پہلا ڈراما قرار دیا ہے اورنواز یانواج کو اردو کا پہلا ڈراما نگار تسلیم کیا ہے۔‘‘1

متذکرہ بالا نظریہ اپنی جگہ پر، لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ نوازکبیشر کی تصنیف ’شکنتلا ناٹک‘نہ توکالی داس کی کتاب ’شکنتلا ناٹک‘کا ترجمہ ہے اور نہ ہی اس میں ڈراما کی ہیئت موجود ہے،بلکہ نواز کی تصنیف کالی داس کی کتاب ’شکنتلا ناٹک‘کے مغایر ہے۔دوسری بات یہ کہ نواز ہندی کا شاعر تھا نہ کہ اردو کا،اس لیے نواز کو اردو کا پہلا ڈراما نگار تسلیم کرناقطعاً درست نہیں۔

سید مسعود حسن رضوی ادیب مذکورہ بالا قول کی تردید  میں لکھتے ہیں :

       ’’بعض لوگ نواز کے شکنتلا ناٹک کو اردو کا پہلا ڈراما کہتے ہیں۔ مگرنوازہندی کا شاعر تھا اور ہندی تلفظ کے مطابق’نواج‘تخلص کرتا تھا۔وہ کچھ دن اورنگ زیب کے بیٹے اعظم کے دربار سے وابستہ رہا۔ اس کی شکنتلا کا تر جمہ اردو میں فورٹ ولیم کالج کے ناظم علی جوان اور للو لال نے1801 میں کیا۔وہ ایک مسلسل قصے کی صورت میں ہے جس کوکسی طرح ڈراما نہیں کہہ سکتے۔‘‘2

مذکورہ بالا دلیل سے یہ واضح ہو گیاکہ نواز کبیشر نامی شاعر کی تصنیف ’شکنتلا ناٹک‘، کالی داس کی کتاب ’شکنتلاناٹک ‘ کا ترجمہ نہیںہے اور نہ ہی ڈرامے کی ہیئت میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نواز ہندی کے شاعر تھے۔  اس سے معلوم ہوا کہ نواز کبیشر اردو کا پہلا ڈراما نگار  نہیں ہے اور نہ ہی ’شکنتلا‘ اردو کا پہلاڈراماہے۔ علاوہ ازیںسید مسعود حسن رضوی ادیب نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج‘ میں نواز کبیشر کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی ہے اور انھوں نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ نواز کی کتاب کالی داس کی تصنیف ’شکنتلا ناٹک‘ کا ترجمہ نہیں ہے۔ 

دوسرانظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق عشرت رحمانی لکھتے ہیں:

’’چونکہ اس سے پہلے ڈراماکا اور کوئی نشان یا پتہ نہیں ملتا اس لیے قرائن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو ڈراما کا پہلا نقش ’افسانہ عشق‘ تھا جو رہس یا اوپیراکی شکل میں پیش کیا گیا ہے، اور اس طرح اردو کے سب سے پہلے ڈرامہ نگار واجدعلی شاہ تھے ‘‘3

متذکرہ بالااقتباس سے دوسرا نظریہ یہ ابھرکر سامنے آتا ہے کہ نواب واجد علی شاہ کی معروف مثنوی ’افسانۂ عشق‘ میں ڈرامے کے بنیادی عناصر پائے جاتے ہیں، اور اس کا اندازِ پیش کش بھی ڈرامائی ہے، لہٰذا نواب صاحب کی مثنوی اردو کا اولین ڈراما ہے اور واجد علی شاہ اردوکا پہلا ڈراما نگار۔ اس نظریے کے قائل اردو ڈرامے کے مشہور و معروف نقاد عشرت رحمانی اور امتیاز علی تاج ہیں، جب کہ ڈاکٹر تاتارخان، واجد علی شاہ کی مثنوی ’افسانہ عشق‘ کو سرے سے ڈراما ہی تسلیم نہیں کرتے، چہ جائے کہ اردو کااولین ڈراما۔ خان صاحب کاماننا ہے کہ نواب واجد علی شاہ کی مثنوی ’افسانہ عشق‘ جسے عشرت رحمانی نے اپنی کتاب ’اردو ڈراما کا ارتقا‘ میں اردو کا پہلا ڈراما لکھا ہے وہ ڈراما نہیں ہے، بلکہ اس کا انداز تو ’اوپیرا یا رہس ‘کا سا تھا۔

ڈاکٹر تاتار خان لکھتے ہیں:

’افسانہ عشق‘کو ڈرامے کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ اس کاانداز اوپیرا یا رہس کا ساتھا۔‘‘4

لیکن خاں صاحب کی اس بات پرکئی اعتراضات کیے جاسکتے ہیں۔ پہلا اعتراض تو یہی ہوتاہے کہ نواب واجد علی شاہ کی مثنوی ’افسانۂ عشق‘ جسے خود نواب صاحب نے اسٹیج کرایا تھا، اورجس کو عشرت رحمانی نے اردو کا پہلا ڈراما ماناہے، اگراسے صرف اس لیے اولیت کا درجہ نہیں دیاجاسکتاہے کہ اس کاانداز اوپیرا یا رہس کا ساتھا توانھیں یہ بھی مانناپڑے گا کہ افسانۂ عشق ہی کیا، اندرسبھا امانت اور اردو ڈرامے کے ابتدائی دور کے بہت سے ڈرامے کو ڈراماہی نہیں کہاجاسکتاہے۔ خود امانت لکھنوی نے اپناڈراما ’اندر سبھا‘کو ڈراما نہیں کہاہے،کیونکہ اس زمانے میں کسی نے اس صنف کوڈرامے کانام نہیں دیا تھا۔ اس لیے تاتارخاں کی یہ بات کچھ درست نہیں لگ رہی ہے۔

تیسرانظریہ

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق ایک معروف نظریہ یہ بھی ہے کہ نواب واجد علی شاہ کی تخلیق ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ اردوکا پہلا ڈرا ماہے اور واجد علی شاہ اردو کا پہلا ڈراما نگار۔  معروف محقق مسعود حسن رضوی ادیب اس نظریے کے قائل ہیں۔ انھوں نے ایک لمبی مدت کی ڈرامائی تحقیقات کے بعد اپنی دو تصنیفات’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج‘ اور ’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج‘ نذر قارئین کی ہیں۔ ثانی الذکر تصنیف میں موصوف نے اودھ کے نواب، واجد علی شاہ کی رنگین طبیعت اور اس رنگینیت کی وجہ سے وجود میں آنے والی مختلف دل فریبی اور دل لگی کی ایجاد ات کو اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے اور پھر اخیر میں اپنے دلائل سے ثابت کیاہے کہ نواب واجد علی شاہ کی تصنیف ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ ہی اردو کا پہلا ڈراما ہے،اور واجد علی شاہ اردو کا پہلا ڈراما نگار۔ ادیب صاحب’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج ‘کے دیبا چے میں لکھتے ہیں:

 ’’واجد علی شاہ کے زمانے تک اردو میں ڈرامے کا وجود نہ تھا۔ اس اہم صنف ادب کی بنیاد ڈالنے کا فخر ان کے لیے اٹھ رہا تھا۔انھوں نے ولی عہدی کے دنوں میں رادھا کنہیا کی داستان محبت پر مبنی ایک چھوٹا سا ناٹک لکھا جو ہماری خوش قسمتی سے اب تک  موجود ہے۔ فنی اعتبار سے اس کا درجہ کچھ بھی ہو،اردو کا پہلا ڈراما ہونے کی حیثیت سے وہ بڑی اہمیت رکھتاہے۔‘‘5

آگے لکھتے ہیں:

’’بہرحال جس طرح اردو کا پہلا ڈراما لکھنے اور اردو ڈرامے کا پہلا کھیل تیار کرنے کا فخر واجد علی شاہ کے لیے ہے...‘‘6

اس کتاب میں مسعود حسن رضوی ادیب نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں رام لیلا اور راس لیلا کا رواج زمانہ قدیم سے ہی موجود ہے۔نواب واجد علی شاہ نے اسی رام لیلا اور راس لیلا کے طرز پر رہس کی ایجاد کی اور اسے ڈرامائی انداز میں اسٹیج پر پیش کیا۔اردو ڈرامے سے متعلق چونکہ یہ پہلی کوشش تھی جس میں تمام تقاضوں کا التزام قریباً ناممکن تھا،اس لیے واجد علی شاہ کی اس کاوش میں بہت سی کمیاں اور خامیاں بھی پائی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے اردو کے کچھ نقادوں نے واجد علی شاہ کے ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ کو اردو کا پہلا ڈراماننے سے صاف انکار کیا ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر عطیہ نشاط ’رادھا کنہیا کا قصہ ‘پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ایک قصہ کو کرداروں کے ذریعہ پیش کرنے کی یہ کوشش ڈرامے کی ابتدائی منزل ہے اور اسی لیے ان کی اس کوشش کو اردو ڈرامے کا پہلا قدم کہا جا سکتا ہے لیکن اس ابتدائی کوشش کو ڈراما نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘‘7

میراماننا ہے کہ کسی بھی صنف کے لیے اس کے ابتدائی زمانے میں سارے فنی لوازمات کا تقا ضادرست نہیں۔ڈرامے کے علاوہ اردو ادب کی اور بھی اصناف ہیں جن کے ابتدائی ا دوارمیںوجودمیں آنے والے ان کے اولین نقوش اپنے فنی تقاضوں کوپورا نہیں کرتے، لیکن اس کے باوجودان اصناف کے نقوش ِاول کو اردومیں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ کیا ’مراۃ العروس‘ ناول کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود اسے اردو کا پہلا ناول ماناگیاہے نا؟  اس لیے ڈاکٹر نشاط کا ’رادھا کنہیا کا قصہ‘کو اردو کا پہلا ڈراماماننے سے سرے سے انکار کرنا واقعی تعجب خیز ہے۔کیونکہ جن وجوہات کی بنیادپرانھوں نے ’رادھاکنہیاکاقصہ ‘ کوڈراماماننے سے انکار کیاہے وہ ساری وجوہات توابتدائی دورکے اکثر ڈراموں میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے ڈاکٹرعطیہ  صاحبہ کااعترا ض راقم کے خیال میں زیادہ وزن نہیں رکھتا ہے۔

چوتھانظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق ایک نظریہ یہ بھی ابھرکرسامنے آیاہے کہ ڈراما ’راجہ گوپی چند اورجلندھر‘ اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ اس نظریے کے قائل ڈاکٹر عبدالعلیم نامی، ڈاکٹر عطیہ نشاط اور بعض دیگر حضرات ہیں۔ دراصل 1953 میں ڈاکٹر عبدالعلیم نامی نے بمبئی یونی ورسٹی میں اپنی ڈاکٹریٹ کا مقالہ ’اردو تھیٹر‘ کے عنوان سے جمع کیا تھا۔ بعد میں یہ مقالہ چارجلدوں میں کتابی شکل میں منظر عام پرآیااور خوب شہرت پائی۔اس تصنیف میں موصوف نے یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اردو میں ڈراما نگاری کی روایت پر تگالی مبلغین سے شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح اردو تھیٹر کے آغاز کا سہرا بھی انھوں نے پر تگالیوں کے سر باندھا ہے۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں نامی نے نواب واجد علی شاہ کا ذکر سرے سے کیا ہی نہیں،اورلطف تو یہ کہ وہ امانت کو بھی ڈراما نگار تسلیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

موصوف لکھتے ہیں:

’’اردو تھیٹر کی تاریخ شاہد ہے کہ اس کی ابتدائی ساخت و پرداخت کا تعلق ان باشندگان پرتگال سے  ہے جو1498میں بغرض تجارت ہندوستان آئے تھے۔ دراصل یہی لوگ ان کے جا نشین ’ماڈرن انڈین اسٹیج‘ کے بانی اور ہر اول دستے کے ہیرو ہیں۔ جب یورپ، امریکہ، روس، چین اورجاپان میں ’ماڈرن اسٹیج ‘کا نام  نہ تھا اس وقت پرتگالی مبلغین دکن اور شمالی ہند میں اردو ڈرامے اسٹیج کرتے تھے‘‘8

ڈاکٹر عطیہ نشاط اپنی کتاب ’اردو ڈراما :روایت اور تجربہ‘ میں نامی کے قول کی تائید کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

’’راجہ گوپی چند اور جلندھر اردو کا پہلا ڈراما ہے۔یہ ڈراما اب دستیاب نہیں ہے۔نہ اس کی کہانی وغیرہ کی تفصیل کہیں ملتی ہے۔‘‘9

بتاتے چلیں کہ محققین نے اپنے دلائل وبراہین سے اس نظریے کی خوب تردیدکی ہے،اورکچھ ایسے مضبوط اعتراضات وارد کیے ہیں جنھیں دیکھ کر یقینا ایسالگتاہے کہ یہ اردو ڈرامے کی ابتداکے سلسلے میں کوئی مضبوط نظریہ نہیں ہے۔

پانچواں نظریہ

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق سب سے اہم نظریہ یہ ہے کہ ’اندر سبھا‘سے اردو ڈرامے کی باضابطہ ابتدا ہوتی ہے۔ لہٰذا ’اندر سبھا‘ ہی اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ تاہم یہاں محققین میں یہ مسئلہ بھی موضوعِ بحث رہاہے کہ آیامداری لال کا ’اندر سبھا‘کو اولیت حاصل ہے یاپھر امانت لکھنوی کے ’اندرسبھا‘کو۔ واضح رہے کہ اردو ڈرامے کی تاریخ میں دو الگ الگ ہم عصر اندر سبھائیں پائی جاتی ہیں، ’اندرسبھا امانت‘ اور ’اندرسبھامداری لال‘۔ جس کی وجہ سے اولیت کے سلسلے میں محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض حضرات مداری لال کی’ اندر سبھا‘ کو اردو کا پہلا ڈراما مانتے ہیں تو بعض امانت لکھنوی کی ’اندر سبھا‘کو۔ اردو ادب کے اکثر محققین جنھوںنے ’اندر سبھا‘کو اردو کا پہلا ڈراما مانا ہے، اُن میں رام بابو سکسینہ، مولا نا عبدالسلام ندوی، سید بادشاہ حسین اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔ ان محققین کا ماننا ہے کہ امانت لکھنوی کی ’اندر سبھا‘ اردو کا پہلا ڈراما ہے نہ کہ مداری لال کی اندرسبھا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ اندرسبھامداری لال کی سنہ اشاعت کاعلم نہ ہونا ہے۔ کیونکہ اندرسبھامداری لال جو دستیاب ہوسکی  ہے اس میں اس کا سنہ اشاعت درج نہیں اورکسی تصنیف کازمانی تقدم وتاخرتبھی متعین ہوسکتاہے جب اس کا سنہ اشاعت معلوم ہو۔اس لیے مذکورہ بالامحققین اورکچھ دیگرمحققین بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ اندر سبھاامانت کو اندرسبھا مداری لال پر زمانی تقدم حاصل ہے اور اندرسبھا امانت اردو کا پہلا ڈراماہے۔

سید مسعود حسن رضوی ادیب، جن کی اردوڈرامے کی ابتداسے متعلق اپنی ایک الگ  رائے اورتحقیق ہے ا ور جس پر انھوں نے دو ضخیم کتابیں ’لکھنؤ کا عوامی اسٹیج‘ اور ’لکھنؤ کا شاہی اسٹیج‘ بھی تصنیف کی ہیں، وہ بھی کئی جہات (کلی طور پر نہیں)  سے امانت لکھنوی کی ’اندر سبھا‘کو اردو کا پہلا ڈراما تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ادیب صاحب، ’لکھنؤ کا  عوامی اسٹیج‘کے ’دیباچہ‘میں لکھتے ہیں :

’’اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے، لیکن اس سے اس کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا، وہ پہلا ڈراما ہے جسے عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہنچادیا۔وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظر عام پرآیا اور سیکڑوںمرتبہ شائع ہوا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو ناگری،گجراتی اور مرہٹی خطوں میں بھی چھاپا گیا۔‘‘10

مسعودحسن رضوی ادیب کے اس قول سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ وہ بھی اندر سبھا امانت کو اردو کاپہلا  ڈراما مانتے ہیں۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ اندرسبھا امانت کو اردو ڈرامے میں اولیت حاصل توہے لیکن صرف اورصرف عوامی اسٹیج کی حیثیت سے۔جب کہ ان کے نزدیک اردو کا پہلا ڈراما ’رادھاکنہیاکاقصہ‘ ہی ہے۔

چھٹانظریہ

’اردوئے معلی‘ کے قدیم اردو نمبر، شمارہ 9میں، اردو کے مشہور ادیب خواجہ احمد فاروقی کا ایک مضمون بعنوان ’اردو کا قدیم ترین ڈراما‘ چھپا تھا۔ اس میں فاروقی صاحب نے ایک قدیم مخطوطہ،جس میں ڈرامے کا ڈیڑھ سین موجود ہے، پیش کرکے اس کو اردو کا پہلا ڈراما بتایاہے۔

فاروقی صاحب لکھتے ہیں:

’’جہاں تک میرا علم ہے،اردو کا کوئی ڈراما ان تاریخوں سے پہلے کا نہیں ملتا۔ اگر یہ اولین ڈراما نہیں تو اردو کے قدیم ترین ڈراموں میں ضرورشامل ہے۔‘‘11

اخلاق اثر،فاروقی کے اس نظریے کی  حمایت میں تحریرکرتے ہیں:

’’اس لیے اردو کا پہلا اور قدیم ترین ڈراماموجودہ تحقیق کی روشنی میں خواجہ احمد فاروقی کا تلاش کردہ ہے۔‘‘ 12

فاروقی صاحب کی اس نئی تحقیق سے اردو ڈرامے میں ایک نیا باب کھلا تھا،خود فاروقی صاحب اس سلسلے میں مزید تفصیلات اور تحقیقات میں لگے  ہوئے تھے، اور وہ اس  سلسلے میں انگلستان بھی جانے والے تھے،لیکن اسے اردوڈرامے کی بد قسمتی ہی کہیے کہ اس سے پہلے کہ فاروقی صاحب انگلستان جاتے، موت کا فرشتہ انھیں کہیں اور لے کر چلا گیا اور اس طرح اس نئی تحقیق کا سفر اپنی منزل تک پہنچنے سے قبل ہی ختم ہو گیا۔

ساتواں نظریہ 

اردو ڈرامے کی ابتدا سے متعلق ڈاکٹر مسیح الزماں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ’خورشید‘ اردو کا پہلا ڈراما ہے۔ ڈاکٹر مسیح الزماں نے ہی ڈراما ’خورشید‘ کو پہلی بار بڑے اہتمام کے ساتھ مرتب کرکے شائع کرایا ہے۔اپنے مرتبہ ڈراما ’خورشید‘کے مقدمے میں انہوں نے لکھا ہے :

’’رستم و سہراب1871 میں اسٹیج ہوا۔ اگر خورشید کے اسٹیج کیے جانے کے کچھ دنوں پہلے اسی کمپنی اور اسی ڈاکٹر کے اہتمام میں اردو کا ڈرامہ اسٹیج کیا جاچکا ہوتا تو مرزبان خورشیدکے دیباچے میں ہرگز نہ لکھتے کہ ’’زبان ہندوستان میں آج تک کوئی کھیل یا ناٹک لکھا گیادیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘اس لیے تھیٹر کے اس دورمیں خورشید کی اولیت تسلیم کرنی چاہیے۔‘‘  13

مذکورہ بالا نظریات کے علاوہ بعض محققین نے اردوڈراما کی ابتداسے متعلق اور بھی کچھ نظریات پیش کیے ہیں۔تاہم ان نظریات میں مضبوطی کافقدان ہے لہٰذاہم ان سے قطع نظرکرتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بالا جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں وہ سارے کے سارے دلائل و براہین کی روشنی میں اپنی اپنی جگہ صحیح،مدلل اورمکمل ہیں۔ اور اس وجہ سے ان میں سے کسی بھی نظریے کو نظر انداز کرنا مشکل ہے، لیکن اب تک جتنے حقائق سامنے آئے ہیں ان کی بنیاد پر یہی کہا جا سکتا کہ ’اندر سبھا‘ ہی اردو کا پہلاباضابطہ ڈرامے ہے جو ڈراما کے تقاضوں پربہت حدتک کھرا اترتا ہے اور نواب واجدعلی شاہ کی مثنوی ’رادھا کنہیا کا قصہ‘ کو اگرچہ ’اندرسبھا‘ امانت پرزمانی تقدم حاصل ہے لیکن وہ شاہی اسٹیج پرپیش کیا گیا تھا جہاں عوام الناس کی پہنچ ناممکن تھی اس لیے اسے اردوکاپہلاڈرامہ کہا جاسکتاہے۔

حواشی

1 اردو ڈرامے کا تاریخی وتنقیدی پس منظر،ڈاکٹر محمد اسلم قریشی، ص274

2 دیباچہ، لکھنؤ کا عوامی اسٹیج،سید مسعود حسن رضوی ادیب، کتاب نگر دین دیال روڈ لکھنؤ، 1957، ص 6,7

3 اردو ڈراما کا ارتقا: عشرت رحمانی،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 2020، ص146، 

4 اردو ڈراما اور ابراہیم یوسف: ڈاکٹر محمد تاتار خان، شالیمار پرنٹرزاینڈپبلی کیشنز،حیدرآباد،1998، ص248

5 دیباچہ،لکھنؤکا شاہی اسٹیج،مسعودحسن رضوی ادیب، کتاب نگر دین دیال روڈ لکھنؤ1957، ص12

ایضاً،ص171

7 اردو ڈراما :روایت اور تجربہ،ڈاکٹر عطیہ نشاط،نصرت پبلشرز،لکھنؤ،1973، ص57

8 اردو تھیٹر۔جلد اول،ڈاکٹر عبد العلیم نامی، انجمن ترقی اردو پاکستان، انجمن پریس کراچی،1962، ص118

9 اردو ڈراما :روایت اور تجربہ، ڈاکٹر عطیہ نشاط، نصرت پبلشرز، لکھنو ٔ،1973،  ص 307 

10 دیباچہ، لکھنؤ کا عوامی اسٹیج: سید مسعود حسن رضوی ادیب، کتاب نگر دین دیال روڈ لکھنؤ، 1957، ص7,6

11 اردو کا قدیم ترین ڈراما: خواجہ احمد فاروقی، اردوئے معلی۔ قدیم اردو نمبر،ص256

12 اردو کا پہلا ڈراما،اخلاق اثر،پاشا پریس بھوپال، 1978، ص7،

13 خورشید،مرتبہ ڈاکٹرمسیح الزماں،ص 13,12


Dr. Shahbaz Arshad

Khaja Bandanawaz University

Gulbarga- 585104 (Karnataka)

Mob.: 6281262057

Email.: arshad@kbn.university


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں